از: فاروق اعظم عاجز کھگڑیاوی، متعلّم دارالعلوم دیوبند
پہلی بات
آزادی کے بعد اور خصوصاً چند سالوں سے فرقہ پرست قوت نے ہندوستان سے اسلام اوراس کے پیروکار کی بیخ کرنے میں یہودونصاریٰ کی پوری پوری نیابت اختیار کررکھی ہے۔ کبھی بابری مسجد کا معاملہ تو کبھی بھاگلپور وگجرات میں مسلم نسل کشی کا ننگا ناچ، اسی طرح کبھی مسلمانوں کی پرسنل لاء میں مداخلت، کبھی دینی مدارس کو دہشت گردی کا مرکز قرار دینا گویا ”بہروپیا مختلف رنگوں میں“۔
”تم جتنا ہی تراشوگے اتنا ہی سوا ہوگا“کے تحت جب اسلام دشمن کی تشنہ نگاہ سیراب نہ ہوسکی تو اس نے ہماری تاریخ کو مسخ کرنا شروع کردی، اور یہ آج ہی سے نہیں؛ بلکہ بہت پہلے ہی سے اس کی داغ بیل ڈالی جاچکی ہے؛ لیکن ماضی قریب سے اس میں روز بروز شدت بڑھتی ہی جارہی ہے، اور مسلم حکمرانوں خاص طور پر حضرت عالمگیر رحمہ اللہ کی جانب سے لوگوں میں اس قدر پروپیگنڈہ کیاگیا کہ غیر تو غیر اپنے بھی اسی پرفریب سیلاب میں بہہ پڑے، نیز لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال بھی جنم لینے لگا کہ آیا ہندوستان میں مسلمانوں کا ورود باعث رحمت ہے یا زحمت؟؟؟
متعصب مورخین کی دوغلی پالیسی کے علی الرغم اکثر لوگوں کا زاویہٴ فہم اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ: مسلم حکمراں نے ہندو پر تشدد نیز ان کے مقامات مقدسہ کی پوری بے حرمتی کی ہے، اور مذہبی آزادی سلب کرلی گئی تھی؛ لیکن انسان لاکھ اپنی آنکھ بند کرکے روشن سورج کو جھٹلائے پھر بھی سورج روشن ہی رہے گا اس کی چمک دمک پر اس نادان کی آنکھ مچولی سے ہرگز تاریکی طاری نہیں ہوسکتی۔ چناں چہ ذیل کے سطور میں انھی واقعات وحقائق پر روشنی ڈالی جائے گی اور اس نقطے کو نکھارا جائے گا کہ ہمارے جتنے بھی دعوے ہیں بغیر دلیل کے نہیں؛ بلکہ مکمل ثبوت کے ساتھ ہیں۔
ورود اسلام سے قبل ہندوستان کا مذہب
ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے کی حالت کاسرسری جائزہ بھی ناگزیر ہے۔ ہندوستان میں اسلام سے پہلے بدھ مذہب کے پیروکار تھے، اور بہت ہی قلت کے ساتھ برہمنی مذہب کا بھی پتہ چلتا ہے؛ لیکن اتنی بات پایہٴ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ اس وقت آرین مذہب کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی؛ بلکہ بدھسٹ کا اپنی خیرات تقسیم کرتے وقت جہاں دیگر مستحقین لائن میں ہوتے تھے وہاں برہمنوں کی قطار بھی ہوتی تھی (مختصر تاریخ ہند ۱/۱۱۷-۱۱۸، از مسٹر ہنٹر) لیکن اس کے باوجود برہمن ”بدھ“ مذہب کو ختم کرکے آرین مذہب قائم کرنا چاہتے تھے۔ مورخ اسلام اکبرشاہ خاں رحمہ اللہ کے حوالے سے چین کے مشہور عالم ”ہیونگ شیانگ“ نے ہندوستان کی سیاحت میں پندرہ سال ۶۳۰-۶۴۵/) تک گزارے ہیں، اتنی ہی مدت میں ہندوستان کے چپہ چپہ کی سیر کرلی، اور ہرمقامات پر اپنے ماننے والوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ چناں چہ دوران سفر کئی جگہ ڈاکوؤں کے پنجے میں گرفتاری کا ذکر بھی کرتا ہے، اور ہمیشہ ان (لٹیروں) کو کافر اور بے دین بتاتا ہے حالانکہ وہ برہمنی مذہب کے پیروکار اور بدھ کے مخالف تھے۔ (آئینہ حقیقت نما،ص:۸۴)
اسلام سے پہلے ہندوستان کی مذہبی حیثیت
ہندوستان میں بدھ مذہب کو راجا ”اشوک“ کے زمانے میں کافی ترقی ملی؛ لیکن اس کے بعد اس کے شہنشاہی ٹکڑوں میں منقسم ہوگئی جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ بدھ کی اصل تعلیمات مسخ ہوگئیں اور عبادت و اخلاق کی بنیاد کھوکھلی ہوکر رہ گئی کیوں کہ اشوک کے عہد کو ۹/سوبرس اور گوتم بدھ کے زمانے کو تقریباً ۱۲/سو برس ہوچکے تھے، (آئینہ حقیقت نما،ص:۸۵-۸۶) چناں چہ پورا معاشرہ بت پرستی و بد عقیدگی اور شدت پسندی کی دلدل میں پھنسا ہوا تھا۔ اسی زمانے کے احوال کی نقاب کشائی اکبر شاہ اس طرح کرتے ہیں کہ : ”یہاں (سندھ) میں عام طور پر بت پرستی رائج تھی، مجرموں کی شناخت کے لیے ان کو جلتی ہوئی آگ میں گذارنے کا عام رواج تھا، اگر آگ میں جل گیا تو مجرم اور بچ گیا تو بے گناہ تھا۔“
پھر مزید کچھ آگے فرماتے ہیں کہ: جادو کا عام طور پر رواج تھا، غیب کی باتیں اور شگون کی تاثیرات بتانے والوں کی بڑی گرم بازاری تھی، محرمات ابدی کے ساتھ شادیاں کرلینے میں تامل نہ تھا، چناں چہ راجا داہر نے اپنی حقیقی بہن کے ساتھ پنڈتوں کی ایماء سے شادی کی تھی، راہزنی اکثر لوگوں کا پیشہ تھا، ذات باری تعالیٰ کا تصور معدوم ہوکر اعلیٰ و ادنیٰ پتھر کی مورتوں اور بتوں کو حاجت روا سمجھتے تھے۔“ (آئینہ حقیقت نما،ص:۱۷۴-۱۷۵)
اسی دور کا تذکرہ کرتے ہوئے علی میاں ندوی رحمہ اللہ ”منو شاستر“ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ: ”اس وقت عام طور پر ہندو مذہب نت نئے دیوتاؤں یہاں تک کہ آلہٴ تناسل تک کا پوجا جانا بھی بڑی اہمیت رکھتا تھا (اورآج بھی یہ طریقہ ہندوؤں میں رائج ہے، لاحول ولا قوة الا باللہ)“ طبقہ واریت بے انتہا تھی یہاں تک کہ ایک قوم ”شودر“ نامی ہے جس کے متعلق منوشاستر،ص:۶ پر ہے: ”اگر کوئی شودر کسی برہمن کو ہاتھ لگائے یا گالی دے تو اس کی زبان تالو سے کھینچ لی جائے، اگر اس کا دعویٰ کرے کہ اس (کسی برہمن) کو وہ تعلیم دے سکتا ہے تو کھولتا ہوا تیل اس کو پلایا جائے، کتے، بلی، مینڈک، چھپکلی، کوے، الو اور ”شودر“ کے مارنے کا کفارہ برابر ہے۔“ یعنی اگر برہمن کا کوئی شخص دوسری ذات والے کو قتل کردے تو فقط اس کی اتنی سی سزا کہ اس کا سرمنڈوادیا جائے اوراس کے برعکس دوسری قوم کے لوگ برہمن کے سامنے لب کشائی بھی کریں تو ان کی جان کے لالے پڑجائیں۔ یہ تھی ہندی مذہب کی ادنیٰ جھلک۔
عرب وہند کے تعلقات کا پس منظر
بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پہلے ہندوستان کے مختلف قبائل: زط (جاٹ)، مید، سیابچہ یا سیابجہ، احامرہ، اساورہ، بیاسرہ اور تکرّی (ٹھاکر) کے لوگوں کا وجود بحرین، بصرہ، مکہ اور مدینہ میں ملتا ہے۔ چناں چہ ۱۰ ہجری میں نجران سے بنوحارث بن کعب کے مسلمانوں کا وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ان کو دیکھ کر فرمایا: ”یہ کون لوگ ہیں جو ہندوستانی معلوم ہوتے ہیں“ (تاریخ طبری ۳/۱۵۶، بحوالہ برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش از محمد اسحق بھٹی)
مزید اسحق بھٹی اپنی مذکورہ کتاب میں فرماتے ہیں: ”کتب تاریخ و جغرافیہ سے واضح ہوتا ہے کہ جاٹ برصغیر سے ایران گئے اور وہاں کے مختلف بلاد و قصبات میںآ باد ہوئے اور پھر ایران سے عرب پہنچے اور عرب کے کئی علاقوں میں سکونت اختیار کرلی“ (ایضاً،ص:۱۸) نیز تاریخ میں ان قبائل کا۔ بزمانہٴ خلافت شیخین (حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما ) حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر مسلمان ہونے کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ (ایضاً،ص:۲۵) خلاصہ یہ کہ یہ قبائل عرب کے ساتھ گھل مل گئے ان قبائل میں سے بعضوں کے بہت سے رشتہ دار تھانہ، بھڑوچ اور اس نواح کے مختلف مقامات میں (جوبحرہند کے ساحل پر تھے) آباد تھے۔
بالآخر عرب و ہند کے درمیان شدہ شدہ مراسم بڑھتے گئے یہاں تک کہ برصغیر (متحدہ ہند) اور عرب کا باہم شادی و بیاہ کا سلسلہ بھی چل پڑا، اس ہم آہنگی کی سب سے اہم کڑی عرب و ہند کے تجارتی تعلقات تھے، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے نت نئے اشیائے خوردونوش وغیرہ: ناریل، لونگ، صندل، روئی کے مخملی کپڑے، سندھی مرغی، تلواریں، چاول اور گیہوں اور دیگر اشیاء عرب کی منڈیوں میں جاتی تھیں۔ (ایضاً،ص:۲۹) اس واقعے کی تصریح ایک مصری مورخ یوں کرتا ہے: جنوبی عرب سے آنے والے تجارتی قافلوں کی ایک منزل مکہ مکرمہ تھا، یہ قافلے ہندوستان اور یمن کا تجارتی سامان شام اور مصر کو لے جاتے تھے، اثنائے سفر میں یہ لوگ مکہ مکرمہ میں قیام کرتے اور وہاں کے مشہور کنوئیں”زمزم“ سے سیراب ہوتے اوراگلے دن کے لیے بقدر ضرورت زمزم کا پانی ساتھ لے جاتے تھے۔“ (عرب و ہند عہد رسالت میں بحوالہ الجمل فی تاریخ الادب العربی،ص:۲۷)
ہند میں طلوع اسلام
یوں تو لوگوں میں مشہور ہے کہ ہندوستان میں اسلام کی روشنی بزورِ تیروشمشیر سب سے پہلے سرزمین سندھ پر پڑی؛ لیکن یہ واقعہ ۹۳ ہجری کا ہے جب کہ اس سے بہت پہلے بعہد فاروقی ۱۵ھ ہی میں مالا بار، اور سراندیپ کے علاقوں میں اسلام کی خوشبو پھیلنا شروع ہوگئی تھی اور سلسلہ وار عہد عثمانیہ سے خلافت امیہ تک یکے بعد دیگرے بہت سے حضرات رسالت و توحید کی روشنی جنوبی ہند میں لالاکر اس علاقے کے گوشہ گوشہ کو روشن کرنے میں ہمہ تن منہمک تھے، اور اسلام کسی خلل و رکاوٹ کے بغیر پھیل رہا تھا اور لوگوں کے ذہن ودماغ کو مسخر کیے جارہا تھا؛ یہی وجہ ہے کہ مالابار کا راجا ”زمورن یا سامری“ نے معجزہ شقِ قمر کا چشم دید مشاہدہ کیا اور تاریخ و دن محفوظ کرکے تحقیق شروع کردی ․․․ معلوم ہوا کہ عرب میں ایک پیغمبر پیدا ہوئے ہیں انھی کا یہ معجزہ تھا۔ (آئینہ حقیقت نما،ص:۷۱-۷۲، از مورخ اسلام اکبرشاہ خاں نجیب آبادی)
الحاصل راجا نے بسروچشم اسلام قبول کرلیا اور اپنی سلطنت ترک کرکے سراپا ہدایت و رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے پناہ اشتیاق میں ان کے کوچے کی طرف چل پڑا؛ لیکن وقت کا – سوائے خدا کسی کو علم نہیں- قبل اس سے کہ وہ اپنی تشنگی بجھاتا دل کی ارماں دل ہی میں لیے ہوئے مالکِ حقیقی سے جاملا۔
رہا محمد بن قاسم کا ہندوستان پر حملہ کا سوال، تو اس کا مضبوط جواب یہ ہے کہ: حملہ کے اصل اسباب راجہ داہر کے سیاہ کرتوت اوراس کے ہمراہیوں کی دراندازی تھی۔
سرزمین ہند پر مسلم حکمراں کے قدم اور ان کے اثرات ونتائج
ہندوستان پر مسلمان حکمرانوں کی تہذیب وتمدن کے اثرات کے پیش نظر علامہ شبلی رحمہ اللہ کا نظریہ انھی کے الفاظ میں تحریر کیا جائے گا تاکہ آئندہ سطور کو سمجھنے میں سہولت ہو۔ فرماتے ہیں: ”کسی غیر قوم کا کسی غیرملک پر قبضہ کرنا کوئی جرم نہیں ورنہ دنیا کے سب سے بڑے فاتح سب سے بڑے مجرم ہوں گے لیکن یہ دیکھنا چاہیے کہ فاتح قوم نے ملک کی تہذیب و تمدن پر کیا اثر پیدا کیا، ”چنگیز خاں“ فتوحات کے لحاظ سے دنیا کا فاتح اعظم ہے؛ لیکن اس کی داستان کا ایک ایک حرف خون سے رنگین ہے، مرہٹے ایک زمانے میں تمام ہندوستان پر چھاگئے؛ لیکن اس طرح کہ آندھی کی طرح اٹھے، لوٹا مارا، چوتھ (آمدنی کا چوتھائی) وصول کیا اور نگل گئے، بخلاف اس کے متمدن قوم جب کسی ملک پر قبضہ کرتی ہے تو وہاں کی تہذیب و تمدن دفعتہ بدل جاتی ہے، سفر کے وسائل، رہنے سہنے کا طور، کھانے پینے کے طریقے، وضع و لباس کا اندازہ، مکانوں کی سجاوٹ، گھروں کی صفائی، تجارت کے سامان، صنعت و حرفت کی حالت، ہر چیز پر ایک نیا عالم نظر آتا ہے۔ اور گو مفتوح قوم ضد سے احسان نہ مانے لیکن درودیوار سے شکرگذاری کی صدائیں آتی ہیں۔“ (اسلامی حکومت اور ہندوستان میں اس کا تمدنی اثر،ص:۱-۲)
یوں تو ہلکی پھلکی جھڑپیں ۱۵ھ ہی سے شروع ہوچلی تھیں، نیز سندھی قیدیوں کا – جن کو ایران لڑائی کے وقت کام میں لاتا تھا – عربوں کے ساتھ ہم محاذ ہونے کا اشارہ بھی تاریخ سے ملتا ہے؛ لیکن باضابطہ ہند پر حملہ کا نقشہ یوں ہے: راجا داہر کی سرکشی مسلمانوں کے خلاف حد سے متجاوز ہونے کی وجہ سے سب سے پہلے عراق کے گورنر حجاج نے محمد بن قاسم کو ہندوستان کی طرف بارہ ہزار افواج مع اسباب و آلاتِ حرب و ضرب کے رجا داہر کی گوشمالی کے لیے روانہ کیا۔ جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اسلامی لشکر جرار کی رجاداہر کی فوج سے زبردست معرکہ ہوا اور راجا داہر مارا گیا۔ اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے ہندوستان کی سرزمین کو ظلم و سرکشی سے پاک کردیا․․․ پھر محمد بن قاسم نے پے درپے کئی مقامات فتح کرلیے اور ان پر شاندار کارکردگی دکھائی جس کی تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ اہل سندھ پہلے کیا تھے اور اسلام کے مقدس اور روح افزا سایے میں آنے کے بعد اخلاق اور تعلیم و تہذیب کے کیسے اعلیٰ معیار پہنچ گئے۔
محمد بن قاسم کے بعد متعدد مسلم حکمراں آئے اور تھوڑی تھوڑی مدت میں بدلتے رہے جس کی وجہ سے پہلے کے بنسبت نظم و نسق خاصا اثر انداز ہوا۔ البتہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے دور اقتدار میں اہل سندھ و ہند کے نام دعوتی خطوط روانہ کیے۔ جن میں توحید و رسالت کی دعوت اور بت پرستی و بداخلاقی سے باز رہنے کی بات تھی۔ جس کا سردست نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ بہت سارے ہندو سرداران اسلام میں داخل ہوگئے جن میں سرفہرست ”جے سنگھ“ بن داہر تھا۔
ان تاریخی حقائق (جو مغربی مورخین کی نفرت آمیز آلودگی میں اوجھل ہوکر رہ گئے) پر اہل وطن کو غور کرنے کا مقام ہے۔ پھر مسلمان حکمرانوں کا یہ سلسلہ عبدالملک بن شہاب ۷۷۶/ تک چلا اس کے تقریباً دو صدی بعد ۹۹۷/ میں محمود غزنوی کا ورود ہوا اور متعدد حملوں کے بعد حکومت ہند کی باگ ڈور سنبھالی، پھر تقریباً ڈیرھ صدی کے بعد ۱۱۷۱/ میں محمد غوری آیا اور کئی معرکہ آرائیوں کے بعد فتح حاصل کی اور سلاطین ہند میں شامل ہوا؛ لیکن ہندوستان پر باضابطہ مسلمانوں کی طویل حکومت کا آغاز سلطان ظہیرالدین بابر سے ہوا اس لیے کہ بابر سے پہلے جو بھی آیا اس کی حکومت محدود علاقے تک رہی چہ جائیکہ محمود غزنوی نے اس میں کافی وسعت پیدا کی، دوسرے یہ کہ ایک کے بعد دوسرے کے آنے تک عرصہٴ دراز کا خلا بھی رہا۔
چنانچہ انھی دونوں رکاوٹوں کے باعث اسلامی اثر و رسوخ اہل ہند میں کامل طور پر اثر انداز ہوسکا اور یہاں کے لوگوں میں تعلیم اور تہذیب وتمدن کا بڑا فقدان تھا، اور جو تھوڑی سی مقدار صوفی سنتوں کی تھی بھی تو وہ اس قدر رہبانیت کے گہرے سمندر میں غوطہ زن تھے کہ اپنی ہی ذات سے ناآشنا تھے، تو بھلا ان کے ذریعہ دوسرے کی اصلاح کی کیا توقع۔
بابر نے ہندوستان کو کس حالت میں پایا
بابر نے ترکستان سے مختلف مقامات مسخر کرتا ہوا ۱۵۲۶/ میں ہندوستان کو بھی اپنے زیر کمان کرلیا؛ لیکن ہندوستان کی معاشرت اسے بڑی عجیب و غریب محسوس ہوئی، اور اہل ہند اسے تہذیب و تمدن سے کوسوں دور نظر آئے۔ چناں چہ علامہ شبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”اگرچہ ظاہر ہے کہ اس سے قبل کی اسلامی حکومتوں نے بھی ہندوستان کی تہذیب و تمدن کو کچھ نہ کچھ ضرور ترقی دی تھی تاہم بابر نے ترکستان سے آکر ہندوستان کو جس حالت میں دیکھا اس کی تصویر اسی کے لفظوں میں یہ ہے: ”ہندوستان میں اچھے گھوڑے نہیں، اچھا گوشت نہیں، انگور نہیں، خریزہ (خربوزہ) نہیں، برف نہیں، آبِ سرد نہیں، حمام نہیں، مدرسہ نہیں، شمع نہیں (ایسی روشنی جو ہرجگہ ہر موقع سے کام آسکے) مشعل نہیں، شمع دان نہیں، مزید کچھ آگے فرماتے ہیں: باغوں اور عمارتوں میں آب رواں نہیں، عمارتوں میں نہ صفائی ہے، نہ موزوں نی نہ ہوا، نہ تناسب، عام آدمی ننگے پاؤں لنگوٹی لگائے پھرتے ہیں، عورتیں لنگی باندھتی ہیں جس کا آدھا حصہ کمر سے لپیٹ لیتی ہیں اور آدھا سر پر ڈال لیتی ہیں۔“ (اسلامی حکومت اور ہندوستان میں اس کا تمدنی اثر،ص:۲-۳)
ہندوستان عہدِ اسلامی میں ثریٰ سے ثریا تک
شاہانِ اسلام نے ہندوستان کو اپنا وطن سمجھا اور اس کو ترقی کی سمت گامزن کرنے میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑا نیز اس کو دیدہ زیب، سونے کی چڑیااور پرکشش بنانے میں پوری دلچسپی کا مظاہرہ کیا، جس کی مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ یوں منظر کشی کرتے ہیں: ”مسلمان اگرچہ ہندوستان میں فاتح کی حیثیت سے آئے لیکن اجنبی حکمرانوں کی طرح انھوں نے اس کو محض تجارت کی منڈی اور حصولِ دولت کا دریعہ نہیں سمجھا بلکہ اس کو وطن بناکر یہیں رس بس گئے اور مرنے کے بعد بھی اس کی خاک کے پیوند ہوئے اس لیے کہ انھوں نے حکومت و سیاست، علم وفن، صنعت وحرفت، زراعت وتجارت، تہذیب و معاشرت، ہر حیثیت سے اس کو ترقی دے کر صحیح معنوں میں ہندوستان کو جنت نشاں بنادیا۔“ (ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے تمدنی کارنامے ،ص:۱)
یہی وجہ ہے کہ شہنشاہانِ اسلام نے مختلف مقامات پر تعلیمی ادارے قائم کیے، رفاہِ عام کا مکمل نظم و نسق کیا پھر ڈاک کی راہیں ہموار کیں، مختلف الانواع روز مرہ نیز سردیوں کے کپڑوں کے بے شمار کارخانے بنوائے، تجارت و زراعت کا صحیح زاویہ سکھایا اور متمدن ممالک کے اتصال کا سامان مہیا کیا نیز صنعت و حرفت کو بام عروج تک پہنچایا۔ جس کو علامہ شبلی رحمہ اللہ یوں لفظ کا جامہ پہناتے ہیں:
”ہندو ہمیشہ سے نہایت سادہ لباس پہنتے تھے اور غالبا ان کو گزی گاڑھے کے سوا اور کچھ پہننا نہ آتا ہوگا، (جس کی شہادت گذشتہ سطور میں صراحت سے ملتی ہے) اکبر نے دلی، لاہور، آگرہ، شیخ پور، احمد آباد اور گجرات میں پارچہ بافی کے بڑے بڑے کارخانے جاری کیے اور (یہی نہیں بلکہ) ایران، افغانستان، اور چین سے کاریگر بلواکر ہر قسم کے قیمتی کپڑے تیار کرائے۔“ (اسلامی حکومت اور ہندوستان میں اس کا تمدنی اثر،ص:۷)
اسی طرح اہل ہند کی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے جن خوراک کی بھی ضرورت پڑی خواہ باطنی ہو یا ظاہری مسلم حکمرانوں نے اس کو بہم پہنچایا۔
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ ․․․
جھوٹ جھوٹ ہے اور سچ سچ ہے، دونوں میں دن و رات کا فرق ہے، گو جھوٹ کو سچ کالبادہ اوڑھانا دن کو رات بنانے کے مرادف ہے، کوئی حقیقت سے جس طرح ممکن ہو آنکھ بند کرلے؛ لیکن راست بازی اپنی حقیقی روشنی سے مدمقابل کی نگاہ خیرہ کرکے رکھ دیتی ہیں۔
چناں چہ چند غلام اور حقیقت سے بے خبر لوگ اسلامی حکومت کو بے انصاف، تشدد پسند اور سلاطین کی ریڑھ کی ہڈی، ہندوستان کے ہر ہر ذرے کو آفتاب و ماہتاب بنانے والے اور پورے پچاس سال تک سپاہیوں کی مقدار پر تنخواہ لے کر ملک و قوم کی خدمت کرنے والے عالمگیر اورنگ زیب کو متشدد اور مذہب ہندو کا جانی دشمن قرار دیتے ہیں۔ بڑے ․․․ رنج والم کی بات ہے۔
اس کے باوجود جواہر لال نہرو اپنی کتاب (تلاش ہند) میں ہندوستانی سماج، ہندوستانی فکر، اور ہندوستان کی تمدن و ثقافت پر مسلمانوں کے ناقابل فراموش گہرے اثرات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔ کہتے ہیں:
”ہندوستان میں اسلام کی اور ان مختلف قوموں کی آمد نے جو اپنے ساتھ نئے خیالات اور زندگی کے مختلف طرز لے کر آئے، یہاں کے عقائد اور یہاں کی ہیئت اجتماعی کو متاثر کیا، بیرونی فتح خواہ کچھ بھی برائیاں لے کر آئے اس کا ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے، یہ عوام کے ذہنی افق میں وسعت پیدا کردیتی ہے اور انھیں مجبور کردیتی ہے کہ وہ اپنے ذہنی حصار سے باہر نکلیں، وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ دنیا اس سے کہیں زیادہ بڑی اور بوقلموں ہے جیسی کہ وہ سمجھ رہے تھے۔
بالکل اسی طرح افغان فتح نے ہندوستان پر اثر ڈالا اور بہت سی تبدیلیاں وجود میں آگئیں، اس سے بھی زیادہ تبدیلیاں اس وقت ظہور میں آئیں جب مغل ہندوستان میںآ ئے، کیوں کہ یہ افغانوں سے زیادہ شائستہ اور ترقی یافتہ تھے، انھوں نے ہندوستان میں خصوصیت کے ساتھ اس نفاست کو رائج کیا جو ایران کا حصہ تھی۔“ (تلاش ہند،ص:۲۱۹ بحوالہ ہندوستانی مسلمان،ص:۳۰)
اسی مذکورہ واقعہ کی تائید میں سابق صدر کانگریس اور جنگ آزادی کے ایک رہنما ”ڈاکٹر پٹابی ستیہ رَمیّہ“ کے الفاظ کا نقل کرنا بھی میرے خیال سے بہتر ہوگا: ”مسلمانوں نے ہمارے کلچر کو مالامال کیا ہے اور ہمارے نظم ونسق کو مستحکم اور مضبوط بنایا نیز وہ ملک کے دور دراز حصوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں کامیاب ہوئے، اس ملک کے ادب اوراجتماعی زندگی میں ان کی چھاپ بہت گہری دکھائی دیتی ہے۔“ (خطبہ صدارت انڈین نیشنل کانگریس اجلاس جے پور ۱۹۴۸/، بحوالہ ہندوستانی مسلمان، ص:۳۰)
یہ تھی مسلم حکمرانوں کی طرز حکومت اور اس کے بحرذخار کے چند چھینٹے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ سمندر کو کوزہ میں سمونا انتہائی دشوار تر امر ہے۔ آج ہمارے اہل وطن ان حکمرانوں کے احسانات جس طرح بھی ہو فراموش کردیں؛ لیکن ان کے لگائے ہوئے اس سدا بہار گلشن کی دلربائی سے اپنی آنکھ اوران کے عطربیز پھولوں سے اپنی ناک کب تک بند کریں گے جب کہ خود اسی باغ کے بلبل ہیں اور پرورش پاکر اس کی خوشبوؤں سے لہلہارہے ہیں۔
مورخین کی دجل آفرینی اور اس کی پردہ دری
ہمارے بعض اہل وطن کی نگاہ میں تمام مسلم حکمرانوں میں سب سے بڑا مجرم سلطان اورنگ زیب ہے۔ اور اس پر عائد تمام جرائم میں سے سب سے بڑا جرم ”ہندوؤں کے ساتھ تشدد اور ان کے منادر کو منہدم کرکے مساجد کی تعمیر ہے“ لیکن اس خود تراشیدہ الزام کا حقیقت سے کس قدر تعلق ہے ہر وسیع النظر مورخ اس کے صحیح نتیجہ تک بڑی آسانی سے پہنچ سکتا ہے۔ لیکن صدافسوس ․․․ کہ بعض کوتاہ نظر مورخین جو متعصب یورپین کے اس بہکاوے پر کہ ”کوے تمہارے کان لے جارہے ہیں“ تو یہ تنگ بیں مورخ بجائے اپنی عقل کو کام میں لاتے ہوئے اپنے اپنے کانوں کا جائزہ لیتے یکلخت کوے کی طرف بھاگ پڑے اور حقیقت سے بالکلیہ بے خبری کا ثبوت دیا؛ حالانکہ عالمگیر سے انھیں مندروں اور مسجدوں کو نقصان پہنچا جو باغیوں کی پناہ گاہ بن چکی تھیں، اگر ایک طرف عالمگیر کے ہاتھوں متھرا اور بنارس کے مندروں کو (ظاہری) نقصان پہنچا تو دوسری طرف اسی نے بے جا پور کی جامع مسجد کو بھی زمین سے ملوادیا نیز گولکنڈہ کی مسجدیں بھی اس زد میں آئیں جس کی شہادت ایک منصف مزاج ہندو مورخ ”بی، این، پانڈے“ کی تحریر میں دیکھی جاسکتی ہے۔ تحریر کرتے ہیں: ”یہ بات بالکل غلط ہے کہ متھرا اور بنارس کے یا کہیں دوسری جگہ کے منادر کو توڑکر مسجدیں تعمیر کرائیں۔“ اب خود وہ مورخ اپنی فہم کو وسیع کرے جس نے بہار کے کالج میں داخل شدہ ایک کتاب میں صاف طور پر یہ سوال قائم کردکھایا ہے کہ: ”اورنگ زیب نے مندر منہدم کرواکر کون سی مسجد تعمیر کروائی“ اور جناب پانڈے اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ آگے مزید گویا ہیں: مہا کال مندر (اجّین)، بالا جی مندر (چتر کوٹ) کا ماکھیہ مندر (گوہاٹی) جین مندر (گرنار) گرودوارا رام رائے (دہرا دون) وغیرہ کو (عالمگیر نے) جاگیر عطا کرتے وقت اس دعا کی ہدایت کی کہ ․․․ اس کے خاندان میں تاقیامت حکومت بنی رہے۔“ (بحوالہ عہد وسطیٰ میں مشترکہ تمدن اور قومی یکجہتی،ص:۱۵۶)
اسی طرح دیگر بعض مورخین نے محمود غزنوی پر بھی اپنا سارا نزلہ اتارا ہے اور اس کے اندر سب سے بڑی خامی یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ ہندو کو زبردستی مسلمان بناتا تھا اورجو انکار کرتا تو اسے قتل کردیتا تھا؛ لیکن اس سفید جھوٹ کا پردہ فاش راجا جے پال کے اس واقعے سے ہوتا ہے کہ ”جے پال“ کی ۵/اگست ۱۰۰۱/ میں گرفتاری ہوئی اور سلطان محمود غزنوی نے پشاور کے میدان میں فتح حاصل کرکے راجا کو مع اس کے ۱۵/ سردار کے اپنے ساتھ غزنی لے گیا اور مارچ ۱۰۰۲/ کو تقریباً آٹھ مہینے اپنے ہمراہ رکھنے کے بعد غزنی سے رخصت کیا؛ لیکن نہ تو اسے زبردستی مسلمان بنایا اور نہ ہی -مسلمان نہ ہونے کی صورت میں- اسے قتل کیا، تاریخ شاہد ہے کہ وہ صحیح و سالم غزنی سے واپس آیا۔ اس واقعے سے جہاں غلط فہمیوں کی جھوٹی عمارتیں منہدم ہوتی ہیں وہیں محمود کی بے پایاں شرافت اور عفو و درگذر کا بھی پتہ چلتا ہے۔
گذارش
مذکورہ بالا تحریر سے ہرعقلمند شخص بآسانی یہ اندازہ کرسکتا ہے کہ شاہانِ مسلم جب ہندوستان آئے تو اپنے ساتھ کیا لائے، ہندوستان پستی کی کس تہہ تک پہنچ چکا تھا اس کو بلندی کے کس معیار پر پہنچایا۔
سارے بادشاہ سرزمین ہند پر باغباں بن کر آئے اور اپنی بوقلمونی ذہن و افکار اور مذہبی قوت کو اس کی باغبانی اور اس کو خوشگوار بنانے میں صرف کیا، بقدر ضرورت زمین بھی کریدی اور خس و خاشاک کو صاف کرکے از سر نو ایک شاندار اور متنوع گلوں کی پھلواری قائم کی، ہرطرح اس کی آبیاری کی اور اس کے وہ پھول جو صدیوں سے طبقہ واریت، دیوتاؤں کی کثرت اور نفسانیت و رہبانیت کے بادِ سموم جھلس رہے تھے- کو نئی زندگی عطا کی اور پھلنے پھولنے کی مکمل راہیں ہموار کیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ آج اگر ہم تعصب و نفرت کی دبیز تہہ کا آپریشن کرکے فرقہ واریت کی ہلاکت خیز بیماری سے نجات چاہتے ہیں اور ہندومسلم ایکتا قائم کرنے کے خواہاں ہیں تو ہمیں یورپ کی دجل آفرینی جال سازیوں سے اپنی نگاہوں کو موڑ کر حق و انصاف کی صحیح کسوٹی اختیار کرنا ہوگی، اور تعصب و اختراعات سے بالاتر ہوکر نسل جدید کے سامنے اپنے ملک ووطن کی صحیح تاریخ پیش کرنا ہوگی۔ جبھی ہمارا بابِ ہند کے دوپاٹ بننا ممکن ہوسکے گا تاکہ ہمارے اصل دشمن – جو ہمیں باہم لڑانا چاہتے ہیں – کو منھ کی کھانی پڑے، اور جس طرح ہم پہلے سے ہندی رہے ہیں آئندہ بھی ہندی ہی رہیں۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ8، جلد: 91 ، رجب -شعبان 1428 ہجری مطابق اگست2007ء