حضرت امیر الہند، فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنیؒ کی اندوہناک رحلت پر ملک و بیرون ملک

کی سیاسی، دینی، علمی، اور سماجی شخصیات کی جانب سے خراج عقیدت اور تعزیتی پیغامات

ترتیب: مولانا شوکت علی قاسمی بستوی‏، استاذ دارالعلوم دیوبند

۶حضرت امیرالہند، فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی – نوراللہ مرقدہ – کی اندوہ ناک رحلت کی خبر سے ملک و بیرون ملک میں صفِ ماتم بچھ گئی اور رنج و الم کی لہر دوڑ گئی، عظیم سیاسی، سماجی شخصیات، ملک کے قائدین و رہنما، اسلامی تنظیموں اور اداروں کے سربراہ، مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران اور جلیل القدر علمائے کرام نے اپنے دلی تأثرات اور رنج و غم کے جذبات کا اظہار فرمایا، دنیا بھر کے مدارس، دینی اداروں اور مساجد میں دعائے مغفرت اور ایصالِ ثواب کا اہتمام کیاگیا، ملک کے کونے کونے اور بیرونِ ملک سے تعزیتی وفود، تعزیتی فیکس اور خطوط کی آمد اور فون پر تعزیت کا سلسلہ جاری ہے۔

ذیل میں چند اہم شخصیات کے تعزیتی پیغامات پیش کیے جارہے ہیں:

عزت مآب جناب اے پی جے عبدالکلام صاحب، صدر جمہوریہٴ ہند نے جناب مولانا محمود مدنی ناظم عمومی جمعیة علماء ہند کے نام اپنے تعزیتی پیغام میں فرمایا:

آپ کے والد ماجد جناب مولانا سید اسعد مدنی صاحب کی وفات کی خبر سن کر مجھے دلی صدمہ ہوا ہے۔ مولانا اسعد مدنی ایک معروف مذہبی عالم، قوم پرست اور مجاہد آزادی تھے، ان کے گذر جانے سے ہم نے ایک ایسا مدہبی اور سماجی لیڈر کھودیا ہے جو اپنی پوری زندگی عوام کی بہبود کے لئے کام کرتا رہا، برائے مہربانی میری تعزیت قبول فرمائیں، اور اپنے اہل خانہ کو بھی پہونچادیں خدائے بزرگ و برتر سے میں یہی دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کو اور آپ کے سبھی گھر والوں کو اس ناقابل تلافی نقصان کو برداشت کرنے کی طاقت عطا فرمائے۔

وزیر اعظم جناب منموہن سنگھ، جمعیة علمائے ہند کے دفتر تشریف لائے، حضرت کے قدموں میں گلہائے عقیدت پیش کئے، حضرت مولانا سید ارشد مدنی، جناب مولانا اسجد مدنی، جناب مولانا محمود مدنی، جناب حافظ مودود مدنی وغیرہ سے تعزیت کی، اپنے دلی رنج و غم کا اظہار کیا، اور فرمایا کہ: ”آج ملک، ایک عظیم قائد اورہر دل عزیز رہنما سے محروم ہوگیا، ملک و قوم کے لئے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی“ متحدہ ترقیاتی اتحاد (U.P.A) کی چیرپرسن اور صدر آل انڈیا کانگریس محترمہ سونیا گاندھی بھی تشریف لائیں، حضرت مدنی کے گرامی قدر برادران اور صاحبزادگان محترم سے اپنے رنج و افسوس کا اظہار کیا، حضرت کو خراجِ عقیدت پیش کیا اور اپنے تعزیتی پیغام میں فرمایا کہ: مولانا اسعد مدنی عظیم مفکر، بلند پایہ رہنما اور بڑے قد آور انسان تھے ان کی بے لوث خدمات اور بصیرت افروز رہنمائی ان کے ارادت مندوں اور پیروکاروں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوگی انھوں نے جس جمعیة علمائے ہند کی ۳۰/ سال تک قیادت کی اس نے ہندوستان کی کثیر جہتی روایتوں کو ہمیشہ ملحوظ رکھا۔ مولانا ایک پختہ قوم پرست تھے ان کو سبھی طبقات کااحترام حاصل تھا وہ زندگی بھر فرقہ پرستی سے لڑتے رہے وہ ہماری سیکولر اقدار کی حفاظت اور انکی تشہیر کے لئے زندگی بھر کوشاں رہے وہ ہمیشہ یاد کئے جائیں گے، ساتھ ہی ہندستانی کلچر کے ایک نمائندہ کی حیثیت سے ان کی زندگی آنے والی نسلوں کے لئے تحریک کا کام کرتی رہے گی“ – مرکزی وزیر ریلوے جناب لالو پرساد یادو حضرت کے انتقال کے بعد جمعیة علماء ہند کے دفتر سب سے پہلے پہنچے، اور تقریباً ایک گھنٹہ تک رہے، انھوں نے حضرت کی رحلت کو ملک و قوم کے لیے بڑا نقصان قرار دیا۔

وزیر اعلیٰ دہلی شیلا دکشت بھی تعزیت کیلئے جمعیة دفتر تشریف لائیں اور اپنے رنج و غم کا اظہار کیا اور کہا کہ: ملک کی ترقی اور قوم کی فلاح و بہبودی کیلئے مولانا کی عظیم خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

دیگر حضرات میں جناب احمد پٹیل صاحب سیاسی مشیر مسزسونیا گاندھی، مرکزی وزراء جناب عبدالرحمن انتولے صاحب، کے، اے رحمان خان صاحب چیرمین راجیہ سبھا، جناب کپل سبل صاحب، شاہی امام جامع مسجد دہلی جناب مولانااحمد بخاری صاحب، نائب اسپیکر دہلی اسمبلی جناب شعیب اقبال صاحب، جناب عزیز برنی صاحب ایڈیٹر روزنامہ راشٹریہ سہارا اور مسلم وغیرمسلم تنظیموں کے دیگر رہنما شامل تھے۔

دارالعلوم دیوبند کے مہتمم عالی مقام حضرت اقدس مولانا مرغوب الرحمن صاحب مدظلہ نے اپنے دلی کرب و صدمے کااظہارکرتے ہوئے فرمایا: ”حضرت مولانا سید اسعد مدنی نوراللہ مرقدہ کی رحلت میرے لئے بڑا ذاتی حادثہ ہے، ان کا انتقال پرملال دارالعلوم دیوبند، جمعیة علماء ہند اور مسلمانانِ ہند ہی نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا زبردست اور ناقابل تلافی نقصان ہے، انھوں نے بحران اور انتشار کے وقت دارالعلوم کی بے لوث وبے مثال خدمت کی، دارالعلوم کے لئے ان کی خدمات نہایت وقیع ہیں، گذشتہ سالوں میں دارالعلوم کی حیرت انگیز تعلیمی و تعمیری ترقیات حضرت مولانا کی مساعی جمیلہ کی رہین منت ہیں وہ دارالعلوم کے لئے ہمیشہ فکرمند رہتے تھے، اساتذہ کارکنان اور طلبہ عزیز کا بڑا خیال رکھتے تھے، انھوں نے طلبہ عزیز کے ماہانہ وظائف میں اضافہ، ان کے قیام و طعام کا نظم بہتر بنانے اور ان کی دیگر ضروریات کی تکمیل پر ہمیشہ توجہ مرکوز رکھی، اللہ تعالیٰ ان کی ہمہ گیر خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔“

جمعیة علمائے اسلام پاکستان کے رہنما، پاکستان نیشنل اسمبلی میں اپوزیشن کے لیڈر اورمتحدہ مجلس عمل کے سربراہ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب زیدمجدہم خصوصی طیارے کے ذریعہ نئی دہلی تشریف لائے اور ۲۰/ رکنی وفد کی قائد کی حیثیت سے دیوبند پہنچے، قبرستان میں حاضر ہوکر دعا وزیارت کی اور مدنی منزل میں حضرت کے پسماندگان و اخلاف سے تعزیت فرمائی، اپنے قلبی رنج و الم کا اظہار کیا اور فرمایاکہ: حضرت مدنی کے انتقال پرملال سے عالم اسلام ایک ممتازاور اہم شخصیت سے محروم ہوگیا، ان کی رحلت سے جو خلا پیداہوا ہے اس کا پر ہونا بیحد مشکل ہے، حضرت ہم سب کے لیے مینارئہ نور تھے، آج ملت اسلامیہ جن مشکل حالات سے گزر رہی ہے ان میں حضرت مدنی کی قیادت و رہنما ئی کی بڑی سخت ضرورت تھی“ ان کے ہمراہ آنے والے وفد میں صوبائی وزراء، ممبران پارلیمنٹ اور جلیل القدر علماء شامل تھے، جن میں مولانا عطاء الرحمن صاحب، حافظ حسین احمد صاحب،جناب شاہ ہدایت اللہ صاحب، مولانا مطیع اللہ صاحب، جناب حامد الحق صاحب، جناب مفتی ابرار صاحب، جناب مولانا آغا صاحب، جناب نصیب علی صاحب، جناب مولانالیاقت علی پانجیٴ صاحب، جناب مولانا معراج الدین صاحب،مولاناغلام صادق صاحب، مولانا شجاع الملک صاحب، جناب عزیز احمد صاحب، ہائی کمشنر پاکستان برائے نئی دہلی جناب منورسعید بھٹی ڈپٹی ہائی کمشنر وغیرہ حضرات شامل تھے اس وفد نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ حضرت مولانا سید اسعد مدنی کسی ایک ملک کے مدہبی رہنما نہیں تھے ان کی رحلت موت العالِم موت العالَم کی مصداق ہے۔

جانشین حکیم الاسلام، حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی مدظلہ نائب صدر مسلم پرسنل لا بورڈ ومہتمم دارالعلوم وقف دیوبند، یہ المناک خبر سنتے ہی بعد نماز مغرب فوراً مدنی منزل تشریف لائے، تعزیت فرمائی اور حضرت کی وفات کو قوم وملت کیلئے بہت بڑا نقصان بتایا، دارالعلوم وقف میں منعقد جلسہٴ تعزیت میں اپنے تعزیتی تاثرات بیان کرتے ہوئے حضرت نے فرمایا: ”مولانا سید اسعد مدنی اجتماعی فکر و ذہن اور اعمال و خدمات کی وسعتوں کے لحاظ سے ملت اسلامیہ کی ایک معتبر شخصیت تھے اسی وجہ سے ان کی وفات سے غیر معمولی غم محسوس کیاگیا، مرحوم اختلاف واتفاق دونوں میں اصول کو اہمیت دیتے تھے، عمر کے آخری پڑاؤ پر بھی وہ ملت اسلامیہ کی فلاح و بہبودی کیلئے سرگرم عمل رہے۔

حضرت مولا نا محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ ناظم ندوة العلماء و صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ نے ندوة العلماء میں منعقدہ تعزیتی اجلاس میں فرمایا کہ: ”حضرت مولانا سید اسعد مدنی کی وفات ایک اہم حادثہ ہے، انھوں نے اپنے عظیم والد شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کی صحیح جانشینی کی، انھوں نے ملک وملت کی فلاح و بہبود کیلئے بڑی جانفشانی سے کام لیا، تاریخ میں ایسی کم شخصیات گذری ہیں جنھوں نے سیاست کے ساتھ اصلاح باطن کو بھی جمع کیا ہو،اور عوامی اور سماجی زندگی میں رہتے ہوئے بھی علمی اشغال اور تزکیہٴ نفس پر توجہ مرکوز رکھی ہو، انھوں نے پارلیمنٹ کی سطح سے مسلم مسائل کے حل کی کوشش کی، انھوں نے مسلمانوں کے مسائل اعلیٰ حکام اورارباب اقتدار تک پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ان کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی“۔

جناب ڈاکٹر عبداللہ عمر نصیف سابق جنرل سکریٹری رابطہ عالم اسلامی، ڈاکٹر یوسف قرضاوی صدر تنظیم الخیر جدہ، شیخ احمد محمد علی صدر اسلامی ترقیاتی بینک جدہ سعودی عرب، جناب سیوراج پاٹل وزیر داخلہ ہند، وغیرہ حضرات نے اپنے تعزیتی پیغامات میں مولانا مدنی کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور اسے ملک و ملت کے لیے ناقابل نقصان قرار دیا۔

حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحب کشمیری مدظلہ شیخ الحدیث دارالعلوم وقف نے دارالعلوم وقف میں مغرب کے بعدہی ایصال ثواب کی ہدایت فرمائی اور تعزیت کے لئے خود دردولت مدنی پر تشریف لاکر اپنے قلبی رنج و کرب کا اظہار فرمایا اور حضرت کی وفات کوملت اسلامیہ کے لیے زبردست نقصان قرار دیا اور فرمایا کہ ”حضرت مولانا اسعد مدنی مرحوم جمعیة علماء ہند کے صدر نشین، دارالعلوم دیوبند کے قائد اور بہت سی ملی و ملکی تحریکات کے معمار و شریک کار تھے خانقاہ مدنی ان کے اَنفاس سے گرم، ہندوستانی سیاست ان کے آتشیں نفوس سے تپتا ہوا ماحول، مستعد فعّال، جدوجہد ان کاامتیازی وصف تھا، وہ وسیع الحوصلہ اور فراخ دل تھے اور اپنے نامور باپ کی ہرگوشے میں جانشینی کی اور کافی حد تک اس کا حق اداکیا۔“

حضرت مولانا محمد شاہد صاحب امین عام جامعہ مظاہر علوم سہارن پور نے فرمایا: ”حضرت مولانا سید اسعد مدنی کا حادثہٴ وصال کوئی ایسا حادثہ نہیں ہے جس کو معمولی سمجھ لیاجائے بلکہ امت اسلامیہ کو عموما اور ہندوستانی مسلمانوں کو خصوصا اس سے ایک کاری زخم لگا ہے جس کی کسک نہ معلوم کب تک محسوس کی جاتی رہے گی۔ ماضی کی طرح مستقبل میں جب بھی ملت کی رہبری کی ضرورت پیش آئے گی تو حضرت مولانا مرحوم کے مجاہدانہ عزائم کی تصویر ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے بھرپور انداز میں ابھر کر سامنے آجائے گی۔ جامعہ مظاہر علوم کے لئے اس سانحہ کی سنگینی اس لئے بھی بڑھی ہوئی ہے کہ وہ شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب کی پسندیدہ اور منظور نظر شخصیت تھے ان کی مجاہدانہ للکار سے فرقہ پرستوں کے ناپاک عزائم تہس نہس ہوجاتے تھے۔“

حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب مدظلہ صاحبزادہ محترم حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمة اللہ علیہ سراپا حزن والم نظر آئے، شب میں تین بجے ہی تشریف لائے، تعزیت فرمائی، نماز جنازہ بھی آپ ہی نے پڑھائی اوراپنے دلی رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ”محترم جناب بھائی اسعد صاحب مدنی کا تعلق میرے والد ماجد سے بڑا گہرا تھا والد ماجد حضرت شیخ بھی ان سے بڑی محبت فرماتے تھے، ان کے انتقال سے مجھے گہرا صدمہ پہنچا ہے اللہ تعالیٰ ان کی تمام دینی ، ملی نشانیوں کی خاص طور پر دارالعلوم اور جمعیة علماء ہند کی پوری پوری حفاظت فرمائے اور اپنوں اور غیروں کے شر سے محفوظ رکھے۔“

امیرجماعت اسلامی ڈاکٹر محمد عبدالحق انصاری اور قیم جماعت مولانا جعفر نے انتہائی رنج وغم کا اظہار فرمایااور حضرت کے سانحہ وفات کو ملک وملت کاعظیم نقصان قرار دیا، انھوں نے کہا: مولانا مدنی کی پوری زندگی دین و ملت کی خدمت سے عبارت تھی، وہ اہم مسائل پر جرأت و ہمت کے ساتھ تحریک چلانے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔

کانگریس اعلیٰ کمان کے رکن اور سابق وزیر ریل جناب سی․ کے․ جعفر شریف نے جمعیة علمائے ہند کے صدر اور سابق رکن پارلیمنٹ مولانا سید اسعد مدنی کے انتقال پر گہرے دکھ اور صدمے کااظہار کیا اور مرحوم کو خراج عقیدت پیش کیا۔

 جناب سید شہاب الدین سابق ایم پی نے کہا کہ آل انڈیا مجلس مشاورت مولانا مدنی کی قومی وملی خدمات کااعتراف کرتے ہوئے شدید رنج و غم کا اظہار کرتی ہے۔ مولانا مدنی کی وفات کو ملک و ملت کیلئے ناقابل تلافی نقصان سمجھتی ہے۔ ان کی سرکردگی میں جمعیة علماء نے مختلف موقعوں پر ملت کو درپیش مسائل کیلئے تحریک چلائی اور نازک مسئلوں پر دوسری جماعتوں کو ساتھ لے کر حکومت وقت اور سیاسی پارٹیوں پر اثر انداز ہوئی۔

مرکزی جمعیة اہل حدیث ہند کے ناظم عمومی مولانااصغر امام مہدی سلفی نے اپنے تعزیتی پیغام میں حضرت مولانا مدنی کی رحلت پر پنے گہرے رنج و غم کو اظہارکیا اور کہا کہ ”مولانا قدیم ملی پلیٹ فارم جمعیة علماء ہند کے طویل عرصے تک ناظم عمومی اور پھر امیر رہے اور بھرپور زندگی گذار کر رحلت فرمائی۔“

جناب نرائن دت تیواری وزیراعلیٰ اترانچل نے اپنے گہرے رنج والم کا اظہار کیااور کہا: ”حضرت مولانا حسین احمد مدنی کی روایت کی پاس داری کرکے مولانا اسعد مدنی نے جس طرح آزادی میں علماء کے ساتھ مل کر قربانیاں دیں ان کے لئے ہم ہمیشہ ان کے مقروض رہیں گے“

جناب سلمان خورشید، صدر اترپردیش کانگریس نے کہا: ”کانگریس آج ایک سرپرست سے محروم ہوگئی ہے“

جناب قاضی رشید مسعود ممبرپارلیمنٹ نے اپنے تاثرات میں فرمایا: ”اسلاف کی وراثت کو سنبھالنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں، لیکن مولانا سید اسعد مدنی نے اپنے بزرگوں اور اسلاف کی روایت و اقدار کو زندگی بھر سنبھالے رکھا مولانا کی شخصیت مسلمانوں ہی کے لئے باعث احترام نہیں تھی بلکہ تمام انصاف پسند اور سیکولر لوگوں کے لئے مولانا ایک بلند مقام رکھتے تھے انھوں نے ہندوستان میں ہی نہیں بیرون ملک بھی مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے موثر اقدامات کیے“۔

چودھری اجیت سنگھ صدر اشٹریہ لوک دل نے کہا :”مولانا سید اسعد مدنی کسی قوم یا فرقہ کے لیڈر نہیں تھے وہ اس ملک کی طاقت تھے ہم ان کی کمی کو شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں۔“

نیتا نندسوامی سابق وزیر اعلیٰ اترانچل نے اظہار تعزیت کے دوران کہا کہ ”مولانا سید اسعد مدنی مذہب کے نام پر انسانیت کو تقسیم نہیں کرتے تھے انھوں نے ملکی مفادات پر کسی چیز کو ترجیح نہیں دی وہ ایک سچے مذہبی انسان تھے اور زبردست محب الوطن تھے ان کی خدمات ہمیشہ یاد کی جائیں گی۔“

جناب نواب کوکب حمید وزیر حکومت یوپی نے کہا: ”مولانا سیاست میں اس کردار اوراخلاق کے حامل تھے جوآج دستیاب نہیں ہے۔ مولانا اسعد مدنی کی سیاست اصلاح معاشرہ اور پسماندہ افرادکی آواز تھی مولانا کے انتقال سے نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ اس ملک کو بڑا نقصان پہنچا ہے۔“

آل انڈیا ملی وتعلیمی فاؤنڈیشن کے صدر جناب مولانا اسرارالحق قاسمی نے فرمایا: ”حضرت مدنی زندگی بھر ملت اسلامیہ اور اسلامیان ہند کیلئے جدوجہد کی علامت بنے رہے ان کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کی تلافی آسان نہ ہوگی، حضرت مولانا سید اسعد مدنی کی زندگی جہد مسلسل اور سعی پیہم کا عملی نمونہ تھی، وہ حضرت شیخ الہند کے افکار و خیالات کے امین اور حضرت شیخ الاسلام کے سچے جانشین تھے، ایمانی فراست سیاسی بصیرت، اور زبردست قومی ملی سماجی شعور ان کا طرئہ امتیاز تھا وہ سب کے تھے اور سب ان کے تھے۔ بیدار مغزی، اولوالعزمی، ارادہ کی مضبوطی، حالات سے باخبری اور قوم و ملت کی صحیح نباضی نے ان کی شخصیت کو پراعتماد بنادیاتھا انھوں نے اپنی منزل اور اپنا راستہ خود متعین کیا وسعت ظرف، کثرت عمل اورجرأت ان کی شناخت تھی۔“

ڈاکٹر محمد منظور عالم نے فرمایا: ”حضرت مدنی ایسے وقت میں راہی ملک عدم ہوئے جب کہ ملت اسلامیہ کو آپ جیسی عبقری شخصیات کی ضرورت تھی، مولانا مدنی جیسی ملی قیادت کرنے والی ایک قابل قدر شخصیت کااس وقت اٹھ جانا ایک ایسا خلا ہے جس کا پر ہونا بظاہر مشکل نظر آتا ہے یعنی قحطِ رجال کے اس دور میں حضرت مدنی صف اول کے ان بزرگ رہنماؤں میں تھے جنھیں ملت اسلامیہ کا عظیم سرمایہ کہا جاسکتا ہے آپکی وفات کو ملی کونسل بھی اپناغیر معمولی نقصان سمجھتی ہے۔“

جناب مولانا عمید الزماں صاحب کیرانوی کارگذار صدر تنظیم ابنائے قدیم دارالعلوم نے فرمایا: مولانا مدنی نہایت خوش قسمت تھے آپ میں اللہ نے جو بڑی اور نمایاں خوبیاں ودیعت کی تھیں ان میں سے ایک نہایت اہم خوبی ”کسب افراد“ کی ہے وہ دلوں کو جیتنے اور انہیں اپنا بنانے کا ہنر جانتے تھے۔ مولاناکو اللہ نے دینی علم اور عصری شعور و آگہی کے علاوہ گہری اور وسیع ملی و سیاسی بصیرتوں سے بھی نوازا تھا۔“

جناب مولانا فضیل احمد قاسمی صدر مرکزی جمعیة علماء ہند نے حضرت مدنی کے انتقال کو ملک و ملت اور پورے عالم اسلام کے لیے بڑا حادثہ اور نہ پر ہونے والا خلا قرار دیا اور فرمایا کہ” ان کی شخصیت میں درد ملت کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا میں نے ان کی پدرانہ سرپرستی میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ ان کی رحلت سے آج پوری ملت اسلامیہ اشک بار ہے۔ حضرت کاانتقال ایک یادگار تاریخی دور کا خاتمہ ہے“۔

حضرت مولانا محمد رفیع عثمانی مہتمم جامعہ دارالعلوم کراچی نے حضرت مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ کے نام اپنے فیکس میں گہرے صدمے کااظہار فرمایا، مولانا نے لکھا ہے کہ ”اخبارات کے ذریعہ حضرت مولانا سید اسعد مدنی رحمة اللہ علیہ کے انتقال کی المناک خبر مل کر دل پر سخت چوٹ لگی، حضرت عظیم باپ کے عظیم فرزند ہونے کے ساتھ ساتھ ایک متواضع، خوش طبع اور فعال شخصیت کے مالک تھے، انھوں نے عمر بھر مسلمانوں کی خدمت کی، دارالعلوم کراچی میں تعزیتی جلسہ منعقد ہوا اور ایصال ثواب کا بھی اہتمام کیاگیا، سبھی بھائی، بہنوں اور حضرت کے سبھی اہل خانہ کی خدمت میں تعزیت کے ساتھ سلام پیش ہے۔“

جناب مولانا احمد شفیع صاحب مہتمم دارالعلوم معین الاسلام ہاٹ ہزاری بنگلہ دیش نے اپنے فیکس میں تحریر فرمایا کہ حضرت مدنی کی وفات سے ہم سب کو سخت دلی صدمہ پہنچا ہے، مولانا کاانتقال نہ صرف انڈیا کے دینی و علمی اداروں کے لیے بلکہ پورے عالم اسلام کیلئے ناقابل تلافی نقصان ہے آپ نے قوم وملک کے لئے علمی دینی، سیاسی، دعوتی، اوراصلاحی خدمات انجام دی ہیں ہمارے مدرسہ میں ایصال ثواب اور تعزیتی جلسہ ہوا ہم اس صدمہ ہوش ربا میں آپ کے ساتھ شریک غم ہیں۔“

جناب کے اے رحمن چیرمین راجیہ سبھا نے اپنے تعزیتی پیغام میں فرمایا:”بلا شبہ حضرت والا کی وفات ملت اسلامیہ کے لیے ایسا نقصان ہے جس کی تلافی ممکن نہیں، حضرت مولانا مرحوم کا شمار معروف عالم دین، بزرگ، مدبر، دانشور اور بہترین سیاست دانوں میں ہوتا تھا۔ حضرت مولانا اسعد مدنی کی خدمات کا دائرہ صرف علمی حلقوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ارباب اقتدار میں بھی ان کی ذات گرامی کو قدر ومنزلت حاصل تھی، جب کبھی ملک و قوم پر آزمایش کا وقت آیا تو انھوں نے عزم و حوصلہ کے ساتھ، علمی بصیرت اور سیاسی سوجھ بوجھ کے ذریعہ درپیش مسائل کے حل کے لیے اپنی خدمات پیش کیں ان کی مقبولیت و محبوبیت کا دائرہ مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر سے گزرکر غیرمسلموں تک پھیلا ہوا ہے بلاشبہ اس وقت ملت اسلامیہ ایک عالم دین، بزرگ قائد، محسن، ہمدرد اور جامع صفات کی حامل شخصیت سے محروم ہوگئی ہے۔ مولانا مدنی کی رحلت نے ملک و بیرون ملک کے لاکھوں محبت کرنے والوں کی آنکھوں کو نم کیاہے۔

کیا لوگ تھے جو راہِ وفا سے گذر گئے

جی چاہتا ہے نقشِ قدم چومتے چلیں

جناب پرکاش کرات جنرل سکریٹری کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے لکھا: ”مولانا اسعد مدنی کے انتقال کی خبر سن کر مجھے گہرا صدمہ پہنچا ہے، مولانا صاحب جمعیة علماء ہند کے صدر رہے اور اپنی پوری زندگی میں ہندوستانی قومیت اور سیکولرزم کے تئیں وقف رہے، ملک کی عوامی زندگی میں ان کا بہت بڑا تعاون تھا وہ ایک دانا اور روحانی شخصیت تھے وہ طاقت کا ایک ستون تھے اوراقلیتوں کی حمایت میں خود کو ہمیشہ وقف کیے رہتے تھے۔ ہم ان کی محترم یادوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، ان کے اہل خاندان سے دلی تعزیت کرتے ہیں۔“

جناب ایم ایچ مظفری ڈائرکٹر ایران کلچر ہاؤس نئی دہلی نے جناب مولانا محمود مدنی صاحب کے نام اپنے مکتوب تعزیت میں فرمایا: ”طویل علالت کے بعد مولانا اسعد مدنی کے انتقال پرملال پر ہم گہرے رنج و صدمے کااظہار کرتے ہیں، خدائے برتر آپ کواور آپ کے پورے خاندان کو طاقت عطا فرمائے تاکہ آپ اس ناقابل نقصان کو برداشت کرسکیں، خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔“

جناب شیخ صالح بن محمد غامدی سفیر سعودی عرب برائے نئی دہلی نے جناب مولانا محمود مدنی صاحب کے نام اپنے تعزیت نامہ میں فرمایا: ”آپ کے والد ماجد (اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے) کے سانحہٴ وفات کا علم ہوکر بہت ہی رنج و افسوس ہوا، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بے مثال قائد کو اپنی رحمت ورضا میں ڈھک لے، اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے لیے جنت وسیع کردے، اور آپ اور معزز خاندان کو صبر و سکون بخشے“۔

کل جماعتی حریت کانفرنس کشمیر کے چیرمین اورجموں کشمیر کے میر واعظ مولانا محمد فاروق نے سری نگر کی جامع مسجد میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا: ”علوم دینیہ کے عظیم مرکز دارالعلوم دیوبند کے سرپرست جمعیة علماء ہند کے صدر، مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن اساسی اور بزرگ دینی رہنما حضرت مولانا سیداسعد مدنی کی رحلت ملت اسلامیہ ہند کے تئیں نصف صدی پر مشتمل بے لوث دینی وسیاسی خدمات کے شان دار عہد کا خاتمہ ہے۔ علماء کے صف میں ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے جس کی تلافی ممکن نہیں، ہم دارالعلوم دیوبند کے ذمہ داران، جمعیة کے کارکنان کے ساتھ دلی تعزیت پیش کرتے ہیں اور مدنی خاندان کے ساتھ اس عظیم صدمہ اور غم میں شریک ہیں۔“

انجمن ترقی اردو ہند، کے جلسہ تعزیت میں ”ڈاکٹر خلیق انجم“ صاحب نے کہا کہ مولانا مرحوم کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جس کے افراد نے جدوجہد آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا، خود ان کی تعلیم و تربیت مولانا حسین احمد مدنی جیسے عالم و مجاہد آزادی کے زیر سایہ ہوئی، ان کی وفات صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا عظیم نقصان ہے۔ ان کی وفات سے پوری اسلامی دنیا میں رنج و غم کی لہر دوڑ گئی، انجمن کے نائب صدر شریف الحسن نقوی نے کہا: ”مولاناآزاد سے اپنی مذہبی و سیاسی قربت کی بنا پر مولانا اسعد مدنی نے یہ درس لیا کہ ذاتیات کو ایک طرف کرکے سیاسی میدان میں مسلمانوں کی ہر وہ خدمت کی جائے جس سے ان کی سیاسی، سماجی، اقتصادی اور صنعتی ترقی ممکن ہو“۔ پروفیسر شمیم حنفی نے کہا:”مولانا جیسے عالم، مفکر مدبر اور مذہبی رہنما ہندوستان میں بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔“

جناب مولانا محمد ولی رحمانی صاحب مدظلہ سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر نے حضرت مدنی کے انتقال پُرملال پر گہرے رنج کا اظہارکرتے ہوئے فرمایا کہ ”مولانا مدنی کے وصال سے قیادت، خدمت اور ایک نامور عالم دین کی مسلسل جدوجہد کے طویل عہد کا خاتمہ ہوگیا ہے، انھوں نے تقریبا نصف صدی تک جمعیة علماء کی خدمت کی اور طویل عرصے تک دارالعلوم دیوبند کے سربراہ رہے، ساتھ ہی ساتھ مختلف ملی اور دینی تحریکات کے سرخیل رہے، پوری دنیا میں ایک مرشد کی حیثیت سے بھی انھوں نے صلاح واصلاح کی گراں قدر خدمات انجام دیں ان کی زندگی جہد مسلسل اور سعی پیہم کا نمونہ تھی“۔

جناب مولانا سید نظام الدین صاحب امیر شریعت بہار و اڑیسہ و جھارکھنڈ نے اپنے دلی تاثرات میں فرمایا: ”حضرت مولانا سید اسعد مدنی کی رحلت سے ملت اسلامیہ کی بقاء و سربلندی کے لئے اخلاص و للہیت کے ساتھ کام کرنے والوں کی ایسی جگہ خالی ہوگئی جس کا پر ہونا بے حد مشکل ہے، بظاہر کوئی متبادل نہیں نظر آتا، حق تعالیٰ عزیز محترم مولانا محمود مدنی کوان کا صحیح جانشیں بنائے اور عزم و ہمت، حکمت وبصیرت، دینی حمیت و ایمانی غیرت مزید ہمت واستقامت عطا فرمائے، تاکہ امت کی قیادت میں جمعیة علماء کاجو امتیاز ہے اور عوام میں جو اعتماد ہے وہ قائم رہے۔“

جناب مولانا بدرالدین اجمل صاحب قاسمی رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند و صدر مرکزالمعارف (آل انڈیا) وصدر متحدہ جمہوری محاذ (UDF) آسام اپنے اہل خانہ سمیت تعزیت کیلئے دیوبند تشریف لائے اور اپنے تاثرات میں فرمایا کہ۔# ”وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا چلے“۔ آج زہد و تقوی،شجاعت و حمیت اور روحانیت وعزیمت کا سورج غروب ہوگیا، ملک و ملت بالخصوص مسلمانان آسام کو آج حضرت مولانا مدنی کی خدمات کی بے حد ضرورت تھی، مولانا بدرالدین اجمل صاحب کے برادر اکبر جناب الحاج امیرالدین اجمل صاحب بھی تعزیت کے لئے دبئی سے تشریف لائے، اپنے گہرے صدمہ کا اظہار کیا اور ناچیز سے گفتگو کے دوران کہا کہ ”جتنی مقبولیت عوام و خواص میں ملک و بیرون ملک میں حضرت مدنی کو حاصل تھی وہ کسی اور کو حاصل نہ تھی“۔ع

یہ رتبہٴ بلند ملا جس کو مل گیا

مولانا محمد اسماعیل موٹا رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند ومہتمم جامعہ حسینیہ راندیر نے فرمایا: ”یقینا مولانا مدنی کی مشہور و معروف شخصیت، حضرت شیخ الاسلام کے علوم ومعارف اور سیاست مدنیہ کے سچے وارث و امین کا حادثہٴ وفات موتُ العالِم موت العالَم کا مصداق ہے اس آفتاب کے غروب ہونے سے پورا ہندوستان غمگین نظر آرہا ہے۔ یہ ملت اسلامیہ کیلئے دردناک سانحہ ہے مرحوم کی ملت اسلامیہ کے مسائل پر گہری نظر تھی اور اپنی دینی بصیرت سے ہر وقت ملت کے امراض کی نشان دہی کرتے رہے۔“

جناب مولانا محمد سعیدی صاحب ناظم و متولی مدرسہ مظاہر علوم وقف سہارنپور نے تعزیتی مکتوب میں تحریر فرمایا : ”فدائے ملت جانشیں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید اسعد مدنی صدر جمعیة علمائے ہند کے سانحہٴ ارتحال کی الم ناک خبر جیسے ہی سہارنپور پہنچی، رنج و غم اور حزن و الم کا سماں طاری ہوگیا، یہ حادثہ جاں کاہ پورے عالم اسلام کے لئے باعث رنج و افسوس ہے۔ حضرت مولانا نے ملک و بیرون ملک میں جو عظیم کارنامے انجام دئیے ہیں، امت کے نازک مسائل کو جس دوراندیشی کے ساتھ حل فرمایا ہے وہ تاریخ کا ایک اہم باب ہے، مولانا موصوف کے کارنامے اور ملک و ملت کے لیے ان کی ناقابل فراموش خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی“۔

جناب مولانا قاری عبداللہ سلیم صاحب ناظم معہد تعلیم الاسلام امریکہ نے اپنے تعزیتی مکتوب میں تحریر فرمایا: ”فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی کے انتقال کی الم ناک خبر نے دنیا بھر میں تمام وابستگان دارالعلوم کو بطور خاص رنجیدہ و افسردہ کیاہے، جب سے دہلی کے اسپتال میں داخل ہوئے تھے برابر دیوبند فون کرکے کیفیت معلوم کرتا رہتا تھا، حضرت مولانا اسعد صاحب کا وجود امت مسلمہ کے لیے بہت بڑا سہارا تھا، قحط الرجال کے نامسعود دور میں وہ بھی رخصت ہوگئے۔           زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے۔ شاید جنت الفردوس مزید انتظار نہیں کرسکتی تھی۔ حضرت شیخ الاسلام نور اللہ مرقدہ کی خوشی بھی اس میں ہوگی کہ اپنے خلف رشید کو دنیا کی کلفتوں سے دور اپنے پاس جوارِ رحمت میں بلالیں۔ فرحمہ اللہ رحمة واسعة ․

جناب مولانا ضیاء الدین اصلاحی دارالمصنّفین اعظم گڈھ نے تحریر فرمایا: ”حضرت مولانا سید اسعد مدنی کا انتقال ملک وملت کے لیے بڑا سانحہ ہے، وہ بڑے فعال و متحرک تھے، ان کی زندگی قوم وملت کی خدمت کے لیے وقف تھی، وہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیشہ فکرمند رہتے تھے، انھیں اس ملک میں ان کے جائز حقوق دلانے اور باوقار زندگی عطا کرانے کے لئے کوشاں رہے اس وقت مسلمان جن حالات ومسائل سے دوچار ہیں اس میں ان کی رہنمائی و سرپرستی کی بڑی ضرورت تھی مگر مشیت ایزدی میں کس کو دخل، جمعیة علماء ہند بے سہارا ہوگئی دارالعلوم دیوبند پر کوہ غم ٹوٹ پڑا، ان کے اعزہ واقرباء پر کیا نہ گذر رہا ہوگا، اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔

دارالعلوم ہولومبی یو کے سے جناب مولانا یوسف متالا صاحب نے حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب مدظلہ کے نام اپنے تعزیتی فیکس میں لکھا کہ گذشتہ کل حادثہ فاجعہ کی اطلاع ملنے سے کچھ قبل بخاری شریف کے درس میں کسی مناسبت سے حضرت مولانا اسعد مدنی صاحب اور حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمة کا تذکرہ کررہا تھا اور حضرت کے بارے میں مرثیہ کے اشعار سنا رہا تھا کہ ع: جگاؤ نہ حضرت کو نیندآرہی ہے، شاید یہی وقت ہوگا جب حضرت بھائی صاحب اس عالم میں حضرت شیخ الاسلام سے ملاقات کررہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ اسلام کے محسن اس خانوادئہ حضرت مدنی کو تاقیامِ قیامت امت کے سروں پر سایہ فگن رکھے۔

جناب مولانامحمود مدنی صاحب ناظم عمومی جمعیة علماء ہند کے نام تعزیت نامہ میں مولانا متالا صاحب نے لکھا: ”موجودہ حالات میں ہر طرف مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ رہی ہے امت کو ہر جگہ معرکہٴ کربلا درپیش ہے ایسے وقت میں حسینی قافلے کے قافلہ سالار کا ہم سے رخصت ہوجانا بڑا سانحہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو صبر جمیل عطا فرمائے۔“

آل انڈیا تنظیم ابنائے قدیم ندوة العلماء کے صدر جناب مولانا امتیاز احمد ندوی صاحب نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ حضرت مولانا مدنی ملک و ملت کے جاں باز سپاہی اور درد مند قائد تھے انھوں نے جمعیة علماء ہند کے پلیٹ فارم سے چالیس سالوں میں جو ملی سماجی اور دینی خدمات انجام دی ہیں انھیں بھلایا نہیں جاسکتا۔ اسی تنظیم کے جنرل سکریٹری مولانا محمود حسن حسنی ندوی نے مولانا مدنی کے سانحہ ارتحال کو ملک وملت دونوں کے لئے عظیم خلا اور بڑا خسارہ بتایا۔

رابطہ عالم اسلامی کے معاون جنرل سکریٹری شیخ محمد بن ناصر عبودی نے حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب کے نام اپنے تعزیتی مکتوب میں فرمایا: آپ کے برادر اکبر شیخ جلیل اسعد مدنی رحمة اللہ کے الم ناک حادثہ وفات سے ہم بے حد غم زدہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اورآپ سب کو اس عظیم حادثہ پر صبر و احتساب کی توفیق ارزانی فرمائے اور اجر عظیم عطا فرمائے۔

جناب مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن صاحب ندوی مہتمم دارالعلوم ندوة العلماء نے ندوہ میں منعقد جلسہ تعزیت میں فرمایا: ”برصغیر کے مسلمان ایک عظیم عالمی رہنما اور ملک و ملت کے لئے فکر مند شخصیت سے محروم ہوگئے وہ اپنے عظیم والد کے نقش قدم پر چلتے رہے جب کبھی دین و ملت کے خلاف کوئی نازیبا بات سامنے آئی تو وہ سینہ سپر ہوجاتے۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے مولانا مدنی کو ایسے رفقا و معاونین ملے جنھوں نے ان کی مہم اور مشن کو اپنا نصب العین بنایا۔“

جناب مولانا برہان صاحب سنبھلی استاذ دارالعلوم ندوة العلماء نے اپنے تاثرات میں فرمایا کہ : حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ علم و عمل کے پیکر تھے، حضرت مولانا سید اسعد مدنی رحمہ اللہ نے بھی ان صفات کو اپنے اندر اتارنے کی کوشش کی انھوں نے ملی مسائل کو بغیر کسی مرعوبیت کے پوری قوت وجرأت سے ایوان حکومت میں اٹھایا اور ارباب اقتدار تک نہایت موثر انداز میں پہنچایا، موجودہ دور میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا ان کا سیاسی مقام جو تھا وہ اپنی جگہ ہے ان کا دینی مقام بھی بہت بلند تھا وہ رخصت پر عزیمت کو ترجیح دیتے تھے، سخاوت، مہمان نوازی اور ایثار ان کی نمایاں صفات تھیں۔“

جناب احمد پٹیل صاحب جوہانس برگ نے اپنی دلی رنج و غم کا اظہار فرمایا اور لکھا کہ حضرت مولانا سید اسعد مدنی رحمة اللہ علیہ کے سانحہ وفات سے قلبی صدمہ ہوا، حضرت کے چلے جانے سے ملت اسلامیہ ایک عالم دین، قائد ملت، اور سیاسی رہنما سے محروم ہوگئی بہت سے اسلامی حلقے اور ادارے اپنی یتیمی کا ماتم کرنے لگے، اللہ تعالیٰ اپنی شایان شان حضرت کو جزاء خیر عطا فرمائے اور تمام پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔“

جناب مولانا حسیب صدیقی صاحب منیجر مسلم فنڈ دیوبند نے فرمایاکہ حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحب ایک فعال و متحرک شخصیت کے مالک تھے۔ مسلمانوں کی سیاسی، علمی، دینی اورمعاشی ہر ہر سطح پر آبیاری کی ہے، وہ مظلوموں کے رہنما، غریبوں کے غم گسار اور نہایت پختہ عزم بے باک طبیعت کے مالک تھے، مصلحت کوشی ان کے یہاں حرام تھی۔

جناب مولانا زبیر احمد صدیق مہتمم جامعہ فاروقیہ شجاع آباد ملتان، پاکستان نے اپنے مکتوب میں یوں اظہار رنج و غم کیا: ”اخبار میں قائد ملت اسلامیہ جانشین حضرت شیخ الاسلام وارث مشن شیخ الہند حضرت مولانا محمد اسعد مدنی کی وفات حسرت آیات کی اندوہ ناک خبر نظر سے گذری، دل غم سے پارہ پارہ ہوگیا، ادارہ اور پورے ملک کی فضا سوگوار نظر آئی حضرت کی وفات قیامت صغری سے کم نہیں، مدرسے میں ایصال ثواب کیاگیا اور حضرت کو تعزیتی اجلاس میں خراج عقیدت پیش کیاگیا۔“

مرکزی وزیر جناب سیف الدین سوز نے کہا: مجھے مولانا سید اسعد مدنی کے انتقال سے گہرا صدمہ پہنچا ہے مولانا مدنی کی صدارت و رہنمائی میں جمعیة علماء ہند نے ملت اسلامیہ اور ملک کے لئے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، جمعیة علماء ہند کا تاریخ ساز کارنامہ برصغیر ہند کے لئے یادگار رہے گا کہ ہندوستان کے لوگ ایک قوم ہیں یہی زریں اصول ہندوستانیوں کے درمیان یگانگت اور بھائی چارے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔“

جناب شیخ عبدالحمید صدر دارالعلوم زاہدان، ایران نے حضرت مہتمم صاحب کے نام اپنے تعزیتی فیکس میں تحریر فرمایا ہے کہ ”ہم نے امیر الہند شیخ اسعد مدنی صدر جمعیة علماء ہند کے انتقال پرملال کی خبر بڑے رنج و غم کے ساتھ سنی، بلا شبہ حضرت مرحوم عصر حاضر میں علم و تقوی اور اسلامی سیاست کا عظیم ستون تھے۔ ان کی رحلت ملت اسلامیہ اور علمی حلقوں کے لئے زبردست خسارہ اور نقصان ہے۔ اس عظیم سانحہ پر ہم تعزیت پیش کرتے ہیں“۔

جناب احمد کتھراؤ ایڈمنسٹریٹر جمعیة علماء زامبیا ومسلم دینی کونسل زامبیا نے اپنے تعزیتی مکتوب میں لکھا ہے کہ : حضرت مولانا مدنی واقعتا ایک عظیم عالم دین تھے وہ نہ صرف ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم رہنما تھے بلکہ دنیا کے مسلمانوں کے ہردل عزیز قائد تھے، مولاناکی قربانیاں اورمساعی جمیلہ بے شمار و بے مثال ہیں اس عزم و ارادے کی شخصیت شاذ و نادر ہی پیداہوتی ہے۔“

جناب مولانا عبداللہ صاحب سورتی نے تحریر فرمایا: ”حضرت مولانا نے اپنی ساری زندگی قوم کی خدمات کے لئے جمعیة علماء ہند کے پلیٹ فارم سے وقف کررکھی تھی، ملک و ملت کے لئے حضرت المرحوم کی گوناگوں خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی“۔

پروفیسر نعیم احمد خاں صاحب صدر تنظیم اساتذہ مسلم یونیورسٹی علی گڈھ نے تعزیتی مکتوب میں تحریر فرمایا: ”امیرالہند حضرت مولانا سید محمد اسعد مدنی کا سانحہٴ ارتحال ملت اسلامیہ کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے ایسی عبقری شخصیات کی کمی کا احساس ہمیشہ باقی رہتا ہے، مولانا کا فیض ملت اسلامیہ کے لئے ہمیشہ عام رہا، مختلف جہات سے امت مسلمہ پر ہونے والے حملوں کو آپ نے ہمیشہ روکا، آپ نے ہندوستانی مسلمانوں کی ہر نازک مرحلہ پر رہنمائی فرمائی خواہ مسلم پرسنل لا کے معاملات ہوں ، حقوق نسواں کی بات ہو یا مسلمانوں کے سماجی و اقتصادی استحکام کا قضیہ ہو آپ ہر جگہ پیش پیش رہے۔“

حضرت اقدس مولانا سید اسعد مدنی رحمة اللہ علیہ کے سانحہٴ وفات پر چند اہم شخصیات کے دلی تاثرات پیش کئے گئے، ملک کی اہم سیاسی، علمی ، دینی اور تنظیمی شخصیات، ذمہ داران مدارس اسلامیہ وجمعیة اور بیرون ممالک کے سربراہان و نامور شخصیات اور اداروں کے ذمہ داران کی طرف سے تعزیتی فیکس، انٹرنیٹ سے اور سادی ڈاک سے تعزیتی خطوط اور فون پر تعزیتی تاثرات اتنی بڑی تعداد میں موصول ہورہے ہیں کہ ان محدود صفحات میں ان سب کا مختصر خلاصہ بھی پیش کرنا ممکن نہیں ہے۔ ع

سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ3، جلد: 90 ‏،صفر1427 ہجری مطابق مارچ2006ء

Related Posts