از: مولاناارشاد احمدقاسمی
مدرس دارالعلوم سوپور، کشمیر
ایسے نام رکھنا جن میں تزکیہ اور تعریف کا پہلو ہو
حضرت سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول … نے فرمایا: ”لاَ تُسَمِیَنَّ غلامَکَ یَسَارًا وَلاَ رِبَاحًا ولا نَجِیْحًا وَلَا أَفْلَح“ ” اپنے بچے کا نام یسار (آسانی و خوش حالی)، رباح (نفع)، نجیح (کامیاب اور درست) اور افلح (کامیاب ترین) نہ رکھو (مسلم)۔ اسی طرح نافع (نفع بخش)، یعلی (بلند و برتر) ، مقبل(طلوع ہونے والا) ، برکت جیسے ناموں کو بھی آپ … نے ناپسند کیا (شرح المسلم للنووی:۱۴/۱۱۹)۔حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ حضرت زینب بنت سلمہ کاپہلا نام ” بَرّہ “ تھا (جس کا معنی صالح اور پاک کے ہیں)۔ آپ … کو کہا گیا کہ وہ اپنی پاکیزگی ظاہر کرتی ہے، تو حضور … نے اس کا نام زینب رکھا (بخاری: ۵۷۲۴)۔ حضرت جویریہ کا نام بھی ”برہ “ تھا حضور … نے اس کا نام جویریہ رکھا۔ برہ اور اس کے مثل ناموں پر جن میں تعریفی اورخیر و صلاح کا معنی موجود ہے، حضور … کی ناپسندیدگی کی دو علتیں حدیث ہی میں بیان کی گئی۔ ایک علت یہ کہ حضور … یہ سننا ناپسند کرتے تھے کہ کہا جائے ” خرج من عند برة “ یعنی میں برہ یعنی پاکیزگی سے نکلا (مسلم:۵۷۲۹)۔ گویا یہ برا کلام ہے جسے شریعت پسند نہیں کرتی اور کبھی آدمی اسی بنیاد پر بے شگونی بھی لے سکتا ہے۔ ایک موقع پر اسی سلسلے میں فرمایا کہ اپنے آپ کی پاکی و ستھرائی بیان مت کرو۔ اللہ تم میں پاک اور ستھرے لوگوں کو زیادہ جانتے ہیں (ابوداوٴد:۴۹۵۵)۔ جاننا چاہیے کہ تزکیہ ٴ نفس اور بد فالی کی شریعت نے مذمت کی ہے اور دونوں گناہوں میں شمار ہیں۔ عرب کے مزاج میں دونوں چیزیں تھی، یہی وجہ ہے اللہ کے نبی … اس مسئلہ کو سمجھانے کے لیے کبھی نام بدل لیا کرتے تھے۔ فی نفسہ ان ناموں میں کوئی حرج نہیں۔ بہت سے صحابہ کے نام ان ناموں پے ملتے ہیں اور حضور … نے ان کے ناموں کو تبدیل نہیں کیا۔ نافع، یسار، برکت، برہ (صالح اور نیک) وغیرہ میں تو تزکیہ کا معنی ظاہر ہے۔ بدشگونی کا اندیشہ اس طرح ہے کہ جب کسی آدمی کو ایسے نام رکھے جائیں، تو کبھی جب اسے پکارا جائے اور وہ وہاں نہ ہو تو جواب ملے ” برکت نہیں ہے، نافع نہیں، برہ (پاکیزگی) نہیں ہے، یا یوں کہا جائے کہ میں برکت سے رخصت ہوا، نافع سے رخصت ہوا، برہ سے رخصت ہوا، جو کہ اچھے جواب نہیں اوران سے آدمی کا گمان خراب بھی ہوسکتا ہے کہ شاید میں ان چیزوں سے خالی ہوجاوٴں گا؛ اسی لیے حضور …نے ان ناموں کو ناپسند کیا۔ گویا اللہ کے حضور … کی یہ اصلاح حکم نہیں تھا؛ بلکہ ایک طرح کا مشورہ تھا جس کا مقصدان اسرار ورموز سے واقف کرانا تھا۔ (ملخص من حجة اللہ البالغہ:۲/۵۹۸، شرح المسلم:۱۴/۱۲۰، مرقاة ۹/۱۱)۔ ابن عابدین نے محی الدین، فخرالدین، شمس الدین جیسے ناموں کو بھی اسی زمرے میں شامل کیا اور کہاایسے نام رکھنا درست نہیں ؛ کیونکہ ان ناموں میں تزکیہٴ نفس ہے کیونکہ محی الدین کے معنی دین زندہ کرنے والا، فخر الدین کے معنی دین کا فخر اور شمس الدین کے معنی دین کا سورج ہے۔ ساتھ ساتھ اس میں جھوٹ بھی ہے۔لکھتے ہیں کہ مشہور محدث امام نووی کا لقب لوگوں نے محی الدین رکھا تھا، خود امام صاحب اس کو سخت ناپسند کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جس آدمی نے مجھے اس نام سے پکارا اس نے حلال کام نہیں کیا (رد المحتار۹/۵۹۹)۔ جیسا کہ ماقبل میں ذکر ہوا کہ یہ نام فی نفسہ درست اور صحیح ہیں، بالخصوص اس وقت جب ان ناموں کے معانی سے اچھی توقع اور نیک فال اختیار کیا جائے ؛کیونکہ خود حضور … سے اچھے اور تعریفی کلمات کے نام رکھنا ثابت ہے جیسا کہ حضرت عمر کی ایک صاحبزادی کا نام جمیلہ رکھا، حضرت علی کے صاحبزادوں کا نام حسن، حسین اور محسن رکھا۔ آپ … کے عمِ محترم کا نام حمزہ (شیر)تھا، آپ نے ان کا نام تبدیل نہیں کیا۔ نیز اللہ کے رسول … نے ناموں میں جتنی بھی ترمیمات فرمائی، ان میں تزکیہ و تعریف کا معنی موجود تھا اور صحابہ میں اس طرح کے معنی و مفہوم والے نام کثیر تعداد میں موجود تھے۔ اسی بنیاد پر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے فرمایا کہ یہ نہی والی احادیث مشورہ پر محمول ہیں جیسا کہ گذر چکا۔ مشہور شارح ِ بخاری ابن بطال لکھتے ہیں کہ ایسے نام جن میں معنی کی خرابی ہو (اور حسن نیت ہو یعنی تواضع وغیرہ کا اظہار)، اسی طرح دیگر مثبت اور اچھے نام کو بدلنا واجب اور ضرری نہیں (فتح الباری: ۱۴/۶۷)۔ امام طبری لکھتے ہیں کہ نام محض علامت ہی کے لیے ہوتے ہیں جن سے حقیقی معنی کا ارادہ نہیں ہوتا۔ لیکن سننے والا جب سنے تو وہ اس کی صفت سمجھ سکتا ہے اور کراہت پیدا ہوسکتی ہے (فتح الباری: ۱۴/۷۰)۔
شریعت نے جن ناموں پر پابندی لگادی
۱- اللہ تعالی کے نام رکھنا
قرآن کریم میں ہے : ﴿وَذَرِ الَّذِینَ یُلْحِدُوْنَ فِیْ اَٴسْمَائِہ سَیُجْزَوْنَ ما کانُوْا یعملون﴾ ” اور ان لوگوں کو چھوڑ دیجیے جو اللہ کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں، عنقریب وہ اپنے کیے کا بدلہ پائیں گے “ (أعراف:۱۸۰)۔ علمائے اسلام نے لکھا ہے کہ اللہ کے ناموں میں ” کج روی اور الحاد “ ناجائز اور حرام ہے۔اللہ کے ناموں میں کج روی اور الحاد کی ایک صورت مفسرین نے یہ لکھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مخصوص ناموں کو غیر اللہ کے لیے استعمال کیا جائے۔ حدیث میں ہے : أَغْیَظُ رَجُلٍ عَلَی اللّہِ یوم القیامة واَٴخْبَثُہ رَجلُ کانَ یُسَمِّی مَلِکَ الأملاکِ، لا مَلِکَ الا اللّہُ ” قیامت کے روز اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ غضب کا سامنا کرنے والا اور خبیث ترین شخص وہ ہوگا، جس کا نام ملک الاملاک (بادشاہوں کا بادشاہ) ہوگا۔ بادشاہ صرف اور صرف اللہ ہی ہیں “ (مشکوة عن مسلم:۴۷۵۵)۔ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ اس وعید کے ضمن میں ہر وہ نام داخل ہے جو اس معنی کا حامل ہو اور اللہ کی ذات کے ساتھ خاص ہواور اسی کے شایان ِ شان ہو، مثال کے طور پر خالق الخلق (مخلوقات کا خالق)، احکم الحاکمین (حاکموں کا حاکم)، سلطان السلاطین (بادشاہوں کا بادشاہ)، امیر الامراء (سرداروں کے سردار) (تکملة فتح الملھم: ۱۸۸)۔اسی طرح صمد،احد، خالق، جبار، متکبر، اول، آخر، باطن وغیرہ بھی اللہ کے ساتھ خاص ہیں، ان کا استعمال بھی اللہ کے علاوہ کسی اورکے لیے ناجائز اور حرام ہے (تحفة المودود)۔ عجمی لوگ ”شاہان شاہ “ یعنی بادشاہوں کے بادشاہ کا لقب اپنے بادشاہوں کے لیے استعمال کرتے تھے، سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ یہ نام بھی اس وعید میں داخل ہے (مسلم)۔ ایک آدمی کانام ابو الحکم تھا(حَکَم، فیصلہ کرنے والا) اللہ کے رسول … نے اسے بدل کر ابو شریح رکھا (ابوداوٴد:۴۹۵۴)․ایک موقع پر فرمایا : اِنَّ اللّہَ ھُوَ الحَکَمُ، وَاِلَیْہِ الحُکْمُ یعنی اللہ تعالیٰ ہی فیصلہ کرنے والے ہیں اور فیصلہ کرنا اسی کو سزا وار ہے (الأدب المفرد للبخاری)․ شارح مسلم امام نووی لکھتے ہیں کہ غیر اللہ کے لیے اللہ تعالیٰ کے مخصوص نام استعمال کرنا ناجائز اور حرام ہے جیسے کسی کا نام رحمن، مہیمن، خالق الخلق، احد، صمد وغیرہ رکھا جائے (شرح المسلم:۱۴/۱۲۲،)۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں : ”انما نَھٰی عن ذالک ؛ لأنہ افراطٌ فی التعظیم، یَتَأخَّمُ الشرکَ“ یعنی ان ناموں سے منع کرنے کی وجہ یہ ہے کیونکہ یہ شرک سے قریب ہیں (حجة اللہ البالغة:۲/۵۹۷)․ پھر ان ناموں کی حرمت اور بڑھ سکتی ہے جب کسی غلط عقیدے کی بنا پر ہو کہ اس کو ہی خالق یا رازق سمجھ کر خطاب کرے؛ کیونکہ تب تو یہ کفر ہوگا؛ لیکن اگر غلط عقیدہ نہیں محض بے سمجھی سے کسی کو خالق، رازق، یا رحمن وغیرہ کہہ دیا،تو یہ اگر چہ کفر نہیں؛ مگر مشرکانہ الفاظ ہونے کی وجہ سے گناہ ِ شدید ہے (معارف القرآن ملخصاً:۴/۱۳۱)۔ لیکن واضح رہے کہ یہ حرمت اس وقت رہے گی جب ان ناموں کے شروع میں لفظ ” عبد “ کا اضافہ نہ کیا جائے؛ لیکن اگر لفظ ِ عبد کا اضافہ کیا جائے مثلاً عبد اللہ، عبد الرحمن، عبدالخالق، عبد الرزاق، عبد الصمد، تو یہ نام محبوب ترین نام بن جاتے ہیں جیسا کہ ماقبل میں گذر چکا۔ لیکن ان محبوب ناموں کے پکارنے میں بھی ایک غفلت برتی جاتی ہے،وہ یہ کہ تخفیف کے وقت عبدالرحمن کو رحمن، عبد الخالق کو خالق، عبد الرزاق کو رزاق سے پکارتے ہیں، یا بگاڑ کر پکارتے ہیں جیسے عبد الرحمن کو ” رمان“ وغیرہ، جو کہ ناجائز اور گناہ کبیرہ ہے، آدمی جتنی مرتبہ اس طرح پکارے اتنی ہی مرتبہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں رہتا ؛کیونکہ یہ سب ” الحاد فی الاسماء “ (ناموں میں بے دینی) میں داخل ہے جس کا انجام کتنا خطرناک ہے جس کی جانب سورہ ٴ انعام کی مذکورہ آیت کے آخری جملہ میں تنبیہ فرمائی گئی سَیُجْزَوْنِ مَا کانوا یعملونَ یعنی ان کو اپنے کیے کا بدلہ دیا جائے گا۔ اس بدلہ کی تعیین نہیں کی گئی؛ بلکہ ابہام میں رکھا گیا، اس ابہام سے عذاب ِ شدید کی طرف اشارہ ہے (ملخص من شامی:۹/۵۹۸، معارف القرآن:۴/۱۳۲، تکملة فتح الملھم:۴/۱۸۸)․
یہ ان ناموں کی تفصیل ہے جو اللہ کی ذات کے ساتھ خاص ہیں، اللہ تعالیٰ کے ناموں کی ایک قسم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص نہیں ہے ؛ بلکہ ان کا اطلاق غیر اللہ پر بھی ہوتا ہے جیسے کریم، رشید، علی، سمیع وغیرہ، تو ایسے نام رکھنا جائز اور درست ہے اس شرط پر کہ اللہ تعالیٰ کے لیے جس حیثیت سے ان ناموں کا اطلاق ہوتا، اس حیثیت سے نہ ہو؛ بلکہ کسی اور حیثیت سے ہو (معارف القرآن: ۴/۱۳۲، بدائع الصنائع)۔
۲- شرکیہ نام رکھنا
ایسے نام رکھنا جن سے شرک کے معنی پیدا ہوتے ہوں ناجائز اور گناہ ہے۔ عرب میں چونکہ شرک اور بت پرستی کا رواج تھا؛ اس لیے وہ فرط ِ عقیدت میں بتوں کی جانب اپنے ناموں کو منسوب کرتے تھے۔ اللہ کے نبی … نے اس طرح کے تمام ناموں کو تبدیل فرمایا۔ ابو بکر صدیق کا نام پہلے ” عبدالعزی (عُزّی کا بندہ)“ تھا، اللہ کے نبی نے اس کا نام عبد الرحمن رکھا (مستدرک حاکم: ۶۰۳۲)۔ عزی عرب کا ایک مشہور بت تھا۔ ایک صحابی کا نام ” عبد الحجر (پتھر کا بندہ) “ تھا، اللہ کے نبی نے اس کا نام بدل کر اسے” عبد اللہ “نام رکھا (مصنف لابن أبی شیبہ:۲۶۴۲۱)۔ عبدالرحمن ابن عوف کا نام جاہلیت میں ” عبد الکعبة (یعنی کعبے کا بندہ) “ تھا، تو اللہ کے نبی نے اس کا نام ” عبد الرحمن “ رکھا (المعجم الکبیر:۲۵۲)۔ جاننا چاہیے کہ انسان صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا ہی بندہ اور عبد ہے ؛ لہٰذا اس لفظ کی نسبت اللہ کے کسی نام ہی کی جانب ہونی چاہیے۔ اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی جانب اس کی نسبت درست نہیں۔ مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول … نے فرمایا کہ تم میں ہرگز کوئی اپنے غلام کے سلسلے میں نہ کہے ” عبدی “ یعنی میرا بندہ؛ کیونکہ تم سب کے سب اللہ کے ہی بندے ہو؛ بلکہ کہے ” فَتَایَ “(یعنی میرا نوجوان یا جو لفظ خادم کے مناسب ہو)۔ اور نہ غلام اپنے آقا سے کہے ” رَبِّی“ یعنی میرے رب “، بلکہ کہے: ” سیدی “یعنی میرے سردار (مشکوة عن مسلم:۴۷۶۰)۔ اسی حکم میں عبد الحارث، عبد النبی، عبد المصطفیٰ ہیں، ایسے نام رکھنااور لقب رکھنا، ناجائز اور خلاف شرع ہیں (مرقاة ملخصاً)۔
۳- شیطان اور گمراہ لوگوں کے نام رکھنا ممنوع
ایک آدمی کا نام حُباب تھا۔ اللہ کے نبی … نے اس کا نام عبد اللہ رکھا اور فرمایا کہ حُباب شیطان کا نام ہے (مصنف عبد الرزاق، باب الأسماء والکنی)۔ اسی طرح حضرت عمر نے ایک آدمی کو جس کا نام مسروق بن اجدع تھا، سے کہا کہ اجدع شیطان کا نام ہے(ابو داود)۔ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ حضرت عمر اس سے یہ کہنا چاہتے تھے کہ اگر اس کا باپ زندہ ہے تو اس کا نام بدلے یا اس کو ” اجدع “ کے بجائے ابو مسروق کی کنیت سے پکارے (مرقاة:۹/۲۲)۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام دشمنوں اور گمراہ لوگوں کے نام رکھنا درست نہیں۔ حدیث میں اسے منع کیا گیا ہے، اسی طرح فلمی اداکاروں، گانے والوں اور دیگر فاسقوں کے نام رکھنا بھی شرعاً درست نہیں؛ کیونکہ ان لوگوں کے نام پر نام رکھنا محبت کی دلیل ہے اور شریعت کا ضابطہ ہے : ”الْمَرءُ مع مَن أَحَبّ یَومَ القِیامةِ“ یعنی آدمی روزِ قیامت ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن سے اس نے محبت کی ہو (تحفة المودود لابن القیم، سنن الترمذی:۳۵۳۵)․
فرشتوں اور قرآن کی سورتوں کا نام رکھنا
جہاں تک فرشتوں کے ناموں کا تعلق ہے تو وہ دو قسم پر ہیں، ایک قسم وہ ہے جو فرشتوں اور انسانوں میں مشترک ہیں تو وہ نام رکھنے میں کسی کا اختلاف نہیں؛ لیکن فرشتوں کے کچھ نام انھیں کے ساتھ مخصوص ہیں جیسے جبرئیل، اسرافیل وغیرہ تو ایسے نام رکھنے کے سلسلے میں امام بغوی نے معقول تقریر فرمائی ہے، لکھتے ہیں کی صحابہ و تابعین میں اس نام کا کوئی نہیں ملتا جس نے اپنے بیٹے کا نام فرشتوں کے (مخصوص) نام پر رکھا ہو۔ نیز حضرت عمر اس چیز کو ناپسند کرتے تھے؛ اس لیے یہ مکروہات میں شامل ہے (شرح السنة:۱۲/۳۳۶)۔ امام مالک نے بھی مکروہ لکھا ہے، ساتھ ساتھ ملا علی قاری کی رائے بھی یہی معلوم ہوتی ہے (مرقاة:۹/۱۰)۔ لیکن امام نووی نے لکھا ہے کہ جمہور علماء کے نزدیک فرشتوں کے نام رکھنا بلا کراہت درست ہے۔ (المجموع شرح المہذب: ۸/۴۱۷)۔اس لیے بہتر یہ ہے کہ اس سلسلے میں احتیاط کی جائے، اور اگر کسی نے رکھ لیا ہو اس پر نکیر بھی درست نہیں۔ رہا مسئلہ قرآن اور قرآن کی سورتوں کا نام رکھنا تو اس سلسلے میں حافظ ابن قیم کی عبارت تمام گوشوں کو پر کرتی ہے۔ لکھتے ہیں : ”ومما یمنع منہ التسمیة بأسماء القرآن و سورہ مثل طہ و یٰس وحم، وقد نص مالک علی کراھة التسمیة بیٰس ․ ․ ․ وأما ما یذکرہ العوام أن یس و طہ من أسماء النبی ﷺ فغیر صحیح لیس ذلک فی حدیث صحیح ولا حسن ولا مرسل ولا أثر عن صاحب وانما ھذہ الحروف مثل الم و حم و الر ونحوھا“ یعنی جو نام رکھنے منع ہیں ان کی ایک قسم قرآن(کے مخصوص نام) اور قرآن کی سورتوں کے نام ہیں جیسے طہٰ، یس، حم وغیرہ نام رکھا جائے۔ امام مالک نے اسے مکروہ لکھا ہے اور عوام میں جو بات مشہور ہے کہ یس اور طہ حضور … نے ناموں میں ہیں تو یہ صحیح نہیں، اس سلسلے میں نہ کوئی حدیث ہے نہ صحابی کا اثر موجود ہے (تحفة المودود:۱۸۴، شرح المسلم للنووی: ۱۴/۱۱۷)۔ نیز یہ حروف ہیں جن کا معنی معلوم نہیں ؛ حالانکہ نام میں معنی ہی اس کی اچھائی اور برائی متعین کرتا ہے، تو اس اعتبار سے بھی ان کا نام رکھنا اچھا نہیں؛ لیکن اگر ” یاسین “ (جب کھول کر لکھا جائے) نام رکھا جائے، تو بعض علماء کی تحقیق پر اس کا نام رکھنا درست ہے؛ کیونکہ اس صورت میں یہ قرآن کی سورت کا نام نہیں رہتا (قرطبی: ۱۷/۴۰۸)۔ لیکن بہتر یہی ہے کہ احتیاط کی جائے۔
نام کی تاثیر کا شرعی جائزہ
حضور ِ اقدس … نے ناموں کے حوالے سے جتنی بھی اصطلاحات فرمائی ہیں، ان کا بنیادی مقصد یاتو اسلامی فکرکی ترویج اور اشاعت تھی یا انفرادی اصلاح۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی ایسا نام دیکھتے جو اسلامی عقائد سے میل نہیں رکھتا، اسے تبدیل فرماتے تھے۔ خصوصاً جن صحابہ کے نام شرکیہ معنی کے حامل تھے، حضور … نے ان کا معنی بدل کر عبد اللہ یا عبد الرحمن نام رکھا، جیسے کہ ایک صحابی کا نام عبد الحجر(پتھر کا بندہ) تھا، حضور … نے اس سے فرمایا: تم تو پتھر کے نہیں؛ بلکہ اللہ کے بندے ہو ”اِنَّمَا أَنْتَ عَبْدُ اللّٰہِ “ (مصنف ابن أبی شیبة)۔جس سے صاف ظاہر ہے ان ناموں کے بدلنے کا سب سے بڑا محرک یہ تھا کہ کفر و شرک کی فکر سے کلی طور آزادی ملے۔ اس کے علاوہ دیگر اصلاحات جتنی بھی فرمائی ان میں یا تو تزکیہٴ نفس کا اندیشہ تھا یا وہ نام ایسے معنی رکھتے تھے جو مومن کے شایانِ شان نہیں تھے ، جس کے بارے میں شریعت نے ایک کلیہ بیان کیا کہ اسلام نیک فال کو پسند کرتا ہے اور نیک فال یہ ہے کہ آدمی اچھا کلام سنے۔ ان اصلاحات سے عیاں ہے کہ نام کا انسان کی فکرو نفس پر اپنا اثر رہتا ہے۔ علامہ ابن القیم لکھتے ہیں کہ نام معنی کے کے لیے ایک قالب کی حیثیت رکھتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے روح اور بدن کا تعلق ہے (زاد المعاد:۲/۳۰۸)۔ تونام کے معنی کے اثرات کا انسان کے ذہن پرظاہر ہونا ایک بدیہی امرہے، بالکل ویسے ہی جیسے ایک اعرابی آیا تھا اور مسجد نبوی میں فصیح و بلیغ تقریر کی۔ تم لوگ اس کی تقریر سن کر دم بخود ہوئے تو حضور … نے فرمایا : ”اِنَّ مِنَ الْبَیَانِ لَسِحْرًا“ کہ بعض بیان جادو اثر ہوتے ہیں (ترمذی)۔ اسی طرح جب نام کے معنی اور پس منظر سے واقفیت ہو، تو انسان کے قلب و نفس پر اس کا اثر پڑتا ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء نفس نے نام کی عمدگی کی جانب خصوصی توجہ کی تاکید کی ہے۔ ایک ایسا آدمی جو بلند نسبت یا بلند معنی کا نام رکھتا ہو، تو اگر وہ واقعی باشعور اور با حس آدمی ہے، تو اس کے کردار و سلوک پر اس کا اثر پڑنا کوئی امر بعید نہیں۔ عام حالات میں جب اس نام سے اس کا صحیح خطاب کیا جاتا ہے تو اس کا ایجابی اثر وہ اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔ اس کے برخلاف جس آدمی کا نام سلبی معنی رکھتا ہو، پکارتے وقت وہ نفسیاتی تکلیف کا شکار ہوجاتاہے اور نفس کے واسطے سے اس کا طور طریقہ بھی متاثر ہوسکتا ہے، جس کی زد میں انسان کا عمل اور کام بھی متاثر ہوسکتا ہے اور اگر اس درجہ غیر موزوں ہو جو شرعی قوانین کے خلاف ہو، تو شرعی قوانین کی مخالفت کی وجہ سے کبھی اللہ کے عقاب و عذاب کا بھی شکار ہوسکتا ہے، جیسا کہ مشہور ہے ”اِنَّ الْبلاءَ موٴکل بالمنطق“ یعنی آدمی کو کبھی اپنے بات کی سزا بھی بھگتنی پڑتی ہے۔ امام بخاری نے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ حضور … کے زمانے میں ایک سن رسیدہ آدمی بخار میں مبتلا ہوا، اللہ کے نبی … عیادت کے لیے گئے تو ان کے لیے دعا فرمائی اور کہا : ”لَا بأسَ طَہُوْرٌ اِن شاء اللّٰہ“ یعنی کوئی ڈر نہیں، ان شاء اللہ یہ بیماری گناہوں سے پاکی کا ذریعہ ہوگی، تو اس آدمی نے کہا : نہیں؛ بلکہ یہ کھولتاہوا بخار ہے جو ایک بوڑھے پر آپڑا ہے اور اسے قبر کے قریب کردیا۔ پھر اللہ کے نبی … نے فرمایا کہ تب ایسا ہی ہوگا (جیسا تم سوچتے ہو)، دیگر روایات میں ہے کہ وہ آدمی دوسرے ہی دن مر گیا (بخاری و مجمع الزوائد)۔ نام بھی انسان کا ایک عمل ہے اگر شرعی ضابطہ کے مطابق نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کا موٴاخذہ کر سکتے ہیں؛ لیکن ناموں کی تاثیر کے سلسلے میں فی زمانہ چند ایسے افکار جنم لے چکے ہیں،جو ایمان کی خرابی اور سنگینی میں جاہلیت میں رائج مشرکانہ افکار سے میل کھاتے ہیں۔ ” طیرة “ جاہلیت کا ایسا گناہ ہے، جس پر اسلام نے زبر دست نکیر کی ہے اور اسے مشرکانہ عقائد کی فہرست میں شمار کیا۔ اہل ِ لغت اس کی تعبیر ” بد شگونی “سے کرتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ خیر و شر میں غیر اللہ کو موٴثر سمجھا جائے۔ اللہ کے رسول … نے صاف لفظوں میں فرمایا : لَا طِیَرَة یعنی بدشگونی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں (بخاری و مسلم)۔ ناموں کی تاثیر میں بھی لوگ اسی بد شگونی کے شکار ہیں اور انسان کی بد خلقی، سخت مزاجی اور بد سلوکی وغیرہ کو نام کا ہی نتیجہ قرار دیتے ہیں جو سراسر غلط فکر ہے جس کی اصلاح انتہائی ناگزیر ہے۔ اس سلسلے میں عوام پر تو کیا، ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو عوام کا مالی استحصال تو ہیچ، ایمانی استحصال کرتے ہیں۔ صحیح اور اچھے معنی کے نام ہونے کے باوجود، ان کے بدلنے کی صلاح تو دور، ان کی تبدیلی کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ پیدائشی تاریخ کو اصل قرار دے کر علم الاعداد اور علم نجوم وغیرہ سے انسان کی قسمت کو متعین کرتے ہیں اور حوالے دیتے ہیں کہ فلاں نام بھاری ہے یا بھاری پڑے گا وغیرہ۔ اسلام میں ان چیزوں کا کہیں بھی تذکرہ نہیں۔ بس یہ چیزیں سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانے کا ایک گھناوٴنا حربہ ہے علمائے اسلام نے سخت لہجے میں ان چیزوں کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ یاد رکھیے کہ اچھی سوچ، اچھی فکر، اچھی توقع اور اچھی امید کا فائدہ ملتا ہے، گندی سوچ، گندی فکر، نا امیدی کا وبال آتا ہی ہے اس کے لیے کسی خاص زاویہ کی تخصیص نہیں۔ حدیث قدسی ہے : ”أَنَا عِندَ ظَنِّ عَبدِیْ بِیْ، فَلَا یَظُنُّ بِیْ اِلَّا خَیرًا“ یعنی میں اپنے بندے کے میرے متعلق گمان کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں ؛ اس لیے بندے کو چاہیے کہ میرے ساتھ اچھا گمان رکھے (مسلم)۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر اچھی آرزو رکھے، فرمایا: ”اِنَّ أَحَدَکُمْ لَا یَدْرِیْ مَایَکْتُبُ لَہ مِنْ أُمْنِیَّتِہ “ کہ تم کو نہیں معلوم کہ تمہاری آرزو پر کیا لکھا جائے (مسند لأحمد)۔ اس سے معلوم ہوا کہ اچھا سوچنا اور اچھا مطلب نکالنا شریعت کا عمومی سبق ہے۔
ناموں کے احکامات کا خلاصہ
کوئی بھی نام رکھنا جائز ہے اگر شرعی اصولوں کا لحاظ کیا جائے۔کسی صالح انسان سے مشورہ کرکے نام رکھنا چاہیے، کئی صحابہ نے حضور … سے پوچھ کر اپنے بچوں کے نام رکھے۔ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کے شروع میں ” عبد “ لگا کر نام رکھنا مستحب ہے، جیسے عبد اللہ، عبد الرحمن، عبد الرب وغیرہ۔ انبیاء اور صالحین کی نسبت پر نام رکھنا مستحب ہے اور ان ناموں میں نسبت ہی اصل ہے، معنی اصل نہیں۔ بقول ابن قیم ، کبھی اچھا نام ہی بُرائی کرنے سے مانع بنتا ہے (تحفة المودود:۲۱۳)۔ صحابہ، تابعین، محدثین و فقہاء امت کے صالح ترین ہیں۔ نام کا معنی شرعی طور پر اچھا ہونا چاہیے۔ عاجزی اور انسان کی حقیقت کا اظہار کرنے والے نام رکھنا مستحب ہے ؛ کیونکہ عبدیت والے نام اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں۔ حارث اور ہمام جوکہ انسان کی حقیقت کا اظہار کرتے ہیں ان کو حدیث میں سچا نام قرار دیا گیا۔ نام کا معنی اچھا ہونا چاہیے۔ علامہ ماوردی نے اچھے نام کی چند خصوصیات بیان کی ہیں، لکھتے ہیں : نام کم حروف کا ہو، پڑھنے میں آسان ہو، الفاظ آسان ہوں، سننے میں اچھا لگے، معنی اچھا ہو، انسان کی ذات کے مناسب ہو اور اس نام کا مسلم طبقے اور ہم مرتبہ طبقے میں رواج ہو (تحفة الملوک ۱۶۷)برے معنی کا نام رکھنے سے احتیاط کرنی چاہیے۔ اچھے نام پر اترانا اور تکبر کرنا جائز نہیں۔ اگر عاجزی کی بنا پر اپنے نام ایسے رکھے جس کا معنی اچھا نہ ہو تو درست ہے جیسے کہ بہت سے صحابہ اور محدثین کا نام اسود تھا؛ لیکن زیادہ برے معنی کا نام رکھنا مکروہ ہے۔ اللہ کے مخصوص نام رکھنا حرام ہے۔ اسی طرح نبی … کا مخصوص نام رکھنا بھی حرام ہے جیسے کسی کا نام ” سید الکل، سید ولد آدم “ وغیرہ (موسوعہ)۔اللہ اور انبیاء کے ناموں کو بگاڑ کر پکارنا گناہ کبیرہ ہے۔ شرکیہ نام رکھنا حرام ہے۔ شیطانوں اور فرعونوں کا نام رکھنا مکروہ تحریمی ہے۔ فرشتوں کے مخصوص نام، قرآن کے مخصوص نام اور قرآن کی سورتوں کے نام میں احتیاط کرنی چاہیے۔ نام مکمل اور سلیقے سے پکارنے چاہیے ؛ تخفیف کرکے بگاڑنا درست نہیں۔ جن ناموں کا مسلم معاشرے میں رواج نہیں ؛ وہ نہ رکھنا بہتر اور اولی ہے۔ (رد المحتار:۹/۵۹۹)
لمحہٴ فکریہ
ناموں کا یہ اسلامی نظام انتہائی جامعیت کا حامل ہے، جس کا صحیح اندازہ ایک باشعور اور روح ِ ایمانی سے معمور انسان کو بخوبی ہوسکتا ہے۔ اس کے اندار کتنی نزاکت، کتنی گہرائی اور کتنی اہمیت ہے، اسلام کو پسند کرنے والا کبھی بھی ان کو نظر انداز نہیں کرسکتا؛ لیکن موجودہ وقت میں لوگ ایسے نام اور القاب دینے لگے ہیں، جو غیر مسلم قوموں کی طرز ِ معاشرت کے عکاس ہیں جیسے سویٹی، بیوٹی، پرنس وغیرہ۔ اس میں زبانی طور پر تو نہیں؛ لیکن عملی طور پر اسلامی تہذیب سے بیزاری پائی جاتی ہے، جوکہ امتِ اسلامیہ کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ایک دانشور مسلمان کو ایک بار سنجیدہ ہوکر سوچنا چاہیے کہ کسی غیر اسلامی اور فاسق شخص سے متأثر ہوکر جب وہ اپنے لیے نام یا لقب کا انتخاب کرتا ہے یا والدین اپنے بچے کے لیے ایسے نام کا انتخاب کرتے ہیں، تو کل اگر محشر کے دن اللہ تعالیٰ نے سوال کیا کہ میرے نیک اور صالح بندوں میں کسی کا نام تجھے پسند نہیں تھا ؟ تو اس آدمی کا کیا جواب ہوگا، حدیث میں تو آیا ہے کہ ہمارا رب ہم کو ہمارے نام ہی سے پکاریں گے۔ تو اگر ہم نے کسی غیر مسلم ثقافت سے متأثر ہوکر نام یا لقب کا انتخاب کیا ہو تو کل اس طرح بھی سوال ہوسکتا ہے کہ کیا اسلامی ثقافت ختم تھی ؟ یا دینِ اسلام سے محبت نہیں تھی ؟ تو ان سوالات کا ہمارے پاس کیا جواب ہوسکتا ہے ؟ اس لیے اس معاملے پر خوب غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دینِ اسلام کی محبت نصیب فرمائے! (آمین)۔
—————————————–
دارالعلوم ، شمارہ : 4، جلد:102، رجب-شعبان ۱۴۳۹ھ مطابق اپریل ۲۰۱۸ء
# # #