از: سعیدالظفر رام پوری‏،شریک افتاء دارالعلوم دیوبند

۱انسانی تاریخ میں ساتویں صدی عیسوی ہمیشہ یاد رہے گی، کیونکہ اس زمانہ میں دنیا ایک عجیب و غریب انقلابی تحریک سے روشنا س ہوئی تھی، عرف عام میں اس تحریک کو اسلامی تحریک کہا جاتا ہے اس کی ابتداء جزیرہ نمائے عرب کے ایک گمنام اور غیر تاریخی گوشے یعنی حجاز سے ہوئی تھی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بیس پچیس سال کے اندر ہی یہ تحریک پورے مشرقِ وسطیٰ پر چھاگئی، جہاں اس کا ہدف پورا عالم تھا۔

اس تحریک کی ابتداء اسلام کے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتی ہے اوراس تحریک کو کامیاب بنانے میںآ پ کی سیرت مبارکہ کا بہت بڑا دخل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی، اس کا ہر ہر گوشہ کامل اور لائق اتباع ہے، اللہ تعالیٰ نے اس شخصیت کو ہمہ جہت بنایا تھا۔ تاریخی نقطئہ نظر سے آپ علیہ الصلوٰة والسلام کی حیات مبارکہ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

۱-     بعثت سے قبل کا دور۔

۲-    مکی زندگی کا دور۔

۳-    مدنی زندگی کا دور۔

یہ تینوں دور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حیات پاک کو حاوی ہیں آپ کے اخلاق و عادات امانت و دیانت، کفار کے ساتھ معاملات، منافقین کے ساتھ نرمی، دین کی نشرواشاعت میں مصائب کا سامنا، آپ کی داخلی اور خارجی زندگی، ازواج مطہرات اور خدام کے ساتھ حسن سلوک غرض سیرت کا ہر رخ ان تین دوروں سے متعلق ہے لیکن ان کے علاوہ بھی سیرت کی تکمیل کے حوالہ سے ایک اہم شعبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں ہیں، ان کے تناظر میں بھی کافی حدتک سیرت کو سمجھاجاسکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کی تکمیل تو کی ہی تھی، خود بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار دعائیں کیں جن کو سیرت کی تکمیل میں بڑا دخل ہے، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ رب کائنات نے ان دعاؤں کو پسندیدگی کی نظروں سے دیکھااور آپ کو بالکل مجسمہٴ عمل بنادیا۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر بہت سی چیزوں کو اپنی بے مثال آخری کتاب قرآن میں جگہ دی۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقبول دعاؤں کے تناظر میں بھی آپ کی پاک سیرت دیکھیں۔

عبدیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :

احادیث کی مستند کتابوں میں بے شمار دعائیں منقول ہیں، انہی میں ایسی دعائیں بھی ہیں، کہ جن میں آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو غلام اور بندہ سے تعبیر کیا۔ اللہ کے حضور ”عبدیت“ کا اظہار جابجا جھلکتا ہے، کہیں آپ اپنی عبدیت کو یوں جتاتے ہیں: الّٰہم انی عبدک وابن عبدک وابن أمتک اور کہیں اللہ کے نیک بندوں میں شمولیت کے خواہاں ہیں، واجعلنا من عبادک الصالحین․ غرض نبوت کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہونے کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عبدیت ہی کو پیش نظر رکھا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے حبیب کا یہ اظہار ”عبدیت“ اس قدر پسند آیا کہ اپنی کتاب میں اسی نام سے مختلف مقامات پرخطاب کیااور یاد فرمایا ہے چنانچہ سورئہ بقرہ میں ہے:

وان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا ․

اور بنی اسرائیل میں ہے: سبحان الذی اسری بعبدہ ․

ان کے علاوہ متعدد مقامات پر لفظ ”عبد“ سے ہی یاد فرمایا ہے۔

تواضع:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سراپا مجسمہ تواضع تھے، آپ سے بڑھ کر کوئی متواضع نہیں ہوسکتا اور ہو بھی کیوں سکتا ہے، آپ حبیب خدا تھے، رہتی دنیا تک آپ کو مثال انسانیت بنانا تھا۔ چنانچہ آپ علیہ الصلوٰة والسلام تواضع سے اپنے رب کے شکر گزاروں اور نعمت کے ثناخوانوں میں شرکت کی درخواست ان الفاظ میں کرتے دیکھے جاتے ہیں:

واجعلنا شاکرین لنعمتک مثنین بہا ․

آپ کی زبان مبارک سے ادا ہونے والی یہ دعا تو تواضع کا منتہا ہے۔

اللّٰہم اجعلنی فی عینی صغیرًا ․

یہ الفاظ اس ذات گرامی کے ہیں جس کو دونوں جہاں کی سرداری عطا کی گئی، چنانچہ جب ہم ان دعاؤں کے تناظر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ پر نظر ڈالتے ہیں، تو ہرقول وفعل میں ان دعاؤں کا رنگ نظر آتا ہے۔ قارئین کرام بھی اس رنگ کو ملاحظہ فرمائیں۔ بخاری میں مذکور ہے کہ آپ کے ایک ناقہ کا نام ”عضبا“ تھا، کوئی جانوراس سے آگے نہیں بڑھ سکتاتھا، ایک اعرابی اپنی سواری پر آیا اوراس سے آگے بڑھ گیا، حضرات صحابہ کو یہ بہت ہی شاق گزرا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ان حقا علی اللّٰہ عزوجل ان لا یرفع شیئاً من الدنیا الا وضعہ․

دنیا میں خدا کی یہی سنت ہے کہ کسی کو اٹھاتا ہے، تو اسے نیچے بھی دکھاتاہے۔

بخاری ہی کی دوسری روایت میں ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ”یا خیر البریة“ (برترین خلق) کہہ کر پکارا۔ آپ نے فرمایا ذاک ابراہیم یہ شان تو ابراہیم علیہ السلام کی ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں تواضع کی ایک یہ ادا بھی ملاحظہ ہو۔ فتح مکہ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے بوڑھے، ضعیف، فاقد البصر باپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیعت کرنے کے لئے لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے بوڑھے کو تکلیف کیوں دی، میں خود اُن کے پاس چلاجاتا۔ سیرت اور احادیث کی مستند کتابیں ایسے واقعات سے پُر ہیں، اگر اس سے آگے بڑھ کر یہ بات کہی جائے تو حق بجانب ہوگی کہ آپ کی ہر ہر ادا تواضع اور مسکنت کا لطیف سبق دیتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر ایک نظر ڈالنے سے رات دن میں ان باتوں کا کثرت سے وجود ملتا ہے۔

۱-     مجلس میں کبھی پاؤں پھیلاکر نہ بیٹھتے

۲-    ہمیشہ سلام میں پہل کرتے۔

۳-    مصافحہ کیلئے خود پہلے ہاتھ پھیلاتے۔

۴-    صحابہ کو کنیت سے پکارتے (عرب میں عزت سے بلانے کا یہی رواج تھا)

۵-    کسی کی بات کبھی قطع نہ فرماتے۔

۶-     اگر نفل نماز میں ہوتے اور کوئی شخص آبیٹھتا تو نماز کو مختصر کردیتے، اور اس کی ضرورت پوری کرنے کے بعد پھر نماز میں مشغول ہوجاتے۔

۷-    اکثر اوقات آپ متبسم رہتے۔

خوفِ خدا:

ہمارا عقیدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معصوم تھے، آپ کا اگلا پچھلا سب معاف تھا، لیکن قربان ہوجائیں سرکار دوجہاں پر کہ مرضیٴ مولا کے بغیر آپ کا کوئی قول و فعل وجود میں نہیں آتا تھا، خوف خدا ہر وقت دامن گیر رہتا، رات ہو یا دن، سفر ہوکہ حضر، عبادات ہوں کہ معاملات غرض ہر جگہ آپ کی روحانی آنکھیں اللہ تعالیٰ کو محسوس کرتی تھیں، اس پر مزید دعا کا یہ انداز نرالا ہے:

اللّٰہم اقسم لنا من خشیتک ما تحول بہ بیننا وبین معاصیک․

روزِ قیامت میدانِ محشر میں اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کے حوالہ سے خوفِ الٰہی کی یہ دعا بھی انفرادی شان رکھتی ہے: واجعلنی ممّن یخاف مقامک ․

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک میں جا بجا ان دعاؤں کا اثر نمایاں ہے، آندھی کے آثار نمایاں ہوتے تو آپ لرز اٹھتے، خوفِ خدا سے بدن کانپ جاتا، اور مسجد کی طرف دوڑتے، اللہ کے حضور روتے گڑگڑاتے کہ کہیں اللہ کا غضب نازل نہ ہوجائے، یہ تو نمونہ ہے آپ کے رجوع الی اللہ کا، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا احاطہ کرنا مشکل ہے، اسی طرح اس باب میں بھی گفتگو مشکل ہے۔

زہد:

اسلام کے ابتدائی دور میں جب اہل اسلام پر کفار کے مظالم بڑھے، اور اللہ کی طرف سے قتال کی اجازت ملی تو مال غنیمت سے خمس (پانچواں حصہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے شریعت نے مقرر کیا، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ آپ نے فقر کو پسند کیا، آپ ہمیشہ یہ دعا کرتے تھے:

یا ربّ أجوع یوماً وأشبع یوماً․

یہ تو دعا تھی، اب عملی زندگی کے بھی چند واقعات ملاحظہ ہوں:

۱-     حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ایک ایک مہینہ برابر ہمارے چولہے میں آگ روشن نہ ہوتی حضرت کا کنبہ پانی اور کھجور پر گذارا کرتا۔

۲-    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ مدینہ تشریف لاکر تین دن تک برابر گیہوں کی روٹی کبھی نہیں کھائی۔

۳-    آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا کی آخری شب میں تھے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پڑوسن سے چراغ کے لئے تیل لیا تھا۔

۴-    آپ نے انتقال فرمایا تو آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس بعوض غلہ رہن تھی۔

صبر وحلم اور عفو و درگذر:

ان دعاؤں کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ صبر و شکر کی توفیق مانگتے، اپنے اصحاب کو ہرپسندیدہ اور ناپسندیدہ موقع پر صبر وشکر کی وصیت فرماتے، چنانچہ اپنی مخصوص دعاؤں کے علاوہ صبر وشکر کی تبلیغ کی اور یہی فرماتے تھے:

علینا الشکر اذا أعطی، والصبر اذا ابتلی․

یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اہل مکہ جو ظلم و ستم اس برگزیدہ ہستی پر کئے، اس کی مثال تاریخ کے صفحات میں موجود نہیں ہے، لیکن آپنے کبھی صبروحکم کا دامن نہیں چھوڑا، دوست ہو یا دشمن، عفو و درگذر سب کے سات برابر رہا۔

۱-     حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات مبارک کی بابت کسی سے انتقام نہیں لیا۔

۲-    شفاء عیاض میں منقول ہے کہ جنگ اُحد میں کافروں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک شہید کردئیے، آپ کے سر میں بھی زخم آیا، آپ ایک غار میں بھی گرگئے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ ان پر بدعا فرمائیے، آپ نے فرمایا: میں لعنت کرنے کے لئے نہیں بھیجا گیا، خدا مجھے اپنی بارگاہ میں بلانے کے لئے بھیجا ہے۔

۳-    بخاری شریف میں روایت ہے کہ طائف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وعظ و تبلیغ کے لئے تشریف لے گئے تھے، وہاں کے باشندوں نے آپ پر کیچڑ پھینکی، فقرے کسے، اتنے پتھر مارے کہ آپ لہو لہان ہوکر بے ہوش ہوگئے پھر بھی آپ یہی فرماتے رہے: میں ان لوگوں کی ہلاکت نہیں چاہتا، کیونکہ یہ ایمان نہ لاتے توامید ہے کہ ان کی اولاد مسلمان ہوجائے۔

ظلم سے پناہ:

یہ حال تھا رحمة للعالمین کے صبر وشکر اور عفو ودرگذر کا، اسی کے تناظر میں یہ دیکھاجاسکتا ہے کہ یہ ذات بابرکت ظلم سے کس قدر دور ہوگی، مزید برآں آپ ہمیشہ ظلم سے پناہ مانگتے رہے:

أعوذ بک من أن أظلِم أو أظلَم ․

یہ دعا تو آپ کے معمولات میں شامل تھی، لیکن رحمت کے پرتو کی یہ جھلک بھی قابل دید ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احتمال بشریت اللہ تعالیٰ سے عہد لے لیا، اگر بالفرض کسی کو مجھ سے کوئی تکلیف پہنچے تو اس کو اس کے حق میں قربت اور نعمت کا ذریعہ بنادے۔

اللّٰہم انی أتخذ عندک عہدًا لن تخلفنیہ فانا أنا بشرٌ، فأیّما مومن أذیتُہ أو شتمتُہ أو جلدتُہ أو لعنتُہ فاجعلہا لہ صلوة وزکوة، وقربة تقرّبہ بہا الیک․

تاریخ شاہد ہے کہ آپ کی زندگی بے گرد وغبار تھی، نہ بعثت سے قبل کوئی متہم کرسکا، اور نہ ہی منصب نبوت پانے کے بعد کوئی عیب نکال سکا، آپ نے کبھی ظلم کو پسند نہیں کیا، متعصبینِ اسلام کوئی ایسا واقعہ پیش کرنے سے عاجز رہیں گے کہ جس میں آپ کی جانب سے ظلم و زیادتی کا شبہ ہوتا ہو، البتہ تاریخ نے اس واقعہ کو جگہ دینے پر فخر محسوس کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجمع عام میں یہ اعلان فرمایا کہ: جس کا مجھ پر کوئی حق ہو وہ لے لے، میں نے کسی کو گالی دی ہو تو وہ گالی دے سکتا ہے، ظلم کیا ہو تو بدلہ لے سکتا ہے۔ مجمع عام سے کوئی آواز تک بلند نہیں ہوسکی، سوائے ایک صحابی کے جنھوں نے حیلہ اختیار کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت کو بوسہ دیا۔

ناگہانی وفات سے پناہ:

          آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مسنون دعاؤں میں ناگہانی وفات سے پناہ مانگی ہے: اللّٰہم انی أعوذبک من التردّی ومن الغرق والحرق، وأن یتخبطنی الشیطان عند الموت، ومن أن أموتَ فی سبیلک مُدبرًا وأن أموت لدیخا․

چنانچہ سیرت کی کتب میں واقعہٴ ہجرت مشہور ہے، اللہ تعالیٰ نے غار کے اندر زہریلے اژدہے سے محفوظ رکھا تھا۔

حسن خاتمہ کی دعاء:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن خاتمہ کے لئے بھی دعائیں کی ہیں۔

اللّٰہم احیني مسلما وأمتنی مسلما․

سیر واحادیث کی کتابوں میں متعدد الفاظ کے ساتھ آپ کی حسن خاتمہ کی دعائیں مذکور ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ان دعاؤں کے تناظر میں آپ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے واقعے کو بھی دیکھ لیاجائے:

۲۹/صفر بروز دوشنبہ تھا، آپ ایک جنازے سے واپس تشریف لارہے تھے، راستہ ہی میں درد سر شروع ہوگیا، اس کی کیفیت یہ تھی کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جو رومال آپ نے سرمبارک پر باندھ رکھی تھی میں نے اسے ہاتھ لگایا تو سینک آتا تھا۔

آپ کی بیماری کی مدت ۱۳ یا ۱۴ دن ہوتی ہے، بیماری کی حالت میں ۱۱/یوم تک مسجد میں خود آکر نماز پڑھاتے تھے، آپ آخری ہفتہ اپنی زندگی کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر گذارا، جب نزع کی کیفیت طاری ہوئی اس وقت سرورکائنات کو عائشہ رضی اللہ عنہا سہارا دیتی تھیں، پانی کاپیالہ آپ کے سرہانے رکھاہوا تھا، آپ اس پیالہ میں ہاتھ ڈالتے اور چہرہ انور پر پھیر لیتے تھے، چہرہٴمبارک کبھی سرخ ہوتا، کبھی زرد پڑجاتا، زبانِ مبارک سے یہ فرماتے تھے: لا الٰہ الا اللّٰہ، ان للموت سکرات․

اتنے میں عبدالرحمن بن أبی بکر رضی اللہ عنہ آئے، ان کے ہاتھ میں تازہ مسواک تھی،آپ نے اس پر نظر ڈالی، تو صدیقہ نے اپنے دانتوں سے مسواک کو نرم کیا، چنانچہ آپ نے مسواک فرمائی اور ہاتھ بلند کیا اور زبان قدسی سے فرمایا:

اللّٰہم الرفیق الأعلی․

اس وقت ہاتھ گرگئے اور پتلی اوپر کو اٹھ گئی، ۱۲/ربیع الاوّل ۱۱ھ یوم دو شنبہ بوقت چاشت جسم اطہر سے روح انور نے پرواز کیا، اس وقت عمر مبارک ۶۳ سال ۴/دن تھی۔

انا للّٰہِ وانا الیہ راجعون․ أفان مت فہم الخالدون

یہ آپ کی مختصر سی سیرتِ مبارکہ تھی دعاؤں کی روشنی میں، سیرت کے ہر پہلو کی طرح یہ پہلو بھی بہت وسیع ہے، ہم دعوی کرسکتے ہیں کہ جس طرح ہر پہلو تشنہ ہے اس پر جو کچھ لکھاگیا ہے وہ ناکافی ہے، یہی حال اس پہلو کا ہے، مزید برآں میری کیا حیثیت۔ صرف کوشش ہے کہ نام بھی میرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرہ نگاروں میں آجائے۔

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ8، جلد: 91 ‏، رجب -شعبان 1428 ہجری مطابق اگست2007ء

Related Posts