سوال: (۱) زید مسجد میں امام ہے ، کیااس کی رخصت کی تنخواہ کاٹنا جائز ہے ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں صحیح کیا ہے ؟
(۲) امام کے لیے ایک ماہ میں شرعاً کتنی رخصت کی اجازت ہے ؟
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم، حامدًا ومصلیًا ومسلّمًا، الجوابُ وباللّٰہ التوفیق والعصمۃ:
(۱) تقرری کے وقت ہی رخصت کے ایام اور وضع تنخواہ وغیرہ سے متعلق ساری باتیں طے ہوجانی چاہیے، صورتِ مسئولہ میں معلوم نہیں کیا طے ہوا تھا؟ بہرحال اگر رخصت کے ایام کی تنخواہ وضع کرنا طے ہوا تھا تو تنخواہ وضع کرنا جائز ہے۔
(۲) تقریباً ہرملازم کو ہفتے میں ایک دن یعنی مہینے میں چار یا پانچ روز، اسی طرح سال بھر میں اتفاقی ضرورت کے لیے کم وبیش ایک مہینے کی رخصت باتنخواہ دی جاتی ہے، نیز بیماری کے لیے بھی سال بھر میں پندرہ دن یا ایک مہینہ یا کم وبیش رخصت دینے کا عرف ہے، امام مسجد کے لیے بھی متولی یا مسجد کمیٹی کی طرف سے اس طرح کی رخصت ہونی چاہیے، اگر ہرہفتہ ایک دن کے لیے امام کے رخصت پر جانے کی وجہ سے انتظامِ مسجد میں خلل واقع ہو تو مہینے کے اخیر میں دو تین مہینے کے بعد ہرہفتہ ایک روز کے حساب سے جتنے دن بنتے ہوں اتنے دن ایک ساتھ رخصت پر جانے کی اجازت ہونی چاہیے، اگر امام صاحب رخصت پر نہ جائیں تو انھیں رخصت کے ایام میں بھی ذمے داری انجام دینے کی وجہ سے اضافی تنخواہ دیئے جانے کا ضابطہ ہونا چاہیے۔ (دیکھیں: درمختار مع رد المحتار: ۶؍۶۲۹- ۶۳۰)
فقط واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
محمد اسد اللہ غفرلہ
الجواب صحیح: زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی، محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ
مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
———–
سوال: کیافرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں:
(۱) تقدیر کیاہے؟
(۲) تقدیر کی اقسام اور ہر ایک کی پانچ پانچ مثالیں تحریر کیجیے ؟
(۳) اگرکوئی آدمی شادی شدہ ہے، پھر دوسری شادی کا ارادہ رکھتے ہوئے کہے کہ یہ تقدیر میں اللہ نے لکھاتھا، زندگی میں ایک شادی یا ایک سے زیادہ شادی کرنا تقدیر کی کس قسم میں آتا ہے؟
نوٹ : یہ تو پتاہے کہ اسلام میں چار شادیوں کی اجازت ہے ۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم، حامدًا ومصلیا ومسلّما، الجواب وباللّٰہ التوفیق والعصمۃ:
(۱) شریعت کی اصطلاح میں ’’تقدیر‘‘ نام ہے قضاء (فیصلہ) کا یعنی کائنات کے بارے میں اللہ تعالی نے ازل سے جو پلاننگ کی ہے، اس کانام تقدیر الٰہی ہے۔ (تحفۃ الالمعی : ۵/۴۷۹، شروع ابواب القدر)
(۲) تقدیر کی دوقسمیں ہیں: مبرم یعنی محکم یعنی وہ فیصلہ جو کبھی بدلتا نہیں، معلق یعنی وہ تقدیر جو اعمال وغیرہ پر منحصر ہوتی ہے، ان کی وجہ سے اس میں تبدیلی آتی ہے؛ لیکن یہ تقسیم محض بندوں کے اعتبار سے ہے، علمِ الٰہی میں ہر چیز ’’مبرم‘‘ ہے، کوئی چیز معلق نہیں ہے۔ اعلم أن للہ تعالی في خلقہ قضائین مبرماً ومعلقاً بفعلٍ کما قال: إن فعل الشيء الفلاني کان کذا وکذا، وإن لم یفعلہ فلایکون کذا وکذا۔۔۔۔۔ وأما القضاء المبرم فھو عبارۃ عما قدرہ سبحانہ في الأزَل من غیر أن یعلقہ بفعل الخ (مرقاۃ، رقم الحدیث: ۵۷۵۰، باب فضائل سید المرسلین) تقدیر سے متعلق مزید تفصیل نیز مثالیں دیکھنے کے لیے تحفہ الالمعی (۵/۴۷۹، ابواب القدر) کا مطالعہ کریں، یہ کتاب پاکستان میں بھی دستیاب ہے، نیز ’’نیٹ‘‘ سے بھی ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں۔
(۳) ’’تقدیر‘‘ میں کیا لکھا ہوا ہے، اس کے درپے نہیں ہونا چاہیے، حدیث میں ’’تقدیر‘‘ میں زیادہ غورو خوض کرنے کی ممانعت آئی ہے، آدمی کوچاہیے کہ اجمالاً ’’تقدیر‘‘ پر ایمان رکھے، اور اسے جن امور کا حکم دیا گیا ہے انھیں انجام دے اور جن چیزوں سے روکا گیا ہے، ان سے بچے، رہی دوسری شادی تو اگر آدمی کو اپنے اوپر اطمینان ہے کہ دونوں بیویوں کے درمیان شب باشی اور نفقہ، سُکنیٰ (رہائش دینا) وغیرہ میں برابری کرلے گا تو اس کے لیے شرعاً اس کی گنجائش ہے ورنہ یہ اقدام نہ کرنا چاہیے۔
فقط واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
محمد اسد اللہ غفرلہ
الجواب صحیح: زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی، محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ
مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
* * *
———————————————–
ماہنامہ دارالعلوم، شمارہ: 11، جلد:101، صفر -ربیع الاول 1439ہجری مطابق نومبر 2017ء