اعظم گڑھ تاریخ كے آئینے میں

نئی کتاب

نام کتاب             :           اعظم گڑھ تاریخ کے آئینے میں

     موٴلف                 :           ڈاکٹر مرزا انصار بیگ

     صفحات                   :           ۲۹۴

     قیمت                 :           ۲۰۰ روپے

     ملنے کا پتہ                 :           دارالمصنّفین، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ (یوپی)

     تبصرہ نگار             :           مولانا اشتیاق احمد قاسمی مدرس دارالعلوم دیوبند

ہندوستان کے جس خطہ کو اپنے علم وفن اور فضل وکمال میں امتیاز حاصل ہے، ان میں اترپردیش بہت ممتاز ہے، اس میں اعظم گڑھ کئی لحاظ سے سرفہرست ہے کہ یہاں بڑے بڑے مشاہیر پیدا ہوئے، علم ودانش کے اس خطے میں بڑی بڑی قدآور شخصیات نے جنم لیا، جنھوں نے قوم وملت کی رہنمائی میں اہم کردار ادا کیا، سیاست کے ایوانوں میں بھی ان کی گونج سنی گئی اور وکالت وعدالت کی کرسی پر بھی وہ رونق افروز ہوئے، تحقیق وتصنیف کے میدانوں میں بھی انھوں نے اپنا سکہ جمایا، یہ وہی اعظم گڑھ ہے جس کو بکرماجیت سنگھ (نومسلم) کے صاحب زادے راجہ اعظم شاہ (۱۶۶۵/) نے اپنے نام سے بسایا، اس نسل میں بادشاہت چھ پُشت تک قائم رہی۔ آخری تاج دار راجہ محمد اعظم شاہ (۱۹۸۸/) ہے، آج ان کی نسل زندہ ہے؛ مگر حکومت وسیاست سے دور، عوامی زندگی گزاررہی ہے اس موضوع پر راقم الحروف نے سب سے پہلے استاذ محترم حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی زیدمجدہ (ایڈیٹر ماہ نامہ دارالعلوم اور استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند) کی کتاب: ”تذکرہ علمائے اعظم گڑھ“ پڑھی اس سے اندازہ ہوا کہ یہ خطہ صدیوں سے زرخیز رہا ہے، پانچویں صدی ہجری میں وہاں اسلام کی روشنی پہنچی اور موٴمنین کے قلوب میں روشن سورج کی طرح چمکنے لگی، آج اس کی ضوفشانی نے دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کردیا ہے، وہ خطہ تحریکات کی آماج گاہ ہے اور بہت سے روشن خیال شخصیات کی جائے پیدائش بھی؛ اعظم گڑھ میں مسلمانوں کی برادری میں ایک ”روتارہ“ نامی برادری ہے،اس کی تشریحات میں موٴرخین کے ڈھیر سارے اقوال اور تاویلات ہیں، اعظم گڑھ کے علاوہ جون پور، گورکھپور، بلیا وغیرہ میں بھی یہ برادری ہے؛ مگر بہت کم اور طرفہ یہ کہ شیخ، پٹھان اور مغل بادشاہوں کی نسلوں پر بھی اس کااطلاق ہوتا ہے، اس کو راج پوت کا سرنیم بھی بتایا جاتا ہے، راؤ (راجہ) اور ترک سے مرکب بھی کہتے ہیں، بعض لوگوں نے اِسے ”راوت“ (ذات) سے مشتق مانا ہے؛ مگراس کتاب میں اس کی تردید اور تغلیط کی گئی ہے، اس نسل کے بارے میں مشہور ہے کہ اکبر بادشاہ کے زمانے میں اس کی شہرت ہوئی؛ غرض یہ کہ مذکورہ بالا کتاب میں اس موضوع پر اچھا خاصا مواد جمع کیاگیا ہے، اس میں قارئین کے لیے دلچسپی کا سامان ہے۔

یہ کتاب موٴلف کی اپنی کاوش نہیں ہے؛ بلکہ مختلف علمی اور قلمی شخصیات کی تحقیقی نگارشات کو جمع کیا ہے، اس میں اعظم گڑھ سے متعلق اچھی خاصی معلومات ہیں، حضرت الاستاذ کے معلوماتی اور تحقیقی مقالے کو مرتب نے مقدمہ بنایا ہے، اس مقدمہ میں اعظم گڑھ سے متعلق بنیادی معلومات موجود ہیں، اس خطہ کی تاریخ پڑھنے والا اس سے بے نیاز نہیں ہوسکتا، اسی طرح حضرت قاضی اطہر صاحب مبارک پوری، مولانا نجم الدین اصلاحی، مولانا حقانی القاسمی، ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی اور جناب محمد رضی چودھری وغیرہ جیسی شخصیات کی تحقیقی تحریریں ہیں؛ اس طرح یہ کتاب گلہائے رنگا رنگ کا حسین وجمیل گلدستہ ہے، کتابت کی چند غلطیوں کے علاوہ کوئی قابلِ ذکر کمی اس میں نظر نہ آئی۔ اللہ تعالیٰ اس تصنیف کو قبول فرمائیں۔

———————————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ1، جلد:100 ‏، ربیع الاول1437 ہجری مطابق جنوری 2016ء

Related Posts