از: مولانا محبوب فروغ احمد قاسمی
استاذ حدیث مدرسہ حسینیہ کایم کلم کیرالہ
امت میں اختلاف کا ہونا ناگزیر ہے، ہر دور میں ہوتا آیاہے اور ہوتا رہے گا، حقیقت میں یہ بھی اللہ کی قدرت کا مظاہرہ ہے اس کو کوئی مٹانے کے درپے ہوتو بھی مٹ نہیں سکتا، یہ الگ بات ہے کہ ہر اختلاف نہ تو مذموم ہے اور نہ ہی ہر اختلاف محمود ہوسکتا، وہ اختلاف جس کا منشاء وسبب قبیح ہو وہ اختلاف یقینا مذموم ہے، اسی طرح ایسے امور کی بابت اختلاف جن میں اس کی گنجائش نہیں اس بنا پر کہ ہماری عقل کی پرواز وہاں تک نہیں یا اس کو عقل سے زیادہ وحی کے مضبوط ذریعے سے مربوط کرکے رکھا گیا ہے؛ اس بابت اختصار کے ساتھ مندرجہ ذیل سطور میں کچھ معروضات پیش کی جارہی ہیں۔
اختلافات کے مذموم اسباب
قبیح اسباب کی بنا پر جو اختلافات رونما ہوتے ہیں وہ مذموم ہوجاتے ہیں۔ ایسے اسباب تو متعدد ہیں؛ مگر ان کو دو میں منحصر کیا جاسکتا ہے: (۱) وہ اختلاف جو جہل کی بنا پر ہو (۲) وہ اختلاف جو محض تعصب اور نفس پرستی کی بنا پر ہو۔
جہل کی بنا پر اختلاف
اختلاف کے وجوہات پر غور کیاجائے تو ”جہالت“ ایک اہم سبب ہے جس کی بنا پر اختلافات رونما ہوتے ہیں، مذہبیات سے ناواقفیت، احکام کے مابین درجات اور ان کے حدود سے عدم معرفت، جس امر میں گفتگو ہورہی ہے اس میں مہارت کافقدان اوراس کے لوازم ومقتضیات سے جہل ایسا سنگین وخطرناک مرض ہے جس نے امت کو اختلاف وانتشار کا شکار بناکر رکھ دیا ہے، دینی مسائل میں محض عقل سے یافت نہیں ہوتی ہے؛ بلکہ دین کے اصول کی دریافت کے بعد صحیح راہ ملتی ہے، ہر شخص کی رائے زنی، ہر کس وناکس کی مداخلت، ہمہ وشما کی فتویٰ بازی نے امت کا شیرازہ پارہ پارہ کیاہے۔ حدیث میں اس کی طرف اشارہ کیاگیا ہے:
ان اللہ لا یقبض العلم انتزاعًا ینتزعہ من العباد ولکن یقبض العلم بقبض العلماء حتی اذا لم یبق عالم اتخذ الناس روٴوسًا جھالاً، فسئلوا فافتوا بغیر علم فضلوا وأضلّوا․ (بخاری: ۱/۲۰، کتاب العلم، باب کیف یقبض العلم)
(اللہ تعالیٰ بندوں سے یک لخت علم کو سلب نہیں کرے گا؛ بلکہ علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ اپنا پیشوا جاہلوں کو بنالیں گے، پس ان سے سوال کیا جائے گا وہ بھی بلا علم فتویٰ دیں گے، نتیجتاً خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے)
یہ ایسا ہی ہے کہ ایک انجینئر، ڈاکٹر کے نسخہ میں دخل انداز ہوجائے تو مریض کو اپنی خیر منانی چاہیے، ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر معلوم نہیں ہے تو ”واللہ اعلم“ کہہ کر بات ختم کردے اور اگر اس کے بس میں دوسرے سے معلوم کرنا ہوتو کوشش کرلے، حضرت علی وحضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین اختلاف سے کسی کو انکارہوسکتا ہے؛ مگر جب مسائل الجھتے تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہی رجوع کیا جاتا تھا۔ موافقین ومخالفین کسی کو عار محسوس نہیں ہوتی، ایک مقدمہ حضرت معاویہ کی خدمت میں آیاکہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو کسی کے ساتھ زنا میں ملوث پایا، اس نے زانی کو قتل کردیا، اب اس قاتل کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے، قاتل ہونے کا تقاضا ہے کہ قصاصاً شوہر کو قتل کردیا جائے؛ مگر جن حالات میں یہ واقعہ پیش آیا ان جذبات سے چشم پوشی بھی ممکن نہیں؛ بالآخر حضرت معاویہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ فیصلہ کیا ہو؟ انھوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ حضرت علی سے مسئلہ دریافت کرکے لکھیں، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب مرحمت فرمایا۔ (موطا امام مالک: ۳۰۸-۳۰۹، کتاب القضاء، القضاء فیمن وجد مع امرأتہ رجلاً)
تعصب ونفس پرستی کی بنا پر اختلاف
تعصب بھی اختلاف کے باب میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، انسان جانتا ہے، پہچانتا ہے، مگر قومی ہمدردی، لسانی وزبانی ہم آہنگی،مسلکی اتحاد واتفاق، اور سیاسی اشتراک کی وجہ سے اختلاف کرتا ہے، یا پھر ان سب سے قطع نظر محض نفسانی خواہش کی تکمیل کے لیے اور جذبات کی تسکین کے لیے اختلاف کرتا ہے، یہود ونصاریٰ کا اپنے نبیوں سے، اور کفار مکہ کا اسلام ومسلمانوں سے اختلاف وعناد کا بنیادی داعیہ وکلیدی محرک یہی تعصب ہی تو تھا۔ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث میں اس قبیح داعیہ کی طرف واضح اشارہ موجود ہے:
ما ضلّ قوم بعد ھُدی کانوا علیہ الا أوتوا الجدل، ثم قرأ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ھذہ الآیة: ما ضربوہ لک الا جدلاً، بل ھم قوم خصمون (ترمذی: ۲/۱۶۱، کتاب التفسیر، سورة زخرف، حسن صحیح)
(کہا گیا ہے: مراد یہاں عناد اور قرآن میں بعض کا بعض سے تعارض پیدا کرکے شک پیدا کرنا ہے کہ اپنے مذہب و مشرب اور اپنے مشایخ کے آراء کی ترویج ہو، ان کا مقصود حق کی نصرت کرنا نہیں ہے، اور یہ صورت حرام ہے)
یہ دو اسباب بہت ہی اہم ہیں جو اختلاف کو جنم دیتے ہیں، باقی اور اسباب پر غور کیاجائے تو وہ سب انہی دو کے شاخسانہ ہوں گے۔
ایسے امور کی بابت اختلاف جو محل اختلاف نہیں ہیں
جس طرح بُرے اغراض واسباب کی بنا پر اختلاف مذموم ہوتا ہے اسی طرح ایسے امور کی بابت اختلاف بھی مذموم ہوجاتا ہے جو محل اختلاف نہیں ہیں۔ وہ بھی بنیادی طور پر دو ہیں:
(۱) عقائد میں اختلاف، (۲) آیات متشابہات میں اختلاف۔
عقائد میں اختلاف
عقائد کے سلسلہ میں اللہ پاک نے بالکل واضح ہدایات اپنے انبیاء کو مبعوث کرکے دے دی ہے، ہر زمان ومکان کے لحاظ سے انبیاء کی شریعتیں تو بدلتی رہیں؛ مگر امور اعتقادیہ میں فرق نہیں آیا، قرآن نے واضح کیا: شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحًا (اللہ نے اسی دین کو تمہارے لیے مشروع کیا، جس کی وصیت حضرت نوح ودیگر انبیاء ورسل کو کیا)
البتہ سب کے لیے منہاج اور چلنے کی راہوں کو الگ الگ بنایا، تاکہ چلنا آسان اور عمل کرنا سہل ہوجائے، ان اعتقادی ونظریاتی امور میں جب بھی امت کی طرف سے تھوڑا بھی اختلاف کا شائبہ اللہ کے رسول کو محسوس ہوا، رحمة للعالمین کا چہرہ غصہ سے تمتما گیا اور فوراً تنبیہ فرمادی: ألھذا أُمرتم، ألھذا بعثتم، کیا تمہیں اسی کا حکم دیاگیا ہے، کیا تمہیں دنیا میں اسی کے لیے بھیجا گیا ہے، تمہیں کیا ہوا کہ کتاب اللہ کی بابت اختلاف کرتے ہو، سابقہ قومیں اسی وجہ سے گمراہ وہلاک ہوگئیں کہ انھوں نے اپنی کتابوں میں اختلاف کیا؛ بہتر وتہتر فرقوں کا وجود بھی اسی کی رہین منت ہے، صحابہ کے زمانہ میں ہی اعتقادی فرقے بال وپر نکال چکے تھے، حضرت علی کے دور میں زندیقوں کی جماعت کو امیر المومنین کے حکم سے آگ میں جھونک دیاگیا، یہ سب اعتقادی اختلاف کی پاداش میں ہوا۔
متشابہات میں اختلاف
متشابہات بھی ان امور میں سے ہیں جن میں اختلاف کی گنجائش نہیں؛ اس لیے کہ اختلاف کا مقصد صواب ودرستگی کی تلاش اور اس کا حصول ہے، یہ انسان کی قدرت سے باہر ہے کہ متشابہات کی حقیقی مراد تک رسائی حاصل کرلے کیوں کہ انسان کو اس کا علم دیا ہی نہیں گیا ہے۔ اللہ نے اپنے پاس محفوظ رکھا ہے؛ بلکہ اس سلسلہ میں کلام کرنے کی ممانعت فرمادی گئی، قرآن کریم نے ان لوگوں کو ”اہل زیغ وضلال“ سے تعبیر کیا ہے جو ان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔
خلافت فاروقی میں ایسا ہی ایک شخص تھا جو بصرہ میں رہتا تھا اور ہروقت متشابہات کے درپے رہتا، وہ مصر بھی پہنچ گیا، وہاں اس وقت حضرت عمروبن عاص گورنر تھے، انھوں نے اس بابت امیرالمومنین کو عریضہ لکھا، حضرت عمر نے اس شخص کو مدینہ طلب فرمایا، حضرت عمر نے اس سے سوال کیا: تو کون شخص ہے؟ اس نے کہا: اللہ کا بندہ ”صبیغ“ ہوں۔ حضرت عمر نے فرمایا: میں اللہ کا بندہ عمر ہوں اور تروتازہ قمچیوں سے مارنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ سارا بدن لہولہان ہوگیا، جب زخم اچھا ہونے لگا، پھر مارنا شروع کیا، اس نے عرض کیا: امیرالمومنین: اگر آپ میرے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں تو سیدھے طریقے سے قتل کیوں نہیں کروادیتے ہیں اور اگر میرے دماغ کے فتور کی وجہ سے یہ معاملہ کررہے ہیں تو اللہ شاہد ہے کہ وہ نکل چکا ہے۔ حضرت عمر نے اب بصرہ یعنی گھر جانے کی اجازت مرحمت فرمائی، مگر لوگوں کو میل جول سے منع کردیا۔ ابوعثمان نہدی کہتے ہیں: وہ شخص ہم لوگوں کے مجمع میں اگرآجاتا تو ہم سب وہاں سے کھسک لیتے، یہ اس پر بہت شاق گزرتا تھا۔ بالآخر حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے دارالخلافہ عریضہ روانہ کیا کہ اس کی حالت اچھی ہوچکی ہے تب جاکر حضرت عمر نے ملنے جلنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ (اسلامی سیاست، مولف شیخ زکریا رحمہ اللہ، ص:۲۱۷ بحوالہ درمنثور)
اختلاف کی یہ ساری انواع مذموم اور قابل اجتناب ہیں؛ کیوں کہ ان میں حق وباطل کا معرکہ ہے اور اللہ نے حق کو واضح کردیا ہے اب کے خلاف جو بھی ہوگا باطل ہوگا۔ علماء نے ہر دور میں باطل کو للکارا ہے، ان کے چیلنج کو قبول کیا ہے اور اس کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑے ہوگئے ہیں، کسی بھی قسم کی مداہنت کو برداشت نہیں کیا۔
فروعی واجتہادی اختلاف
لیکن ان سب کے علاوہ ایک نوع فروعی واجتہادی اختلاف کی ہے، یہ اختلاف محمود ہے۔ جس طرح انبیاء کی شریعتیں الگ الگ رہی ہیں، فروعی مسائل میں ہر مجتہد کی رائیں مختلف ہوئی ہیں، کسی کو باطل نہیں کہا جاسکتا، اس قسم کا اختلاف امت کی آسانی کے لیے ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا جملہ بہت ہی وقعت رکھتا ہے:
ما یسرّنی لو أن أصحاب محمد لم یختلفوا؛ لأنھم لو لم یختلفوا لم تکن رخصة (جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبدالبر:۲/۷۸)
(مجھے اس بات سے مسرت نہ ہوتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں اختلاف نہ ہوتا؛ اس لیے کہ ان میں اگر اختلاف نہ ہوتا تو گنجائش ورخصت نہیں رہتی)
حضرت امام مالک سے خلیفہٴ وقت نے درخواست کی کہ آپ موطا کے متعدد نسخے تیار کردیں، ہم اس کو سلطنت کے ہرشہر میں بھیج دیں گے اور سب کو شاہی فرمان کے ذریعہ اس پر متفق کردیں گے، مگر حضرت امام مالک اس کے لیے راضی نہیں ہوئے اور اس ارادے سے باز رہنے کی تلقین فرمائی اور فرمایا: لوگوں کے پاس مختلف حدیثیں پہنچی ہیں وہ ان روایات کے موافق عمل پیرا ہیں، بعد کے خلیفہ نے بھی اس قسم کا مشورہ دیا مگر حضرت امام مالک نے اس قسم کا مشورہ پسند نہیں فرمایا، کیوں کہ اس کی وجہ سے امت مصیبت میں مبتلا ہوسکتی تھی۔ (مقدمہ اوجز المسالک:۱/۱۹)
صحابہ سے لے کر علمائے امت تک فروعی مسائل میں اختلاف کرتے آئے ہیں، بسا اوقات ایک ہی عالم زمان ومکان کے فرق اور احوال وتقاضے کے بدلنے سے بھی مختلف نظر آتا ہے، امام ابوحنیفہ وصاحبین کے مابین جہاں اختلاف کی اور بھی نوعیتیں ہیں ایک بڑا حصہ اس قسم کے اختلاف کا بھی ہے۔ اصحابہ فقہ ”اختلاف زمان ومکان“ سے تعبیر کرکے اسی کی طرف اشارہ بھی فرماتے ہیں۔ امام شافعی علیہ الرحمہ کے اقوال جدیدہ وقدیمہ میں تنوع اسی کا نتیجہ ہے۔
پھر اجتہادی مسائل میں حق وباطل کا اختلاف نہیں؛ بلکہ صواب واحتمال خطا کا اختلاف ہے، جس میں صواب کو پہنچنے والا گو ایک ہی ہوگا، مگر اجر کے مستحق دونوں ہی ہوتے ہیں اس کی صراحت ووضاحت حدیث میں بھی فرمائی گئی ہے۔ اس لیے ایسے اختلاف کو مذموم نہیں؛ بلکہ محمود کہا جائے گا۔
اختلاف میں حدود سے تجاوز
اختلاف خواہ مذموم ہو یا محمود اس کے حدود سے تجاوز کرنا اور مخالفین کے ساتھ اعتدال سے ہٹ کر افراط وتفریط کا معاملہ کرنا جائز نہیں۔ قرآن کریم نے تو بہت ہی واضح انداز میں کہا ہے: ولا یجرمنکم شنآن قوم أن صدوکم عن المسجد الحرام أن تعتدوا (ایسانہ ہو کہ کسی قوم سے اس سبب سے کہ انھوں نے مسجد حرام سے روک دیا ہے وہ بغض تمہارے لیے باعث بن جائے حد سے تجاوز کرنے کا)
آیت میں معاملہ کفار کا ہے ان کی مخالفت میں بھی حد سے تجاوز کو روکا جارہا ہے، تو ان اختلافات کی بابت کیا کہا جائے گا جو کافروں ومسلمانوں کے مابین نہیں؛ بلکہ بظاہر کلمہ گو حضرات کے مابین ہے، صحابہ وائمہ کے طرزِ عمل پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ امر اور بھی واضح ہوگا، صحابہ کے مابین اختلاف کم نہیں ہوئے، محاربات تک کی نوبت آئی، حتیٰ کہ تقریباً بیس ہزار نفوس ان حروب کے شکار ہوئے، یہ جو کچھ ہوا غلط فہمی واجتہاد کی بنا پر ہوا؛ لیکن اس کے باوجود حدود کی رعایت میں اپنی مثال آپ ہیں، بلوائیوں اور سبائیوں نے حضرت عثمان کا گھیرا تنگ کررکھا ہے، گھر سے نکلنے کی اجازت تک نہیں دے رہے ہیں، مسجد نبوی میں ان کا ہی ایک فرد امامت کررہا ہے، جو لوگوں کو ناگوار بھی ہورہا ہے، لوگوں کی شکایت پر خلیفہ کی زبان سے نصیحت بھرا جملہ نکلتا ہے:
الصلاة أحسن ما یعمل الناس، فاذا أحسن الناس فأحسن معھم واذا أساوٴوا فاجتنب اسائتھم․ (بخاری: ۱/۹۶، کتاب الأذان، باب امامة المفتون والمبتدع)
(نماز بہت اچھی چیز ہے جب تک لوگ اس پر عامل ہیں، پس جب لوگ اچھے طریقے کو اختیار کریں تم بھی ان کے ساتھ اس حسنہ میں شریک رہو، اور جب سوء کو اختیار کریں تو ان کے سوء سے اجتناب کرو)
اساء ت سے ان کا خلیفہ کے ساتھ بغاوت کو مراد لیاہے۔ اپنے مخالفین کے سلسلہ میں اس قدر اعتدال کی راہ اختیار کرنا ایک خلیفہٴ راشد وعادل سے ہی ممکن تھا۔
اسی طرح ائمہ کے مابین اختلافات سے کتب فقہ لبریز ہیں،مگر کسی فقیہ نے دوسرے کی شان میں گستاخی نہیں کی، امام شافعی کا مشہور جملہ علمی حلقوں میں زبان زد ہے اور بالکل صحیح ہے کہ لوگ فقہ میں امام ابوحنیفہ کے محتاج ہیں۔
بہرحال ہر امر میں اعتدال مطلوب ہے، اختلاف میں بھی اعتدال مطلوب ہوگا۔
(۱) فروعی احکام کو بیان کرنے میں اعتدال
فقہی مباحث میں جو کچھ اختلاف پایا جاتا ہے اس کا اکثر حصہ افضلیت و اولیت پر مبنی ہے اِکا دُکا مسئلہ جواز وعدم جواز سے بھی متعلق ہے؛ مگر یہ سارے مسائل مجتہد فیہ ہیں جن میں خطا وصواب دونوں کا احتمال ہے، کسی بھی فریق کومورد الزام ٹھہرانا غلو وتشدد ہوگا، ائمہ کے مسالک ترجیح کی خاطر ہیں اور بلا ضرورت ایک امام کے مسلک سے عدول نہیں کرنا چاہیے؛ لیکن یہ احکام تبلیغی نہیں ہیں لہٰذا دوسروں کو اپنے فکر وخیال کا ہم نوا بنانا اعتدال کے باب کو مجروح کرتا ہے۔ حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی رحمة اللہ علیہ کا ایک پیراگراف جو انھوں نے بزرگوں واسلاف کے خیالات سے کشید کرکے لکھاہے حقیقت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے:
”الغرض وہ تمام مسائل جن میں سلف صالحین اور فقہائے امت کا اختلاف ہے، خصوصاً جن مسائل میں اختلاف صرف افضلیت وغیرافضلیت تک محدود ہے ان میں ایسا غلو اور تشدد روا نہیں کہ ایک دوسرے کو توبہ کی دعوتیں دی جانے لگیں، ایسا غلو اور تشدد ابتداع فی الدین ہے جس سے شاہ صاحب کے بقول دین میں تحریف کا دروازہ کھلتا ہے، ایسے لوگوں کا شمار اہل حق میں نہیں اہل بدعت میں ہے، میں اپنے بہادر بھائی اور ان کے دیگر ہم مشرب بزرگوں کی خدمت میں نہایت دردمندی سے گزارش کروں گا کہ آپ کے جذبہ عمل بالحدیث کی دل وجان سے قدر کرتا ہوں، مگر خدارا ان فروعی مسائل میں ایسا غلو اور تشدد روانہ رکھئے جس سے دین کی حدود مٹ جائیں اور فرائض وواجبات اور مستحبات کے درمیان خط امتیاز باقی نہ رہے، اور بے دین طبقہ کو اہل دین کا تمسخر اڑانے کا موقع ملے، آپ جس سنت کو اولیٰ وافضل سمجھتے ہیں بڑے شوق واخلاص کے ساتھ ان پر عمل کیجیے، ان شاء اللہ آپ کو اپنے مخلصانہ عمل کا اجر ضرور ملے گا؛ لیکن دوسرے حضرات کے نزدیک اگر دوسری سنت افضل وراجح ہے تو ان پر طعن نہ کیجیے؛ بلکہ اطمینان رکھئے ان کو بھی بشرط اخلاص اس دوسری سنت پر عمل کرنے سے ان شاء اللہ آپ سے کم اجر نہیں ملے گا۔“ (اختلاف امت اور صراط مستقیم، ص:۲۲۷، مکتبہ تھانوی)
سارے ہی مکاتب فکر قرآن وحدیث، اجماع وقیاس سے ہی استدلال کرتے ہیں، اختلاف نصوص فہمی یا فقہی اصول و شرعی ضوابط سے تخریج وتنقیح کا ہے یا پھر نصوص کی تاویل وتشریح کا ہے۔ سب ہی اللہ کے نزدیک ماجور ہیں کسی کو لعن طعن کرنا کیوں کر جائزہوگا، اور غالباً مدارس کی درسگاہوں میں ایسا ہوتا بھی نہیں ہے، ایک دو فرد سے ایسا اگر ہورہا ہے تو اس کو عمومی رجحان نہیں کہا جاسکتا، مخاطب طلبہ بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جو کچھ بیان ہورہا ہے وہ ترجیح کی خاطر ہی ہورہا ہے۔ اس کی تبلیغ مقصود نہیں ہے؛ لیکن پھر بھی ایسا طرزِ تدریس اختیار کرنا جس سے کسی دوسرے امام کی تنقیص وتحقیر ہورہی ہے، یا احترام میں کمی اور طلبہ کے ذہن میں نفرت پیدا ہورہی ہے تو بہرحال روانہ ہوگا۔
محتاط رویہ تو یہ ہے کہ پوری دیانت داری کے ساتھ ہر ایک کا مسلک واضح کردیا جائے، نیز ہر ایک کی ترجیحات کو ذکر کرکے مخاطب طلبہ جس مسلک کے پیروکار ہوں اس کی ترجیح کو مدلل کردیا جائے، نیز باور کرادیا جائے کہ دوسرے فقہی دبستانوں کا اختلاف کس بنیاد پر ہے، نص فہمی بنیاد ہے یا کسی اصل کل سے تخریج ہے ایسا کرنے سے اعتدال بھی قائم رہے گا اور اتحاد واتفاق کی فضا بھی استوار رہے گی۔ کیرلا کے مدارس جہاں ہر دو فکر وخیال کے طلبہ پڑھتے ہیں، مدارس سے نکلنے کے بعد بھی کوئی ضروری نہیں کہ ان کے مسلک کے مطابق خدمت کا موقع بھی مل جائے؛ لیکن کوئی اختلاف وانتشار نہیں، یہ علماء انہی مدارس سے فاضل ہوتے ہیں، پھر امہات المدارس سے تربیت لیتے ہیں جو خالص حنفی مکتب فکر کے حامل ہیں، اگر کسی کا دماغ ہی بودا ہو اور وہ بیان مسلک وترجیح کو بھی نزاع واختلاف سمجھنے لگے تو اس کا کیا علاج ہوسکتا ہے۔
(۲) نظریاتی واعتقادی مسائل میں اختلاف اور طرز عمل
یہ بھی حقیقت ہے کہ کلمہ گو حضرات کے مابین بعض اختلافات اعتقادی ہیں، ایمان کی بنیاد صحیح اعتقاد پر ہے، اس کو استوار رکھنا بے حد ضروری ہے، جس کے لیے بحث و مباحثہ ناگزیر ہے، باہمی تبادلہٴ خیال میں نوک جھوک سے مفر بھی نہیں ہے۔ بغیر اس کے اللہ کی راہ کو افراط وتفریط سے محفوظ رکھنا بھی مشکل ہے، نیز لوگوں کو ان مفاسد سے آگاہ کرنا بھی فریضہ ہے، جس میں ان مفاسد پر تنقید سے چارئہ کار نہیں، یہ اختلاف چوں کہ صرف صواب وخطاء کا نہیں ہے اس لیے صحیح نظریہ کی تشریح و تبلیغ ضروری ہے؛ لیکن اتحاد واتفاق کی فضا کو مسموم کرنا بھی حالات وتقاضائے وقت کے خلاف ہے، اس لیے ایسارویہ اختیار کیا جائے کہ نفرت سے زیادہ محبت کا ماحول سازگار ہو، اعتدال بہرحال اس میں بھی مطلوب ہے۔ لہٰذا:
(الف) باہمی مذاکرہ اختلافی ونظریاتی موضوعات پر نہ کیا جائے، اس سے مناظرہ کی صورت پیداہوگی جس سے فی الوقت فائدہ کم محسوس ہورہا ہے۔
(ب)دونوں فریق کے مابین جو امور متفق علیہ ہیں ان سے مذاکرات کی ابتدا کی جائے۔
(ج) عام مجلسوں میں مفاسد پر تنقید تو ہو مگر ان کے حاملین کا نام لے کر نشانہ بنایاجائے؛ بلکہ آمنا سامنا ہونے پر معاملہ حسن خلق کا ہو، اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین اسوئہ چھوڑا ہے: حضرت عائشہ فرماتی ہیں: ایک شخص نے حضور علیہ السلام کے پاس آنے کی اجازت طلب کی تو اللہ کے رسول نے اس کے مفاسد پر تنبیہ کرتے ہوئے کہا: بئس أخوالعشیرة (یہ اپنے قبیلہ کا برا انسان ہے) لیکن جب سامنا ہوا بڑی ہی ملاطفت ونرم مزاجی وحسن کلامی کا مظاہرہ کیا۔ (بخاری:۲/۹۰۵ کتاب الادب، باب المدارة مع الناس)
حضرت ابوالدرداء کا قول بھی بخاری اسی جگہ نقل فرماتے ہیں:
انا لنکشِر فی وجوہ أقوام وان قلوبنا لتلعنھم․ (بخاری: حوالہ بالا)
(ہم لوگوں کے سامنے مسکراتے ہیں حالانکہ ہمارے دل ان پر لعنت کرتے رہتے ہیں)
(د) تنقید برائے تنقید نہ ہو کہ جذبات کو تسکین حاصل ہوجائے اور بس؛ بلکہ ہر ہر لفظ سے خیرخواہی اور صالح جذبات کی ترجمانی ہورہی ہو، خلافتِ راشدہ کا آخری دور خلفشار کا رہا ہے، ایک طرف مسلمانوں کی دو بڑی جماعتیں آپس میں دست وگریباں ہیں دوسری طرف کچھ نئے فرقے جنم لے رہے ہیں، عجیب عجیب شوشے چھوڑے جارہے ہیں، جس سے امت مسلمہ کی سدسکندری میں شگاف ورخنہ آنے لگا، بالآخر نوبت قتال و جہاد تک آگئی، ان ہی فرقوں میں خوارج کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہوئی، جو درحقیقت حضرت علی وحضرت معاویہ کے مابین اختلاف میں اتفاق واتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے سامنے آیا تھا، ایسا جذباتی شوشہ چھوڑا کہ بہت سے لوگ ہم نوا بھی ہوگئے، حضرت علی نے راہ راست پر لانے کی بہت کوشش کی؛ مگر کوشش بارآور نہیں ہوئی، بالآخر ان سے قتال بھی ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق اس کا سرغنہ مارا بھی گیا،اس موقع پر خلیفہٴ وقت حضرت علی نے جو لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا وہ تنقید کے باب میں ہمارے لیے بہت ہی اہم ہے۔ انھوں نے فرمایا:
اخواننا بغوا علینا (بیہقی: ۸/۱۲۳) ہمارے بھائیوں نے ہمارے خلاف خروج کیا ہے۔
حضرت شاہ عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ نے شیعوں پر تنقید کرنے کے لیے جو کتاب تصنیف فرمائی اس کا نام کتنا پیارا رکھا ”تحفہٴ اثنا عشریہ“ کتاب کا نام ہی اپیل کرتا ہے کہ اس کا مطالعہ کیا جائے۔
(۳) تنقید میں نظریات کے تفاوت کا لحاظ
جس طرح امرخیرکی تبلیغ واشاعت میں درجہ بندی آئی ہے۔ پہلے ایمان کی دعوت دینے کا حکم ہے، بعدہ احکام کی تبلیغ کرنے کا حکم ہے (مسلم: ۱/۳۷، باب الدعاء الی الشہادتین)
تدریجی طریقہ ہی دعوت وتبلیغ میں موثر ہوتا ہے، منکر پر نکیر بھی دعوت وتبلیغ کا بنیادی حصہ ہے، منکر پر سکوت ہلاکت وبربادی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ تاریخ وحدیث کی شہادت سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ منکر کی نحوست کا اثر صرف انہی لوگوں تک محدود نہیں ہوتا جو اس میں مبتلا ہیں؛ بلکہ خاموش رہنے والے، ملنے جلنے والے سب ہی خواہی نخواہی اس کی چپیٹ میں آتے ہیں؛ اس لیے منکر پر نکیر وتنقید میں بھی درجات کالحاظ ضروری ہے۔
ایسا نظریہ جو گمراہی کا سبب ہے اس پر تنقید اس فکر وخیال کے حاملین کے مقابلہ میں خفیف ہوگی جو کفر کی سرحد تک پہنچ چکے ہیں، پہلا گروہ اپنی تمام تر گمراہیوں کے باوجود جماعت مسلمین سے خارج نہیں، اس لیے ایسارویہ اختیار نہ کیا جائے کہ خدانخواستہ اسلام کا قلادہ ہی اتار پھینکے اور بالآخر امت تفرق وانتشار کی شکار ہوکر اپنا وزن کھوبیٹھے، بات بات پر تنقید کے بجائے عقل ونقل سے تفہیم کی کوشش کی جائے، گمراہی کے عواقب ونتائج سے آگاہ کیا جائے کیوں کہ گمراہی میں گرفتار عدم آگہی، ونفس پرستی ہی کی وجہ سے راستہ بھٹکے ہوئے ہیں، انہی دونوں قلعوں کو مسمار کردیا جائے تو بات بن جائے گی۔
لیکن جن حضرات کی گمراہی کفر تک پہنچی ہوئی ہے وہ پہلے ہی سے دائرئہ اسلام سے دور ہوچکے ہیں، حتی الامکان ان کو قریب کرنے کی کوشش کی جائے گی اس کے لیے افراط و تفریط کے بجائے اعتدال کی راہ اختیار کی جائے اوران کے کفریہ خیالات کی تردید کی جائے، افہام و تفہیم نیز مذاکرہ وتبادلہٴ خیال سے بات نہیں بنتی ہے تو سخت تنقید بھی کی جاسکتی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی ہی جماعت کے اس گروہ کو نذرِ آتش کردیا جس نے حضرت علی کی بابت حلولِ الوہیت کا کفریہ عقیدہ گھڑا تھا۔ حضرت صدیق اکبر نے مرتدین کے استیصال کے لیے جدوجہد واستقامت کی انتہاء ہی کردی تھی اور حضرت عمر جیسے پامرد وباہمت اور باطل کے لیے تلوار برہنہ انسان کو بھی صدیقی صلابت کا اقرار واعتراف کرنا پڑا۔ (مسلم:۱/۳۷، باب الامر بقتال الناس الخ)
حضرت ابوبکر نے اسی موقع پر حضرت عمر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا تھا: جبار في الکفر خوار في الاسلام (کفر میں تو بڑے سورما تھے، اسلام میں اتنا بزدل ہوگئے)
اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ وہ گمراہی جو کفر ہو اس کے تئیں کسی قدر سختی کا رویہ اختیار کیا جائے گا۔
(۴) شیعہ وسنی اختلاف کی بھیانک شکل
شیعہ وسنی کے مابین نظریاتی واصولی اختلاف ہے، شیعوں کی جماعت نے اسلام کی بیخ کنی کی کم کوشش نہیں کی ہے، انھوں نے اپنے گمراہ عقیدوں اور جذباتی نظریوں سے امت کو افتراق وانتشار کے دوراہے پر کھڑا کردیا ہے۔ بڑے بڑے معرکے اسی جماعت کی رہین منت ہیں، ان میں بعض تو ضلالت وگمراہی سے بھی آگے کفر والحاد کی سرحد میں داخل ہوچکے ہیں، ایسے ہی لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اپنے ناپاک عزائم کو چھپاکر پوری دنیا پر یا کم از کم مسلم ممالک پر چھاجانا چاہتے ہیں تاکہ ان جراثیم کو امت محمدیہ میں منتقل کرکے پورے سماج کو ایمانی واعتقادی مریض بنانے میں کامیاب ہوسکیں جن کی مخالفت ہر زمانہ کے ہادیانِ اسلام وپاسبانِ سنت کرتے آئے ہیں، اس صورتِ حال کی سنگینی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام کے کھلے دشمنوں کی نگاہ میں ان کی حیثیت کچھ بھی ہو مگر ان کو آلہٴ کار کے طورپر استعمال کرنے میں کامیاب ضرور ہیں، اور بظاہر کلمہ گو جماعت کو آپس میں ٹکراکر خود سیادت و قیادت کے بازی گر بنے بیٹھے ہیں، اس سے مسلمانوں کی قوت کمزور ہوتی جارہی ہے۔
نیز جس ملک نے بھی اپنے یہاں اس جماعت کو بسایا ہے اور ان کورہنے کی اجازت دی ہے، اس ملک سے اس گمراہ جماعت کا حکماً ہی سہی مگر معاہدہ ہوچکا ہے، ان کی عزت و آبرو، جان ومال اس وقت تک محفوظ ہوں گے جب تک کہ معاہدہ کی خلاف ورزی کرکے بغاوت کو مول نہیں لیتے ہیں۔ اس لیے ناچیز راقم تو یہ سمجھتا ہے کہ ان کو بے دریغ قتل کرنا اس سِرّی معاہدہ کی خلاف ورزی ہے۔ البتہ ان کی طرف سے بغاوت کا ظہور ہو تو حکومت کی سرپرستی میں ان کی بغاوت کو کچلنے ودبانے کی ہرممکن سعی کی جائے گی خواہ اس میں خوں ریزی ہی کیوں نہ ہوجائے۔
وقت ومصلحت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ان سے اختلاف خواہ عقائد میں ہی ہے مگر ان کو انگیز کیا جائے۔ ان کی حالت منافقوں کی طرح ہے، آخر زمانہ نبوت میں منافقین بھی مدینہ منورہ کے شہری تھے۔ ان کے قلوب تو کفر کی آلودگی سے پلیدہی تھے، طرفہ تماشہ یہ کہ ہر وقت کوشاں رہتے کہ اسلام ومسلمان ذلیل ہوجائیں، کون کون سی سازش انھوں نے نہیں رچی، قطعی ذریعہٴ علم سے ساری خباثتوں کا انکشاف ہونے کے باوجود بھی کسی منافق کو اللہ کے رسول نے قتل کی اجازت نہیں دی، کیوں کہ اس صورت میں غیروں کو پیغام جاتا کہ اسلام میں خود ان کے ماننے والے محفوظ ومامون نہیں ہیں، تو اسلام کا دائرہ وسیع نہیں ہوپاتا۔ جن ملکوں میں خون ریزیاں ہورہی ہیں ان کی صحیح صورتِ حال کیاہے اس کی صحیح تصویر ابھی تک واضح نہیں ہے، انھوں نے اتنا بڑا اقدام اچانک کیوں کرلیا جس کے ردعمل میں دونوں ہی طرف سے قیمتی جانتی چلی گئیں۔ بعض حادثات وواقعات تو ناگہانی نہیں، سوچی وسمجھی تدبیر کا نتیجہ معلوم ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں ان سے اختلاف کرنا بہترہوگا یا ان کو برداشت کرکے فتنہ کو دبانا مناسب ہوگا، یہ اس وقت کا سنگین مسئلہ ہے۔ اہل دانش واہل سیاست دونوں مل کر اس پر غورکرسکتے ہیں اور لائحہ عمل تیار کرسکتے ہیں۔
پُرامن زندگی
علمی اختلاف خواہ کتنا شدید ہو، مگر دنیا کے امن وامان کو بحال رکھنا ازبس ضروری ہے، جس طرح مسلم وغیرمسلم انسانیت کے اصول پر مل جل کر زندگی گزارتے ہیں اور قوانین ومعاہدے کی رو سے ملک کو پُرامن بنائے رکھتے ہیں، شیعہ وسنی بھی اپنے تمام تر اختلاف کے باوجود امن وامان کے ساتھ ملک کے شہری بن سکتے ہیں، دونوں ہی جماعت کے قائدین و پیشوا کو اس سلسلہ میں پیش قدمی کرنے کی ضرورت ہے، ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی اگر تمام راہیں مسدود بھی ہوں تو کم از کم ”کلمہ“ پر اتحاد واتفاق کیا ہی جاسکتا ہے۔ اعتقادی ونظریاتی موشگافیوں کے لیے مذاکرات ومناظرہ کی محافل کافی ہیں، اس کے لیے اللہ کی زمین کو جنگ کا میدان بنانا اور قتل وخون کرکے امن وامان کو غارت کرنا اور آج کے مسلم معاشرہ کے اندرونی کھوکھلاپن کو آشکارا کرنا دانش مندی نہیں ہے۔ ویسے ہی دشمن تاک میں ہیں، کب مسلمان آپس میں الجھیں اور ہم لقمہ تر بناکر نگل لیں؛ بلکہ ان اختلافات کو وہ بھانپ بھی چکے ہیں اور مجاہد قوم کی بہادری اور جوش وخروش کا اندازہ بھی کرچکے ہیں اب تو وہ آپس میں لڑاکر تالیاں بجارہے ہیں۔
اسلام نے تو ذمیوں کے حقوق کی بھی رعایت کی ہے۔ ان کو امن وامان سے رہنے کی اجازت دی، یہ محض اس لیے کہ وہ بھی شہری ہیں، ایک شہری ہونے کا تقاضا ہے کہ ان کے حقوق کی رعایت ہر طرح کی جائے، یہ بھی نہیں کہاجاسکتا کہ صرف سنی حضرات ہی مورِد الزام ہیں؛ بلکہ دونوں ہی گروہ کے لوگ حد اعتدال سے تجاوز کرجاتے ہیں، اس لیے دونوں ہی جانب سے مذہبی پیشوا وقائدین کو اس بابت ٹھوس پیش قدمی کرنی چاہیے۔ اپنی اپنی جماعت کو امن کا سبق یاد دلانا چاہیے، ہر ایسے طریقہ کے اظہار سے احتراز کی ترغیب دینی چاہیے کہ جس سے ملک کے قوانین کی مخالفت ہورہی ہو اور حکمراں طبقہ کی دل آزاری ہوتی ہو، جو طبقہ محکوم ہے ان کی بھی دل آزاری سے گریز کرنا چاہیے۔ اس طرح اگر مذہبی قائدین اپنے لوگوں کو باور کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ملک میں امن وامان کی فضا قائم ہوسکتی ہے۔ واللہ اعلم
————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ2، جلد:100 ، ربیع الثانی1437 ہجری مطابق فروری 2016ء