از: مولانا محمد ولی رحمانی صاحب، سجادہ نشین خانقاہ رحمانی ، مونگیر (بہار)
مرکزی حکومت نے یہ مان لیا ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے لئے پہلی مسلح جدوجہد ۱۸۵۷/ میں ہوئی تھی، اس لئے پہلی جنگ آزادی کی ڈیڑھ سو سالہ تقریبات منانے کا فیصلہ کیا گیا اور اس مد میں قابل لحاظ رقم خاص کی گئی ہے، سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر پہلی جنگ آزادی کی ڈیڑھ سو سالہ یادگار تقریبات کا سلسلہ چل پڑا ہے ، ان تقریبات میں کی جانیوالی تقریروں سے یہی تأثر پیدا ہوتا ہے کہ ملک کی پہلی جنگ آزادی کی مسلح کوشش ۱۸۵۷/ میں میرٹھ سے شروع اور دہلی پر ختم ہوئی، جسکا پورے ملک پر اثر پڑا ، جب کو ئی بات چل پڑتی ہے اور اسے حکومت اور میڈیا کی پشت پناہی مل جاتی ہے تو حقیقت پردہ میں چلی جاتی ہے اور ”غلط“ لوگوں کے ذہنوں میں حقیقت بن جاتا ہےایک واقعہ سنیے!
۱۰/ مئی ۲۰۰۷/ کو پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کی یادگار تقریب منائی جا رہی تھی، اس تاریخی موقعہ پر صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے ۔پی۔جے ۔ عبدالکلام ، وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ، مسز سونیا گاندھی-چیر مین یو پی اے، حزب مخالف کے سربراہ لال کرشن اڈوانی ، مرکزی وزرا ء، لوک سبھا کے اسپیکر سومناتھ چٹرجی ، ڈپٹی اسپیکر چرنجیت سنگھ اٹوال ، ڈپٹی چیرمین راجیہ سبھا کے رحمان خان اور تقریباً تمام ارکان پارلیمنٹ سنٹرل ہال میں موجود تھے ، مسٹر بھیرو ں سنگھ شیخاوت نائب صدر جمہوریہ اور راجیہ سبھا کے چیر مین کی تقریر ہو رہی تھی ، اور اس سے یہی تأثر ابھر رہا تھا کہ ۱۸۵۷/ میں پہلی جنگ آزادی ہوئی ۔انکی تقریر کے دوران ڈپٹی اسپیکر مسٹر چرنجیت سنگھ اٹوال نے مداخلت کی ، اور کہا کہ ”۱۸۵۷/ سے پہلے ۱۸۴۵/ میں انگریزوں اور سکھوں کے درمیان جنگ ہوئی تھی، ان تقریبات میں اس تاریخی واقعہ کا ذکر ضروری ہے، “ اکالی دل کے مسٹر رتن سنگھ اور مسٹر ویریندر سنگھ نے انکی بھرپور تائید کی ، اس مداخلت پر صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم سمیت پورا ہاوٴس سناٹے میں آگیا، یہ وہ مرحلہ تھا جہاں نائب صدر جمہوریہ بھیروں سنگھ شیخاوت نہ تردید کر سکتے تھے نہ تائید ۔
مسٹر چرنجیت سنگھ اٹوال ڈپٹی اسپیکر لوک سبھا نے سچائی کی ایک روشنی جلا دی کہ آزادی کی مسلح جدوجہد ۱۸۵۷/ سے پہلے شروع ہو چکی تھی، وہ سکھ ہیں انہیں کم از کم اپنی تاریخ یاد ہے ، انہوں نے اپنے علم کے مطابق بات کہدی، افسو س ہے کہ اس پڑھے لکھے بھرے پورے ہاوٴس میں ایک تاریخ داں ایسا نہ تھا جو اس غلط تاریخ سازی کا سمت قبلہ درست کرتا، اور چند جملے کہہ جاتا ۔ ہو سکتا ہے بعض دوسرے تاریخ داں بھی یہی مانتے ہوں کہ میرٹھ سے لے کر دہلی تک کی ۱۸۵۷/ میں کی گئی جدوجہد آزادی پہلی مسلح جنگ آزادی تھی ، میرے علم میں سب سے پہلے یہ بات مسٹر ساورکر نے کہی تھی اور اس جنگ میں مسلمانوں کے رول کی تعریف کی تھی۔
سچائی یہ ہے کہ ۱۸۵۷/ کی جنگ آزادی کو پہلی مسلح جنگ آزادی قرار دینا صحیح نہیں ہے، ”یہ تاریخ کی سیاسی تصنیف“ تو کہی جاسکتی ہے ، تاریخی حقیقت سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہے، انگریزوں سے باقاعدہ منظم جنگ علی وردی خاں نے بنگال میں ۱۷۵۴/ میں کی تھی ، بعد میں اور بھی قابل ذکر تاریخ ساز جنگیں انگریزوں سے لڑی گئیں، ۱۸۵۷/ کی جنگ آزادی بھی میرٹھ سے نہیں کلکتہ سے شروع ہوئی تھی پھر میرٹھ پہونچی ، یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج سے سب سے بڑی آخری منظم جنگ آزادی تھی۔
معتبر تاریخی کتابوں میں جدوجہد آزادی اور انگریزوں کو بھگانے کی مسلح جدوجہد کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے۔ جسے صرف اسلئے نظر انداز نہیں کیاجاسکتا کہ اس جدوجہد کی قیادت مسلمان یا سکھ کررہے تھے۔ انگریزوں کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں بار بار مسلح جدوجہد کی گئی ۔ ان مسلح کوششوں کا اثر تدریجاً پورے ملک پر پڑا ، اور انگریزوں کو بحیثیت حاکم ملک سے نکالنے کا مزاج بنتا گیا۔ یہ کوششیں اسلئے کامیاب نہیں ہو سکیں۔ کہ پورے ملک میں جذبہ آزادی بیدار نہیں ہوا تھا۔ انگریز پلاننگ کے ساتھ اپنا دائرہ حکومت بڑھارہے تھے ، اور آزادی کے لئے جان دینے والے پورے ملک میں منظم اور متحد نہیں تھے اور نوابوں اور راجاوٴں کا دربار انگریزوں کی سازشوں کے گھیرے میں آچکا تھا۔
کسی بھی جدوجہد کیلئے پہلے افراد کی ذہن سازی ضروری ہے۔ اور یہ کام حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (ولادت ۱۷۰۳/ وفات ۱۷۶۲/) نے ۱۷۳۱/ میں باقاعدہ شروع کیا۔ حضرت شاہ صاحب کی تحریریں محفوظ ہیں۔ آزادی ہند کیلئے انہوں نے احمد شاہ ابدالی کو خط بھی لکھا۔ وہ مدرسہ رحیمیہ مہندیان میں اور اپنے سلسلہ درس قرآن میں آزادی کیلئے افراد سازی کا کام کرتے رہے۔ حضرت شاہ صاحب سے تعلق رکھنے والے شاگرد اور مرید برما سے لیکر عرب ممالک اور افریقہ تک پھیلے ہوئے تھے۔ اندرون ملک علماء کرام میں ”آزادی کا حوصلہ“ بلند ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ انگریزوں نے عام ہندوستانیوں کے علاوہ کم از کم انیس (۱۹) ہزار علماء کو شہید کیا (بعض مورخین نے شہید علماء کی تعداد (۵۲) باون ہزار لکھی ہے)۔ حضرت شاہ صاحب کے بعد ان کی درسگاہ کو حضرت شاہ عبد العزیز صاحب دہلوی نے آباد رکھا۔ وہ درس و تدریس کے ساتھ وطن دوستی اور انگریز دشمنی کا مزاج بھی بناتے رہے، انگریزی حکومت کے خلاف انکا مشہور فتویٰ جہاد تاریخ اور فقہ کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ اس فتویٰ کی مسجدوں کے ذریعہ بڑے پیمانے پر اشاعت ہوئی اور انگریزی حکومت کی غلط کاری اور ملک پر اسکے نقصان دہ اثرات عوام پر واضح ہوئے۔ ۱۷۳۱/ سے لیکر ۱۸۵۷/ تک ایک سو چھبیس (۱۲۶) سال کا وقفہ ہے اس مدت اور اس میں کی گئی فکری اور عملی جدوجہد آزادی تاریخ کا حصہ نہ بنتی تو سچی بات یہ ہے کہ ۱۸۵۷/ کا انقلابی اقدام نہیں ہوتا۔
علماء کرام نے ہر جگہ حضرت شاہ ولی اللہ کے اس پیغام کا نوٹس لیا ۔ اور ۱۷۳۵/ میں علماء صادق پور نے جدوجہد شروع کی، ان علماء کے اثرات صرف بہار پر نہیں بلکہ پورے ملک پر تھے، جن سے کام لیا گیا، تاریخ کی کتابوں میں اسے ”وہابی موومنٹ “ سے یاد کیا جاتا ہے، علماء صادق پور نے عوام و خواص میں آزادی کی روح پھونکنے میں بڑی مدد دی ، علماء صادق پور (پٹنہ) کی یہ جدوجہد سو سال تک جاری رہی ، جب ۱۸۳۵/ میں حضرت مولانا عبد الرحیم صادق پوری کو گرفتار کر کے کالا پانی (جزائر انڈمان ) بھیجا گیا ،انکے مکانات اور قبرستان پر انگریزوں نے قبضہ کیا اور انہیں مٹا کر میونسپلٹی اور دوسرے دفاتر بنا دئیے ، تو یہ مرکز جدوجہد کمزور پڑ گیا ۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے زیر اثر علماء نے پورے ملک میں آزادی کی جدوجہد شروع کر دی، یہ تاریخ ہند کا گراں قدر حصہ ہے۔
انگریزوں نے اتر ہندوستان میں کلکتہ کو اپنا مرکز بنایا۔ تاکہ سمندری راستہ سے انہیں مدد ملتی رہے اور دہلی سے دور رہ کر تدریجاً دہلی اور پورے ملک پر قبضہ کیا جائے۔کلکتہ کا ڈائمنڈ ہاربر اور فورٹ ولیم انگریزوں کا مرکز تھا۔ سراج الدولہ کے نانا علی وردی خاں نے خطرہ کو محسوس کرلیا تھا، اور ۱۷۵۴/ میں فورٹ ولیم پر حملہ کرکے انگریزوں کو بھگا دیا، انگریز ڈائمنڈ ہاربر میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ۔ اسے پہلی منظم اور مسلح جنگ آزادی قرار دیا جاسکتا ہے۔ علی وردی خاں اسکے بعد زیادہ دنوں زندہ نہیں رہے ورنہ آج ہندوستان کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔
علی وردی خاں کے نواسہ نواب سراج الدولہ حاکم ہوئے آزادی وطن اور انگریزوں کو ملک سے باہر کرنے کے سلسلہ میں انکا رویہ نانا جیسا تھا۔ سراج الدولہ نے حوصلہ اور ہمت کے ساتھ انگریزوں کو شکست دینا چاہا۔ مگر انکا دربار سازشوں کا اڈہ بن گیا تھا۔ اور سلطنت کی ذمہ دار شخصیتیں اپنی قیمت لگوا چکی تھیں ۔ اسلئے انہیں شکست ہوئی۔ اور ۱۷۵۷/ میں برٹش فوج نے ان کے دارالسلطنت مرشدآباد میں انہیں شہید کر دیا۔
تاریخ کے صفحات میں بکسر کی جنگ (۱۷۶۴ء) کی تفصیل موجود ہے جس میں مغل فرماں روا شاہ عالم ، نواب اودھ شجاع الدولہ اور میر قاسم کی فوج مشترکہ طور پر شریک تھے۔ یہ جنگ بھی ہندوستانیوں کی شکست پر ختم ہوئی۔ میر قاسم نے مونگیر (بہار) کو اپنا دارالسلطنت بنایا تھا۔ میر قاسم کا قلعہ آج بھی موجود ہے، انگریزوں نے مونگیر میں ان سے ۱۷۶۳/ میں ٹکر لی، ڈکرا نالہ پُل توڑا گیا اسکی شکستہ دیواریں اور بکھری اینٹیں آج بھی اس تاریخ کو یاد دلاتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ دس بارہ برسوں سے ان کے نام پر آباد محلہ قاسم بازار کوکرن بازار اور مغلوں کی فوج کی چھاوٴنی مغل بازار کو منگل بازار کہنا شروع کیا گیا ہے !
حافظ رحمت خاں شہید نواب تھے عالم اور حافظ تھے، انہوں نے علماء اور علاقائی حکمرانوں کو یکجا کرکے انگریزوں سے جنگ کرنا چاہی۔ حافظ صاحب کا سلسہ علم حضرت شاہ ولی اللہ سے جُڑا ہوا ہے، حافظ رحمت خاں شہید کی سربراہی میں انگریزوں سے جوجنگ ہونی تھی اسکا رُخ انگریزوں نے نواب اودھ کی طرف پھیر دیا، اور نواب اودھ کی فوج کے ساتھ انگریزی فوج نے حافظ صاحب سے جنگ کی،یہ فیصلہ کن جنگ ۱۷۷۴/ میں ہوئی جس میں حافظ صاحب اور ان کے رفقاء (جن میں ممتاز علماء شریک تھے) کی بڑی تعداد شہید ہوگئی، اسی سلسلہ کی ایک کڑی قاضی واجد رحمة اللہ علیہ کا بے نفس اور مجاہدانہ کردار بھی ہے، جسکی یا د دلوں میں تازہ اور تاریخ کی نئی کتابوں میں محفوظ رہنی چاہئے۔
۱۸۵۷/ سے بہت پہلے دکن کے فرماں روا حید ر علی (۱۷۸۲/) اور ان کے صاحبزادہ۔ ٹیپو سلطان کے ذکر کے بغیر آزادی ہند کی کوئی تاریخ ادھوری ہوگی۔ جو مستقل انگریزوں کیلئے چیلنج بنے رہے۔ ٹیپو سلطان نے ہندوستان کے علاقائی فرمان رواوٴں کو انگریزی حکومت کے خلاف منظم کرنا چاہا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے ہندوستان کے باہر بھی رابطہ قائم کیا۔ نظام حید ر آباد اور نواب بنگالہ کو بھی خطوط لکھے اور اپنے نمائندوں کے ذریعہ آنیوالے دنوں کے خطرات اور انگریزوں کے ارادہ سے واقف کرایا، ساتھ ہی انہوں نے مشترکہ جدوجہد کی اپیل کی، مگر نوابوں کی وقتی مصلحتوں اور سرفروشی کے جذبہ کی کمی کی وجہ سے مشترکہ جدوجہد آزادی کی راہ نہیں بن سکی۔
ٹیپو سلطان نے ہمت نہیں ہاری اور وہ برٹش فوج سے پنجہ آزمائی کیلئے تیاری کرتے رہے۔ مگران کے ایک فوجی سردار کرشناراوٴ کی خودفروشی نے ٹیپوسلطان کو نقصان پہونچایا۔ اور سازشی ان کے امور سلطنت میں درآئے۔ ان کی فوج میں ہندو مسلمان شریک تھے، ٹیپو سلطان نے نامساعد حالات کو سمجھتے ہوئے ہی یہ کہا تھا کہ ”شیر کی ایک دن کی زندگی لومڑی کے سوسال سے بہتر ہے“۔انہوں نے انگریزوں سے جنگ کی اور ۱۷۹۹/ میں میدان جنگ میں شہید ہوئے، جب انگریزی جنرل کو ان کی شہادت کا یقین ہوگیا تو جنرل بارس نے فخر کے ساتھ کہا تھا ”اب ہندوستان ہمارا ہے“۔
ٹیپو سلطان کی شہادت (۱۷۹۹/) کے بعد اور ۱۸۵۷/ کی جنگ آزادی سے پہلے اور بھی چھوٹی بڑی جھڑپیں انگریزوں سے ہوئیں، مگر انگریزوں کی کامیاب حکمت عملی اسلحہ کی برتری اور نظم و ضبط نے مقابلہ کرنے والے منتشر ہندوستانی حکمرانوں پر قابو پالیا۔ پھر بھی اس اٹھاون سال (۱۷۹۹/ سے ۱۸۵۷/) میں چار کوششیں ایسی ہوئیں جنہیں بھلایا نہیں جاسکتا اور جس نے ۱۸۵۷/ کی تیاری میں مہمیز کا کام کیا۔
حضرت سید احمد شہید رحمة اللہ علیہ ملک کے نامور عالم دین اور مجاہد وقت تھے، ملک اور بیرون ملک ان کے لاکھوں مرید پھیلے ہوئے تھے، انکا سلسلہ بھی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے ملتا ہے، حضرت سید احمد شہید نے ملک کو آزاد کرانے کا بیڑا اٹھایا۔ اور اپنے شاگردوں اور مریدوں اور دوسرے ذمہ داروں سے رابطہ قائم کیا۔ انہوں نے خاموشی سے افراد سازی کے ساتھ ہتھیار جمع کرنے کا کام کیا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے مونگیر ،بہار ( جو اُس وقت بھی قانونی اور غیر قانونی اسلحہ سازی کا مرکز تھا، اور آج بھی اسکی یہ خصوصیت زندہ ہے) اور بنگالہ کا سفر کیا، اس پورے سفر میں لوگوں نے انکا والہانہ استقبال کیا اس سفر کے نتیجہ میں آزادی کی جدوجہد کو عوامی حلقوں میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ اور اسلحوں کو حاصل کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔ حضرت سید احمد شہید اور ان کے دست راست حضرت شاہ اسمٰعیل شہید نے انگریزوں سے مئی ۱۸۳۱/ میں بالاکوٹ میں جنگ کی، یہ جنگ بھی مقامی حالات کی وجہ سے ہار پر ختم ہوئی۔ اس معرکہ میں یہ دونوں حضرات اور ان کے بہت سے رفقاء شہید ہوئے۔
۱۸۴۵/ میں انگریزوں کی جنگ سکھوں سے ہوئی، یہ جنگ پورے ہندوستان کو آزاد کرانے کے ذہن کے ساتھ نہیں ہوئی تھی بلکہ سکھوں کے علاقہ کو خودمختاری دلانے کے جذبہ سے لڑی گئی تھی، انگریزوں نے سکھوں سے مصالحت کی اور نتیجہ کے طور پر پنجاب میں سکھوں کی عملداری قائم ہوگئی۔ اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کے جانشین کے طور پر مہاراجہ دلیپ سنگھ کو انگریزوں نے جانشین مان لیا۔ اس طرح ۱۸۴۵/ کی جنگ اٹوال کا مقصد پورا ہوا۔ اور سکھوں کو کامیابی ملی۔
۱۸۵۷/ کی جنگ آزادی سے قبل ایک اور اہم جنگ ہوئی۔ یہ جنگ شیر دل خاتون بیگم حضرت محل کی سربراہی میں لڑی گئی۔ اس جنگ میں ضلع شاہ آباد (بہار) کے راجہ کنور سنگھ کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ اس جنگ میں ہندوستانی ہندو و مسلمان سپاہیوں کے ساتھ نیپالی (گورکھا) سپاہی اور عملدار شریک تھے۔ یہ گورکھے انگریزوں سے مل گئے انگریزوں نے اُن سے نیپال میں محدود عملداری کا وعدہ کیا۔ اور نیپالیوں نے بیگم حضرت محل کا ساتھ چھوڑ دیا۔ جسکے نتیجہ میں ۱۸۵۶/ کی جنگ اودھ ہندوستانیوں کی شکست پر ختم ہوگئی۔ بیگم حضرت محل نے نہ صرف اپنا اسٹیٹ کھو دیا بلکہ اپنی زندگی دربدری میں گذار دی اور تاج برطانیہ کے معافی کے اعلان کے باوجودانگریزوں سے مصالحت نہیں کی۔
۱۸۵۷/ سے پہلے ۱۸۵۶/ میں ویر کنور سنگھ اور انکے بھائی امر سنگھ نے جگدیش پور (ضلع شاہ آباد۔بہار) میں انگریزوں سے زبردست جنگ کی ، اس جنگ میں گرچہ ویر کنور سنگھ کو ہار ہوئی ، انکا اسٹیٹ تباہ کر دیا گیا ، مگر اس جنگ کے اثرات اتر ہندوستان پر گہرے پڑے ۔ جنگ آزادی میں ویر کنور سنگھ اور انکے خاندان کا کردار ناقابل فراموش ہے۔
ایسے چھوٹے بڑے بہت سے چراغ آزادی ہند کی راہ میں ۱۸۵۷/ سے پہلے روشن ہوئے ان سارے حالات و واقعات کو مختصر مضمون میں سمیٹا نہیں جاسکتا ، مگر یہ واقعہ ہے کہ ۱۸۵۷/ کی جنگ آزادی پہلی جنگ آزادی نہیں تھی ، بلکہ یہ آخری منظم مسلح جدوجہد تھی، ۱۸۵۷/ کی جنگ آزادی کے متعلق یہ بات بھی جانی جاتی ہے کہ یہ میرٹھ سے شروع ہوئی تھی ۔ انگریزی فوج کے ہندوستانی سپاہیوں نے میرٹھ میں جو کاروائی کی ، اسکی ابتداء کلکتہ (دمدم اور بارک پور) سے ہوئی تھی ، برٹش آرمی کے ہندو مسلمان سپاہیوں میں یہ بات عام ہوئی کہ کارتوس میں گائے کا چمڑا اور سورکی چربی کا استعمال ہوتا ہے۔ ۲۲/ جنوری ۱۸۵۷/ کو پہلے پہل اس خبر سے ہندوستانی فوجی کلکتہ میں بھڑک اٹھے اور انہوں نے زبر دست احتجاج کیا ، کچھ ایسی ہی صورتحال لکھنوٴ میں پیش آئی، ان تمام سپاہیوں کو غیر مسلح کر کے ملازمت سے برخواست کر دیا گیا، ان میں سے کچھ سپاہی انگریز فوج کی چھاوٴنیوں میں پہونچے اور حالات سنائے جنکی وجہ سے مختلف مقامات پر برٹش آرمی کے خلاف انگریزوں کی ہندوستانی فوج برافروختہ ہوگئی ۔
۲۴/ اپریل ۱۸۵۷/ کو میرٹھ میں کلکتہ جیسا واقعہ دہرایا ، انگریز ذمہ داروں نے ۹/ مئی ۱۸۵۷/ کو میرٹھ میں ایک رجمنٹ کے ہندوستانی سپاہیوں کو دس سال کی قید بامشقت کی سزا سنا دی ، اس فیصلے کا اعلان بھی توہین آمیز طریقہ پر ہوا تھا، ہندوستانی سپاہیوں نے انگریز افسروں کو ہلاک کر کے ان قیدیوں کو آزاد کرایا ، اور میرٹھ سے دہلی کی طرف کوچ کر گئے ، یہ ۱۰/ مئی ۱۸۵۷/ کا واقعہ ہے ، میرٹھ کے ہندوستانی فوجیوں کی آمد نے دہلی کے فوجیوں میں نئے حوصلے دئیے، اور دہلی میں بہادر شاہ ظفر کی تخت نشینی کا اعلان کر دیا گیا، انگریزوں نے سکھ رجمنٹ کی مدد سے تقریباً چار ماہ تک دہلی کا محاصرہ کئے رکھا ، ۱۴/ ستمبر کو زبردست جنگ ہوئی ، ۱۴/ ۱۵/ ستمبر ۱۸۵۷/ کی تاریخ ہندوستان کی مسلح جدوجہد آزادی کا خونی باب ہے، آزادی ہند کے معروف مورخ ویلیم ڈیلر مپل نے لکھا ہے : ”جب دہلی کا محاصرہ ختم ہوا تو بہت سے مبصروں کے مطابق باقی بچنے والے باغیوں میں آدھے ”جہادی“ تھے، جنہوں نے ۱۴/ ستمبر کو برطانوی حملہ کے خلاف زبردست مزاحمت کی تھی۔ “
ٹھیک انہیں تاریخوں میں حضرت ضامن شہید ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ، حضرت مولانا منیر الدین اور انکے رفقاء نے شاملی کے میدان میں انگریزی فوج سے جنگ کی ، ۱۴/ ستمبر ۱۸۵۷/ کو حضرت ضامن شہید اور انکے بہت سے رفقاء شہید ہوگئے، اس جنگ میں ہندوستانیوں کو ہار ہوئی، دہلی کے تاریخی معرکہ اور شاملی کی جنگ کی تاریخ ایک ہی ہے، اسے اتفاق نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ ایک مشترکہ جدوجہد آزادی کی دو کڑیاں ہیں، دہلی معرکہ میں انگریز جنرل نکلسن مارا گیا ، مگر آخر کار دہلی اور شاملی دونوں جگہ ہندوستانیوں کو شکست ہوئی ، اور بہادر شاہ ظفر ۱۷/ اکتوبر کو گرفتا ر کر کے رنگوں بھیج دئیے گئے۔
یہ پوری تاریخ بتاتی ہے کہ
(۱) میرٹھ میں ۱۸۵۷/ کی جدوجہد آزادی پہلی مسلح جدوجہد نہیں تھی ، پہلی مسلح جدوجہد کلکتہ میں ۱۷۵۴/ میں ہوئی ۔
(۲) ۱۸۵۷/ کا انقلابی اقدام میرٹھ سے نہیں کلکتہ سے شروع ہوا تھا۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ9، جلد: 91 ، شعبان-رمضان 1428 ہجری مطابق ستمبر2007ء