از: مولانا محمدتبریز عالم حلیمی قاسمی
مدرس دارالعلوم حیدرآباد
تیرھویں صدی میں جب کہ انگریز ہندوستان میں برسرِ اقتدار آگئے اور اپنے ساتھ ساتھ فلسفہٴ جدید اور سائنس کی ترقیات لے کر نمایاں ہوئے، اور سائنس نے مادہ کی ہزارہا سربستہ راز دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیے، جس کی وجہ سے دنیا مخفی اور پنہاں چیزوں کا مشاہدہ کرنے کی عادی ہوگئی اور دنیا عقلی نظریات اور معقولات سے گذر کر محسوسات ومشاہدات کی گرفت میں آگئی تو قدرتی طور سے پرانے نظریات میں انقلاب رونما ہوا، اب اس کے یہاں کوئی شرعی دعوی اس وقت تک قابلِ سماعت نہیں رہا؛ جب تک کہ وہ معقولات کے ساتھ محسوس شواہد سے محسوس کرکے نہ پیش کیا جائے اور اِس طرح سے اسلامی حصار پر عقلی نظریات کے بجائے حسی مشاہدات سے حملے شروع ہوئے۔
اِس ضرورت کی تکمیل کے لیے حق تعالیٰ کی فیاض قدرت نے شمس الاسلام حجۃ اللہ فی الارض حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی قدس سرہ بانیِ دارالعلوم دیوبند کو اس دور کے طبعیاتی رنگ کے امراض اور جراثیم کے معالجہ کے لیے بطور طبیب اور مصلحِ امت کے ظاہر فرمایا اور آپ نے اپنی تقریر اور تحریر کے ذریعہ ان بندگانِ سائنس ومشاہدات کے دماغوں کو انھیں کے مسلمات سے جھنجھوڑا اور منکرینِ اسلام کے عقلی اعتراضات کے جہاں خالص عقلی دلائل کی روشنی میں جوابات دئیے وہیں ان جوابات کو آج کے محسوسات اور حسی شواہد ونظائر سے مدلل فرمایا جو اُس دورکا اہم تقاضاتھا۔(۱)
حضرت نانوتوی کا مشن
حضرت حجۃ الاسلام نے منکرینِ اسلام کے عقلی اعتراضات کے جو جوابات دئیے اور ان کا کامیاب تعاقب کیا، در حقیقت یہ آپ کی زندگی کا اصل مقصد تھا؛ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ جب دینِ اسلام کا تقاضہ ہوتا تھا تو آپ کے فضل وکمال پر جتنے حجابات پڑے رہتے تھے، وہ یک بیک اٹھ جاتے تھے پھر شرعی جوابات کی ضرورت ہو یا عقلی؛ سب حاضر؛ وہ بھی اِس طرح کہ احساسِ فضل وکمال او رہمہ دانی کے غرور سے تنی ہوئی گردنیں بھی آپ کے سامنے خم ہوجاتی تھیں، تاریخ اس کی شاہد ہے، مختلف ادیان سے مناظرے کے بعد حضرت حجۃ الاسلام نانوتوی کے تئیں حضرت مولانا یعقوب نانوتوی (م:۱۳۰۲ھ مطابق۱۸۸۴ء) کاتأثر پڑھیے۔
”اب مجھے مولانا کی وفات قریب معلوم ہوتی ہے؛ کیوں کہ حق تعالیٰ کو ان سے جو کام لینا تھا وہ پورا ہوچکا اور وہ یہ تھا کہ تمام مذاہب کے جتھے میں اسلام کی ایک منادی ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کی حجت بندوں پر پوری ہوجائے“۔(۲)
حضرت نانوتوی کی دور رس نگاہیں
اوپر کے اقتباس سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ حضرت حجۃ الاسلام کی زندگی کا مشن کیا تھا؟اِس کے ساتھ ساتھ تاریخ شاہد ہے کہ ان عقلی اعتراضات کے جوابات سے حضرت حجۃ الاسلام کا مقصد ایسے رجالِ کارپیدا کرنا بھی تھاجواِس ملک میں اسلام کو درپیش خطروں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے آپ کووقف کرسکیں، اسلام کے تحفظ وبقا اور دفاع کا جوش اور ولولہ ان کے دلوں میں ہو اور دفاعِ اسلام کی راہ میں ہر طرح کی جانی ومالی قربانیاں دینے کے لیے تیار ہوں؛ چنانچہ حضرت حجۃ الاسلام کی تحریرات نے آنے والی نسلوں کے لیے کتنی راہیں کھول دیں اور عقلیات کے تعلق سے کتنے کام ہوئے اور ہورہے ہیں، سب اسی تحریک ِقاسمی کی کڑیاں ہیں،حضرت نانوتوی نے ایک چراغ جلایا، جس سے نہ جانے کتنے چراغ جلے، بڑھے اور عالمِ اسلام کو روشن کیا، ورنہ ۱۸۵۷ء کے حالات نے ہندوستان میں ساری بساط ہی الٹ دی تھی۔(۳)
حضرت نانوتوی کا علمی مقام
حضرت نانوتوی نے منکرینِ اسلام کے عقلی اعتراضات کے جو جوابات دیے ہیں،ان میں تحقیقی نکات، تجزیاتی معلومات اور استدلالی لطائف اور مسکت طرزِ استدلال اور عام فہم مثالوں کا جو حسین سنگم ملتا ہے، وہ انھیں کا حصہ ہے، معقولات ومحسوسات کے ذریعہ گفتگو کرنے والوں کی تعداد کم نہیں؛ لیکن ایسے لوگ جن کی معقولیت کا جادو سرچڑھ کر بولے بہت کم ہیں، حضرت حجۃ الاسلام کو اِس میدان میں ”ہراول دستہ“ کی حیثیت حاصل ہے،یہ ایک یقینی امر ہے کہ عقلیات کے مسلمات کے لیے نقلیات پر گرفت از حد ضروری ہے؛ اِسی لیے حضرت حجۃ الاسلام کا نظریہ تھا کہ عقل کی کوئی بات قرآن وحدیث کے خلاف نہیں ہونی چاہیے، حضرت حجۃ الاسلام کو نقلیات پر کتنی گرفت تھی؟ آپ کے جوابات کے بنیادی عناصر کیا تھے؟ بہتر ہے کہ اِس پس منظر کے لیے چند اقتباسات نقل کردیے جائیں۔
”سفینہٴ رحمانی“ فارسی زبان میں نثر کا نہایت عمدہ شاہ کار ہے، کتاب کے موٴلف نے حجۃ الاسلام کے تئیں جو کچھ لکھا وہ مبنی برحقیقت ہے:
”بیشہٴ فضل وکمال کے شیر؛ گلزارِ عشقِ الٰہی کی خوشبو؛بستانِ طریقت وشریعت کی شمع؛ آسمانِ حقیقت ومعرفت کے خورشید؛ عالم کامل اور جودوسخامیں رشک ِ حاتم جناب حضرت مولوی محمد قاسم صاحب(اللہ ان کی قبر منور فرمائے) قصبہٴ نانوتہ کے برگزیدہ علماء وفضلاء میں سے تھے، طرح طرح کے علوم کی منزلیں اور قسم قسم کے فنون کے رموز کے نشیب وفراز انھوں نے اپنی خداداد ہمت واستعداد سے کامل طور پر طَے کیے تھے، انھیں کانِ علوم اور مخزنِ فنون کہنا چاہیے․․․․“(۴)
”حدائق الحنفیہ“: علماءِ حنفیہ کااردو زبان میں نہایت مستند ومشہور تذکرہ ہے، مولفِ کتاب نے حجۃ ا لاسلام کا ذکر یوں کیا ہے:
”علامہ عصر، فہامہٴ دہر، فاضلِ متبحر، مناظر، مباحث، حسن التقریر، ذہین، معقولات کے گویا پتلے تھے، آپ لڑکپن ہی سے ذہین، طباع، بلند ہمت، تیز، وسیع حوصلہ، جفاکش اورجری تھے، مکتب میں اپنے ساتھیوں میں ہمیشہ اول رہتے تھے․․․․“
آگے لکھتے ہیں:
”اور اِس طرح مضامین بیان فرماتے کہ نہ کسی نے سنے، نہ سمجھے اور عجائب وغرائب تحقیقات ہر فن میں کرتے جس سے تطبیق اختلافات اور تحقیق ہر مسئلہ کی بیخ وبُن تک ہو، ہوجاتی تھی“۔(۵)
شیخ العرب والعجم قطب الاقطاب حضرت حاجی امداد اللہ نورہ اللہ مرقدہ (م:۱۳۱۷ھ) جو حضرت حجۃ الاسلام کے پیرومرشد ہیں ان کا قولِ فیصل پڑھیے، وہ لکھتے ہیں:
”اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو ایک لسان عطا فرماتا ہے؛ چناں چہ حضرت شمس تبریز کے واسطے مولانا رومی کو لسان بنایا تھا اور مجھ کو، مولانا قاسم لسان عطا ہوئے ہیں اور جو میرے قلب میں آتا ہے، مولوی صاحب اس کو بیان کردیتے ہیں“۔(۶)
حضرت نانوتوی کی تصانیف میں جا بجا آپ کے محدثانہ ذوق اور رسوخ فی العلم کی جھلکیاں ملتی ہیں، آخر کچھ تو بات تھی کہ تحشیہٴ بخاری کی خدمت آپ کے سپرد کی گئی، حضرت حجۃ الاسلام کے تئیں مذکورہ بالا شہادتوں اور ان کی علمی وتحریری خدمات کا ا گر تجزیہ کرکے نتیجہ نکالا جائے تو کچھ یوں خلاصہ نکلتا ہے کہ آپ کے علم میں وسعت سے کہیں زیادہ ”عمق“ اور کمیت سے زیادہ ”کیفیت“ ہے، اگر چہ ان کی تصانیف کے صفحات کی تعداد کم ہو؛ لیکن علوم ومعارف کا جو فیضان ہے ان کے لیے صفحات ناکافی ہیں، ان تصانیف کی زبان اگر چہ عربی نہیں ہے؛ لیکن انداز ایسا کہ علماء یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ان کے علوم ومعارف کسبی کم، وہبی زیادہ تھے اور تواضع، کسرِنفسی اور للہیت وخلوص کی مثال آپ تھے، حضرت حجۃ الاسلام کی وفات پر سرسید(۱۸۱۷ء تا۱۸۹۸ء )نے جو تعزیتی تحریر لکھی تھی اس کا ایک پیراگراف بہ طور دلیل کے پڑھیے:
”اس زمانہ میں سب لوگ تسلیم کرتے ہیں اور شاید وہ لوگ بھی جو ان سے بعض مسائل میں اختلاف کرتے تھے، تسلیم کرتے ہوں گے کہ مولوی محمد قاسم اِس دنیا میں بے مثل تھے، ان کا پایہ اس زمانہ میں شاید معلوماتِ علمی میں شاہ عبد العزیز سے کچھ کم ہو؛ اِلاّ اور تمام باتوں میں ان سے بڑھ کر تھا، مسکینی ، نیکی اور سادہ مزاجی میں اگر ان کا پایہ مولوی محمد اسحاق سے بڑھ کر نہ تھا تو کم بھی نہ تھا، در حقیقت فرشتہ سیرت اور ملکوتی خصلت کے شخص تھے“۔(۷)
یہ چند اقتباسات اِس لیے گوارہ کیے گئے؛تاکہ یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ معقولات ومحسوسات کا فن ایسا بھی نہیں ہے کہ ہر کس وناکس اس میں طبع آزمائی کرسکتا ہے؛ بلکہ عقلیات کے فن کے لیے -سچی بات یہ ہے کہ -جملہ اسلامی علوم وفنون پر مکمل دسترس کا ہونا امرِ ناگزیر ہے ورنہ بجائے عقل کو دین کے تابع کرنے کے، انسان دین کو عقل کے تابع بنا سکتا ہے، جس میں گمراہی کے خطرات یقینی ہیں، حضرت حجۃ الاسلام سے قدرت نے اول الذکر کام لیا جس کی وجہ سے انھیں جملہ علوم وفنون سے نوازا گیا اور عقلی اعتراضات کے جو جوابات امت کے سامنے آئے، وہ اِس بات کے غماز ہیں کہ ان کا علم خدادادتھا، حاضر جوابی آپ کی فطرت کا حصہ تھی، علمِ کلام تو جیسے آپ کا خانہ زاد تھا؛ اسی صلاحیت کی وجہ سے حضرت اپنا نقطئہ نگاہ مثالوں سے اتنا واضح فرمادیتے تھے کہ اہلِ علم کے علاوہ عوام وخواص بھی جوابات کی اہمیت اور اس کے وزن کو سمجھ جاتے تھے؛ چوں کہ تمثیلات روز مرہ کی زندگی کے حالات وکوائف سے پیش کی جاتی تھیں؛ اِس لیے ہر شخص کو اسے تسلیم کیے بغیر کوئی چارئہ کار نہیں رہ جاتا۔
مولانا نظام الدین اسیر ادروی لکھتے ہیں:
”دشمنانِ اسلام: عیسائی اور آریہ نے جو جارحانہ اندازِ بیان اختیار کررکھا تھا، ان کا جواب وہی عالم بہتر طور پر دے سکتا تھا جو علمِ کلام سے خوب واقف ہو، خود حضرت نانوتوی نے اِسی حربہ سے کام لے کر ا دیانِ باطلہ کے بڑے بڑے مدعیانِ علم وفن کے ایسے پرخچے اڑائے کہ دوبارہ آپ کا سامنا کرنے کی ان میں ہمت نہ تھی، واقعات اس کے شاہد ہیں“۔(۸)
اعتراضات وجوابات کی جھلکیاں
مذکورہ تمہیدات وتفصیلات کے بعد چند عقلی اعتراضات اور حضرت حجۃ الاسلام کی طرف سے دیے گئے جوابات کا تذکرہ مناسب ہے؛ تاکہ بصیرت کے ساتھ ان جوابات کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکے۔
(۱) گوشت خوری سے متعلق اعتراضات
(الف) ہندوٴں کا بڑا اعتراض یہ تھا کہ جانوروں کو ذبح کرنا اور ان کو بوٹی بوٹی کاٹنا ظلم ہے وہ اسے ”جیوہتیا“(جان مارنا) کہتے تھے، حضرت حجۃ الاسلام نے اس کے جواب میں ”تحفہٴ لحمیہ“ نامی ایک مختصر؛ مگر جامع رسالہ لکھا اور عام فہم زبان میں یہ ثابت کیا کہ اسلامی طریقہٴ ذبح ظلم نہیں ہے، اگر جانوروں کا ذبح کرناظلم ہوتا تو ساری دنیا میں گوشت خوری عام نہ ہوتی، صرف ایک ہندو قوم کے کہنے سے یہ ظلم نہیں ہوسکتا اور اگر ذبح کرکے گوشت کھانا ظلم ہے تو جانوروں کی کھال کا جوتا پہننا، ان کی ہڈیاں اور دیگر اجزا کا استعمال کرنا، جانوروں کو باندھ کر رکھنا، ان پر سواری کرنا، بوجھ لادنا، سرکشی کرنے پر مارنا، اس سے بڑا ظلم ہے، پھر حضرت حجۃ الاسلام نے عوام کی زبان میں محسوس طریقہ پر سمجھایا:
ہم پوچھتے ہیں کہ اگر کوئی بادشاہ کسی ادنیٰ سے نوکر کو کچھ میٹھائی یا روٹی وغیرہ عنایت کرے اور فرمائے کہ کھاوٴ اور وہ بایں خیال کہ اگر کھاوٴں گا تو یہ بادشاہ کی چیز ہے، اس کی ہیئت بگڑ جائے گی، ٹکڑے ٹکڑے اور پارہ پارہ ہوکر خراب ہوجائے گی اور پیٹ میں جاکر کچھ کا کچھ بن جائے گا، انکار کردے اور نہ کھائے او رغنیمت سمجھ کر سر اورآنکھوں پر نہ دھرے؛ بلکہ الٹا پھیردے تو اس بادشاہ کو کیا اچھا معلوم ہوگا؟(۹)
(ب) آریوں کاایک اعتراض جانوروں کی حلت وحرمت کے سلسلہ میں تھا کہ اگر جانور دعا پڑھنے سے حلال ہوجاتے ہیں تو سب جانور حلال ہوسکتے ہیں اور اگر دعا پڑھنے سے حلال نہیں ہوتے توخود مراہوا جانور کیوں حلال نہیں سمجھتے مردہ جانوروں کو بھی کھانا چاہیے؟
حضرت حجۃ الاسلام نے پہلے اعتراض کو ا نھیں پر پلٹ دیا اور فرمایا: خلاصہ درجِ ذیل ہے:
”مہا بھارت کی فصل سوم میں جو مرقوم ہے کہ جن جانوروں کے قتل کے وقت وید پڑھاجائے تو ان کا گوشت پاک ہے اور وہ انھیں لوگوں میں داخل ہے جس نے حیوانات کو ترک کر دیااور جن حیوانات کے قتل کے وقت وید نہ پڑھا جائے تو وہ روانہیں، پنڈت جی بتائیں اگر وید کی وجہ سے یہ وصف ہے تو سب ہی جانور حلال ہوسکتے ہیں اور اگر وید کی وجہ سے یہ وصف نہیں تو مردار کو حلال کیوں نہیں سمجھتے“؟
حضرت حجۃ الاسلام نے دوسری شق کا جواب یوں دیا، الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ خلاصہ پڑھیے:
”ہماری شریعت میں ذبح کے وقت جو دعا پڑھی جاتی ہے وہ بالذات موٴثر ہے جیسے سورج آئینہ کو روشن کردیتا ہے، اگر آفتاب نہ ہو توآئینہ روشن نہیں ہوسکتا؛ اِس لیے سورج موٴثِّر اور آئینہ متأثَّر، اسی طرح اللہ کا ذکر بوقتِ ذبح موٴثِّر ہے اور جانور متأثَّر ہوتا ہے، اگر موٴثِّر نہ پایا جائے یا متأثَّر میں تاثُّر کی صلاحیت نہیں ہے تو جانور حلال نہیں ہوسکتا، مردار جانور حرام ہوتا ہے اور حرام جانوروں میں متأثَّر ہونے کی صلاحیت نہیں؛ اِس لیے وہ حرام ہی رہتا ہے، دعا پڑھنے سے حلال نہیں ہوسکتا“۔(۱۰)
(ج) ایک مرتبہ پنڈت دیانند سرسوتی نے یہ کہا کہ گوشت کے اعتبار سے سارے جانور برابر ہیں جیسے گائے کا گوشت حلال ہے ویسے ہی خنزیر کا گوشت بھی حلال ہونا چاہیے اور اس نے مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے لیے ایک شعر پڑھا۔
”ماس ماس برابر جیسی گائے ویسی سور“
اِس کے جواب میں عموماً یہ لکھا جاتا ہے اور خود حضرت حجۃ الاسلام نے ”تحفہٴ لحمیہ“ میں لکھا بھی ہے کہ ناپاک جانوروں میں ان کی جِبلی خصوصیات کا اثر ہوتا ہے، جو لوگ خنزیر کھاتے ہیں ان میں خنزیر ہی جیسی برائیاں پیدا ہوجاتی ہیں؛ لیکن حضرت حجۃ ا لاسلام نے مذکورہ شعر کا برجستہ شعر پڑھ کر جواب دیا اور سب کو لاجواب کردیا فرمایا:
”عورت عورت برابر جیسی بیوی ویسی مادر“
یعنی اگر یہی فلسفہ ہے تو گھر کی عورتوں میں ماں، بہن اور بیوی کا فرق کیوں ہے؛ جب کہ سب برابر ہیں۔(۱۱)
(۲) کیا استقبالِ قبلہ، قبلہ کی پرستش ہے؟
آریوں کا مسلمانوں پر یہ الزام تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی بُت پرست قوم مسلمان ہیں؛ کیوں کہ دنیا کے سارے مسلمان خانہٴ کعبہ کی پرستش کرتے ہیں اور اسی کے سامنے سجدہ کرتے ہیں؟
حضرت حجۃ الاسلام نے اِس ا عتراض کے جواب میں ”قبلہ نما“ نامی پوری کتاب لکھی، مولانا اسیر ادروی نے اس کے متعلق لکھا ہے:
”حقیقت یہ ہے کہ یہ پوری بحث عام کتابی علم کی محدود روشنی میں ممکن ہی نہیں، کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے قلب پر فیضانِ علمِ الٰہی کا ترشح ہورہا ہے اور وہ آنکھیں بند کیے ہوئے سارے حقائق کو دیکھ رہے ہیں، قلم، الفاظ وحروف کے نقوش بنانے میں مصروف ہے، خود حضرت نانوتوی کو بھی اس کا احساس تھا کہ یہ بلند مضامین فہمِ ا نسانی کی قوتِ گرفت سے کچھ زیادہ ہی بلند ہیں“۔(۱۲)
مذکورہ کتاب سے چند جوابات نقل کیے جاتے ہیں:
۱- دنیا جانتی ہے کہ مسلمان کعبہ کو بیت اللہ یعنی خدا کا گھر کہتے ہیں، کعبہ کو خدا نہیں کہتے، جب کوئی کسی کے گھر جاتا ہے تو مکان سے ملنے نہیں جاتا؛ بلکہ مکین سے ملنے جاتا ہے، اسی سے سلام کلام کرتا ہے، بادشاہ کے دربار میں جاتے ہیں تو شاہی محل کو سلام نہیں کرتے، بادشاہ کے سامنے جھکتے ہیں، زمین پر سجدہ ریز ہوجاتے ہیں؛ کیوں کہ بادشاہ ہی کی خوشنودی مطلوب ہوتی ہے، مسلمان بھی کعبہ نہیں، ربِ کعبہ کے سامنے جھکتا ہے، اسی کو سجدہ کرتا ہے اور ہندو تو اپنے بتوں کو خانہٴ خدا کبھی نہیں کہتے اور نہ سمجھتے ہیں؛ بلکہ اسی بت کو خدا کہتے ہیں۔
۲- اگر مسلمانوں کی عبادتوں میں کعبہ پرستی ہوتی تو جیسے بُت پرستی کے وقت بتوں کا سامنے ہونا ضروری ہے ویسے ہی دیوارِ کعبہ کا سامنے ہونا بھی ضروری ہوتا؛ حال آں کہ ادائے نماز وحج کے لیے دیواروں کا ہونا شرط نہیں ہے۔
۳- اہلِ اسلام کعبہ کو اپنے حق میں مختارِ نفع وضرر نہیں سمجھتے؛ بلکہ حضرت محمد رسو ل اللہ کو کعبہ سے افضل سمجھتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر نہ کوئی انسان ہوسکتا ہے، نہ فرشتہ، نہ عرش اور نہ کرسی، اس کے باوجود مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش نہیں کرتے، اگر اللہ کے سوا کسی کی عبادت روا ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوتی، جب مسلمانوں نے ان کو بھی عبد ہی مانا معبود نہیں مانا تو خانہٴ کعبہ کو اپنا معبود کیسے مان سکتے ہیں؛ جب کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل بھی نہیں ہے اور بُت پرست تو اپنے معبودوں کو مختارِ نفع وضرر اور عابدوں سے افضل سمجھتے ہیں۔ (۱۳)
یہ چند جوابات بہ طور مثال کے تھے، ورنہ حضرت نے استقبالِ قبلہ کے سلسلے میں جو متکلمانہ گفتگو کی ہے، معبود اور تجلی گاہِ معبود کو سمجھایا ہے؛ وہ آپ ہی کا حصہ ہے، مولانا اسیر ادروی نے لکھا ہے:
”اِس جواب میں آپ کے بحرِ علم کی طغیانی وتموج کا مشاہدہ ہوتا ہے، سیکڑوں تمثیلات، مشاہدات وتجربات، حقائقِ زندگی، روزمرہ کے واقعات کے شواہد سے اس کی وضاحت پھر اس کے نتائج، پھر ان سے استدلالات کا ایک طوفان خیز سیلاب ہے جو ۶۰ صفحات تک پھیلتا چلا گیا ہے، اصل بحث کتاب ہی میں دیکھی جاسکتی ہے، اس کی تلخیص اس لیے مشکل ہے کہ ترتیب ِ مقدمات اگر کئی صفحات تک چلی گئی ہے تو اس سے نتائج کی تفصیل کے لیے بیسیوں صفحات ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ ان کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے سمجھایا نہیں جاسکتا“۔(۱۴)
(باقی اگلے ماہ)
# # #
حوالہ جات
(۱) حکمت ِ قاسمیہ قاری محمد طیب صاحب، ص:۲۴-۱، شعبہٴ نشرواشاعت دارالعلوم دیوبند
(۲) حضرت نانوتوی اور خدماتِ ختمِ نبوت،مولانا محمد سیف الرحمن قاسم،ناشر:جامعۃ الطیبات للبنات الصالحات، گوجرانوالہ، ص:۲۵
(۳) مولانا محمد قاسم نانوتوی- حیات اور کارنامے،مولانا اسیر ادروی،شیخ الہند اکیڈمی دیوبند، ص:۱۵۹، سن ا شاعت:۱۹۹۵ء
(۴) سفینہٴ رحمانی،حافظ عبد الرحمن، ص:۱۱۹، مطبع نول کشور لکھنوٴ، سن ا شاعت:۱۸۸۴ء
(۵) حدائق الحنفیہ، مولانا فقیر محمد جہلمی، ص:۴۹۲، مطبع نول کشور لکھنوٴ، سن تالیف:۱۸۸۰ء
(۶) قاسم العلوم والخیرات،سید نفیس الحسینی، ص:۵، ناشر: سید احمد شہید اکادیمی لاہور بحوالہ انوار العاشقین، ص:۸۷
(۷) موجِ کوثر،شیخ محمداکرام، ص:۳۶۷، ادبی دنیا مٹیا محل دہلی(۱۹۹۱ء)
(۸) مولانا محمد قاسم نانوتوی- حیات اور کارنامے، ص:۱۵۹، شیخ الہند اکیڈمی دیوبند
(۹) تحفہ لحمیہ،مولانا محمد قاسم نانوتوی، ص: ۸، کتب خانہ اعزازیہ دیوبند
(۱۰) انتصارالاسلام،مولانا محمد قاسم نانوتوی، ص:۸۳، تسہیل:مولانا اشتیاق احمد، شعبہٴ نشرواشاعت دارالعلوم دیوبند ۱۹۸۸ء
(۱۱) الامام محمد قاسم نانوتوی، حیات، افکار، خدمات، ص:۸باہتمام: تنظیم ابنائے قدیم دارالعلوم دیوبند، نئی دہلی ۲۰۰۵ء
(۱۲) مولانا محمد قاسم نانوتوی- حیات اور کارنامے ص:۴۰۵
(۱۳) اختصار: قبلہ نما،مولانا محمد قاسم نانوتوی، ص:۲۴۶، تسہیل: مولانا اشتیاق احمد، مکتبہ دارالعلوم دیوبند ۲۰۱۳ء
(۱۴) مولانا محمد قاسم نانوتوی-حیات اور کارنامے ص:۴۰۴، شیخ الہند اکیڈمی دیوبند
—————————————
دارالعلوم ، شمارہ : 3، جلد:102، جمادی الآخرہ-رجب ۱۴۳۹ھ مطابق مارچ ۲۰۱۸ء
# # #