بچوں کو بڑوں کی صف میں کھڑاکرنا

از: مفتی عمرفاروق لوہاروی‏، شیخ الحدیث دارالعلوم لندن (یو․کے)

بچے نماز وغیرہ عبادات و احکامات کے مکلف نہیں ہیں۔ بالغ ہونے پر وہ مکلف ہوتے ہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

رفع القلم عن ثلاثة: عن النائم حتی یستیقظ وعن الصبی حتی یحتلم وعن المجنون حتی یعقل․ (سنن ابی داؤد، کتاب الحدود، باب فی المجنون یسرق او یصیب حدا ج:۲،ص:۲۴۹، جامع ترمذی، ابواب الحدود، باب ما جاء فیمن لایجب علیہ الحد ج:۱،ص:۲۶۳)

”تین قسم کے لوگ مرفوع القلم ہیں: سونے والا یہاں تک کہ وہ بیدار نہ ہوجائے، بچہ یہاں تک کہ وہ بالغ نہ ہوجائے، اور مجنون یہاں تک کہ اسے جنون سے افاقہ نہ ہوجائے۔“

لیکن جب بچے قدرے سمجھدار ہوجائیں، تو اعتیاد اور تمرین علی العبادت کے لیے شریعت مطہرہ نے ان کو نماز کی تلقین و ترغیب اور ایک مرحلہ پر تنبیہ وتادیب کی ہدایت کی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

مروا اولادکم بالصلوة وہم ابناء سبع سنین، واضربوا ہم علیہا وہم ابناء عشر، و فرقوا بینہم فی المضاجع․ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلوٰة، باب متی یوٴمر الغلام بالصلاة،ج:۱،ص:۷۱ ونحوہ فی الجامع للترمذی، ابواب الصلوة، باب ما جاء متی یوٴمر الصبی بالصلاة ج:۱،ص:۹۳)

”اپنی اولاد کو جب وہ سات سال کے ہوجائیں، نماز کا حکم دو۔ اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں، تو نماز (چھوڑنے) پر ان کی سرزنش و تادیب کرو اور خواب گاہوں میں ان کو جدا کرو۔“

رہا یہ امر کہ کتنی عمر کے بچوں کو نماز کے لیے اپنے ساتھ مسجد لے جاسکتے ہیں، تو اس کے متعلق کتاب وسنت میں کوئی خاص تحدید وارد نہیں ہوئی ہے؛ لیکن یہاں دوسرا پہلو مسجد کے تقدس و احترام اور نظافت و صفائی کا ہے، جس کا پاس و لحاظ رکھنے کی انتہائی تاکید آئی ہے۔ جامع ترمذی وغیرہ میں ہے:

عن عائشة قالت: امر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ببناء المساجد فی الدور وان تنظف وتطیب․ رواہ الترمذی مسندا ومرسلاً وقال فی المرسل: ہذا اصح․ (جامع ترمذی، ابواب ما یتعلق بالصلوة، باب ما ذکر فی تطییب المساجد ج:۱، ص:۱۳۰)

”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہر ہر محلہ میں مسجدیں بنانے کا حکم دیا، اور یہ حکم فرمایا کہ وہ صاف اور خوشبودار رکھی جائیں۔“

صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: البزاق فی المسجد خطیئة وکفارتہا دفنہا․ (صحیح بخاری، کتاب الصلوة، باب کفارة البزاق فی المسجد ج:۱،ص:۵۹)

”نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا، کہ مسجد میں تھوکنا گناہ ہے، اور اس کا کفارہ اس کو دفن کردینا یعنی صاف کردینا ہے۔“

امام مسلم رحمة اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک روایت نقل فرمائی ہے، جس کی اصل صحیح بخاری، کتاب الوضوء وغیرہ میں ہے؛ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

بینما نحن فی المسجد مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذ جاء اعرابی فقام یبول فی المسجد فقال اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: مہ مہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تزرموہ، دعوہ، فترکوہ، حتی بال، ثم ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم دعاہ فقال لہ: ان ہذہ المساجد لاتصلح لشيء من ہذا البول ولا القذر، انما ہی لذکر اللّٰہ تعالٰی والصلاة وقرأة القرآن او کما قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم․ (صحیح مسلم ج:۱، ص:۱۳۸)

”اس دوران کہ ہم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ مسجد (نبوی) میں بیٹھے ہوئے تھے، کہ ایک اعرابی آئے اور کھڑے ہوکر مسجد میں پیشاب کرنے لگے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ (رضی اللہ عنہم) نے فرمایا: ٹھہر جاؤ، رُک جاؤ۔ راوی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ان کا پیشاب مت روکو، انھیں کرنے دو۔ چنانچہ انھوں نے اسے یونہی چھوڑ دیا، یہاں تک کہ وہ پیشاب کرچکے، پھر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انھیں بلایا اور ان سے فرمایا کہ یہ مساجد پیشاب اور گندگی کے کسی کام کے لیے موزوں نہیں ہیں، یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کے ذکر، نماز اور تلاوتِ قرآن کے لیے ہیں۔ یا اسی طرح کچھ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے (ان سے) فرمایا۔“

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ حدیثِ مذکور کے فوائد پر کلام کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

وفیہ تعظیم المسجد وتنزیہہ عن الاقذار․ (فتح الباری ج:۱،ص:۳۸۸)

”اس حدیث میں مسجد کی تعظیم اور اس کو قابلِ نفرت چیزوں سے پاک و صاف رکھنے کی تعلیم ہے۔“

اسی طرح مسجد میں ہر ایسے کام سے منع کیاگیا، جس سے اس کا احترام ختم ہوجائے، یا جس سے عبادت میں مشغول لوگوں کے دل پراگندہ ہوں۔ چنانچہ مسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان، خرید وفروخت اور بازاروں جیسا شور وشغب، حمدونعت اور ضرورتِ شرعیہ کے بغیر اشعار سنانا یا بیت بازی کرنا، قصاص لینا اور سزائیں جاری کرنا، جنبی اورحائضہ یا نفساء کا داخل ہونا اور بدبودار چیزوں کو مسجد میں لے جانا یا خود بدبودار ہوکر مسجد میں جانا وغیرہ امور سے ممانعت احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں۔ یہ سب امور احترامِ مسجد کے منافی ہیں، اور ان میں سے بعض میں اللہ کے نیک بندوں یعنی فرشتوں اور نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق حافظ ابن کثیر رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:

وقد کان عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ اذا رأی صبیانا یلعبون فی المسجد ضربہم بالمخفقة وہی الدرة․ (تفسیر ابن کثیر،ج:۳،ص:۲۷۵)

”حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ جب بچوں کو مسجد میں کھیلتے ہوئے دیکھتے تھے، تو ان کو درہ سے مارتے تھے۔“

احترامِ مسجد کے تأکّد پر دلالت کرنے والی نصوص و آثار کو مدِّنظر رکھتے ہوئے حضرات فقہاء کرام نے بعض بچوں کو مسجد میں لانے کی اجازت دی ہے، اور بعض کے لانے کو ممنوع ٹھہرایا ہے۔ یہاں یہ ملحوظ رہے کہ حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ وغیرہ کی ایک روایت ہے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جنّبوا مساجدکم صبیانکم ومجانینکم․(سنن ابن ماجہ،ص:۵۵) ”تم اپنی مسجدوں سے اپنے بچوں اور پاگلوں کو دور رکھو یعنی ان کو مسجدوں میں نہ آنے دو“ فنّی اعتبار سے اس روایت میں کلام ہے۔ چھوٹے بچوں کو مسجد میں لانے کی ممانعت اِس روایت پر موقوف نہیں، جیساکہ بعض عمل بالحدیث کے دعویدار سمجھتے ہیں اوراس کی وجہ سے مقلدین حضرات پر اعتراض کرتے ہیں؛ بلکہ سطورِ بالا میں مذکور احترامِ مسجد کے تأکّد پر دالّ صحیح اور صریح روایات جیسی روایات و نصوص سے ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ کن بچوں کو مسجد میں لانے کی اجازت ہے اور کن کے لیے ممانعت ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ نابالغ بچوں کی تین قسمیں ہیں:

(۱)    وہ بچے جو اتنے ناسمجھ اور کم عمر ہوں، کہ انھیں پاکی و ناپاکی اور مسجد وغیرہ مسجد کا بالکل شعور نہ ہو، اور ان سے مسجد کے ناپاک ہوجانے کا ظن غالب ہو، ایسے بچوں کو مسجد میں لانا جائز نہیں، مکروہ تحریمی ہے۔

(۲)   وہ بچے جو تھوڑی بہت کچھ سمجھ رکھتے ہوں، اور ان سے مسجد کی بے حرمتی اور ناپاک ہونے کا قوی اندیشہ نہ ہو، انھیں مسجد میں لاسکتے ہیں، مگر بہتر یہ ہے کہ نہ لایاجائے۔

(۳)   وہ بچے جو پوری طرح باشعور اور باتمیز ہوں، پاکی وناپاکی کو سمجھتے ہوں اور مسجد کا احترام ملحوظ رکھتے ہوں، انھیں مسجد میں لانا بلاکراہت جائز ہے؛ بلکہ نماز کی عادت ڈالنے کے لیے لانا ہی چاہیے۔

یہاں یہ ملحوظ رہے کہ سن تمیز وشعور ہر بچے میں یکساں نہیں ہوتا؛ بلکہ استعداد فطری کے لحاظ سے یہ عمر ہر بچے میں مختلف ہوتی ہے، اس لیے باشعور ہونے کی عمر کی تحدید و تعین نہیں ہوسکتا۔ اس اعتبار سے سات سال سے کم عمر بچہ بھی باشعور ہوسکتا ہے، جبکہ اس کی دینی تربیت اور اخلاق وآداب کی تعلیم اچھی طرح ہوئی ہو۔ ویسے شعور کی ابتداء عام طور پر سات سال کی عمر میں ہوتی ہے، اور دس سال کی عمر میں اس کی تکمیل ہوتی ہے، اس لیے حدیث پاک میں سات سال کی عمر میں بچوں کو نماز کا حکم دینے اور دس سال کی عمر میں نماز چھوڑنے پر تادیب کا امر فرمایا گیا ہے، اور پندرہ سال میں عقل وجسم میں پختگی آتی ہے، اس لیے اس وقت احکامِ شرع کا مکلف قرار دیا جاتا ہے، جبکہ اس سے پہلے بلوغ کو نہ پہنچا ہو۔

فی العلائیة: ویحرم ادخال صبیان ومجانین حیث غلب تنجیسہم والا فیکرہ․

وفی الشامیة تحتہ: (قولہ ویحرم الخ) ․․․ والمراد بالحرمة کراہة التحریم․․․ والا فیکرہ ای تنزیہا․ تأمل․ (رد المحتار، کوئٹہ،ج:۱،ص:۴۸۶)

وفی التحریر المختار: (قول الشارح والا فیکرہ) ای حیث لم یبالوا بمراعاة حق المسجد من مسح نخامة او تفل فی المسجد والا فاذا کانوا ممیزین ویعظمون المساجد بتعلم من ولیہم فلا کراہة فی دخولہم اھ سندی․ (التحریر المختار، کوئٹہ،ج:۱،ص:۸۶)

مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق جن بچوں کو مسجد میں لاسکتے ہیں یعنی لانا جائز ہے، ان کو جماعت میں کہاں کھڑا کرنا چاہیے؟ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

نابالغ بچوں کے بارے میں اصل حکم یہ ہے، کہ اگر صرف ایک ہی نابالغ بچہ ہو، تو اس کو بالغوں، مردوں کے ساتھ ان کی صف ہی میں کھڑا کیا جائے، اور اس میں کوئی کراہت نہیں ہے۔ صحیح بخاری وغیرہ میں ہے:

عن انس بن مالک ان جدتہ ملیکة دعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لطعام صنعتہ لہ، فاکل منہ، ثم قال: قوموا فلا صلی لکم، قال انس: فقمت الٰی حصیر لنا قد اسود من طول مالبس، فنضحتہ بماء فقام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وصففت انا والیتیم وراء ہ والعجوز من ورائنا، فصلّٰی لنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رکعتین ثم انصرف․ (صحیح بخاری،ج:۱،ص:۵۵)

”حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ ان کی نانی (یاراویٴ حدیث اسحق بن عبداللہ بن ابی طلحہ کی دادی) ملیکہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس کھانے پر بلایا، جو انھوں نے آپ کے لیے تیار کیا تھا۔ آپ نے اس میں سے تناول فرمایا۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا: چلو اٹھو!میں تمھیں نماز پڑھا دوں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، کہ میں ہماری اس چٹائی کی طرف اٹھا، جو کثرتِ استعمال کی وجہ سے سیاہ ہوچکی تھی، میں نے (اس کو نرم کرنے کے لیے) اس پر پانی چھڑکا (یا اس کے میل کو دور کرنے کے لیے اس پر پانی بہایا) پس رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کھڑے ہوئے، میں نے اور یتیم (ضمیرہ بن ابی ضمیرہ) نے آپ کے پیچھے صف بنائی اور بڑی بی نے ہمارے پیچھے صف بنائی، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہم کو دو رکعت پڑھائی، پھر آپ نے سلام پھیرا (یا اپنے دولت کدہ پر تشریف لے گئے)۔

علامہ عینی رحمة اللہ علیہ حدیثِ مذکور سے متعلق استنباطِ احکام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وفیہ قیام الطفل مع الرجال فی صف واحد․ (عمدة القاری،ج:۴،ص:۱۱۲، داراحیاء التراث العربی، بیروت)

”اس حدیث میں بچے کا مردوں کے ساتھ ایک صف میں کھڑے ہونے کا ثبوت ہے“۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بھی الفاظ کے قدرے فرق کے ساتھ یہی بات فوائدِ حدیث بیان کرتے ہوئے تحریر فرمائی ہے۔ (فتح الباری،ج:۱،ص:۵۸۵، مکتبہ ابن تیمیہ)

علامہ ابن نجیم رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

ولم ار صریحا حکم ما اذا صلی ومعہ رجل وصبی وان کان داخلا تحت قولہ: (ای قول صاحب الکنز الامام حافظ الدین النسفی) والاثنان خلفہ، وظاہر حدیث انس انہ یسوی بین الرجل والصبی ویکونان خلفہ، فانہ قال: فصففت انا والیتیم وراء ہ والعجوز من ورائنا، ویقتضی ایضاً ان الصبی الواحد لایکون منفردا عن صف الرجال؛ بل یدخل فی صفہم․ (البحرالرائق،ج:۱،ص:۳۵۳)

”جب کوئی آدمی نماز پڑھے اور اسکے ساتھ (جماعت میں) ایک مرد اور ایک بچہ ہو، تو (بچہ کہاں کھڑا ہو) اسکا حکم صراحتاً میں نے کہیں نہیں دیکھا، اگرچہ یہ صورت ماتن کے قول: والاثنان خلفہ یعنی ”دو آدمی ہوں، تو امام کے پیچھے کھڑے رہیں“ میں داخل ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کا ظاہر یہ ہے کہ بچے اور مرد میں یکسانیت اور برابری ہے اور وہ دونوں امام کے پیچھے کھڑے ہوں گے، اس لیے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا، کہ میں نے اور یتیم نے آپ کے پیچھے صف بنائی، اور بڑی بی نے ہمارے پیچھے صف بنائی، نیز یہ روایت تقاضا کرتی ہے کہ ایک بچہ مردوں کی صف سے الگ کھڑا نہیں ہوگا؛ بلکہ مردوں کی صف میں داخل ہوجائیگا“۔

اور اگر نابالغ لڑکے ایک سے زیادہ ہوں، تو ان کی الگ صف مردوں کی صف کے پیچھے ہونا چاہیے۔اور یہ حکم بطور سنت یا استحباب ہے، بطور وجوب نہیں۔ ”سنن ابی داؤد“ میں ہے:

قال ابومالک الاشعری: الا احدّثکم بصلوة النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: فاقام الصلاة، فصف الرجال وصفّ الغلمان خلفہم، ثم صلّی بہم، فذکر صلاتہ، ثم قال: ہکذا صلوة قال عبدالاعلٰی: لا احسبہ الا قال: امتی․ (سنن ابی داؤد،ج:۱،ص:۹۸،۹۹)

”حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ نے (ایک مرتبہ لوگوں سے) فرمایا کہ کیا میں تم سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز (کا طریقہ) بیان نہ کروں؟ (سنو! میں تمہارے سامنے آپ کی نماز کا طریقہ بیان کرتاہوں) پھر بیان کیاکہ آپ نے نماز قائم فرمائی، تو پہلے آپ نے مردوں کی صفیں بنائیں، ان کے پیچھے بچوں کی صفیں بنائیں، پھر آپ نے ان کو نماز پڑھائی۔ ابومالک رضی اللہ عنہ نے آپ کی نماز کا طریقہ ذکر کیا، پھر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ میری امت کی نماز کا یہی طریقہ ہے۔“

”الدرالمختار“ میں ہے:

ویصف الرجال ثم الصبیان، ظاہرہ تعدّدہم، فلو واحدا دخل الصف․ (الدرالمختار، مع رد المحتار،ج:۱،ص:۴۲۲، کوئٹہ)

”مردوں کی صف بنائی جائے، پھر بچوں کی صف بنائی جائے۔ ”صبیان“ (بچوں) کا ظاہر بتلارہا ہے کہ وہ متعدد ہوں (یعنی مردوں کے پیچھے بچوں کی مستقل صف بنانے کا حکم اس وقت ہے، جب بچے متعدد ہوں) لیکن اگر بچہ ایک ہی ہو، تو وہ مردوں کی صف میں کھڑا ہوگا۔“

’غنیة المستملی‘ اور ’انوار المحمود علی سنن ابی داود‘ میں ہے:

ثم الترتیب بین الرجال والصبیان سنة، لا فرض، ہو الصحیح․ (غنیة المستملی ص:۴۸۵، انوار المحمود،ج:۱،ص:۲۴۵)

”پھر مردوں اور بچوں (کی صفوں) میں ترتیب سنت ہے، فرض نہیں ہے، یہی مفتی بہ قول ہے۔“

جماعت میں ایک سے زائد بچے ہونے کی صورت میں بچوں کی صف کو مردوں کی صف کے پیچھے بنانے کا یہ حکم اس وقت ہے، جبکہ مسجد میںآ نے والے بچے باشعور ہونے کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ اور سلیقہ مند ہوں، مسجد میں شرارتیں نہ کریں، شور نہ مچائیں، اوراحترامِ مسجد کو ملحوظ رکھتے ہوئے خاموشی سے نماز ادا کریں؛ لیکن اگر صورتِ حال اس کے برعکس ہو، اور ان کی علیحدہ صف بنانے میں نماز کے اندر شرارتیں کرنے اور اپنی نماز کو باطل کرنے یا ان کے کسی طرزِ عمل اور شرارت سے مردوں کی نماز باطل ہوجانے کا قوی اندیشہ ہو، تو پھر ان کی الگ صف نہ بنائی جائے؛ بلکہ ان کو منتشر اور متفرق طور پر مردوں کی صفوں میں کھڑا کرنا چاہیے، نیز بچوں کو مردوں سے علیحدہ کھڑا کرنے میں اجتماعِ عظیم اور مجمع کثیر کی بناء پر بچوں کے گم ہوجانے یا اغوا ہونے یا اور کسی فتنہ و فساد کا اندیشہ ہو، تو بچوں کو اپنے ساتھ مردوں کی صف میں متفرق طور پر کھڑا کیا جاسکتا ہے۔

آج کل عامةً دو یا زائد لڑکے جماعت میں یکجا جمع ہونے سے دھکم پیل شروع کردیتے ہیں، خوب اُدھم چوکڑی مچاتے ہیں،اور اس طرح شرارتیں کرکے اپنی نماز خراب و باطل کرتے ہیں؛ بلکہ بسا اوقات بالغین کی نماز میں خلل پیدا کرتے ہیں، اس لیے جن مساجد میں یہ صورتِ حال ہو، وہاں مناسب یہ ہے، کہ بچوں کی علیحدہ صف بنانے کی بجائے ان کو ان کے سرپرستان وغیرہ مردوں کی صف میں اپنے برابر کھڑا کرلیا کریں، تاکہ وہ نماز میں کوئی شرارت کرکے اپنی یا دوسروں کی نماز برباد نہ کریں۔ ایسی صورت میں مردوں کی صفوں میں ان کے کھڑے ہونے سے مردوں کی نماز میں کوئی کراہت نہ آئے گی، خواہ پہلی ہی صف میں کیوں نہ ہو؟ البتہ بہتر ہوگا کہ امام کے بالکل پیچھے یا قریب میں کھڑا نہ کیا جائے، کیونکہ حدث وغیرہ کی صورت میں استخلاف کی ضرورت پیش آسکتی ہے جس میں بالغ ہی کی ضرورت پڑے گی، نیز سہو کی صورت میں اگر امام کو تنبیہ کرنے کی ضرورت پیش آجائے، تو بچے کے مقابلے میں بالغ یہ کام احسن طریقے سے انجام دے سکے۔ اور یہ اس وقت آسانی سے ہوسکتا ہے، جبکہ امام کے قریب میں بالغ لوگ کھڑے ہوں۔ علامہ رافعی رحمة اللہ علیہ رحمتی کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

ربما یتعین فی زماننا ادخال الصبیان فی صفوف الرجال، لان المعہود منہم اذا اجتمع صبیّانِ فاکثر، تبطل صلاة بعضہم ببعض، وربما تعدی ضررہم الٰی افساد صلاة الرجال․ انتہی․ (التحریر المختار،ج:۱،ص:۷۳، کوئٹہ)

”بسا اوقات ہمارے زمانے میں بچوں کو مردوں کی صفوں میں داخل کرنا (کھڑا کرنا) متعین ہوتا ہے، اس لیے کہ بچوں سے معہود ومعتاد یہ ہے کہ جب دو بچے یا اس سے زیادہ اکٹھے ہوں، تو ایک کی (شرارت کی) وجہ سے دوسرے کی نماز (بھی) باطل ہوجاتی ہے۔ اور بسا اوقات ان کا ضرر مردوں کی نماز فاسد کرنے تک متعدی ہوتا ہے۔“

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ سے مروی ہے:

قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لیلینی منکم اولوا الاحلام والنّہٰی ثم الذین یلونہم (ثلاثا) (صحیح مسلم، کتاب الصلوٰة، باب تسویة الصفوف الخ،ج:۱،ص:۱۸۱)

”رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ چاہیے کہ تم میں سے بالغ اور عاقل لوگ میرے قریب کھڑے ہوں، پھر جو ان کے قریب ہوں (یعنی عقل یا بلوغ کے اعتبار سے ان سے کم درجہ ہوں جیسے مراہقین)“

علامہ ابی شارحِ مسلم فرماتے ہیں:

وخص اولوا الاحلام بالتقدیم، لانہ قد یحتاج الٰی استخلافہم، ولانہم یتفطنون لتنبیہ الامام فی السہو علٰی مالا یتفطن الیہ غیرہم․ (شرح الابی والسنوسی علٰی صحیح مسلم ج:۲، ص:۳۲۵)

”امام کے قریب کھڑا کرنے میں بالغوں کو خاص کیاگیا ، اس لیے کہ کبھی ان کو نائب بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے، اور اس لیے بھی کہ سہو کی صورت میں امام کو آگاہ کرنے کو جیسا وہ سمجھتے ہیں، دوسرے نہیں سمجھتے ہیں۔“

اب ذیل میں ہمارے اکابر کے اس سلسلہ کے چند فتاویٰ پیش کیے جارہے ہیں:

فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی رحمة اللہ علیہ کے فتاویٰ المعروف بہ ”احسن الفتاویٰ“ میں ہے:

سوال: کیا فرماتے ہیں علماءِ دین ومفتیان شرعِ متین اس مسئلہ میں، کہ نابالغ لڑکے بالغین کے ساتھ نماز میں ایک صف میں کھڑے ہوسکتے ہیں یا نہیں؟ اور کیا وہ نابالغ لڑکے جو سمجھدار ہوں، یعنی اوقاتِ نماز، تعدادِ رکعات، کیفیاتِ اداءِ نماز وغیرہ جانتے ہوں، تو ان کا حکم الگ ہے یا یہ کہ سب کے لیے ایک حکم ہے؟ نیز یہ کہ صفِ اول، ثانی اور ثالث میں بھی کوئی فرق ہے یا سب صفوں کا ایک ہی حکم ہے؟ بینوا و توٴجروا ․

الجواب باسم ملہم الصواب:

اگر صرف ایک ہی نابالغ لڑکا ہو، تو اس کو بالغوں کے ساتھ ہی کھڑا کیاجائے۔ اگر نابالغ لڑکے زیادہ ہوں، تو ان کو پیچھے کھڑا کرنا مستحب ہے، واجب نہیں، مگر اس زمانہ میں لڑکوں کو مردوں کی صفوف ہی میں کھڑا کرنا چاہیے، کیونکہ دو یا زیادہ لڑکے ایک جگہ جمع ہونے سے اپنی نماز خراب کرتے ہیں؟ بلکہ بالغین کی نماز میں بھی خلل پیدا کرتے ہیں۔ قال العلامة الرافعی رحمہ اللّٰہ تعالٰی ”قولہ ذکرہ فی البحر بحثا“ قال الرحمتی: ربما یتعین فی زماننا ادخال الصبیان فی صفوف الرجال، لان المعہود منہم اذا اجتمع صبیّان فاکثر تبطل صلاة بعضہم ببعض، وربما تعدی ضررہم الٰی افساد صلوة الرجال․ انتہی (التحریر المختار،ج:۱،ص:۷۳)

چونکہ یہ قول مطلق ہے، لہٰذا صفِ اوّل، ثانی اور ثالث میں کوئی فرق نہیں۔ یہ حکم ان بچوں سے متعلق ہے، جو نماز اور وضو وغیرہ کی تمیز رکھتے ہوں، زیادہ چھوٹے بچوں کو مردوں کی صف میں کھڑا کرنا مکروہ ہے؛ بلکہ مسجد میں لانا ہی جائز نہیں۔ فقط۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (احسن الفتاویٰ،ج:۳،ص:۲۸۰)

حکیم العصر حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:

”جو بچے بالکل کم عمر ہوں، ان کو تو مسجد میں لانا ہی جائز نہیں۔ نابالغ بچوں کے بارے میں اصل حکم تو یہی ہے، کہ ان کی الگ صف بالغ مردوں کی صف سے پیچھے ہو، لیکن آج کل بچے جمع ہوکر زیادہ ادھم مچاتے ہیں، اس لیے مناسب یہی ہے کہ بچوں کو ان کے اعزہ اپنے برابر کھڑا کرلیا کریں۔“ (آپ کے مسائل اور ان کا حل،ج:۲، ص:۲۲۲)

ایک اور استفتاء کے جواب میں حضرت موصوف رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:

”اگر بچہ ایک ہو، تو اس کو بالغ مردوں کی صف میں ہی کھڑا کیا جائے۔اوراگر بچے زیادہ ہوں، تو ان کی الگ صف بالغ مردوں سے پیچھے ہونی چاہیے۔اور یہ حکم بطور وجوب نہیں، بطور استحباب ہے، تاہم اگر بچے اکٹھے ہوکر نماز میں گڑبڑ کرتے ہوں، یا بڑا مجمع ہونے کی وجہ سے ان کے گم ہوجانے کا اندیشہ ہو، تو ان کو بڑوں کی صف میں کھڑا کرنا چاہیے، تاکہ ان کی وجہ سے بڑوں کی نماز میں خلل نہ آئے۔ اور یہ حکم ان بچوں کا ہے، جو نماز اور وضو کی تمیز رکھتے ہوں، ورنہ زیادہ چھوٹی عمر کے بچوں کو مسجد میں لانا جائز نہیں۔“ (آپ کے مسائل اور ان کا حل،ج:۲،ص:۲۲۲)

اب ایشیاء کی عظیم دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء سے صادر ہونے والا فتویٰ مع استفتاء ملاحظہ فرمائیے، جس میں مذکورہ دونوں اکابر کے فتاویٰ کی تصویب موجود ہے:

استفتاء:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بخدمت اقدس قبلہ مفتی صاحب دامت برکاتہم       دارالعلوم دیوبند

کیا فرماتے ہیں علماءِ عظام ومفتیان کرام مسائل ذیل میں:

(۱) ہماری مسجد لندن شہر کی ایک بڑی مسجد ہے، جس میں جمعہ کا مجمع تقریباً ۱۳۰۰ سے ۱۵۰۰ مصلیوں پر مشتمل ہوتاہے۔ حنفی مسلک کی مسجد ہے، لیکن شہر کی مسجد ہونے کی وجہ سے مختلف ممالک کے حضرات مسجد میں آتے ہیں نماز کا فریضہ انجام دینے کے لیے۔ ممالکِ عربیہ، پاکستان، ہندوستان، افریقہ وغیرہ کے حضرات، جو مختلف مسلک کے ہیں، چاروں مذاہب کے علاوہ غیرمقلد حضرات بھی ہوتے ہیں۔ عرصہٴ دراز سے یہ مسئلہ یہاں محل نزاع ہے (جھگڑے و فساد کا سبب بنا ہوا ہے) نابالغ بچوں کو جو نماز، وضو وغیرہ کا علم رکھتے ہیں، ان کو بالغوں کی صف میں کھڑا کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ کئی سالوں سے مسجد کا امام احسن الفتاویٰ جلد۳، آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد ۲ ، شیخ لدھیانوی رحمہ اللہ کاحوالہ دے کر اس بات پر اصرار کرتا ہے، کہ بچوں کو اپنے والد کے ساتھ کھڑے ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں، تاکہ فتنہ وفساد کا اندیشہ نہ ہو، اور بچوں کی شرارت بھی نہ ہو، چونکہ جب بھی بچوں کو اپنے والد سے علیحدہ کرنے کی بات کی جاتی ہے، تو فتنہ و فساد ہوتا ہے، کئی دفعہ تو گالی گلوچ اور مارپیٹ کی بھی نوبت آجاتی ہے۔ امام صاحب کا کہنا ہے کہ ایک مستحب پر عمل کروانے کے لیے اتنا فساد کسی بھی صورت میں صحیح نہیں ہے؛ بلکہ حضرت مفتی عبدالرشید (رشید احمد) صاحب رحمہ اللہ اور مولانا یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ کے فتاویٰ پر عمل کرلیا جائے، جن کی فوٹوکاپیاں ارسال کررہا ہوں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمارے امام صاحب کا یہ عمل شریعت کے مطابق ہے یا نہیں؟

(۲) مسجد کے ایک ٹرسٹی جن کو اس مسئلہ پر اعتراض ہے، اور وہ ان علمائے کرام کے فتاویٰ کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے (کیونکہ یہ دارالعلوم دیوبند کے فتاویٰ نہیں ہیں) حالانکہ ہمارے امام صاحب کا کہنا ہے کہ یہ اکابرین علماءِ دیوبند میں سے ہیں، کیا اس ٹرسٹی صاحب کا یہ رویہ جو عالم نہیں ہیں، صحیح ہے یا نہیں؟

                          فقط حد ادب، محتاج دعا

موسیٰ جی حریف، خادم مسجد، صدر مسجد عمر، لندن (انگلینڈ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب وباللّٰہ العصمة والتوفیق․

حامدا ومصلیا ومسلما ․

(۱) امام صاحب کا قول وعمل مطابق شریعت اور درست ہے۔

(۲) یہ تو صحیح ہے، کہ احسن الفتاویٰ اورآپ کے مسائل سے نقل کردہ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء سے صادر ہوئے فتاویٰ نہیں، مگر حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب اور حضرت مولانا مفتی محمد یوسف صاحب شہید لدھیانوی رحمہما اللّٰہ تعالیٰ رحمة واسعة دونوں ہی بزرگ قریبی اکابر علماءِ دیوبند اور معتمد علیہ اہلِ فتویٰ میں سے ہیں۔ مسئلہ مذکورہ فی السوٴال سے متعلق جو کچھ صراحت ان حضرات رحمہما اللہ نے اپنی اپنی کتابوں میں کی ہے، وہ ہمارے نزدیک درست ہے۔ فقط ۔ واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم

العبد احقر محمود بلند شہری غفرلہ

دارالعلوم دیوبند‏، ۱۶/۲/۱۴۲۷ھ

یوم الجمعہ

الجواب صحیح:       حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ

کفیل الرحمن

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ فرماتے ہیں:

اب مفتی بہ قول یہ ہے کہ بچوں کو پیچھے کھڑے نہ کریں، ورنہ وہ بہت شرارت کرتے ہیں، لہٰذا ان کو صفوں میں دائیں بائیں کھڑا کیا جائے، تاکہ وہ شرارت کرکے نماز خراب نہ کریں۔ علامہ رافعی نے یہ فتویٰ دیا ہے۔ (انعام الباری دروس بخاری شریف،ج:۳،ص:۵۴۹)

دارالعلوم کراچی کے نائب مفتی حضرت مولانا مفتی عبدالرؤف صاحب سکھروی دامت برکاتہم کا اس سلسلہ کا مفصل فتویٰ فقہی رسائل،ج:۱،ص:۲۱۵ تا ۲۲۴ میں دیکھا جاسکتا ہے۔

واللّٰہ تعالٰی اعلم وعلمہ اتم واحکم․

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ9، جلد: 91 ‏، شعبان-رمضان 1428 ہجری مطابق ستمبر2007ء

Related Posts