سوال: کیا تبلیغ فرض ہے ؟ کیا دعوت دینا بھی فرض ہے، اگر کوئی نہ دے تو کیا گناہگار ہوگا؟

جواب:(الف) مروجہ دعوت وتبلیغ تو دین سیکھنے اور سکھانے کے مفید ذرائع میں سے ہے، جیسے مدارس اور مکاتب وغیرہ، ان میں سے کسی ذریعے میں شمولیت کو فرض یا واجب نہیں کہا جاسکتا؛ ہاں بہ قدر ضرورت دین سیکھنا ہرمسلمان مرد وعورت پر فرض ہے، اس کے لیے وہ حسبِ سہولت کوئی بھی ذریعہ اختیار کرسکتا ہے۔

(ب) قرآن کریم کی کئی ایک آیات اور بہت سی احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ”امر بالمعروف اور نہی عن المنکر“ یعنی بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا، امت کے ہرفرد پر لازم ہے؛ البتہ تمام احکامِ شریعہ کی طرح اس میں بھی ہرشخص کی قدرت واستطاعت کے مطابق احکام جاری ہوں گے، جس کو جتنی قدرت ہو اتنا ہی یہ فریضہ (امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) اس پر عائد ہوگا، قدرت اس پر موقوف ہے کہ آدمی کو معروف کا معروف ہونا اور منکر کا منکر ہونا پوری طرح صحیح صحیح معلوم ہو؛ کیوں کہ مکمل معلومات نہ ہونے کی صورت میں معروف ومنکر کی واقفیت حاصل کرے، بہرحال اگر حسب تفصیل استطاعت وقدرت کے باوجود کوئی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ کرے تو عند اللہ اس کی گرفت ہوسکتی ہے۔ (ملخص معارف القرآن ۲/ ۱۳۶ تا ۱۴۴، ط: نعیمیہ)

نوٹ: تفسیر معارف القرآن میں سورہٴ آل عمران کی آیت وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ أُمَّةٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ کے تحت اس امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی بڑی اچھی تشریح کی گئی، اس کا مطالعہ بہت مفید ہوگا۔

محمد اسد اللہ غفرلہ

دارالافتاء دارالعلوم دیوبند

۲۸/۱/۱۴۳۸ھ

الجواب صحیح: زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی، محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ

مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

۲۹/۱/۱۴۳۸ھ

—————————————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ3، جلد:101 ‏، جمادی الاخری 1438 ہجری مطابق مارچ 2017ء

Related Posts