از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی، 15 – گاندھی روڈ، دہرہ دون

۱۹۸۱/ اور ۱۹۸۵/ کے ریزرویشن مخالف مظاہروں، جلوسوں، ہنگاموں کی یاد ۲۰۰۶/ میں پھر تازہ ہوگئی جبکہ حکومت نے اعلیٰ تعلیمی، تکنیکی اداروں میں بیک ورڈ کلاس کے طلباء کے لئے ریزرویشن لاگو کرنے کا عندیہ دیا۔ وی، پی، سنگھ کے بعد اس بار نشانہ پر ارجن سنگھ ہیں۔ ریزرویشن کے مخالفین میں ظاہر ہے ہزاروں سال سے مراعات یافتہ ہندو اعلیٰ ذات طبقہ ہی پیش پیش ہے۔ اور اُس کی دلیلیں بھی وہی ہیں جو ہمیشہ سے رہی ہیں یعنی قابلیت اور نفرت اور تقسیم معاشرہ کا ہوا کھڑا کرنا۔ کیا ریزرویشن ہی سماجی، معاشی، معاشرتی ناانصافی کو دور کرنے کا واحد ذریعہ ہے؟ یہ ایک الگ مستقل بحث ہے۔ مگر ریزرویشن کے مخالفین جن جھوٹے دلائل کے سہارے اپنی اجارہ داری اور لوٹ کھسوٹ بنائے رکھنا چاہتے ہیں ان کا تجزیہ اور تعاقب بھی ضروری ہے۔ میڈیکل کالجوں کے طلباء کے احتجاج کے دوران سب سے زیادہ کوالٹی (معیار) اور قابلیت کا راگ الاپا گیا ہے اس کے بعد معاشرہ کی تقسیم کا خطرہ بتایا جارہا ہے۔ایک بینرپر لکھا گیا تھا کہ مریضوں کی درجہ بندی / ذات بندی کرو وغیرہ۔

ریزرویشن کی ضرورت اس لئے پڑی کیونکہ سماج کے بااثر طبقہ نے چونکہ ٪15 کی اقلیت میں رہ کر بھی ٪85 عوام کو گذشتہ 5000 سال سے سماج میں ہر طرح کی سہولیات سے محروم رکھے ہوئے تھا۔ اور اس طبقہ نے سماج کی اہم ترین خدمات اور حقوق کو اپنے لئے مختص کررکھا تھا اور عملاً آج بھی کررکھا ہے گو کہ قوانین بہت خوبصورت اور پیارے پیارے بن گئے ہیں تعلیم، روزگار، تجارت اور دفاع چاروں اہم کلیدی شعبہ اپنے لئے مخصوص کرلئے تھے اور پوری ہشیاری اور ایمانداری سے اپنی مراعات کا دفاع کیا اور موجودہ ریزرویشن مخالف مہم کو بھی ”قابلیت“ اور ”معیار“ کے خوبصورت ناموں کے ذریعہ پورے اعلیٰ ذات نظام خصوصاً میڈیا کے تعاون سے آگے بڑھایا جارہا ہے۔ حالانکہ ان چاروں کلیدی شعبوں میں ان کے ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے تو تاریخی طور سے ان کی نااہلی ثابت ہوتی ہے۔ تعلیم کے میدان میں ملک ہمیشہ ناقابل بیان حد تک پچھڑا رہا اور آج بھی تقریباً آدھی آبادی ناخواندہ ہے۔ دفاع کے میدان میں قابلیت کا یہ عالم تھا کہ وقتاً فوقتاً ․․․․․، رہن، تاتاری،مغل، ڈچ اور انگریز حملہ آور ہوتے رہے۔ اور ملک پر قبضہ کرتے رہے۔ معاشی ترقی کے نام پر آج بھی کروڑوں لوگ غریبی کی ریکھا سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں 174 ملکوں کی فہرست میں ہمارا ملک 127 ویں نمبر پر ہے (انسانی ترقی کے شماریہ میں)

ہاں رشوت کے معاملہ میں 146ملکوں میں 90نمبر پر ہے۔ ملک کی معاشیات قابل، اور ”معیاری“ تاجروں،ماہرین معاشیات، سرمایہ داروں اور کارخانہ داروں کے ہاتھوں میں ہے مگر آج تک کسی بھی میدان میں ایک بھی برانڈ، جو بین الاقوامی معیار کا ہو پیدا نہیں کرپائے۔ آج بھی کسان خود کشی کررہے ہیں، لاکھوں لوگ باہر جاکر معمولی مزدوریاں کررہے ہیں اور بدترین زندگی گذار رہے ہیں، عدالتوں میں بہت قابل لوگ ہیں مگر لاکھوں مقدمہ عدالتوں میں التواء میں پڑے ہوئے ہیں۔ انصاف حاصل کرنا مہنگا بھی ہے اور مشکل بھی ہے۔ سائنس اور ٹکنالوجی میں قابلیت کا یہ عالم ہے کہ ایک چینی مطالعہ میں دنیا کے 2000 تعلیمی اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لے کر بہترین 500اداروں کی فہرست میں IIS کو 250واں اور IIT کھڑگ پور اور دہلی کو 459اور 460واں مقام ملا ہے۔ IIT مدراس، کانپور، ممبئی اور روڑکی کو جگہ بھی نہیں ملی۔ حالانکہ ان تمام اداروں میں ابھی تک کوئی ریزرویشن لاگو نہیں ہے۔ آج بھی ہندوستانی سیاست داں اور VVIP امراض کے علاج کے لئے باہر جانا کیوں پسند کرتے ہیں۔ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اتنے قابل ہیں کہ پیسہ کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ ہندوستان میں جنس کی شناخت کا ٹیسٹ ممنوع ہے مگر یہ قابل ڈاکٹر خوب دھڑلے سے یہ خدمت انجام دے رہے ہیں۔ اس سے آگے بڑھ کر یہ قابل ڈاکٹر بطور قاتل، بھی خوبصورتی سے اپنا فریضہ ادا کررہے ہیں انھوں نے رحم مادر میں مادہ جنین کو ہلاک کرکے ہندوستان میں نر ومادہ کا تناسب خطرناک حد تک کم کردیا ہے۔ یہ قابل ڈاکٹر ذرا بھی موقع ملنے سے مادر وطن کو چھوڑنے کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کب زیادہ بولی لگے اور گورے دیوتاؤں کی خدمت کی جائے۔ حال ہی میں ہندوستان کے مایہٴ ناز طبی تحقیقی اور معالجاتی ادارہ آئی انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کے7 شعبوں سے ان کے سربراہ یا اعلیٰ ذمہ دار ڈاکٹر نکل بھاگے تاکہ زیادہ تنخواہ دینے والوں کو اپنی قابلیت فروخت کرسکیں۔ صلاحیتوں کا فرار Brain drain صرف قابل ڈاکٹر ہی نہیں کررہے ہیں IIM اور IIT سے نکلنے والا ہر قابل ڈگری ہولڈر پہلی فرصت میں امریکہ جانے کی سوچتا ہے اور جاتا بھی ہے۔ ملک کے دیگر شعبوں میں صلاحیتوں کا اتنا فقدان ہوتا جارہا ہے کہ ادھر واقعی صلاحیت یافتہ طلباء رخ ہی نہیں کررہے ہیں۔ اعلیٰ طبقہ بزعم خود ملک کا واحد دیش بھگت طبقہ ہے۔ مگر حال یہ ہے کہ وطن کی خدمت میں جانے کو تیار نہیں ہے۔ ہندوستانی بری افواج میں ہزاروں کی تعداد میں افسروں کی خالی آسامیاں پر کرنے کے لئے موزوں افراد نہیں ہیں۔ گذشتہ ہفتہ ہی فضائیہ کے سربراہ محترم تیاگی نے اپنے انٹرویو میں باقاعدہ اس پر ناراضگی کا اظہار کیا، جب ان سے اس بابت پوچھا گیا کہ فضائیہ میں خدمت کررہے پائلٹوں کی غیر معمولی تعداد نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے لئے درخواستیں دی ہیں تاکہ پرائیویٹ کمپنیوں میں جاکر کئی گنا زیادہ تنخواہ وصول کریں۔ حالانکہ فضائیہ میں کوئی ریزرویشن نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ ان قابل اور محب وطن پائلٹوں کی اکثریت اسی اعلیٰ طبقہ سے ہی متعلق ہوگی۔

ایک اور شعبہ ہے جہاں قابلیت کے علمبرداروں کے جھوٹ کی قلعی کھل جاتی ہے وہ ہے کھیلوں کا شعبہ۔ گوکہ اعلیٰ طبقہ کو ہی یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ روزگار کے غم سے آزاد رہ کر بڑے بڑے مقابلوں میں حصہ لے اور ملکی ٹیم میں نمائندگی کرے۔ مگر 125 کروڑ کے ملک میں ایک دو بھی اولمپک کے طلائی تمغہ حصہ میں نہیں آئے۔ اور کروڑوں ، لاکھوں کی آبادی والے ملک کئی کئی درجن تمغہ حاصل کرتے ہیں۔ ہاکی، فٹ بال، اور کرکٹ کی مثالیں سامنے ہیں کہ موقع ملنے پر اور بے لاگ سلیکشن کرنے پر وہی لوگ زیادہ آتے ہیں جن کو ”کوٹا“ والا کہہ کر مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ”صلاحیت“ اور ”قابلیت“ کے نام پر اجارہ داری برقرار رکھنے کے لئے ہمارا صنعتی طبقہ بہت بلند آہنگ ہورہا ہے۔ مگر اس کی صلاحیت اور قابلیت کا یہ عالم ہے کہ ملک کی کل عالمی برآمدات کا صرف .7% (ایک سے بھی کم) اس کے حصہ میں آتا ہے۔ ”قابلیت“ کی دہائی دینے والوں کے لئے اگر یہ لازمی کردیا جائے کہ ڈاکٹر بننے کے بعد تمہیں لازماً 5-10 سال دیہی علاقوں میں خدمات ادا کرنی پڑیں گی نہیں تو ڈگری منسوخ کردی جائے گی تب معلوم ہوگا کہ کتنے لوگ اس طبقہ سے ڈاکٹر بننے کے خواہشمند ہوں گے۔ ریزرویشن مخالف مہم کو سب سے زیادہ طاقت اور ہوا میڈیا دیتا ہے مگر خود اس میڈیا کی منافقت کا یہ عالم ہے کہ ہر شعبہ میں نکمے پن اور مسابقت کی دہائی دینے والا میڈیا حکومت کے ذریعہ میڈیا میں بیرونی سرمایہ کاری FDI کی بات آتے ہی اتنا بھڑک جاتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہونے پر ملک بالکل برباد ہوجائیگا۔ دنیا بھر کے لولے لنگڑے عذرات کے سہارے میڈیا میں FDIکو وہ ملک کے ساتھ سب سے بڑی غداری بتائے گا۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ہر شعبہ میں بیرونی سرمایہ کاری ہورہی ہے یہاں تک کہ دفاعی ساز وسامان میں جزوی طورپر اس کی تیاری کی بات ہورہی ہے،مگر میڈیا میں بیرونی سرمایہ کاری ابھی تک شجر ممنوعہ ہے کیوں؟

اعلیٰ طبقہ کتنا ایمان دار ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ سب سے زیادہ ٹیکس چور ملکوں میں سے ایک ہمارا ملک ہے۔ اگر گھوٹالوں اور اسکنڈلوں کی بات کی جائے تو تقریباً ہر بڑے گھوٹالہ کے ذمہ دار یا مددگار اسی طبقہ سے آتے ہیں۔ کیونکہ حکومت اور نجی اداروں میں انہیں کی تعداد زیادہ ہے۔ مسٹر نہرو کے زمانہ میں ہونے والے دفاعی رشوت گھوٹالہ سے لے کر بوفورس، ہرشد مہتہ، تہلکہ، UTI تیلگی کے معاملات میں یا تو یہ خود ذمہ دار تھے یا معاون اور مددگار۔ اسی طرح جتنے بڑے جاسوسی کانڈ ہوئے ہیں ان میں بھی یہی طبقہ پیش پیش ہے۔ جس کی تازہ ترین مثال بحریہ کے وار روم سے اتنہائی حساس منصوبہ بندی سے متعلق معلومات فروخت کی گئیں۔ اس سے پہلے بھی اعلیٰ ترین پیمانہ پر جو جاسوسی کانڈ ہوئے ہیں ان میں بھی وہی طبقہ آگے ہے جو دیش بھکتی کا ٹھیکیدار بنتا ہے۔

مسلمانوں کے نقطئہ نظر سے اس بحث کے چند عملی مضمرات ہیں جن سے ہشیار رہنا ضروری ہے:

بحث کو ہندومسلم تنازعہ کی شکل دینا

ماضی میں اس طرح کی کسی بھی بحث کو ہندوقوم کے لئے مضر سمجھ کر اعلیٰ طبقہ اس نفرت اوردشمنی کا رخ مسلمانوں کی طرف موڑ دیتا ہے۔ ماضی میں گجرات میں 1981 اور 1985 میں ایسا ہوچکا ہے۔ جب KHAM (کیشپ، ہریجن،آدی واسی،مسلم) اتحاد عمل میں آیا۔ پھر منڈل کے بعد بھی یہی فارمولہ اپنایا گیا۔ اس کے نتیجہ میں مسٹر وی پی سنگھ کی منڈل کے بعد کی ”انصاف یاترا“ کو وزیر اعلیٰ اترپردیش ویر بہادر سنگھ نے میرٹھ کو فرقہ وارانہ فساد کی آگ میں جھونک کر ناکام کیا۔ ذات برادری کے نام پر ہونے والے احتجاج کو بڑی آسانی سے مذہب کے نام پر ہونے والے ریزرویشن کی تجاویز اور مانگوں سے جوڑ کر ساری نفرت اور غصہ کو مسلم دشمن مسلم مخالف رخ دیا جانا طے ہے۔ اس کے لئے ملت کے رہنماؤں کو آگے آکر حکمت عملی طے کرنی چاہئے کہ یہ آزمودہ نسخہ پھر دوبارہ نہ اپنایا جاسکے۔

مسلمانوں کو منڈلائز کرنے کی سیاسی کوشش

مسلم قوم میں ریزرویشن کو لیکر جو بحث چل رہی ہے جس طرح کچھ لوگ سیاسی شعبدہ باز لیڈروں کے آلہ کار بن کر ”محاذ“ بناکر ایک ”خیالی پلاؤ“ کی تقسیم کی لڑائی میں لگ گئے ہیں۔ ریزرویشن کی صورت میں ابھی سوت کپاس تو مسلمانوں کو ملا نہیں مگر آپس میں لٹھّم لٹھا شروع ہوگئی۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ”ملی اتحاد“ کی قیمت پر جو کچھ ملے گا وہ ہر لحاظ سے گھاٹے کا سودا ہوگا۔ ہاں یہ بھی درست ہے کہ ”ملی اتحاد“ کے نام پر استیصال نہیں جاری رہنا چاہئے۔ اور سماجی انصاف کے لئے حصول میں کسی کو بھی رکاوٹ نہیں بننا چاہئے۔

مذہب کے نام پر ریزرویشن

مذہب کے نام پر ریزرویشن نہیں ورنہ ملک تقسیم ہوجائے گا یہ ایک طرح کی دھمکی ہے جو مسلم مخالف اعلیٰ ذات طبقہ برابر دیتا رہتا ہے۔ حالانکہ ابھی جو ریزرویشن جاری ہے وہ مذہب کی بنیاد پر ہی ہے۔ کیونکہ یہ غیر ہندوؤں کو نہیں ملتا ہے۔ اس لئے جب ایک طبقہ کو یہ سہولت حاصل ہوسکتی ہے تو دوسرے طبقہ کو کیوں نہیں حاصل ہوسکتی؟ جبکہ اس طبقہ کی نمائندگی آزادی کے بعد سے 32% سے گرکر 3%ہوگئی ہے۔

آخر میں اس طرف دھیان دلانا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس سے بھی بری سماجی کشمکش میں آج سے 1427سال پہلے رہنمائے انسانیت نے کیسے عدل،مساوات، انصاف، تقویٰ کے ذریعہ وہ عظیم محیرالعقول انقلاب پیدا کیا کہ ایک حبشی غلام فتح مکہ کے موقع پر حضور … کے کاندھے پر چڑھ کر خانہ کعبہ کی چھت سے پہلی اذان دینے کا تاریخی شرف حاصل کرلیتا ہے، ایک غلام کا بیٹا اُس لشکر اسلام کا سپہ سالار مقرر ہوتا ہے جس میں جلیل القدر معزز اصحاب رسول عام سپاہی کی طرح شامل تھے، اپنی مجموعی سماجی، اخلاقی،معاشی تعلیمات کے نتیجہ میں اس اسلامی انقلاب نے عرب کے انتہائی منتشر، کشمکش، غریبی، جنگ وجدال سے بھرپور معاشرہ میں وہ تبدیلی پیدا کردی کہ محض 32 سال کی مدت میں وہ نتیجہ سامنے آیا کہ پوری مملکت اسلامی میں کوئی بھی شخص زکوٰة کا لینے والا باقی نہیں رہ گیا تھا۔ سماج کے ہر طبقہ نے ہر طرح سے ترقی کی اور وہ بھی اس طرح کہ کسی طبقہ نے کسی پر ظلم نہیں کیا۔ اس کی وجہ صاف یہ تھی کہ بشمول حکمراں اور عوام سب عدل، تقویٰ، احسان، انصاف کے اصولوں پر عمل کررہے تھے اور محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کا سب سے بڑا نمونہ تھے۔ انھوں نے نہ تو اپنے لئے مال، جائیداد اور محلات بنائے اور نہ اپنی نسل کو اپنا جانشین نامزد کیا۔ جبکہ تاریخ میں ظلم اور استیصال کے دو بڑے محرکات عموماً یہی رہے ہیں۔ عرب میں قبل آمد نبی … ایسا ہی تھا اور ہندوستان، مصر و روم میں یہی ظلم روا تھا۔ مسلمان جب تک جتنا اسلام سے چمٹے رہے ان برائیوں سے دور رہے جو مفاد پرستی، مادہ پرستی، گروہی عصبیت سے پیدا ہوتی ہیں۔ دین سے دوری نے انہیں بھی اسی روش پر ڈال دیا جو مادہ پرستی کے ماحول میں کامیابی کا پیمانہ سمجھی جاتی ہیں۔ آج کچھ وقتی ہنگامی تدابیر سے ان کا مکمل علاج ممکن نہیں ہے۔ یہ بیماری مختلف شکلوں میں ہرجگہ جلوہ گر ہے کہ ایک مخصوص طبقہ تمام وسائل اور حقوق پر خود قبضہ جمانا چاہتا ہے باقی ماندہ کو بقدر ضرورت خیرات و امداد کے طورپر تھوڑا بہت دے کر حاتم طائی بھی بننا چاہتا ہے۔ وقتی ہنگامی تدبیروں کے ساتھ (ریزرویشن بھی ان میں سے ایک ہوسکتی ہے) مستقل بنیادوں پر مسئلہ کا حل تبھی ممکن ہو جب سماج میں لوٹ، بے انصافی، مادہ پرستی، اقربا پروری کے بجائے انصاف، خدا ترسی، عدل و انصاف پروری کے اصول رائج ہوں اور حکمراں طبقہ خود اپنے عمل سے اس کی مثال پیش کرے۔

نوٹ: مضمون کی تیاری میں راجا شیکھر اندرو آئی ایے ایس، وویک کمار جے این یو اور ڈاکٹر ادت راج سے استفادہ کیاگیا ہے۔

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ9، جلد: 90 ‏،شعبان1427 ہجری مطابق ستمبر2006ء

Related Posts