از: نایاب حسن
تمام تر یک سوئی،خلوت نشینی اور آس پاس کے ہنگاموں سے بے نیاز ہوکر علم و قلم اورشعر و ادب کی خدمت میں مصروف رہنے والے حضرت مولاناکفیل احمد علوی رحمة اللہ علیہ (۲۰۱۷-۱۹۳۷ء) نے اپنے بیش بہاتجربات اوررجال سازی کی صلاحیتوں کی بدولت سیکڑوں نوجوانوں کی علمی و قلمی تربیت میں بھی اہم ترین رول ادا کیا ، وہ ایک مخلص ترین استاذ تھے اور سادہ ترین انسان،شیخ الہند اکیڈمی میں طالب علمی (۱۲-۲۰۱۱ء)کے دوران دوسال مسلسل میں نے انھیں قریب سے دیکھا ،ان سے استفادہ کیا اور بہت کچھ سیکھا،ان کی اپنی ایک دنیا تھی،گردوپیش کے ہاؤہوسے بے نیازوہ اپنے آپ میں مگن رہتے، بغل میں ایک چھوٹاسا بیگ دبائے پابندی سے شیخ الہنداکیڈمی آتے،صحافت و تحریر کے حوالے سے طلبہ کی رہنمائی کرتے،صبح سے شام تک مختلف مرحلوں میں چائے کادورچلتااورتعلیمی وقت کے اختتام کے ساتھ ہی وہ اپنے گھر کوروانہ ہوجاتے،کم و بیش پچاس سال انھوں نے دارالعلوم دیوبند کے مختلف شعبوں میں استاذ،نگراں یا ذمے دارکی حیثیت سے گزارے؛مگر وہ کسی بھی قسم کی انتظامی یا غیر انتظامی سیاست سے یکسر الگ رہے،اسی کی دہائی میں دارالعلوم میں جوتبدیلی آئی تھی،اس کے وہ چشم دید گواہ تھے؛بلکہ کئی بار انھوں نے مجھے اس دورکے بعض واقعات بھی سنائے؛لیکن اس پورے منظرنامہ میں وہ کسی بھی قسم کے تنازع سے دور ہی رہے،ان کی نگاہ معاملہ شناس اوردل دماغ بیدارتھے۔وہ ایک ذہین ترین آدمی تھے، جب بات چلتی تو وہ تاریخ کے بعض دلچسپ اورپوشیدہ حقائق و واقعات کی مختلف پرتوں کو بڑی پُرکاری سے کھولتے،وہ شیخ الاسلام مولاناحسین احمدمدنی کے آخری دورکے شاگردوں میں سے تھے اوران کا علم مستحضر تھا،جب کبھی کسی علمی موضوع پر بحث چھڑتی ، تو بڑی دقیقہ سنجی کے ساتھ گفتگو فرماتے۔
ان کے والد حضرت مولاناجلیل احمد کیرانوی دارالعلوم کے استاذِ حدیث تھے،حضرت مولانا علوی کی پوری تعلیم ازابتداتاانتہا وہیں ہوئی،اس کے بعد تازندگی دارالعلوم ہی میں تدریسی ،تصنیفی،صحافتی خدمات انجام دیں۔ان کا اصل میدانِ عمل تحریروتصنیف اور شعر وشاعری تھا،۱۹۵۰ء سے انھوں نے باقاعدہ لکھنا شروع کیا اور ”تجلی“ ،ماہنامہ ”دارالعلوم“ اور” چراغِ حرم“ جیسے رسائل میں چھپنے لگے، اس کے بعدمختلف ادوارمیں ان کے قلم سے ”تقریرِبخاری“،”اسلام مدینہ سے مدائن تک“،”اعجازِ نبوی “اور ”راہِ حق کے مسافر“ جیسی کتابیں منظرِعام پر آئیں،انھوں نے متعدد عربی کتابوں کے اردو ترجمے بھی کیے،جب پندرہ روزہ” آئینہٴ دارالعلوم “نامی اخباری جریدے کا اجرا عمل میں آیا،تواس کی ادارت انھیں سونپی گئی اور اپریل ۲۰۰۹ء تک انھوں نے اس پرچے کی بخوبی ادارت کی،اس دوران ملکی و عالمی حالات پر انھوں نے بیش قیمت شذرات تحریر فرمائے،جب روزنامہ سہاراشروع ہوا، تو ابتدا میں ایک عرصے تک اس میں کالم لکھتے رہے،پھریہ سلسلہ رک گیا، اخبار والے مضمون کا مطالبہ کرتے اوروہ انھیں ٹالتے رہتے۔وہ عموماً سیاسی و سماجی موضوعات پر لکھاکرتے تھے اور ان کی تحریروں میں جہاں فکری بصیرت کا عنصر بدرجہٴ اتم پایاجاتا تھا،وہیں فنی اعتبار سے بہترین نثر کی تمام تر خصوصیات ان کی تحریروں میں ملتی تھیں،وہ حالات کا تجزیہ موضوع کے تمام تر پہلووٴں پر حاوی ہوکر کیا کرتے تھے اور ان کے طریقہٴ استنتاج سے معلوم ہوتا تھا کہ بلاشبہ وہ ایک دیدہ ور اورزمانہ شناس صحافی ہیں، ”آئینہٴ دارالعلوم“میں کم وبیش پچیس سال تک مسلسل لکھے گئے ان کے اداریے اور مضامین اس قابل ہیں کہ انھیں جمع کرکے شائع کیا جائے ،یہ ایک اہم کام ہوگا اور مولانا کو بہترین خراجِ عقیدت بھی!
مولانا طلبہ کی تربیت بڑے خلوص اور لگن کے ساتھ کرتے تھے ، اپنے شاگردوں کی کامیابی پربہت خوش ہوتے اور اس کا اظہار بھی کرتے،ان کے زیر تربیت کوئی طالب علم اگر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا،تودوسروں کے لیے اسے نمونہ قراردیتے،کسی طالب علم کاکوئی مراسلہ یا مضمون کسی اخبار میں شائع ہوتا،توبہت خوش ہوتے،خود بھی کئی بار پڑھتے اور دوسروں کوبھی پڑھنے کے لیے دیتے، ہمارے ایک ساتھی تھے،جن کو پڑھنے لکھنے کے علاوہ دوسری بہت ساری مصروفیات بھی درپیش رہتی تھیں،انھیں بہت جلد اندازہ ہوگیا کہ مولانا اپنے شاگردوں کی تحریراخبارمیں چھپنے سے بہت خوش ہوتے ہیں، سووہ اپنی عادت کے مطابق کلاس سے ہفتہ پندرہ دن غیر حاضر رہتے، پھر جب آتے اور انھیں مولانا کی ڈانٹ پڑنے والی ہوتی ،توکلاس میں داخل ہوتے ہی وہ فوراً کسی اخبار میں شائع شدہ اپنا ایک مراسلہ ان کے سامنے پیش کردیتے ،اتنا دیکھتے ہی ان کا غصہ کافور ہوجاتا اور اس بندے کا جرم معاف ۔اکیڈمی میں قیام کے دوران میں نے پاکستان کے معروف ادیب ،صحافی و شاعر آغاشورشؔ کاشمیری مرحوم کی مختلف تصانیف سے مضامین کاایک انتخاب مرتب کیااور اسے شائع کرنے کی خواہش ظاہر کی،تومولانا نے خوب حوصلہ افزائی کی اور کتاب پرتحسین آمیزتشجیعی کلمات بھی تحریر فرمائے،اس کے علاوہ دارالعلوم دیوبندکی صحافتی خدمات پراپناتحقیقی کام جو ”دارالعلوم دیوبندکا صحافتی منظرنامہ“ کے نام سے شائع ہوا،میں نے انھیں کی رہنمائی میں مکمل کیا،شروع سے آخرتک مجھے ان کی نگرانی حاصل رہی؛بلکہ انھوں نے پورے مقالے کوتقریباً حرف بحرف پڑھا،حسبِ ضرورت ترمیم و اصلاح کی اوربھرپورحوصلہ افزائی فرمائی،وہ چاہتے تھے کہ یہ کتاب شیخ الہند اکیڈمی سے شائع ہو؛لیکن مختلف اسباب کی بناپر یہ ممکن نہ ہوسکا۔
۱۹۸۴ء میں دارالعلوم دیوبند کے اولین فاضل اور عظیم مجاہد آزادی شیخ الہند مولانامحمود حسن دیوبندی سے منسوب ایک علمی ،تحقیقی وتربیتی ادارے شیخ الہند اکیڈمی کاآغاز ہوا،جس کی سربراہی ممتاز عالم دین ،مصنف ومفکر مولاناسعید احمد اکبرآبادی کوسونپی گئی؛لیکن اس ادارے کو مولانا کی سرپرستی زیادہ دنوں تک حاصل نہ رہ سکی اور چند ماہ بعدہی ۱۹۸۵ء میں مولانااکبرآبادی وفات پاگئے،ان کے بعد اکیڈمی کا ڈائریکٹر حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری کو اورنگرانِ عام معروف مصنف وموٴرخ قاضی اطہرمبارک پوری کومقرر کیاگیا اور وہ تاحیات اس کی نگرانی فرماتے رہے،جولائی ۱۹۹۶ء میں قاضی صاحب بھی رحلت فرماگئے،پھرشیخ الہند اکیڈمی کا ڈائریکٹر حضرت مولانا بدرالدین اجمل صاحب رکن شوریٰ کو اور ناظم مولاناکفیل احمدعلوی کومقررکیاگیااور تب سے لے کر تادمِ واپسیں انھوں نے یہ ذمے داری پوری دیانت داری سے نبھائی،۱۹۹۷ئمیں مولاناہی کے زیرِ نگرانی نئے فضلاکی صحافتی وتحریری تربیت کاڈپلوماسطح کاایک کورس شروع کیاگیا، جس کے خاطرخواہ نتائج سامنے آئے،اس میں تدریس وتربیت کی تمام تر ذمے داری مولانا مرحوم اور معروف صحافی جناب عادل صدیقی کے سپردرہی،بیچ میں (۶-۲۰۰۴/) مشہورمحقق ومصنف مولانا عبدالحفیظ رحمانی بھی اکیڈمی سے وابستہ رہے،بعدمیں موٴخرالذکر دونوں حضرات کی اکیڈمی سے علیحدگی ہوگئی اور اکیڈمی کواُس حد تک فروغ حاصل نہ ہوسکا،جس کا خواب مولاناسعید احمد اکبرآبادی نے دیکھا تھا؛ لیکن اس کے باوجود مولاناکفیل احمد علوی کی ذاتی محنت اور اس میں زیرِ تربیت طلبہ کے شوق وذوق کی وجہ سے بیس پچیس سال کے عرصے میں اکیڈمی سے کئی ایسے فضلانکلے ، جنھوں نے صحافت یا تصنیف و تحقیق کے میدان میں خاصی شہرت حاصل کی اور متعلقہ حلقوں میں اپنے آپ کو تسلیم کروایا،نئی نسل میں مفتی اعجازارشد قاسمی،مولانایوسف رام پوری ،مولانابختیارثاقب قاسمی،مولانااحسن اللہ مظفرپوری،مولانا شاہد وصی، مولاناذوالفقار بہرائچی وغیرہ بیسیوں فضلاصحافت،تحقیق وتصنیف کے شعبے میں مانوس ومشہور نام ہیں اوریہ سب شیخ الہند اکیڈمی کے تربیت یافتہ ہیں، جب مولانا مرحوم کواپنے شاگردوں کی کامیابی کے بارے میں پتا لگتا،تو ان کے چہرے کی چمک دیدنی ہوتی،وہ حقیقی معنوں میں ایک مخلص اور نہایت بے لوث استاذ تھے،سادگی ان کے رگ و پے میں ایسی رچی بسی ہوئی تھی کہ انھیں دیکھ کر کوئی اندازہ نہیں لگاسکتا کہ وہ کس مرتبے کے انسان ہیں؛ شہرت و ناموری سے گویاساری عمر وحشت زدہ رہے،جلوت سے گریزاں اورخلوت گزینی ان کی فطرت کا حصہ بن گئی تھی ،بے نیازی ایسی کہ ان کی تحریروں نے کئی ایک تیزطرار مولویوں کوصاحبِ تصنیف بنادیا۔حضرت نے ایک بار مجھے بتایا تھاکہ انھوں نے دارالعلوم دیوبند کی ایک تاریخ لکھی ہے،جوابھی مسودے کی شکل میں ہے،میں نے انھیں دکھانے کوکہاتووہ ٹال گئے،بتایاکہ اس میں انھوں نے اپنے آنکھوں دیکھے اوربرتے ہوئے مختلف حالات وواقعات کوپوری غیر جانب داری کے ساتھ بیان کیاہے۔
ان کی شاعرانہ خصوصیات بھی کمال کی تھیں،فنی اعتبار سے شاعری کے رموز و اسرار انھوں نے مولاناعامر عثمانی سے سیکھے تھے اور پھر خود قادرالکلام شاعر ہوگئے،”آئینہٴ دارالعلوم“ کے صفحات پر موقع بموقع ان کی خوب صورت غزلیں اور نظمیں مسلسل شائع ہوتی تھیں،حالیہ دنوں میں ان کا ایک شعری مجموعہ بھی ”شوقِ منزل “ کے نام سے طبع ہوا ہے،ان کی شاعری عامر عثمانی کی طرح مقصدیت سے معمور ہے،عموماً چھوٹی چھوٹی بحروں اور سادے الفاظ میں بڑی قیمتی بات کہہ جاتے ہیں،سماج اور معاشرے میں پائی جانے والی خامیوں،کمزوریوں اور ملک و ملت کے ناگفتہ بہ احوال کے پس منظر میں ان کے بہت سے اشعار اور نظمیں خاص معنویت کی حامل ہیں،ایک زمانے میں ان کی بعض نظمیں اور اشعار ملک بھر میں مشہور ہوئے اور ضرب المثل بن گئے تھے،معروف شاعر ڈاکٹرکلیم احمد عاجزؔکی دعائیہ نظم ”رات جی کھول کے پھرمیں نے دعامانگی ہے “کی زمین میں مولانا کی بھی ایک طویل نظم ہے، جوآئینہٴ دارالعلوم میں شائع ہوئی تھی،اس کے الفاظ، اسلوب، مشمولات، طرزِ اظہار واحساس میں وہی نازکی، گدازوسوزپائے جاتے ہیں،جو ڈاکٹرکلیم عاجزؔصاحب کی نظم میں ہیں۔ بہرکیف! مولانا مرحوم نے بھرپور زندگی گزاری اور ہزاروں لوگوں کے لیے نفع بخش ثابت ہوئے اوراپنی عمرِمستعارکی متعینہ مدت گزارکر ۱۲/مارچ ۲۰۱۷/کوعالمِ جاودانی کی طرف کوچ کرگئے،یہ حقیقت ہے کہ خلوت نشینی و بے نیازی نے گواِس دنیامیں اُنھیں شہرت وناموری سے دوررکھا؛مگر امیدِ قوی ہے کہ اللہ عزوجل کے یہاں ان کی جملہ خدمات وحسنات کابہتر سے بہتر بدلہ مقدر ہوگا۔
————————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ4، جلد:101 ، رجب 1438 ہجری مطابق اپریل 2017ء