از: ڈاکٹر ظہورالحق
میرے خاندان کے افراد دینی علوم کی تحصیل کے لیے مظاہر العلوم سہارنپور جایا کرتے تھے۔ میں وہ پہلا شخص ہوں جو عربی اور دینی تعلیم کی تکمیل کے لیے دارالعلوم، دیوبند گیا۔ اِس مخزنِ علوم اورمایہٴ ناز ادارے کی کشش کے جہاں بہت سے اسباب تھے ان میں سے ایک بنیادی سبب یہ تھا کہ یہاں کے اساتدئہ کرام اور طلبہ نے برطانوی استعماریت اوراس کے تندوتیز طوفان کے خلاف جس جہد مسلسل اور بلند حوصلگی سے کام لیا اوراپنی ملت کی بقا، قوم وملک کے تحفظ اورایک علمی، اخلاقی اور ملی نصب العین کے لیے انھوں نے جو بے لوث قربانیاں دیں اُن سے میرے دل و دماغ پر ایسے اثرات مرتب ہوئے تھے جن کی گرفت روز بروز مضبوط ہوتی جارہی تھی اور دارالعلوم پہنچنے کی لگن تیز سے تیز تر۔ اس کے علاوہ میرا یہ خیال تھا کہ وہاں میرے علمی ذوق کی تشنگی کا سامانِ سیرابی بڑے پیمانے پر مہیا ہوسکے گا اور بحث ومباحثے کی صلاحیتوں اور قوتوں کے اظہار کے لیے مجھے وسیع میدان ملے گا، تعلیم وتدریس کے اصول و قواعد سیکھنے اورانھیں برتنے کا سلیقہ آئے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملت کے قابل فخر رہنماؤں اور ان کی عظیم شخصیتوں کا قرب میرے لیے اخلاقی وروحانی فیض کا باعث بنے گا۔
مجھے اندیشہ تو یہ تھا کہ میرے خاندان والے میرے خیال کی تائید نہ کرتے ہوئے میرے اس باغیانہ اقدام کو ناپسند کریں گے اورمیرا خواب شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکے گا مگر برخلاف اس کے جب میری خواہش اورمیرے فیصلے کا خیرمقدم کیاگیا اور بخوشی مجھے دارالعلوم جانے کی اجازت دے دی گئی تو میری مسرتوں کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔
دارالعلوم دیوبند میں قدم رکھتے ہی میرا خیال یقین میں بدل گیا۔ تصور ایک جیتی جاگتی حقیقت بن گیا۔ مجھے اپنے فیصلے پر خود ہی رشک آنے لگا۔ مظاہر العلوم کے مقابلے میں یہاں اساتذہ اور طلبہ کی تعداد دوگنی سے بھی زیادہ تھی۔ روح پرور ماحول، دینی ومذہبی افکار سے سرشار فضا، علم کے شیدائی کا اجتماع، گویا مجھے پکارپکار کر دعوتِ فکر وعمل دے رہا تھا۔ میں نے یہاں اکابرِ ملت اوراساتذئہ کرام کی شفقت و محبت، محنت ولگن اور استغناء وتوکل کے وہ نمونے دیکھے جنھیں میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ طلبہ کو یہاں تعمیر سیرت اور کردار سازی کے مواقع دوسرے اداروں کی بہ نسبت اس لیے زیادہ ملتے ہیں کہ یہاں کے اساتذہ اپنے مثالی کردار، بلند اخلاق اور پاکیزگیٴ افکار کے گہرے نقوش ان پرثبت کرتے ہیں۔ کتابوں سے کہیں زیادہ اساتذہ کا حسنِ عمل اور بے غرضانہ خلوص طلبہ کی شخصیتوں اور ان کے اذہان کے لیے موثر ثابت ہوتا ہے۔ میں اِس سلسلے میں اپنے چند مشاہدات وتجربات پیش کرنا چاہوں گا۔ جہاں تک اساتذہ کی شفقت ومحبت کا تعلق ہے تو حقیقتاً وہ اپنے طلبہ سے اِسی طرح پیش آتے تھے جس طرح والدین آتے ہیں۔ اقامت گاہوں میں پابندی سے تشریف لاتے۔ طلبہ کی تمام ضروریات کا خیال رکھتے۔ ہر طرح سے ان کی خیر خبر لیتے۔ اگر کوئی طالب علم مالی تنگی کی وجہ سے ہوسٹل میں قیام نہیں کرسکتا تھا تو اس کی دلجوئی کرتے، اس کا حوصلہ بڑھاتے اوراس کوہر ممکن مدد دیتے۔ خود میرے قریب کے کمرے میں ایک نوارد طالب علم کا واقعہ ہے کہ داخلے کے امتحان میں اس کو اتنے اچھے نمبر نہ مل سکے کہ وظیفے کی اتنی رقم پانے کا مستحق ہوتا جس سے وہ اپنے اخراجات پورے کرسکتا اس کو تو تحصیل علم کا شوق کشاں کشاں دیوبند لے آیا تھا ورنہ اس کی معاشی حالت اس کی اجازت نہ دیتی تھی۔ وظیفہ نہ ملنے کی صورت میں اس نے مجبوراً اپنے گھر جانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اساتذہ تک اس کی خبرکس طرح پہنچی۔ بہرحال چوبیس گھنٹے کے اندر اندر تین استاد باری باری اس لڑکے کے پاس آئے اور صورتِ حال معلوم کی۔ جب ان کو لڑکے کے فیصلے کا علم ہوا تو انھوں نے پوری ذمے داری کے ساتھ اس کے سارے تعلیمی مصارف کی کفالت اپنے سر لے لی۔ اس کو تسلی و تشفی دی اورہوسٹل میں اس کے قیام کا انتظام کردیا۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے بڑی مسرت ہے کہ وہی طالب علم آج پاکستان کے ایک بڑے دینی مدرسے میں قال اللہ قال الرسول کی صدا بلند کیے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ اور بہت سی مثالیں ایسی ہیں جو استادان دارالعلوم کے پرخلوص رویے، ان کی بے پناہ ہمدردی اور قومی وملی درد سے بھرپور جذبات کی آئینہ دار ہیں۔
یوں تو دارالعلوم میں رسمی طور پر صرف چھے گھنٹے تعلیم حاصل ہوتی ہے مگر عملاً بعد فجر سے گیارہ بجے رات تک اساتذہ وطلبہ درس و تدریس میں مشغول رہتے ہیں۔ کوئی بھی استاذ بغیر مطالعہ کیے ہوئے درسگاہ میں پڑھانے نہیں آتا۔ شیخ الادب والفقہ استاذی مولانا اعزاز علی نوراللہ مرقدہ فجر کی نماز کے بعد ”ہدایہ آخرین“ کا درس دینے کے لیے درجے میں آجاتے اور ڈھائی گھنٹے اپنی بارعب آواز میں اس دلچسپی اور محنت سے پڑھاتے کہ طلبہ دنیا ومافیہا سے بے خبر اِس میں محو ہوجاتے۔ حضرت مولانا یہ کتاب کم از کم بیس بار پڑھا چکے تھے مگر اس کے باوجود وہ بغیرمطالعہ کیے ہوئے کبھی نہ پڑھاتے۔ اگرکتاب کے حاشیے کو پڑھ کر کوئی طالب علم سوال کرتا تو جواب دینے کی بجائے اس سے یہ کہتے کہ ”مولوی صاحب آپ نے جہاں سے سوال کیا ہے وہیں اس کا جواب موجود ہے۔“ وہ ہمیشہ طلبہ سے علمی، سنجیدہ اور بلند سطح کے سوالات کرنے کی توقع رکھتے۔ دورانِ درس وہ ایسے طلبہ کی تلاش میں رہتے جو محنتی، مطالعے کے شوقین اور ضرورت مند ہوتے وہ ان کو یا تواپنے مطالعے کے کمرے میں بلاتے یا خود ان کے کمروں میں جاکر بعد سلام کے ان کی خیریت معلوم کرتے اور سب سے چھپاکر حسب گنجایش امدادی رقم دینے کے بعد سلام کرکے چلے آتے۔ تحفہ اور ہدیہ قبول کرنے سے ہمیشہ گریز کرتے۔ میں نے اپنے ایک ساتھی سے یہ سنا کہ بڑی منت سماجت کے بعد اس نے حضرت مولانا کی خدمت میں ایک قیمتی رومال تحفہ پیش کیا جس کو انھوں نے بڑی مشکل سے قبول کیا۔ کسی غلطی کی بناء پر یہ طالب علم دارالعلوم کی طرف سے سزا کا مستحق قرار پایاگیا۔ پانچ مہینے بعد یہی طالب علم اپنے اسی معاملے میں حضرت مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا اوران سے اپنا مسئلہ رجوع کیا۔ حضرت مولانا کچھ جواب دینے کی بجائے اٹھے، الماری کھولی اور وہ تحفہ جو اسی طرح ابھی الماری میں محفوظ تھا، شکریے کے ساتھ واپس کیا اور فرمایا کہ ”میری طرف سے آپ اس کو استعمال کریں“ پھر کہا ”آپ قاعدے کے مطابق درخواست دیں جو جو مدد ممکن ہوگی میں اس کے لیے حاضر ہوں۔“ دارالعلوم کے قاعدے کے مطابق اس کی سزا معاف نہیں ہوسکتی تھی۔ صرف مہتمم کو اختیار خصوصی کی بناپر اس سزا کی معافی کا حق تھا۔ حضرت مولانا نے اس کی عرضی پیش کرتے ہوئے مہتمم صاحب سے ہمدردی کی درخواست کی۔اس طرح وہ طالب علم بری ہوگیا۔ پھر حضرت مولانا اس کے کمرے میں پہنچے اور پہلے اس سے اِس اذیت کے لیے معذرت چاہی جو ان کے سخت رویے سے اُسے پہنچی تھی۔ اس کے بعد اس کو بری ہونے کی خوشخبری سنائی۔
حکیم اسلام استاذ مکرم مولانا طیب صاحب کے انداز تدریس کو کبھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ وہ شاہ ولی اللہ کی حجة اللہ البالغہ کا درس دیا کرتے تھے حالانکہ ان کی زندگی مصروف ترین زندگی تھی۔ دارالعلوم کے اندراور باہر کے بے شمار ایسے مسائل تھے جس کی وجہ سے ان کا وقت کبھی خالی نہ رہتا۔ مگر جب بھی مولانا دیوبند میں ہوتے اپنی گوناں گوں مصروفیتوں میں سے وقت نکال کر حجة اللہ البالغہ کا درس دینے مقررہ کمرے میں آتے اور انتہائی پرسکون طریقے سے عالمِ استغراق میں پڑھانا شروع کرتے۔ اِس وقت ان کے ذہن میں کوئی مسئلہ اور اُلجھن نہ ہوتی۔ ان کی تمام تر توجہ درس پر مرکوز ہوتی۔ وہ علمی مسائل پر اس طرح بحث کرتے اوراس کو اس دلنشیں انداز میں سمجھاتے کہ کوئی پہلو تشنہ نہ رہتا۔ مولانا کے حکیمانہ اور متکلمانہ اندازِ بیان، علوم میں ان کی گہری بصیرت اور ان کی بارعب وپرکشش شخصیت کے انمٹ نقوش ہمیشہ میرے ذہن میں رہیں گے۔
یہاں کے اساتذہ میں توکل اور استغنا کی جو کیفیت دیکھی اس سے ادارے سے ان کی وابستگی اور دینی واخلاقی اقدار کا اندازہ ہوتا ہے۔ دوسرے اداروں میں اساتذہ کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ آمدنی کے ذرائع تلاش کریں مگر یہاں کے اساتذہ اپنی قلیل تنخواہوں پر ہی اکتفا کرتے ہیں اورادارے کی خدمت کو عین سعادت سمجھتے ہیں۔کبھی کبھی تو بڑی تنخواہوں کی پیشکش کو بھی قابل اعتنا نہیں سمجھتے اور اپنے عزیز ادارے سے وابستگی کو باعثِ فخر خیال کرتے ہیں۔ میں نے علی گڑھ کے بعض با اثر ذمہ داروں کی ایما سے وہاں سے استاد کو یہ لکھا کہ ان کی قابلیت واہلیت اور تجربے کے مطابق ایک اچھی آسامی خالی ہے۔ تقررکی قوی امید ہے درخواست بھیج دیجئے میرے اس خط کے جواب میں ان صاحب نے درخواست کا مقررہ فارم واپس کردیا اور لکھا ”الحمدللہ میں یہاں بہت مطمئن ہوں۔ اکابر کی خدمت کے مواقع میسر ہیں۔ دارالعلوم کی ملازمت میرے لیے صرف ایک ذریعہ معاش نہیں ہے بلکہ ایک سعادت ہے۔ میرے اکابراوراساتذہ اگر مجھے وہاں کی خدمت کے لیے حکماً بھیجیں تو مجھے انکارکی مجال نہیں ورنہ میں اپنے دارالعلوم کو رہتی زندگی تک چھوڑنے کو تیار نہیں ہوں۔ آپ کی توجہ اورمہربانی کا میں شکرگذار ہوں۔ اللہ آپ کو اس کا اجر دے۔“
استغناء کی ایسی کئی مثالیں مل جائیں گی جن کی روشنی میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے قیام کا مقصد قوم میں سے ایسے افراد تیار کرنا تھا اور ہے جو ایک طرف دینی علوم کے ماہر اسلامی روح و جذبے سے سرشار شخصیت کے مالک اور اسلامی شعار کے جیتے جاگتے نمونے ہوں تو دوسری طرف قوم وملت کے بے لوث خادم اور بہی خواہ اور اس کے محافظ۔ دارالعلوم کی تاریخ ایسی ممتاز شخصیتوں سے مزین ہے جنھوں نے اپنی زندگیاں اعلاء کلمة اللہ کے لیے وقف کردیں اورجو اپنے علم وعمل، بلندی اخلاق و کردار اور مثالی کمالات و فضائل کی وجہ سے زندہ جاوید رہیں گی۔
دارالعلوم دیوبند اور وہاں کے اساتذئہ گرامی کے فیضان ہی کی بدولت میرے افکار کو جلا اور میری زندگی کو صحیح منزل ملی ہے وہاں کی کیف آگیں یادیں اور روح پرور صحبتیں، وہاں کے شب و روز اور علمی مشاغل اور وہاں کے استادوں کی عنایتیں اور شفقتیں، زندگی کا وہ انمول سرمایہ ہیں جو میرے نہاں خانہٴ دل میں محفوظ ہیں۔
———————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 2، جلد: 92 ، صفرالمظفر 1429 ہجری مطابق فروری 2008ء