(۱)
نام کتاب : گوشت خوری سے گلابی انقلاب تک
مصنف : ڈاکٹر عبدالسمیع صوفی
ترتیب : مفتی ابوحنیفہ حنیف احرار قاسمی
صفحات : ۲۰۸
اشاعت : مئی ۲۰۱۵ء قیمت: ۱۵۰ روپے
ناشر : ایلائڈ بکس نئی دلی
تبصرہ : مولانا عمران اللہ قاسمی
====================
زندگی کے لیے غذا لازم ہے، ابتدائی زمانے میں گھاس پودے پیڑ کے پتے، پھل پھول اور پرندوں وجانوروں کا گوشت بہ طور غذا استعمال ہوتے تھے، زمانہ کی تبدیلی ثقافتی وتمدنی ترقی کی بہ دولت مختلف غلے ومیوہ جات پیدا ہونے لگے تو وہ بھی غذائی اشیاء میں شامل ہوگئے، پھر جوں جوں زمانہ آگے بڑھتا گیا ترقی کی رفتارمیں تیزی آتی گئی اور غذائی اجزاء میں وسعت ہوتی گئی، یہاں تک کہ موجودہ زمانہ میں غلّہ و میوہ جات سے بے شمار چیزیں تیار کی جانے لگیں جو غذائی ضرورت کو پورا کرنے میں نمایاں رول ادا کرتی ہیں؛ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ابتدا سے اب تک ہر زمانہ میں غذائی اشیاء میں گوشت نمایاں طور پر شامل رہا، تاریخی حوالہ جات اور سماجی رسم ورواج کے مشاہدات اس بات کے گواہ ہیں کہ زمانۂ قدیم میں لوگ گوشت کا استعمال بہ کثرت کرتے تھے، مذہب، خاندان وقبیلہ اور علاقہ کا اس میں کوئی فرق نہ تھا، ہندوئوں کی مذہبی کتابیں جوہزاروں سال پرانی بتلائی جاتی ہیں رگ وید، بجروید، اتھروید، سام وید وغیرہ میں جانوروں کی قربانی، اس کے احکام، طور وطریق اور منتر بیان کیے گئے ہیں، گوشت کو مرغوب اور اچھی غذا شمار کرکے کھانے کی ترغیب دی گئی ہے، نیز رامائن، مہابھارت میں بھی ہندو مذہب کے عظیم رہنمائوں کے گوشت استعمال کرنے کے اشارے ملتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ گوشت انسانی غذا میں نمایاں اہمیت کاحامل ہے، مذہب اور علاقہ کا اس میں کوئی دخل نہیں؛ مگر نہایت افسوس کا مقام ہے کہ آج کل تاریخ سے ناواقفیت اور مذہبی روح سے عدمِ مناسبت نیز تعصب وعناد اور سیاسی مقاصد کے پیش نظر بعض لوگ گوشت خوری کو ایک مخصوص مذہب سے جوڑ کر اس سے متعلق طرح طرح کے شکوک وشبہات پیداکرتے رہتے ہیں اور آئے دن نیا فتنہ کھڑا کرکے عوامی زندگی میں امن وسکون کو غارت کردیتے ہیں، ایسے ناروا شور وہنگامے اور غلط پروپیگنڈے کی وجہ سے ضرورت محسوس ہوئی کہ حقیقت کو آشکارا کیا جائے مذکورہ کتاب ’’گوشت خوری سے گلابی انقلاب تک‘‘ اس سلسلہ کی اہم پیش رفت ہے، مصنف کتاب ڈاکٹر عبدالسمیع صوفی صاحب نے اس کتاب میں لحمیہ غذائیں، دنیا میں لوگوں کی غذائوں کا جائزہ، گوشت خوری ناگزیر ضرورت، زمانہ قدیم میں گوشت خوری، بودھوں، عیسائیوں میںگوشت خوری، ہندوئوں کی مذہبی کتابوں میں گوشت خوری کی اہمیت، سبزی خوری بمقابلہ گوشت خوری جیسے عناوین پر مستند حوالوں کے ساتھ کلام کرکے شکوک وشبہات کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے مصنف عصری تعلیم سے آراستہ، ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل ہیں اور زندگی کا ایک حصہ ’’گوا میٹ کمپلیکس لمیٹڈ‘‘ نامی کمپنی میں اعلیٰ عہدہ پر خدمت کی انجام دہی میں گزارا ہے، جس کی بنا پر موصوف کی معلومات ومشاہدات لائق اعتناء ہیں، الغرض کتاب قیمتی ہدایات، تجربات، رہنما اصول، طبی فوائد، مسلمانوں کے تعلق سے گوشت خوری کو جیوہتیا باور کرانے کے غلط الزامات اور پروپیگنڈہ کے الزامی جوابات، گوشت کے حوالہ سے حکومت اور سیاسی افراد کی دورختی پالیسیاں، دنیا بھر میں گوشت کی کھپت، پولٹری انڈسٹری، بیف انڈسٹری، ہندوستان میں گوشت کی بازیافت اور اس کا بڑھتا ہوا کاروبار، موجودہ صورت حال، گائے کا قاتل کون؟ غیرملکوں میں بیف ایکسپورٹ میں ہندوستان کا کردار وغیرہ بہت سے اہم عناوین پر سیرحاصل گفتگو کی ہے جس کی بنا پر بعض لوگوں کے بہ قول یہ اپنے عنوان پر منفرد اور ممتاز دستاویز ہے، گوشت کے متعلق اتنا مواد یکجا نہیں ملتا؛ اس لیے تحقیق وریسرچ کرنے والوں کے لیے خصوصاً اور حقیقت سے آگاہی کی طلب رکھنے والوں کے لیے عموماً یہ کتاب بہت مفید ہے، اللہ تعالیٰ مصنف موصوف کی مساعی کو قبولیت سے نوازے، آمین!
٭ ٭ ٭
(۲)
نام کتاب : شرحِ نایاب (اردو زبان کی پانچویں کتاب کی شرح)
محقق وشارح : منشی عبدالغفور صاحب مدظلہ
اشاعت : ۱۴۳۷ھ/۲۰۱۶ء
صفحات : ۴۴۰
قیمت : ۲۱۶ روپے
پتہ : دیوبند وسہارنپور کے کتب خانے
تبصرہ : مولانا عمران اللہ قاسمی
====================
اردو زبان اپنے اندر تعبیرکی خوبی، ندرت ولطافت اور منظر نگاری وغیرہ کی بے پناہ خوبیاں رکھتی ہے، اسلامی علوم تفسیروحدیث، فقہ وفتاویٰ، سیر وتاریخ، منطق وفلسفہ، وعظ وحکمت، دعوت وتبلیغ کو اپنے دامن میں لے کروسعت اختیار کرتے ہوئے آج دنیا کی کثیرالاستعمال زبانوں میں شمار ہوتی ہے، اسلامی علوم وفنون کے تعلق سے مرجعیت حاصل ہوجانے اور اسلامی علوم کا بیش بہا ذخیرہ اپنے اندر شامل کرنے کی بنا پر اردو زبان اتنے بلند مقام پر فائز ہوچکی ہے کہ عربی زبان کے سوا شاید کوئی دوسری زبان اس کا مقابلہ کرسکے، برصغیر کے مدارس وجامعات میں درس وتدریس اور مساجد میں وعظ وتقریر اور مجالس میں شعر وتغزل کے لیے استعمال ہونے کی وجہ سے اس پر اسلامی ومذہبی رنگ ضرور غالب ہے؛ مگر مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے مسلم، ہندو، سکھ، عیسائی سبھی اس کی شیرینی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک نظراندازی کی پالیسی کے باوجود اپنے وجود کو باقی رکھے ہوئے ہے، اس کی خوب صورتی ودل کشی اس کے حصول وتعلّم پر آمادہ کرتی ہے؛ چنانچہ اس زبان کو سکھانے کے لیے متعدد کتابیں تیار کی گئیں؛ لیکن مولوی اسماعیل میرٹھی کی اردو زبان کی پہلی، دوسری، تیسری، چوتھی اور پانچویں کو جو قبول عام حاصل ہوا، وہ کسی اور کے حصہ میں نہ آسکا ۱۸۹۲-۱۸۹۳ء میں یہ کتابیں تالیف ہوکر کثیر معلومات کے ساتھ پاکیزہ، رواں اور شیریں زبان، نظم ونثر کی چست روی وبرجستگی تھی، اکثر مدارس ومکاتب میں داخل نصاب تھیں اورہیں، اردو زبان کی تعلیم واشاعت میں اس سیٹ کا نمایاں رول ہے، بڑے بڑے انشاء پردازوں، مشہور قلم کاروں کی بنیادیں انھیں کتابوں کی بہ دولت مستحکم ہوئی ہیں؛ چنانچہ وقت تصنیف سے اب تک تقریباً ۱۲۲ سال کاطویل عرصہ ہوچکا ہے جس میں اس کے لاتعداد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے جس سے کتاب کی اہمیت مسلّم ہوتی ہے؛ مگر آج کل کے دور میں اردو سے بے توجہی کی وجہ سے، نیز کتاب مذکور میں شامل دیگر زبانوں کے الفاظ کے معانی، درست تلفظ، معلومات کی وضاحت اور محاورات کی تفہیم میں کتاب سے استفادہ کرنے والے طالب علموں کو دشواری کا سامنا تھا، شارح کتاب جناب منشی عبدالغفور صاحب نے اس ضرورت کو محسوس کیا، شارح موصوف اردو زبان وادب کے نشیب فراز سے واقف ہیں اردو کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں ان کو اپنے ۶۳ سالہ تدریسی زندگی کے دورانیہ میں قدیم وجدید ادب کے مطالعہ کا موقع ملا ہے، اپنے اسی طویل تجربہ اور تحقیقی ذوق کی بنا پر ’’شرح نایاب شرح اردو زبان کی پانچویں کتاب‘‘ تیار کی ہے، جو اپنے مشمولات و تشریحات کے اعتبار سے اسم بامسمّیٰ ہے۔
’’شرح نایاب‘‘ میں الفاظ کی ترتیب وتہذیب میں افضل وافصح کو ترجیح دی گئی ہے، دقیق الفاظ کے معانی اور بعض الفاظ کے ایک سے زائد معنی، سبق سے پہلے خلاصۂ سبق، اصطلاحات اردو، حمد ونعت، غزل علمی معلومات کا بھی اضافہ کیا ہے، کتاب میں آئے تمام شعراء کا تفصیلی تعارف، تاریخ جغرافیہ نیز سن وسال سے متعلق پوری تحقیق وصحت کا خیال رکھا گیا ہے بعض اسباق کے ضمن میں کافی تشریحات کے ساتھ اضافی معلومات بھی جمع کردی ہیں جو خاصے کی چیز ہیں۔
اخیر کتاب میں زراعت کے اسباق میں الفاظ کی تشریح کے ساتھ اپنے تجربات سے مفید توضیحات بھی درج ہیں اور غلط الفاظ کے درست تلفظ و املا کی فہرست بھی کتاب کی جامعیت میں اضافہ کرتی ہے۔ شارح کی دلچسپی اور مؤلف کتاب مولوی اسماعیل میرٹھی سے گہری وابستگی کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ چار سبق جو موجودہ نسخوں میں شامل نہیں ہیں، ان کو بھی کسی پرانے ایڈیشن کی مدد سے حاصل کرکے شامل کیا ہے، قارئین کے ذوق کی تسکین کے لیے شارح نے اپنے حالات تعلیم و تدریس کے واقعات کے ساتھ مولف کتاب مولوی اسماعیل میرٹھی کے بھی تفصیلی حالات درج کیے ہیں، صفحات میں جگہ خالی نہ رہے اور طلبہ کو زیادہ فائدہ حاصل ہو اس غرض سے مناسب اصلاحی اشعار، سبق آموز تراشے،اقوال زریں سے بھی کتاب کو مزین کیا ہے جس کی وجہ سے یہ صرف اردو زبان کی پانچویں کتاب کی شرح نہیں رہ گئی ہے؛ بلکہ جدید ومشکل الفاظ کے معنی کی جامع فرہنگ، معلومات کا گنجینہ، اشعار کا کشکول اور وقت کے بڑے بڑے علماء کی آرا وکلماتِ تحسین کی دستاویز بن گئی ہے اور طلبہ واساتذہ اور اردوزبان کا ذوق رکھنے والے حضرات کے لیے نہایت مفید ہے۔ اللہ تعالیٰ شارح کی محنت وسعی کو قبولیت سے نوازے اور اس کے نفع کو عام فرمائے، آمین!
* * *
———————————————-
ماہنامہ دارالعلوم، شمارہ: 11، جلد:101، صفر -ربیع الاول 1439ہجری مطابق نومبر 2017ء