از: محدثُ العصر علامہ سیّد محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ
فوٹو اور تصویر کی حرمت
غالباً مارچ ۱۹۷۰ء میں راقم الحروف پاکستانی مندوب کی حیثیت سے مجمع البحوث الاسلامی کی پانچویں کانفرنس میں شرکت کے لیے قاہرہ گیا تھا، کانفرنس کے اختتام پر سابق صدر جمال عبدالناصر مرحوم نے گورنمنٹ ہاوٴس میں مندوبین کو ملاقات کی دعوت دی۔ جس شاہانہ کر و فر کا مظاہرہ ہوا اور جو بظاہر مصری حکومت کا خصوصی امتیاز ہے، اس کا ذکر مقصود نہیں۔ ترتیب کے مطابق ہر شخص ملاقات کے لیے جاتا، مصافحہ کرتا اور اسے کچھ کہنے کی خواہش ہوتی تو دوچار باتیں بھی کرلیتا۔ ملاقات اور مصافحہ کے بعد مرحوم نے مندوبین کے اعزاز کے لیے فوٹو گرافروں کو حکم دیا کہ ہر مندوب کا ان کے ساتھ الگ الگ فوٹو لیا جائے۔
آج کل جلسوں، کانفرنسوں اور اور عام اجتماعات میں فوٹو اتارنے کا مرض وبا کی شکل اختیار کرچکا ہے، یہ فتنہ اتنا عام ہوگیا کہ کوئی شخص خواہ کتنا ہی بچنا چاہے، نہیں بچ سکتا، پھر یہ معصیت اتنی پھیل گئی ہے کہ لوگ اسے گناہ ہی نہیں سمجھتے، دورِ فتنہ نے معروف کو منکر اور منکر کو معروف بناڈالا، گناہوں کی گندگی سے قلب و ذہن مسخ ہوگئے اور کتنے ہی گناہ معاشرے میں ایسے رچ بس گئے کہ لوگوں کے دلوں سے گناہ کا تصور و ادراک ہی ختم ہوگیا۔
مصر تو فوٹو کی وبا میں ہم سے بھی چار قدم آگے ہے، مدت ہوئی، وہاں کے ایک عالم شیخ محمدبخیت نے، جو شیخ الازھر تھے، اس کے جواز میں رسالہ لکھ کر اس معصیت کو اور بھی عام کردیا۔ اسی رسالہ سے متأثر ہوکر حضرت مولانا سید سلیمان ندوی رحمة اللہ علیہ نے بھی ”معارف“ میں اس کے جواز پر ایک مضمون لکھا تھا، امام العصر حضرت مولانا علامہ سیّد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے حکم سے حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نے اس پر ایک تردیدی مضمون لکھا جو ”القاسم“ میں شائع ہوا اور بعد میں ”التصویر لأحکام التصاویر“ کے نام سے مستقل رسالے کی صورت میں چھپ چکا ہے۔ الحمد للہ حضرت علامہ سید سلیمان ندوِی صاحب مرحوم نے اپنے مضمون سے اور فوٹو کے جواز سے رجوع فرما لیا تھا اور صاف اعلان کردیا تھا کہ: اب میں اسے حرام سمجھتا ہوں۔
خیر! عرض یہ کرنا ہے کہ صدر مرحوم کی طرف سے جب اس خواہش کی تکمیل کا اظہار ہوا تو اس عزت افزائی پر عام مندوبین خصوصاً عرب مندوبین کو بڑی خوشی ہوئی کہ جمال عبد الناصر کے ساتھ ہمارا یادگار فوٹو لیا جائے گا۔ ہر ایک نے باری باری صدر کی بائیں جانب کھڑے ہوکر فوٹو کھنچوائے، میں کوئی اِتنا صالح، متقی اور پارسا نہیں ہوں کہ ایسے مواقع میں بھی ان معصیتوں سے بچ سکوں، چنانچہ عام مجمعوں میں بہرحال فوٹو گرافر فوٹو لیتے رہتے ہیں، لیکن صدر کے ساتھ خصوصی فوٹو اُتروانے کے لیے میری باری آنے لگی تو صف سے نکل کر اندر جاکر کرسی پر بیٹھ گیا۔ اِتفاق سے صدر میرے سامنے تھے اور مجھے خوب دیکھ رہے تھے، جب میری باری آئی تو صدر نے دو ازہری علماء سے جو اس وقت ان کے سامنے تھے، کہا کہ جاوٴ اور پاکستانی شیخ کو بلاوٴ، وہ آکر فوٹو کھنچوائے۔ الحمد للہ اس وقت میری دِینی غیرت جوش میں آئی، دِل نے کہا آج اپنے اکابر کے مسلک پر جمے رہو اور اس اعزاز کو ٹھکرا دو! آج اس حدیث نبوی پر عمل کرنا ضروری ہے: ”لا طاعة لمخلوق في معصیة الخالق“۔ یعنی معصیت میں کسی امیر کی اطاعت جائز نہیں، امیر کی اطاعت بس جائز اُمور میں ہے۔
جب ان دونوں حضرات نے مجھ سے کہا: ”سیادة الرئیس یدعوک لأخذ الصورة معک“، ”جناب صدر آپ کو اپنے ساتھ فوٹو بنوانے کے لیے بلاتے ہیں“۔
میں نے کہا: ”لا أحب ذلک، ولیست للصورة عندي قیمة دینیة، فلا أحبھا“ میں اسے درست نہیں سمجھتا، نہ میرے نزدیک اس کی کوئی دینی قدر و قیمت ہے۔
(بصائر و عبر، حصہ اول، ص۲۷۲)
دین اور اہل دین کو مٹانے سازش
یہ زمانہ ڈپلومیسی اور چال بازی کا ہے، جس مخالف اور بزعم خود دُشمن طبقہ اور اس کے مراکز کے خلاف جنگ کرنی ہوتی ہے، میدانِ حرب و ضرب اور جبر و استبداد میں گرم جنگ لڑنے سے برسوں پہلے میدانِ صحافت میں سرد جنگ لڑی جاتی ہے، یعنی پہلے اس کے خلاف اخبارات و رسائل میں مضامین و مقالات شائع ہوتے ہیں تاکہ زمین یعنی رائے عامہ کو اس کے خلاف ہموار کرلیا جائے، اس کے بعد حکومت کی ”کنٹرولنگ مشینری“ حرکت میں آتی ہے اور ابتدا میں صرف حکومت سے ”ریکگ نیشن“ یعنی الحاق کی دعوت دی جاتی ہے، ساتھ ساتھ ”ایڈ“ یعنی مالی امداد کا لقمہ چرب و شیریں اربابِ مراکز و مدارس کے منتظمین کے سامنے ڈالا جاتا ہے، اگر یہ حربہ کامیاب نہیں ہوتا تو پھر قانون کے ذریعے ریکگ نیشن یعنی الحاق پر مجبور کیا جاتا ہے، اس کے بعد نصاب اور درسی کتابوں میں کترو بیونت کی جاتی ہے، قدیم علوم کی ٹھوس قابلیت پیدا کرنے والی کتابیں نکال کر اُن کی جگہ عصری علوم و فنون کی کتابیں لائی جاتی ہیں، اس طرح دینی علوم کی جان تو نکال ہی لی جاتی ہے، اسی کے ساتھ ان ملحقہ مدارس کی سندوں کو وزارتِ تعلیمات سے منظور کرادیا جاتا ہے اور سرکاری و نیم سرکاری تعلیمی و غیر تعلیمی اداروں میں ملازمت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ یہ طلبہ کے لیے لقمہ چرب و شیریں ڈالا جاتا ہے، اور پورے ملک سے ماہرینِ علوم دینیہ کو کھینچ لینے اور آزاد عربی مدارس کو ویران کردینے کی غرض سے ان نیم سرکاری یا سرکاری درس گاہوں میں کام کرنے والے ماہرین و محققین علوم دینیہ کے لیے گراں قدر مشاہروں اور الاوٴنسز کے اعلان کیے جاتے ہیں، ان کی سالانہ ترقی اور تنخواہ کے منہ میں پانی بھر لانے والے گریڈ مقرر کیے جاتے ہیں، یہ آزمودہ کار علماء و محققین کے زبان و قلم کو حکومت کے خلاف بولنے اور لکھنے سے باز رکھنے کے لیے طلائی زنجیریں تیار کی جاتی ہیں۔
ان تدبیروں کے بعد بھی جو دین کو دنیا پر ترجیح دینے والے علمائے حق اور آزاد مدارسِ دینیہ عربیہ کے اساتذہ و مبلغین اور واعظین و خطباء اس دام ہم رنگ زمین میں گرفتار ہوکر اپنی کلمہٴ حق کہنے کی آزادی قربان نہیں کرنا چاہتے، ان کے خلاف حکومت کا قانون حرکت میں آتا ہے، اوّل ان کی بقدرِ کفاف روزی پر حملہ کیا جاتا ہے اور ڈپٹی کمشنر کی منظوری کے بغیر پبلک سے چندہ وصول کرنا قانوناً ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے، پھر ان کے گوشہٴ عافیت پر یورش ہوتی ہے اور محکمہ اوقاف کے ذریعے یادگارِ صفہ مسجد نبوی علی صاحبہا الصلوٰة والسلام یعنی مدارِسِ عربیہ اور مکاتب دینیہ کی عمارتوں پر قبضہ کرکے انہیں خانماں برباد کردیا جاتا ہے، خدا کے گھروں یعنی مسجدوں پر قبضہ کیا جاتا ہے اور محکمہٴ اوقاف کے ذریعے غیر سند یافتہ موٴذنین، ائمہ اور خطباء کے لیے مسجدوں کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ اوقاف کی قائم کردہ منتظمہ کمیٹی کے سیکریٹری سے اعلان کرادیا جاتا ہے کہ سیکریٹری کی اجازت کے بغیر کوئی بھی عالمِ دین مسجد میں وعظ نہیں کہہ سکتا، پبلک جلسوں میں علمائے حق کو جلسوں سے روکنے کے لیے ”دفعہ۱۴۴“ لگادی جاتی ہے۔ ان علماء و مبلغین و واعظین کو، جن سے حکومت کے خلاف بولنے کا خطرہ ہوتا ہے، کسی خاص علاقہ میں، ان کی بستی میں، یا گھروں میں قانونِ ”تحفظ امن عامہ“ کے تحت نظر بند کردیا جاتا ہے، یا زبان بندی کردی جاتی ہے، اور جن علمائے حق کے ملک میں موجود ہونے کو ہی حکومت اپنے مفاد کے لیے مضر سمجھتی ہے، اُن کو جلا وطن کردیا جاتا ہے۔ تا آں کہ علمائے حق کے پاس قانون شکنی کے علاوہ کوئی چارہ باقی نہیں رہتااور وہ قانون شکنی پر آمادہ ہوجاتے ہیں، تب گرم جنگ شروع ہوتی ہے اور اور جیلوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اگر جیلوں کی وحشیانہ اور ننگ انسانیت ایذاء رسانیاں بھی اُن کو حق بات کہنے سے نہیں روک سکتیں تو حکومتیں اُن کو سولی پر چڑھا دینے میں بھی دریغ نہیں کرتیں، اور علمائے حق امام مالک، امام ابوحنیفہ، اور امام احمد کی سنت کو بے دریغ زندہ کرتے ہیں اور قید و بند کی تمام تر سختیوں بلکہ موت فی سبیل اللہ کو بھی لبیک کہتے ہیں۔
یہ ہوتے ہیں علمائے حق پیدا کرنے والی علوم دینیہ کی درس گاہوں اور علماء حق کے بابرکت وجود کو کسی روئے زمین سے مٹانے کے دہ سالہ اور پنج سالہ منصوبے اور ان کے مختلف مرحلے، سادہ لوح عوام اُن سے قطعاً ناواقف ہیں، مگر علمائے حق اُن سے خوب اچھی طرح واقف ہیں، اور اعلائے کلمة اللہ کی راہ میں ہر مزاحمت کا مقابلہ کرنے اور ہر ظلم و جور کو سہنے اور ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں، مگر کسی مرحلہ پر بھی علوم دینیہ کی حفاظت کا فرض انجام دینے اور حکومت کے اثر سے آزاد دینی خدمت انجام دینے کی سعادت سے کسی قیمت پر بھی دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وما توفیقنا الا باللہ، ھو مولانا، نعم المولیٰ و نعم النصیر“ (بصائر و عبر جلد ۲/ ۲۲۴)
پاکستان کیوں حاصل کیا گیا اور اب تک کیا ہوا؟
ماضی قریب میں متحدہ ہندوستان میں ہم نے یہی نعرے لگائے کہ مسلمانوں کے لیے ایک مستقل جداگانہ سرزمین کی اس لیے ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے نفاذ کے لیے اسلام کی حکومت قائم ہواور سر سے پیر تک اسلامی معاشرے کی تشکیل ہو، اس موقع پر ہم نے بڑے بلند و بانگ دعوے کیے تھے کہ حق تعالیٰ کے قوانین عدل کا اجراء ہوگا، اسلامی شعائر کا احیاء ہوگا، اسلامی اتحاد کا خواب پورا ہوگا، اسی مقصد کے لیے جلسے کیے، جلوس نکالے، کوششیں کیں، قرار دادیں پاس کیں، جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانیاں دیں، جو کچھ ہوا اور جو کچھ کیا اس کی تاریخ آپ کے سامنے ہے۔ بہرحال جد و جہد ٹھکانے لگی، حق تعالیٰ نے غلامی کے طویل دور کے بعد آزادی کی نعمت نصیب فرمائی اور ایک بڑی عظیم سلطنت عطا فرمائی۔ ۱۲/ کروڑ کی قابلِ قدر، اطاعت شعار اور فرماں بردار رعیت عطا فرمائی جس نے کارخانے بنائے، کاروبار کو ترقی دی، مملکت کو آباد کیا، اس کو چار چاند لگائے، باہر کی دنیا میں اس کا وقار قائم کیا، مسجدیں بنائیں، مدرسے تعمیر کرائے اور اتنا کمایا کہ اپنے ٹیکسوں سے حکومت کے خزانوں کو معمور کیا، اور قوم کی محنتوں سے ملک کہاں سے کہاں پہنچا، ماضی و حال کی تاریخ آپ کے سامنے ہے، غرض دین و دنیا کی سعادتوں سے مملکت کو ہم کنار بنایا۔
لیکن جس بنیادی مقصد کا بار بار اعلان کیا جاتا تھا کہ اسلامی حکومت قائم ہوگی اور یوں عالم اسلام سے اتحاد ہوگا اس کے لیے حکمرانوں اور حکومتوں نے کیا کیا؟ اپنے وعدوں کو کہاں تک پورا کیا؟ یہاں کون کون سے اسلامی قوانین جاری ہوئے؟ کفر و الحاد کو کہاں تک ختم کیا گیا؟ اسلامی معاشرت قائم کرنے کے لیے کیا کیا اقدامات کیے گئے؟ ان تمام سوالات کا جواب حسرت ناک نفی میں ملے گا۔ آخر امتحان کا یہ عبوری دور تھا، کون سی نعمت تھی جو حق تعالیٰ نے نہ دی ہو؟ کون سی فرصت تھی جو نہ ملی ہو؟ لیکن وا حسرتاہ․․․! کہ ربع صدی سے زیادہ عرصہ گزر گیا، مگر پاکستان کے مقصد وجود کا خواب شرمندہٴ تعبیر نہ ہوا۔ کون سا وعدہ پورا کیا گیا؟ کون سی اسلامی عدالت قائم ہوئی؟ زانی اور شرابی کو کون سی سزا دی گئی؟ بداخلاقی کا کیا انسداد کیا گیا؟ ظلم، عدوان، رشوت ستانی، کنبہ پروری، بے حیائی و عریانی، سود خوری و بدمعاشی کو ختم کرنے کے لیے کون سا قدم اٹھایا گیا؟ بلکہ اس کے برعکس یہ ہوا کہ سود خوری، شراب نوشی، بداخلاقی اور بے حیائی کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی گئی بلکہ سرکاری ذرائع سے اس کی نشر و اشاعت میں بھی کوئی کسر باقی نہیں اٹھا رکھی گئی۔”بینات“ کے صفحات میں ان دردناک داستانوں کو بار بار دہرایا گیا ہے۔ (بصائر و عبر، جلد۱، ص۱۹۰)
————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ2، جلد:100 ، ربیع الثانی1437 ہجری مطابق فروری 2016ء