از: مولانامصلح الدین قاسمی
استاذ ادب عربی، شاہی مرادآباد
تصور کیجیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں کا، کیسی آزمائش کی گھڑی رہی ہوگی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے جب نمرود نے دہکتی ہوئی آگ تیار کرائی تھی، ایک طرف نارِ نمرود اوراس کے وہ چیلے چپاٹے ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آگ میں چلنے کا تماشہ دیکھنے کے لیے بے تاب تھے، اور دوسری طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کا عشقِ حقیقی تھا جو بار بار آگ میں کودنے کے لیے کچوکے لگارہا تھا، بالآخر نبی موصوف بے دھڑک آگ میں کود پڑے،اور خدائی فرمان ”یَا نَارُ کُونِی بَرْدًا وَسَلاَمًا عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ“ (اے آگ تو ٹھنڈی اور سلامتی بن جا حضرت ابراہیم علیہ السلام پر) کے آگے آگ اُن کا کچھ نہ بگاڑ سکی، اور نیا نے دیکھا کہ آتشِ نمرود میں عشقِ حقیقی کس طرح پنپتا اور پروان چڑھتا ہے۔ سچ ہے
آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
پھر تصور میں لائیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فدائیت کا: حکم ہوتا ہے اپنی بیوی اور بچے کو اُس سنسان وادی میں چھوڑ کر آئیے جہاں نہ آدم نہ آدم زاد، ایسا ویرانہ جہاں صرف چلچلاتی دھوپ ہے، نہ کھانا ہے نہ پانی، نہ کوئی قریب اور عزیز، نہ کوئی خبر گیری کرنے والا اور نہ کوئی راہ گیر، جہاں نہ اپنوں کا معلوم اور نہ بیگانوں کی خیر خبر، حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا کا حکم پاتے ہی بیوی اور بچے کو اُس جھلسی ہوئی پہاڑیوں اور کھانے پانی سے خالی وادی میں چھوڑ کر آگئے، یہ بالکل نہ سوچا کہ اُس تپتی ہوئی وادی میں ممتا کی ماری ایک ماں اور شیرخوار بچے کا کیا ہوگا۔ بس خدا کا حکم ملتے ہی تعمیل کے لیے فوراً تیار ہوگئے اور حکم کو تجسیمی شکل دینے میں ذرہ برابر بھی تاخیر نہ کی۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور اُن کے ننھے منے بچے پر اُس وحشت ناک وادی میں کیا گذری؟ یہ بھی تاریخ کا ایک باب ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کی فدائیت کا مظہر ہے۔
اُس تپتی ہوئی وادی میں وہ شیرخوار بچہ جب دیوارِ کعبہ سے ایڑیاں رگڑتا تو ماں تڑپ تڑپ کر کبھی صفا کی طرف دیکھتی کہ شاید کوئی قافلہ نظر آجائے اور پانی مل جائے، اور کبھی دوڑتی ہوئی مروہ پر چڑھتی کہ شاید ادھر کوئی قافلہ گذرتاہوا دکھائی دے، پھر بھاگی بھاگی بچے کو دیکھنے آتی کہ کس حال میں ہے، اُس معصوم کو دیکھ کر پھر پانی کی تلاش میں صفا ومروہ کا چکر لگاتی، اور جب امید کی کوئی کرن نظر نہ آتی تو بے قرار ہوجاتی، کلیجے منہ کو آنے لگتے، تاآں کہ اللہ رب العزّت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لاڈلے کی ایڑیوں کی رگڑ سے پانی کا چشمہ جاری فرمادیا جو ”زمزم“ کے نام سے مشہور ہے، اور اُس وقت سے اب تک اسی طرح جاری ہے۔
اللہ اکبر! فدائیت کا یہ نمونہ اب کون پیش کرسکتا ہے کہ ابھی ایک امتحان ختم نہیں ہوا کہ دوسرا شروع ہوگیا، جب بچہ بڑاہوگیااور بوڑھے باپ کو کچھ سہارا دینے کے لائق ہوا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھایاگیا کہ وہ اپنے لاڈلے کو اللہ کی راہ میں قربان کررہے ہیں، چوں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کا خواب بھی وحی کے درجے میں ہوتا ہے اِس لیے صبح اٹھتے ہی اُس خواب کا تذکرہ اپنے بیٹے سے کیا، اِس موقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کوئی ہچکچاہٹ اور سراسمیگی نہیں ہوئی،اور نہ ہی کوئی قلق ہوا؛ کیوں کہ ان کا قلب حبّ خدا سے سرشار تھا اور بطورِ امتحان بیٹے سے سوال کیا تمہاری رائے اِس کے بارے میں کیا ہے؟۔
یہاں کسی شخص کے دل میں یہ خلجان پیدا ہوسکتا ہے کہ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خدائی حکم کی تعمیل کرنا بیٹے کے اتباعی جواب پر منحصر تھا؟ ایسی کوئی بات نہیں؛ بل کہ ان سے صلاح ومشورے میں بہت سارے اسرار وحکم پنہاں ہیں: پہلی حکمت یہ تھی کہ ان میں اطاعتِ خداوندی کا جذبہ وولولہ کس حد تک ہے یہ بات کھل کر سامنے آجائے، نیز اُن کے حوصلے کو بھی پرکھنا اور جانچنا مقصود تھا۔ دوسری حکمت یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ اسے قبول کریں گے تو مستحق اجر ہوں گے، تیسری حکمت یہ تھی کہ عین ذبح کے وقت ممکن تھا کہ محبتِ پدری، محبت طبعی اور تقاضائے انسانی فعل مامور میںآ ڑے نہ آجائے، اِس وجہ سے نبی موصوف نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے مشورہ لیا تھا۔ قرآنِ کریم نے اِس واقعے کو اِس انداز سے بیان فرمایا ہے:
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَيَّ اِنِّی اَرَی فِي الْمَنَامِ أَنِّیْ أذْبَحُکَ فَانْظُر مَاذا تَریٰ؟ قَالَ یٰآبَتِ افْعَلْ مَا تُوٴْمَرُ سَتَجِدُنِی انْ شَاءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ․
”سو جب وہ لڑکا ایسی عمر کو پہنچا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ چلنے پھرنے لگا تو ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا: برخوردار! میں دیکھتا ہوں کہ تم کو (بامرالٰہی) ذبح کررہا ہوں سو تم بھی سوچ لو تمہاری کیا رائے ہے؟ وہ بولے: ابا جان! آپ کو جو حکم ہوا ہے آپ کیجیے انشاء اللہ آپ مجھ کو صبرکرنے والوں میں سے دیکھیں گے۔“
یہ امتحان کس قدر سخت تھا اِس کی طرف اشارہ خود الہ رب العزّت نے ”فلما بلغ معہ السعي“ سے اشارہ فرمادیا کہ ارمانوں سے مانگے ہوئے اُس بیٹے کو قربان کرنے کا حکم اُس وقت دیاگیا جب یہ بیٹا اپنے باپ کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا تھا، اور پرورش کی مشقتیں برداشت کرنے کے بعد اب وقت آیا تھا کہ وہ قوتِ بازو بن کر باپ کا سہارا ثابت ہو، مفسرین نے لکھا ہے کہ اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر تیرہ سال تھی،اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ بالغ ہوچکے تھے۔
یوں تو ذبح کرنے کا یہ حکم براہِ راست کسی فرشتے وغیرہ کے ذریعے بھی نازل کیا جاسکتا تھا، لیکن خواب میں دکھانے کی بظاہر حکمت یہ تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اطاعت شعاری اپنے کمال کے ساتھ ظاہر ہو، خواب کے ذریعے دئیے ہوئے حکم میں انسانی نفس کے لیے تاویلات کی بڑی گنجائش تھی، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تاویلات کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے اللہ رب العزت کے حکم کے آگے سرِ تسلیم خم کردیا اور اِس امتحان میں سوفیصد کامیاب ہوئے۔
قربانی کا یہ واقعہ جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فدائیت کا مظہر ہے وہیں اِس واقعے سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بھی بے مثال جدبہٴ جاں نثاری کی شہادت ملتی ہے، اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کم سنی ہی میں اللہ رب العزت نے انھیں کیسی ذہانت اور کیسا علم عطا فرمایا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے سامنے اللہ کے کسی حکم کا حوالہ نہیں دیاتھا؛ بلکہ محض ایک ایک خواب کا تذکرہ فرمایا تھا، لیکن حضرت اسماعیل علیہ السلام سمجھ گئے کہ انبیا علیہم السلام کا خواب وحی ہوتا ہے، اور یہ خواب بھی درحقیقت حکمِ الٰہی کی ہی ایک شکل ہے، چناں چہ انھوں نے جواب میں خواب کے بجائے حکمِ الٰہی کا ذکر کیا اور والد بزرگوار کو یہ کہہ کر یقین دلایا ”یٰآ أَبَتِ افْعَلْ مَا تُوٴْمَرُ سَتَجِدُنِی انْ شَاءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ“ (ابا جان! جس بات کا آپ کو حکم دیاگیا ہے اسے کرگذرئیے، انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے)
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب پاکستانی علیہ الرحمہ اپنی تفسیر معارف القرآن میں اِس آیت کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں:
”اِس جملے میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی غایتِ ادب اور غایتِ تواضع کو دیکھئے، ایک تو انشاء اللہ کہہ کر معاملہ اللہ کے حوالے کردیا، اوراِس وعدے میں دعوے کی جو ظاہری صورت پیدا ہوسکتی تھی اسے بالکل ختم فرمادیا، دوسرے آپ یہ بھی فرماسکتے تھے کہ ”آپ انشاء اللہ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے“ لیکن اس کے بجائے آپ نے فرمایا ”انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے“ جس سے اِس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ صبر وضبط تنہا میرا کمال نہیں ہے؛ بلکہ دنیا میں اور بھی بہت سے صبر کرنے والے ہوئے ہیں، انشاء اللہ میں بھی ان میں شامل ہوجاؤں گا، اِس طرح آپ نے اِس جملے میں فخروتکبر، خودپسندی اور پندار کے ادنیٰ شائبے کو ختم کرکے اس میں انتہا درجے کی تواضع اورانکسار کا اظہار فرمادیا۔ (روح المعانی، بحوالہ معارف القرآن ج۷، ص:۴۵۹۔ فریدبک ڈپو دہلی)
اللہ رے! یہ جذبہٴ قربانی اور یہ فدائیت، کہ بیٹے کے گلے پر چھری چلادی،اور ہائے رے یہ اِقدامِ فداکاری کہ چھری تلے گردن رکھ دیا اور خلیل و ذبیح دونوں نے اپنا اپنا حق ادا کریا، قرآن نے بھی اعلان کردیا ”قَدْ صَدَّقْتَ الرُّوٴْیَا انَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ“ (الصّفّٰت/۱۰۵) (تم نے خواب سچ کردکھایا ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں) یعنی اللہ کے حکم کی تعمیل میں جو کام تمہارے کرنے کا تھا اُس میں تم نے اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی اور آزمائش میں پورے پورے کامیاب رہے، اور یہ ادائے قربانی اللہ کو اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک کے لیے یادگار اور قربِ خداوندی کا ذریعہ بنادیا جسے امت مسلمہ ہر سال مناتی ہے، اور اِس قربانی میں درحقیقت مسلمانوں کے اِس عقیدے کا اعلان ہوتا ہے کہ انسان کو اللہ رب العزت کے حکم کے آگے اپنی عزیز سے عزیز ترین چیز کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ سچ لکھا حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی نے:
”اسلام جب بھی چمکا ہے قربانیوں سے چمکا ہے، آج بھی قربانیوں ہی سے چمکے گا۔ اسلام کے لیے قربانیاں ہوں تو یہ شمنوں کے گھیرے میں بھی چمکتا ہے، اور جب قربانیاں نہ ہوں تو اپنی بادشاہت میں بھی مٹ جاتا ہے۔“
اللہ رب العزّت پوری امت مسلمہ میں جذبہٴ ایثار و قربانی پیدا فرمائے۔ (آمین)
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ12، جلد: 91 ،ذی الحجہ 1428 ہجری مطابق دسمبر2007ء