از: مفتی محمد شمیم اختر قاسمی
ریسرچ اسکالر: شعبہٴ دینیات (سنی)، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
جب کبھی کوئی آدمی شخصی یاگھریلوں الجھنوں، سماجی ذمہ داریوں سے دوچار ہوتاہے، یا اپنے حسب منشا اعلی عہدہ ومنصب کے حصول میں ناکام ہوتا ہے تو وقتی طور پر اسکا رنج اسے بہت ہوتا ہے۔ اسی کرب میں بعض آدمی خودکشی بھی کرلیتا ہے، تاکہ اس کا واسطہ آئندہ مزید ناکامیوں و نامرادیوں سے نہ پڑے۔ اس نامناسب اقدام کو کسی بھی سماج ومعاشرہ میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھاجاتا۔ اسلام بھی اس عمل کو حرام قرار یتاہے۔ ایسا کرنے والوں کا ٹھکانہ سوائے جہنم کے اور کہیں نہیں ہے۔ جب کہ ملکی قانون میں یہ اقدام بذات خود کوئی برا نہیں ہے اورنہ قابل مواخذہ ہے کیوں کہ ہر شخص اپنی ذات کا مالک ہے اور وہ اس میں تصرف کرنے کا پورا اختار رکھتا ہے۔ البتہ اقدام خودکشی کو ضرور جرم قرار دیاگیا ہے۔ یعنی یہ کہ کوئی شخص خودکشی کا اقدام کرے اور کسی وجہ سے وہ اس میں ناکام ہوجائے تو ایسی صورت میں اسے سزاد ی جائے گی۔
یوتھینزیا (Euthanasia) کیا ہے؟
اسی کے زیر اثر اب یہ رجحان بھی بڑھتا جارہا ہے کہ اگر کوئی شخص پیدائشی طور پر لاعلاج بیماری میں مبتلا ہے یا عمر کے کسی بھی حصے میں وہ لاعلاج اورمہلک بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے اوراسکی حالت مثل مردہ کے ہوجاتی ہے جو خود سے اپنا کوئی کام نہیں کرسکتا ہے، یہاں تک کہ اس کے جسم پرجو مکھی بیٹھی ہوئی ہے اسے بھی وہ بھگا نہیں سکتا ہے۔ اس کی ساری ضرورتوں کی تکمیل اس کے قریب ترین رشتہ دار انجام دیتے ہیں۔ تکلیف بھی اتنی شدید ہے کہ مریض ہر وقت کراہتا اور ایڑیاں رگڑتا رہتا ہے۔ اس کی تکلیف اس کے رشتہ داروں سے دیکھی نہیں جاتی اور اس کی وجہ سے اس کے احباب ہر وقت ہراساں و پریشان رہتے ہیں۔ اسی طرح بعض مریضوں کی تکلیف کی شدت کم کرنے کے لیے دوا اورآلات کے ذریعہ مستقل طور پر بے ہوشی میں رکھا جاتا ہے۔ اس صورت میں اگر ان تدبیروں کو بروئے کار نہ لایا جائے تو مریض کا زندہ رہنا مشکل ہوجاتا ہے اور اس کی تکلیف میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ایسے وقت میں مریض خود یا اس کے قریبی رشتہ دار چاہتے ہیں کہ ایسے مریض کا زندہ رہنا نہ رہنے کے برابر ہے تو کیوں نہ اسے مناسب تدبیر کے ذریعہ موت کے آغوش میں پہنچادیا جائے۔ اس طرح سے مریض کو بھی ناقابل برداشت تکلیف سے نجات مل جائے گی اوران کے احباب کو بھی پریشانیوں سے چھٹکارا مل جائے گا جو مریض کی دیکھ بھال اور اس کی خدمت کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اسی عمل کو جدید علم طب میں یوتھینزیا (Euthanasia) کہا جاتا ہے۔ یعنی قطع حیات بہ جذبہٴ رحم جس کے لیے Mercy Killing کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔ جب کہ ڈکشنری میں اس لفظ کے معنی یہ بیان کیے گئے ہیں:
"Frequently interprete as the painless killing of a person sufring from an incureble disiase”(۱)
یوتھینزیا (Euthanasia) کی قسمیں:
عام طور سے یوتھینزیا (Euthanasia) کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں: عملی (Active) غیر عملی (Passive) (۲) دونوں کا تھوڑے سے فرق کے ساتھ ایک ہی مطلب ہے، یعنی قطع حیات بہ جذبہٴ رحم۔
عملی (Active) یوتھینزیا کا مطلب یہ ہے کہ اگرکوئی شخص کسی مہلک بیماری مثلاً کینسر یا دماغی بخار یا پھر طویل بے ہوشی میں مبتلا ہوجائے اور ڈاکٹروں نے اس کی بیماری کو لاعلاج قرار دے دیا ہو اوراس کی بقاء زندگی کی بھی کوئی توقع نہیں۔ باوجود اس کے تکلیف بھی اتنی شدید کہ وہ ہروقت بے چین اور ایڑیاں رگڑتا رہتا ہے، ہر طرح کی احتیاطی تدابیر اور دواؤعلاج کے باوجود بھی اس کے تکلیف کے ازالہ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی؛ البتہ مصنوعی آلات کے ذریعہ اس کی سانس کو برقرار رکھا گیا ہے۔ ایسی صورت میں مریض کی تکلیف کی شدت کم کرنے کے لیے تیز ادویہ زیادہ مقدار میں دے دی جائیں تاکہ اس کی سانس رک جائے، یا پھر مصنوعی آلات تنفس اس سے ہٹالیا جائے اور وہ آسانی سے موت کی آغوش میں چلا جائے۔
غیرعملی (Passive) میں شدید تکلیف میں مبتلا شخص کو مارنے کی کوئی ترکیب نہیں کی جاتی؛ بلکہ مریض کو زندہ رکھنے کے لیے جوادویہ یا آلات استعمال کیے جاتے ہیں اسے روک دیا جائے تاکہ وہ تڑپ تڑپ کر اپنی موت آپ مرجائے اوراس طرح مریض کو شدید تکلیف سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے۔ اس طرح اس کے قریبی رشتہ داروں کو بھی مریض کی وجہ سے جن پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے ا س سے انہیں چھٹکارا مل جائے۔
لاعلاج بیماری میں اضافی تکلیف:
اس کے علاوہ ایک تیسری نوعیت جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ مریض پیدائشی طور پر یاوقتی طور پر کسی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہے مثلاً دماغی بخار، پولیو، نمونیہ، کینسر، یا شید بڑھاپا یا اپاہج وغیرہ جو بذات خود مہلک اور تکلیف دہ بیماریاں ہیں، جن کا ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق کوئی علاج نہیں۔ ایسی صورت میں وہ کسی دوسری بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے تو کیا ایسی صورت میں اس نئی بیماری کا علاج کرایا جائے یا نہیں، جب کہ وہ پہلے سے ہی لاعلاج بیماری میں مبتلا ہے اور اس نئی بیماری کے علاج سے شفایابی کے باوجود اس کی صحت پر کوئی خاص اثر پڑنے والا نہیں ہے۔
یوتھینزیا (Euthanasia) سے متعلق مریض کوئی بھی ہوسکتا ہے:
یوتھینزیا (Euthanasia)سے متعلق مریض کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ مثلاً ایک بچہ پیدایشی طور پر مفلوج اوراپاہج ہے، یا بعد میں وہ کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہوگیا، جس کا علاج زندگی کے کسی حصے میں بھی ممکن نہیں، پوری زندگی اسے بستر مرض پر پڑا رہنا پڑے گا۔ اپنے قریبی رشتہ داروں کے رحم وکرم پر وہ کسی طرح زندہ ہے۔ اسی طرح عمر کی ساری منزلیں بہت اچھی طرح سے گزارنے کے بعد آخر میں جب اس پر بڑھاپا طاری ہوا تو اس کی صحت بہت خراب ہوگئی وہ اس لائق بھی نہیں رہا کہ اپنی کسی بھی ضرورت کی خود سے تکمیل کرسکے، اس کے حواس بھی اس قدر مختل ہوگئے کہ اچھے برے کی تمیز بھی جاتی رہی، تکلیف اور پریشانی کا غلبہ اس حد تک ہے کہ وہ ہر وقت تڑپتا اور چیختا چلاتا رہتا ہے۔ دوا سے بھی اس کی تکلیف کم نہیں ہورہی ہے۔ اس صورت میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایسے مریض کو مناسب تدبیر کے ذریعہ قبل از وقت ماردیا جائے تاکہ خود مریض اوراس کے متعلقین کے حق میں زیادہ تکلیف اور پریشانی کا باعث نہ ہو۔
اس طرح کا اقدام تاریخ کے کسی دور میں کیاگیا ہے؟
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مرض کی بھیانک صورتیں ہر عہد اور زمانے میں رونما ہوئی ہیں اور تکلیف کی حدوں کو پار کرنے کے باوجود بھی ناقابل علاج مریضوں کو ہرممکن زندہ رکھنے کی کوشش کی جاتی تھیں۔ چہ جائے کہ وہ اپنی موت آپ کیوں نہ مرجائے۔ دانستہ طور پر مریض یا اس کے متعلقین کے ذہن میں اس طرح کا تصور نہ پیدا ہوتا تھا کہ لاعلاج مریضوں کو مناسب تدبیر کے ذریعہ قبل از وقت موت کے آغوش میں پہنچادیا جائے۔ جب کہ پچھلے چند سالوں سے اس کی آوازیں بلند ہورہی ہیں اور یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ایسا کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔ یہ عمل تو مریض کے حق میں ہمدردی پر مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانوی شہنشاہ جارج پنجم کے ساتھ ۱۸۶۵/ میں اسی عمل کے ذریعہ موت کی نیند سلادی گئی، باوجود اس کے اس عمل میں تیزی نہیں آئی تھی۔
یہ آواز کب سے بلند ہورہی ہے:
کہا جاتا ہے کہ Derek Humpry کی بیوی ۱۹۸۰/ سے کچھ پہلے کینسر کی بیماری میں مبتلا ہوئی، جسے ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے دیا۔ اس بیماری میں ہر وقت وہ تڑپتی اور بلکتی رہتی تھی۔ جب تکلیف اپنی حدوں کو پار کرگئی اوراسے برداشت کرنے کی طاقت نہ رہی تو اس کی بیوی نے اپنی مرضی سے ایک معاہدہ کے تحت اپنی جان مناسب تدبیر کے ذریعہ ختم کرنے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ زہریلی شراب پلاکر اس کی جان ختم کردی گئی اور ہمیشہ ہمیش کے لیے وہ اس پریشانی سے نجات پاگئی۔ اس حادثہ کا Derek Humpry پر خاصا اثر پڑا اور اسی دن سے وہ یوتھینزیا (Euthanasia) کا وکیل بن گیا۔ بیوی کے انتقال کے کچھ دنوں بعد اس نے دوسری شادی کرلی اور دونوں میاں بیوی نے مل کر جگہ جگہ اس کی ترجمانی اور وکالت کی۔ اس موضوع پر اس نے باضابطہ ایک کتاب لکھی جس کا نام اس نے جینس وے (Jen’s Way) رکھا۔ پھر ۱۹۸۰/ کے قریب اس کی دوسری کتاب Let me die befor i Wake منظر پر آئی۔ اسی موضوع پر اس نے تیسری کتاب لکھی جس کا نام The right to die under standing Euthanasia رکھا۔ اس کی یہ ساری کتابیں خاص طور پر امریکہ میں خوب پڑھی گئیں جسے اس نے عوام میں مقبول بنادیا۔ ان کتابوں کی آمدنی سے اس نے Hemlock Sosiety بھی قائم کی جہاں لاعلاج اور ضعیف العمر مریضوں کے لیے یوتھینزیا (Euthanasia) پر عمل کرنے کی ترغیب دی جاتی تھی۔ اس سے اس کا مدعا یہ تھا کہ جو لاعلاج مریض بڑی تعداد میں اسپتالوں میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں اورجو برائے نام زندہ ہیں وہ اس عمل کے ذریعہ جان ختم کرکے مرض کی شدت سے نجات پاسکیں۔ Derek Humpry نے جو سوسائٹی قائم کی اس کے ممبر صرف امریکہ میں ۱۵ہزار ہیں اوران میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو پچاس برس کی عمر کو پار کرچکے ہیں اور ان میں بھی زیادہ تر وہ عورتیں ہیں جو اپنے قریبی رشتہ دار مریض کو دیکھ کر متاثر ہوئی ہیں۔ اسی کے زیر اثر یورپی ممالک میں ۳۰ سوسائٹیاں قائم ہوئیں جن میں تین سو سائٹی امریکہ میں ہیں۔ ان میں دو تہائی تعداد Active Euthanasia پر یقین رکھتی ہے۔(۳)
Derek Humpry نے جس یوتھینزیا (Euthanasia) کی وکالت اور حمایت کی ہے وہ Pasive Euthanasia ہے۔ یعنی یہ کہ تکلیف دہ بیماری کی تکلیف کم کرنے کے لیے اوراس کی سانس کو برقرار رکھنے کے لیے جوادویہ یا آلات استعمال کیے جاتے ہیں وہ روک لیے جائیں اوراس کی دوا بند کردی جائے تاکہ مریض سکون سے دنیا سے رخصت ہوجائے۔(۴)
اس کا اثر دوسرے ممالک میں:
جب یوتھینزیا (Euthanasia) مغربی ملکوں میں مقبول ہونے لگا تواس کا اثر دوسرے مشرقی ممالک میں بھی پڑا اور کچھ لوگوں کی آواز اس کی حمایت میں بلند ہوئی۔ ہندوستان میں مینومسانی جیسے لوگ اس کی وکالت کرنے لگے۔ ان کی صدارت میں Society for right to die with degnity قائم ہے اور ایسے ہی لوگوں کے زیراثر مہاراشٹر اسمبلی میں ۱۹۸۵/ میں Passive Euthanasia کی حمایت میں ایک غیرسرکاری مسودہ قانون پیش کیاگیا اوراسے رائے عامہ معلوم کرنے کے لیے گشت کرایاگیا۔ جیسا کہ مولانا جلال الدین عمری کے مندرجہ ذیل اقتباس سے اس کی وضاحت ہوتی ہے:
”Passive Euthanasia کی تائید میں مہاراشٹر اسمبلی میں ۱۹۸۵/ پروفیسر S.S.Varde نے ایک غیرسرکاری مسودہ قانون پیش کیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ جو مریض ڈاکٹروں کی رائے میں کسی ایسے مرض میں مبتلا ہوں کہ اس کا بچنا ممکن نہ ہو، اسے کوئی ایسی جراحت پہنچی ہو اور وہ بحالت ہوش اپنی آزاد مرضی سے اس خواہش کا اظہار کرے کہ دواؤں کی مدد سے اس کا عرصہ حیات طویل نہ کیا جائے تو اس کے معالجوں کو اختیار ہوگا کہ وہ ایسی دوائیں دینا بند کردیں جو اس کے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھ سکتی ہیں، تاکہ وہ جلد اس تکلیف سے نجات پاسکے۔ اس صورت میں اس کے معالجین پر کوئی دیوانی یا فوج داری ذمہ داری عائد نہ ہوگی۔ اس مسودہ قانون میں اس کی بھی گنجائش رکھی گئی ہے کہ اگرکوئی شخص چاہے تو بحالت صحت اپنی اس خواہش کو قلم بند کردے کہ آئندہ کبھی وہ اس نازک صورت حال سے دو چار ہو تو اس کے ساتھ یہ عمل کیا جائے۔“(۵)
اس عمل کو بروئے کارلانے میں حرج ہی کیا ہے؟
مذکورہ تفصیلات کی روشنی میں غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یوتھینزیا Euthanasia کے عمل کو بروئے کار لانے میں لاعلاج اور شدید تکلیف میں مبتلا مریضوں کے ساتھ انتہائی ہمدردی کا پہلو مضمر ہے۔ سماج میں ہر شخص ایک دوسرے سے محبت کرتا ہے، اس کے دکھ درد میں کام آتا ہے،اچھے برے دنوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا معاملہ کرتا ہے۔ ایسی صورت میں لاعلاج مریضوں کو وہ تڑپتا ہوا کیسے دیکھ سکتا ہے، تو پھر کیوں نہ بہ جذبہ ہمدردی موت کی نیند سلادے، تاکہ نہ مریض زیادہ تکلیف اور پریشانیوں سے دوچار ہو اور نہ اس کے متعلقین۔ اس کے علاوہ اس کے علاج پر جو روپے خرچ ہورہے ہیں وہ محفوظ بھی رہ سکیں۔ اگرمریض یا اس کے قریبی متعلقین کی مرضی سے اس عمل کو بروئے کارلایا جائے تو بظاہر اس میں کیا قباحت ہے؟
اسلام اس عمل کو اختیار کرنے کی اجازت دیتا ہے:
لیکن اسلامی پہلو سے اس ہمدردی پرغور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اگراسلام میں اس کی اجازت ہوتی تو پھر وہ خودکشی جیسے اقدام کو ناجائز اورحرام نہ ٹھہراتا۔ یوتھینزیا Euthanasia پر عمل کرنے سے جن مفاسد سے بالخصوص مسلم معاشرہ دوچار ہوگا، وہ خودکشی جیسے اقدام سے کسی قدر کم نہیں۔ اس صورت میں مسلمانوں کو اس پر عمل کرنے کی اجازت ہوگی یا نہیں یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس کا حل تلاش کیا جانا از حد ضروری ہے۔ کیوں کہ الٰہی شریعت کا کردار ایک شفیق طبیب کی طرح ہے جو مریض کی حالت، عادت مرض کی قوت اور ضعف کے تقاضے کے مطابق مریض کو مرض کی اصلاح پر آمادہ کرتا ہے، یہاں تک کہ جب مریض کی صحت مستقل ہوجاتی ہے تو اس کے لیے ایک معتدل لائحہ عمل تجویز کردیتا ہے جو اس کے تمام حالتوں کے مناسب ہوتا ہے۔(۶)
اس سلسلہ میں اسلام کا موقف کیا ہے اس کے جاننے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم اس مسئلہ پر غور کریں کہ اسلام میں انسان کی جان کی کیا قدروقیمت ہے اورکسی بندہ کو اپنی جان کے ختم کرنے کا حق حاصل ہے یا نہیں۔ اسی کے ساتھ یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ جب کوئی انسان بیمار پڑتا ہے تو اس بارے میں مریض، اس کے رشتہ دار اور ڈاکٹروں کا کیا فریضہ بنتا ہے۔ اس کے بعد بآسانی فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام قتل حیات بہ جذبہٴ رحم (Euthanasia)کی اجازت دیتا ہے کہ نہیں اوراگر دیتا ہے تو کیوں اورنہیں دیتا ہے تو کیوں اور اس میں کون سی مصلحت مضمر ہے؟
زندگی خدا کی طرف سے عطا کی ہوئی ایک امانت ہے:
انسان دنیا میں آتا ہے تو پہلے اسے بڑے دشوار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ۹ مہینے مادر شکم میں رہتا ہے جو ایک طرح سے اس کی دنیا ہوتی ہے۔ پھر وہ ایک خاص وقت میں کٹھن مرحلہ سے گزر کر اس دنیا میں آتا ہے۔ اس وقت نوزائدہ بچے پر کیا گزرتی ہے وہ وہی جانتا ہے، مگر وہ اس تکلیف کا بعد میں اظہار نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اس کی ماں کی جو حالت ہوتی ہے اس کا دکر قرآن مجید میں اس طرح کیاگیا ہے:
حَمَلَتْہُ اُمُّہُ کُرْہاً وَّ وَضَعَتْہُ کُرْہًا․ (احقاف:۱۵)
(پیٹ میں رکھا اس کی ماں نے اس کو اور جنا اس کو تکلیف سے)
یہ مشیت خداوندی ہے کہ اتنی سخت تکلیف کے باوجود عورت دوسرا بچہ جننے کے لیے عمر کے ایک خاص حصے تک تیار رہتی ہے، ورنہ اس تکلیف کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ ایک بچہ جننے کی تکلیف کا تصور کرکے آئندہ دوسرا بچہ پیدا کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس حالت میں کسی کی موت ہوجاتی ہے تو وہ شہادت کی موقت قرار دی گئی ہے۔ جیساکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
والمراة تموت بِجُمْع شہید․ (۷)
پیدائش کے بعد سے لے کر بچہ کے ہوش سنبھالنے تک اس کی بڑی حفاظت کی جاتی ہے۔ اگر بچہ کو ہلکی سی بھی تکلیف ہوتی ہے تو ماں تڑپ اٹھتی ہے اوراس کی بے چینی اسے سکون سے رہنے نہیں دیتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ بظاہر بچہ کی دیکھ بھال اوراس کی حفاظت والدین کرتے ہیں، مگر درحقیقت اس کی ساری نگہبانی خدائے عزوجل کررہا ہے جس نے اسے عدم سے وجود بخشا ہے۔ ایسی صورت میں انسان کی جان کا مالک بھی خدا ہی ہے جس نے اس کو پیدا کیا اور وہی اس کی جان ختم کرنے کا اختیار بھی رکھتا ہے۔ اگر کوئی اس کے عطا کردہ وجود میں خلل ڈالتا ہے یا اس کو ہلاک کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ عند اللہ مجرم ہے:
”زندگی اور اس کے مسائل کے بارے میں اسلام کا نقطئہ نظر موجودہ نقطئہ نظر سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ وہ اس دعویٰ ہی کو تسلیم نہیں کرتا کہ انسان اس دنیا میں کسی بھی چیز کا حتی کہ اپنی دات کا مطلق مالک ہے اور وہ اس میں اپنی آزاد مرضی سے تصرف کرسکتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ پوری دنیا اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے اور وہ اسے چلارہا ہے۔ اس لیے وہی اس کا حقیقی مالک بھی ہے۔ اس دنیا میں انسان خود سے نہیں آیا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو وجود بخشا ہے اور اسی نے اس کے لیے سامان زیست فراہم کیا ہے۔ اس لیے وہی اس کی ذات پر مالکانہ اقتدار بھی رکھتا ہے۔ انسان اپنی ذات یا اپنے کسی اقدام کے بارے میں کوئی آزادانہ فیصلہ نہیں کرسکتا، ورنہ اس کی حیثیت اس مجرم کی ہوگی جو دوسرے کی چیزوں کو اپنی مرضی سے استعمال کرے اور ان کے بارے میں فیصلے صادر کرتا پھرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو یہ فیصلہ کرنے کا حق ہی نہیں ہے کہ اسے کب تک دنیا میں رہنا ہے اور کب یہاں سے کوچ کرنا ہے، جس نے زندگی دی ہے وہی فیصلہ کرے گا کہ زندگی کب واپس لی جائے گی۔“(۸)
اللہ کے نزدیک کسی انسان کی جان کتنی محترم ہے اوراس کا اس دنیا میں آنا کتنا ضروری ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ تنگ دستی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل کردیتے تھے تاکہ وہ اس کی پرورش کے بوجھ سے آزاد رہیں۔ مگر اسلام نے نہ صرف اس کی مخالفت کی بلکہ اس فعل کو حرام قرار دیا اور فرمایا:
وَلاَ تَقْتُلُوْآ اَوْلاَدَکُمْ خَشْیَةَ اِمْلاَقِ نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَاَیَّاکُمْ اِنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْرًا․ (بنی اسرائیل:۳۱)
(اورنہ قتل کرو اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے ہم ہی روزی دیتے ہیں ان کو اور تم کو بھی، بے شک ان کا مارنا بڑی خطا ہے)
ایک اور مقام پر اسی بات کو اس طرح بیان کیاگیا ہے:
وَلاَ تَقْتُلُوْآ اَوْلاَدَکُمْ مِنْ اِمْلاَقٍ، نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَاِیَّاہُمْ․ (انعام:۱۵۱)
دونوں آیتوں میں الگ الگ دولوگوں کو خطاب کیاگیا ہے۔ ایک وہ ہیں جو فی الحال مفلس تو نہیں ہیں مگر ڈرتے ہیں کہ جب عیال زیادہ ہوں گے تو کہاں سے ان کو کھلائیں گے۔ جب کہ دوسرے طبقہ کو عیال سے پہلے اپنی روٹی کی فکر ستارہی تھی۔ اس لیے ایک جگہ خشیة املاق اور دوسری جگہ من املاق کے ذریعہ خبردار کیاگیا کہ تم کو رزق کے بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے ہم ان کو بھی رزق دیں گے اور تم کو بھی۔(۹)
اگر کوئی آدمی کثرت اولاد کے بوجھ سے چھٹکارا پانے کے لیے بچے کووجود میں آنے سے قبل ہی ماں کے شکم میں تلف کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسلام اس عمل کو حرام ٹھہراتا ہے۔ یا پھر سرے سے ہی کوئی شخص یہ چاہے کہ عورت دوسرا بچہ ہی نہ جنے اوراس کے لیے وہ احتیاطی تدابیر عمل میں لاتا ہے تو اس عمل کو بھی اسلام نے اچھا قرار نہیں دیا ہے:
”جَاءَ رَجُلٌ مِنْ اَنْصَارِ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ ﷺ اِنَّ لِیْ جَارِیَةً اَطُوْفُ عَلَیْہَا وَاَنَا اکْرَہُ اَنْ تَحْمِلَ فَقَالَ اِعْزِلْ عَنْہَا اِنْ شِئْتَ فَاِنَّہ سَیَاْتِیْہَا مَا قُدِّرَ لَہَا قَالَ فَلَبِثَ الرَّجُلَ ثُمَّ اَتَاہ فَقَالَ اِنَّ الْجَارِیَةَ قَدْ حَمَلَتْ قَالَ قَدْ اَخْبَرْتُکَ اَنَّہ سَیَاتِیْہَا مَا قُدِّرَ لَہَا“ (۱۰)
اس طرح کے بہت سے احکام قرآن وحدیث اور فقہ اسلامی میں ملتے ہیں جن سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ جس خالق نے مفلسی کے عالم میں کسی کو وجود بخشا ہے تو وہی اس کو رزق بھی فراہم کرتا ہے۔ لہٰذا اسے ہی اختیار ہے کہ کب کسی کی جان لی جائے۔ بس انسان کے ذمہ ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے اوراس میں کوئی تصرف نہ کرے۔
کوئی بیماری ایسی نہیں جس کا علاج نہ ہو:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا تو ساتھ ہی اس کے دکھ، درد،آلام ومصائب کے علاوہ راحت وسکون اور صحت و تندرستی کو بھی اس کی زندگی کا اہم حصہ بنادیا۔ جب کبھی انسان بیمار پڑتا ہے تو بعضے وقت یہ بیماری بغیر دوا وعلاج کے دو چند روز کے بعد خود ہی ختم ہوجاتی ہے اورآدمی چنگا اورہشاش بشاش ہوجاتا ہے۔ اسی طرح بعضے وقت بیماری میں شدت ہوتی ہے اور تکلیف بھی، تو بغیر دوا اور ڈاکٹروں کی مدد کے اس کی بیماری ختم نہیں ہوتی۔ تھوڑی سی حفاظت اور علاج و پرہیز اسے تندرست و توانا بنادیتا ہے اور ذرا سی بے توجہی اس کی زندگی کو خطرہ میں ڈال دیتی ہے۔ ایسی صورت میں انسان کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی جان کی حفاظت اور تندرست رکھنے کے لیے مناسب ادویہ اور تدابیر اختیار کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا اور اس کی وجہ سے اس کی جان کو کوئی خطرہ پہنچتا ہے تو وہ عند اللہ گنہگار ہوگا، کیوں کہ صحت و تندرستی کے برقرار رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بیماری بھی رکھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری ہے جس کا اس نے تریاق یااس کی دوا نہ پیدا کی ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ دَاءً الا اَنْزَلَ لَہ شِفَاءً (۱۱)
(کوئی ایسی بیماری نہیں اُتاری اللہ نے جس کی شفا نہ پیدا کی ہو)
ایک دوسری حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیمار لوگوں کو علاج کرانے اور دوا کی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: اَنْزَلَ الدَّوَاء الَّذِیْ اَنْزَلَ الْاَدْوَاء (۱۲)
(دوا بھی اتاری اس ذات نے جس نے بیماریاں اتاری ہیں)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اوراسکی زندگی کا ایک عنصر صحت و تندرستی اوربیماری کو بھی بنایا اور بیماری کے ساتھ اس نے دوا بھی پیدا کی تاکہ وہ اس کو استعمال کرکے تندرست ہوجائے۔ مگر بعض وقت مریض اپنی صحت کے لیے جو دوا تجویز کرتا ہے وہ دوا تو ٹھیک ہوتی ہے مگر وہ اپنا اثر نہیں دکھاتی اور بے اثر ہوکر رہ جاتی ہے جس سے انسان کی زندگی خطرے میں پڑجاتی ہے۔ جیساکہ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دوا کے بے اثر ہونے کے متعلق فرمایا ہے:
لِکُلِّ داءٍ دَوَاءٌ فَاِذَا اُصِیْبَ دَوَاءُ الدَّاءِ بَرَاءَ بِاِذْنِ اللّٰہِ تَعَالٰی․(۱۳)
(ہرمرض کی دوا ہے جب دوا لگ جاتی ہے تو اللہ کے حکم سے صحت ہوجاتی ہے)
اسی لیے فقہا نے لکھا ہے کہ صحت کی بحالی کے لیے دوا کرنا مباح ہے، بشرطیکہ اعتقاد یہ ہوکہ شفا دینے والا اللہ ہے اور صرف یہ اعتقاد ہو کہ دوا ہی شافی ہے تو جائز نہیں ہے۔(۱۴)
معالج کا جان کار ہونا ضروری ہے:
اسلام نے صحت کی حفاظت کیلئے تجربہ کار اور علم رکھنے والے ڈاکٹروں سے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ کیوں کہ حاذق طبیب ہی مریض کی صحت کو اچھی دوا کے ذریعہ بروقت بحال کرسکتا ہے اور وہ یہ رائے دے سکتا ہے کہ کون سی چیز اس کو تندرست رکھنے میں مفید ہوسکتی ہے اور کون سی غیرمفید۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے جس کے راوی حضرت سعد رضی اللہ عنہ ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں بیمار ہوا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کے لیے تشریف لائے، میرے سینہ پر دست مبارک رکھا، میں نے اپنے قلب کے اندر اس کی ٹھنڈک محسوس کی۔ آپ نے فرمایا: تمہیں دل کی شکایت ہے تم قبیلہ ثقیف کے حارث بن کلدہ کے پاس جاؤ وہ اس مرض کا علاج کرتا ہے۔ اس تکلیف میں آدمی کو مدینہ کے سات اچھی قسم کے چھوہارے گٹھلیوں سمیت کٹواکر پھانکتے رہنا چاہیے۔(۱۵)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف جان کار اور تجربہ کار ڈاکٹروں سے دوا علاج کرنے کا حکم دیا بلکہ ساتھ ہی آپ نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ ناواقف اور ناتجربہ کار طبیب سے علاج نہیں کرانا چاہیے، اس سے نہ صرف صحت خراب ہوتی ہے بلکہ جان کے ہلاک ہونے کا پورا پورا خطرہ رہتا ہے۔ اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ناواقف ڈاکٹروں کو بھی خبردار کیاہے کہ بغیر صحیح جان کاری کے کسی کا علاج نہیں کرنا چاہیے:
مَنْ تَطَبَّبَ وَلاَ یُعْلَمُ مِنْہُ طِبٌّ فَہُوَ ضَامِنٌ․ (۱۶)
(طب کو اچھی طرح نہ جاننے کے باوجود جس نے علاج کیا اوراس سلسلہ میں وہ متعارف نہیں تھا تو وہ کسی بھی نقصان کا ضامن ہوگا)
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
اَیُّمَا طَبِیْبُ تَطَبَّبٌ عَلٰی قَوْمٍ لاَّ یُعْرَفُ لَہ تَطَبَّب قَبْلَ ذٰلِکَ فَاَعْنَتَ فَہُوَ ضَامِنٌ․(۱۷)
(جس شخص کا پہلے سے طبیب ہونا معلوم نہیں تھا، اس نے لوگوں کا بہ تکلف علاج کیا اور نقصان پہنچایا تو وہ ضامن ہوگا)
چند مستثنیات کے ماسوا ہر بیماری کا علاج بندہ کے اختیار میں ہے:
علاج کے بعد بھی بعض بیماریاں ایسی ہیں جن کا کوئی علاج نہیں۔ اس میں ایک موت ہے اور دوسرا بڑھاپا۔ موت کسی کی واقع ہونے والی ہے تو کتنی ہی احتیاطی تدابیر اختیار کیوں نہ کرلی جائیں اسے کوئی روک نہیں سکتا اور وہ وقت معینہ پر آکر رہے گی۔ اسی طرح بڑھاپے کو بھی کوئی دوا ٹال نہیں سکتی، کیوں کہ بڑھاپا طاری ہی اسی لیے ہوتا ہے کہ اب اس کا کام اس دنیا سے ختم ہوگیا اس لیے اسے بڑھاپے کی منزل میں پہنچادیاگیا جس میں وہ کچھ دن مبتلا رہ کر اس دنیا سے رخصت ہوجائے گا۔ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تداووا عباد اللّٰہ فان اللّٰہ عزوجل لم ینزل داء الا انزل معہ شفاء الا موت والہرم․(۱۸)
(اللہ کے بندو! علاج کراؤ اس لیے کہ اللہ عزوجل نے موت اور بڑھاپے کے سوا جو بھی بیماری اتاری ہے اس کے لیے شفا بھی رکھی ہے)
ایک اور روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بیماری کا علاج اللہ نے پیدا کیا ہے مگر بڑھاپے کا کوئی علاج نہیں:
”تَدَاوَوْ فَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ یَضَعْ دَاءً لاَ وَضْعَ لَہ شِفَاءً غیر او قال دواءً الا داءً واحدًا فقالوا یا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم وما ہو؟ قال الہرم․“(۱۹)
کیا انسان نے بعض بیماری کے علاج میں کامیابی حاصل نہیں کی ہے؟
باوجود اس کے بعض بیماریاں ایسی ہیں جن کا علاج اطبا ڈھونڈھنے میں اب تک ناکام ہیں۔ یہ انسانوں کی کم علمی ہے نہ کہ خالق کائنات کا نقص۔ اسی لیے تو قرآن میں متعدد مقام پر اہل ایمان کو مخاطب کیاگیا ہے کہ تم کائنات کی تخلیق پر غور نہیں کرتے، تم اشیا کے رموز و حقائق کے جاننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے، تمہیں اتنا شعور کیوں نہیں کہ تم نامعلوم چیزوں کا علم حاصل کرلو۔
دنیا نے دیکھا ہے کہ انسان جن نامعلوم چیزوں کے جاننے کی کوشش برابر کرتے رہے انہیں اس میں کامیابی مل گئی۔ کینسر جو کسی زمانے میں لاعلاج بیماری تصور کیا جاتا تھا آج اطبا نے اس کا کلی علاج تو نہیں البتہ اس کے انسداد کا حل کافی حد تک تلاش کرلیاہے۔ سیکڑوں مریض دوا کے سہارے آج زندہ ہیں چہ جائے کہ ان کی جان کا خطرہ لگارہتا ہے۔ یہ کیاکم ہے کہ ان کا عرصہ حیات تنگ نہیں ہوا ہے۔ اگر بیماری پہلے اور دوسرے مرحلے ہی میں تھی اور بروقت اس کا علاج شروع کردیاگیا تو یہ بیماری بھی ختم ہوجاتی ہے۔ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا اندازہ تھا کہ بعض بیماریوں کا علاج ابھی انسان کی دسترس سے باہر ہے، لہٰذا آپ نے لوگوں کو اس میں کامیابی حاصل کرنے کی ترغیب دی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اِنَّ اللّٰہَ لَمْ یُنْزِلَ دَاءً اِلاَّ اَنْزَلَ لَہ شِفَاءً عَلِمَہُ مَنْ عَلِمَہُ وَجَہِلَہُ مَنْ جَہِلَہُ․(۲۰)
(اللہ نے کوئی بیماری نہیں اتاری مگر یہ کہ اس کی شفا بھی اتاری ہے، جاننے والا اسے جانتا ہے، نہیں جاننے والا نہیں جانتا۔)
حالات اور وقت کے ساتھ آدمی کی ضرورتیں بدلتی رہتی ہیں۔ پہلے طب میں وہ سہولتیں نہیں تھیں جو آج کے زمانے میں ہیں اور آئندہ بھی مزید سہولتیں فراہم ہوں گی (انشاء اللہ) جو مریض اور طبیب کے لیے تقویت کا باعث ہوں گی۔ چنانچہ علامہ ابن قیم فرماتے ہیں کہ:
وفی قولہ صلی اللہ علیہ وسلم لکل داء دواء، تقویة لنفس المریض والطبیب وحث علی طلب دلک الدواء والتفتیش علیہ، فان المریض اذا استشعرت نفسہ ان لدائہ دواءً یزیلہ تعلق قلبہ بروح الدجاء، وبرد من حرارة الباس والفتح لہ باب الرجاء ومتی قویت نفسہ انبعثت حرارتہ العزیزیة وکان ذلک سببا لقوة الارواح الحیوانیة والنفسانیہ والطبییعیة ومتی قویت ہذہ الارواح قویت القوی التی ہی حاملة لہا فقہرت المرض عرفعتہ ولدلک الطب اذا علم ان لہذا الداء دواءً امکنہ طلبہ والتفتیش علیہ․“(۲۱)
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کل داء دواء مریض اور طبیب دونوں کے لیے تقویت کا باعث ہے۔ اس میں علاج کے تلاش کی ترغیب بھی ہے۔ اگر مریض کو یہ محسوس ہوکہ اس کا مرض لاعلاج نہیں ہے بلکہ اس کا علاج ممکن ہے تو اس کا دل امید سے بھرجائے گا اورمایوسی ختم ہوجائے گی۔ اس سے وہ اپنے اندر نفسیاتی طور پر مرض پر غالب آنے والی توانائی محسوس کرے گا۔ اسی طرح طبیب کو جب معلوم ہوگا کہ ہر بیماری کی اللہ نے دوا رکھی ہے تو تلاش وجستجو اس کے لیے ممکن ہوگی)
عیادت سے مریض کی صحت کو تقویت ملتی ہے:
یہیں سے عیادت کی شرعی حیثیت کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب کوئی مسلمان کسی مصیبت اوربیماری میں مبتلا ہوتو دوسرے بھائی کو چاہیے کہ وہ اس کی عیادت کے لیے پہنچے اور مریض کو تسلی بخش باتیں سناکر لوٹے۔ اس سے مریض کی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کے اندر سے مایوسی ختم ہوتی ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ میری دیکھ بھال کرنے والے بہت سارے لوگ ہیں۔ کبھی کبھی یہ خیرخواہی مریض کے حق میں اتنی مفید ہوتی ہے کہ دوا بھی اس کا بدل نہیں ہوتی اور بیمارباتوں باتوں میں اچھا ہوجاتا ہے اور بستر مرض سے اٹھ کر چلنے پھرنے لگتا ہے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف مریض کے حق میں فائدہ ہوتا ہے بلکہ عیادت کے لیے جانے والے شخص کو بھی اللہ تعالیٰ ڈھیر ساری نیکیوں سے نوازتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ:
مامن مسلم یعود مسلما غدوةً الا صلی علیہ سبعون الف ملک حتی یُمسی وان عاد عشیة الا صَلَّی علیہ سبعون الف ملک حتی یصبح وکان لہ خریف فی الجنة․(۲۲)
(جو مسلمان بھی کسی مسلمان کی صبح کے وقت عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے شام تک اس پر رحمت کی دعا بھیجتے ہیں۔ اگر وہ شام کے وقت اس کی عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے صبح تک اس پر رحمت کی دعا بھیجتے ہیں اور جنت میں اس کے لیے پھل ہوں گے)
ایک دوسری حدیث میں ہے:
اِنَّ الْمُسْلِمَ اِذَا عَادَ اَخَاہُ الْمُسْلِمَ لَمْ یَزَلُ فِی خُرْفَةِ الْجَنَّةَ حَتّٰی یَرْجِعُ(۲۳)
(بے شک مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو اس کے وہاں سے واپس ہونے تک وہ جنت کے پھلوں میں رہتا ہے۔)
عیادت نہ صرف یہ کہ اپنے قریب ترین رشتہ دار کی کی جائے بلکہ اس کے مستحق سارے لوگ ہیں۔ بچہ، بوڑھا، جوان، عورت، مرد، پڑوسی، یہاں تک کہ غیرمسلموں کی بھی کی جانی چاہیے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر کثرت سے عمل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو تاکید کے ساتھ فرمایا:
اَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَعُوُدُوا الْمَرِیْضَ وَفَکُّوا الْعَانِیَ․(۲۴)
(بھوکے کو کھانا کھلاؤ، مریض کی عیادت کرو،اور قیدی کو چھڑاؤ)
بیماری سے گناہ کم ہوتے ہیں:
تندرستی کے برقرار رہنے کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں کا واسطہ چھوٹی موٹی بیماری سے پڑتا رہے، تاکہ اس کے جسم سے غیرضروری اجزا اور فضلات کا اخراج ہوتا رہے۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعہ گناہ کم ہوتے ہیں۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ جس بندے سے خفا ہوتا ہے تو اسے بیماری میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ بندہ نے جو گناہ کیاہے اس کی مدافعت ہوجائے۔ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَا مِنْ مُصِیْبَةٍ تُصِیْبُ الْمُسْلِمَ اِلاَّ کَفّرَ اللّٰہُ بِہَا عَنْہُ حَتّٰی الشَّوْکَةِ یُشَاکُہَا بِہَا(۲۵)
(مسلمانوں کو جوبھی تکلیف پہنچتی ہے یہاں تک کہ اسے کوئی کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹادیتا ہے)
اگر کسی مومن بندے کو یہ اندازہ ہوجائے کہ بیماری اور مصیبت کے ذریعہ اسے کتنا بڑافائدہ پہنچنے والا ہے تو وہ یہی چاہے گا کہ ہمیشہ بیماری میں مبتلا رہے۔ جیساکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یَوَدُّ اہل العافیة یوم القیامة حین یُعْطٰی اہلُ البلاء الثوابَ لَوْ اَنَّ جُلُوْدَہُمْ کَانَتْ قُرِضَتْ فی الدنیا بالمقاریض․(۲۶)
(جو لوگ عافیت میں ہیں، قیامت کے دن جب کہ مصیبت زدوں کو ثواب دیا جائے گا، یہ چاہیں گے کاش! دنیا میں قینچیوں سے ان کی کھالوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جاتے)
ایک دوسری حدیث میں بیماری کو مسلمانوں کے لیے ایک نعمت اور اس کے گناہوں کا کفارہ قرار دیتے ہوئے فرمایاگیا:
مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُصِیْبُہُ اَذًی شَوْکَةٌ فَمَا فَوْقَہَا اِلاَّ کَفَّرَ اللّٰہُ بِہَا سَیْئاتِہ کما تَحُطُّ الشَّجَرَةُ وَرَقَہَا․(۲۷)
(جس مسلمان کو کانٹا چبھنے کی یا اس سے بڑی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اس کی غلطیوں کو اس طرح ختم کردیتا ہے جیسے درخت اپنے پتوں کو گرادیتا ہے)
علامہ ابن قیم نے بیماری کو مومنین کے لیے گناہوں کا کفارہ قرار دینے کے بعد شیخ عبدالقادر جیلانی کی اس نصیحت کو نقل کیا ہے جو انھوں نے اپنے بیٹے کو کی تھی کہ مصیبت اورپریشانیوں میں مبتلا ہونے کے بعد رنجیدہ خاطر نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے خدا کا عطیہ اور نعمت تصور کرنا چاہیے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
”شیخ عبدالقادر نے فرمایا اے میرے بیٹے مصیبت تجھے ہلاک کرنے کے لیے نہیں آتی بلکہ تیرے صبر وایمان کا امتحان لینے آتی ہے۔ نیز اس کا علاج یہ بھی ہے کہ تو سوچے کہ اگر دنیا میں مصائب ومحن نہ ہوتے تو بندے عجب و فرعونیت، شقاوت قلبی جیسے امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں، جن سے آدمی دنیا میں اورآخرت میں ہرجگہ تباہ وبرباد ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس لیے یہ تو ارحم الراحمین کا کمال رحمت ہے کہ بعض اوقات وہ مصائب کی دوا استعمال کرادیتا ہے جن کے باعث امراض سے تحفظ رہتا ہے اور صحت عبدیت قائم رہتی ہے۔ نیز کفر و عدوان و شرک وغیرہ کے فاسد مادوں کا استفراغ جاری رہتا ہے۔ بس پاک ہے وہ ذات جو ابتلا کے ذریعہ رحم فرماتی ہے اورانعامات کے ذریعہ ابتلا میں ڈال دیتی ہے، جیسا کہ مشہور شعر ہے:
قد ینعم اللّٰہ بالبلوی وان عظمت ویبتلی اللّٰہ بعض القوم بالنعم
(یعنی گاہے گاہے اللہ تعالیٰ مصائب کے ذریعہ انعام فرماتا ہے، اگرچہ وہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں، اللہ تعالیٰ بعض اقوام پر انعام کرکے انہیں ابتلا میں ڈال دیتا ہے۔)(۲۸)
بیماری میں صبر کی اہمیت:
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے جس بندے سے زیادہ محبت کرتا ہے اسے اتنی ہی بڑی ابتلا وآزمائش میں بھی مبتلا کرتا ہے تاکہ اندازہ لگائے کہ میرے بندہ کا مصیبت میں کیا رویہ رہتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے تو اسے مصیبت میں ڈال دیتا ہے۔“(۲۹) اس طرح کی اور دوسری احادیث ہیں جن سے اسی مفہوم کی وضاحت ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں مومن بندے کا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ ہر حال میں صبر کرے اور اسے اپنی تکالیف کا مداوا تصور کرے۔ اگر وہ ناشکری اور جزع وفزع کرتا ہے تو وہ اپنی تکلیف میں اضافہ ہی کرتا ہے کیوں کہ صبر سے تکالیف میں برداشت کرنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے اوراس سے قوت ارادی مضبوط ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوٰةِ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ․ وَلاَ تَقُوُلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَاءٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ․ وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ․ الَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَةٌ قَالُوْا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ․ اُولٰئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَةٌ وَاُولٰئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ․ (البقرہ:۱۵۳-۱۵۷)
(اے ایمان والو! مد طلب کرو صبر اور نماز کے ذریعہ، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، جو لوگ اللہ کے راستے میں مارے جائیں انہیں مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں لیکن تم محسوس نہیں کرتے۔ ہم ضرور تمہیں کسی قدر خوف اور بھوک کے ذریعہ اور مالوں، جانوروں اور پھلوں میں کمی کرکے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنادو جن پراگر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف جانا ہے۔ ایسے ہی لوگوں پر ان کے رب کی عنایات ہیں اور رحمت ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں)
بعض صحابہ کرام بیماری میں مبتلا ہوتے تو وہ دوا علاج ترک کردیتے اور صبر و شکر کو ہی اس کا مداوا سمجھتے تھے جس کی اللہ کے رسول نے ممانعت کی اور فرمایا کہ صحت کو تندرست رکھنے کے لیے دوا بھی ضروری ہے اور صبر بھی ضروری ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک عورت مرگی کی بیماری میں مبتلا تھی جب اس پر دورہ پڑتا تو اسے کپڑوں کی خبر نہ رہتی اور وہ بے ستر ہوجاتی تھی۔ اس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم چاہو تو دعاکروں اور چاہو تو صبر کرو۔ اللہ تعالیٰ اس کے عوض جنت عطا فرمائے گا۔ اس پر اس نے کہا تب تو میں صبر کروں گی۔ البتہ آپ دعاء فرمائیے کہ دورہ کی حالت میں میری بے ستری نہ ہو۔ آپ نے اس کی دعا فرمائی۔(۳۰) اس عالم پریشانی میں جو بندہ صبر کرتا ہے اللہ کے نزدیک اس کا مقام بہت بلند ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ باری تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاسَاءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِیْنَ الْبَاسِ․ اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَاُولٰئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ․ (البقرہ:۱۷۷)
(وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں تنگی ترشی اور تکلیف میں اور جنگ کے وقت، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی تقویٰ والے ہیں)
صبر وشکر کو مومن کا خاص وصف قرار دیتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مومن کا معاملہ کتنااچھا ہے کہ وہ جس حال میں بھی ہوتا ہے وہ اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے، یہ بات مومن کے سواکسی کو حاصل نہیں ہوتی، اگر وہ مسرت سے ہم کنار ہوتو شکر کرتا ہے، یہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے،اگر تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے، یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے۔“(۳۱)
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں، نبیوں اورنیک بندوں کو بڑی مشکلات، سخت سے سخت بیماری اورآزمائش میں مبتلا کرکے ان کے صبر کا امتحان لیا ہے، مگر وہ ہر حال میں صبر کرتے رہے جس کے صلے میں اللہ نے ان کے مرتبہ کو بلند فرمایا۔ صبر ایوب سے کون واقف نہیں ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام مہلک ترین بیماری میں ایک لمبے عرصہ تک مبتلا رہے، پھر بھی انھوں نے صبر کے علاوہ لفظ شکوہ اپنی زبان پر کبھی آنے نہیں دیا۔ اس بیماری میں ان کے تمام قریبی لوگ ساتھ چھوڑ گئے مگر ان کی بیوی ۱۸ سال تک خدمت کرتی رہیں۔ ان کی تکلیف کی شدت کی وجہ سے بعضے وقت ان کی بیوی بھی کرب والم میں مبتلا ہوجاتی تھیں۔ ایک دن بہ جذبہ ہمدردی ان کی بیوی نے کچھ ایسے الفاظ کہے جو صبر ایوب کے منافی تھا اور خدا کی جناب میں شکوہ کا پہلو لیے ہوئے تھا، اس پر وہ اپنی مونس و غم خوار بیوی سے ناراض ہوگئے اور کہا کہ تم نے کفران نعمت کی ہے اس کی سزا میں تم کو ضرور دوں گا۔(۳۲) اس صبر کے صلہ میں اللہ نے ان کے درجات بلند کیے جس کا دکر قرآن میں اس طرح کیاگیا ہے:
وَاَیُّوْبَ اِذْ نَادٰی رَبَّہ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ، فَاسْتَجَبْنَا لَہ فَکَشَفْنَا مَا بِہ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰہُ اَہْلَہ وَمِثْلَہُمْ مَعَہُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَذِکْرٰی لِلْعٰبِدِیْنَ․ (انبیا:۸۳-۸۴)
(اور یاد کرو جب ایوب نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے۔ ہم نے اس کی پکار سنی اوراسے جو تکلیف تھی وہ دور کردی۔ ہم نے اسے اس کے اہل وعیال دئیے اور اس کے ساتھ اتنے ہی اور بھی دئیے۔ یہ رحمت ہے ہماری طرف سے اور عبادت کرنے والوں کے لیے نصیحت ہے)
صبر کے ذریعہ نہ صرف دنیوی واخروی درجات بلن ہوتے ہیں بلکہ اس سے مریض کی صحت پر بھی مثبت اثرات پڑتے ہیں۔ کیوں کہ جوآدمی بیماری کی حالت میں صبر کرے گا اسے اپنی تکلیف کا بوجھ ہلکامعلوم ہوگااور اس کی امیدیں اور نیک خواہشات برآئیں گی۔ چنانچہ دوران بیماری صبر کی افادیت اوراہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا جلال الدین عمری لکھتے ہیں:
”مرض چھوٹا ہو یا بڑا، قابل علاج ہو یا لاعلاج ہر حال میں اسلام نے صبر کی تعلیم دی ہے۔ جو لوگ مذہبی اقدار کی اہمیت نہیں محسوس کرتے ان کے نزدیک یہ ایک بے معنی نصیحت ہے۔ اس سے انسان کے مسائل حل نہیں ہوتے اور وہ ممکنہ تدابیر بھی اختیار نہیں کرتا، لیکن یہ صبر کا غلط تصور ہے۔ صبر اس بات کا نام ہے کہ آدمی مشکلات میں جزع فزع اور گھبراہٹ کا مظاہر ہ نہ کرے، شکوہ شکایت کی جگہ جم کر ان کا مقابلہ کرے،جو تدبیریں اس کے بس میں ہوں ان کو پورے سکون کے ساتھ اختیار کرے اور نتیجہ اللہ کے حوالے کردے۔ اس سے انسان کی قوت ارادی (Will Power) مضبوط ہوتی ہے اورآدمی کے اندر خوداعتمادی اور خدا اعتمادی پیدا ہوتی ہے، مریض کے اندر مضبوط قوت ارادی ہو تو وہ مرض کا بڑی ہمت اور پامردی سے مقابلہ کرسکتا ہے۔ چنانچہ یہ ایک واقعہ ہے کہ جن مریضوں کی قوت ارادی مستحکم ہوتی ہے وہ مایوس اور بے صبر مریضوں کے مقابلہ میں لمبی زندگی پاتے ہیں“۔(۳۳)
موت کی دعا نہیں کرنی چاہیے:
ہر انسان کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہے۔ بعض بیماری قابل علاج ہوتی ہے تو کوئی لاعلاج اور زندگی بھر وہ کرب و الم کی دنیا میں زندہ رہتا ہے، ایسی حالت میں وہ چاہتا ہے کہ اس لاعلاج بیماری اور تکلیف بھری دنیا سے کسی طرح نجات پالے جس کے لیے وہ بعضے وقت دعاکرتا ہے کہ اللہ تو مجھ کو اس تکلیف دہ زندگی سے نکال کر موت دے دے، جو درست نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بیماری اسی لیے طاری کرتاہے کہ اس کے اندر قوت برداشت کا داعیہ پیدا ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی دعاء کرنے سے منع فرمایاہے:
لاَ یَتَمَنَّیَنَّ اَحدُکُمُ الْمَوْتَ مِنْ ضُرِّ اَصَابَہ فَاِنْ کَانَ لاَ بُدَّ فَاعِلاً فَلْیَقُلْ اللّٰہُمَّ اَحْسِیِنْی مَا کَانَتِ الْحَیَاةُ خَیْرًا لِیْ وَتَوَفَّنِیْ اِذَا کَانَتِ الْوَفَاةُ خَیْرًا لِیْ․ (۳۴)
(تم میں سے کوئی شخص کسی تکلیف کو پہنچے تو موت کی تمنا نہ کرے،اگر کسی وجہ سے بالکل ضروری ہوجائے تواس طرح کہے اے اللہ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک کہ زندہ رہنا میرے حق میں بہتر ہو اور جب موت میرے حق میں بہتر ہے تو موت دے دے)
مصائب ومشکلات اور بیماری تو وقتی چیز ہے۔ یہ کبھی جلد رفع ہوجاتی ہے اور کبھی وقت لگتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی اسکامقابلہ نہ کرے۔ اللہ نے انسان کو دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے اور اپنی عبادت کے لیے پیداکیا ہے تو پھر کیوں نہ اس کے حکم کی تعمیل کی جائے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو یہ بزدلی ہے اور مومن کے شان کے خلاف ہے اور کفران نعمت ہے۔ اندازہ لگائیے کہ صحابہ کرام کے زمانہ میں بعض بیماری کا بہتر علاج گرم لوہے سے داغنے کا تھا۔ جس کی تکلیف سے آدمی کی ہڈی چرمراجاتی تھی باوجود اس تکلیف کے وہ زندہ رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔ روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کو بطور علاج گرم لوہے سے سات داغ لگائے گئے، اس سے انہیں سخت تکلیف ہوئی باوجود اس کے انھوں نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کی دعا کرنے سے منع فرمایا ہے ورنہ تکلیف اتنی سخت ہے کہ میں اللہ سے موت کی دعاء کرتا۔ ”نَہَانَا اَنْ نَدْعُوَ بِالْمَوْتِ لِدَعْوَتُ بِہ “ (۳۵)
یہ تو صحابہ کا عمل تھا، خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو لوہے سے داغنے کی تکلیف کا اندازہ تھا۔ باوجود اس کے آپ نے حفظان صحت کے تحت اس کی اجازت دی کہ تم اس طریقہ پر عمل کرکے اپنا علاج کراؤ۔ جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَلشِّفَاءُ فِی الثَّلاَثَةِ شَرْبَةِ عَسَلٍ وَشَرْطَةِ مَحْجَمٍ وَکَیَّةِ نَارٍ وَاَنْہَی اُمَّتِیْ عَنِ الْکَیِّ․(۳۶)
(شفا تین چیزوں میں ہے، شہد کا گھونٹ، پچھنے کا نشان اورآگ سے داغ لگانے میں۔ میں اپنی امت کو داغ لگانے سے منع کرتا ہوں)
کون انسان کب تک زندہ رہے گا اورکب اس کی موت ہوگی یہ اللہ ہی جانتا ہے اور زندگی اور موت دینے کا حق بھی اسی اللہ کو ہے۔انسان کے بس میں اگر یہ چیز ہوتی تو دنیا کا نظام درہم برہم ہوکر رہ جاتا۔ انسان کا دنیا میں زندہ رہنا بھی تقویت اور ترقی درجات کا باعث ہے۔ اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ موت کی تمنا نہیں کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ اگر وہ نیک ہے تو امید ہے کہ اس سے اس کی نیکی میں اضافہ ہوگا اور اگر برا ہے تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس سے تائب ہوجائے: ”وَلاَ یَتَمَنَّنَ اَحَدُکُمُ الْمَوْت اِمَّا مُحْسِنًا فَلَعَلَّہُ اَن یَزْدَادَ خَیْرًا وَاِمَّا مُسِیْئاً فَلَعَلَّہُ اَنْ یَسْتَعْتِبَ“ (۳۷) (باقی آئندہ)
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ12، جلد: 91 ،ذی الحجہ 1428 ہجری مطابق دسمبر2007ء