از: مولانا محمدتبریز عالم حلیمی قاسمی

مدرس دارالعلوم حیدرآباد

(۳) مُردوں کی تدفین بہتر ہے یا جلانا بہتر ہے؟

            آریوں کا ایک اعتراض یہ تھا کہ مسلمان مُردوں کو زمین میں دفن کرکے اس کو ناپاک کرتے ہیں، اِس لیے مُردوں کو جلانا بہتر ہے جیسا کہ ہندو مذہب میں ہے؟

            حضرت حجة الاسلام نے اِس کے دو جواب دیے:

            ۱- ہندو مذہب میں مُردوں کو جلایا جاتا ہے،اِس کی و جہ سے تو ہوا خراب ہوجاتی ہے اور اس ہوا سے بیماریاں پھیلتی ہیں؛اِس لیے مُردوں کو دفن کرنا بہتر ہے۔

            ۲- اگر بوجہ ِناپاکی مُردوں کا زمین میں دفن کرنا ممنوع اور بوجہ ِبدبو زمین کا بچانا ضروری ہوگا تو پاخانہ، پیشاب سے زمینِ خداوندی کا آلودہ کردینا کیوں کر جائز ہوجائے گا؟ اِس لیے لازم یوں ہے کہ پنڈت جی اور ان کے مرید پاخانہ پیشاب کو زمین پر نہ گرنے دیا کریں، پاخانہ کو پَلے میں باندھ لیا کریں اور پیشاب کو برتنوں میں رکھ لیا کریں۔

            آگے لکھتے ہیں:

            کوئی پنڈت جی سے پوچھے دفن کرنے سے تو زمین سڑتی ہے اور ناپاک ہوتی ہے، پاخانہ پیشاب سے کون سا عطرِ گلاب ومشک زمین پر برستا ہے، یہاں تو نکلتے ہی دماغ پھٹنے لگتا ہے، زمین ناپاک ہوجاتی ہے،ہوا سڑجاتی، گھر گھر اور کوچہ کوچہ یہ بلائے عام جاں گزا ہوتی ہے، مردوں میں یہ بات کہاں؟

            آگے مثال سے وضاحت کی ہے کہ آدمی مٹی سے پیدا ہوا ہے تو مرنے کے بعد مٹی میں دفن ہونا مقتضائے فطرت ہے، علاوہ بریں والد ِخیر اندیش اگر سفر کو جاتا ہے تو فرزند دلبند کو اس کی مادرِ مہربان کے حوالہ کرتا ہے، اس کی والدہ کی سوکن کو نہیں دیتا، اگر یہ ہے تو پھر مناسب یوں ہے کہ تنِ خاکی، حوالہٴ خاک کیا جائے، آتش کو نہ دیا جائے۔(۱۵)

(۴) نیند ناقض وضو کیوں ہے؟

            ایک عیسائی پادری نے اعتراض کیا تھا کہ نیند سے وضو کیوں ٹوٹ جاتا ہے؟

            اِس کا جواب عموماً یہ دیا جاتا ہے کہ نیند کے وقت اعصاب ڈھیلے پڑجاتے ہیں، جس کی وجہ سے گمانِ غالب یہ ہے کہ ریح نکل جائے، حضرت حجة الاسلام نے یہ مذکورہ جواب لکھ کر، مزید یہ لکھا:

”اصل میں یادِ خداوندی موجبِ روشنی وصفائی قلب ہے اور غفلت موجبِ کدورت اصلی، اور ظاہر ہے کہ نیند کے وقت سے ز یادہ غفلت متصور نہیں؛ مگر جب کدورت ہوئی تو اثر ِ طہارت جو صفائی باطن تھا، کہاں رہا؟ اِس لیے یوں ہی کہنا پڑے گا کہ طہارت بھی چلتی ہوئی“۔

            اس کے بعد انبیاء اور عام آدمی کی نیند کا فرق آسان فہم انداز میں سورج گِرہن اور چاند گِرہن کی مثالوں سے واضح کیا، جیسے سورج گِرہن اور چاند گِرہن: دونوں کو گِرہن کہا جاتا ہے؛ مگر حقیقت کا فرق ہے، چاند کو گرہن ہو تو روشنی ختم ہوتی ہے اور سورج کو گِرہن ہو تو روشنی ہم سے چھُپ جاتی ہے، اِسی طرح ہماری نیند میں ہوش وحواس ختم ہوجاتے ہیں؛ جب کہ حضرات انبیاءِ کرام کی نیند میں ہوش وحواس چھُپ جاتے ہیں۔(۱۶)

(۵) ایک عورت کے لیے متعدد مرد کیوں نہیں؟

            اہلِ اسلام کے نزدیک عورتوں کا تعدُّد ایک مرد کے لیے روا ہے اور مَردوں کا تعدد ایک عورت کے لیے روا نہیں ہے، اِسی طرح جنت میں مردوں کو ایک سے زائد حوریں ملیں گی اور عورتوں کو ایک خاوند کے علاوہ دوسرا خاوند نہیں ملے گا، آریوں نے اِس فرق پر اعتراض کیا تھا، حضرت نے جواب لکھا:

            ۱- عورت اولاد کے حق میں ایسی ہے جیسے زمین پیداوار کے حق میں یعنی دنیا میں عورت کی حیثیت کھیتی کی ہے اور مرد کی حیثیت کھیت کے مالک کی ہے، ایک مالک مختلف زمینوں میں تخم ریزی کرکے فصل اگاتا ہے، اِسی طرح مرد کئی بیویوں سے استفادہ کرسکتا ہے،اِس میں عقلاً کوئی دشواری نہیں، اگر ایک عورت چند مردوں میں مشترک ہو تو ہر کسی کو ایک و قت قضائے حاجت کی ضرورت پیش آئے تو اندیشہٴ فساد وعناد ہے، اِسی طرح ایک بیوی سے متعدد شوہروں کی مشترکہ اولاد ہو تو اولاد کی تقسیم بذاتِ خود باعث ِفساد ہوگی، اِس سے سارا نظامِ عالم درہم برہم ہوجائے گا۔

            ۲- جنت انعام کی جگہ ہے اور انعام میں راحت کے سامان اور اعزاز واکرام کے اسباب دیے جاتے ہیں، رنج وکلفت کے اسباب نہیں دیے جاتے، مرد کے لیے تو تعددِ ازواج، اعزاز واکرام اور راحت وآرام کا باعث ہوگا اور عورت کو اگر متعدد خاوند دیے جائیں تو یہ نہ اعزاز واکرام ہے نہ باعث ِ راحت، اِس کے بعد حضرت نے مرد کو حاکم اور عورت کو محکوم ثابت کرکے عام فہم مثال سے مزید و ضاحت کی ہے:

”اِس صورت میں اگر کسی عورت کے متعدد خاوند ہوں تو اول تو یہ ایسی صورت ہوگی جیسے فرض کرو تنِ واحد ایک شخص تو رعیت ہو اور بادشاہ اور حاکم کثیر، سب جانتے ہیں کہ یوں نہیں ہوا کرتا، ایک ملکہ وکٹوریہ کے کروڑوں آدمی رعیت ہیں، پر ایک ایک رعیت کے آدمی کے لیے کروڑوں ملکہ نہیں، غرض برابر کے درجہ کے متعدد حاکم نہیں ہوسکتے، دوسرے خاوند متعدد ہوں گے تو یوں کہو حاکم متعدد ہوئے اور حاکم متعدد ہوئے تو جتنے حاکم زیادہ ہوں گے اتنی ہی محکوم میں ذلت زیادہ ہوگی، سو یہ تحقیر اور تذلیل اورتوہین عورت کے حق میں اگر جائز ہوتی تو دنیا میں تو شاید کسی مذہب میں اس کی اجازت ہوتی؟ مگر بہشت میں جو جائے عزت وآرام ہے، بہ صورت ِتحقیر ہر گز ممکن الوقوع نہیں“۔(۱۷)

(۶) دنیا میں شراب حرام اور جنت میں حلال؛ ایسا کیوں؟

            ۱- شراب میں دو باتیں ہوتی ہیں: ایک نشہ، دوسر ا سُرور،نشہ بے ہوشی کا نام ہے، کم نشہ ہو تو کم بے ہوشی ہوتی ہے اور زیادہ ہوتا ہے تو زیادہ اورسرور کو ہوش لازم ہے اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ نشہ کسی اور چیز کی خاصیت ہے اورسُرورکسی اور چیز کی تاثیر، اگر شراب سے نشہ کی خاصیت نکال دی جائے اور اس کو سرکہ بنادیا جائے تو اس کا کھانا پینا جائز ہے؛ کیوں کہ یہی نشہ شراب کی حرمت کا باعث ہے، جنت کی شراب میں یہ وجہ ِ حرمت موجود نہیں ہوگی؛ بلکہ چھان پچھوڑ کر قدرت کی چھلنی سے اس کو جدا کردیا جائے گا، اب شراب میں فقط لذت اور سرور ہی رہ جائے گا اور یقینا ہر عاقل کے نزدیک ایسی شراب حلال ہوگی۔

            ۲- دنیا میں نشہ کی چیزوں کی ممانعت اس اندیشہ سے تھی کہ نشہ کے وقت احکامِ خداوندی ادا نہیں ہوسکتے، سو یہ ا ندیشہ زندگانی دنیا تک ہی ہے، بعد ِ مرگ، تمام احکام ساقط ہوجاتے ہیں، بہشت میں ہرکوئی فرائض وواجبات وغیرہ سے فارغ البال ہوگا، وہاں اگر شراب جائز ہوجائے تو کیا حرج ہے۔(۱۸)

(۷) اللہ نے انسان کو کیوں پیدا کیا ہے؟

            آج بھی بہت سے لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ اللہ نے انسان کو کیوں پیدا کیا ہے؟ حضرت حجة الاسلام نے مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ ہر بنی آدم کا مطلب ِاصلی اپنے خالق کی اطاعت ہے، حضرت نے اِس پر نفیس گفتگو کی ہے جو اصل کتاب میں دیکھنے لائق ہے، بہ طور نمونہ کے ایک اقتباس پڑھیے:

”زمین سے لے کر آسمان تک جس چیز پر سوائے انسان کے نظر پڑتی ہے وہ انسان کے کارآمد نظر آتی ہے، پر انسان اُن میں سے کسی کے کام کا نظر نہیں آتا، دیکھیے زمین، پانی، ہوا، آگ، چاند، سورج، ستارے اگر نہ ہوں تو ہم کو جینا محال یا دشوار ہوجائے اور ہم نہ ہوں تو اشیاء مذکورہ میں سے کسی کا کچھ نقصان نہیں۔ علی ھذا القیاس درخت، جانور وغیرہ مخلوقات اگر نہ ہوتے تو ہمارا کچھ نہ کچھ حرج ضرور تھا؛ کیوں کہ اور بھی کچھ نہیں تو یہ اشیاء کبھی نہ کبھی کسی مرض ہی کی دوا ہوجاتی ہیں؛ پر ہم کو دیکھیے کہ ہم ان کے حق میں کسی مرض کی دوا بھی نہیں ہیں؛ مگر جب ہم مخلوقات میں سے کسی کے کام کے نہیں تو بالضرور ہم اپنے خالق کے کام کے ہوں گے؛ ورنہ ہماری پیدائش محض فضول اور بیہودہ ہوجائے، جس سے خالق کی طرف تو بیہودہ کاری کا ا لزام عائد ہو اور ہماری طرف نکمے ہونے کا عیب راجع ہو ا ور ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں ایسی ہیں کہ کوئی عاقل ان کو تسلیم نہیں کرسکتا“(۱۹)

(۸) حضرت عیسی علیہ السلام  کی اُلوہیَّت کی عقلی مثال او رجواب

            میلہ خدا شناسی کے آخری اجلاس ۲۰/ مارچ ۱۸۷۷ء کی سہ پہر کو تقریر کرتے ہوئے ایک یورپین پادری نے کہا کہ حضرت عیسی  مجمع الجہتیَن ہیں یعنی انسان کامل بھی ہیں او رمعبود کامل بھی، حضرت عیسی  کی الوہیت ایسی ہے جیسے لوہے کو آگ میں ڈالیے تو وہ لوہا بھی آگ بن جاتا ہے، حضرت نانوتوی نے اپنی تقریر میں کہا:

”آپ کے پادری صاحب خود تثلیث کے عقیدے سے انکار کرگئے، یہ مثل سچ ہے کہ بے وقوف وکیل سچا مقدمہ بھی ہار جاتا ہے، یہاں تو باطل عقیدہ کو صحیح عقیدہ کہہ کر پیش کیا جارہا ہے؛ لیکن اس کو بھی ثابت کرنے کے بجائے خود ہی اپنے عقیدہ کی تردید کرگئے، پادری صاحب کی مثال سے ثابت ہوتا ہے کہ خداایک ہے، متعددنہیں، حضرت عیسی  بندہ ہیں، خدا نہیں، آپ نے اپنے دعویٰ کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ لوہا دیکھنے میں ظاہر پرستوں کو ہم رنگ ِ آتش نظر آتا ہے، پر حقیقت میں لوہا اس وقت بھی لوہا ہی رہتا ہے، آگ نہیں ہوجاتا ہے، فقط پر تو آتش سے اس کا رنگ بدل جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آگ سے علیحدہ کرلیجیے تو پھر وہ لوہا اپنی اصل حالت پر آجاتا ہے، اگر واقعی لوہا آگ ہوجاتا تو دونوں حالتوں میں وہ یکساں رہتا“۔

            یہ اتنی موٹی بات تھی کہ اَن پڑھ اور ناخواندہ عوام؛ بلکہ گنوار بھی سمجھ گئے اور مجمع پر خوشی کی ایک تیز لہر دوڑ گئی، پادریوں کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا، اِس لیے اُن پر خفت وذلت کی جھنجھلاہٹ سوار ہوگئی۔(۲۰)

حضرت حجة الاسلام کے جوابات عصرِ حاضرکے تناظر میں

            منکرینِ اسلام کے عقلی اعتراضات کے حملے سے، عقائد واحکامِ اِسلام کی حفاظت ومدافعت کے حوالے سے حضرت حجة الاسلام کی جملہ تصنیفات میں یہی وہ ناقابلِ رد عقلی ومشاہداتی دلائل ہیں، جن کی ہلکی سی جھلک دکھائی گئی،اور مقالہ میں یہی ممکن ومناسب بھی ہے،ان جوابات کو پڑھنے کے بعد حقیقت یہ ہے کہ کوئی سلیم الطبع اور منصف مزاج اور راہِ حق کا متلاشی انسان اسلام کی صداقت، حقانیت اور اس کے دینِ فطرت ہونے کو تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا؛ کیوں کہ جوابات وتحقیقات میں طریقہٴ استدلال اور اسلوب ِ بیان خیالی طرز پر نہیں ہے؛ بلکہ محسوساتی ومشاہداتی اصول کو سامنے رکھ کر عقل اور شریعت کا انطباق دکھایا گیا ہے اور ان جوابات نے دو دو چار کی طرح بالکل واضح کردیا کہ پورے دینِ فطرت میں ”عقلِ کلی“ بہ طور روح کے دوڑی ہوئی ہے، بقول حضرت حکیم الاسلام قاری طیب صاحب نور اللہ مرقدہ کے:

”ذات وصفات ِ خداوندی، مبدأ ومعاد، توحید ورسالت، عقائد وشرائع، برزخ اور قیامت، سزاوجزا، حشرونشر، وزنِ اعمال، میزانِ عمل، جنت ونار، ملائکہ وجنات، عرش وکرسی، لوح وقلم وغیرہ، ان عقائد اور اُن سے متعلقہ اعمال کا صفات ِ خداوندی سے ربط وعلاقہ، کلیات ِ دین کے ساتھ فرعیات کا ارتباط پھر شرائع وعقائد کی عقلی اور طبعی مصالح، اِس طبیعاتی طرز ِ استدلال سے کچھ اِس طرح واشگاف فرمائے کہ یہ سب امور ِ فطرت اور طبیعت کا مقتضامحسوس ہونے لگے“۔(۲۱)

            ضرورت اِس بات کی ہے کہ حضرت حجة ا لاسلام کی تصنیفات کا مطالعہ کیا جائے، اِن تصنیفات میں موجودہ افکارِ اَغیاراور احوالِ زمانہ سے متعلق کافی مواد نہ صرف یہ کہ موجود ہے؛ بلکہ ان جوابات واستدلالات میں نئے اصول وکلیات کی وضع وتدوین کی شان اور تشکیل نو بھی ہے، مدارس میں -ہوسکے تو- حضرت حجة الاسلام کی تصانیف کو خارجی یا داخلی نصاب کا حصہ بنایاجائے، ان جوابات واستدلالات پر بحث کی جائے، تفصیلی مقالات لکھوائے جائیں اور خصوصاً مسائلِ کلامیہ میں حضرت کی تصنیفات سے استفادہ کا منہج اور طریقہٴ کار کے خدوخال متعین کیے جائیں، یقینا اِس کے دور رس اور مثبت فوائد وثمرات ظاہر ہوں گے، نئی نسل کو حضرت حجة الاسلام کی دفاعی خدمات سے باخبرکرنا ہماری ذمہ داریوں کا حصہ ہونا چاہیے، حکمت ِ قاسمیہ کے شارح حضرت حکیم الاسلام کے فکر انگیز اقتباس کو بہ طور تکملہ نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جسے ”مسک الختام“ کہنا بجا ہے۔

”اِس حقیر ناکارہ کو خود بھی بارہا اِس کاتجربہ ہوا کہ اِس قسم کی جس مجلس میں بھی قابل گریجویٹوں سے خطاب ہوا اور مناسب ِموقع حضرت و الا کے علوم کی ترجمانی کی نوبت آئی تو بارہا یہی اعتراف واقرار کا منظر دیکھنے میں آیا، اِس سے ہم اِس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ آج کے دور کے انکار واِلحاد اور دہریت وزندقہ کا قرارِ واقعی استیصال یا دفاع، اگر ممکن ہے تو حکمت ِ قاسمیہ کی علمی روشنی سے ممکن ہے، جو آج کے فلسفہ وسائنس کے مسلمات اور نئے نئے انکشافات ہی کے اصول سامنے لاکر اسلام کی صداقت کا لوہا منوا سکتی ہے اور جس میں حقیقی طور پر اِتمامِ حجت کی شان موجود ہے“۔(۲۲)

#         #         #

حوالہ جات

(۱۵)         انتصار ا لاسلام،مولانا محمد قاسم نانوتوی، ص:۱۰۱، تسہیل: مولانا اشتیاق احمد، مکتبہ دارالعلوم دیوبند ۱۹۸۸ء

(۱۶)          حضرت نانوتوی اور خدماتِ ختمِ نبوت ص:۹۲، ناشر: جامعة الطیبات للبنات الصالحات، گوجرا نوالہ

(۱۷)         انتصار الاسلام ص:۷۳، مکتبہ دارالعلوم دیوبند

(۱۸)         انتصار الاسلام ص:۹۳،۹۴

(۱۹)           حجة الاسلام،مولانا محمد قاسم نانوتوی، ص:۳۳، مجلس معارف القرآن دارالعلوم دیوبند(۱۹۶۷ء)

(۲۰)         ماخوذ از: مولانا محمد قاسم نانوتوی- حیات اور کارنامے ص:۱۹۶، شیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند

(۲۱)          حکمت قاسمیہ ص:۱۹

(۲۲)         حکمت قاسمیہ ص:۲۹

——————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4،  جلد:102‏،  رجب-شعبان ۱۴۳۹ھ مطابق اپریل ۲۰۱۸ء

#             #             #

Related Posts