از:احتشام الحسن، چکوال
مدرس: دارالعلوم نورالاسلام، اٹک، پنجاب
بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اوائل سے سائنسی دنیا کی گاڑی برق رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے ۔آئے دن نئی نئی ایجادات و تخلیقات کی بھر مار ہے ۔سوتے جاگتے ، اٹھتے بیٹھتے اور کھاتے پیتے جدید ٹیکنالوجی کا بھوت سوار ہے ۔ جن ہاتھوں میں کبھی کتاب ہوتی تھی ،اب ان کے ہاتھو ں میں موبائل ،آئی پیڈ،ٹیبلٹ اور لیپ ٹاپ وغیرہ آگئے ہیں ۔کتابی کیڑے اب کتابی دنیا سے نکل کر فیس بک ،ٹیوٹر ،ایمو ،واٹس ایپ اور متعدد سوشل ویب سائٹس میں گم ہوگئے ہیں ۔ کتاب سے صدیوں پرانا تعلق اور رشتہ ٹوٹتا جارہا ہے ؛بل کہ منوں مٹی تلے دفن ہو چکی ہیں۔
سوشل میڈیا پر لوگ مختلف رنگ و نسل کے دوست تلاش کرتے ہیں ۔یہ بے وفا دوست ہمیشہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوتے ہیں؛جب کہ کتاب باوفا ساتھی ہے اور ترقی کی راہوں میں قندیل کی مانند ہے ۔حضرت عمر بن عبد العزیز ؒفرماتے ہیں :’’میں نے کتاب سے زیادہ مخلص دوست نہیں دیکھا‘‘۔اللہ تعالیٰ نے صدیوں پہلے ایک کتاب اپنے محبوب پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی جو زندگی کے ہر موڑ پر ترقی کی سیڑھی ثابت ہوتی ہے۔’’سقراط‘‘کہتا ہے :وہ گھر جس میں کتابیں نہ ہوں، اس جسم کی طرح ہے جس میں روح نہ ہو ۔’’سمرد‘‘رقم طراز ہے :’’کسی گھر میں کتب خانہ کا قائم ہونا اینٹوں اور پتھروں کے بے جان گھر میں جان ڈالنا ہے ‘‘۔’’ای پی وٹیہیل‘‘لکھتا ہے: ’’کتابیں وقت کے لیے پایاں سمندر میں روشنی کے مینار ہیں‘‘۔’’ملٹن‘‘ کی رائے ہے کہ:’’ایک اچھی کتاب انسان کے لیے زندگی کا بہترین سرمایہ ہے۔’’ برناڈشا ‘‘کا خیال ہے کہ :’’جو شخص اچھی کتابیں پڑھنے کا شوق نہیں رکھتا وہ معراجِ انسانی سے گرا ہوا ہے ‘‘۔ایک عرب شاعر نے کہا ہے: ’’محبوبي من الدنیا کتابي‘‘: دنیا میں میری محبوب ترین چیز میری کتاب ہے۔
مست ہو کر دیکھتے ہیں طالبانِ معرفت
بادۂ اسرار کا لبریز ساغر ہے کتاب
علامہ شیخ ہمزان ؒ کا کتابوں سے عشق ضرب المثل ہے ۔علامہ ابن جوزی ؒ نے ان کی وفات کے بعد خواب دیکھا کہ :’’آپ ایک ایسے شہر میں ہیں، جس کی دیواریں کتابوں کی ہیں ،آپ کے ارگرد بھی بے حد و حساب کتابیں ہیں اور آپ مطالعہ میں مشغول ہیں ۔ان سے پوچھا گیا کہ یہ کتابیں کیسی ہیں؟ فرمایا:میں نے اللہ سے سوال کیا تھا کہ:’’ جس چیز کے ساتھ میں دنیا میں مشغول تھا ،یہاں بھی مجھے وہی مشغولیت نصیب فرما ،تو اللہ نے مجھ کو وہی مشغولیت نصیب فرمائی ‘‘۔
کتابیں ایسے بزرگوں کا مدفن ہیں ،جو مرنے کے بعد بھی مرتے نہیں ہیں ۔کتب خانہ وہ مرکز ہے ،جہاں آفتابِ علم کی پرنور شعاعیں اور خوب صورت کرنیں ہمیشہ کے لیے انسانی دماغوں کو روشن کرنے کے لیے مجتمع ہیں ۔کسی باذوق شخص کا قول ہے کہ :’’عمدہ کتاب حیات ہیں، نہیں؛بل کہ ایک لافانی چیز ہے اور یہ خود ہی لافانی نہیں بل کہ اپنے لکھنے والوں کو ،ان کو جن کا اس میں ذکر ہوتا ہے اور بعض اوقات پڑھنے والوں کو بھی لافانی بنا دیتی ہے؛کیوں کہ عمدہ کتابوں نے انسانوں کے اخلاق و طبائع پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں ،خیالات میں عظیم الشان تغیر پیدا کیا ہے ،ملکوں کی کایا پلٹ دی ہے ،قوموں کے سوئے ہوئے جذبات میں حیرت انگیز طور پر ہلچل مچادی ہے ،مردہ دلوں کو زندہ جاوید بنا دیا ،قوموں کے کھوکھلے ڈھانچوں میں روح پھونک دی ہے ‘‘۔
الغرض!جدید آلات کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے ؛مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم اپنے آبا ء کے عظیم علمی ورثے کو پسِ پشت ڈال دیں اور ان لات و منات کے پجاری بن جائیں ۔آج ہماری کام یابی و کام رانی اور ہمارا عروج کتب بینی میں مضمر ہے ۔ان کتابوں سے ہی ہم ایک مضبوط و منظم معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں ۔تو آئیے! کم ہمتی ،سستی ،احساسِ کمتری اورلغویات کو پرے پھینک کر، اپنے آباء کے عظیم خزانے کے وارث بن جائیں کہ خوش بختی آپ کی راہ تک رہی ہے ۔۔۔۔۔ کام رانی آپ سے ملنے کو بے تاب ہے ۔۔۔۔ہمت کیجیے اور اپنی روٹھی کتابوں کو منا لیجیے ۔۔۔۔گلے لگا لیجیے۔۔۔۔!!!
* * *
————————————————-
ماہنامہ دارالعلوم، شمارہ: 11، جلد:101، صفر -ربیع الاول 1439ہجری مطابق نومبر 2017ء