از: مولانا مفتی عمرفاروق لوہاروی
شیخ الحدیث دارالعلوم، لندن
امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کا نام ”صحیح بخاری“ میں کتنی بار آیا ہے؟
’فیض الباری علی صحیح البخاری‘ من أمالی الفقیہ المحدث الاستاذ الکبیر امام العصر الشیخ محمد أنور الکشمیری قدس اللہ سرہ میں ہے:
وَلَمْ یُسَمِّ أحمدَ الّا فِی مَوْضِعَیْنِ․ (فیض الباری، کتاب الزکاة، باب فی الرکاز الخمس، ص:۵۴، ج:۳، المجلس العلمی: ڈابھیل)
”اور -مصنف رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں – امام احمد رحمة اللہ علیہ کا دو ہی جگہ نام لیا ہے۔“
بندہ کہتا ہے:
”فیض الباری علی صحیح البخاری“ میں مذکور یہ بات کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ (۱۹۴- ۲۵۶ھ) نے اپنی کتاب: الجامع المسند الصحیح المختصر من أمور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وأیامہ، میں امام احمد رحمة اللہ علیہ کا نام دوہی جگہوں لیا ہے، وہم پر مبنی ہے۔ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کی کل دو روایتیں اپنی ’صحیح‘ میں تخریج فرمائی ہیں، ان میں سے ایک مرفوع ہے، جو بواسطہ ہے اور دوسری موقوف ہے، جو بلاواسطہ ہے؛ چناں چہ مرفوع روایت بواسطہ احمد بن الحسن الترمذی حسب ذیل ہے:
(۱) حَدَّثَنِیْ أحمدُ بنُ الحسنِ قال: حدَّثَنا أحمدُ بنُ محمدِ بنِ حنبلِ بنِ ھِلالٍ قال: حدّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلیمانَ، عَنْ کَھْمَسٍ، عَنِ ابنِ بُرَیْدَةَ، عَن أبیہِ قال: غَزَا معَ رسولِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم سِتَّ عَشرةَ غَزوةً․ (صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب کم غزا النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ص:۶۴۲، ج:۲، قدیمی: کراچی)
اور موقوف بلا واسطہ روایت یہ ہے:
(۲) وَقال لَنَا أحمدُ بنُ حَنْبلٍ: حدَّثَنا یَحیَی بنُ سعیدٍ عَنْ سفیانَ قَالَ: حَدَّثَنی حَبیبٌ عَنْ سَعِیدٍ، عَنِ عباسٍ – رضی اللہ عنھما – حَرُمَ مِنَ النَّسَبِ سَبْعٌ، ومِنَ الصِّھْرِ سبعٌ ثُمَّ قَرأ ﴿حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّھٰتُکُمْ﴾ الآیة․ (صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب ما یحل من النساء وما یحرم الخ، ص:۷۶۵، ج:۲، قدیمی: کراچی)
امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے مذکورہ بالا دو جگہوں کے علاوہ مزید دوجگہوں پرامام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کا نام ذکر فرمایاہے:
(۱) قال أبو عبدِ اللہِ: قال عَلِیُّ بنُ عبدِ اللہِ (المدینی): شَأَلَنی أحمدُ بنُ حنبلٍ عن ھذا الحدیثِ قالَ وانّما أردتُ أن النبیَّ صلی اللہ علیہ وسلم کان أعلَی مِن الناسِ، فلا بأسَ أن یکونَ الامامُ أعلی مِنَ الناسِ بھذا الحدیث قال: فقلتُ: فان سفیانَ بنَ عُیَیْنَة کان یُسْأَلُ عن ھذا کثیرًا، فَلَمْ تَسْمَعْہُ مِنْہُ؟ قال: لاَ․ (صحیح بخاری، کتاب الصلاة، باب الصلاة فی السطوح والمنبر والخشب، ص:۵۵، ج:۱، قدیمی: کراچی)
(۲) قال أبو عبدِ اللہ: وقال أحمدُ بنُ حنبلٍ: ان نَقَص رمضانُ تَمَّ ذُوالحجة، وان نقص ذُوالحجة تَمَّ رمضانُ․ (صحیح بخاری، کتاب الصوم، باب شھرا عید لا ینقصان، ص:۲۵۶، ج:۱، قدیمی:کراچی)
مذکورہ بالا کل چار مقامات کے علاوہ تین جگہیں اور ہیں، جہاں ”احمد“ نام آیا ہے۔ بعض حضرات نے اس سے امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کو مراد لیا ہے؛ لیکن حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ کو اس میں تأمل ہے۔ وہ تین جگہیں درج ذیل ہیں:
(۱) حَدَّثَنا حَفْصُ بنُ عُمَرَ حدَّثَنا ھَمّامٌ، عَنْ قتادةَ، عَنْ أبی الخلیلِ، عَنْ عبدِ اللہِ بنِ الحارث، عَنْ حَکِیْمِ بْنِ حِزامٍ، عَنِ النّبیِّ صلی اللہُ علیہ وسلم قال: البَیِّعانِ بِالْحِیارِ مَالَمْ یَتَفَرَّقا․ وزاد أحمدُ حدَّثَنا بَھْزٌ قَال: ھَمَّامٌ: فذکرتُ ذلکَ لأبی التَّیّاحِ فقال: کنتُ مَعَ أبی الخلیلِ لَمَّا حدّثہُ عبدُ اللہِ بنُ الحارثِ ھذا الحدیثَ․ (صحیح بخاری، کتاب البیوح، باب کم یجوز الخیار، ص: ۲۸۳، ج:۱، قدیمی: کراچی)
ابوالمعالی احمد بن یحییٰ بن ہبة اللہ بن البیع فرماتے ہیں کہ اس روایت میں مذکور ”احمد“ سے امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ مراد ہیں۔ علامہ بدرالدین زرکشی رحمة اللہ علیہ (۷۴۵-۷۹۴ھ) نے اسی کو اختیار کیا ہے اور علامہ کرمانی (۷۱۷-۷۸۶ھ) اور علامہ بدرالدین الدمامینی (۷۶۳ و قیل: ۷۶۴-۸۲۷ و قیل: ۸۳۱ھ) وقیل غیرہما) رحمہما اللہ کا میلان اسی قول کی طرف ہے۔ (التوضیح لشرح الجامع الصحیح، ص:۲۳۸، ج:۱۴، وزارة الأوقاف: قطر، عمدة القاری، ص:۲۲۷، ج:۱۱، دار احیاء التراث العربی: بیروت، التنقیح لألفاظ الجامع الصحیح، ص:۳۳۵، ج:۲، مکتبہ نزار مصطفی الباز: مکة المکرمة، شرح البخاری للکرمانی، ص:۶،۷، ج:۱۰، داراحیاء التراث العربی: بیروت، مصابیح الجامع، ص:۴۲، ج:۵، دارالنوادر: سوریة)
لیکن حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ (۷۷۳-۸۵۲ھ) فرماتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کو (عن بَہْزٍ) ’مسند احمد بن حنبل‘ میں نہیں پایا۔ حافظ رحمة اللہ علیہ کی رائے میں یہاں ”احمد“ سے مراد ابوجعفر احمد بن سعید الدارِمی ہیں۔ ابوعوانہ رحمة اللہ علیہ نے اپنی ’صحیح‘ میں اس حدیث کو ابوجعفرالدارِمی – جن کا نام احمد بن سعید ہے- عن بَہْزٍ کے طریق سے موصولاً نقل کیا ہے۔ (ھدی الساری مقدمة فتح الباری، ص:۵۳۵، ۵۳۶، ج:۱، طار طیبة: الریاض، فتح الباری بشرح صحیح البخاری، ص:۵۶۳، ج:۵، دار طیبة: الریاض، تغلیق التعلیق علی صحیح البخاری، ص:۲۲۷، ج:۳، المکتب الاسلامی: بیروت)
(۲) حَدَّثَنا أبو الرَّبیعِ سُلیمانُ بنُ داوٗدَ و أَفْھَمَنِی بعضَہُ أحمدُ حَدَّثَنا فُلیحُ بنُ سلیمانَ عَنِ ابنِ شھاب الزھریِّ، عَنْ عروةَ بنِ الزُّبیرِ و سعیدِ بنِ المسیّبِ وعلقمةَ بنِ وقّاص اللیثیِّ وعُبیدِ اللہِ بنِ عبدِ اللہِ عُتبةَ، عَنْ عائشةَ رضی اللہ عنھا زوجِ النبیِّ صلی اللہ علیہ وسلم حِیْنَ قال لھا أھلُ الافکِ ما قالُوا، فَبَرَّأَھَا اللہُ مِنْہُ․ (صحیح بخاری، کتاب الشھادات، باب تعدیل النساء بعضھن بعضا، ص:۳۶۳، ج:۱، قدیمی: کراچی)
اس روایت میں مذکور ”احمد“ سے کون شخصیت مراد ہے؟ اس سلسلے میں مختلف اقوال ہیں:
ابن خلفون نے ”المعلم بأسماء شیوخ البخاری ومسلم“ میں ذکر کیا ہے کہ شاید یہ امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ ہیں۔
علامہ ذہبی رحمة اللہ علیہ (۶۷۳-۷۴۸ھ) نے ”طبقات القراء“ میں لکھا ہے کہ احمد بن النضر النیسابوری مراد ہیں۔
علامہ کرمانی اور ان کے اتباع میں علامہ شمس الدین البِرماوی (۷۶۳-۸۳۱ھ) رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ بعض نسخوں میں احمد بن یونس – یعنی احمد بن عبد اللہ بن یونس الیربوعی جو شیخ الاسلام سے معروف ہیں- واقع ہوا ہے۔ دمیاطی کے یہاں احمد بن یونس واقع ہوا ہے۔ خلَف واسطی اپنے ”الأطراف“ میں اسی کے قائل ہیں۔
علامہ جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ (۸۴۹-۹۱۱ھ) فرماتے ہیں کہ:
وأفھمنی بعضَہ أحمد امام بخاری رحمة اللہ علیہ کا کلام ہے۔ اس صورت میں کہا گیا ہے کہ یہ ”ابن حنبل“ ہیں اور دوسرا قول یہ ہے کہ ”ابن النضر النیسابوری“ ہیں اور وأفہمنی بعضَہ أحمد اگر سلیمان بن داؤد کا کلام ہے، تو پھر یہ ”ابن یونس“ ہیں۔ (التوضیح لشرح الجامع الصحیح، ص:۵۶۳،۵۶۴، ج:۱۶، شرح البخاری للکرمانی، ص:۱۸۰، ج:۱۱، اللامع الصبیح بشرح الجامع الصحیح، ص:۱۹۲، ج:۸، دارالنوادر: سوریة، ھدی الساری، ص:۵۴۱، ج:۱، فتح الباری، ص:۵۳۲،۵۳۳، ج:۶، عمدة القاری، ص:۲۲۷، ج:۱۳، ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری، ص:۱۰۷، ج:۶، العلمیة: بیروت، التوشیح علی الجامع الصحیح، ص:۱۸۰، ج:۳، العلمیة: بیروت)
(۳) حَدَّثنا محمدُ بنُ عبدِ اللہِ الأنصاریُّ قال: حدّثنی أبِی، عَنْ ثُمامَةَ، عَنْ أنسٍ – رضی اللہُ عنہ – أنّ أبا بکرٍ – رضی اللہُ عنہ – لمّا استُخْلِفَ کَتَبَ لہٗ، وکان نقشُ الخاتمِ ثلثةَ أَسْطُرٍ: محمدٌ سَطْرٌ، ورسولٌ سطرٌ، واللہُ سطرٌ․ قال أبو عبدِ اللہِ: وزادنی أحمدُ قال: حدثنا الأنصاریُّ قال: حدثنی أبِی، عن ثُمامةَ، عَن أنسٍ – رضی اللہ عنہ – قال: کان خاتمُ النبیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فی یدِہٖ، وفی یدِ أبی بکرٍ بَعْدَہُ، وفی یدِ عُمَرَ بعدَ أبی بکرٍ، فلمّا کان عثمانُ – رضی اللہ عنھم – جَلَسَ علیٰ بِئْرِ أَرِیْسَ، فَأَخْرَجَ الخاتمَ، فجَعل یَعْبَثُ بِہ فَسَقَطَ․ قال: فَاخْتَلَفْنا ثلثةَ أیامٍ مَعَ عُثمانَ، فَنَزَحَ الْبِئرَ فَلَمْ یجدُہُ․ (صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب ھل یجعل نقش الخاتم ثلثة أسطر، ص:۸۷۳، ج:۲، قدیمی: کراچی)
حافظ مِزّی رحمہ اللہ ”الأطراف“ میں فرماتے ہیں کہ اس روایت میں مذکور ”احمد“ سے مراد امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ ہیں۔ علامہ کرمانی اور علامہ برماوی رحمہما اللہ اسی کے قائل ہیں۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اکثر نسخوں میں بغیر نسبت کے ”وزادنا أحمد“ واقع ہوا ہے۔ ”الجمع بین الصحیحین“ للحمیدی میں ”وزادنا أحمد – یعنی ابن حنبل“ واقع ہوا ہے۔ ہوسکتا ہے، جزماً ابن حنبل مرادلینے والوں کے پیش رو حُمیدی ہی ہوں۔
حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: لیکن میں نے اس حدیث کو اس طریق سے ”مسند احمد“ میں بالکل نہیں پایا؛ لہٰذا یہاں ”احمد“ سے امام احمد ابن حنبل رحمة اللہ علیہ کو مراد لینے میں نظر ہے۔ (تحفة الأشراف بمعرفة الأطراف، ص:۲۸۵،ج:۵، المکتب الاسلامی: بیروت، شرح البخاری للکرمانی، ص:۱۰۵، ج:۲۱، اللامع الصبیح بشرح الجامع الصحیح، ص:۴۷۱، ج:۱۴، ہدی الساری، ص:۵۴۰،۵۴۱، ج:۱، فتح الباری، ص:۳۷۵، ج:۱۳، النکت الظراف علی الأطراف مع تحفة الأشراف، ص:۲۸۶،۲۸۷، ج:۵)
الغرض امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کا نام ”صحیح بخاری“ میں صرف دو جگہوں پر ہونے کا قول وہم پر مبنی ہے۔ بندہ کے ناقص خیال میں محدث العصر علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ (۱۲۹۲-۱۳۵۲ھ) نے امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کی دو روایتوں کے ”صحح بخاری“ میں مذکور ہونے کو بیان فرمایا ہوگا؛ لیکن ضابط سے ضبط میں تسامح ہوگیا ہوگا اور ان کا نام دو مقام میں ہونے کو نقل کردیا ہوگا۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ أعلم بحقیقة الحال․
مذکورہ بالا تفصیل سے علامہ بدرالدین زرکشی رحمة اللہ علیہ کا وہم بھی واضح ہوگیا۔ موصوف نے صحیح بخاری، کتاب البیوع، باب کم یجوز الخیار، ص:۲۸۳، ج:۱ کی روایت کے ذیل میں ذکر فرمایا ہے کہ یہ ان دو جگہوں میں سے ایک ہے، جن میں امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کا ذکر فرمایا ہے:
(وزاد أحمد) ھو أحمد بن حنبل، وھذا أحد الموضعین الذی ذکرہ البخاری فیھما․ (التنقیح لألفاظ الجامع الصحیح، ص:۳۳۵، ج:۲، مکتبة نزار مصطفی الباز: مکة المکرمة)
اگر علامہ زرکشی رحمة اللہ علیہ کی مراد مطلق نام ذکر کرنا ہے،تو اس کا وہم ہونا ظاہر ہے؛ اس لیے کہ ماقبل میں تصریح گزرچکی کہ کل چار مقامات میں تو بلاشبہ امام احمد رحمة اللہ علیہ کا نام آیاہے اور بقیہ تین جگہوں میں سے ”کتاب البیوع“ میں خود علامہ زرکشی رحمة اللہ علیہ نے ”احمد“ سے امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کو مراد لیا ہے، تو کم از کم پانچ مقامات تو ہوگئے، جن میں امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کا ذکر ہوا اور اگر علامہ زرکشی رحمة اللہ علیہ کی مراد – جیسا کہ ظاہر ہے- یہ ہو کہ امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کی روایت دوجگہوں میں ذکر فرمائی ہے، ان میں سے ایک جگہ یہ کتاب البیوع والی ہے، تب بھی ان کا قول وہم پر مبنی ہوگا؛ اس لیے کہ امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کی روایتیں دو نہیں؛ بلکہ تین ہوں گی: (۱) کتاب المغازی میں (۲) کتاب النکاح میں اور (۳) علامہ زرکشی رحمة اللہ علیہ کے قول کے اعتبار سے کتاب البیوع میں۔ اِلاّ یہ کہ یہ تاویل کی جائے کہ علامہ زرکشی رحمة اللہ علیہ کی مراد یہ ہے کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی ”صحیح“ میں جن دو جگہوں میں ان سے مرفوع روایات ذکر فرمائی ہیں، ان میں سے ایک جگہ یہ کتاب البیوع والی ہے۔ یا یہ تاویل کی جائے کہ دو جگہوں میں ان کی روایتیں مستقلاً ذکر فرمائی ہیں، ان میں سے ایک جگہ یہ کتاب البیوع والی ہے۔ دوجگہوں کے علاوہ میں ان کی روایت استشہاداً ذکر فرمائی ہے۔
یہاں یہ ملحوظ رہے کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ کسی طرح یہ تسلیم نہیں کرتے کہ کتاب البیوع کی روایت میں مذکور ”احمد“ سے مراد امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ ہیں۔ وہ تنقیح الزرکشی پر اپنے حواشی میں فرماتے ہیں کہ یہاں ”احمد“ سے مراد احمد بن سعید ہیں اور جن دوجگہوں کے متعلق علماء نے کہا ہے کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ سے روایتیں نقل کی ہیں کتاب البیوع والی ان دو جگہوں میں سے ایک نہیں ہے؛ بلکہ ان میں سے ایک ”کتاب المغازی“ کے آخر میں اور دوسری ”کتاب النکاح“ میں ہے۔ کتاب المغازی میں جو روایت ہے، اس میں امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے فرمایاہے: حدّثنا أحمد بن الحسن حدثنا أحمد بن حنبل اور کتاب النکاح والی روایت میں فرمایا ہے: قال لنا أحمد بن حنبل․
قولہ: ((وزاد أحمد) ھو أحمد بن حنبل، وھذا أحد الموضعین الذی ذکرہ البخاری فیھما)․ لیس کما قال؛ بل أحمد ھذا ھو أحمد بن سعید کما بینتہ فی تغلیق التعلیق، والموضعین اللذین قالوا: ان البخاری روی فیھما عن أحمد لیس ھذا أحدھما؛ بل أحدھما فی آخر المغازی، والآخر فی النکاح، قال فی الذی فی المغازی: حدثنا أحمد بن الحسن ثنا أاحمد بن حنبل، وقال فی الذی فی النکاح: قال لنا أحمد بن حنبل․ (حواشی الحافظ ابن حجر العسقلانی علی تنقیح الزرکشی مع کشف المشکل لابن الجوزی علی صحیح البخاری، کتاب البیوع، باب کم یجوز الخیار، ص:۹۹، ج:۳، دارالکتب العلمیة: بیروت) واللہ تعالیٰ أعلم․
یحییٰ بن مَعین کا نام ”صحیح بخاری“ میں کتنی بار آیا ہے؟
”فیض الباری علی صحیح البخاری“ من أمالی الفقیہ المحدث الاستاذ الکبیر امام العصر الشیخ محمد أنور الکشمیری قدس اللہ سرہ میں ہے:
و (لم یُسَمِّ) ابن مَعین (الّا) فی موضع․ (فیض الباری، کتاب الزکاة، باب فی الرکاز الخمس، ص:۵۴، ج:۳، المجلس العلمی: ڈابھیل)
”اور – مصنف رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں – یحییٰ بن معین رحمة اللہ علیہ کا ایک ہی مقام میں نام لیا ہے۔“
بندہ کہتا ہے:
”فیض الباری“ میں مذکور یہ بات کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ (۱۹۴-۲۴۵ھ) نے اپنی کتاب میں یحییٰ بن مَعین رحمة اللہ علیہ کا نام ایک ہی مقام میں لیا ہے، وہم پر مبنی ہے۔ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن مَعین رحمة اللہ علیہ کی کل تین روایات اپنی ”صحیح“ میں ذکر فرمائی ہیں، جن میں سے ایک روایت کتاب المناقب میں بلا واسطہ ہے اور دوسری کتاب المناقب ہی میں عبداللہ بن حماد الآملی کے واسطے سے اور تیسری کتاب التفسیر میں عبداللہ بن محمدالمسندی کے واسطے سے ہے:
(۱) – حدّثنا یَحْییٰ بنُ مَعینٍ وصدقہ قالا أَخبَرَنَا مُحمدُ بنُ جَعْفَرٍ عَنْ شعبَةَ عَنْ واقدِ بنِ محمدٍ عن أبیہِ عَنِ ابنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہ عَنھُما قالَ ”قالَ أبوبَکْرٍ: ارْقُبوا مُحمدًا صلی اللہ علیہ وسلم فی أَھلِ بَیْتِہِ“ (صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین، ص:۵۳۰، ج:۱، قدیمی: کراچی)
(۲) – حدّثنی عبدُ اللہ بن حمّادٍ الآملی قال حدَّثنی یحییٰ بن مَعینٍ قال حدّثنا اِسماعیلُ بن مجالدٍ عن بیانٍ عن بَرةَ عن ھمامِ بن الحارثِ قال: قال عمارُ بن یاسرٍ: وأیت رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وما مَعہ اِلا خمسةُ أعبُدٍ وامرأَتانِ وأبوبکر․ (صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب اسلام أبی بکر الصدیق، ص:۵۴۴، ج:۱، قدیمی: کراچی)
(۳) – حدّثنی عبدُ اللہ بن محمد قال حدَّثنی یحیی بن معین قال حدَّثنا حجاج قال ابنُ جُریجٍ قال ابنُ أبی مُلَیکةَ وکان بینھما شیءٌ، فغدَوْت علی ابن عبّاس فقلتُ: أتریدُ أن تُقاتلَ ابنَ الزُّبیر فتُحِلَّ ما حَرَّمَ اللہ؟ فقال: مَعاذَ اللہ․ انّ اللہ کتبَ ابنَ الزُّبیر وبنی أمیة محلِّین، وانی واللہ لا أحلہ أبدًا․ قال قال الناسُ بایعْ لابنِ الزُّبیر، فقلت: وأینَ بھذا الأمرِ عنہ، أما أبوہ فحوارِیُّ النبیِّ صلی اللہ علیہ وسلم – یرید الزُّبیرَ – وأما جَدُّہُ فصاحِبُ الغار – یریدُ أبابکر – وأما أمہُ فذاتُ النطاق، یُریدُ أسماء․ وأما خالتہ فأمُّ الموٴمنین یرید عائشة․ وأما عمتہُ فزوج النبیِّ صلی اللہ علیہ وسلم – یریدُ خدیجة – وأما عمة النبیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فجدتہ – یرید صفیة – ثم عفیف فی الاسلام قاریٴٌ للقرآن․ واللہ ان وَصَلونی وصَلَونی من قریب، وان ربّونی ربَنی أکفاءٌ کرام․ فآثر علی التّوَیتات والأسامات والحمیدات یُریدُ أبْطُنًا من بنی أسَد: بنی تُوَیت وبنی أُسامة وبنی حمید․ انَّ ابنَ أبی العاص برزَ یمشی القُدَمیة، یعنی عبدَالملک بن مروان․ وانہ لوَّی ذَنَبَہ، یعنی ابن الزُّبیر․ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، سورة براء ة، باب قولہ: ﴿ثَانِی اثْنَیْنِ اِذْھُمَا فِی الْغَارِ﴾، ص:۶۷۲، ج:۲، قدیمی: کراچی)
اس سے ثابت ہوا کہ یحییٰ بن معین رحمة اللہ علیہ کا نام صحیح بخاری میں ایک ہی مقام میں ہونے کا قول وہم ہے، الاّ یہ کہ یہ تاویل کی جائے کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے بلا واسطہ روایت میں یحییٰ بن معین رحمة اللہ علیہ کا نام ایک ہی جگہ لیاہے۔
”السِّلْعَة“ کو ”فتح الباری“ کے حوالے سے فتح السّین ضبط کرنا وہم ہے
$ ”صحیح بخاری“ میں ہے:
حَدَّثَنَا یحییٰ بنُ بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ عَنْ یونسَ عن ابنِ شھابٍ قال ابنُ المسیّب: انّ أبا ھریرة قال: سمعتُ رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: الحَلِفُ مَنْفَقَةٌ للسِّلْعَةِ مَمْحَقَةٌ لِّلْبَرَکةِ․ (صحیح بخاری، کتاب البیوع، باب ﴿یَمْحَقُ اللہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ﴾ الخ، ص:۲۸۰، ج:۱، قدیمی:کراچی)
․․․ ”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ (جھوٹی) قسم سامان کو بہت زیادہ رائج کرنے والی اور فروخت کرنیوالی ہے؛ (لیکن) برکت کو بہت زیادہ مٹانے والی ہے۔“
ہندوپاک کے مطبوعہ کئی نسخوں میں مابین السطور ”السلعة“ کی سین کا ضبط ”ف“ کے رمز کے ساتھ ”فتح الباری“ کے حوالے سے لکھا ہے:
بفتح السین المتاع ۱۲ ف (حوالہ مذکورہ بالا)
”السلعة“ سین کے فتحہ کے ساتھ متاع یعنی سامان کے معنی میں ہے۔“
بندہ کہتاہے:
”السلعة“ کو ”فتح الباری“ کے حوالے سے بفتح السّین ضبط کرنا وہم ہے؛ اس لیے کہ ”فتح الباری“ میں بفتح السین ضبط نہیں کیاہے؛ بل کہ بکسر السّین ضبط کیا ہے؛ چناں چہ ”فتح الباری“ میں ہے:
والسلعة بکسر السین المتاع․ (فتح الباری، ص:۵۴۴، ج:۵، دارطیبة: الریاض)
علامہ ابن الاثیر رحمة اللہ علیہ کے دو وہم
$ علامہ مجد الدین ابن الاثیر الجزری رحمة اللہ علیہ (۵۴۴-۶۰۶ھ) ”جامع الأصول من أحادیث الرسول صلی اللہ علیہ وسلم“ میں ”صحیح بخاری“ کے حوالے سے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما کا اثر نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
۳۳۲ (خ – عبد اللہ بن أبی أوفی رضی اللہ عنہ) قال: ”الناجشُ آکلُ الربا خائنٌ، وھو خِداعٌ باطلٌ، لایحلُّ“
ذکرہ البخاری تعلیقًا․ (جامع الأصول من أحادیث الرسول صلی اللہ علیہ وسلم، حرف الباء، الکتاب الثانی فی البیع، الباب الثالث فیما لا یجوز فعلہ فی البیع، الفصل الأول فی الخداع، الفرع الثالث فی النجش، ص:۴۲۵، ج:۱، داراحیاء التراث العربی: بیروت)
”حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
ناجش یعنی بغیر ارادئہ خریداری دوسرے کو پھنسانے کے لیے سامان کا بڑھا چڑھا کر دام لگانے والا سود خور اور خائن ہے۔ یہ خداع ہے، باطل ہے، ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔
امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اس اثر کو تعلیقاً ذکر فرمایا ہے۔“
بندہ کہتا ہے:
علامہ ابن الاثیر رحمة اللہ علیہ کو یہاں دو وہم ہوگئے:
(۱) پہلا وہم یہ ہے کہ انھوں نے وہو خداع باطل، لا یحلّ کو حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما کا کلام سمجھ کر ان کے اثر کا جزء بنادیا؛ حالاں کہ یہ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما کے کلام کا تتمہ نہیں ہے، ان کا کلام تو خائنٌ پر مکمل ہوگیا ہے، آگے وہو خداعٌ باطلٌ، لا یحلّ امام بخاری رحمة اللہ علیہ (۱۹۴-۲۵۶ھ) کا کلام ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی (۷۷۳-۸۵۲ھ)، علامہ عینی (۷۶۲-۸۵۵ھ)، شیخ الاسلام زکریا الانصاری (راجح قول کے مطابق ۸۲۶-۹۲۶ھ)، علامہ قسطلانی (۸۵۱-۹۲۳ھ)، امام عبداللہ بن سالم البصری المکی (۱۰۴۸-۱۱۳۴ھ)، علامہ محمد تاودی مالکی (۱۱۱۱-۱۲۰۹ھ) اور علامہ محمد الفضیل بن الفاطمی الزرہونی (وفات: ۱۳۱۸ھ) رحمہماللہ نے ذکر فرمایاہے؛ چناں چہ ”فتح الباری“ میں ہے:
قولہ: ﴿وھو خداع باطل لا یحلّ﴾ ھو من تفقہ المصنف، و لیس من تتمة کلام ابن أبی أوفی․ (فتح الباری، کتاب البیوع، باب النجش ومنقال: لا یجوز ذلک البیع، ص:۶۰۹، ج:۵، دارطیبة: الریاض)
”عمدة القاری“ میں ہے:
﴿وھو خداع باطل لا یحلّ﴾ ھذا من کلام البخاری․ (عمدة القاری، ص:۲۶۳، ج:۱۱، دار احیاء التراث العربی: بیروت)
”منحة الباری بشرح صحیح البخاری میں ہے:
﴿وھو خدا باطل لا یحلّ﴾ من کلام البخاری․ (منحة الباری، ص:۵۶۱، ج:۴، مکتبة الرشد: الریاض)
”ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری“ میں ہے:
قال الموٴلف: ﴿وھو خداع﴾ ․․․․․ ﴿باطل﴾ ․․․․ ﴿لا یحل﴾ فعلہ․ وھذا قالہ الموٴلف تفقھًا، ولیس من کلام عبد اللہ بن أبی أوفی․ (ارشاد الساری، ص:۱۰۸، ج:۵، العلمیة: بیروت)
”ضیاء الساری فی مسالک أبواب البخاری“ میں ہے:
﴿وھو خداع باطل لا یحل﴾ لیس ھذا من تتمة کلام ابن أبی أوفی؛ بل ھو من تفقہ المصنف․ (ضیاء الساری، ص:۴۳۷، ج:۱۶، دارالنوادر: سوریة)
”حاشیة التاودی بن سودة علی صحیح البخاری“ میں ہے:
﴿وھو خداع باطل لا یحل﴾ ھذا من کلام المصنف، لا من کلام ابن أبی أوفی․ (حاشیة التاودی بن سودة علی صحیح البخاری، ص:۴۰۲، ج:۲، العلمیة: بیروت)
”الفجر الساطع علی الصحیح الجامع“ میں ہے:
﴿وھو خداع﴾: ھذا من قول المصنف․ (الفجر الساطع، ص:۳۶، ج:۶، الرشد: الریاض)
(۲) دوسرا وہم یہ ہے کہ ابن الاثیر رحمة اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما کے مذکورہ بالا اثر: الناجشُ آکلُ الربوا خائنٌ کے متعلق ذکر کیاہے کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اس کو تعلیقاً ذکر فرمایا ہے۔ بلا شبہ یہ اثر ”صحیح البخاری، کتب البیوع، باب النجش، ص:۲۸۷، ج:۱، قدیمی: کراچی میں تعلیقاً مذکور ہے؛ لیکن امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اس کو ”صحح بخاری“، کتاب الشھادات، باب قول اللہ تعالیٰ: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَھْدِ اللہِ وَاَیْمَانِھِمْ ثَمَنًا قَلِیْلاً﴾․ میں موصولاً نقل کیا ہے۔ ”صحیح بخاری“، کتاب الشہادت میں ہے:
حَدَّثَنا اسحاقُ أَخْبَرَنَا یَزیدُ بنُ ھارونَ أَخْبَرَنَاالعَوّامُ حَدَّثَنِیْ ابراھیمُ أبو اسماعیلَ السَّکْ سَکِیُّ سَمِعَ عبدَ اللہِ بنَ أبی أوفی – رضی اللہ عنھما – یقول: أقَامَ رجلٌ بِسِلْعَةٍ (سِلْعَتَہ) فَحَلَفَ بِاللہِ لقد أعْطیٰ بھا مالم یُعْطِ فَنَزَلَتْ: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَھْدِ اللہِ وَاَیْمَانِھِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا﴾․ وقال ابنُ أبی أوفی: الناجشُ آکلُ الربوا خائنٌ․ (صحیح بخاری، کتاب الشھادات، باب قول اللہ تعالیٰ: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَھْدِ اللہ وَاَیْمَانِھِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا﴾، ص:۳۶۷، ۳۶۸، ج:۱، قدیمی: کراچی)
حدیث مذکور کے تحت حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وقولہ: ﴿قل ابن أبی أوفی: الناجش آکل ربًا خائن﴾ وھو موصول بالاسناد المذکور الیہ․ (فتح الباری، کتاب الشہادات، باب قول اللہ تعالیٰ: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَھْدِ اللہِ وَاَیْمَانِھِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا﴾، ص:۵۵۵، ج:۶، دار طیبة: الریاض)
علامہ عینی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
﴿وقال ابن أبی أوفی: الناجش آکل ربًا خائن﴾ ھو موصول بالاسناد المذکور الیہ․ (عمدة القاری، ص:۲۵۵، ج:۱۳، دار احیاء التراث العربی: بیروت)
علامہ قسطلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
﴿وقال﴾ ․․․․․ ﴿ابن أبی أوفی﴾ عبد اللہ بالسند السابق․ (ارشاد الساری، ص:۱۳۴، ج:۶، العلمیة: بیروت)
یہ زیادتی ”صحیح بخاری“ میں ہے
$ ”صحیح بخاری“ کتاب الشرکة میں ہے:
عَنْ زُھْرةَ بنِ مَعبدٍ عنْ جَدِہِ عبدِ اللہِ بنِ ھِشامٍ وکَانَ قَدْ اَدْرَکَ النبیَّ صلی اللہ علیہ وسلم وذَھبتْ بِہِ أمُّہُ زینبُ بنتُ حُمیدٍ الیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقالت: یا رسولَ اللّٰہ بَایِعْہُ، فَقال: ھو صغیرٌ، فَمَسَحَ رأسَہُ وَدَعَا لَہُ․ (صحیح بخاری، کتاب الشرکة، باب الشرکة فی الطعام وغیرہ، ص:۳۴۰، ج:۱، قدیمی)
”زُہرہ بن معبد اپنے دادا حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پایاہے، ان کی والدہ زینب بنت حُمید رضی اللہ عنہا ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئیں اور عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اسے بیعت کرلیجیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ چھوٹا ہے، پس آپ نے ان (عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ) کے سرپر دستِ مبارک پھیرا اور ان کے لیے دعا کی۔“
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (۷۷۳-۸۵۲ھ) حدیث مذکور کے تحت بہ طور تنبیہ تحریر فرماتے ہیں:
وقع فی روایة الاسماعیلی ”وکان – یعنی عبد اللہ بن ہشام – یضحّی بالشاة الواحدة عن جمیع أھلہ“ فعزا بعض المتأخرین ھذہ الزیادة للبخاری فأخطأ․ (فتح الباری، ص:۱۶۲، ج:۵، دارالریان: القاھرة)
”اسماعیلی کی روایت میں واقع ہوا ہے: وکان – یعنی عبد اللہ بن ھشام – یضحّی بالشاة الواحدة عن جمیع أھلہ (اور آپ – یعنی عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ – اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتے تھے) بعض متأخرین نے اِس زیادتی کو بخاری کی طرف منسوب کیا، انھوں نے غلطی کی۔“
بندہ کہتا ہے:
حافظ الدنیا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کو استحضار نہیں رہا اور یہ زیادتی اسماعیلی کے حوالے سے نقل کرکے بعض المتأخرین کا تخطیہ فرمادیا، ورنہ واقعتا یہ زیادتی ”صحیح بخاری“ میں ہے؛ چناں چہ ”صحیح بخاری“ کتاب الأحکام میں ہے:
․․․ عَنْ جَدِّہِ عبدِ اللہِ بنِ ھِشامٍ وَکَانَ قَدْ أَدْرَکَ النبیَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَذَھَبتْ بِہِ أمُّہ زینبُ بنتُ حُمیدٍ الیٰ رسولِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَتْ: یا رسولَ اللہ بَایِعْہُ، فَقَالَ النبیُّ صلی اللہ علیہ وسلم: ھو صغیرٌ، فَمَسَحَ رأسَہ ودعا لہ، وکان یضحّی بِالشّاةِ الواحِدةِ عَنْ جَمیعِ أھلِہِ․ (صحیح بخاری، کتاب الأحکام، باب بیعة الصغیر، ص:۱۰۷۰، ج:۲، قدیمی: کراچی)
(جاری)
——————————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ1، جلد:100 ، ربیع الاول1437 ہجری مطابق جنوری 2016ء