کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ بہت سی مسجدوں میں (تبلیغی بھائی) جماعتی ساتھی بالکل منبر ومحراب کے سامنے کتابی تعلیم، وعظ وبیان، مشورے کرتے ہیں۔
جس کی وجہ سے عام مقتدیوں کو نیز نفل پڑھنے والوں اور اپنے اوراد پورے کرنے والوں اور تلاوتِ قرآن کرنے والوں کو ذہنی انتشار اور خشوع وخضوع میں خلل واقع ہوتا ہے، نیز بعض مسجدیں ایسی ہوتی ہیں جہاں دوسری جگہ ان دینی اعمال کے لیے موزوں اور مناسب نہیں جہاں دلجمعی کے ساتھ یہ اعمال عام آدمی بروقت خشوع اور خضوع کے ساتھ پورا کرسکے نیز بسا اوقات یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ایک غیر عالم منبر کے اوپر بیٹھ کر تقریر کرتے ہیں۔
(۳) لہٰذا جماعتی بھائیوں کا منبرومحراب کے سامنے ایسا کرنا اور غیرعالم کا منبرومحراب پر بیٹھ کر بیان کرنا از روئے شرع کیسا ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں۔
المستفتیان: نثار احمد (بندی والے)، خورشید عالم
کانکی نارہ، ضلع ۲۴ پرگنہ، شمالی کولکاتا (ویسٹ بنگال)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حامدًا مصلیا ومسلمًا، الجواب وباللّٰہ التوفیق والعصمة: مسجد دراصل نماز کے لیے ہے، مسجد میں اتنی بلند آواز سے وعظ کہنا یا کتاب پڑھنا کہ نمازیوں کو خلل ہو درست نہیں ہے؛ اس لیے بہتر ہے کہ تعلیم و وعظ کا نظام ان نمازوں کے بعد بنایا جائے جن کے بعد سنن ونوافل نہیں ہیں، مثلاً فجر کے بعد یا عصر کے بعد اور نوافل و اوراد پورے کرنے والوں کو بھی چاہیے کہ اگر کبھی نماز کے بعد وعظ یا تعلیم کا اعلان ہوجائے تو مسجد کے گوشے میں یا بیرونی حصہ میں نوافل واوراد پورے کریں، نیز وعظ وتعلیم کرنے والوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وعظ وتعلیم کی وجہ سے نمازیوں کی نماز میں خلل نہ ہو، بہرحال سب کو رفیق بن کر کام کرنا چاہیے نہ کہ حریف بن کر۔ (۳)غیرعالم جماعتی احباب کو چاہیے کہ وہ معتبر مستند کتابیں پڑھ کر سنادیا کریں؛ کیوں کہ وہ بیانات میں بسا اوقات غلو؛ بلکہ کبھی کبھی قرآن وحدیث کے صریح خلاف بیان کردیتے ہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
محمد اسد اللہ غفرلہ
دارالافتاء دارالعلوم دیوبند
۸/۲/۱۴۳۸ھ
الجواب صحیح: زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی، محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ
مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
۸/۲/۱۴۳۸ھ
مفتیان کرام کی خدمتِ اقدس میں سوال یہ ہے کہ کیا کسی مدرسہ میں ذمہ دارانِ مدرسہ کی طرف سے اساتذہ کے لیے طلبہ کوکسی بھی طرح تنبیہ کرنے کی اجازت نہ دینا اور تنبیہ یا سزا دینے پراس استاذ کو مدرسہ سے نکال دینا امورِ مدرسہ اوراکابر دیوبند کے نظریات کے مطابق ہے؟ اس طرح کا قانون طے کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا مدرسہ ایسے ملک میں ہے جہاں کسی بھی کالج یا اسکول یا مدرسہ یا دارالعلوم میں کسی طالب علم کو مارنا یا تنبیہ کرنا قانونی جرم ہے؛ یہاں تک کہ کوئی بھی سزا نہیں دی جاسکتی۔ بسا اوقات اساتذہ نے اس تنبیہ کے مسائل میں کورٹ کی کارروائی کا بھی سامنا کیا جس کے نتیجے میں ہمارے مدرسے نے یہ قانون بنایا اور اساتذہ کرام کو اس کی خلاف ورزی پر اخراج کا فیصلہ کیا ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس مسئلہ میں ہمارے مدرسہ کو جلد رہنمائی فرمائیں؛ تاکہ اگر یہ صحیح ہے اس کو برقرار رکھا جائے اور اگر نہیں تو دوسرے طریقوں سے بھی ہماری ضرور رہنمائی فرمائیں۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حامدًا ومصلیا ومسلمًا، الجواب وباللّٰہ التوفیق والعصمة: فقہاء نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ استاذ کو شرعاً یہ حق حاصل ہے کہ وہ طالب علم کی غلطی پر مناسب تنبیہ کرے یا تھوڑی پٹائی کرے؛ کیوں کہ ”ولی“ کی طرف سے دلالةً اس کی اجازت ہوتی ہے یجوز للمعلم أن یضربہ باذنِ أبیہ نحو ثلاث ضربات ضربًا وسطاً سلیماً لا بخشبة الخ (حاشیة الطحطاوی علی الدر) وقال الشامی: وفیھا عن الروضة ولو أمر غیرہ بضرب عبدہ حلّ للمأمور ضربہ بخلاف الحرّ، قال: فھذا تنصیص علی عدم جواز ضرب ولد الآمر بأمرہ بخلاف المعلم؛ لأن المأمور یضربہ نیابةً عن الأب لمصلحة والمعلم یضربہ بحکم الملک بتملیک أبیہ لمصلحة الولد (درمختار مع الشامی ۶/۱۳۰، زکریا) لیکن اب چوں کہ حالات کافی بدل چکے ہیں، ولی کی طرف سے دلالةً اجازت کی بات بھی پہلے کی طرح نہ رہی، نیز آپ کے یہاں حکومت کی طرف سے بھی سختی کے ساتھ منع ہے، اس طرح بعض مرتبہ اساتذہ بچوں کو مارنے یا تنبیہ کرنے میں حدودِ شرع کی بھی رعایت نہیں کرتے؛ اس لیے صورتِ مسئولہ میں ادارہ یہ قانون بناسکتا ہے کہ اساتذہ کا کام بچوں کو پڑھانا ہے، اگر کوئی بچہ سبق یاد نہیں کرتا یا غیرحاضری کرتا ہے تو خود تنبیہ نہ کریں اور نہ ہی اسے ماریں؛ بلکہ انتظامیہ کو اس کی اطلاع دے دیں، بہ وقت تقرری اساتذہ کو یہ بات بہ صراحت بتلادی جائے اگر پھر بھی اساتذہ متعدد بار اس کی خلاف ورزی کریں تو ادارہ انھیں معزول کرسکتا ہے، شرعاً اس کی گنجائش ہوگی۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
محمد اسد اللہ غفرلہ
دارالافتاء دارالعلوم دیوبند
۴/۶/۱۴۳۸ھ
الجواب صحیح: زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی، محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ
مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
۲/۶/۱۴۳۸ھ
————————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ4، جلد:101 ، رجب 1438 ہجری مطابق اپریل 2017ء