بہ قلم: مولانا اشتیاق احمدقاسمی
استاذ دارالعلوم دیوبند
”حکایت“ عربی زبان کالفظ ہے، اس کے معنی ہیں: قصہ، کہانی؛ اس کی جمع ”حکایات“ آتی ہے، انسانی زندگی میں اُنس ومدنیت کا مادہ بھرپور ہے، انسان ہمیشہ ایک دوسرے سے مل کر رہنا چاہتا ہے اور اپنی بیتی دوسرے کو سناتا ہے اور دوسرے کی بیتی خود سن کر اپنی فطرت کو سکون دیتا ہے، جب کسی تیسرے کی بات آپس میں کی جاتی ہے تو وہ حکایات کا روپ دھار لیتی ہے، تحریری شکل میں آجانے کے بعد حکایت کی افادیت مزید بڑھ جاتی ہے، اگر وہ بڑھا چڑھا کر اور مافوق الفطرت عنصر کا اضافہ کرکے بیان کی جانے لگے تو اس کو ”داستان“ کے نام سے یاد کیاجانے لگتا ہے، اگرچہ داستانیں اکثر غیرواقعی ہوتی ہیں۔ اہلِ علم جانتے ہیں کہ ”حکایت“ کا لفظ اردو زبان میں مستند طور پر سب سے پہلے محمد قلی قطب شاہ نے اپنے کلیات میں استعمال کیا؛ غرض یہ کہ اگر حکایت میں سلیقہ مندی، ہر دلعزیزی اور زبان وبیان کی عمدگی ہوتو اس کو ”حکائی ادب“ میں شمار کیا جانے لگتا ہے، حکایات کا دائرہ مذہب اور زبان کی حدود سے ماوراء ہے، تقریباً ہر مذہب کی کتابیں حکایات سے لبریز ہیں، اردو، ہندی، سنسکرت، عربی اور فارسی ہر زبان میں حکایات موجود ہیں۔ اسلامی کتبِ حکایات میں، قصص الاولیاء، روضة الریاحین، تذکرة الاولیاء، حکایات الصالحین اور حکایاتِ صحابہ کو نمایاں حیثیت حاصل ہے اور آج کل درج ذیل حکایات بھی انٹرنیٹ کی مدد سے خوب پڑھی جارہی ہیں: علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی کی ”روحانی حکایات“، مولانا ابوالنور محمد بشیر کی ”عورتوں کی حکایات“، دعوتِ اسلامی کی مرتب کردہ ”حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز کی چارسو پچیس حکایات“، مرتضی اشعر کی ترتیب دادہ بچوں کے لیے ”سبق آموز حکایات“ وغیرہ اور حکایاتِ رومی، حکایاتِ سعدی اور اردو حکایات وواقعات کو عام طور سے اہلِ ذوق جانتے ہی ہیں۔
”حکایاتِ اولیاء“ کو میں نے اپنا موضوع بنایا ہے، یہ ولی اللّٰہی بزرگوں کے احوال پر مبنی ہے، فکر ولی اللّٰہی کی سب سے بڑی ترجمان جماعت ”علمائے دیوبند“ کے اہم اہم بزرگوں کے واقعات پر مشتمل یہ کتاب قارئین پر اثر ڈالے بغیر نہیں رہتی۔ بزرگوں کی مجالس میں جو نور ہوتا ہے وہ ان کی حکایات کے واسطے سے بھی قارئین کو حاصل ہوتا ہے؛ اس لیے اللہ والوں کی حکایات، ان کے ملفوظات اور ان کے مواعظ کو مختلف طریقوں سے شائع کیا جاتا ہے۔
حضرت مفتی محمد شفیع دیوبندی مفتی اعظم پاکستان حکایاتِ اولیاء ارواحِ ثلاثہ کے پیش لفظ میں تحریر فرماتے ہیں:
”تجربہ شاہد ہے کہ بزرگانِ دین کا حکایات اور روایات میں بھی ایک خاص نور ہوتا ہے جو سننے والے پر کسی درجہ وہی اثر ڈالتا ہے جو ان بزرگوں کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے۔“(ص۴)
بزرگانِ دین کی مجلس اور ان کے ساتھ رہنے کی برکات بہت زیادہ ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان لقمانَ قال لِابْنِہ: یَا بُنَيَّ، عَلیکَ بِمُجَالَسَةِ العلماء، وَاسْتِمَاعِ کلامِ الحُکَمَاءِ فانَّ اللہَ عَزَّوَجَلَّ یُحْیِی القلوبَ بِنُوْرِ الْحِکْمَةِ کما یُحْیِی الأرضَ بِوَابِلِ المَطَرِ․ (معجم کبیر طبرانی۷۷۱۴)
ترجمہ: حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی: اے بیٹے، تم پر اہلِ علم کی مجلس میں بیٹھنا اور اہلِ حکمت کی باتوں کو بہ غور سننا ضروری ہے؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ دلوں کو حکمت کے نور سے اس طرح زندہ فرماتے ہیں جس طرح زمین کو بارش کے قطروں سے زندہ فرماتے ہیں۔
اس مضمون کو فارسی کے ایک شعر نے واضح کیا ہے:
یک زمانہ صحبتِ با اولیاء بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
(تھوڑی دیر اللہ والوں کی مجلس، سوسال بلاریا ونمود کی عبادت سے بہتر ہے)
ایک مرتبہ شیخ سعدی نے ایک خوشبودار مٹی سے پوچھا کہ تم تو مٹی ہو، تم میں اتنی اچھی خوشبو کس طرح بس گئی تو مٹی نے جواب دیا کہ میں وہی ناچیز مٹی ہوں؛ مگر مجھ کو خوشبودار پھول کے ساتھ تھوڑی دیر رہنے کا موقع ملا ہے، یہ اسی کا اثر ہے۔
بگفتا من گلِ ناچیز بودم ولیکن مدتے باگل نشستم
جمالِ ہمنشیں در من اثر کرد وگرنہ من ہما خاکم کہ ہستم
(گلستاں، باب۸)
حقیقت ہے کہ بزرگوں سے زندگی میں زندہ لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اور وفات کے بعد ان کی حکایات سے بعد والوں کو فائدہ ہوتا ہے۔
حکایات اولیاء کا تعارف
فکر ولی اللّٰہی کے حامل بزرگان کی باتیں، ان کی مجالس، ان کے سلوک اور ان کے احوال پر مشتمل کتاب کا نام حکایاتِ اولیاء ہے، ایک صدی پہلے کی تصنیف ہے، ایک بزرگ شخصیت تھی جن کا نام امیر شاہ خان بتایا جاتا ہے، یہ خورجہ، بلندشہر (یوپی) کے رہنے والے تھے، یہ اگرچہ عالم نہیں تھے؛ مگر بزرگوں کی مجالست اور صحبت سے انھوں نے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا تھا، بزرگوں کی باتیں ان کی نوکِ زبان تھیں، یہ بہت لطف لے لے کر بیان فرماتے تھے، ان سے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی ملاقات ہوئی تو آپ نے ارادہ کیا کہ جو باتیں ان سے سنوں وہ قیدِ تحریر میں لے آؤں؛ مگر دیگر تصنیفی، تدریسی اور خانقاہی مصروفیات کی وجہ سے اس کا اہتمام نہ ہوسکا تو آپ نے حضرت مولانا حسیب احمد کیرانوی کو اس پر مامور کیا کہ وہ جناب امیر شاہ خاں صاحب سے بزرگوں کی حکایات سن کر جمع کرلیں؛ چنانچہ موصوف نے حضرت شاہ ولی اللہ اور ان کے خانوادے کی حکایات اور ان کی فکر سے موافقت رکھنے والے بزرگانِ دیوبند کی حکایات کو جمع کرنا شروع فرمایا، ما شاء اللہ ایک کتابی شکل بن گئی، اس کا نام حضرت تھانوی نے ”امیرالروایات فی حبیب الحکایات“ رکھا اور اس پر قیمتی حواشی تحریر فرمائے اور اس کا نام ”شریف الدرایات“ رکھا، اور یہ شائع ہوئی۔
پھر حضرت تھانوی کے ملفوظات، مواعظ اور افادات میں آئے ہوئے واقعات کو جمع کیاگیا اور وہ ”اشرف التنبیہ“ کے نام سے طبع ہوے۔
حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے ان کتابوں کو دیکھا اور حضرت امیر شاہ خاں صاحب خورجوی سے ملاقات ہوئی، آپ نے بھی ان سے سنی ہوئی حکایات جمع فرمائیں اور اپنے والد ماجد جناب حافظ محمد احمد صاحب رحمة اللہ علیہ اور عم محترم حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب رحمة اللہ علیہ سے سنے ہوئے واقعاتِ اکابر کو بھی جمع فرمایا، اس میں بہت سے واقعات حضرت شیخ الہند مولانا محمودالحسن صاحب دیوبندی سے سنے ہوئے بھی ہیں، غرض یہ کہ حضرت قاری صاحب نے ایک سو پچیس واقعات وحکایات جمع فرمائے، پھر جب ”امیرالروایات اور اشرف التنبیہ“ کو دیکھا تو بہت سے واقعات مکرر تھے تو آپ نے مکررات کو حذف فرمایا، اس طرح انہتر واقعات پر مشتمل کتابچہ آپ نے تحریر فرمایا اور اس کا نام ”روایات الطیب“ رکھا۔
حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ نے اس پر حاشیہ تحریر فرمایا اور اس کا نام ”سقایات الصیّب“ رکھا۔ یہ حاشیہ اس وقت تحریر فرمایا، جب تینوں کو ایک ساتھ شائع کرنے کا ارادہ ہوا، اس وقت حضرت تھانوی نے ان تینوں کا نام ”ارواحِ ثلاثہ“ رکھا، اس نام سے کتاب چھپتی رہی؛ مگر اس نام میں عمدگی اور استعارہ کے باوجود پوشیدگی تھی، نام کے ساتھ مضمون کی طرف دھیان نہیں جاتا تھا، تو ناشرین نے اس کا نام ارواحِ ثلاثہ کے بجائے ”حکایاتِ اولیاء“ رکھ دیا، ”ارواحِ ثلاثہ“ میں چار سو اڑتیس حکایات تھیں؛ پھر جناب محمد سلیم عثمانی دیوبندی نے اس میں مزید تیس واقعات کا اضافہ فرماکر اسے شائع فرمایا، اس میں حضرت مولانا حسین احمد مدنی اور حضرت شیخ مولانا محمد زکریا صاحب رحمة اللہ علیہ کے واقعات کو بھی شامل فرمایا، اضافے کے بعد چار سو اٹھتر(۴۷۸) حکایات پر مشتمل یہ کتاب دیوبند کے کتب خانوں میں ملتی ہے۔
اس کتاب کو بہت سے غیردیوبندی ناقدین نے ہدفِ تنقید بھی بنایا اور علمائے دیوبندنے ان تنقیدوں کا جواب بھی دیا، اس مقالے میں ان اعتراضات وجواب کو نقل کرنا موضوع سے خروج کا باعث ہوگا۔
کتاب میں جن بزرگوں کی حکایات ہیں ان کی تفصیل
”حکایاتِ اولیاء“ میں جن بزرگوں کی حکایات بیان کی گئی ہیں، ان کے نام کی تفصیل بیان کرنا بے موقع نہیں ہے، ملاحظہ ہو:
۱- حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی
۲- حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں
۳- حضرت شاہ عبدالعزیز
۴-حضرت شاہ محمد اسحاق
۵- حضرت شاہ محمد اسماعیل
۶-حضرت سید احمد شہید رائے بریلوی
۷-حضرت شاہ غلام علی
۸-حضرت شاہ عبدالغنی
۹- حضرت میاں جی عظیم اللہ خادم حضرت شاہ عبدالعزیز
۱۰- شاہ محمد عمر (صاحب زادہ مولانا شاہ اسماعیل شہید)
۱۱-حضرت میاں نذیرحسین
۱۲- حضرت حکیم خادم علی
۱۳- حضرت مولانا عبدالحئی پھلتی
۱۴-حضرت شاہ عبدالرحیم ولایتی
۱۵-حضرت میاں جی نورمحمد جھن جھانوی
۱۶-حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی
۱۷-حضرت مولانا مملوک العلی محدث نانوتوی
۱۸-حضرت مولانا مظفرحسین کاندھلوی
۱۹- حضرت مولانا شیخ محمد تھانوی
۲۰- حضرت حافظ ضامن شہید
۲۱-حضرت مولانا اسماعیل کاندھلوی
۲۲-حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی
۲۳-حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی
۲۴-حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی
۲۵-حضرت مولانا محمد مظہر نانوتوی
۲۶-حضرت مولانا شاہ رفیع الدین
۲۷- حضرت مولانا فضل الرحمن گنج مرادآبادی
۲۸-حضرت حاجی عابدحسین دیوبندی
۲۹-حضرت نواب وزیرالدولہ
۳۰-حضرت نواب قطب الدین
۳۱-حضرت نواب مصطفی خان
۳۲-حضرت مولانا فیض الحسن ادیب سہارنپوری
۳۳-حضرت مولانا فضلِ حق خیرآبادی
۳۴-حضرت مولانا فتح محمد تھانوی
۳۵-حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی
۳۶-حضرت دیوان محمد یاسین دیوبندی
۳۷-حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوری
۳۸-حضرت بٹیرشاہ مجذوب رام پوری
۳۹-حضرت مولانا احمد حسن کان پوری
۴۰-حضرت مولانا میرمحبوب علی
۴۱-حضرت مومن خان مومن (شاعر)
۴۲-حضرت مولانااحمدحسن مرادآبادی
۴۳-حضرت مولانا عبدالحق کان پوری
۴۴-حضرت مولانا تجمل حسین
۴۵-حضرت مولانا محمدوکیل الہ آبادی
۴۶-حضرت مولانا منیر نانوتوی
۴۷-حضرت میاں اصغرحسین صاحب دیوبندی
۴۸-حضرت امیر شاہ خان (راوی حکایاتِ اولیاء)
۴۹-حضرت مولانا عبدالحئی لکھنوی
۵۰-حضرت حکیم نعمت اللہ صاحب
۵۱-حضرت حافظ عبدالقادر مجذوب
۵۲-حضرت مولانا اشرف علی تھانوی
۵۳-حضرت مولانا حسین احمد مدنی
۵۴-حضرت مولانا شیخ محمد زکریا کاندھلوی
۵۵-حضرت مولانا غلام رسول ہزاروی
۵۶-حضرت مولانا فخرالدین صاحب نظامی
۵۷-حضرت خواجہ باقی باللہ
۵۸-حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلوی
۵۹-حضرت علامہ انور شاہ کشمیری
بعض متأثرکن حکایات کا اختصار
حکایات اولیاء میں بہت سے واقعات ایسے ہیں جن سے قارئین حددرجہ متأثر ہوتے ہیں، مقالے میں ان سب کو اکٹھا کرنا مقصود نہیں ہے؛ لیکن چند واقعات کا ذکر نہ کرنا بھی مناسب نہیں ہے، ملاحظہ فرمائیں:
۱- حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی علمائے دیوبند میں بہت بڑے متقی پرہیزگار تھے، حرام رزق سے بہت زیادہ احتیاط کرتے تھے، اگر کبھی کسی کی دعوت میں جاتے اور حرام کا شبہ بھی ہوجاتا تو گھر آکر قے کردیتے تھے۔ (ص۱۸۴)
۲- حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نے ایک مجلس میں بڑے جذب کی کیفیت میں ارشاد فرمایا کہ جو لوگ علماء کرام کی توہین کرتے ہیں، اُن کا چہرہ قبر میں قبلہ سے پھرجاتا ہے، جس کا جی چاہے دیکھ لے۔ (ص۲۴۲)
۳- حضرت مولانا حسین احمد مدنی اپنے والد صاحب کے ساتھ مدینہ منورہ ہجرت کرکے گئے، وہاں اپنے گھر کا تعمیری کام خود کرتے تھے، گھر کے صحن میں کنواں بھی سب بھائیوں نے مل کر کھودا تھا، وہاں فقر وفاقہ کی نوبت آگئی تو وہ خاص طلبہ جو ان سے پڑھتے تھے اور ان کے فاقوں کو جانتے تھے، انھوں نے اصرار کیا کہ کچھ ٹیوشن فیس لے لیں؛ مگر حضرت نے سختی سے انکار کیا کہ اللہ کا دین پیسہ لے کر نہیں پڑھاؤں گا، جو طلبہ مسجد نبوی میں پڑھتے تھے، اُن کوحضرت کے فاقے کا احساس بھی نہ ہوتا تھا۔ حضرت تلاوت فرماتے تھے تو معلوم ہوتا تھاکہ قرآن کریم گویا ان پر نازل ہورہا ہے۔
۴- مرزامظہر جان جاناں حضرت عالم گیر کے خالہ زاد بھائی تھے، ان کا نام پہلے ”مرزا جانی“ تھا، حضرت عالم گیر نے مرزا مظہر جان جاناں رکھا (ص۱۹) حضرت مرزا جان جاناں کو ایک رافضی نے گولی ماردی؛ ابھی جان باقی تھی، شاہ عالم نے خیریت پوچھی تو بتایا کہ گولی لگنے کی تکلیف تو نہیں ہے، اس لیے کہ پہلے سے دل زخمی ہے؛ البتہ گولی قریب سے لگی تھی؛ اس لیے اس کا بارود اندر چلاگیا، اس کی بدبو سے پریشان ہوں۔(ص۱۹)
حکایاتِ اولیاء کی ادبیت
”حکایاتِ اولیاء“ کے قارئین جب اس کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کو ہرگز یہ محسوس نہیں ہوتاکہ یہ سوسال کی پرانی زبان ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت اس کے جمع کرنے والے نے زبان کی کلاسکیت کا بہت زیادہ لحاظ کیاتھا، حضرت مولانا حسیب احمد کیرانوی کی زبان نہایت عمدہ ہے، حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند کو کون نہیں جانتا، عرب وعجم میں اپنے خطابات اور زبان وبیان کے لحاظ سے مسلم شخصیت کے حامل تھے، موصوف کی شاعری بھی نہایت ہی اعلیٰ درجے کی ادبیت سے لبریز ہے اور نثری تحریریں بھی ٹکسالی اور کلاسیکی ہیں۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی زبان اور ان کی ادبیت کے سلسلے میں ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی اور ڈاکٹرمحمد حسن عسکری کی گواہی کافی ہے، اردو زبان کے سب سے بڑے مصنف کی حیثیت سے دنیا اِن کو جانتی پہچانتی ہے۔
غرض یہ کہ حکایاتِ اولیاء جس زمانہ میں جمع کی گئیں، اس کے لحاظ سے اس کی ادبیت اور آفاقیت میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔
اردو اور فارسی اشعار سے اہلِ ذوق کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ اس کی بھی ایک خاصی مقدار اس میں موجود ہے۔
اہلِ ادب جانتے ہیں کہ مومن خان مومنؔ اور مولوی فضل حق آرزوؔ دونوں کے درمیان گہری دوستی تھی، دونوں شطرنج کھیلا کرتے تھے؛ لیکن عجیب بات یہ تھی کہ مولوی فضلِ حق بدعت کی طرف مائل اور مومن خان حضرت مولانا شاہ محمد اسماعیل شہید کے معتقد تھے، مولوی فضلِ حق اور شاہ اسماعیل شہید کے درمیان تحریری مناظرے ہوتے رہتے تھے، ایک بار مومن خان مومن اور مولوی فضلِ حق کے درمیان ایک بات میں تکرار ہوگئی، مومن خان مومنؔ کو غصہ آگیا اور انھوں نے یہ شعر کہہ کر مجلس برخواست کردی۔
لے نام آرزو کا تو دل کو نکال دیں مومن نہ ہوں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم
اب مولوی فضل حق آرزو سے دور رہنے لگے؛ لیکن تھے تو دونوں دوست، مولوی فضل حق صاحب نے کچھ دنوں بعد ایک شعر لکھ کر مومن کو منایا، وہ شعر یہ تھا۔ؔ
ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم پر کیا کریں کہ ہوگئے ناچار جی سے ہم
اس واقعہ کی تفصیل حکایاتِ اولیاء (ص۸۲) میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ اس طرح کے اور بھی واقعات اور ان کے مطابق لکھے گئے اشعار ہیں، جن کو پڑھ کر حکایاتِ اولیاء کے ادبی مقام کو سمجھنا مشکل نہیں رہتا۔
حکایات اولیاء کا اسنادی امتیاز
عموماً حکایات کی کتابوں میں راوی کی وضاحت اور واقعات کی قطعیت واصلیت ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے، یہ امتیاز صرف حکایاتِ اولیاء کو حاصل ہے کہ اس میں ذکر کردہ حکایات اسنادی حیثیت سے بھی قابلِ اعتماد اور مضبوط ہیں، متن میں اور حواشی میں وضاحتیں موجود ہیں۔ ان سب کے باوجود بعض باتوں سے اہل علم کو اتفاق نہیں ہے، جو راوی اور مروی عنہ کی طرف لوٹتی ہیں۔
حکایاتِ اولیاء پر تحقیق وتعلیق کا مشورہ
حکایاتِ اولیاء اپنے زمانے کی بہترین کتاب ہے اور بزرگوں کے احوال وکوائف پر مشتمل ہونے کی وجہ سے قارئین کے درمیان بہت مقبول ہے، مقبولِ عام ہونے کی وجہ سے دیگر کتابوں کی بہ نسبت اس کی اشاعت زیادہ ہے، ہندوبیرونِ ہند میں متعدد بار متعدد کتب خانوں سے طبع ہوئی ہے، ان ایڈیشنوں میں ناشرین اور اہلِ علم نے بہت سی بہتر تبدیلیاں بھی کی ہیں؛ لیکن اس کی افادیت کو عام کرنے کے لیے ہنوز چند کاموں کی ضرورت ہے:
۱- ہرحکایت پر عنوان لگایا جائے؛ تاکہ قاری کی دلچسپی زیادہ ہو۔
۲- اس کی زبان پر ایک صدی کا طویل عرصہ گزرچکا ہے؛ اس لیے بعض الفاظ اب غریب (اجنبی) ہوگئے ہیں، ان کے معانی حاشیہ پر لکھے جائیں۔
۳- بعض تراکیب فارسی ہیں، آج عام اردو خواں حلقہ ان کا مفہوم مشکل سے ہی سمجھ پاتا ہے؛ اس لیے ان کی وضاحت کی جائے۔
۴- فارسی اشعار کا اردو ترجمہ بھی شاملِ اشاعت کیا جائے۔
۵- جتنی شخصیات کے اسمائے گرامی کتاب میں آئے ہیں، ان کا تعارف (ممکن حد تک) اختصار کے ساتھ کتاب کے اخیر میں لکھا جائے؛ تاکہ قارئین ان کو پہچان سکیں اور پیش کیے گئے مواد پر ان کا اطمینان مضبوط ہوجائے۔
۶- بہت سے واقعات پرغیروں کو اعتراض ہے، ان کا مختصرتشفی بخش جواب حاشیہ میں لکھا جائے۔ یہ کام حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے کیا ہے؛ مگر آج کے قارئین اور آج کے اٹھے ہوئے اعتراضات کو سامنے رکھ کر یہ کام کرنا چاہیے۔
مردے از غیب آید وکارے کند
——————————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ3، جلد:101 ، جمادی الاخری 1438 ہجری مطابق مارچ 2017ء