حرفِ آغاز

حبیب الرحمن اعظمی

اسلام ایک زندہ مذہب ہے۔ اس کی تعلیمات کائنات انسانی کے لئے یکسر رحمت ورافت ہے۔ جس کی اساس و بنیاد ایسے مضبوط و محکم اصولوں پر قائم ہے، جن کی صداقت دن کے اجالوں کی طرح روشن و عیاں ہے۔ اسلام صرف ایک سماجی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس سے بھی بلند تر عقائد و اعمال پر مبنی ہے۔ یہ ایک ایسا مذہب ہے جو حیات بعد الممات کی بنیادوں پر کائنات انسانی کو رشدوہدایت کی دعوت دیتا ہے۔ اور معاش و معاد دونوں کی فلاح و بہتری کا پیغام سناتا ہے۔

آخر اس سچائی سے کون ذی عقل اور ہوش مند انکار کرسکتا ہے کہ انسانیت ترقی وبلندی کی معراج پر اسی وقت رسائی حاصل کرسکتی ہے جبکہ اس کے سامنے یہ تصور یقین محکم کی حیثیت اختیار کرلے کہ ذات واحد کے سوا عالم ہست و بود میں کوئی قابل پرتش نہیں، وجود و بقا، حیات وموت، عزت و ذلت، تربیت و ربوبیت، پروردگاری و پالنہاری وغیرہ سب صرف اور صرف اسی کے ہاتھ میں ہے۔

اس سچائی کے منکشف ہوجانے کے بعد ایک دوسری حقیقت خود بخود نمایاں ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ جب انسان کی زندگی ایک سب سے بلند وبالاتر طاقت کے قبضہ میں ہے تو بلاشبہ اسی بلند طاقت کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ انسان کو یہ ہدایت اور رہنمائی دے کہ کس راہ پر چل کر وہ انسانی دنیا میں ایک سچا انسان اور خلق خدا کے لئے صحیح معنوں میں رحمت و رأفت کا پیکر بن سکتا ہے۔ بالفاظ دیگر معراجِ انسانیت کے رتبہٴ عالی و مرتبہٴ سعادت تک پہنچنے کیلئے کونساراستہ سیدھا ودرست ہے؟ اس بات کو آشکارا کرنے کے لئے ارشاد فرمایا گیا: ”ربُّنَا الَّذِیْ اَعْطٰی کُلَّ شَیْءٍ خَلَقَہ ثُمَّ ہَدَیٰ“ ہمارا رب ہی وہ ہے جس نے ہر چیز کو وجود عطا کیا پھر ہدایت و رہنمائی سے نوازا۔

اس لئے زندگی کے اعلیٰ مقاصد تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے ہم اپنی دنیوی ترقی اور معاشی سرافرازی کی جدوجہد کے ساتھ خداے وحدہ لاشریک لہ کے بتائے ہوئے نظام حیات (اِنَّ الدِیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلاَمُ“ (یقینا اللہ کا مقرر کردہ دین اسلام ہی ہے) کی تعلیم و تحصیل سے ایک لمحہ کے لئے بھی نہ غافل اور بے پروا ہوں تاکہ آنے والے دنوں میں ہمیں افسوس نہ ہو کہ ”یک لمحہ غافل بودم وصدسالہ راہم دورشد“

اس بات سے کون واقف نہیں ہے کہ ہمارے ملک ہندوستان کا نظام حکومت جمہوری ولادینی ہے (یعنی سیکولر ریاست کسی فرد کی مذہبی دینی تعلیم کی ذمہ داری اپنے سر نہیں لے گی) اس لئے خدائی نظام حیات سے آشنا اور بہرہ ور ہونے کے لئے من حیث القوم ہر ہر فرد پر یہ اولین فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی اگلی نسلوں کی فلاح و صلاح اور اسے خدائی نظام حیات دین اسلام سے وابستہ وپیوستہ رکھنے کے لئے مذہبی بنیادی تعلیم کا بار خود اپنے کاندھوں پر اٹھائے تاکہ کم سنی کے یہ نقوش ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کے لوح قلب پر ثبت رہیں اور زندگی کے میدانوں میں رواں دواں رہتے ہوئے اس کے ہاتھوں سے دین کا دامن نہ چھوٹے۔ دین سے بھی وابستگی ہمارے ملی وجود اور انسانی دنیا میں ہمارے تشخص و امتیاز کا واحد ذریعہ ہے خدانخواستہ اگر ہمارے ہاتھوں سے دین کا دامن چھوٹ گیا تو پھر صحراؤں کے ذرات کی طرح بکھر کر دنیا کے نقشہ سے بے نام و نمود ہوجائیں گے۔

گھر ترا چھوڑ کر جائیں تو کدھر جائیں گے

گھر میں گھِر جائیں گے صحرا میں بکھر جائیں گے

اس دنیا میں اگر کچھ لوگوں کو مذہبی تعلیم کے نام سے الرجی ہوتی ہے تو ہونے دیجئے۔ تاریخ بارہا اس سچائی کو واضح کرچکی ہے کہ انسانیت کے باہمی تعاون و اشتراک اور صحیح معنوں میں اخوت انسانی و مساوات کی نقیب ہر دور میں یہی اسلامی تعلیمات ثابت ہوئیں ہیں، اور یہی نہیں بلکہ بلاخوف تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جو شخص جتنا زیادہ اسلامی عدم ثقافت سے آشنا ہوتاہے اسی قدر اس کے دل میں اپنے وطن اور وطن میں بسنے والوں کی محبت، خدمت کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں خود جنگ آزادی کی تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ اخلاص وطن کی جدوجہد میں اسلامی علوم کے حاملین علماء حق نے جس بڑی تعداد کے ساتھ خود کو اور اپنے ماننے والوں کو دار و رسن کے لئے پیش کیا اور باہمی تعاون و اشتراک کا جو بلند کردار قرطاس عالم پر ثبت کیا مذہب سے ناآشنا زندگی اس بے لوث کردار و عمل کا مقابلہ نہیں کرسکی۔

اس دنیامیں روٹی کا مسئلہ لاریب ایک مسئلہ ہے جس سے مشرق و مغرب کی فضائیں پرشور ہیں، لیکن دینی علوم ومذہبی افکار کے بغیر اسے بھی اطمینان بخش طریقہ پر حل نہیں کیا جاسکتا۔ جو قومیں روٹی کے اس مسئلہ کو خدائی نظام معیشت سے بے نیاز ہوکر سلجھانا چاہتی ہیں وہ کس طرح کے تضاد اور کشمکش کی شکار ہیں ارباب علم و بصیرت سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

بہرحال ہم جب اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں تو پھر اسلامی تعلیم کی حفاظت و اشاعت ہمارا ایک عظیم مقصد ہونا چاہئے، اور اس بارے میں کتاب وسنت نے جو فرائض ہمارے اوپر عائد کئے ہیں اگر ہم انہیں انجام دینا شروع کردیں تو ہمارا مستقبل ہرخطرہ سے محفوظ ہوجائیگا۔

باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”قُو اَنْفُسَکم واَہَلِیْکُم نارًا“ اے مسلمانوں تم (اعمال صالحہ کے ذریعہ) اپنے آپ کو اور (صحیح تعلیم و تربیت کے ذریعہ) اپنی اولاد کو نار جہنم سے بچاؤ۔

اس عظیم الشان فرض کی ادائیگی کی صورت یہی ہے کہ ہم اپنے بچوں کی دینی تعلیم کا اہتمام کریں۔ چشم فلک نے ایک زمانہ وہ بھی دیکھا ہے کہ ہر مسلمان کا گھر دینی تعلیم کا مدرسہ تھا، ان کی مسجدیں، دینی تعلیم کی درسگاہیں تھیں، ان کے ہر قریہ اور ہر گاؤں میں دینی مکاتب اور مدرسے قائم تھے اور وہاں کے علماء تعلیم و تربیت کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ دینی تعلیم سے اس وابستگی نے انہیں دنیا کی تمام قوموں میں ممتاز و سربلند کردیا تھا۔ آج اسی احساسِ فرض کو دوبارہ زندہ وقائم کرنے کی ضرورت ہے اور بس اپنے عمل اور کردار سے انسانی دنیا کو باور کرانا ہے کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے۔ اور اس کے دامن سے وابستہ گروہ انسانی ایک زندہ قوم ہے۔

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10-11، جلد: 91 ‏، رمضان-ذی قعد 1428 ہجری مطابق اکتوبر -نومبر2007ء

Related Posts