(۱)   نام کتاب:            ذکر زکریا (دوروزہ بین الاقوامی مذاکرہ علمی بعنوان حضرت شیخ الحدیث

                               مولانا محمد زکریا کاندھلوی مدنی میں پیش کئے گئے مقالات کا مجموعہ)

       صفحات:                  چھ سو سولہ (۶۱۶)

       ناشر:                  مرکز الشیخ ابی الحسن الندوی جامعہ اسلامیہ مظفر پور اعظم گڈھ

       سن طباعت:         ۱۴۲۷ھ – ۲۰۰۶/

       قیمت:                مرقوم نہیں

       ملنے کے پتے:        جامعہ اسلامیہ مظفر پور اعظم گڈھ، کتب خانہ یحییٰ سہارن پور یوپی

                               مکتبہ ندویہ دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوٴ، مکتبہ الفرقان لکھنوٴ،

                               مکتبہ نعیمیہ دیوبند سہارنپور۔

حضرت اقدس شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی ثم مدنی قدس سرہ کی شخصیت علمی و دینی حلقوں میں جانی پہچانی ہے۔ حضرت موصوف عصر حاضر کے ان ممتاز ترین علماء و فضلاء میں سے تھے جن کے فیوض و برکات اور محاسن و کمالات سے آج ایک عالم مستفید ہورہا ہے۔ حضرت اقدس کی ذات گرامی اپنی گونا گوں وسیع تر خدمات کے لحاظ سے ”کان امة واحدة“ کے مصداق تھے۔ وہ بیک وقت حدیث پاک کے اعلیٰ درجہ کے مدرس اور حافظ ومحدث کے رشد وہدایت اور تربیت باطن کے بلند پایہ شیخ ومرشد، اسلامی علوم و معارف کے نامور مدون و مصنف اور عالمگیر دینی تحریک جماعت تبلیغی کے سرپرست و نگرانِ اعلیٰ تھے۔ اور اپنے زمانہ میں مسلمانوں کے ہر طبقہ کے مرجع و مرکز تھے۔ مہمانوں کا ہجوم، واردین و عابدین کی آمد و رفت، درس حدیث، سالکین کی اصلاح و تربیت، اور باہر سے آنے والی جماعتوں کو ہدایات اور سلام ومصافحہ کے بعد ان کو رخصت کرنا، غرضیکہ شب و روز کا اکثر حصہ انہیں مصروفیتوں کی نذر ہوجاتا تھا بایں ہمہ سیکڑوں کتابوں کی تصنیف و تالیف جس میں بعض نہایت ضخیم اور متعدد جلدوں پر مشتمل ہیں جسے وقت کی برکت اور حضرت کی کرامت ہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ورنہ ان سارے مشاغل کے ساتھ علمی و تصنیفی خدمات کا یہ گراں قدر ذخیرہ اپنے پیچھے چھوڑ جانا بظاہر کار مشکل معلوم ہوتا ہے۔

زیر تبصرہ کتاب میں حضرت اقدس کے انہیں کمالات و محاسن کا تفصیل کے ساتھ اظہار و بیان ہے۔ کتاب ضخیم ہونے کے باوجود اپنے موضوع و مواد کے تنوع اور مفید ونایاب معلومات کی بنا پر مطالعہ کے وقت گراں نہیں معلوم ہوتی، مقالات و مضامین کی ترتیب و تدوین میں مرتب کی سلیقہ مندی ورق ورق سے ظاہر ہوتی ہے۔ البتہ ابتدائیہ ذرا دراز ہوگیا ہے پھر بھی فائدے سے خالی نہیں ہے۔ پوری کتاب ۴۸ عنوانات پر مشتمل ہے اور اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ حضرت شیخ کی زندگی کا ہر شعبہ نظروں کے سامنے آجائے۔ مزید براں آخر میں آپ کی شخصیت اور خدمات کا اجمالی مرقع بھی شامل کتاب کردیاگیا ہے۔

بہرحال کتاب اپنے مضامین، ترتیب، حسن کتابت و طباعت اور ظاہری تزئین و آرایش ہر اعتبار سے لائق تحسین و ستائش ہے اس لئے بجا طور پر توقع ہے کہ اوساط علمیہ میں یہ مجموعہٴ خوبی ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا۔

$ $ $

(۲)  نام کتاب :             الطیب الذکی شرح الکوکب الدری

       ماتن:                 حضرت مولانا محمد یحییٰ کاندھلوی ۱۳۳۴ھ

                               تلمیذ حضرت قطب ارشاد مولانا گنگوہی

       شارح     :           مولانا عبدالغفار بستوی استاذ حدیث مدرسہ امینیہ دہلی

       سائز:                 ۱۶/۳۶*۲۳

       صفحات:                  جلد اول ۷۰۰ و جلد ثانی ۷۲۴

       ناشر:                  کل ہند تنظیم المسلمین نئی دلی

       قیمت:                ہر دو جلد پانچ سو روپئے

       ملنے کے پتے:        کل ہند تنظیم المسلمین ذاکر نگر گلی نمبر ۷، اوکھلا نئی دلی۔۲۵

                                کتب خانہ عزیزیہ جامع مسجد دہلی۔۶،مکتبہ حجاز جامع مسجد دیوبند

                               ادارہ تالیفیات اشرفیہ تھانہ بھون مظفر نگر وغیرہ۔

یہ کتاب حضرت قطب ارشاد مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ کے درس ترمذی شریف کے افادات و تحقیقات پر مشتمل ہے جسے حضرت اقدس کے تلمیذ رشید و خادم خاص حضرت مولانا محمد یحییٰ محدث کاندھلوی والد ماجد حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہما اللہ نے دوران درس ضبط کیا تھا۔ بعد میں حضرت شیخ الحدیث قدس سرہ نے اس پر حواشی لکھ کر الکوکب الدری کے نام سے شائع کیا تھا۔

زیر نظر اردو ایڈیشن اسی ”الکوکب الدری“ عربی کا ترجمہ اور مشکل مباحث کی تسہیل و تشریح ہے۔ مترجم موصوف خود حدیث پاک کے کہنہ مشق کامیاب مدرس ہیں مزید براں معروف عالم حدیث مولانا زین العابدین معروفی کی تعدیل و توثیق نے کتاب کی معتبریت پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ ابتداء میں محقق عالم اور تذکرہ نگار مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی کے قلم سے حضرت گنگوہی کا تفصیلی اور حضرت مولانا محمد یحییٰ کاندھلوی کے (جن کی علمی کاوشوں سے یہ املائی شرح وجود میں آئی) اجمالی تذکرہ خاصے کی چیز ہے۔ مترجم نے ترجمہ میں لفظ کے ساتھ محاورہ اور سلاست زبان کا پورا لحاظ رکھا ہے جس سے بڑی حد تک ترجمہ کے بجائے یہ ایک مستقل تصنیف بن گئی ہے۔ امید ہے کہ اوساط علمیہ میں موصوف کی یہ خدمت قدر کی گناہ سے دیکھی جائے گی بالخصوص اصحاب درس علماء و طلبہ کے طبقہ میں قبولیت حاصل کرے گی۔

$ $ $

(۳)  نام کتاب :           عمامہ کے فضائل اور مسائل

       مصنف   :           مولانا روح اللہ نقشبندی غفوری

       صفحات   :           ایک سو بہتر (۱۷۲)

       مہتمم طباعت:       حضرت مولانا محمد طلحہ کاندھلوی مدظلہ العالی

       تاریخ طباعت:      اپریل ۲۰۰۶ء

       ناشر       :           کتب خانہ یحیوی متصل مظاہر علوم سہارن پور

       ملنے کے پتے:        مکتبہ الحرمین امام المسجد الشیخہ دبئی، مکتبہ مدنیہ دیوبند سہارنپور،

                                مکتبہ حذیفہ کٹرہ اصطل قصبہ لہرپور ضلع سیتاپور یوپی وغیرہ

یہ کتاب جیسا کہ نام سے واضح ہے عمامہ (پگڑی) کے موضوع سے متعلق ہے۔ عمامہ باندھنا مسنون ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اکثر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کا اہتمام کرتے تھے۔ ابھی تیس چالیس سال پہلے حضرات علماء کے طبقہ میں اس کا اچھا خاصا رواج تھا اب شاذ و نادر ہی سروں پر عمامہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ مصنف موصوف نے مسلمانوں کو اس سنت کے قائم کرنے کی جانب توجہ دلانے کی غرض سے یہ رسالہ مرتب کیا ہے۔ سولہ ابواب اور ایک سو چورانوے عنوانات پر رسالہ مشتمل ہے۔

       مصنف نے کتاب کو مفید سے مفید تر بنانے کی غرض سے اسلامی دلائل کے ساتھ جابجا عصر جدید کی تحقیقات سے بھی بھرپور استفادہ کیا ہے جس سے کتاب قدیم و جدید علوم و اکتشافات کا دلچسپ مجموعہ بن گئی ہے اور عمامے کی اہمیت اچھی طرح سے مبرہن ہوکر سامنے آگئی ہے۔ بلا تردد یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ زیر نظر رسالہ اپنے موضوع پر نہایت جامع اور بے مثل ہے۔ جس پر مصنف موصوف بجا طور پر مستحق تحسین و ستائش ہیں۔ اور توقع کی جاتی ہے کہ علمی و دینی حلقوں میں قبولیت سے ہم کنار ہوگی۔

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ9، جلد: 90 ‏،شعبان1427 ہجری مطابق ستمبر2006ء

Related Posts