بہ قلم: حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی
استاذحدیث دارالعلوم دیوبند
ایک اہم نکتہ
یہ امر قرآن وحدیث سے ثابت مسلمات میں سے ہے کہ سرورکائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کی دو مستقل حیثیتیں ہیں، ایک آپ کی حقیقت بشریت ہے، اور دوسری آپ کی حقیقت نبوت ورسالت۔ چنانچہ قرآن حکیم میں خود آپ کی زبان وحی ترجمان سے یہ ابدی وسرمدی اعلان کرایا گیا، ”قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشْرٌ مِثْلُکُمْ، یُوحَیٰ اِلَیَّ“ (الکہف) اے محمد کہہ دیجیے (اے بنی نوع بشر) میں تمہارے ہی جیسا ایک بشر ہوں، (البتہ دیگر بشر سے اللہ رب العزت نے مجھے یہ امتیاز و اعزاز بخشا ہے کہ) میری طرف وحی ربانی کا نزول ہوتا ہے۔
(الف) آپ اپنی بشری حقیقت میں سارے انسانوں کے ہم جنس اور ان کے مساوی اور برابر ہیں: ”اِنّما اَنَا بَشرٌ مِثْلُکم“ کلام الٰہی یہی بتارہا ہے، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، ”انما انا بشر انسی کما تنسون“ میں ایک بشرہی ہوں بھولتا ہوں جس طرح تم لوگ بھولتے ہو (رواہ احمد، و ابوداؤد، والنسائی) لہٰذا اس بشری حقیقت سے آپ کا ظن و گمان دوسرے انسانوں کی طرح صواب یاخطا سے متصف ہوسکتا ہے۔ ”الظن یخطی ویصیب“ اسی طرح بحکم بشریت بعض امور دنیا میں آپ کی بیان کردہ خبر خلاف واقع ہوسکتی ہے، کیونکہ خبر بذاتہ صدق وکذب کی متحمل ہے، یوں ہی آپ کا حکم غیرجازم، یا آپ کا مشورہ، یا آپ کی رائے وتجویز جو وحی الٰہی سے موٴید نہ ہو یہ سب امور بربنائے بشریت ہی واقع ہوتے ہیں کتب حدیث صحاح، سنن، مسانید وغیرہ میں ان سب کی مثالیں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ سے صادر یہ سب صورتیں واجب الاتباع نہیں ہیں، کیونکہ یہ سارے الفاظ اپنی اصل وضع کے لحاظ سے خود بتارہے ہیں کہ جن امور کے بارے میں آپ یہ الفاظ استعمال فرمارہے ہیں حقیقتاً نبوت و رسالت سے ان کا تعلق نہیں ہے، وحی الٰہی کی ترجمانی وتنفیذ میں ظن وشک یا مشورہ وتجویز کی گنجائش ہی کہاں ہے، وحی الٰہی سے ثابت حکم تو اپنی قطعیت میں جملہ قطعیات سے بلند تر اور محکم ترین ہوتا ہے، اور آپ امت سے بے چون و چرا اس کی تعمیل کراتے تھے۔
(ب) شخصیت محمدی علی صاحبہا الصلاة والسلام کی دوسری حقیقت نبوت ورسالت کی ہے۔ اس حیثیت سے جو خبر آپ دیں گے وہ یقینی طور پر سچی، واقع کے مطابق ہوگی اس میں تخلف ممکن ہی نہیں ہے، کیونکہ یہ تو خود خدائے علیم وخبیر کی فرمودہ ہوتی ہے، اسی طرح بحق رسالت جو حکم آپ جاری فرمائیں گے بغیر کسی شرط وقید کے اس کی بجا آوری لازم ہوگی، لہٰذا امور دین میں بھی آپ کے حکم کا امتثال واجب ہوگا اور اموردنیا میں بھی اس سے انحراف اور روگردانی قطعی طور پر جائز ودرست نہیں ہوگی۔
امام بدرالدین محمود عینی متوفی ۸۵۵ھ رقمطراز ہیں:
”والتحقیق فیہ ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لہ حالتان: حالة مطلق البشریة! فہو وسائر الناس فیہ سواء، والدلیل علیہ قولہ ”انا بشر مثلکم“ لانہ من جنسہم ولیس من جنس غیرہم، فبالنظر الی ہذہ حالة ربما یظن امرًا و قد کان الواقع خلافہ، لان الظن یخطی ویصیب کما فی سائر الخلق․
والحالة الاخریٰ التی ہی زائدة علی تلک الحالة وہی! کونہ نبیًا ورسولاً من اللہ معصومًا فی قولہ وفعلہ؛ بحیث انہ اذا قال قولًا او فعل فعلاً فہو الحق عند اللہ تعالیٰ، ولا یقع خلافہ اصلاً، لانہ من اللّٰہ تعالیٰ وعلیہ قولہ تعالیٰ: ”وَمَا یَنْطِقُ عَن الہویٰo اِنْ ہُوَ اِلّا وَحْیٌ یُوحَیٰ“ غیر ان الوحی قسمان: احدہما متلو ہو القرآن، والآخر غیر متلو وہو اقوالہ وافعالہ التی فی ابواب التشریع“ (نخب الافکار فی تنقیح مبانی الاخبار فی شرح معانی الآثار ج۱۴ ص۳۸۸)
اس بارے میں تحقیق یہ ہے کہ نبی علیہ الصلاة والسلام کی دو حالتیں ہیں: ایک حالت مطلق بشریت کی ہے، آپ اور سارے انسان اس میں یکساں ہیں، اس کی دلیل یہ فرمان ہے: ”انا بشر مثلکم“ ”میں تمہاری طرح کا بشر ہوں“ کیونکہ آپ جنس بشر سے ہیں، غیربشر کی جنس سے نہیں ہیں لہٰذا اس حالتِ بشری کے تحت آپ کبھی ایک چیز کا گمان کرتے ہیں جبکہ واقعہ اس کے برخلاف ہوتا ہے، اس لیے کہ ظن خطاء بھی کرتا ہے اور درستگی کو بھی پہنچتا ہے جیسے تمام انسانوں کے ظن میں ہوتا ہے۔
اور دوسری حالت جو اس پہلی حالت سے زائد ہے، اور یہ آپ کا اللہ تعالیٰ کی جانب سے نبی، رسول اور اپنے قول وفعل میں معصوم ہونا ہے بایں حیثیت کہ آپ نے جب کوئی بات فرمائی یا کوئی کام کیا تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حق وصواب ہی ہے، اور یہ خلاف واقع قطعی نہیں ہوگا کیونکہ یہ (قول وفعل) اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے، اسی بناء پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے ”وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوَیٰo اِن ہُوَ اِلّا وَحْیٌ یُوحَیٰ“ اور اللہ کا رسول اپنی خواہش سے نہیں بولتا، یہ تو بس وحی ہی ہے جو ان کوکی گئی ہے۔
البتہ وحی کی دو قسمیں ہیں: ایک متلو اور یہ قرآن ہے، اور دوسری باب تشریع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال ہیں۔
اسی مفہوم کو امام ابوالعباس قرطبی متوفی ۶۵۶ھ نے ”المفہم ج۶ ص۱۶۹ میں اورامام ابن تیمیہ نے مجموع فتاوی ج۱۸ ص۱۱-۱۲ میں، نیز دیگر شراح نے بھی بیان کیا ہے بغرض اختصار ان کی عبارتیں درج نہیں کی گئی ہیں۔
واقعہ تأبیر نخل سے متعلق احادیث کی تحقیق
ارباب علم ونظر کے نزدیک یہ مسلم ہے کہ تابیر نخل (درخت خرما میں قلم لگانا) کا زیربحث واقعہ ایک بار ہی پیش آیا ہے اور اسی قصہٴ واحد کو چار صحابہ روایت کررہے ہیں: (۱) حضرت طلحہ بن عبیداللہ (یکے از عشرہ مبشرہ) (۲) حضرت رافع بن خدیج (۳) حضرت ام الموٴمنین عائشہ صدیقہ (۴) حضرت خادم رسول انس بن مالک رضی اللہ عنہم اجمعین۔
چونکہ انسانی قدرت اور بس سے یہ باہر ہے کہ کسی ایک واقعہ کو متعدد افراد ذکر کریں اور اس کے بیان میں سب کے الفاظ یکساں ہوں؛ بلکہ معنی ومراد میں وحدت کے باوجود تعبیر میں اختلاف ناگزیر ہے، کچھ اسی طرح کی صورت حال قصہٴ تابیر نخل کے تذکرہ میں بھی پیش آئی ہے کہ اوپر مذکور حضرات صحابہ ایک ہی قصہ کا ذکر کررہے ہیں؛ لیکن ان کے الفاظ ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اگرچہ سب کی مراد ومنشا ایک ہی ہے اس طرح کے مواقع میں اصولی اعتبار سے یہ رویہ درست نہیں ہے کہ بقیہ سب روایتوں کو یکسر نظر انداز کرکے صرف ایک روایت کے الفاظ پر کلی اعتماد کرلیا جائے؛ بلکہ قاعدئہ مسلمہ ”الحدیث یفسر بعضہ بعضاً“ کے مطابق واقعہ سے متعلق روایت کا وہی معنی ومفہوم صحیح ہوگا جس میں سب روایتوں کی رعایت ملحوظ رکھی جائے۔
اس مختصر مگر ضروری تمہید کے بعد آئیے قصہٴ تابیر نخل کے بارے میں وارد متون احادیث کو ملاحظہ کریں، کیونکہ سرسید احمد خاں نے اپنے نظریہ کی بنیاد اسی واقعہ سے متعلق ایک روایت کو بنایا ہے۔
(۱) عن موسیٰ بن طلحة عن ابیہ قال: مررت مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بقوم علی روٴس النخل، فقال: ما یصنع ہٰوٴلاء؟ قالوا: یُلَقّحونہ، یجعلون الذکر فی الانثی فتلقّح، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما اظن یغنی ذلک شیئًا، قال: فاخبروا بذلک فترکوہ، فاُخْبِر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بذلک، فقال: ان کان ینفعہم ذلک فلیصنعوہ، فانّی انما ظننتُ ظنًا، فلا توٴاخذونی بالظن، ولکن اذا حدّثتُکم عن اللّٰہ شیئًا فخذوا بہ فانی لن اکذب علی اللّٰہ عزوجل․ (صحیح مسلم ج۲ ص۲۶ مع شرح النووی مطبوعہ المکتبة الاشرفیہ بدیوبند)
ترجمہ: موسی بن طلحہ اپنے والد طلحہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ میرا گذر ایک قوم کے پاس سے ہوا جو کھجور کے درختوں کی چوٹیوں پر تھے، آپ نے دریافت کیا، یہ لوگ کیا کررہے ہیں؟ لوگوں نے کہا قلم لگارہے ہیں (یعنی) نردرخت (کا شگوفہ) مادہ درخت (کے شگوفہ) میں ڈال رہے ہیں، جس سے مادہ درخت اثر پذیر ہوتا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں گمان نہیں کرتا کہ یہ عمل کچھ مفید ہوگا۔ راوی حدیث طلحہ کہتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بات کی قلم لگانے والوں کو خبر دی گئی تو انھوں نے اس کام کو چھوڑ دیا (تو پھل ردی آئے) جس کی اطلاع آپ کو دی گئی تو فرمایا کہ اگر یہ عمل ان کے لیے نفع بخش ہے تو اسے کریں،یقینا میں نے تو بربنائے ظن ہی کہا تھا، لہٰذا تم لوگ اس ظن کی بناء پر مجھے معاف رکھو (یہ آپ نے محض اخلاق کریمانہ کی وجہ سے فرمایا ورنہ انصار صحابہ کو تو ادنیٰ شکایت بھی نہیں تھی) لیکن جب میں تم سے منجانب اللہ کوئی بات کہوں تو اس پر ہی عمل کرو بیشک مجھ سے ہرگز اللہ پر غلط بیانی نہیں ہوسکتی (یعنی جو منجانب اللہ کہوں گا وہ برحق ہوگا)۔
(۲) عن رافع بن خدیج قال: قدم النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم المدینة وہم یأبِرُون النخل، ویقول یلقّحون النخل، فقال: ”ما تصنعون؟“ قالوا: کنا نصنعہ، قال: لعلکم لو لم تفعلوا کان خیرًا، قال: فترکوہ فنفضتْ، او قال: فنقصت قال: فذکروا ذلک لہ فقال: انما انا بشر، اذا امرتکم بشيء من دینکم فخذوابہ، واذا امرتکم بشيء من رأی فانما انا بشر․ (صحیح مسلم ج۲ ص۲۶۴)
ترجمہ: حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ (ہجرت کرکے) تشریف لائے، جبکہ اہل مدینہ درخت خرما میں پیوندکاری کرتے تھے، یعنی تلقیح کرتے تھے، آپ نے پوچھا تم کیا کررہے ہو؟ انھوں نے عرض کیا کہ (زمانہ قدیم سے) ہم اس کو کرتے ہیں، آپ نے فرمایا ہوسکتا ہے کہ اگر تم نہ کرو تو بہتر ہو، انھوں نے اس کو ترک کردیا تو پھل (قبل ازوقت) گرگئے، یا کہا پھل کم آئے راوی نے کہا پھلوں کی اس خرابی کا ذکر لوگوں نے آپ سے کیا تو آپ نے فرمایا: ”انّما انا بشر“ میں بشرہی ہوں (ہاں بحیثیت رسول) جب میں تمہیں حکم دوں تو اس پر (لازماً) عمل کرو اور جب کسی امردنیا کے بارے میں اپنے ذاتی ظن و رائے سے حکم دوں تو میں ایک بشر ہوں (یعنی) دوسرے بشر کی طرح میرے ظن میں بھی خطاء یا صواب کا وقوع ہوسکتا ہے۔
تشریح: حضرت طلحہ اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما کی روایتوں سے تین باتیں مستفاد ہورہی ہیں:
(الف) ان دونوں حدیثوں کے الفاظ اس بارے میں صریح ہیں کہ تابیر نخل (درخت خرما میں پیوندکاری) سے متعلق آپ نے جو کچھ بھی فرمایا وہ اپنے ظن وخیال سے فرمایا تھا، وحی الٰہی پر اعتماد کرتے ہوئے یہ بات نہیں کہی تھی، چنانچہ حضرت طلحہ کی روایت میں آپ صاف طور پر فرمارہے ہیں ”ما اظن یغنی ذلک شیئًا“ اور حضرت رافع کی حدیث کے الفاظ ہیں ”لعلکم لو لم تفعلوا کان خیرًا“ عربی زبان کی معمولی شدبد رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ لفظ ”ظن“ امور غیریقینی اور گمان وخیال کے معنی میں بولا جاتا ہے اور لفظ ”لعل“ شاید ’امید ہے کہ‘ ممکن ہے کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے، تابیر نخل سے متعلق اگر آپ کا یہ فرمان بربنائے وحی ربانی ہوتا تو ”اظن“ میرا گمان ہے، یا ”لعل“ (شاید) کے الفاظ قطعی طور پر نہ فرماتے؛ کیونکہ وحی کے ذریعہ جو علم حاصل ہوتا ہے وہ قطعی ہوتا ہے۔ اس کی ترجمانی میں ظن وخیال کی گنجائش ہی نہیں ہے، لہٰذا یہ دونوں الفاظ اپنے سننے والوں کو یقینی طور پر بتارہے ہیں کہ آپ نے اس موقع پر جو کچھ بھی فرمایا وہ وحی سماوی کی بنیاد پر نہیں؛ بلکہ اپنے ذاتی وشخصی ظن وخیال کی بناء پر فرمایا تھا۔
(ب) یہ حدیث پاک ہمیں اس بات پر بھی متنبہ کررہی ہے کہ آپ جس بات کو صیغہٴ ظن وشک سے بیان کریں، اس میں اور جو بات جزم و یقین کے الفاظ میں آپ سے صادر ہوئی ہے دونوں میں لازمی طور پر فرق وامتیاز ہوگا، پہلی بات از قبیل ذاتی ظن کے ہوگی اور دوسری وحی الٰہی سے مستفاد ہوگی۔
(ج) تابیر نخل کے اس واقعہ میں غلطی دراصل انصار صحابہ سے ہوئی کہ انھوں نے جذبہٴ اتباع کامل کے جوش میں آپ کے شخصی ظن کو گویا وحی کا درجہ دے کر اپنے پشتینی علم وتجربہ کو پس انداز کرکے تابیرنخل کے عمل کو ترک کردیا، کما صرح الحافظ ابن تیمیة والرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم ینہہم فی التلقیح ولکن غلطوا فی ظنہم انہ ․․․․․ (فتاوی ابن تیمیہ ج۱۸ ص۱۲)
غور کیجیے یہاں مقابلہ امر دین اور امر دنیا کا نہیں ہے؛ بلکہ وحی ربانی اور ذاتی ظن کا ہے، معلوم ہوا کہ جو حکم و خبر آپ سے بصیغہٴ جزم و یقین صادرہوگی وہ بحیثیت رسالت وحی ربانی کا اظہار و بیان ہوگا چاہے اس کا تعلق امر دین سے ہو یا امر دنیا سے اس میں قطعی طور پر تخلف نہیں ہوگا اوراس امر و خبر کا امتثال و تصدیق امت پر لازم ہوگی، اس میں کسی قسم کے چون و چرا کی گنجائش نہیں ہے اور جو امر وخبر آپ بالفاظ ظن وشک بیان فرمائیں وہ درحقیقت بشری حیثیت سے اپنے ظن وخیال کا اظہار ہے، لہٰذا ایسی خبر میں تخلف بھی ہوسکتا ہے اور بحکم حدیث اس پر عمل آوری بھی ضروری نہیں ہوگی۔
مشہور امام حدیث ابوجعفر احمد بن محمد طحاوی متوفی ۳۲۱ھ شرح معانی الآثار میں حضرت طلحہ کی حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں: ”فاخبر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی ہذا الحدیث: ان ما قالہ من جہة الظن فہو فیہ کسائر البشر فی ظنونہم، وان الذی یقولہ مما لا یکون علی خلاف ما یقولہ ہو ما یقولہ عن اللّٰہ عزّ وجل“
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ آپ نے جو بات بطور ظن کے فرمائی ہے، تو اس ظنی قول میں آپ سارے انسانوں کی طرح ہیں، اور آپ کے جس قول کا خلاف واقع ہونا ممکن نہیں، یہ وہ قول ہے جس کو آپ اللہ عز وجل کی جانب سے کہتے ہیں“
غور کیجیے امام طحاوی ظن اور وحی کے مابین فرق کررہے ہیں، دنیا اور دین کے درمیان نہیں۔
حافظ بدرالدین عینی متوفی ۸۵۵ھ امام طحاوی کے اس قول کی وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
ان نہیہ عن تأبیر النخل کان عن ظن ظنہ، ولم یکن من طریق الوحی، اذا الذی یقولہ من طریق الوحی لا یکون علی خلاف ما یقولہ، وقد صرح فی حدیث التأبیر بقولہ: ”انما ہو ظن ظننتہ“ وصرّح بان الظن یخطی ویصیب، فدلّ ذلک ان ما قالہ من جہة الظن فہو کسائر الناس فی ظنونہم، واما الذی یقولہ ولا یخالف فیہ فہو الذی یقولہ عن اللّٰہ تعالیٰ، لان ما کان عن اللّٰہ لاخلاف فیہ، ولا یقع ما ہو خلافہ“ (نخب الافکار شرح شرح معانی الآثار ج۱۴ ص ۳۸۷)
ترجمہ: آپ کا تابیرنخل سے منع کرنا ازروئے گمان تھا جو آپ نے کیا، بطور وحی کے یہ ممانعت نہیں تھی، کیونکہ جوبات آپ بطریق وحی فرمائیں گے وہ بات آپ کے فرمان کے خلاف نہیں ہوسکتی ہے، اور آپ نے حدیث تابیرنخل میں صراحت کردی تھی کہ میں نے جو کچھ کہا وہ اپنے ظن کے مطابق کہا، اور آپ نے اس کی بھی تصریح فرمادی ہے کہ ”الظن یخطی ویصیب“ ظن میں خطا بھی ہوتی اور درستگی بھی، لہٰذا معلوم ہوا کہ آپ جو بات بطور ظن کے کہیں گے اس میں آپ کا ظن دیگر سارے لوگوں کے ظن کی طرح ہوگا، البتہ آپ کا وہ قول جس کے خلاف کا وقوع نہیں ہوسکتا آپ کا وہ قول ہے جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے فرماتے ہیں، کیونکہ جو چیز منجانب اللہ ہوتی ہے اس میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں، اور نہ اس قول کے خلاف کا وقوع ہوسکتا ہے۔
(۳) عن عائشة وعن انس ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم مرّ بقوم یلقّحون، فقال: لو لم تفعلوا لصلح، قال: فخرج شیصًا، فمر بہم، فقال: ما لنخلکم؟ قالوا: قلت کذا وکذا، قال: انتم اعلم بامر دنیاکم․ (صحیح مسلم ج۲ ص۲۶۴)
ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک ایسی جماعت پر ہوا جو درخت خرما میں پیوند لگارہی تھی، تو آپ نے فرمایا اگر تم لوگ نہ کرو تو البتہ بہتر ہو، راوی کا بیان ہے (کہ انھوں نے اسے ترک کردیا) تو پھل ردّی آئے، دوبارہ آپ ان کے پاس سے گزرے تو پوچھا تمہارے درختوں (کے پھل) کو کیا ہوگیا؟ انھوں نے عرض کیا آپ نے یہ یہ فرمایا تھا (یعنی آپ کے فرمان لو لم تفعلوا لصلح کی وجہ سے ہم نے پیوندکاری ترک کردی تو پھل ردّی اور خراب ہوگئے) آپ نے فرمایا تم اپنے امر دنیا (یعنی باغبانی) کو زیادہ جانتے ہو۔
تشریح: رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ”انتم اعلم بامر دنیاکم“ کو منفرداً ومستقلا یعنی تنہا مستقل طور پر نہیں فرمایا ہے؛ بلکہ جس وقت یہ فرمایا تھا تو اسی کے ساتھ یہ بھی صراحت فرمادی تھی کہ میں نے تابیر کے بارے میں جو کچھ کہا تھا وہ محض اپنے ظن کی بنیاد پر کہا تھا ”انما ظننتُ ظنا“ لہٰذا اس سیاق کے لحاظ سے اس حدیث کا مفہوم یہ ہوگا کہ میں جب امر دنیاوی کے بارے میں اپنے ظن وگمان سے کوئی بات کہوں اور تمہارے پاس اس امر دنیا کے متعلق علم یقینی ہوتو تم میرے ظن کے بجائے اپنے علم ویقین پر عمل کرو۔
حدیث کے سیاق سے معلوم ہورہا ہے کہ ”انتم اعلم بامر دنیاکم“ قاعدہ عامّہ اور حکم کلی نہیں ہے؛ بلکہ ایک واقعہ خاص کی صورت حال کا بیان ہے، کیا ایک عالم وفاضل اور صاحب علم وحکمت کے بارے میں یہ تصور صحیح ہوگا کہ کاروبار دنیا سے تعلق رکھنے والے سارے افرادتمام امور دنیاوی میں اس سے علم وتجربہ میں بڑھے ہوئے ہیں؟ ہرگز نہیں تو پھر اللہ کے منتخب رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ کیسے سوچا جاسکتا ہے کہ دنیا کا ہر شخص امور دنیا کے علم میں آپ سے بڑھا ہے، کیونکہ ہر شخص کے علم و تجربہ میں امور دنیا میں سے کچھ نہ کچھ یقینیات لازمی طور پر ہوتی ہیں جس میں وہ دوسروں کے مساوی اور برابر ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں منصب نبوت ورسالت سے قطع نظر آپ عقل وفہم کے جس معیار اعلیٰ پر فائز تھے، اس کے تحت دنیا کے بہت سارے امور دیگر اہل عقل وتجربہ کے مقابلے میں بہتر طور پر انجام دے سکتے تھے جیساکہ آپ کی سیرت مقدسہ اور حیات طیبہ سے ظاہر وباہر ہے۔ اس لیے سرسید احمد خاں اور ان کے فکری تلامذہ کو جو اس حدیث کو اس کے سیاق سے الگ کرکے بطور قاعدہ کلیہ کے پیش کررہے ہیں انھیں سوبار سوچنا چاہیے تھا کہ وہ اللہ کے برگزیدہ نبی اور پیغمبر اعظم کو بزعم خویش کیا مقام و درجہ دے رہے ہیں۔
اس موقع پر اس واقعی حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ یہ بات تو سب لوگ یقینی طور پر جانتے ہیں کہ حیوانات میں مذکر ومونت کا مخصوص اجتماع عادتاً حصول نتیجہ کا سبب ہے، البتہ نباتات یعنی درختوں وغیرہ میں بھی یہ قربت موٴثر ومفید ہے کہ نہیں تو جو لوگ باغبانی کے پیشہ سے وابستہ ہیں انھیں اپنے دیرینہ تجربہ کی بناء پر معلوم ہے کہ حیوانات کی طرح نباتات میں بھی مذکر ومونث کی یکجائی عادتاً سود مند اور نفع بخش ہے، جبکہ عام افراد یہی سمجھتے ہیں کہ درختوں میں یہ کار آمد نہیں ہے، چونکہ آپ کو باغبانی وغیرہ کا تجربہ مطلقاً نہیں تھا اس لیے عام فہم انسانی کے مطابق آپ کو بھی یہی خیال اور گمان ہوا کہ تابیر نخل کا یہ عمل مفید نہیں ہے، آپ کا یہ ظن قطعاً بے محل نہیں تھا، انصار صحابہ کو اپنے پشتینی تجربہ سے معلوم تھا کہ یہ عمل فائدہ مند ہے، آپ نے اپنے ذاتی ظن اور شخصی خیال کے مقابلہ میں ان کے تجرباتی علم کی تائید کرتے ہوئے فرمایا ”انتم اعلم بامر دنیاکم“
پس اتنی بات کو یاروں نے افسانہ بناڈالا
(۴) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی قصہ سے متعلق ایک اور حدیث بھی مروی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
عن عائشة ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم سمع اصواتًا، فقال: ما ہذہ الاصوات؟ قالو: النخل یوٴبرونہ یا رسول اللّٰہ، فقال: لو لم یفعلوا لصلح، فلم یوٴبروا عامئذٍ فصار شیصًا فذکروا ذلک للنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: اذا کان شیئًا من امر دنیاکم فشأنکم بہ، واذا کان امر دینکم فالیّ․ (مسند احمد ج۲ ص۱۲۳ وابن ماجہ رقم الحدیث ۲۴۷۱)
حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آوازیں سنی تو فرمایا یہ کیسی آوازیں ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ درخت خرما میں قلم لگارہے ہیں، پس آپ نے (بربنائے ظن) فرمایا اگر (یہ عمل) نہ کریں تو مناسب ہے، چنانچہ اس سال لوگوں نے تابیر نہیں کی، تو پھل ردی ہوگئے، پھلوں کی اس کیفیت کا ذکر صحابہ نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا اگر کوئی کام تمہاری دنیا کا ہو تو وہ تمہارے علم کے سپرد ہے اور جب کوئی امر دینی ہوگا تو وہ میری طرف ہی محول ہوگا۔
نوٹ: حضرت عائشہ اور انس سے مروی حدیثوں میں اگرچہ ظن کا ذکر نہیں ہیں؛ لیکن قاعدہ مسلمہ الناطق یقضی علی الساکت کے مطابق ان حدیثوں میں بھی یہ ملحوظ ہوگا۔
تشریح: اگلے سطورمیں صحیح مسلم کے حوالہ سے مذکور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث اور زیرنظر ان کی یہ حدیث دراصل ایک ہی حدیث ہیں اختلاف سند کی بنا پر الفاظ میں کچھ فرق اور کمی وزیادتی ہوگئی ہے۔
اس موقع پر بطور خاص یہ بات غور طلب ہے کہ زیرنظر احادیث میں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ”امور دنیا“ سے کن امور کو مراد لیا ہے، جن میں امت کو اپنے علم وتجربہ کی بنیاد پر عمل کی اجازت اور آزادی عطا فرمائی ہے، پورے ذحیرئہ حدیث میں صحیح سند سے ثابت اس کی صرف ایک ہی ایسی مثال ملتی ہے جس کے بارے میں کسی نزاع واختلاف کی گنجائش نہیں ہے اور وہ یہی زیربحث تابیرنخل یا بالفاظ دیگر تلقیح نخل ہے، جو باغبانی کا ایک عمل ہے، پھر اس مثال واحد کے سلسلے میں بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی امر جازم یا خبر یقینی کا صدور نہیں ہوا ہے؛ بلکہ اس کے متعلق آپ نے جو کچھ بھی فرمایا تھا وہ درحقیقت اپنے ذاتی ظن وخیال کا اظہار تھا، لہٰذا باغبانی کے بارے میں یہ حدیث اس معنی میں نص ہے کہ امت اس میں اپنے علم وتجربہ کے مطابق عمل میں آزاد ہے، علاوہ ازیں دیگر کاروبار جو باغبانی سے قریب درجہ کی مشابہت رکھتے ہیں اور ان کے بارے میں شریعت (یعنی قوانین الٰہی جو رسول اللہ کے ذریعہ جاری ہوئے ہیں) کوئی حکم جاری کرنے سے خاموش ہے تو وہ معاملات اور کاروبار بھی از روے قیاس امور دنیا میں شامل سمجھے جاسکتے ہیں، جیسے فلاحت وزراعت، آہنگری، نجّاری اور اسی نوع کی دیگر قدیم و جدید صنعت وحرفت، چنانچہ کتب حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول کوئی ایسی خبر نہیں ملتی جن میں آپ نے ان پیشوں کے طریقے تعلیم فرمائے ہوں، احادیث رسول علی صاحبہا الصلاة والسلام میں ان جیسے امور کے متعلق احکام وہدایات کا نہ پایا جانا بتارہا ہے کہ یہی وہ امور دنیا ہیں جن میں شریعت (احکام ربانی) نے عدم مداخلت کرکے ہمیںآ زادی دے دی ہے کہ ہم ان کو اپنے علم و تجربہ کے مطابق انجام دیں۔
ان کے علاوہ وہ امور ومعاملات جن سے احکام الٰہی وابستہ ہیں، مثلاً خرید وفروخت، مداینت اور قرض کے معاملات، ربا اور سود کے کاروبار، دیوانی و فوجداری کے مسائل، عائلی، معاشرتی اور اجتماعی زندگی کے معاملات، کھانے پینے ، پہننے وغیرہ کے آداب وطریقے وغیرہ وہ امور ہیں جن کے بارے میں قرآن و حدیث میں کثرت سے ہدایات واحکام (اوامر ومناہی) وارد ہوئے ہیں یہ سب درحقیقت دینی امور ہی ہیں کیونکہ جن امور سے متعلق شریعت کا کوئی امر وحکم ہوتا ہے، انھیں کو دینی کام سمجھا اور کہا جاتا ہے۔
پھر اس بات سے بھی کوئی مرد موٴمن اور عقل سلیم سے متصف انسان انکار نہیں کرسکتا ہے کہ شریعت (قوانین الٰہی) جن معاملات میں بھی مداخلت کرتی ہے اسے اس کا مطلق حق ہے، اور اس مداخلت کی کامل ترین (جس کے اوپر کمال کا کوئی درجہ نہیں) صلاحیت بھی اسے حاصل ہے، کیونکہ مالک کائنات باری تعالیٰ علیم وحکیم ہے، وہ ہمارے منافع ومضار کو ہم سب سے (انفراداً و اجتماعاً) زیادہ جانتا ہے، اس نے جن معاملات وامور میں بھی کوئی حکم دیا ہے وہ اپنے قصد و ارادہ سے دیا ہے اور ہم پر اس حکم کا امتثال اور پیروی بغیر کسی چون و چرا کے لازم ہے، کیونکہ وہ ہمارا خالق ومالک ہے اور ہم اس کی مخلوق اور بندہ ہیں اور بندوں کو آقا کے حکم کی بجا آوری میں اختیار نہیں ہوا کرتا کہ چاہے تو اس پر عمل کریں اور جی میں آئے تو چھوڑ دیں، یہاں کسی آزادی کی گنجائش نہیں ہے۔
خلاصہٴ کلام: تابیر نخل کے قصہ سے متعلق متعدد سندوں سے وارد احادیث کے معنی ومراد کی یہ تشریح وتوضیح درحقیقت متقدمین علمائے حدیث وفقہ کے بیان ہی کی ترجمانی ہے، جس سے صاف طور پر معلوم ہوگیا کہ یہاں تقسیم ظن اور وحی کے درمیان ہے دین ودنیا کے درمیان تقسیم کا یہاں ادنیٰ شائبہ بھی نہیں ہے، یا یوں کہیے کہ سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت و رسالت کے درمیان فرق کا معاملہ ہے یعنی پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم اگر اپنے بشری وذاتی خیال سے کوئی بات فرمائیں، یا مشورہ دیں، یا کسی معاملہ میں کوئی رائے قائم فرمائیں (جس کی توثیق منجانب اللہ نہیں ہوئی ہے) توامت پر ان کی تعمیل واجب نہیں ہوگی، بلکہ امت کو اس میں اختیار ہوگا، ذاتی وبشری ظن و خیال کے متعلق اس اختیار کی دلیل یہی تابیر نخل سے متعلق حدیث ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ کا حکم بریرہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے جو کتب صحاح وسنن وغیرہ میں مذکور ہے، حضرت بریرہ باندی تھیں اور اسی غلامی کے زمانہ میں ان کا عقد نکاح مصعب نامی ایک صحابی سے ہوا تھا، بعد میں وہ آزاد ہوگئیں تو بحکم شرع انھیں یہ اختیار حاصل ہوگیا کہ اگر وہ چاہیں تو عہد غلامی کے نکاح کو فسخ کرسکتی ہیں، انھوں نے اپنے اس اختیار کو استعمال کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو ان کے شوہر مصعب رضی اللہ عنہ اس سے بیحد پریشان ہوئے، اللہ کے رسول نے ان کی اس پریشان حالی کو دیکھا تو بریرہ سے بقائے نکاح کے سلسلہ میں گفتگو کی، انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ حکم ہے یا مشورہ؟ آپ نے فرمایا مشورہ ہے، یہ سن کر بریرہ نے کہا اب مجھے اختیار ہے کہ اس مشورہ پر عمل کروں یا نکاح کو اپنے ارادہ کے مطابق فسخ کردوں۔
اسی طرح مسند بزار اور معجم کبیر طبرانی میں بسند حسن روایت ہے کہ غزوئہ خندق کے موقع پر مسلمانوں کی دشواریوں کو دیکھ کر بطور حربی تدبیر کے آپ کی رائے ہوئی کہ قبیلہٴ غطفان کے لوگوں سے مدینہ کی نصف کھجوروں کے عوض یہ مصالحت کرلی جائے کہ وہ مشرکین مکہ کا ساتھ چھوڑ کر اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں۔ بنوغطفان سے یہ معاملہ طے کے قریب تھا کہ آپ نے اس کی اطلاع انصار کے بعض اہم افراد کو دی، جسے سن کر انھوں نے عرض کیا: ”یا رسول اللہ! وحی من السماء؟ فالتسلیم لامر اللّٰہ، او من رأیک وہواک؟ فرأینا تبع لہواک ورأیک، فان کنت انما ترید الا بقاء علینا، فواللّٰہ لقد رأیتنا وایّاہم سواء ما ینالون تمرة الا بشری او قِری“ یا رسول اللہ یہ حکم سماوی ہے کہ اللہ کے حکم پر سرتسلیم خم ہے، یا آپ کی رائے اور خواہش ہے کہ ہماری رائے و خواہش آپ کی خواہش کے تابع ہے اور اگر آپ کا یہ ارادہ محض ہم پر شفقت کی بنا پر ہے تو آپ ہمیں ان سے کمتر نہیں پائیں گے وہ ایک کھجور بھی بغیر خرید کے یا میزبانی کے نہیں لے سکتے ہیں۔
اس واقعہ سے بھی یہی ثابت ہورہا ہے کہ حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی رائے ومشورہ اور وحی سماوی کے درمیان عملاً فرق سمجھتے تھے، کہ وحی سماوی کو واجب التسلیم اور آپ کے ذاتی مشورہ اور رائے کو اختیاری باور کرتے تھے کہ آپ کے مشورہ کے وقت اپنا مشورہ بھی پیش کرتے تھے۔
بحیثیت بشریت آپ کے ظن، مشورہ اور رائے (جس کی توثیق وحی سے نہیں ہوتی ہے) اور بحیثیت رسالت آپ کے حکم کے درمیان یہ فرق وامتیاز تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل سے ثابت ہے۔
رہا معاملہ دین و دنیا کے درمیان تقسیم کا کہ دینی امور میں آپ کا حکم واجب التعمیل اور دنیاوی امور میں اختیاری ہے، تو یہ صرف اور صرف سرسیداحمد خاں کے فکری کجی کا نتیجہ ہے، جس کا دین اسلام میں کوئی ثبوت نہیں ہے، سرسید خاں چونکہ اپنے عہد کے یورپ بالخصوص برطانیہ کی دنیاوی ترقی سے بیحد مرعوب تھے اور ان کا یہ خیال تھا کہ مسلمان جب تک یورپین تہذیب وتمدن میں ڈھل نہیں جاتے ترقی نہیں کرسکتے ہیں، اپنے اسی مرعوب فکر کے تحت وہ اسلام کی ایسی جدید تفسیر و تعبیر کے درپے تھے جس سے اسلام اپنے فکر وعمل میں یورپ کا نقش ثانی بن جائے، اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنے پیش رو منحرفین کی طرح انھیں بھی اپنے راستہ سے حدیث وسنت کو ہٹانا ضروری تھا، حدیث وسنت کی علی الاطلاق حجیت اور تشریعی حیثیت تسلیم کرنے کے ساتھ وہ دین اسلام میں جدید پیوندکاری نہیں کرسکتے تھے، اس لیے انھوں نے اپنی خودساختہ اور من گھڑت تقسیم کے ذریعہ حدیث رسول علی صاحبہا الصلاة والسلام کے ایک بڑے حصہ کی تشریعی حیثیت کا انکار کردیا، ان کے اسی رویہ پر اکبر الٰہ آبادی نے یہ تبصرہ کیا تھا۔
واہ کیا راہ دکھائی ہے ہمیں مرشد نے
کردیا گم کعبہ کو اور کلیسا نہ ملا
”فالی اللّٰہ المشتکی“ وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین والصلاة والسلام علی خاتم الانبیاء والمرسلین․
—————————————-
دارالعلوم ، شمارہ : 4، جلد:102، رجب-شعبان ۱۴۳۹ھ مطابق اپریل ۲۰۱۸ء
# # #