از: مولانا محمد تبریز عالم حلیمی قاسمی، استاذ دارالعلوم حیدرآباد
سلام کرنے کا افضل طریقہ یہ ہے کہ ”السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ“ کہا جائے، یہی حکم جواب کابھی ہے؛ لیکن بعض روایتوں میں ”وبرکاتہ“ کے بعد ”ومغفرتہ“ کا اضافہ وغیرہ بھی منقول ہے، اُس کی حیثیت کیا ہے؟ کیا وہ معمول بہا ہے یا نہیں؟ ذیل میں اس حوالے سے ایک تحقیقی اور علمی بحث پیش کی جارہی ہے۔
اگر بات سنت کی کی جائے تو مسنون یہی ہے کہ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ پر اضافہ نہ کیا جائے ”وبرکاتہ“ سلام کی انتہا ہے اور اِس پر اضافہ کرنا خلافِ سنت ہے۔
(۱) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یا عائشة! ھذا جبرئیل یُقرأ علیکِ السلامَ، فقلت: وعلیہ السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ، فذھبت تزید، فقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: إلی ھذا انتھی السلام، فقال: (رحمة اللہ وبرکاتہ علیکم أھل البیت)
اے عائشہ! یہ جبرئیل تھے،تمہیں سلام کہہ رہے ہیں، میں نے کہا : وعلیہ السلام ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اِس پر اضافہ کرنے لگیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سلام کی حد یہیں تک ہے، پھر آپ نے (مذکورہ آیت) پڑھی (اللہ کی رحمت اور برکات تم پر ہوں اے اہل بیت!) (بخاری، رقم: ۳۰۴۵، بدء الخلق)
(۲) امام مالک رحمة ا للہ علیہ نے موطا میں سند جید کے ساتھ محمد بن عمرو بن عطاء سے روایت نقل کی ہے: وہ کہتے ہیں:
میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا، آپ کے پاس ایک یمنی شخص داخل ہوئے اور سلام یوں کیا: السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ، ثم زاد شیئاً مع ذلک پھر مزید کچھ کلمات کہے، حضرت نے، جو اُن دنوں بینائی سے محروم ہوگئے تھے، کہا: کون ہے؟ لوگوں نے کہا: ایک یمنی صاحب ہیں جوآپ کے پاس آتے رہتے ہیں؛ چناں چہ لوگوں نے اُن کا تعارف کرایا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: إن السلام انتھی إلی البرکة سلام کی انتہا برکت تک ہے۔(موطا مالک، رقم: ۱۷۲۸، باب العمل فی السلام)
(۳) اسی روایت کو امام بیہقی نے شعب الایمان میں بھی نقل کیا ہے، اس روایت میں کچھ اضافہ ہے:
ایک سائل آیا اور آپ کو سلام کیا اور کہا: السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ ورضوانہ اور اِس کو اُس سے شمار کیا (یعنی ومغفرتہ ورضوانہ کو سلام کا حصہ خیال کیا) تو ابن عباس نے کہا: ما ھذا السلام؟ وغضب حتی احمرت وجنتاہ یہ کیسا سلام ہے ؟اور غصہ ہوئے؛ یہاں تک کہ آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا، پھر آپ کے بیٹے علی نے آپ سے کہا :اباجان! یہ مسئلہ پوچھنے والا ہے، آپ نے کہا: إن اللہ حدّ السلام حداً وینھی عما وراء ذلک ثم قرأ ”رحمة اللہ وبرکاتہ علیکم أھل البیت انہ حمید مجید“ بے شک اللہ نے سلام کی ایک حد مقرر کردی ہے اور اس سے زائد سے منع فرمایا ہے، پھر آیت پڑھی رحمة اللہ وبرکاتہ علیکم أھل البیت انہ حمید مجید(ہود: ۳۷) (شعب الایمان، رقم: ۸۸۷۸، فصل فی کیفیة السلام)
(۴) زہرہ ابن معبد کہتے ہیں: کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: انتھی السلام إلی ”وبرکاتہ“ حافظ ابن حجر نے کہا: اس کے رجال ثقہ ہیں۔(فتح الباری: ۱۱/۶، رقم الحدیث: ۸۸۷۸)
(۵) ایک آدمی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کویوں سلام کیا : السلام علیک ورحمة اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ، تو ابن عمر نے اسے ڈانٹا اور کہا: حسبک إذا ا نتھیت إلی ”وبرکاتہ“ إلی ما قال اللہ عزوجل یعنی تیرے لیے کافی ہے جب تو ”وبرکاتہ“ تک پہنچے، جو اللہ تعالیٰ نے کہا( ابن عمر کی مراد وہی آیت تھی جو اوپر گذری) (ہود: ۳۷) (شعب الایمان: ۸۸۸۰)
(۶) حضرت یحییٰ بن سعید سے مروی ہے: کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ایک شخص نے یوں سلام کیا، السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ والغادیات والرائحات ابن عمر نے جواباً کہا: تمہارے اوپر ہزار مرتبہ ہو ․ راوی کہتے ہیں : ابن عمر نے ایسا جواب، اس سلام کے طریقے کو ناپسند کرنے کی وجہ سے دیا( گویا طنزاً جواب تھا) کیوں کہ اُس نے وبرکاتہ کے بعد والغادیات کا اضافہ کردیا تھا۔(موطا مالک، رقم: ۱۷۳۳)
(۷) پیچھے عمران بن حصین کی روایت نقل کی گئی ہے، جس میں السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ تک کا تذکرہ ہے، جس پر تیس نیکیاں ملتی ہیں اُس میں اِس کے بعد کچھ الفاظ کا تذکرہ نہیں ہے۔(ابوداوٴد: ۵۱۹۵)
(۸) ہندیہ میں ہے: ولا ینبغي أن یزاد علی البرکات، قال ابن عباس رضي اللہ عنھما: لکل شيء منتھی، ومنتھی السلام البرکات کذا في المحیط․ (ہندیہ: ۵/۳۲۵)
(۹) صاحب منتقٰی علامہ باجی لکھتے ہیں: سلام کے تین اجزاء ہیں (۱) السلام علیکم (۲) ورحمة اللہ (۳) وبرکاتہ، جس کسی نے ایک یا دو جزوں پر اکتفا کیا تو کافی ہے اور جس نے تینوں اَجزاء کو جمع کیا تو اُس نے مقصود کوحاصل کرلیا اور جب مقصود حاصل ہوگیا تو اُس پر اضافہ کرنا درست نہیں۔(المنتقٰی: ۴/۲۸۰)
(۱۰) امام محمد نے موطا محمد میں لکھا ہے: إذا قال: السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ، فلیکفف؛ فإن اتباع السنة أفضل یعنی اگر سلام کرنے والے نے سلام یوں کیا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ تو اب وہیں رک جائے، اضافہ نہ کرے؛ کیوں کہ سنت کی پیروی بہر حال افضل ہے۔(موطا امام محمد: ۳۸۵)
اور موطا امام محمد کے شارح علامہ لکھنوی نے اس قول کی شرح میں لکھا ہے:
العمل الکثیر في بدعة لیس خیرا من عمل قلیل في سنة وظاھرہ أن الزیادة علی ”وبرکاتہ“ خلاف السنة مطلقاً․(التعلیق الممجد مع موطا امام محمد:۳۸۵)
بدعت میں عمل کثیر، سنت میں عمل قلیل سے بہتر نہیں ہے یعنی سنت کا عمل چاہے تھوڑا ہی ہو بدعت میں زیادتی ٴعمل سے بہر حال بہتر ہے؛ پس ظاہر یہی ہے کہ وبرکاتہ پر اضافہ مطلقاً خلافِ سنت ہے۔ تلک عشرة کاملة․
خلاصہٴ کلام: مذکورہ تصریحات سے معلوم ہوا کہ سلام کا ادنیٰ درجہ السلام علیکم ہے، اس پر دس نیکیاں ملتی ہیں اور اگر السلام علیکم ورحمة اللہ کہا جائے تو بیس نیکیاں اور السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ سلام کا اعلیٰ درجہ ہے، اس پر تیس نیکیاں ملتی ہیں، اور یہی حکم جواب کا بھی ہے؛ البتہ جواب ہمیشہ سلام کے مقابلہ میں اچھے الفاظ میں دینا چاہیے یعنی اگر کوئی صرف السلام علیکم کہے تو جواباً وعلیکم السلام ورحمة اللہ کہنا افضل ہے اور السلام علیکم ورحمة اللہ کسی نے کہا تو جواباً وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ کہنا افضل ہے، اور اگر کسی نے ابتداء ً ہی السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کہہ دیا تو جواب میں وبرکاتہ پر اضافہ مسنون نہیں؛ کیوں کہ وبرکاتہ ابتداء ً اور جواباً سلام کی حد ہے اور سنت سمجھتے ہوئے حد کو پار کرنا درست نہیں۔
شواہد ومویدات
مذکورہ دلائل کے علاوہ اس مسئلہ کے دیگر مویدات اور شواہد بھی ہیں۔
(۱) تَشَہُّد میں سلام کے الفاظ بھی ”وبرکاتہ“ پر ختم ہوتے ہیں: السلام علیک أیھا النبي ورحمة اللہ وبرکاتہ․(مسلم، رقم: ۸۷۲)
(۲) نماز سے نکلنے کے سلام کے عام الفاظ ،جو احادیث صحیحہ کثیرہ سے ثابت ہیں وہ رحمة اللّٰہ تک ہیں؛ جب کہ بعض احادیث میں وبرکاتہ بھی ثابت ہے؛ لیکن وبرکاتہ پر اضافہ کسی روایت میں نہیں ہے۔ علقمہ بن وائل اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:
صلیت مع النبي صلی اللہ علیہ وسلم فکان یُسَلِّم عن یمینہ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ․ (ابوداوٴد: ۱/۱۵۰)
(۳) امام بیہقی نے شعب الایمان میں زہرہ بن معبد کی روایت نقل کی ہے:
عروہ بن الزبیر کو ایک آدمی نے یوں سلام کیا : السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ تو عروہ نے کہا: ما ترک لنا فضلا إن السلام انتھی إلی وبرکاتہ کہ اس نے ہمارے لیے کوئی فضیلت نہیں چھوڑی؛ بے شک سلام کی انتہا وبرکاتہ تک ہے۔(شعب الایمان، رقم الحدیث: ۹۰۹۶)
اُن روایات کا علمی جائزہ جن میں ”وبرکاتہ“ پر اِضافہ ہے
کتب حدیث میں کچھ روایتیں ایسی ملتی ہیں، جن سے ”وبرکاتہ“ پر اضافہ ثابت ہوتا ہے، ذیل میں چند روایات کا تذکرہ کیا جارہا ہے:
(۱) حدثنا إسحاق بن سوید الرملي، حدثنا أبو مریم، أظن أني سمعت نافع بن یزید قال: أخبرني أبو مرحوم، عن سھل بن معاذ بن أنس، عن أبیہ، عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم بمعناہ، زاد ثم أتی آخر، فقال: السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ․ فقال: أربعون قال: ھکذا تکون الفضائل․
․․․․․ پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا: السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ان کے لیے) چالیس نیکیاں ہیں اور فرمایا: فضیلت وثواب میں ایسے ہی اضافہ ہوتا ہے۔(ابوداوٴد: ۵۱۹۶، باب کیف السلام)
ابوداوٴد نے یہ روایت اُس روایت کے بعد متصلًا ذکر کی ہے، جس میں تیس نیکیوں کے ملنے کا تذکرہ ہے، جس کے راوی حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ہیں، مذکورہ بالا حدیث کے راوی معاذ بن انس رضی اللہ عنہ ہیں، اِس میں ومغفرتہ کا اضافہ ہے، نیز اِس پر چالیس نیکیوں کے ملنے کا تذکرہ ہے۔
جائزہ: لیکن علمی اعتبار سے یہ حدیث قابل استدلال نہیں، صاحب اوجز المسالک نے اِس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: علامہ منذری فرماتے ہیں: کہ یہ حدیث ضعیف ہے؛ کیوں کہ سندِ حدیث کا ایک راوی ابو مرحوم عبد الرحیم بن میمون ہے، اِس کی روایات قابل استدلال نہیں ہوتیں۔(اوجز: ۱۷/۱۷۶) ابو حاتم کہتے ہیں: یُکتبُ حدیثُہ ولا یُحتَجُّ بہ اس کی حدیث لکھی جائے گی؛ مگر استدلال نہیں کرسکتے۔(میزان الاعتدال: ۵۰۳۷)
اِسی حدیث کے دوسرے راوی ہیں سہل بن معاذ، اِن کو بھی یحییٰ بن معین نے ضعیف کہا ہے؛ اگر چہ ابن حبان نے اِنہیں ثقات میں ذکر کیا ہے۔(میزان: رقم: ۳۵۹۲)
حافظ ابن حجر نے تقریب میں عبد الرحیم بن میمون کو صَدوق اور سہل بن معاذ کو لا بأس بہ کہنے کے باوجود اِس حدیث کے بارے میں کہا ہے: کہ اِس کی سند ضعیف ہے۔(فتح الباری:۱۱/۸)
حدیث کے راوی ابن ابی مریم نے دوسرے راوی نافع ابن یزید کے بارے میں، سند کے اندر کہا ہے: میرا گمان ہے کہ میں نے نافع بن یزید سے سنا ہے، یعنی اُنھوں نے سماعت کا جزم اور یقین بیان نہیں کیا ہے؛ چناں چہ علامہ ابن قیم لکھتے ہیں:
ولا یثبت ھذا الحدیث؛ فإن لہ ثلاث علل: إحداھا، أنہ من روایة أبي مرحوم عبد الرحیم بن میمون، ولا یُحتَجُّ بہ․
الثانیة: أن فیہ أیضا سھل بن معاذ وھو أیضا کَذٰلک
الثالثة: أن سعید بن أبي مریم أحَدُ راویہ لم یَجزِم بالروایة؛ بل قال: أظن أني سمعت نافع بن یزید․(زاد المعاد: ۲/۴۱۷، فصل صیغة السلام)
اب حاصل یہ نکلا کہ ابوداوٴد کی مذکورہ روایت ضعیف ہے، اور اُن روایات کے مقابلہ میں جن میں وبرکاتہ پر اضافہ نہیں ہے یا منع کیا گیا ہے، قابلِ استدلال نہیں۔
(۲) حضرت انس سے مروی ہے: کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جانور چَرانے والے صاحب گذرتے تھے، تو یوں سلام کرتے تھے ”السلام علیک یا رسول اللہ! تو رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم جواب یوں دیتے: وعلیک السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ ورضوانہ صلی اللہ علیہ وسلمالحدیث (عمل الیوم واللیلة لابن السنی: رقم: ۲۳۵، منتہی رد السلام)
اس حدیث میں ”وبرکاتہ“ پر دو الفاظ ومغفرتہ ورضوانہ کا اضافہ ہے؛ لیکن مذکورہ حدیث ضعیف ہے، محققین کی آراء پڑھیے:
علامہ نووی کہتے ہیں: روینا في کتاب ابن السني بإسناد ضعیف عن أنس (الاذکار: ۲۰۹)
حافظ ابن حجر کہتے ہیں: وأخرج ابن السني في کتابہ بسندٍ واہٍ من حدیث أنس (فتح الباری:۱۱/۶)
حافظ ابن القیم لکھتے ہیں: وأضعف من ھذا، الحدیثُ الآخر عن أنس (زادالمعاد: ۲/۴۱۸)
خلاصہ یہ کہ مذکورہ حدیث ابوداوٴد والی حدیث سے بھی زیادہ ضعیف ہے اور بقول ابن حجر: اس کی سند واہی تبا ہی ہے، لہٰذا وبرکاتہ پر اضافہ کی مسنونیت پر استدلال درست نہیں۔
(۳) عن زید بن أرقم قال: کنا إذا سلم النبي صلی اللہ علیہ وسلم علینا، قلنا: وعلیک السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ․ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سلام کرتے تو ہم جواب میں وعلیک السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ کہتے تھے۔ (شعب الایمان: رقم: ۸۸۸۱، فصل فی کیفیة السلام)
اس حدیث پر بھی شارحینِ حدیث نے کلام کیا ہے؛ چناں چہ محقق حافظ ابن حجر کہتے ہیں: وأخرج البیہقي في ”الشعب“ بسندٍ ضعیف أیضا، من حدیث زید بن أرقم․ (فتح الباری: ۱۱/۶)
حاصل گفتگو: الغرض سلام وجوابِ سلام میں ومغفرتہ وغیرہ کے اضافہ کے جواز کے بارے میں یہ چند روایات ذکر کی گئیں؛ جن کا حال ظاہر ہوا کہ علمی اعتبار سے ضعیف ہیں؛ جب کہ دوسری طرف سلام اور جوابِ سلام کا ”وبرکاتہ“پر ختم ہونا اور اُس پر اضافہ کے عدم جواز کی روایات سامنے آگئیں؛ لہٰذا اب مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ ابتداء ً اور جواباً دونوں صورتوں میں سلام کی آخری حد وبرکاتہ ہے اور یہی مسنون ہے۔
حافظ ابن حجر کی رائے
حافظ ابن حجر شارحِ بخاری نے اِن روایات پر گفتگو کرتے ہوئے اخیر میں لکھا ہے:
وھذہ الأحادیث الضعیفة إذا انضَمَّت قوي ما اجتمعت علیہ من مشروعیة الزیادة علی ”وبرکاتہ“ یعنی وہ روایات جنہیں محدثین نے ضعیف کہا ہے، اگر انہیں جمع کیا جائے اور اُن کے شواہد وتوابع کو دیکھا جائے تو کم از کم اتنا تو ثابت ہوسکتا ہے کہ ”السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ“ پر اضافہ مشروع ہے۔(فتح الباری:۱۱/۶)
شیخ الحدیث مولانا زکریا کی رائے
موطا مالک کے حنفی شارح شیخ الحدیث صاحب نور اللہ مرقدہ اوجز المسالک میں لکھتے ہیں:
اِن روایات سے زیادہ سے زیادہ ”وبرکاتہ“ پر اضافہ ثابت ہوسکتا ہے؛ لیکن سنتِ سلام کا مصداق وہی روایات ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ”وبرکاتہ“ پر اضافہ نہ کیا جائے؛ رہ گئی یہ بات کہ ابوداوٴد کی وہ روایت جس میں ”ومغفرتہ“ کے اضافہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس نیکیوں کے حصول کی بات کہی ہے، تووہ کسی مخصوص حال یا عارض کی وجہ سے ہے۔
ایسا ہوتا ہے کہ ایک عمل کا ثواب متعین ہوتا ہے اور اس میں کبھی کسی عارض کی وجہ سے زیادہ ثواب مل جاتا ہے؛ لیکن اس عارضی چیز پر مسئلہ کا مدار نہیں ہوتا؛ بلکہ پہلا طریقہ ہی معمول بہ اور مسنون ہوتا ہے، اِس کی نظیرصحیح مسلم کی وہ روایت ہے، جو حضرت انس سے مروی ہے: کہ ایک صحابی نماز کی صف میں اُس وقت شامل ہوئے؛ جب کہ ان کی سانسیں پھول رہی تھیں، انھوں نے کہا: اللہ أکبر، الحمدُ لِلہِ حَمْداً کَثیراً طَیِّباً مُبَارَکاً فِیہِ، اِسی روایت میں آگے ہے کہ حضور نے فرمایا: کہ میں نے بارہ فرشتوں کو دیکھا کہ وہ اِن کلمات کی جانب سبقت کررہے ہیں(مسلم، رقم الحدیث: ۶۰۰، فضل قول الحمد للہ) بخاری کی روایت میں ہے کہ ایسا واقعہ قَومَہ میں پیش آیا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کہ تقریباً تیس فرشتے اِس کلمے کو لینے میں سبقت کررہے تھے(رقم الحدیث: ۷۹۹) اور نسائی کی روایت میں ہے کہ آپ کے پیچھے، ایک صحابی نماز پڑھ رہے تھے کہ انہیں چھینک آگئی، انھوں نے الحمد للہ حمدا کثیرا طیباً مبارکا فیہ کہہ دیا۔ (رقم الحدیث: ۹۳۱)
الغرض واقعہ تکبیر تحریمہ کا ہو یا قومہ کا یا نماز میں چھینک آنے کا، بہر حال اتنا طے ہے کہ اِن مواقع پر، اِن الفاظ کا کہنا، معمول بہا اور مسنون نہیں ہے؛ حالاں کہ اِس ذکر کی خاص فضیلت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی ہے؛ لہٰذا جیسے یہاں اِس ذکر کی فضیلت کے باوجود، اِس کا مسنون ہونا لازم نہیں آتا، ٹھیک اِسی طرح ”وبرکاتہ“ پر اضافہ کی وجہ سے چالیس نیکیوں کی فضیلت جو بیان کی گئی ہے، لازم نہیں آتا کہ وہ بھی مسنون ہو؛ الغرض اختلاف مسنون ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں ہوا، رہ گئی گنجائش کی بات، سو اضافہ کی گنجائش ہے۔ (خلاصہ اوجز المسالک: ۱۷/۱۷۷)
چناں چہ علامہ عبد الحی لکھنوی لکھتے ہیں:
فالأولی: القول بتجویز ذلک أحیانا، والاکتفاء علی ”وبرکاتہ“ أکثریاً․
یعنی اکثر او رعمومی احوال میں تو وبرکاتہ پر اضافہ نہ کیا جائے، کبھی کبھار ومغفرتہ وغیرہ کا اضافہ ہوگیا تو کوئی حرج نہیں ہے۔(التعلیق الممجد علی موطا امام محمد: ۳۸۵)
خلاصہ: احیاناً جوازِ اضافہ ثابت ہے؛ البتہ اختلاف ،اضافہ کی سنیت کے بارے میں ہوا، اور سنت یہ ہے کہ اضافہ نہ کیا جائے، گو جائز ہے؛ جواز اور سنت کا فرق یاد رکھنا چاہیے۔
————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ2، جلد:100 ، ربیع الثانی1437 ہجری مطابق فروری 2016ء