از: ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو، شعبہ سنی دینیات، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
احترامِ آدمیت
اورتم سب،عنقریب رب ذوالجلال کے پاس جاؤگے؛پس وہ تم سے تمہارے اعمال کی بازپرس فرمائے گا(۲۴)۔
ان ارشاداتِ ختم المرسلین پرغورکیجیے اورایک مرتبہ پھراس وقت،اس زمانہ کاتصور کرلیجیے؛جب کہ حقوق ومساوات انسانی کایہ سبق، احترامِ آدمیت کایہ فرمان اورتکریمِ انسانیت کایہ اعلان یامختصر الفاظ میں یہ منشورِ انسانیت سرورِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جاری کیاجارہا تھا،اوراسے تمدن ومعاشرت انسانی کالازمہ قرار دیاجارہاتھا،تاریخ بتاتی ہے کہ اس ” منشور انسانیت کااجراء آج سے کوئی ڈیڑھ ہزاربرس پہلے اس وقت روبہ عمل آرہاتھا؛جب کہ دنیا میں کہیں حقوق انسانی کاکوئی یقین کوئی تصور موجود نہ تھا(۲۵)۔ انسانی مساوات کے الفاظ لغتِ اقوام میں سراسر اجنبی تھے(۲۶)اورتمدن ومعاشرتِ باہمی کے لیے احترامِ آدمیت اورحقوقِ انسانی کی اہمیت سے یونان وروم،عجم وعرب سے سب ہی ناواقف تھے۔
علاوہ ازیں ان حقوقِ انسانی کااجراء جس ذات ِ بابرکت کے ہاتھوں ہورہاتھا،وہ نہ صرف یہ کہ اوجِ رسالت پرفائز اورصفات وکمالات ِ نبوت سے آراستہ تھی؛ بلکہ وہی ہستی امرواقع میں جزیرہ نمائے عرب کی مسندِ اقتدار پرجلوہ افروز تھی،اوران حقوق وفرامین کے اجرا کی سند اُسے مقتدرِ اعلیٰ کی طرف سے ملی تھی اوران کی آخری منظوری احکم الحاکمین کے ایوانِ اختیار سے جاری کی جاچکی تھی۔گویا سیاسی لغت کے حوالے سے یہ منشورِانسانیت ایک وسیع الاختیار مملکت اورکثیر الوسائل ریاست کی طرف سے عطا کیے جارہے تھے اوردینی، اخلاقی حوالے سے یہ ربُ الناس (انسانوں کے پالن ہار) اورملکُ الناس (انسانوں کے بادشاہ) کی عطائے خاص تھی جوحاضر وغائب تمام انسانوں تک بالواسطہ پہنچائی جارہی تھی۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ارشاداتِ سیدلولاک صلی اللہ علیہ وسلم میں انسانیت کوجن حقوق وتحفظات سے سرفراز کیاجارہاتھا،اوراحترامِ آدمیت وانسانیت کے جواصول زبانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پرجاری ہوئے،آنے والے زمانوں میں ان ہی کی روشنی وتابانی سے افق تاافق اجالاہوا اوردنیا میں جہاں کہیں بھی بیداری کی لہر پیداہوئی اورانسانی معاشرے میں جہاں کہیں بھی آزادی، مساوات اورحقوق کی آواز بلندہوئی،اس کے پیچھے یہی آواز تھی جواس وقت وادیِ فاران میں گونج رہی تھی۔
پیغمبر انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ان دستاویزات میں جن بنیادی انسانی حقوق اورتحفظات کو معاشرے ومساواتِ انسانی کے لیے لازم ٹھہرایا(اورجن میں سرفہرست، تحفظ جان،تحفظ مال وملکیت، تحفظِ عزت وآبرو،حقِ انصاف ومساوات، اورفرق وامتیاز کے بغیر انسانوں کے ساتھ یکساں سلوک اوردیگر معاشرتی حقوق و مسائل شامل ہیں(۲۷)۔ان کی نوعیت یہ ہے کہ ) وہ تمام تر ایجابی (POSITIVE) اور واقعی(REAL)حیثیت رکھتے ہیں۔ان کوعوام کی طفل تسلی کے لیے خطابت کے زورپر،کاغذی پیرہن میں، وقتی حل کے طور پرپیش نہیں کیاگیا۔نہ وہ ترحمِ خسر اونہ کاعکس نہ تھے؛ بلکہ ان کے پیچھے اسلام کی مستقل تعلیمات، قرآن کی ابدی آفاقی ہدایات اورریاست نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تابندہ روایات جلوگر تھیں،ان حقوق کوعملاً برت کردکھایاجاچکاتھا اورایسے تحفظات، اس ریاست، اس معاشرے میں فراہم کیے جاچکے تھے جواجرائے حقوقِ انسانی اورتشریف وتکریمِ آدمیت کی بجائے خودضمانت تھے۔ذیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دستاویزات کاجائزہ لیاجارہاہے جن کاتعلق قرامین ومعاہدات سے ہے۔
انسانی اورآفاقی پہلوؤں اورمتعلقات کامطالعہ کرنے کے بعدیہ کہہ سکتے ہیں کہ محسن انسانیت، رہبر آدمیت، سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخی دستاویزات الفاظ کے پیراہن میں کتنے ہی چمن زادِ معانی رکھتی ہوں،جن کی نکہتوں نے پورے عالم کومعطر کردیاتھا اورچمن انسانیت میں جس کی خوشبو آج تک پھیلی ہوئی ہے۔
حضورنبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی دستاویزات کے بہت سے روشن پہلوؤں میں سے روشن ترپہلو اورنمایاں ترین وصف ان کا انسانی پہلو اوران کی ہمہ گیریت وآفاقیت ہے،اس بات کااندازہ نہ صرف یہ کہ ان کے مضمون اوران کے محل وقوع سے ہوجاتاہے؛ بلکہ اس کاصاف قرینہ یہ بھی ہے کہ چوں کہ پیغمبر انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ تمام عالم کے لیے،تمام زمینوں کے اورتمام زمانوں کے لیے ہوئی، نیز آپ پر ایک عالمی آفاقی کتاب ہدایت کانزول ہوا،اورآپ کی دعوت وتبلیغ کامنتہی، آپ کالایاہوا پیغام اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کامشن بھی عالمی انسانی آفاقی نوعیت کاتھا؛ اس لیے ایسے ہمہ صفت، ہمہ جہت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کااظہار اورہادیِ عالم کی عالمگیر نبوت کامقتضا بھی دراصل، ایسے خطاب اورمعاہدات ودستاویزات کی صورت میں ہی موزوں ہوسکتاتھا۔جس کے آئینہ میں ہر زمانہ اپنی تصویر دیکھ لے اورجان لے کہ اس دائمی منشور انسانیت کی روسے،وہ شرف آدمیت وانسانیت کی کون سی منزل میں ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دستاویزات کا انسانی اورآفاقی پہلوؤں کی معنویت واہمیت کاجائزہ اپنے زمانے اورتاریخی پس منظر کے حوالے سے راقم پچھلے صفحات میں کرچکاہے؛لیکن یہاں یہ امرقابل ذکر ہے کہ ان کی اہمیت اپنے پس منظر کے حوالے سے فزوں ترہوجاتی ہے؛جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ عہدِ رسالت کے بعد بھی عرصہٴ دراز تک یہی انسانی اورآفاقی اقدار اسلامی معاشرہ کی روح رواں بنی رہی ہیں، جن کی ترجمانی اس منشور انسانیت میں کی گئی تھی؛ بلکہ شاید یہ کہنا بھی مبالغہ تصور نہ کیاجائے گا کہ آزادی وحقوقِ انسانی کاجو پروانہ سرکارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عطاکیاگیاتھا۔اس نے خاکی انسانوں میں جرأت وہمت، اورآزادی وبے باکی کے ایسے شرارے بھردیئے تھے کہ جس کے سبب ان کی گردن کٹ توسکتی تھی؛ مگر جھک نہیں سکتی تھی،پھر جب اسلامی اقتدار حدودِ عرب سے نکل کر شمال میں آگے بڑھا اورمشرق ومغرب کی وسعتوں پرچھاتاچلاگیا تو حقوقِ انسانی کی سوغات اورآزادیوں کاتوشہ دوسری اقوام وملل کوبھی ملا اوریوں جہاں جہاں شرفِ آدمیت کے چراغ روشن ہوئے اوراحترام وحقوقِ انسانی کے لیے آواز بلند کی گئی،اس کاسرچشمہ اسی منشورِ انسانیت میں پنہاں ہے۔
آج ہم جس عہد میں زندگی گذاررہے ہیں،بہ ظاہر اس کی چمک دمک نگاہوں کوخیرہ کرسکتی ہے؛لیکن بہ نظر غائر دیکھنے سے پتہ چلتاہے کہ ظرف اورزماں کی ہزارتبدیلیوں کے باوجود”انسانیت“ دم بہ دم خیروفلاح سے محروم ہوتی چلی جارہی ہے،اقصائے عالم میں رفتہ رفتہ ایک عالمگیر جاہلیت، کااثر ونفوذ بڑھتاچلاجارہاہے بہ قول ایک مصنف انسانوں نے پرندوں کی طرح ہوا میں اڑنا،مچھلیوں کی طرح پانی میں تیرنا سیکھ لیا؛لیکن آدمیوں کی طرح زمین پرچلنا بھول گئے۔اخلاق ومعنویات اورحقیقی انسانی صفات وکمالات میں سخت انحطاط اورتنزل ہوا،غرض لوہے اوردھات کوہرطرح ترقی ہوئی اور”آدمیت“ کوہرطرح زوال ہوا۔ قوم ہو یافرد آج ہرایک کمزوروں سے طاقت کی وہی زبان استعمال کررہاہے اورقوت کی وہی دلیل آگے لارہاہے۔جوکبھی عہد جہالت کاطغرائے امتیاز تھا، انسانی حقوق کی پامالی اورآزادیوں کی غلامی کے ہزارعنوان قائم ہوگئے ہیں،شیطنت وبہیمیت کاصحرا پھیلتا چلاجارہاہے۔اورشرفِ آدمیت وانسانیت کے چھوٹے چھوٹے نخلستان باقی رہ گئے ہیں؛بلکہ آج بھی غیر اللہ کی عبادت وطاقت کابازار گرم ہے،آج بھی خواہشاتِ نفس کابگل برسر راہ بج رہاہے صلی اللہ علیہ وسلم آج عالمِ انسانیت اپنی وسعت، وسائل سفر کی فراوانی، نقل وحرکت کی آسانی اوراقوام وممالک کے قرب واتصال کے باوجود پہلے سے کہیں زیادہ تنگ ہے۔اس وقت کامادہ پرست انسان اس دنیا میں کسی دوسرے کی ہستی کوتسلیم نہیں کرتا اوراپنے فوائد اورخواہشاتِ نفس اورخود پرستی کے سوااس کوکسی چیزسے دلچسپی نہیں۔
خود غرضی نے اس کی گنجائش نہیں چھوڑی کہ کسی لمبے چوڑے ملک میں دوآدمی بھی زندہ رہ سکیں،تنگ نظر وطن پرستی ہرایسے انسان کوجواس کے وطن کے باہر پیداہوجانے کاقصور وار ہے،نفرت وحقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہے، اس کے ہرکمال کی منکر ہے اوراس کوہرحق سے محروم کرتی ہے۔انسانی معاشروں میں جاہلیت کے آثار ومفاخرنے پھر سے جنم لے لیا ہے،امنِ عالم کوپہلے سے زیادہ خطرہ درپیش ہے،استعماریت، طبقاتی کشمکش،نسلی اورقومی امتیازات نے خشکی وتری ہرجگہ فساد بپا کر رکھا ہے، اور بحیثیت مجموعی، قبائے انسانیت گردآلود ہوگئی ہے۔ایسے عالم میں پھر سے ضرورت ہے کہ ”اس صوتِ ہادی“ کوسناجائے جس نے کوئی ڈیڑھ ہزار برس پہلے کایاپلٹ دی تھی۔کیا عجب منشورِ انسانیت کے ان چند فقروں کی دیانت دارانہ تعمیل سے ہی عالمِ انسانیت کتنی ہی لعنتوں سے نجات پاجائے اوراس شاہراہِ حیات پرگامزن ہوجائے جودین ودنیا کی فلاح کی راہ ہے۔
بہرحال حضوراکرم رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی دستاویزات تھیں جسے عالمی انسانی منشورقرار دیاجانا مناسب ہے، یہ اپنی مستقل حیثیت، اہمیت وافادیت رکھتی ہیں،باعث اجروبرکت اورہرلحاظ سے قابل توجہ اورقابلِ عمل ہیں،ان کامتن، مواد اورمضامین سرتاسرالہامی ہیں (وماینطق عن الھویٰ ان ھوالاوحیٌ یُّوحیٰ)کیونکہ یہ خود کلامِ نبوت ہیں۔دوسرے یہ کہ قرآنی تعلیمات اوراحادیثِ رسالت مآب سے وابستہ ہیں۔یہ دستاویزات حاکمانہ بصیرت وتجربات سے مستفادہیں۔
اس دفعہ ۴۷/ کاتقاضہ یہ تھاکہ حاضر سے غائب تک سامعین کی وساطت سے منتقل ہوتا چلاجائے اورجواسے سنتاجائے، دوسروں تک پہنچاتاچلاجائے (بلغوا عنی ولوآیة) بہ ظاہر یہ سادہ سی ہدایت تھی؛ لیکن اس میں گویا ابلاغِ عامہ کے عمودی رخ کی تمام وسعتیں پنہاں تھیں؛ جب کہ دوسری شق میں (یہ فرماکرکہ) قریب والوں پرلازم ہے کہ دوروالوں تک یہی پیغام پہنچاتے رہیں،یہ گویا افقی طرزِ ابلاغ ہے؛ چنانچہ قاعدے کے مطابق اگرنجوم ہدایت لیے یہی ابلاغی لہریں واسطہ درواسطہ عمودی اورافقی دونوں سمتوں میں حرکت پذیر رہیں توپورے کرئہ وجود پراجالا پھیل جاتاہے، ضمناً یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اجالے پھیلانے، روشن کوروشن ترکرنے آئے تھے، قد جائکم من اللہ نورٌ وکتابٌ مبین(سورئہ مائدہ، آیت ۱۵) اوریہ بھی گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرض منصبی میں د اخل تھاکہ عوام الناس کومقام آشنا،حقوق آشنا کرکے ظلمتوں سے نکال کر روشنی کی دہلیز پرلے آئیں ۔ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظلماتِ الَی النُّور(سورئہ ابراہیم، آیت۱) اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرامتی کایہ فرض منصبی ٹھہراکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آفتابِ ہدایت وارشاد سے ایک ایک کرن مستعار لے کر ہرایک کے لباس وجود میں ٹانک دے؛ تاکہ آج وفورِمعلومات کے باوجود افکار میں جوتیرگی بڑھ گئی ہے اسے روشنی نصیب ہو۔تسلسل ابلاغ کی جوذمے داری ہرمسلمان(فرد وجماعت) پرعائد ہوتی ہے، اس سے عہدہ برآہونے کے لیے ضروری ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دستاویزات کوہرممکن طریقہ سے دوسروں تک پہنچایاجائے؛ تاکہ جوسلسلہ غیر مختتم صدیوں سے جاری ہے اس میں خلل واقع نہ ہو۔
# # #
مراجع وحواشی:
(۲۴) ابن ہشام،ج۴،ص:۲۵۰
(۲۵) صلاح الدین، بنیادی حقوق،ص:۳۷/تا ۴۶ میں تفصیل دیکھئے۔
(۲۶) ایضاً،ص:۲۸
————————————-
دارالعلوم ، شمارہ : 3، جلد:102، جمادی الآخرہ-رجب ۱۴۳۹ھ مطابق مارچ ۲۰۱۸ء
# # #