از: مولانا محمد عارف مبارکپوری‏، شارجہ ، متحدہ عرب امارات

۱-     اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وما أنت بتابع قبلتہم وما بعضہم قبلة بعض، ولئن اتبعت أہواء ہم من بعد ما جاء ک من العلم انک اذا لمن الظالمین (بقرہ:۱۴۵)

”اور نہ تو مانے ان کا قبلہ، اور نہ ان میں سے ایک مانتا ہے دوسرے کا قبلہ۔“

یہ بدیہی طور پر معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے قبلے کی پیروی نہیں کریں گے، اور پچھلے جملے (وما أنت بتابع قبلتہم) سے اس کی وضاحت بھی ہوتی ہے۔ پھر آیت کے اس ٹکڑے کا کیافائدہ ہے؟ اس کے کئی جواب دیے گئے ہیں:

اول: امام زمخشری کہتے ہیں:

”اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے جس کی وضاحت (وما أنت بتابع قبلتہم) سے فرمادی ہے اس کے بعدآیت کا یہ ٹکڑا (ولئن اتبعت أہوائہم من بعد ما جائک من العلم انک اذا لمن الظالمین) فرضی طور پر آیا ہے بایں معنی کہ اس حقیقت کی وضاحت اوراس کا آپ کو بہ خوبی علم ہونے کے باوصف اگر بالفرض آپ نے ان کے قبلہ کی پیروی کی تو آپ حددرجہ ظلم کرنے والوں میں ہوں گے۔ اس میں سامعین کے ساتھ لطف واکرام کا معاملہ کرنا ہے، حد درجہ کی تنبیہ ہے اور یہ کہ وضاحت کے باوجود اگر کوئی دلیل کو نظر انداز کرتا ہے، اور خواہش نفس کی پیروی کرتا ہے، تواس میں اس کی حالت کی سنگینی کا اظہار ہے، نیز اس بات پر آمادہ اور برانگیختہ کرنا ہے کہ آدمی حق پر ثابت قدم رہے۔ یہ توجیہ ابن عاشور اور آلوسی نے بھی نقل کی ہے۔(۱)

اسی مفہوم کو ابوحیان نے اس طرح بیان کیا ہے:

”کسی چیز کے وقوع کو کسی شرط پر معلق کرنے کا تقاضا یہ نہیں کہ اس شرط کا وقوع ممکن ہے، مثلاً کوئی اپنی بیوی سے کہے کہ اگر تم آسمان پر چڑھ گئی تو تم کو طلاق۔ ظاہر ہے کہ آسمان پر چڑھ کر جانا محال ہے۔ اور مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے بارے میں فرمایا: (لا یعصون اللّٰہ ما أمرہم ویفعلون ما یوٴمرون) (سورہ تحریم:۶)

”نافرمانی نہیں کرتے اللہ کی جو بات فرمائے ان کو اور وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم ہو۔“

اور پھر انہی کے بارے میں فرمایا: (ومن یقل منہم انی الہ من دونہ فذلک نجزیہ جہنم، کذلک نجزی الظالمین) (سورہ انبیاء:۲۹)

اور جو کوئی ان میں سے کہے کہ میری بندگی ہے اس سے ورے، سو اس کو ہم بدلہ دیں گے دوزخ، یونہی ہم بدلہ دیتے ہیں بے انصافوں کو۔“

اس کی وضاحت کے بعد اس طرح کے جو جملے آئے ہیں ان کا سمجھنا آسان ہے، اوراس سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ ایسا ہونا محال ہے؛ اس لئے کہ جو چیز کسی محال پر معلق ہوتی ہے، وہ محال ہوتی ہے، اور اس جملہ کا معنی (جس سے بہ ظاہر واقع ہونا معلوم ہوتا ہے، حالاں کہ اس کا واقع نہ ہونا فرض کیاگیاہے) یہ ہوجائے گا کہ آپ ظالم شمار نہ ہوں گے اور آپ ظالم نہ ہوں گے اس لیے کہ آپ ان کی خواہش نفس کی پیروی نہیں کریں گے اور نہ آپ کا عمل اکارت ہوگا؛ اس لیے کہ آپ کا شرک کرنا محال ہے، اسی طرح کسی فرشتے کو جہنم میں نہیں بھیجا جائے گا؛ اس لیے کہ وہ الوہیت کا دعویٰ نہیں کرے گا۔ علماء نے کہا کہ اگر معصوم ذات کو کسی ایسی بات کا مخاطب بنایا جائے جس کا صدوراس سے ناممکن ہے، تو اس کی توجیہ یہ ہوگی کہ اس سے مراد اس کی امت ہے، اس معصوم ذات کو مخاطب بنانے کی وجہ اس چیز کی ہولناکی بیان کرنا ہے تاکہ اس سے کوسوں دور رہا جائے۔ اس کی نظیر یہ قول ہے:

ایاک أعنی واسمعی یا جارتی․

”تم ہی مقصود ہو، سن لو اے میری پڑوسی عورت“ (۲)

دوم: یہ خطاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں ہے؛ اس لیے کہ معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہیں کریں گے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس کا مخاطب بنانا درست نہیں۔ یہ قول رازی نے نقل کرنے کے بعد اس کو غلط قرار دیا ہے، وہ لکھتے ہیں:

”یہ قول غلط ہے؛ اس لیے کہ ہر ایسی چیز کہ بالفرض اگر رسول سے اس کا صدور ہوتو قبیح ہے (اور اکراہ پر مواخذ نہیں) تو وہ ممنوع ہے، گو کہ یہ بدیہی طور پر معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہیں کریں گے،اس کی دلیل کئی ایک امور ہیں:

۱- یہ کہ علم الٰہی میں جو چیز ایسی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو نہیں کریں گے، واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے نہ روکیں، اگرایساہوتا تو یہ بھی ضروری ہوتا کہ علم الٰہی میں جس چیز کے بارے میں ہے کہ آپ اس کو کریں گے تو ضروری ہوتا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا حکم نہ دیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ کسی بات کا حکم ہو نہ کسی بات کی ممانعت، اور یہ بالاتفاق باطل ہے۔

۲- اگر پہلے سے نہی وتحذیر نہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے احتراز نہ کرتے، اور جب یہ احتراز اس نہی وتحذیر کے ساتھ مشروط ہے تو اس احتراز کو نہی و تحذیر کے منافی کیسے قرار دیا جائے؟

۳- نہی ووعید کا مقصد، عقل میں اس فعل کی قباحت کو موکد کرنا ہے، لہٰذا اس کا مقصد تاکید ہے، اور جب یہ بہتر ہے کہ عقل میں توحید کے دلائل راسخ اور موکد کرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ اس کے قسم قسم کے دلائل سے خبردار کریں، اور اس کا مقصد عقل کو نقل کے ذریعہ موکد اور پختہ کرنا ہے، تو اگر یہاں بھی یہی غرض ہو تواس مستبعد ہے؟

۴- اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے بارے میں فرمایا: (ومن یقل منہم انی الٰہ من دونہ فذلک نجزیہ جہنم) (سورہ انبیاء:۲۹)

”اور جوکوئی ان میں سے کہے کہ میری بندگی ہے اس سے ورے، سو اس کو ہم بدلہ دیں گے دوزخ۔“

حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے بتادیا ہے کہ وہ گناہوں سے معصوم ہیں، فرمان باری ہے: (یخافون ربہم من فوقہم ویفعلون ما یوٴمرون) (سورہ نمل:۵۰)

”ڈر رکھتے اپنے رب کا اپنے اوپر سے، اور کرتے ہیں جو حکم پاتے ہیں۔“

اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا: (لئن أشرکت لیحبطن عملک) (سورہ زمر:۶۵)

”اگر تونے شرک مان لیا تو اکارت جائیں گے تیرے عمل۔“

حالاں کہ بالاجماع نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک یا نہ شرک کی طرف مائل ہوئے۔ نیز فرمایا: (یا أیہا النبی اتق اللّٰہ ولا تطع الکافرین والمنافقین) (احزاب:۱)

”اے نبی! ڈر اللہ سے اور کہا نہ مان منکروں کا اور منافقوں کا۔“

نیز فرمایا: (ودوا لو تدہن فیدہنون) (سورہ قلم:۹)

”وہ چاہتے ہیں کسی طرح توڈھیلا ہوتو وہ بھی ڈھیلے ہوں۔“

نیز فرمایا: (بلغ ما انزل الیک من ربک فان لم تفعل فما بلغت رسالتہ) (سورہ مائدہ:۶۷)

”پہنچادے جو تجھ پر اترا تیرے رب کی طرف سے، اور اگر ایسا نہ کیا تو تونے کچھ نہ پہنچایا۔“

نیز فرمایا: (ولا تکونن من المشرکین) (سورہ انعام:۱۴)

”اور تو ہرگز نہ شرک والا۔“

اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس سے روکا گیا تھا، اور دوسروں کے لیے بھی یہ ممنوع ہے؛ اس لیے کہ کسی چیز سے روکنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے نہیں کہ آپ کے لیے ممنوع ہو دوسروں کے لیے نہیں۔ اب رہ گئی یہ بات کہ نہی وممانعت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیوں خاص کیاگیا؟ تواس کے کئی جواب ہیں:

۱- جس پر اللہ کی نعمتیں جتنی زیادہ ہوں کسی گناہ کااس سے صدور اتناہی زیادہ قبیح ہے۔ اور اس میں تو کوئی شبہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کی نعمتیں سب سے زیادہ ہیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گناہ کا صدور اتنا ہی زیادہ قبیح ہوگا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص طور پر تذکرہ کرنا بجا تھا۔

۲- جس سے جتنی زیادہ محبت ہوتی ہے اس کو خاص طورپر اتنی زیادہ تنبیہ کی جانی چاہیے۔

۳- ایک عقل مند آدمی اپنی تمام اولاد کی موجودگی میں اگراپنی سب سے بڑی اورلائق اولاد کو کسی بات پر زجر و توبیخ کرے تو اس میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ یہ فعل نہایت خطرناک ہے، کوئی اور اس کا ارتکاب نہ کرے۔اور لوگوں کی عادت ہے کہ کسی چیز کا حکم دینے یا کسی چیز سے روکنے میں اس شخص کو مخاطب بناتے ہیں جو سب سے زیادہ بلند درجہ ہو، تاکہ دوسرے کو تنبیہ ہو یا اس عمل پر زور دینا مقصود ہوتا ہے۔ اس طرح کی آیتوں میں یہ ایک طے شدہ ضابطہ ہے۔(۳)

سوم: فرمان باری (لئن اتبعت أہوائہم) سے مراد یہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام امور میں ان کی خواہش کو مانیں، ہوسکتا ہے کہ بعض امور میں ان کی خواہش مانتے تھے مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ سخت کلامی نہیں کرتے تھے، اس امید سے کہ وہ آپ کی طرف مائل ہوجائیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی منع فرمادیا، اور ان کی طرف سے بالکلیہ ناامید فرمادیا جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (ولولا أن ثبتناک لقد کدت ترکن الیہم شیئا قلیلا) (اسراء:۷۴)

”اور اگر یہ نہ ہوتا کہ ہم نے تجھ کو نہ سنبھالے رکھاہوتا تو لگ جاتا جھکنے ان کی طرف تھوڑا۔“

چہارم: گوکہ خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے؛ لیکن مراد کوئی اور ہے۔ مثلاً کسی کے غلام نے آپ کے غلام کے ساتھ بدسلوکی کی اور آپ اس کو عتاب کرتے ہوئے کہیں کہ اگر تم دوبارہ ایسی حرکت کی تو میں تم کو سخت سرزنش کروں گا۔ اس آیت میں مقصود یہ ہے کہ امت کاکوئی فرد ان کی بات نہ مانے۔(۴)

۲- فرمان باری: ومن حیث خرجت فول وجہک شطر المسجد الحرام وانہ للحق من رب وما اللّٰہ بغافل عما تعملون (بقرہ:۱۴۹)

”اور جس جگہ سے تو نکلے سو منھ کر اپنا مسجد حرام کی طرف اور بے شک یہی حق ہے تیرے رب کی طرف سے، اور اللہ بے خبر نہیں تمہارے کاموں سے۔“

سوال یہ ہے کہ مسجد حرام کی طرف منھ کرنے کا حکم تین بار آیا ہے؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت سے پہلے فرمایا:

قد نری تقلب وجہک فی السماء فلنولینک قبلة ترضاہا فول وجہک شرط المسجد الحرام وحیث ما کنتم فولوا وجوہکم شطرہ وان الذین ۔وتوا الکتاب لیعلمون أنہ الحق من ربہم وما اللّٰہ بغافل عما یعملون (بقرہ:۱۴۴)

”بے شک ہم دیکھتے ہیں اٹھنا بار بار تیرے منھ کا آسمان کی طرف سو البتہ پھیریں گے ہم تجھ کو جس قبلہ کی طرف تو راضی ہے، اب پھیر منھ اپنا مسجد حرام کی طرف، اور جس جگہ تم ہوا کرو پھیرو منھ اسی کی طرف، اور جن کو ملی ہے کتاب البتہ جانتے ہیں کہ یہی ٹھیک ہے، ان کے رب کی طرف سے، اور اللہ بے خبر نہیں ان کاموں سے جو وہ کرتے ہیں۔“

اس کے بعد یہاں فرمایا:

ومن حیث خرجت فول وجہک شطر المسجد الحرام وانہ للحق من ربک ومااللّٰہ بغافل عما تعملون (بقرہ:۱۴۹)

”اورجس جگہ سے تو نکلے سو منھ کر اپنا مسجد حرام کی طرف اور بے شک یہی حق ہے تیرے رب کی طرف سے، اور اللہ بے خبر نہیں تمہارے کاموں سے۔“

اس کے بعد تیسری مرتبہ فرمایا:

ومن حیث خرجت فول وجہک شرط المسجد الحرام وحیث ما کنتم فولوا وجوہکم شرطہ لئلا یکون للناس علیکم حجة (بقرہ:۵۰)

”اور جہاں سے تونکلے منھ کر اپنا مسجد حرام کی طرف، اورجس جگہ تم ہوا کرو منھ کرو اسی کی طرف، تاکہ نہ رہے لوگوں کو تم سے جھگڑنے کا موقع۔“

ایک ہی حکم کو بار بار دہرانے میں کیا فائدہ ہے؟

امام رازی کہتے ہیں کہ علما کے اس میں بہت سے اقوال ہیں:

اول: حالات تین طرح کے ہیں: (۱) آدمی مسجد حرام کے اندر ہو (۲) مسجدحرام کے باہر، شہر کے اندر ہو (۳) شہر سے باہر کہیں اور چلا جائے۔ اب پہلی آیت پہلی حالت کے لیے، دوسری آیت دوسری حالت کے لیے، اور تیسری آیت تیسری حالت کے لیے ہے۔ یہاں پر یہ وہم پیداہوسکتا تھا کہ خانہ کعبہ سے قربت کا جو احترام ہے دور رہتے ہوئے شاید نہ ہو۔ اس وہم کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو تین مرتبہ ذکر فرمایا۔ یہ توجیہ ابوحیان نے بھی نقل کی ہے۔(۵)

دوم: اللہ تعالیٰ نے اس کو تین بار اس لیے ذکر فرمایا کہ ہر ایک سے الگ الگ فائدہ متعلق ہے۔ چنانچہ پہلی آیت میں یہ بیان فرمایا کہ اہل کتاب جانتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اوراس قبلہ کا معاملہ برحق ہے؛ کیوں کہ وہ توریت وانجیل میں اس کو دیکھ چکے ہیں۔ دوسری آیت میں یہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کے برحق ہونے پر گواہ ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اس بات کی گواہی دینا، اہل کتاب کے دائرہ علم میں ہونے سے الگ ہے کہ یہ برحق ہے۔ تیسری آیت میں یہ بیان فرمایاکہ ایسا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو تم سے جھگڑنے کا موقع نہ رہے۔ چوں کہ یہ الگ الگ فائدے تھے اس لیے اس کا اعادہ مستحسن ہے تاکہ ہر ایک پر کوئی نہ کوئی فائدہ مرتب ہو۔ اس کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

فویل للذین یکتبون الکتاب بایدیہم ثم یقولون ہذا من عند اللّٰہ لیشتروا بہ ثمنا قلیلا فویل لہم مما کتبت أیدیہم وویل لہم مما یکسبون (بقرہ:۷۹)

”سوخرابی ہے ان کو جو لکھتے ہیں کتاب اپنے ہاتھ سے، پھر کہہ دیتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے، تاکہ لیں اس پر تھوڑا سا مول، سو خرابی ہے ان کو اپنے ہاتھوں کے لکھے سے، اور خرابی ہے اس کو اپنی اس کمائی سے۔“

یہ قول زمخشری، ابوحیان، ابوسعود اور ابن عاشور نے بھی نقل کیا ہے۔(۶)

سوم: اللہ تعالیٰ نے پہلی آیت میں فرمایا: (قد نری تقلب وجہک فی السماء فلنولینک قبلة ترضاہا فول وجہک شطر المسجد الحرام وحیث ما کنتم فولوا وجوہکم شطرہ وان الذین اوتوا الکتاب لیعلمون أنہ الحق من ربہم ومااللّٰہ بغافل عما یعملون (بقرہ:۱۴۴)

”بے شک ہم دیکھتے ہیں بار ابراٹھنا تیرے منھ کا آسمان کی طرف سو البتہ پھیریں گے ہم تجھ کو جس قبلہ کی طرف تو راضی ہے، اب پھیرمنھ اپنا مسجد حرام کی طرف، اور جس جگہ تم ہواکرو پھیرو منھ اسی کی طرف، اور جن کو ملی ہے کتاب البتہ جانتے ہیں کہ یہی ٹھیک ہے، ان کے رب کی طرف سے، اور اللہ بے خبر نہیں ان کاموں سے جو وہ کرتے ہیں۔“

اس آیت سے کسی جاہل کو یہ خیال گزرسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سب، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا جوئی کے لیے فرمایا کہ سو البتہ پھیریں گے ہم تجھ کو جس قبلہ کی طرف تو راضی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس غلط خیال کو دور کرنے کے لیے فرمایا: (ومن حیث خرجت فول وجہک شطر المسجد الحرام وانہ للحق من ربک ومااللّٰہ بغافل عما تعملون (بقرہ:۱۴۹)

حرام کی طرف اور بے شک یہی حق ہے تیرے رب کی طرف سے، اور اللہ بے خبر نہیں تمہارے کاموں سے۔“

یعنی ہم نے آ ”اور جس جگہ سے تو نکلے سو منھ اپنا مسجد کو اس قبلہ کی طرف محض آپ کی خوشی کے لیے نہیں پھیرا؛ بلکہ اس لیے کہ یہی حق ہے، جس سے مفر نہیں۔ لہٰذا اس کی طرف رخ کرنا محض خواہش کی تکمیل نہیں جیسے یہودیوں کا وہ قبلہ جو منسوخ ہوچکا ہے، اور وہ محض خواہش نفس کی وجہ سے اس پر قائم ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تیسری بار فرمایا: (ومن حیث خرجت فول وجہک شطر المسجد الحرام وحیث ما کنتم فولوا وجوہک شطرہ) (بقرہ:۵۰)

”اور جہاں سے تو نکلے منھ کر اپنا مسجد حرام کی طرف، اور جس جگہ تم ہوا کرو منھ کرو اسی کی طرف۔“

یعنی ہمہ وقت اسی قبلہ پر قائم رہو، اس کو تبدیل نہ کرو مبادا یہ تمہارے دین میں طعن تشنیع کا سبب بنے۔

یہ توجیہ ابوحیان اور ابوسعود نے بھی نقل کی ہے۔(۷)

حاصل یہ ہے کہ پہلی آیت میں ہرزمانہ میں اسی پر قائم رہنے کا حکم ہے، دوسری آیت میں ہر زمانہ اور جگہ میں اس پر قائم رہنے، اور تیسری آیت میں ہر زمانہ میں اس پر قائم رہنے کا حکم ہے اوریہ بتانا مقصود ہے کہ یہ کبھی منسوخ نہ ہوگا۔(۸)

چہارم: پہلے حکم کے ساتھ یہ منسلک ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر یہ کرم فرمایا کہ ان کو ان کا پسندیدہ قبلہ (جو ان کے باپ ابراہیم کا قبلہ ہے) عطا فرمایا۔ دوسرے کے ساتھ یہ منسلک ہے کہ (ولک وجہة ہو مولیہا) ”ہرکسی کے لیے ایک جانب ہے یعنی قبلہ کہ وہ منھ کرتا ہے اس کی طرف“ یعنی ہر دعوت وملت والے کا ایک قبلہ ہو جس کی طرف وہ منھ کرتا ہے، اور تم سب سے زیادہ عزت والی سمت کی طرف منھ کرو، جس کے بارے میں اللہ جانتاہے کہ وہی حق ہے۔ یہ بات اللہ نے اس آیت میں فرمائی ہے: (ومن حیث خرجت فول وجہک شطر المسجد الحرام وانہ للحق من ربک)

اور جس جگہ سے تو نکلے سو منھ کر اپنا مسجد حرام کی طرف اور بے شک یہی حق ہے تیرے رب کی طرف سے۔“

اور تیسرے حکم میں یہ درج ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں (جو قبلہ کے تعلق سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جھگڑتے تھے) کی حجت ختم کردی۔ اب دیکھا جائے تو یہ تین وجوہات ہیں، ہر ایک کے ساتھ، قبلہ کی پابندی کا حکم منسلک ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ کہا جائے کہ اس قبلہ کے پابند رہو؛ اس لیے کہ اسی قبلہ کی آپ کی خواہش تھی پھر کہا جائے کہ اس قبلہ کے پابند رہو؛ اس لیے کہ یہ برحق قبلہ ہے، نفسانی خواہش کی دین نہیں (اور بے شک یہی حق ہے تیرے رب کی طرف سے) پھر کہا جائے کہ اس قبلہ کے پابند رہو؛ اس کی پابندی میں، یہودیوں کی حجت شکنی ہے۔ یہ تکرار ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ (فبأی آلاء ربکما تکذبان) (سورہ رحمان:۱۳)

”پھر کیا کیا نعمتیں اپنے رب کی جھٹلاؤگے تم دونوں۔“

یا جیسے اس آیت کریمہ میں تکرار ہے (ان فی ذلک لآیة وماکان اکثرہم موٴمنین) (سورہ شعراء:۱۵۸)

”البتہ اس میں نشانی ہے، اور ان میں بہت لوگ نہیں ماننے والے۔“

یہ توجیہ ابوحیان نے بھی نقل کی ہے۔(۹)

پنجم: یہ سب سے پہلا واقعہ ہے جس میں ہماری شریعت میں نسخ واقع ہوا؛ اس لیے تاکید و توثیق، شبہات کو ختم کرنے اور وضاحت کی خاطر اس میں تکرار کی ضرورت محسوس ہوئی۔ یہ جواب زمخشری اور ابوحیان نے بھی نقل کیا ہے۔(۱۰)

ششم: ابوحیان کہتے ہیں:

یہ جملہ (تیسری آیت) سابقہ متصل (دوسری) آیت کی تاکید ہے۔ پہلی آیت کی تاکید نہیں؛ اس لیے کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ پہلی آیت اقامت وحضر سے متعلق ہے اور دوسری آیت سفر اور تیسری آیت بھی سفر سے متعلق ہے؛ لہٰذا یہ آیت دوسری آیت کی تاکید ہوئی۔ اور اس تاکیدکا فائدہ اس حکم توثیق اور بیت المقدس کے قبلہ ہونے کے حکم کے منسوخ ہونے کی ترسیخ و تقریر ہے؛ اس لیے کہ نسخ میں فتنہ اور شکوک و شبہات کا احتمال ہے اور قبلہ کی تبدیلی کو لے کر، شیطان طعن و تشنیع کی راہ دکھاسکتا ہے۔ اس لیے کہ یہ ان کے لیے دشوار تھا۔ لہٰذا اس نسخ کی تاکید و توثیق کردی۔ ہماری اس توجیہ کے لحاظ سے دیکھا جائے تو تاکیدکے لیے ایک جملہ دوبار لایا گیا ہے۔ اور عربی زبان میں، اکثر و بیش تر یہی ہوتا ہے کہ جملہ کو ایک بار اور ذکر کردیا جائے۔ (۱۱)

ہفتم: مہدوی نے کہا:

ان احکام میں تکرار اس لیے ہے کہ ہر ایک کو پوراقرآن یاد نہیں ہوتا، اب اگر تکرار نہ ہوتا تو کسی کے پاس ایک حکم ہوتا جو دوسرے کے پاس نہیں۔ تکرار کی یہ توجیہ جعفر صادق سے منقول ہے۔ اسی لیے قصے اور واقعات میں تکرار نہیں۔ یہ قول ابوحیان نے نقل کیا ہے۔(۱۲)

ہشتم: پہلی آیت میں (فول وجہک) قبلہ اوّل کو منسوخ ہونا بتانا ہے۔ دوسری آیت میں یہ بتانا ہے کہ ہر جگہ حکم یکساں ہے، اور تیسری آیت میں یہ بتانا ہے کہ ہر دور میں یہ حکم باقی رہے گا۔ یہ قول بھی ابوحیان نے نقل کیا ہے۔(۱۳)

نہم: ایک قول ہے:

کہ پہلا حکم ہر حالت کے لیے ہے، دوسرا ہر جگہ کے لیے،اور تیسرا ہر دور کے لیے۔ یہ قول بھی ابوحیان نے نقل کیا ہے۔(۱۴)

۳- فرمان باری: کما أرسلنا فیکم رسولا منکم یتلو علیکم آیاتنا ویزکیکم ویعلمکم الکتاب والحکمة ویعلمکم مالم تکونوا تعلمون (بقرہ:۱۵۱)

”جیسا کہ بھیجا ہم نے تم میں ایک رسول تم ہی میں کا پڑھتا ہے تمہارے آگے آیتیں ہماری اور پاک کرتا ہے تم کو اور سکھاتا ہے تم کو کتاب اوراس کے اسرار اور سکھاتا ہے تم کو جو تم نہ جانتے تھے۔“

یہاں پر (یعلمکم) کو دو بار ذکر کیاگیا حالاں کہ ایک کافی تھا۔ اس تکرار کا کیا فائدہ ہے؟

اس کے دو جواب دیے گئے ہیں:

اول: عطف کے ذریعہ دوبارہ لانے کا مقصد، دونوں میں مغایرت اور اختلاف کو، بہ صراحت بتانا ہے مبادا کوئی یہ سمجھ جائے کہ (مالم تکونوا تعلمون) سے مراد کتاب وحکمت ہے۔ نیز یہ بھی تصریح کردی کہ (مالم تکونوا) مفعول ہے، مبتدا نہیں کہ مبادا سننے والا خبر کا منتظر رہے۔اور اسی انتظام میں اس کا ذہن الجھ کر رہ جائے۔ یہ قول ابن عاشور نے نقل کیا ہے۔(۱۵)

دوم: فعل میں تکرار کا مقصد یہ بتانا ہے کہ یہ ایک الگ جنس ہے، پہلے میں قطعا شریک نہیں، لہٰذا یہ عموم کے بعد تخصیص ہے، اور یہ بتانے کے لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ایک نعمت عظمی ہے، یہ نہ ہوتی تو پوری انسانیت دینی معاملہ میں سرگرداں ہوتی، اور کیا کرے کیا نہ کرے، یہ سمجھنے سے قاصر ہوتی۔ یہ قول آلوسی نے نقل کیا ہے۔(۱۶)                     (باقی آئندہ)

$$$

حواشی:

(۱)         کشاف ۱/۱۰۱؛ ابن عاشور ۲/۳۷؛ آلوسی ۲/۱۲۔

(۲)        ابوحیان تفسیر آیت۔

(۳)        الکشاف ۱/۱۰۱، ابن عاشور ۲/۳۷، آلوسی ۲/۱۲۔

(۴)        ابوحیان تفسیر آیت۔

(۵)        تفسیر رازی ۴/۱۰۹۔

(۶)        تفسیر رازی ۴/۱۰۹۔

(۷)        بحر محیط از ابوحیان تفسیر آیت۔

(۸)        ابن عاشور تفسیر آیت؛ الکشاف تفسیر آیت؛ ابوحیان تفسیر آیت؛ ابوسعود ۱/۱۸۰۔

(۹)         ابوحیان تفسیر آیت، ابوسعود ۱/۱۸۰۔

(۱۰)       رازی ۴/۱۱۸۔

(۱۱)        ابوحیان تفسیر آیت۔

(۱۲)       کشاف تفسیر آیت، رازی ۴/۱۵۱-۱۵۳؛ ابوحیان تفسیر آیت۔

(۱۳)      ابوحیان تفسیر آیت۔

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ8، جلد: 91 ‏، رجب -شعبان 1428 ہجری مطابق اگست2007ء

Related Posts