از:مفتی تنظیم عالم قاسمی، استاذ حدیث دارالعلوم سبیل السلام، حیدرآباد
انسان کبھی نیند کی حالت میں بہت سی ایسی چیزیں دیکھتا ہے جو بیداری اورجاگنے کی حالت میں نہیں دیکھ سکتا۔ عرف عام میں اس کو خواب کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ خلاصة التفاسیر میں ہے کہ خواب میں روح جسم سے نکل کر عالم علوی اور عالم سفلی میں سیرکرتی ہے جو جاگنے میں نہیں دیکھ سکتی وہ دیکھتی ہے۔ اسے حِسِّ روحانی کہنا چاہیے، حس جسمانی صرف حاضر پر حاوی ہوسکتی ہے اور حِس روحانی حاضر وغائب دونوں کا ادراک و احساس کرتی ہے، اس لئے خواب میں ایسے احوال وکیفیات مشاہدہ میںآ تی ہیں جن سے خود خواب دیکھنے والے کو بڑی حیرت ہوتی ہے، کبھی مسرت انگیز اورکبھی خوفناک تصویریں ذہن میں ابھرتی ہیں اور بیداری کے ساتھ ہی یہ تمام کہانی یکلخت مٹ جاتی ہے۔ قرآن کے متعدد مقامات میں مختلف نوعیتوں سے خواب کا تذکرہ کیا گیا ہے اوراحادیث میں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قدرے تفصیل بیان فرمائی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خواب کا وجود حق ہے۔ انبیاء کرام کے علاوہ دیگر افراد کا خواب اگرچہ حجت شرعی نہیں تاہم یہ فیضان الوہیت اور برکات نبوت سے ہے۔ حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ اس سے مراد علم نبوت ہے یعنی رویاء صالحہ علم نبوت کے اجزاء اور حصوں میں سے ایک جزو حصہ ہے۔ (صحیح بخاری ومسلم) غور کیاجائے تو اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے اور بہتر خواب کی فضیلت و منقبت بیان فرمائی ہے اوراسے نبوت کا پرتو قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ خواب تین طرح کے ہوتے ہیں: پہلی قسم نفس کا خیال ہے، یعنی انسان دن بھر جن امور میں مشغول رہتا ہے اوراس کے دل ودماغ پرجو باتیں چھائی رہتی ہیں وہی رات میں بصورت خواب مشکّل ہوکر نظر آتی ہیں، مثلاً ایک شخص اپنے پیشہ ور روزگار میں مصروف رہتا ہے اور اس کا ذہن وخیال ان ہی باتوں کی فکر اور ادھیڑ بن میں لگا رہتا ہے جو اس کے پیشہ ور روزگار سے متعلق ہیں تو خواب میں اس کو وہی چیزیں نظر آتی ہیں، یا ایک شخص اپنے محبوب کے خیال میں مگن رہتا ہے اوراس کے ذہن پر ہروقت اسی محبوب کا سایہ رہتا ہے تو اس کے خواب کی دنیا پر بھی وہی محبوب چھایا رہتا ہے۔ غرض کہ عالمِ بیداری میں جس شخص کے ذہن وخیال پر جو چیز زیادہ چھائی رہتی ہے، وہی اس کو خواب میں نظر آتی ہے۔ اس طرح کے خواب کا کوئی اعتبار نہیں۔
دوسری قسم ڈراؤنا خواب ہے، یہ خواب اصل میں شیطانی اثرات کا پرتو ہوتا ہے۔ شیطان چوں کہ ازل سے بنی آدم کا دشمن ہے اور وہ جس طرح عالم بیداری میں انسان کو گمراہ کرنے اور پریشان کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح نیند کی حالت میں بھی وہ انسان کو چین نہیں لینے دیتا۔ چنانچہ وہ انسان کو خواب میں پریشان کرنے اورڈرانے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کرتا ہے۔ کبھی تو وہ کسی ڈراؤنی شکل وصورت میں نظر آتا ہے جس سے خواب دیکھنے والا انتہائی خوفزدہ ہوجاتا ہے، کبھی اس طرح کے خواب دکھلاتا ہے جس میں سونے والے کو اپنی زندگی جاتی نظر آتی ہے جیسے وہ دیکھتا ہے کہ میرا سر قلم ہوگیا وغیرہ وغیرہ اسی طرح خواب میں احتلام کا ہونا کہ جو موجب غسل ہوتا ہے اور بسا اوقات اس کی وجہ سے نماز فوت یا قضا ہوجاتی ہے اسی شیطانی اثرات کا کرشمہ ہوتا ہے۔ پہلی قسم کی طرح یہ بھی بے اعتبار اور ناقابل تعبیر ہوتی ہے۔ اسی طرح کے ڈراؤنے اور برے خواب سے حفاظت کے لیے حدیث میں اس دعا کی ہدایت دی گئی ہے۔ اَعُوْذُبِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضبِہ وَعَذَابِہ وَمِنْ شَرِّ عِبَادِہ وَمِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیاطِیْنَ وَاَنْ یَّحْضُرُوْنَ․ (ابوداؤد وترمذی) ”میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے کلمات تامات کے ذریعہ خود اس کے غضب اور عذاب سے اوراس کے بندوں کے شر سے اور شیطانی وساوس و اثرات سے اوراس بات سے کہ شیاطین میرے پاس آئیں اور مجھے ستائیں“۔
خواب کی تیسری قسم وہ ہے جس کو منجانب اللہ بشارت کہا گیا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کے خواب میں بشارت دیتا ہے اوراس کے قلب کے آئینہ میں بطورِ اشارات وعلامات ان چیزوں کو مشکل کرکے دکھاتا ہے جو آئندہ وقوع پذیر ہونے والی ہوتی ہے یا جن کا تعلق موٴمن کی روحانی وقلبی بالیدگی وطمانیت سے ہوتا ہے وہ بندہ خوش ہو اور طلب حق میں تروتازگی محسوس کرے، نیز حق تعالیٰ سے حسن اعتقاد اور امید آوری رکھے، خواب کی یہی وہ قسم ہے جو لائق اعتبار اور قابل تعبیر ہے اورجس کی فضیلت و تعریف حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ (مظاہرحق جدید)
اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت اور خوشخبری ہوتی ہے کہ وہ بندہ خوش ہو اور اس کا وہ خواب اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے حسن سلوک اورامید آوری کا باعث اور شکر خداوندی میں اضافہ کا موجب بنے اور برا خواب شیطانی اثرات کا عکاس ہوتاہے یعنی برے خواب سے انسان فطری طور پر پریشان اور غمگین ہوتا ہے جس سے شیطان بڑا خوش ہوتا ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت دی ہے کہ جو شخص برا اور ناپسندیدہ خواب دیکھے اس کو چاہیے کہ بائیں طرف تین بار تھتکار دے اور تین بار شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے اور اپنی اس کروٹ کو تبدیل کردے جس پر وہ خواب دیکھنے کے وقت سورہا تھا۔(مشکوٰة:۳۹۴)
دوسری حدیث میں ہے کہ جب کوئی اس طرح کا خواب دیکھے تو اس طرف توجہ نہ دے اور نہ اس کو کسی دشمن یا دوست کے پاس بیان کرے، اللہ کی پناہ مانگنے اور تین بار تھتکارنے سے انشاء اللہ وہ اس برے خواب کے مضر اثرات سے محفوظ رہے گا۔ ایساخواب کسی دشمن یا دوست کے سامنے بیان نہ کرنے کی حکمت یہ ہے کہ سننے والا خواب کی ظاہری حالت کے پیش نظر جب خراب تعبیر دے گاتواس کی وجہ سے فاسد وہم میں مبتلا ہونا لازم آئے گا۔ دل ودماغ میں مختلف قسم کے اندیشے، وسوسے اور مختلف اوہام وخیالات پیدا ہوں گے جن سے وہ شخص پریشان ہوگا اور خواہ مخواہ اس کا سکون و چین متاثر ہوگا، اسی کے ساتھ یہ بھی ممکن ہے کہ سننے والے شخص نے جس خراب تعبیر کی نشاندہی کی ہے وہ واقع ہوجائے۔ اس لیے کہ خواب کے وقوع پذیر ہونے میں خواب کو ایک خاص تاثیر حاصل ہے کہ خواب سننے والا جو تعبیر دیتا ہے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ویسا ہی وقوع پذیر ہوجاتا ہے، چنانچہ ابورزین عقیلی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہی علی رجل طائر مالم یحدث بہا فاذا حدث بہا وقعت (مشکوٰة: ۳۹۶) ”خواب کو جب تک بیان نہ کیا جائے وہ پرندہ کے پاؤں پر ہوتاہے اورجب اس کو کسی کے سامنے بیان کردیا جاتا ہے تو وہ واقع ہوجاتا ہے“ ․․․ علی رجل طائر یعنی پرندہ کے پاؤں پر ہونا دراصل عربی کا ایک محاورہ ہے جو اہل عرب کسی ایسے معاملہ اور کسی ایسی چیز کے بارے میں استعمال کرتے ہیں جن کو قرار وثبات نہ ہو، مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس طرح پرندہ عام طورپر کسی ایک جگہ ٹھہرا نہیں رہتا بلکہ اڑتا اورحرکت کرتا رہتا ہے اور جو چیز اس کے پیروں پرہوتی ہے وہ بھی کسی ایک جگہ قرار نہیں پاتی بلکہ ادنیٰ سی حرکت سے گرپڑتی ہے۔ اسی طرح یہ معاملہ اور یہ چیز بھی کسی ایک جگہ پر قائم و ثابت نہیں رہتی لہٰذا فرمایاگیا ہے کہ خواب کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے کہ جب تک اس کو کسی کے سامنے بیان نہیں کیاجاتا اور اس کو اپنے دل میں پوشیدہ رکھا جاتا ہے اس وقت تک اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا اور نہ وہ واقع ہوتا ہے لیکن جب اس کو کسی کے سامنے بیان کردیا جاتا ہے اور جوں ہی اس کی تعبیر دی جاتی ہے وہ اسی تعبیر کے مطابق واقع ہوجاتا ہے۔ اس لیے کسی کے سامنے اس طرح کے خواب کا تذکرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اچھے خواب میں اگرچہ ناخوشگوار باتوں کی طرف ذہن منتقل نہیں ہوتا تاہم اسے بھی کسی جاہل، دشمن اورنااہل کے پاس بیان نہیں کرنا چاہیے، اس لیے کہ اس کے غلط تعبیر بتانے کے سبب خواب کا رخ بدل سکتا ہے، البتہ اہل علم، تعبیر خواب کے ماہر اور دانا دوستوں سے بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
برصغیر کے مایہٴ ناز محدث حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اچھے اور بہتر خواب کی درج ذیل ۹ صورتیں بیان کی ہیں:
(۱) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنا۔
(۲) جنت یا جہنم کو خواب میں دیکھنا۔
(۳) نیک بندوں اور انبیائے کرام علیہم السلام کو خواب میں دیکھنا۔
(۴) مقاماتِ متبرکہ جیسے بیت اللہ کو خواب میں دیکھنا۔
(۵) آئندہ پیش آنے والے واقعات کو خواب میں دیکھنا، پھر وہ واقعہ ویسا ہی رونما ہو جیسا اس نے دیکھا ہے مثلاً دیکھا کہ ایک حاملہ کو لڑکا پیداہوا پھر واقعی لڑکا پیدا ہو۔
(۶) گذشتہ واقعات کو واقعی طور پر خواب میں دیکھنا مثلاً دیکھا کہ کسی کا انتقال ہوگیا پھر انتقال کی خبر آئی۔
(۷) کوئی ایسا خواب دیکھنا جو کوتاہی پر آگاہ کرے مثلاً خواب دیکھا کہ کتا اس کو کاٹ رہا ہے۔ اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ غصیلا ہے،اپنا غصہ کم کرے۔
(۸) انوار اور ستھرے کھانوں کو خواب میں دیکھنا مثلاً دودھ، شہد اور گھی کا پینا۔
(۹) ملائکہ کو خواب میں دیکھنا۔ (حجة اللہ البالغہ:۲/۲۵۳)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أصدق الروٴیا بالأسحار (ترمذی) یعنی رات کے آخری حصے کا خواب زیادہ سچا ہوتاہے کیونکہ پچھلا پہر عام طور پر دل ودماغ کے سکون کا وقت ہوتا ہے، اس وقت نہ صرف یہ کہ خاطر جمعی حاصل رہتی ہے بلکہ وہ نزول ملائکہ، سعادت اور قبولیت دعا کا بھی وقت ہے۔ اس لیے اس وقت کا دیکھا ہوا خواب زیادہ سچا ہوتاہے تاہم کسی خواب کے بارے میں یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ یہ خواب سچا ہے اور اس کا وقوع یقینی ہے۔ اس لیے کہ اچھا خواب اللہ کی طرف سے محض ایک رہنمائی ہوتی ہے کوئی حجت شرعی نہیں۔ خواب میں دیکھی ہوئی چیز جب واقع ہوجائے تواس کے متعلق یقین ہوجائے گا کہ خواب سچا تھا، لیکن یاد رہے کہ اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی نے خواب میں دیکھا تو وہ خواب سچا اور صحیح ہوگا، اس میں جھوٹ یا دھوکہ کاکوئی شائبہ نہیں، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے درحقیقت مجھ کو ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔ (مشکوٰة:۳۹۴)
غلط خواب کا تعلق شیطان سے ہوتا ہے یہ اسی کی کارستانی ہے کہ مختلف غلط اور جھوٹے خیالات و اوہام دل ودماغ میں پیدا کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک تصویر وشباہت پر شیطان حاوی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے جس نے بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا درحقیقت اس نے آپ کا ہی مشاہدہ کیا ہے اور یہ خواب دیکھنے والے کے تقویٰ، بزرگی اور قربت الٰہی کی دلیل ہے کہ اس کے کسی عمل سے خوش ہوکر اللہ نے اپنے فضل وکرم سے اپنے نبی کا دیدار کرایا ہے۔ البتہ اہل تحقیق اور اصحاب نظر نے اس میں کلام کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنا کب معتبر ہوگا۔ بعض کا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حلیہ اور صورت احادیث میں بیان کی گئی ہے اسی صورت کیساتھ اگر دیکھا جائے تو یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ گویا اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو دیکھاہے۔ اسی وجہ سے منقول ہے کہ حضرت محمد بن سیرین جو تعبیر فن کے امام تھے، ان کے پاس اگر کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے سے متعلق اپنا خواب بیان کرتا تو آپ ان سے دیکھے ہوئے حلیہ اور شکل و صورت کے بارے میں سوال کرتے اگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ بیان نہ کرپاتا تو اس سے کہتے کہ بھاگ جاؤ تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں نہیں دیکھا ہے۔
اس بارے میں شارحِ مسلم حضرت امام نووی کی رائے یہ ہے کہ جس شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اس نے بہر صورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا خواہ اس نے اس مخصوص صورت و حلیہ میں دیکھا ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بار ے میں منقول ہے یا کسی اور شکل و شباہت میں دیکھاہو کیوں کہ شکل وشباہت کا مختلف ہونا ذات کے مختلف ہونے کو ضروری قرار نہیں دیتا۔ علاوہ ازیں یہ نکتہ بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ شکل وشباہت میں اختلاف و تفاوت کا تعلق خواب دیکھنے والے کے ایمان کے کمال ونقصان سے بھی ہوسکتا ہے یعنی جس شخص نے خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی شکل وصورت میں دیکھا۔ یہ اس کے ایمان کامل اور عقیدے کے صالح ہونے کی علامت قرار پائے گا اورجس شخص نے اس کے برخلاف دیکھا یہ اس کے ایمان کی کمزوری اور عقیدے کے فساد کی علامت قرار پائے گی۔ اسی طرح ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوڑھا دیکھا، ایک شخص نے جوان دیکھا، ایک شخص نے رضامند دیکھا، ایک شخص نے خفگی کے عالم میں دیکھا، ایک شخص نے روتے ہوئے دیکھا، ایک شخص نے شاد وخوش دیکھا اور ایک شخص نے ناخوش دیکھا تو یہ ساری حالتیں خواب دیکھنے والے کے ایمانی احوال کے فرق و تفاوت پر مبنی ہوں گی کہ جو شخص جس درجہ کے ایمان کا حامل ہوگا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی درجہ کی مثالی صورت میں دیکھے گا۔اس اعتبار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنا گویا اپنے احوال ایمانی کو پہچاننے کا معیار ہے۔ لہٰذا یہ چیز سالکین طریقت کے لیے ایک مفید ضابطہ کی حیثیت رکھتی ہے کہ وہ اس کے ذریعہ اپنے باطن کی حالت کو پہچان کر اس کی اصلاح کریں۔ (مظاہر حق جدید ۵/۳۱۷)
اس حدیث کے تحت اہل تحقیق نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ اس شخص پر وہ احکام عائد ہوں جو واقعتا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار و صحبت کی صورت میں ہوتے ہیں یعنی نہ تو ایسے شخص کو صحابی کہا جائے گا اور نہ اس چیز پر عمل کرنا اس کے لیے ضروری ہوگا جس کو اس نے اپنے خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہوگا۔ بہرحال اس انسان کی خوش نصیبی کا کیا کہنا جس نے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا کم سے کم خواب میں ہی دیدار کیا ہو۔ یہ اس کے لیے عظیم نعمت اور بڑی سعادت مندی کی بات ہے۔ اسی طرح دوسرے اچھے اور بہتر خواب کا دیکھنا بھی خوش آئند بات ہے اسے اللہ کی طرف سے اچھی خبر سمجھنا چاہیے جو انسان کے دل ودماغ کو فطری طور پر خوش کردیتی ہے۔
———————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 2، جلد: 92 ، صفرالمظفر 1429 ہجری مطابق فروری 2008ء