اہل السنۃ و الجماعۃ کی بارہ اہم علامتیں (وصایا امام اعظم امام ابوحنیفہؒ سے)

ترجمہ:مدثر جمال تونسوی

اُستاذ الحدیث جامعہ الصابر، بھاول پور

            امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ (متوفی۱۵۰ھ) کی مختلف وصیتیں ہیں جو ان کے مختلف شاگردوں سے منقول ہیں۔ اس وقت جس وصیت کا ترجمہ پیش کرنا مقصود ہے، یہ وصیت عقائد کے موضوع سے تعلق رکھتی ہے اور یہ وصیت امام صاحب کے نامور شاگرد امام ابویوسف یعقوب بن ابراہیم رحمہ اللہ تعالیٰ (متوفی۱۸۲ھ) کی روایت سے نقل ہوئی ہے۔ اس میں امام صاحب نے اہل السنۃ و الجماعۃ کی بارہ علامات بیان فرمائی ہیں، ا گرچہ مزید غور سے دیکھا جائے تو ہر علامت متعدد مضامین پر مشتمل ہونے کی وجہ سے عقائد کے یہ مضامین بارہ سے زیادہ بن جاتے ہیں؛ مگر ہم نے امام صاحب کے بیان کے موافق ان علامات کو بارہ کے عدد سے ہی ذکر کیا ہے اور جس قدر مضمون ایک علامت کے تحت امام صاحب کی اس وصیت میں درج ہے ہم نے بھی اسی طرح اس کو باقی رکھا ہے۔

             اس وصیت کی ایک معروف شرح مصر کے معروف حنفی فقیہ و اصولی علامہ اکمل الدین محمد بن محمد البابرتی حنفی (متوفی ۷۸۶ھ) نے تحریر کی ہے۔ جسے عصرحاضر میں الدکتور محمد صبحی عایدی اور الدکتور حمزہ محمد وسیم البکری نے تحقیق وتخریج اور تعلیق کے ساتھ شائع کیا ہے۔اور یہ نسخہ دارالفتح، اردن سے شائع ہوا ہے۔

            اسی شرح کے آغاز سے قارئین کی سہولت کے لیے وصیت کا متن الگ سے بھی شامل کیاگیا ہے۔ بندہ ناچیز نے اسی متن کو سامنے رکھ کر اس کا عام فہم ترجمہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے فضل سے قبول فرمائیں۔

آغاز ترجمہ

            میرے دوستو اور میرے بھائیو !جان لو کہ اہل السنۃ و الجماعۃ کی بارہ علامتیں ہیں، جو ان پر استقامت کے ساتھ قائم رہے گا وہ نہ تو بدعتی شمار ہوگا اور نہ ہی خواہش پرست۔لہٰذا تم ان بارہ باتوں پر مضبوطی سے قائم رہو؛ تا کہ سیدنا محمد علیہ الصلاة و السلام کی شفاعت کے حق دار بن سکو۔

پہلی علامت

            ایمان زبان سے اقرار کرنے اور دل سے تصدیق کرنے کا نام ہے۔

            فقط زبانی اقرار، ایمان نہیں ہے؛ کیوں کہ اگر یہ ایمان ہوتا تو منافق سارے کے سارے مومن ہوتے۔

            اسی طرح محض معرفت اور پہچان بھی ایمان نہیں ہے؛ کیوں کہ اگر یہ ایمان ہوتی، تو اہلِ کتاب سب کے سب مومن ہوتے۔

            اللہ تعالی نے منافقوں کے بارے میں فرمایا ہے:

            وَاللَّہُ یَشْہَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَکَاذِبُونَ۔ ترجمہ: اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق جھوٹ بول رہے ہیں۔ (سورة المنافقون:۱)

            اور اللہ تعالی نے اہلِ کتاب کے بارے میں فرمایا ہے:

            وہ لوگ کہ جنہیں ہم نے (پہلے)کتاب دی ہے وہ انھیں (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم )کو ایسے پہچانتے ہیں جیسا کہ وہ اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں۔ (سورة البقرة:۱۴۶)

            ایمان نہ تو زیادہ ہوتا ہے اور نہ ہی کم؛ کیوں کہ ایمان کی کمی تب ہی تصور میں آ سکتی ہے جب کہ کفر میں اضافہ مانا جائے اور اسی طرح ایمان میں اضافہ تبھی مانا جا سکتا؛ جب کہ کفر میں کمی مانی جائے اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ہی بندہ ایک ہی حالت میں مومن بھی ہو اور کافر بھی ؟

            اور جو مومن ہوتا ہے وہ پکا مومن ہوتا ہے اور جو کافر ہوتا ہے وہ پکا کافر ہوتا ہے۔ ایمان میں شک کی گنجائش نہیں ہوتی؛ جیسا کہ کفر میں شک کی گنجائش نہیں ہوتی۔

            اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

            أُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقّاً(سورة الانفال:۴) ترجمہ: یہی لوگ سچے مومن ہیں۔

            اور فرمایا:

            أُوْلَئِکَ ہُمُ الْکَافِرُونَ حَقّاً (سورة النساء:۱۵۱) ترجمہ: یہی لوگ کافر ہیں پکے۔

            اور ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے جو گناہ گار افراد ہیں وہ سب کے سب مومن ہیں، کافر نہیں ہیں۔

            اور عمل، ایمان دونوں الگ الگ حقیقت ہیں۔ دلیل یہ ہے کہ بہت سے ایسے مواقع میں جب مومن بندے سے عمل معاف ہو جاتا ہے اس وقت یہ کہنا درست نہیں ہوتا کہ اس سے ایمان معاف ہوگیا ہے؛ چنانچہ حیض والی عورت کو اللہ سبحانہ و تعالی نے نماز معاف کی ہے، اب اس موقع پر یوں کہنا جائز نہیں ہے کہ اس سے ایمان معاف ہو گیا ہے اور اسے حیض کی حالت میں ایمان چھوڑنے کا حکم ہے۔ اسی طرح حیض والی عورت سے شارع نے یہ تو کہا ہے کہ روزے چھوڑ دو، پھر بعد میں ان کی قضا کرنا؛ مگر اس موقع پر یوں کہنا درست نہیں ہے کہ ایمان چھوڑ دو، پھر ایمان کی قضاکرلینا۔ اسی طرح یوں کہنا تو درست ہے کہ فقیر پر زکوة فرض نہیں ہے؛ مگر یوں کہنا درست نہیں ہے کہ فقیر پر ایمان فرض نہیں۔

            اور ہر اچھی اور بُری تقدیر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے؛ چنانچہ اگر کوئی یہ گمان رکھتا ہو کہ اچھائی یا بُرائی کی تقدیر اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور سے ہوتی ہے تو وہ اللہ تعالی کے ساتھ کفر کرنے والا ہوگا اور اس کی توحید بے کار ہوگی۔

دوسری علامت

            ہم اِقرار کرتے ہیں کہ اعمال تین قسم کے ہیں :

            فرض                 فضیلت               معصیت

            فرض : اللہ تعالی کے حکم، اس کی مشیت، اس کی محبت، اس کی رضا، اس کی قضا، اس کی تقدیر، اس کی تخلیق، اس کے حکم، اس کے علم، اس کی توفیق سے ہوتا ہے اور لوح محفوظ میں اس کی طرف سے لکھا ہوا ہوتا ہے۔

            جب کہ فضیلت میں اللہ تعالی کا امر شامل نہیں ہوتا؛ البتہ اس کی مشیت، اس کی محبت، اس کی رضا، اس کی قضا، اس کی تقدیر، اس کا حکم، اس کا علم، اس کی توفیق و تخلیق سے ہوتا ہے اور یہ بھی اس کی طرف سے لوحِ محفوظ میں لکھا ہوتا ہے۔

            اور معصیت میں اللہ تعالی کا امر نہیں ہوتا اور مشیت ہوتی ہے؛ لیکن محبت نہیں ہوتی، اس کی قضا ہوتی ہے؛ لیکن رضا نہیں ہوتی، اس کی تقدیر ہوتی ہے؛ لیکن اس کی توفیق نہیں ہوتی؛ بلکہ یہ اس کی طرف سے (گناہ کرنے والے کے لیے) رسوائی ہوتی ہے، ہاں یہ اللہ تعالی کے علم میں ضرور ہوتی ہے اور لوح محفوظ میں بھی لکھی ہوئی ہوتی ہے۔

تیسری علامت

            ہم اس کا اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہوا؛ مگر نہ تو وہ عرش کا محتاج ہے اور نہ ہی اس پر قرار پکڑے ہوئے ہے؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عرش ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور مخلوق وہی بغیر کسی محتاجی کے اپنے اوپر لیے ہوئے ہے؛ کیوں کہ اگر وہ محتاج ہوتا تو کائنات کو وجود دینے اور اس میں تدبیر کرنے کی قدرت نہ رکھتا جیسا کہ مخلوق (بوجہ محتاج ہونے کے) ان باتوں پر قدرت نہیں رکھتی۔ اسی طرح اگر وہ بیٹھنے اور ٹھکانہ پکڑنے کا محتاج ہوتا تو وہ سوال یہ ہے کہ وہ عرش کو پیدا کرنے سے پہلے کہاں (بیٹھا ہوا)تھا ؟

            حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی اس (بات یعنی محتاج ہونے، بیٹھنے اور ٹھکانہ پکڑنے) سے پاک اور بلند شان والے ہیں۔

چوتھی علامت

            ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ قرآن اللہ تعالی کا کلام ہے، مخلوق نہیں ہے۔ اسی نے اس کی وحی کی ہے اور اسی نے اِسے اُتارا ہے؛ یہ نہ تو عین اس کی ذات ہے اور نہ ہی اس کا غیر ہے؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اُس کی صفت ہے۔

            یہ قرآن مصاحف میں لکھا ہوا ہے۔ زبان سے پڑھا جاتا ہے۔ سینوں میں محفوظ ہوتا ہے؛ مگر اِن چیزوں میں اُتر کر ان کا جزو ( اور ان چیزوں کی صفت)نہیں بن جاتا اور یہ روشنائی، کاغذ اور کتابت سب کی سب چیزیں مخلوق ہیں؛ کیوں کہ یہ سب چیزیں بندوں کا فعل ہیں، اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا کلام مخلوق نہیں ہے؛ کیوں کہ کتابت اور حروف اور کلمات و آیات قرآن کریم کی نشاندہی کرتے ہیں کیوں کہ بندے ان کے محتاج ہیں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کا کلام اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے؛ البتہ اس کلام کا مفہوم اور معنی و مطلب انھیں چیزوں کے ذریعے سمجھ میں آتا ہے۔

            خلاصہ یہ کہ جو شخص یہ کہے کہ اللہ تعالی کا کلام مخلوق ہے، وہ اللہ کے ساتھ کفر کر رہا ہے۔ اللہ تعالی تو ہمیشہ سے معبود ہے۔ اس کا کلام بے شک پڑھا بھی جاتا ہے، لکھا بھی جاتا ہے اور یاد بھی کیا جاتا ہے؛ مگر اس کے باوجود وہ اللہ تعالی کی ذات سے جُدا اور الگ نہیں ہوتا۔

پانچویں علامت

            ہم اس بات کا اِقرار کرتے ہیں کہ اس امت میں ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق، ان کے بعدسیدنا عمر، ان کے بعد سیدنا عثمان اور ان کے بعد سیدنا علی، رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں۔ اللہ تعالی کا درج ذیل فرمان اس کی بنیاد ہے:

            وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ، أُوْلٰئِکَ الْمُقَرَّبُونَ، فِیْ جَنَّاتِ النَّعِیْمِ (سورة الواقعہ:۱۰-۱۲)

            چنانچہ جو بھی سب سے آگے ہے وہ اسی حساب سے سب سے افضل ہے۔

            ان حضرات سے ہر وہ شخص جو مومن اور متقی ہے محبت رکھتا ہے اور جو منافق اور بدبخت ہے وہ اِن سے بغض رکھتا ہے۔

چھٹی علامت

            ہم اس کا بات کا اِقرار کرتے ہیں کہ انسان اپنے اعمال، اپنے اِقرار اور اپنی معرفت سمیت مخلوق ہے؛ کیوں کہ جب ان کاموں کا فاعل (یعنی انسان)مخلوق ہے تو اس کے اَفعال بدرجہٴ اولیٰ مخلوق ہوئے۔

ساتویں علامت

            ہم اس بات کا اِقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ہی مخلوق کو پیدا کیا ہے۔ مخلوق کی اپنی کوئی طاقت نہیں تھی؛ کیوں کہ مخلوق تو نِری عاجز اور کمزور ہے اور اللہ تعالی ہی ان کا خالق اور ان کا رازق ہے۔

            اللہ تعالی کا درج ذیل فرمان اس کی دلیل ہے:

            اللہ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ ثُمَّ رَزَقَکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ (سورة الروم:۴۰)

            اللہ ہی وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر تمہیں رزق دیتا ہے، پھر تمہیں موت دے گا اور پھر تمہیں زندہ کرے گا۔

            کمائی کرنا حلال ہے اور حلال مال سے مال جمع کرنا بھی حلال ہے؛ البتہ حرام مال سے مال جمع کرنا حرام ہے۔

            لوگ تین قسم کے ہیں:

            ایک وہ مومن جو اپنے ایمان میں مخلص ہے۔

            دوسرا وہ کافر جو اپنے انکار اور ضد میں اپنے کفر پر اڑا ہوا ہے۔

            تیسرا وہ جو منافق اور اپنے نفاق میں مداہن (دوسروں کو دھوکے میں رکھنے والا) ہے۔

            اب اللہ تعالی نے مخلص مومن پر عمل کرنا، کافر پر ایمان لانا اور منافق پر اخلاص اختیار کرنا فرض فرمایا ہے۔

            اللہ تعالی کا درج ذیل فرمان میں یہی اشارہ ہے:

            یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ (النساء:۱) اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو!

            مطلب اس کا یہ ہیکہ اے ایمان والو !تم فرماں برداری والے اعمال بجا لاوٴ!

            اے کافرو !تم ایمان لے آوٴ!

            اور اے منافقو !تم مخلص بن جاوٴ!

آٹھویں علامت

            ہم اس بات کا اِقرار کرتے ہیں کہ استطاعت فعل کے ساتھ وجود پذیر ہوتی ہے۔ استطاعت نہ تو فعل سے پہلے ہوتی ہے اور نہ ہی فعل کے بعد؛ کیوں کہ اگر فعل سے پہلے ہو تو بندہ ضرورت کے وقت اللہ تعالی سے بے نیاز قرار پایا اور یہ بات نص قرآنی کے خلاف ہے:

            وَاللَّہُ الْغَنِیُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَاء (سورة محمد:۳۸) ترجمہ: اور اللہ ہی بے نیاز ہے جب کہ تم تو محتاج ہو۔

            اور اگر استطاعت فعل کے بعد ہو تو یہ ناممکنات میں سے ہے؛ کیوں کہ اس طرح لازم آئے گا کہ وہ فعل استطاعت اور طاقت کے بغیر وجود پذیر ہوا ہے۔

نویں علامت

            ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ چمڑے کے موزوں پر مسح کرنا (شرعا)ثابت ہے، مقیم کے لیے ایک دن رات اور مسافر کے لیے تین دن رات؛ کیوں کہ حدیث میں اسی طرح وارد ہوا ہے اور جو شخص اس کا انکار کرتا ہو اس پر کفر کا خوف ہے؛ کیوں کہ یہ حدیث خبر متواتر کے قریب قریب ہے۔

            اور سفر میں روزے کی رخصت اور نماز کا قصر بھی نص قرآنی سے ثابت ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

            وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ الأَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُواْ مِنَ الصَّلَوٰةِ (سورة النساء:۱۰۱) ترجمہ: اور جب تم زمین پر سفر کرو تو تم پر کوئی حرج نہیں ہوگا کہ تم نماز میں قصر کر لو

            اور روزے کی رخصت کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

            فَمَن کَانَ مِنکُم مَّرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ(سورة البقرة:۱۸۴)

            چنانچہ تم میں سے جو شخص بیمار یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں سے گنتی پورے کر لے!

دسویں علامت

            ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے قلم کو لکھنے کا حکم دیا، تو قلم نے پوچھا : اے میرے رب ! میں کیا چیز لکھوں ؟ تو اللہ تعالی نے فرمایا : تو وہ سب لکھ دے جو قیامت تک ہونے والا ہے، اس کی دلیل اللہ تعالی کا درج ذیل فرمان ہے:

            وَکُلُّ شَیْءٍ فَعَلُوہُ فِیْ الزُّبُرِ وَکُلُّ صَغِیْرٍ وَکَبِیْرٍ مُسْتَطَرٌ (سورة القمر:۵۲-۵۳)

            اور ہر وہ چیز جو انہوں نے کی وہ صحیفوں میں ہے اور ہر چھوٹی بڑی چیز لکھی ہوئی ہے۔

گیارہوں علامت

            ہم اس بات کا اِقرار کرتے ہیں کہ عذاب قبر بھی یقینا ہونے والا ہے اور منکر و نکیر کا سوال بھی برحق ہے اور اس کی بنیاد احادیث نبویہ ہیں۔

            اور جنت و جہنم بھی برحق ہیں اور وہ دونوں اپنے اپنے لوگوں کے لیے پیدا ہوچکی ہیں؛ چنانچہ ایمان والوں کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

            أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ ( سورة آل عمران:۱۳۳) ترجمہ: (وہ جنت)متقی لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔

            اور کافروں کے بارے میں فرمان ہے:

            أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ (سورة البقرة:۲۴، آل عمران:۱۳۱) ترجمہ: (وہ جہنم)کافروں کے لیے تیار کی جا چکی ہے۔

            اللہ تعالی نے ان جگہوں کو ثواب اور عقاب کے لیے پیدا کیا ہے۔

            اور اعمال نامہ (تُلنے کا ترازو) بھی برحق ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

            وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیَامَةِ (سورة الانبیاء:۴۷) ترجمہ: اور ہم قیامت کے دن انصاف کے ترازو رکھیں گے۔

            اور اعمال ناموں کا پڑھا جانا بھی برحق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا درج ذیل فرمان اس کی دلیل ہے:

            اقْرَأْ کَتَابَکَ کَفَی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْْکَ حَسِیْباً (سورة الاسراء:۱۴)

            ترجمہ: (قیامت کے دن بندے سے کہا جائے گا)تو اپنا اعمال نامہ پڑھ، آج یہ اعمال نامہ ہی تیرے بارے میں حساب بتانے کے لیے کافی ہے۔

بارہویں علامت

            ہم اس بات کا اِقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ان انسانوں کو جزا و ثواب اور ادئے حقوق کے لیے موت کے بعد زندہ کریں گے اور انھیں ایسے دن میں اُٹھائیں گے جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہوگی۔

            اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:

            وَأَنَّ اللَّہَ یَبْعَثُ مَن فِیْ الْقُبُورِ (سورة الحج:۷) ترجمہ: اللہ تعالی زندہ کر اُٹھائیں گے قبروالوں کو۔

            اور اہلِ جنت کی اللہ تعالی سے ملاقات برحق ہے اور یہ ملاقات کیفیت، تشبیہ اور جہت سے پاک ہوگی۔ (یعنی اللہ تعالی کی نہ تو کوئی کیفیت ہے، نہ کسی کے ساتھ مشابہت ہے اور نہ ہی اللہ تعالی کسی جہت میں ہیں)۔

            اور ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت برحق ہے اور یہ ہر اُس شخص کے لیے ہوگی جو اہلِ جنت میں سے ہے اگرچہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو۔

            اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا کے بعد تمام عورتوں سے افضل سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ہیں اور وہ زنا کی تہمت سے اور روافض جو نقائص کی اُن کی طرف منسوب کرتے ہیں، اُن سب سے پاک ہیں؛ بلکہ جو شخص ان پر زنا کی تہمت لگاتا ہے وہ خود زنا کی پیداوار ہے۔

            اور اہل جنت جنت میں ہمیشہ رہیں گے؛ جب کہ اہل جہنم جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ اس کی دلیل اللہ تعالی کے درج ذیل فرامین ہیں ، اہل جنت کے بارے میں ارشاد ہے:

            أُولَئِکَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ (البقرة:۸۲) ترجمہ: یہ جنتی ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

            اور کفار کے بارے میں ارشاد ہے:

            أُولَئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ (البقرة:۳۹) ترجمہ: یہ دوزخ والے ہیں جو اُس میں ہمیشہ رہیں گے۔

—————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 3،  جلد:102‏،  جمادی الآخرہ-رجب ۱۴۳۹ھ مطابق مارچ ۲۰۱۸ء

#             #             #

Related Posts