از: مفتی عمرفاروق لوہاروی، شیخ الحدیث دارالعلوم لندن (یوکے)
چند شبہات وسوالات اور ان کے جوابات:
اب چند شبہات وسوالات اور ان کے جواب ذکر کئے جاتے ہیں:
(۱) سعودیہ کے سابق مفتیٴ اعظم شیخ ابن باز رحمة اللہ علیہ نے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے، کہ شریعتِ مطہرہ میں مِسْبحہ (مروجہ تسبیح) کی کوئی اصل نہیں ہے۔ وہ فتویٰ ”فتاویٰ اسلامیة لمجموعة من العلماء الافاضل“ میں موجود ہے۔ جب یہ بے اصل ہے، تو لامحالہ اسے بدعت ہی قرار دیا جائے گا۔
جواب: پہلی بات یہ ہے ، کہ سابقہ تفصیل سے معلوم ہوگیا، کہ مروجہ تسبیح کی اصل شریعتِ مطہرہ میں موجود ہے، لہٰذا اسے بدعت قرار نہیں دیا جاسکتا۔
دوسری بات یہ ہے، کہ کوئی آدمی مروجہ تسبیح کو عبادت اور دین و قربت خیال کرکے استعمال نہیں کرتا؛ بلکہ شمار کے لیے ایک آلہ خیال کرتا ہے، اس لیے بایں حیثیت بھی اس کو بدعت ٹھہرایا نہیں جاسکتا۔
تیسری بات یہ ہے، کہ سعودیہ کے سابق مفتیٴ اعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی نظر میں بھی مروجہ تسبیح بے اصل ہونے کے باوجود بدعت نہیں ہے!!! حضرت موصوف رحمہ اللہ کا فتویٰ اس طرح ہے:
لا نعلم اصلاً فی الشرع المطہر لتسبیح بالمسبحة، فالاولٰی عدم التسبیح بہا، والاقتصار علٰی المشروع فی ذلک، وہو التسبیح بالانامل ․ (فتاویٰ اسلامیة لمجموعة من العلماء الافاضل ج:۲،ص:۳۶۶)
”مِسبحہ کے ذریعہ تسبیح شمار کرنے کے لیے شریعت مطہرہ میں ہم کوئی اصل وبنیاد نہیں جانتے ہیں، لہٰذااولیٰ یہ ہے، کہ اس کے ذریعہ تسبیح شمار نہ کی جائے،اور اس میں مشروع پر اکتفاء کیا جائے، اور مشروع انگلیوں کے پوروں سے تسبیح شمار کرنا ہے۔“
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی نظر میں مروجہ تسبیح کا استعمال اگر بدعت ہوتا، تو موصوف ہرگز یہ تعبیر استعمال نہ فرماتے، کہ ”اولیٰ“ یہ ہے، کہ اس کے ذریعہ تسبیح شمار نہ کی جائے۔
واضح رہے ، کہ حضرت موصوف نے اس فتویٰ میں مشروع میں صرف انگلیوں کے پوروں سے تسبیح شمار کرنے کو لکھا ہے، لیکن انھوں نے اپنے دوسرے فتویٰ میں کھجور کی گٹھلی اور سنگریزے وغیرہ کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ ملاحظہ ہو: فتاویٰ نور علیٰ الدرب،ج:۱، ص:۳۷۱۔
(۲) جو صحابیات رضی اللہ عنہن کھجور کی گٹھلیوں یا کنکریوں پر تسبیحات شمار کررہی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں پر زیادہ مقدار میں تسبیحات پڑھنے کی بجائے جو اسہل وافضل طریقہ تھا، وہ ارشاد فرمایا، اس سے پتہ چلتا ہے، کہ گٹھلی یا کنکر وغیرہ پر اذکار شمار نہیں کرنا چاہیے،اور اسی پر مروجہ تسبیح کی بنیاد تھی، تو مروجہ تسبیح پر اذکار کا شمار کرنا ثابت ہوتا ہے۔
جواب: رسول الہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک افضل صورت ارشاد فرمائی، اس سے یہ لازم نہیں آتا، کہ گٹھلیوں یا سنگریزوں پر اذکار کا شمار کرنا ناجائز ہے۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والارشاد الٰی ما ہو افضل لا ینافی الجواز․ (نیل الاوطار،ج:۲،ص:۳۱۷)
شیخ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے بھی بعینہ یہ عبارت نقل فرمائی ہے۔ (تحفة الاحوذی، ج:۱۰،ص:۱۲)
شیخ محمود محمد خطاب السبکی رحمہ اللہ حدیث سعد رضی اللہ عنہ پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وفیہ دلالة علٰی جواز عدّ التسبیح بالنوی اوالحصی، فانہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم ینہ المرأة عن ذلک؛ بل ارشدہا الٰی ماہو ایسرلہا وافضل، ولوکان غیر جائز لبیّن لہا ذٰلک․ (المنہل العذب المورود،ج:۸،ص:۱۶۴)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد میں کہیں دور تک بھی اس احتمال کا گذر نہیں ہے، کہ گٹھلیوں اور سنگریزوں پر اذکار کا شمار کرنا ممنوع ہے؛ بلکہ آپ کے ارشاد کا منشاء اور غرض یہ ہے، کہ زیادہ ثواب حاصل کرنے کا ایک طریقہ جس طرح کثرتِ ذکر ہے، اسی طرح ایک آسان طریقہ یہ بھی ہے، کہ اس کے ساتھ ایسے الفاظ شامل کردئیے جائیں، جو کثرتِ تعداد پر دلالت کرنے والے ہوں۔ حضرت شاہ ولی الہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
واعلم ان من کان اکثر میلہ الٰی تلوّن النفس بلون معنی الذکر، فالمناسب فی حقہ اکثار الذکر، ومن کان اکثر میلہ الٰی محافظة صورة العمل فی الصحیفة وظہورہا یوم الجزاء، فالانفع فی حقّہ اختیار ذکر راب (ای فائق) علٰی الاذکار بالکیفیة․ (حجة اللّٰہ البالغة،ج:۲،ص:۷۳ مبحث فی الاذکار وما یتعلق بہا)
”اور جان لیں کہ وہ شخص جس کا زیادہ میلان اپنے باطن کو ذکر کے رنگ میں رنگنا ہو، یعنی باطن میں احسانی کیفیت (نسبتِ یاد داشت) پیدا کرنا مقصود ہو، اس کے لیے ذکر کی کثرت مناسب ہے۔ اور جس شخص کا زیادہ میلان نامہٴ اعمال میں عمل کی صورت کی نگہداشت کی طرف اور بروز جزاء اس صورت کے ظہور کی طرف ہو، اس کے حق میں زیادہ مفید ایسے ذکر کو اختیار کرنا ہے، جو کیفیت کے ذریعہ اذکار پر فائق ہو۔“
جو صحابیات رضی اللہ عنہن کھجور کی گٹھلیوں یا کنکریوں پر اذکار و تسبیحات شمار کررہی تھیں، ان کو کنکریوں یا گٹھلیوں پر اذکار و تسبیحات کے شمار کرنے سے روکنا مقصود نہیں تھا؛ بلکہ ان کو افضل واَیْسر کی تعلیم دینی مقصود تھی،اس کی تائید حسب ذیل روایت سے ہوتی ہے:
عن ابن عباس عن جویریة ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج من عندہا بکرة حین صلّی الصبح وہی فی مسجدہا ثم رجع بعد ان اضحی وہی جالسة فقال: مازلت علی الحال التی فارقتک علیہا، قالت: نعم قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لقد قلت بعدک اربع کلمات ثلاث مرّات لو وزنت بما قلت منذ الیوم لوزنتہن: سبحان اللّٰہ وبحمدہ عدد خلقہ ورضی نفسہ وزنة عرشہ ومداد کلماتہ․ (صحیح مسلم،ج:۲،ص:۳۵۰، جامع ترمذی مع عارضة الاحوذی،ج:۱۳،ص:۶۷، سنن النسائی،ج:۱، ص:۱۹۸،۱۹۹)
”حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ام الموٴمنین حضرت جویریہ رضی الہ عنہا سے روایت کرتے ہیں، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھ کر ان کے پاس سے صبح میں باہر تشریف لے گئے، دراں حالیکہ وہ اپنی نماز پڑھنے کی جگہ میں تھیں، پھر آپ چاشت کا وقت ہوجانے کے بعد لوٹے، دراں حالیکہ وہ (اسی جگہ) بیٹھی ہوئی تھیں۔ آپ نے دریافت فرمایا، کہ تم برابر اسی حال پر ہو، جس حال پر میں نے تم کو چھوڑا تھا؟ (یعنی تم برابر اپنی اسی نماز پڑھنے کی جگہ بیٹھ کر وظیفہ پڑھ رہی ہو؟) انھوں نے جواب دیا: جی ہاں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس سے جانے کے بعد میں نے چار کلمے تین دفعہ کہے، اگر وہ تمہارے آج (صبح سے) پڑھے ہوئے وظیفہ کے ساتھ تولے جائیں، تو ان کاوزن بڑھ جائے گا۔ وہ کلمات یہ ہیں: سبحان اللّٰہ وبحمدہ عدد خلقہ ورضی نفسہ وزنة عرشہ ومداد کلماتہ․ (میں اللہ کی پاکی اورحمد بیان کرتا ہوں اس کی مخلوقات کی تعداد کے برابر، اس کی ذات کی خوشنودی کے برابر، اس کے عرش کے وزن کے برابر اور اس کے کلمات کی تعداد کے برابر)
”المنہل“ میں ہے: وفی الحدیث دلالة علی الترغیب فی الذکر بہذہ الکلمات وان الذکر یتضاعف ویتعدّد بعدد ما احال علیہ الذاکر وان لم یتکرر الذکر فیحصل لمن قال: سبحان اللّٰہ عدد کل شيء مثلاً مرة مالا یحصل لمن کرر التسبیح بدون احالة علٰی عدد․ (المنہل العذب المورود،ج:۸،ص:۱۶۷)
(۳) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اثرِ ذیل میں تسبیح پر تسبیحات شمار کرنے سے ممانعت معلوم ہوتی ہے:
عن سعید بن جبیر، قال: رأی عمر بن الخطاب رجلا یسبّح بتسابیح معہ، فقال عمر: انما یجزیہ من ذلک أن یقول: سبحان اللّٰہ ملء السموات والارض، وملء ماشاء من شيء بعد، ویقول: الحمد للّٰہ ملء السموات والارض وملء ما شاء من شيء بعد، ویقول: اللّٰہ اکبر ملء السموات والارض وملء ما شاء من شيء بعد․ (المصنف لابن ابی شیبة،ج:۵،ص:۲۲۰)
جواب: اولاً: تو یہ اثر منقطع ہے۔ اور ثانیاً: اس آدمی کو اس عمل سے روکنا مقصود نہیں؛ بلکہ ماقبل کی طرح یہاں بھی اَسْہَل واَیْسَر کی تعلیم مقصود ہے۔
(۴) بنوکلیب کی ایک خاتون تسبیح پر تسبیحات شمار کررہی تھیں، جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ دیکھا، تو فرمایا، کہ شواہد یعنی انگلیاں جو قیامت کے دن گواہی دیں گی، کہاں ہیں؟ یعنی بجائے تسبیح پر شمار کرنے کے انگلیوں پر تسبیحات شمار کرو۔ گویا ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے تسبیح سے شمار کرنے پر نکیر فرمائی:
عن ابی تمیمة عن امرأة من بنی کلیف، قالت: رأتنی عائشة اسبّح بتسابیح معی، فقالت: این الشواہد؟ تعنی الاصابع․ (المصنف لابن ابی شیبة،ج:۵،ص:۲۱۷)
جواب: اس کی سند میں جہالت ہے؛ بنوکلیب کی خاتون مجہول ہے۔ برتقدیرِ صحتِ اثر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے اعلیٰ وافضل کی تلقین ہے۔ ماقبل میں مذکور ہوا، کہ اذکار و تسبیحات کا انگلیوں پر شمار کرنا اعلیٰ وافضل ہے۔
(۵) حسبِ ذیل روایت میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا تسبیح اور کنکریوں کے ذریعہ ادکار شمار کرنے پر انکار وارد ہوا ہے:
عن الصلت بن بہرام قال: مَرّ ابن مسعود بامرأة معہا تسبیح تسبّح بہ، فقطعہ، والقاہ․ ثم مَرَّ برجل یسبّح بحصی، فضربہ برجلہ، ثم قال: لقد سبقتم، رکبتم بدعة ظلما، ولقد غلبتم اصحاب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم علماً․ (البدع والنہی عنہا لابن وضاح القرطبی،ص:۱۲)
”صلت بن بہرام سے مروی ہے، کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک خاتون کے پاس سے گذر ہوا، اس کے پاس تسبیح تھی، جس سے وہ تسبیح پڑھ رہی تھی، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس تسبیح کو توڑ کر ڈال دیا۔ پھر آپ ایک آدمی کے پاس سے گذرے، جو کنکریوں سے تسبیح پڑھ رہا تھا، اس کو پاؤں مارا، پھر فرمایا کہ تم (اپنے زعم میں صحابہٴ کرام سے) بڑھ گئے؟ (نہیں؛ بلکہ) تم بے جا بدعت کے مرتکب ہوئے۔ تم (یہ خیال کرتے ہو کہ تم) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے علم میں بڑھ گئے!!!
جواب: اس روایت کی سند میں انقطاع ہے، کیوں کہ صلت بن بہرام کا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں۔ برتقدیر صحت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا انکار اذکار شمار کرنے کے لیے تسبیح یا کنکریوں کے استعمال پر نہیں ہے؛ بلکہ نفس اذکار شمار کرنے پر ہے۔ ان کا موقف اذکار شمار کرنے کی کراہت کا نقل کیاجاتا ہے، چنانچہ حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے مروی ہے:
کان عبداللّٰہ یکرہ العدّ، ویقول: أیمنّ علی اللّٰہ حسناتہ؟ (المصنف لابن ابی شیبة،ج:۵،ص:۲۱۹، ۲۲۰)
”حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ اذکار کے شمار کرنے کو ناپسند کرتے تھے، اور فرماتے تھے کہ کیا اللہ پر اپنی نیکیوں سے احسان جتایا جاتا ہے؟“
یہ روایات موقوف ہیں، جبکہ مرفوع روایاتِ صحیحہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قولاً، عملاً اور تقریراً اذکار و تسبیحات کا شمار کرنا ثابت ہے۔ ممکن ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا نظریہ یہ ہو، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرض نمازوں کے بعد جیسے مخصوص مواقع میں اذکار کا شمار کرنا ثابت ہے، ان کے علاوہ مواقع میں شمار کرنا مکروہ ہے، لیکن جمہور صحابہ اس کے بلا کراہت جواز کے قائل ہیں۔
(۶) حسبِ ذیل روایت میں بھی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کنکریوں سے تسبیحات و اذکار شمار کرنے پر نکیر منقول ہے۔ اور اس پر مروجہ تسبیح کی بنیاد ہے، تو اس سے مروجہ تسبیح کا ممنوع ہونا ثابت ہوتا ہے:
عن سیار ابی الحکم: أن عبد اللّٰہ بن مسعود حُدّث: أن اناسا بالکوفة یسبحون بالحصی فی المسجد، فاتاہم وقد کوّم کلّ رجل منہم بین یدیہ کومة حصی، فلم یزل یحصبہم بالحصی حتی اخرجہم من المسجد، ویقول: لقد احدثتم بدعة ظلما او قد فضلتم اصحاب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم علماً․ (البدع والنہی عنہا لابن وضاح،ص:۱۱)
”ابوالحکم سیّار سے مروی ہے، کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان کے پاس تشریف لائے، دراں حالیکہ ان میں سے ہر ایک آدمی نے اپنے سامنے کنکریوں کا ڈھیر لگا رکھا تھا۔ آپ ان کو کنکریوں سے مارتے رہے، یہاں تک کہ ان کو مسجد سے نکال دیا۔ اور آپ (ان کو مارتے ہوئے) فرماتے تھے، کہ یا تو تم نے بے جا بدعت گڑھ لی، یا پھر تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے علم میں بڑھ گئے۔“ (اور یہ دوسری صورت ہو نہیں سکتی،لامحالہ پہلی صورت متعین ہوگئی، کہ تم نے یہ بدعت گڑھ لی ہے)
اس روایت کی سند میں بھی انقطاع ہے، کیوں کہ ابوالحکم سیّار کا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں۔ برتقدیرِ صحت ممکن ہے، کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا انکار نفس اذکار شمار کرنے پر ہو، جبکہ صحیح مرفوع روایتوں سے اس کا بلاکراہت جواز ثابت ہے، جیسا کہ ماقبل میں گذرا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ذکر کے لیے مسجد میں اجتماع واہتمام والتزام اور ہیئت کذائیہ پر نکیرکی ہو۔ ذیل کی روایت جس کی سند میں فنّی اعتبار سے تقریباً کوئی کلام نہیں، کا محمل بھی یہی ہے، روایت اس طرح ہے:
اخبرنا الحکم بن المبارک انا عمر (ہکذا جاء فی السنن للدارمی، وصوابہ: عمرو) بن یحیی قال سمعت ابی یحدث عن ابیہ (ای عن عُمارة بن ابی حسن المازنی) قال: کنّا نجلس علٰی باب عبد اللّٰہ بن مسعود قبل صلاة الغداة، فاذا خرج مشینا معہ الٰی المسجد، فجاء نا ابوموسٰی الاشعری فقال: أخرج الیکم ابوعبد الرحمن بعد؟ قلنا: لا، فجلس معنا حتی خرج، فلما خرج قمنا الیہ جمیعا، فقال لہ ابوموسیٰ: یا ابا عبدالرحمن، انی رأیت فی المسجد آنفا امرًا انکرتہ، فلم أرَ والحمد للّٰہ الا خیرا․ قال: فما ہو؟ فقال: ان عشت فستراہ․ قال: رأیت فی المسجد قوما حلقا جلوسا ینتظرون الصلاة فی کل حلقة رجل وفی ایدیہم حصا فیقول: کبروا مائة، فیکبرون مائة، فیقول: ہلّلوا مائة، فیہللون مائة، ویقول: سبّحوا مائة، فیسبّحون مائة․
قال: فماذا قلت لہم؟ قال: ما قلت لہم شیأ انتظار رأیک او انتظار امرک․ قال: افلا امرتہم ان یعدّوا سیئاتہم، وضمنت لہم ان لا یضیع من حسناتہم، ثم مضی ومضینا معہ حتّی اتی حلقة من تلک الحلق، فوقف علیہم فقال: ما ہذا الذی أراکم تصنعون؟ قالوا: یا ابا عبدالرحمن، حصا نعدّ بہ التکبیر والتہلیل والتسبیح ․
قال: فعدّوا سیئاتکم، فانا ضامن أن لا یضیع من حسناتکم شيء، ویحکم یا امة محمد، ما اسرع ہلکتکم، ہوٴلاء صحابة نبیکم صلی اللّٰہ علیہ وسلم متوافرون، وہذہ ثیابہ لم تبل، وآنیتہ لم تکسر، والذی نفسی بیدہ انکم لعلٰی ملّة ہی اہدی من ملة محمد؟ او مفتتحوا باب ضلالة؟ قالوا: واللّٰہ یا ابا عبدالرحمن، ما اردنا الا الخیر․ قال: وکم من مرید للخیر لن یصیبہ، ان رسول اللّٰہ حدثنا: ان قوما یقروٴون القرآن لا یجاوز تراقیہم، وایم اللّٰہ ما ادری لعل اکثرہم منکم، ثم تولّی عنہم․ فقال عمرو بن سلمة: رأینا عامة اولئک الحلق یطاعنونا یوم النہر وان مع الخوارج․ (سنن الدارمی، باب فی کراہیة اخذ الرأی،ج:۱،ص:۷۸)
” عُمارہ بن ابی حسن المازنی فرماتے ہیں، کہ ہم نمازِ فجر سے پہلے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے (گھر کے) دروازے پر بیٹھتے تھے، جب آپ گھر سے نکلتے، تو ہم آپ کے ساتھ مسجد جاتے۔ ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ہمارے پاس تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے پاس اب تک ابوعبدالرحمن (یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) نہیں آئے؟ ہم نے عرض کیا: نہیں۔ تو آپ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر سے نکلنے تک ہمارے ساتھ تشریف فرماہوئے۔ جب آپ نکلے، تو ہم سب آپ کی طرف اٹھے۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے آپ سے فرمایا کہ اے ابوعبدالرحمن! میں نے مسجد میں ابھی ایک بات دیکھی، جس کو میں نے اوپرا پایا، ویسے تو الحمدللہ خیر ہی کو دیکھا۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ وہ کیا ہے؟ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر زندگی نے وفا کی، تو عنقریب آپ بھی دیکھ لیں گے، اور وہ یہ کہ میں نے مسجد میں کچھ لوگوں کو مختلف حلقوں میں نماز کے انتظار میں بیٹھے ہوئے دیکھا، ہر حلقے میں ایک آدمی ہے، لوگوں کے ہاتھوں میں کنکریاں ہیں، وہ آدمی کہتا ہے: سو مرتبہ ”اللہ اکبر“ پڑھو، تو لوگ سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھتے ہیں، پھر وہ کہتا ہے: سو مرتبہ ”لا الہ الا اللہ“ پڑھو، تو لوگ سو مرتبہ لا الہ الا اللہ پڑھتے ہیں، پھر وہ کہتا ہے، کہ سو مرتبہ ”سبحان اللہ“ پڑھو، تو لوگ سو مرتبہ سبحان اللہ پڑھتے ہیں۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ نے ان سے کیا کہا؟ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے ان سے آپ کی رائے کے انتظار میں راوی کہتا ہے کہ یا یہ فرمایا کہ آپ کے حکم کے انتظار میں کچھ نہیں کہا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ ان کو یہ حکم دیتے کہ وہ اپنے گناہ شمار کریں اوران کو ضمانت دیتے، کہ ان کی نکیوں میں سے کچھ ضائع نہیں ہوگا (یعنی ان اذکار کو شمار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ آدمی جو ذکر کرے گا، وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے، اس پر وہ اجر دیں گے، وہ ذکر اور نیکی ضائع نہیں ہوگی) پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ (مسجد کی جانب) چلے، ہم بھی آپ کے ساتھ ہولیے، یہاں تک کہ ان حلقوں میں سے ایک حلقہ کے پاس آکر کھڑے ہوگئے، اور ان سے دریافت فرمایا، کہ یہ کیا چیز ہے، جو میں تم کو کرتے ہوئے پارہا ہوں؟ انھوں نے جواب دیا کہ اے ابوعبدالرحمن! ہم ان سنگریزوں سے تکبیر، تہلیل اور تسبیح شمار کرتے ہیں۔
آپ نے فرمایا: بجائے اس کے تم اپنے اپنے گناہ شمار کرو، میں ضمانت دیتا ہوں کہ (اگر ان اذکار کو شمار نہ کرو، تو) تمہاری نیکیوں میں سے کچھ ضائع نہیں ہوگا۔ اے امتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم! تم پر افسوس! تمہاری ہلاکت کس قدر جلد آگئی، ابھی یہ اصحابِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے درمیان بکثرت موجود ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے بوسیدہ نہیں ہوئے اور آپ کے برتن نہیں ٹوٹے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا اور تم ابھی سے بدعتوں میں مشغول ہوگئے) اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! یا تو تم ایک ایسے دین پر ہو، جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے (نعوذ باللہ) زیادہ راست ہے، یا تو تم گمراہی کا دروازہ کھولنے والے ہو۔ ان لوگوں نے جواب دیا: اے ابوعبدالرحمن! اللہ کی قسم! ہم اس عمل سے نیکی ہی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بہت سے نیکی کا ارادہ کرنے والے ایسے ہیں کہ انھیں ہرگز نیکی حاصل نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ کچھ لوگ قرآن پڑھیں گے، مگر قرآن ان کی ہنسلیوں سے تجاوز نہیں کرے گا۔ اللہ کی قسم! قطعی بات میں نہیں جانتا، ہوسکتا ہے کہ ان کے بیش تر لوگ تم ہی میں سے ہوں۔ یہ کہہ کر ابن مسعود رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے چلے گئے۔ عمرو بن سلمہ کہتے ہیں کہ ان حلقے والوں میں سے اکثر کو ہم نے دیکھا کہ جنگِ نہروان میں خوارج کے ساتھ مل کر یہ لوگ ہم پر برچھے مارتے تھے۔“
(۷) حدیث پاک میں ہے: لا یزال لسانک رطبا من ذکر اللّٰہ․ (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان،ج:۲، ص:۹۲، جامع ترمذی وغیرہ) ”تمہاری زبان اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہر وقت تر رہے۔“ اس کا تقاضا یہ ہے کہ زبان ہر وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر سے سرشار اور تر رہنا چاہیے، تو پھر اذکار و تسبیحات کے شمار کرنے اوراس کے لیے مروجہ تسبیح کے استعمال کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
جواب: ویسے تو ہر وقت زبان پر اللہ تعالیٰ کا ذکر ہونا چاہیے، لیکن خود احادیثِ طیبہ میں بعض بعض اذکار کی تعداد مروی ومنقول ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خاص اذکار کو خاص اوقات میں خاص تعداد کے ساتھ پڑھنا مقصود ہے، اس لیے ان ادکار کو شمار کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ نیز جیسا کہ ماقبل میں گذرا کہ گننے سے ادائیگیٴ اذکار میں نشاط پیدا ہوتا ہے۔
(۸) شریعت مطہرہ میں سو سے زیادہ مقدار میں کوئی ذکر نہیں ہے، سو سے زیادہ میں مطلق ذکر کا حکم ہے، اور سو تک انگلیوں کے پوروں سے گننے میں کوئی دشواری نہیں ہے، جبکہ اس سے زائد میں شمار کرنے کی ضرورت نہیں، لہٰذا مروجہ تسبیح کے استعمال کی احتیاج بھی نہیں۔
جواب: جب تقریرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مروجہ تسبیح کی اصل (کھجور کی گٹھلیوں اور سنگریزوں پر اذکار کا شمار کرنا) ثابت ہوگئی، تو اس سے اس سوال کی خود ہی بیخ کنی ہوجاتی ہے۔ اب چاہے سو کے اندر اذکار شمار کیے جارہے ہوں یا اس سے زائد میں۔ سو سے زائد میں ادکار کا شمار کرنا ادائیگی اذکار میں نشاط کا موجب ہے، کما مرّ۔
(۹) مروّجہ تسبیح کے استعمال میں ہنود ونصاریٰ وغیرہ کے ساتھ تشبّہ پایا جاتا ہے، کیونکہ ان کے ہاں بھی تسبیح رائج ہے۔
جواب: اذکار کے شمار کرنے میں مروجہ تسبیح کا استعمال غیرمسلمین مذہبی شعار کے طور پر نہیں کرتے ہیں۔ نیز ان کی تسبیح یا جپ مالا میں اور مسلمان جو تسبیح استعمال کرتے ہیں، ان میں فرق ہوتا ہے۔ چنانچہ نصاریٰ میں کیتھولک پچاس چھوٹے دانوں کی تسبیح استعمال کرتے ہیں، جو چار بڑے دانوں پر منقسم ہوتے ہیں، اور ان کی تسبیح میں دو بڑے اور تین چھوٹے دانوں اور ملپ سے بنا ہوا ہار لٹکا رہتا ہے۔ ہندوؤں کی جپ مالا مختلف فرقوں کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔ شیوائیہ فرقہ کی جپ مالا میں چوراسی(۸۴) دانے ہوتے ہیں، اور وشنو فرقہ کی جپ مالا کے دانوں کی تعداد ایک سو آٹھ(۱۰۸) ہوتی ہے، جب کہ مسلمانوں کی تسبیح کے دانوں کی تعداد تینتیس(۳۳)، نناوے (۹۹) اور عامةً سو (۱۰۰) ہوتی ہے۔ اور مسلمانوں کی تسبیح غیرمسلمین کی جپ مالا وغیرہ کے دانوں کی ہیئت میں بھی اختلاف ہوتا ہے، لہٰذا مروجہ تسبیح کے استعمال میں غیرمسلمین کے ساتھ مشابہت نہیں پائی جاتی ہے۔
خلاصہٴ بحث:
خلاصہٴ بحث یہ ہے کہ ادکار و تسبیحات کا انگلیوں پر شمار کرنا اولیٰ وافضل ہے، تاہم مروّجہ دھاگے دانوں کی تسبیح پر شمار کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں، جائز ہے۔ کیونکہ اس کا وجود اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھا، لیکن اس کی اصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں موجود تھی، لہٰذا اسے مطلقاً بدعت قرار دینا نادانی ہے۔
تتمّہ؛ کاؤنٹرمشین یا الکٹرانک تسبیح سے اذکار کا شمار کرنا:
ہمارے زمانے میں لوہے وغیرہ دھات کا انڈے کے حجم کے برابر ایک آلہ تیار ہوا ہے، اس میں نو سو نناوے یا نوہزار نو سو نناوے تک نمبر ہوتے ہیں۔ اذکار و تسبیح پڑھنے والا اسے اپنی ہتھیلی میں رکھتا ہے، اورانگوٹھے یا انگلی سے اس کا بٹن دباتا رہتا ہے، جس سے نمبر (عدد) بدلتا رہتا ہے۔ جب نو سو ننانوے یا نو ہزار نو سو نناوے پر پہنچتا ہے، تو پھر ازسرِ نو شروع کرتا ہے۔ جس طرح دھاگے والی تسبیح سے اذکار کا شمارکرنا جائز ہے، اسی طرح اس کاؤنٹر مشین سے شمار کرنا بھی جائز ہے؛ البتہ اس مشین میں بٹن دبانے سے آواز کچھ بلند ہوتی ہے، اس لیے تسبیح پڑھنے والے کو چاہیے، کہ کوئی آدمی نماز یا تلاوت میں مشغول ہو، یا کوئی آدمی سویا ہوا ہو، اور کاؤنٹر مشین پر اذکار شمار کرنے سے نماز، تاوت یانیند میں خلل واقع ہوسکتا ہو، تو وہاں کاؤنٹر مشین کو استعمال کرنے سے اجتناب کرے۔
”الیکٹرانک تسبیح“ سے اذکار شمار کرنے میں بھی بٹن دبانے سے آواز بلند ہوتی ہے، اگرچہ لوہے کے کاؤنٹر مشین کی آواز سے قدرے کم ہوتی ہے۔ لہٰذا اس سے ادکار شمار کرنے کا حکم وہی ہے، جو کاؤنٹر مشین سے شمارکرنے کا ہے۔
واللّٰہ تعالٰی اعلم وعلمہ اتم واحکم
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ12، جلد: 91 ،ذی الحجہ 1428 ہجری مطابق دسمبر2007ء