از: مفتی توقیر عالم قاسمی

استاذِ حدیث مدرسہ اشرف العلوم بردوان، مغربی بنگال

            اسلام نے حقوق کی ادائیگی اور عدل ومساوات کے قیام کو بڑی اہمیت دی ہے، اسلام نے انسان وحیوان، مسلم وغیر مسلم، مرد وعورت، امیر وغریب، چھوٹے بڑے، حاکم ومحکوم، اور اعلی وادنی ہر ایک کے حقوق کو جس قدر بسط وتفصیل سے بیان کیا ہے، پورے عالم کا کوئی مذہب اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتا اور نہ اس کی برابری وہمسری کر سکتا ہے؛ اس لیے کہ اسلام کا آئین وہ آئین ہے جسے احکم الحاکمین اور عالم الغیب والشہادہ نے بناکر نازل فرمایا ہے، جس کے قول میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ وہ ذات ازل سے لے کر ابد تک کا علم رکھتی ہے،اس لیے اللہ تعالی نے اسلام کے جتنے احکام نازل فرمائے ہیں، سب انسان کے موافق ہیں اور ہر دور اور ہر زمانے کے حالات اور مقتضاء کے عین مطابق ہیں، ابدی ہیں اور دائمی بھی۔

            لہٰذا اسلام نے عورتوں اور خواتین کے لیے جو حقوق متعین کییہیں، وہ ان کے حالات، طبیعت اور جسمانی وذہنی ساخت اور جبلت وخلقت کے بالکل موافق ہیں۔ اسلام نے ان کو نہایت ہی بلند وبالا مقام سے نوازا ہے، دیگر اقوام عالم کی طرح ان کو محض خادمہ کی حیثیت نہیں دی، یا ان کو محض تفریحِ طبع کا سامان تصور نہیں کیاہے؛ بلکہ اسلام نے ان کو معاشرے اور سماج میں باوقار اور باعظمت افرادکے زمرے میں داخل کرکے حقِ مساوات وبرابری کا نظریہ پیش کیا۔

            ایک عورت اور خاتون اس کی زندگی کے مختلف مراحل اور ادوار ہوتے ہیں، جب وہ جنم لیتی ہے تو وہ بچی اور لڑکی ہوتی ہے، اسلام نے اس کے حق کو بھی بیان کیا، جب وہ جوان ہوتی ہے،اس کے بھی حق کو بیان کیا، جب شادی ہوکر بیوی بن جاتی ہے تو شریعت نے بیوی کے حق کو بھی بیان کیا، اور اس کے بچہ ہونے کے بعد جب وہ ماں بن جاتی ہے تو اسلام نے ماں کے حقوق کو بھی بیان کیا، جب عورت کا شوہر مر جائے اور وہ بیوہ ہوجائے تو اسلام نے بیوہ کے حق کو بھی بیان کیا، کسی بچی کا باپ مرجاتا ہے اور وہ یتیم ہو جاتی ہے تو اسلام نے اس کے حقوق کو بھی بیان کیا،لہٰذا کوئی مذہب یا قانون تحفظ حقوق خواتین کے بارے میں اسلام کا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے۔

            ہم زیر نظر تحریر اور مضمون میں مذکورہ تمام طبقے کی عورتوں اور خواتین کے حقوق کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔سب سے پہلے لڑکی اور بچی کے حقوق کو پیش کرتے ہیں۔

(۱) لڑکیوں کے حقوق

            عورتوں پر قسم قسم کے مظالم اور ان کی حق تلفی کی داستان پوری دنیا میں بہت عام رہی ہے؛ لیکن کسی پر اس سے بڑی بربریت نہیں ہو سکتی ہے کہ دنیا میں زندہ رہنے کے حق سے اُسے محروم کردیا جائے، عربِ جاہلیت میں بعض قبیلوں میں یہ رسم بد اور انتہائی سفاکی والا رویہ رائج تھا کہ بچی کو پیدا ہوتے ہی مار دیا جاتا تھا۔ اسلام نے سب سے پہلے اس بے رحمی اور سنگ دلی کی بد ترین رسم کو ختم کیا۔

            قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں جا بجا اس کا بیان ہوا ہے؛ چناں چہ اللہ تبارک وتعالی نے سورہٴ تکویر کی اس آیت میں ارشاد فرمایا:

            وَإِذَا الْمَوْوٴُدَةُ سُئِلَتْ بِأَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ․ (التکویر: ۸،۹)

            ترجمہ: اور جب زندہ دفن کی ہوئی (لڑکی) سے سوال کیا جائے گاکہ وہ کس گناہ میں مار ڈالی گئی تھی۔

            المووٴدة: اس لڑکی کو کہتے ہیں جو زندہ دفن کردی جائے۔ یہ رسم شرفاءِ عرب میں بھی پھیلی ہوئی تھی، یہ رواج ہندوستان میں بھی رہا ہے،راجپوتوں اور بعض دوسری ذاتوں اور برادریوں میں اور بعض دوسرے ملکوں میں بھی۔( تفسیر ماجدی:۷/۴۵۶)

            حضرت مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ فرماتے ہیں کہ جاہلیت عرب میں یہ رسم تھی کہ لڑکی کو اپنے لیے موجبِ عار سمجھتے تھے اور زندہ ہی اس کو دفن کردیتے تھے، اسلام نے یہ رسم بد مٹائی، اس آیت میں قیامت ومحشر کے حالات کے بیان میں ارشاد ہواکہ جب اس لڑکی سے سوال کیا جائے گا،جس کو زندہ درگور کرکے ماردیا گیا تھا، ظاہر الفاط سے یہ ہے کہ مقصود اس سے سوال کرنے کا یہ ہے کہ یہ اپنی بے گناہی اور مظلوم ہونے کی پوری فریاد بارگاہِ رب العزت میں پیش کرے گی؛ تاکہ اس کے قاتلوں سے انتقام لیا جا سکے۔ (معارف القرآن: ۸/۶۸۲)

لڑکیوں کو زندہ دفن کیوں کرتے تھے؟

            عرب میں بچیوں اور لڑکیوں کوپیدائش کے بعد زندہ ماردینے اور دفن کردینے کے مختلف اسباب تھے، ان میں سب سے بڑی وجہ تنگ دستی، مفلسی اور ناداری تھی، جس کو قرآن کریم نے اس طرح بیان کیا ہے:

            وَلاَتَقْتُلُوْا أَوْلاَدَکُمْ خَشْیَةَ إِمْلاَقٍ، نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَإِیَّاکُمْ، إِنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْأً کَبِیْرًا۔ ( بنی اسرائیل:۳۱)

            ترجمہ: اور اپنی اولاد کو ناداری کے اندیشہ سے قتل مت کرو، ہم ہی ان کو بھی روزی دیتے ہیں اور تم کو بھی، بے شک انھیں ماردینابہت بڑا جرم ہے۔

            اور سورہٴ انعام میں بیان ہوا: وَلاَتَقْتُلُوْا أَوْلاَدَکُمْ خَشْیَةَ إِمْلاَقٍ، نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَإِیَّاہُمْ․ (الأنعام: ۱۵۱)

            ترجمہ: اور اپنی اولاد کو افلاس( کے خیال) سے ہلاک مت کر دیا کرو، ہم ہی تم کو بھی روزی دیتے ہیں اور ان کو بھی۔

            دوسری وجہ: رشتہٴ دامادی کو عار سمجھنا یعنی کسی کو داماد بنانے کو وہ اپنے لیے عار تصور کرتے تھے۔

            علامہ شبیر احمد عثمانیؒ فرماتے ہیں کہ:

            عرب میں رسم تھی کہ باپ اپنی بیٹی کو نہایت سنگ دلی اور بے رحمی سے زندہ زمین میں گاڑ دیتا تھا، بعض تو تنگ دستی اور شادی بیاہ کے اخراجات کے خوف سے یہ کام کرتے تھے اور بعض کو یہ عار تھی کہ ہم اپنی بیٹی کسی کو دیں گے تو وہ ہمارا داماد کہلائے گا ۔ قرآن نے آگاہ کیا کہ ان مظلوم بچیوں کی نسبت بھی سوال ہوگاکہ کس گناہ پر ان کو قتل کیا تھا، یہ مت سمجھنا کہ ہماری اولاد ہے، اس میں ہم جو چاہیں تصرف کریں؛ بلکہ اولادہونے کی وجہ سے جرم اور سنگین ہوجاتا ہے۔ (فوائد عثمانی بر ترجمہٴ شیخ الہند: ۷۷۹)

            تیسرا سبب: ان کا یہ نظریہ بھی تھا کہ عورت مال کماتی نہیں ہے؛ اس لیے اس کو زندہ رہنے کابھی حق نہیں ہے۔

            مولانا عبد الماجد دریابادیؒ تحریرفرماتے ہیں کہ:

            متعدد جاہلی قوموں کا نظریہ رہا ہے کہ افراد کاسبہ چوں کہ عورتوں میں نہیں، صرف مردوں ہی میں پیدا ہوتے ہیں ؛ اس لیے عورت کو قومی دولت میں شرکت کا اور اسے زندہ رہنے کا ہی کوئی حق نہیں۔ عرب جاہلی میں بھی یہی نظریہ عام تھا۔ (تفسیر ماجدی: ۴/۳۴)

            چوتھا سبب: بعض عرب کا یہ نظریہ تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں؛ لہٰذا اپنی ان بیٹیوں کو مار کر فرشتوں کے ساتھ لاحق کردو، اللہ ہی ان لڑکیوں کا زیادہ حق دار ہے ۔

            پانچواں سبب: قید کیے جانے کا خوف، ان کا یہ خیال بھی تھا کہ اگر جنگ ہوئی دشمن تو ان لڑکیوں کو قید کرلے گااور ان کو باندی بنا لے گا؛ اس لیے ان کو پیدائش کے بعد ہی دفن کردو۔ ان دونوں اسباب کو تفسیر قرطبی میں اس طرح بیان کیا ہے:

            وکَانُوا یَدفنونَ بناتِہم أحیائاً لخصلتینِ، إحداھما کانوا یقولونَ: إنَّ الملائکةَ بناتُ اللّٰہِ، فألحقُوا البناتِ بہ، الثانیةُ إما لمَخافةِ الحاجةِ والإملاقِ، وإمَّا خوفاً منَ السبیِ والاسترقاقِ․ (تفسیر قرطبی: ۱۹/۲۳۲)

            ترجمہ: اہل عرب اپنی لڑکیوں کو دو وجہوں سے زندہ دفن کر دیتے تھے۔ ایک وجہ یہ تھی، وہ کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں؛ لہٰذا ان بیٹیوں کو بھی اللہ کو سپرد کردو، وہی ان کا زیادہ مستحق ہے۔ دوسری وجہ یہ تھی یا تو وہ حاجت اور مفلسی تھی، یا پھر قید اورباندی بنائے جانے کا خوف۔ یعنی اگر جنگ ہوگی تو دشمن ان کو گرفتار اور قید کرکے غلام وباندی بنا لیں گے؛اس لیے ان کو بچپن ہی میں قتل کردو۔

لڑکی کو زندہ دفن کرنے کا دل دوز منظر

            جاہلیت عرب میں جب کسی کی لڑکی پیدا ہوتی اور اس کا ارادہ یہ ہوتا کہ اس کو زندہ رکھا جائے،مارا نہ جائے تو جب وہ بڑی ہوتی، اس کو اون یا بال کا بنا ہوا کپڑا پہنا دیتااور اس کو جنگل میں لے جاکر بکریاں چرانے کے لیے چھوڑ دیتا، وہ اس کی بکریاں چراتی اور اگر وہ اس کو مار ڈالنے کا ارادہ رکھتا تو اس کو چھوڑ دیتا، یہاں تک کہ جب وہ بچی چھ سال کی عمر کو پہنچتی تو وہ اس کی ماں سے کہتا کہ اس کو اچھے کپڑے پہنادو، میں اسے لے کر رشتے دار کے ہاں جاوٴں گا؛ جب کہ وہ پہلے ہی اس کے لیے ایک کنواں جنگل وصحرا میں کھود کر رکھتا تھا، پس وہ اس کو لے کر اس کنواں کے پاس جاتا اوراس بچی سے کہتا، اس کنواں کو دیکھو، پھر وہ اس کو پیچھے سے دھکا دے کر اس میں گرا دیتااور اس پر مٹی ڈال کر کنوے کو پاٹ دیتا اور زمین کے برابر ہموار کر دیتا۔ ( الکشاف :۴/۷۰۸، روح البیان:۱۰/۳۴۶، روح المعانی: ۱۵/۲۵۶، تفسیر خازن:۴/۳۹۸)

            حضرت عمرؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ قیس بن عاصمؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے زمانہٴ جاہلیت میں چند لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا تھا ۔ اور ایک روایت میں ہے : آٹھ لڑکیوں کو۔ ایک روایت میں ہے: بارہ لڑکیوں کو۔زندہ دفن کر دیا تھا ۔( اس کا کیا کفارہ ادا کروں؟) آپ نے فرمایا: ہر لڑکی کی طرف سے ایک غلام آزاد کرو، قیس بن عاصم نے کہا: یا رسول اللہ ! میں اونٹوں والا آدمی ہوں، میرے پاس اونٹ ہیں( کیا اونٹ صدقہ کردوں؟) آپ نے فرمایا: ہر لڑکی کی طرف سے ایک اونٹ ذبح کرکے صدقہ کردو۔ (تفسیرابن کثیر: ۶/۴۰۰- وفی تعلیقہ: أخرجہ البزار ۲۲۸۰، والطبرانی: ۱۸/۳۳۷، والبیہقی: ۸/۱۱۶، واسنادہ حسن۔)

بیٹی کی پیدائش کو منحوس تصور کرنا

            عرب کے بعض قبیلے میں بیٹی کی پیدائش کو اس قدر منحوس سمجھتے تھے کہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی ولادت کی خبر دی جاتی تو وہ نہایت غم زدہ اور کبیدہ خاطرہوتا، مارے شرم کے اس کا چہرا کالا پڑ جاتا، اللہ تعالی نے ان کے اس افسوس ناک رویہ کی قرآن کریم میں اس انداز سے منظر کشی کی ہے: وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُہُمْ بِالْأُنْثٰی ظَلًّ وَجْہُہُ مُسْوَدًّا وَ ہُوَ کَظِیْمٌ، یَتَوَارَیٰ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْءِ مَا بُشِّرَ بِہِ، أَیُمْسِکُہُ عَلٰی ہَوْنٍ أَمْ یَدُسُّہُ فِی التُّرَابِ، أَلاَ سَاءَ مَا یَحْکُمُوْنَ۔ (النحل:۵۸،۵۹)

            ترجمہ:اور ان میں سے جب کسی کو بیٹی کی (پیدائش) کی خوش خبر دی جاتی ہے تو اس کا چہرا سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ دل ہی دل میں کڑھتا رہتا ہے۔ اس خوش خبری کو برا سمجھ کر لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے ) ذلت برداشت کرکے اُسے اپنے پاس رہنے دے، یا اسے زمین میں گاڑ دے۔ دیکھو! اس نے کتنی بری باتیں طے کر رکھی ہیں۔ (آسان ترجمہ،مولانا محمد تقی عثمانی)

            علامہ شبیر احمد عثمانیؒ مذکورہ آیت کے فوائد تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں: یعنی ان میں سے کسی کو اگر خبر دی جائے کہ تیرے گھر میں لڑکی پیدا ہوئی ہے تو نفرت وغم سے تیوری چڑھ جائے اور دن بھر ناخوشی سے چہرہ بے رونق اور دل گھٹتا رہے کہ یہ ناشدنی مصیبت کہاں سے سر پر آئی۔اور رسمی ننگ وعار کے تصور سے کہ لڑکی زندہ رہی تو کسی کو داماد بنانا پڑے گا، لوگوں کو منہ دکھانا نہیں چاہتااور ادھر ادھر چھپتا پھرتا ہے اور شب وروز ادھیڑ بن میں لگا ہوا ہے اور تجویزیں سوچتا ہے کہ دنیا کی عار قبول کرکے لڑکی کو زندہ رہنے دے، یا زمین میں اتاردے یعنی ہلاک کر ڈالے، جیساکہ جاہلیت میں بہت سے سنگ دل لڑکیوں کو مار ڈالتے تھے۔ اسلام نے آکر اس رسم قبیح کو مٹایااور ایسا قلع قمع کیا کہ اسلام کے بعد سارے ملک میں اس بے رحمی کی ایک بھی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ (فوائد عثمانی،ترجمہ شیخ الہند:۳۶۱)

            مولانا عبد الماجد دریابادیؒ تحریر فرماتے ہیں :

            عرب میں قبیلہٴ تمیم اس بلا میں خاص طور پر مبتلا تھا؛ لیکن دنیا کی تاریخ میں اور بھی مشرک قوموں نے بہ کثرت اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا تھا ,, ہٹورینس ہسٹری آف دی ولڈ“ میں ہے: دختر نوزاد کو دفن کردینے کا دستور بہت عام رہا ہے،، (ج:۸ ص: ۸) دختر کشی کے اسباب ومحرکات دو گانہ تھے، کہیں تو لڑکی کا وجود باعث عار سمجھتے تھے اور شرم وحیا کے مارے اسے مار ڈالتے تھے اور کہیں اس کے بار مصارف کے خیال سے۔ (تفسیر ماجدی: ۳/۳۷۳، سورہٴ نحل آیت: ۵۹)

            آج بھی ہمارے معاشرے اور سماج میں بعض لوگ لڑکی کی پیدائش کو تنگ نظری سے دیکھتے ہیں،یا پے درپے بیٹی کی پیدائش کو اپنے لیے باعثِ صعوبت سمجھتے ہیں،بعض نادان تو اس سے جھنجھلا کر اپنی بیوی ہی کو طلاق دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں جب کہ:

            ” لڑکی پیدا ہونے کو مصیبت وذلت سمجھناجائز نہیں، یہ کفار کا فعل ہے، جاہلیت کی بری رسم ہے، مسلمانوں کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے اوراس کے بالمقابل جو اللہ کا وعدہ ہے اس پر مطمئن اور مسرور ہونا جاہیے“۔ (معارف القرآن: ۵/۳۵۷) ْْ

لڑکیوں کی پرورش کی فضیلت

            اسلام نے جہاں لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے اور ان کو حقیر وذلیل کرنے کی مذمت بیان کی ہے اور اس پر سخت روک لگائی ہے، وہیں ان کی پرورش کرنے پرفضیلت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ اس سلسلے کی چند حدیثیں ملاحظہ ہوں:

            (۱) حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنَ کَانَ لہ ثلاثُ بناتٍ، أو ثلاثُ أخواتٍ، أو البنتانِ، أو أختانِ، فأحسنَ صُحبتَہُنَّ، واتقی اللّٰہ فیہنّ دخلَ الجنةَ۔ (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر:۴۴۶)

            ترجمہ: جس شخص کی تین لڑکیاں، یا تین بہنیں ہوں، یا دولڑکیاں،یا دو بہنیں ہوں اور اس نے اچھی طرح ان کی دیکھ بھال کیا اور پرورش کی اور ان کے بارے میں اللہ سے ڈرایعنی اللہ سے ڈرتے ہوئے ان کے حقوق کو ادا کیا اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیاتو وہ جنت میں داخل ہوگا۔

            (۲) حضرت انسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ کُنَّ لہ ثلاثُ بناتٍ، أو ثلاثُ أخواتٍ فَاتَّقَی اللّٰہَ فیہنَ، وأقامَ علیہنّ، کانّ فی الجنةِ مَعِي ہکذا، وَأَوْمَأَ بالسَبَّاحّةِ وَالْوُسطیٰ۔ (مسند ابو یعلی::۱/ ۱۷۰)

            یعنی جس کی تین لڑکیاں یا تین بہنیں ہوں،پس وہ ان کے حقوق کے بارے میں اللہ سے ڈرا اور ان کی پرورش کی تو وہ جنت میں اس طرح رہے گا اورآپ علیہ الصلاة والسلام نے شہادت اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کیا۔ یعنی قرب اور اتصال کو ظاہر کر نے کے لیے انگشتِ شہادت اور بیچ کی انگلی کو ملاکر دکھایا کہ جس طرح یہ دونوں انگلیاں ایک دوسرے کے قریب اور متصل ہیں اسی طرح وہ شخص اور میں جنت میں قریب ہوں گے۔

            (۳) حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ عَالَ جَارِیَتَیْنِ حتی تبلُغا جاءَ یومَ القیامةِ أَنَا وہو، وضَمَّ أصابعَہ۔ (مسلم حدیث نمبر: ۱۴۹-۲۶۳۱، باب فضل الاحسان إلی البنات)

            جو شخص دو لڑکیوں کی پرورش کرے، یہاں تک کہ وہ بلوغ کی حد تک پہنچ جائیں (یا شادی بیاہ کے بعد اپنے خاوند کے پاس چلی جائیں) تو میں اور وہ قیامت کے دن ایک ساتھ ہوں گے اور آپ علیہ الصلاة والسلام نے اپنی انگلیوں کو ملاکر دکھایا۔

            (۴) حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ ایک عورت میرے پاس آئی، اس کے ساتھ دو لڑکیاں تھیں، اس نے مجھ سے کچھ مانگا، میں نے اپنے پاس ایک کھجور کے علاوہ کچھ نہیں پایا، میں نے وہ کھجور اس کو دیدی، اس نے اس کے دو ٹکڑے کیے اور ایک ایک ٹکڑا اپنی دونوں لڑکیوں کو دیدیا، پھر کھڑی ہوئی اور چلی گئی، کچھ دیر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو میں نے ان سے یہ واقعہ بیان کیا، آپ نے ارشادفرمایا: من بلي من ھوٴلاء البنات فأحسن إلیہن کن لہ سترا من النار۔ یعنی جو شخص ان لڑکیوں کے ذریعے آزمائش میں مبتلا کیا گیا یعنی اس پر بیٹیوں کی ذمہ داری ڈالی گئی (اور اس نے اس ذمہ داری کو ادا کیا) اور اس نے ان کے ساتھ حسنِ سلوک کیاتو یہ بیٹیاں ان کے لیے جہنم سے بچاوٴ کا سامان ہوں گی ۔

             (بخاری، حدیث نمبر: ۵۹۹۵، باب رحمة الولد، کتاب الأدب۔ مسلم حدیث نمبر: ۱۴۷-۲۶۲۹، باب فضل الإحسان إلی البنات)

            (۵) حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ وُلِدَتْ لہ ابنةٌ فَلَمْ یَئِدْہَا، ولم یُہِنْہَا، ولم یُوٴَثِّرْ ولدَہ علیہا یعنی الذکورَ أَدْخَلَہُ اللّٰہُ الجنةَ۔ (مصنف ابن أبی شیبة حدیث نمبر: ۲۵۴۳۵۔ مسند أحمد حدیث: ۱۹۵۷)

            ترجمہ: جس شخص کے ہاں لڑکی پیدا ہو، پھر اس نے نہ اس کو زندہ دفن کیا، نہ اس کی توہین کی اور نہ اس نے محبت اور برتاوٴ میں لڑکوں کواس پر ترجیح دی ( اس کے ساتھ ایسا ہی برتاوٴ کیا جیسا کہ لڑکوں کے ساتھ کیا) تو اللہ تعالی لڑکی کے ساتھ اس حسن سلوک کے صلے میں اس کو جنت میں داخل کرے گا۔

            (۶) حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: من کان لہ ثلاثُ بناتٍ، أو ثلاثُ أخواتٍ، أوابنتان، أو أختان، فأحسن صحبتَہُنّا، وَاتَّقَی اللّٰہَ فیہنَّ فَلَہُ الجنّةُ․ (رواہ الترمذی) وفی روایة أبی داوٴد-: مَنْ عَالَ ثلاثَ بناتٍ فأدَّبَہُنَّ وزَوَّجَہُنَّ، و أَحْسَنَ إِلَیہِنَّ فَلَہُ الجنةُ․

             (ترمذی حدیث نمبر: ۱۹۱۶، باب ما جاء فی النفقة علی البنات والأخوات۔ أبوداوٴد حدیث نمبر:۵۱۴۷، باب فی فضل من عال یتیما)

            ترجمہ: جس بندے کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں، یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور اس نے ان کے ساتھ حسن سلوک کیا اور ان کے حقوق کے بارے میں اللہ سے ڈرا تو اس کے لیے جنت ہے اور ابوداوٴد کی روایت میں ہے کہ:” جس بندے نے تین بیٹیوں یا تین بہنوں، یا دو بیٹیوں یا دو بہنوں کی پرورش کی، ان کی اچھی تربیت کی اور بلوغ کے بعد ان کا نکاح بھی کردیا تو اس کے لیے جنت ہے“۔

            (۷) حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ عَالَ ثلاثَ بناتٍ أو مثلَہُنَّ مِنَ الأخواتِ فأدّبہن ورَحِمَہن حتی یُغنیہنَّ اللّٰہ أَوَجَبَ اللّٰہُ لَہُ الجنّةَ، فقال رجلٌ: یا رسولَ اللّٰہِ! أو اثنتینَ، قال: أو اثنتینِ، حتی لو قالوا: وواحدةً، لقال واحدةً․ (شرح السنة للبغوی، حدیث نمبر: ۳۴۵۶، باب ثواب کافل الیتیم)

            ترجمہ: جو شخص تین بیٹیوں، یا ان ہی کی طرح تین بہنوں کی پرورش کرے، پھر ان کی تربیت کرے اور ان کے ساتھ پیار و شفقت کا برتاوٴ کرے؛ یہاں تک کہ اللہ ان کو بے پرواہ اور بے نیاز بنادے( یعنی وہ بڑی ہو جائیں اور ان کی شادی کردی جائے) تو اللہ تعالی اس کو جنت کا مستحق گردانتا ہے۔یہ سن کر ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا دو بیٹیوں یا دو بہنوں کی پرورش پر بھی یہی اجرو ثواب ملے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں،دو پر بھی یہ اجر ملے گا۔ حدیث کے راوی کہتے ہیں کہ اگر صحابہ ایک بیٹی یا ایک بہن کے بارے میں بھی سوال کرتے توآپ یہی جواب دیتے کہ ہاں، ایک پر بھی یہی اجر ملتا ہے۔

(۲) بالغہ لڑکی کے حقوق

            جب لڑکی سن بلوغ کو پہنچ جائے تو والدین پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس کی شادی کرادے۔ حضرت ابوسعیداور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ وُلِدَ لَہ وَلَدٌ فَلْیُحْسِنْ إسمَہ وأَدَبَہ، فَإذَا بَلَغَ فَلْیُزَوِّجْہ، فَإذَا بَلَغَ فَلَمْ یُزَوِّجْہ فَأَصَابَ إِثْماً فَإنّمَا إِثْمُہ علَی أبیہ․(شعب الإیمان للبیہقی، حدیث نمبر: ۸۲۹۹، حقوق الأولاد والأھلین)

            جس کو اللہ تعالی اولاد دے (لڑکی ہو یا لڑکا)تو چاہیے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اس کو اچھی تربیت دے اور سلیقہ سکھائے، پھر جب وہ سنِ بلوغ کو پہنچے تو اس کے نکاح کا بند وبست کرے اور اس کا نکاح کرادے، اگر (اس نے اس میں کوتاہی کی اور) شادی کی عمر کو پہنچ جانے پر بھی اس کی شادی کا بندو بست وانتظام نہیں کیا اور وہ حرام میں مبتلا ہو گئی تو اس کا باپ اس گناہ کا ذمہ دار ہوگا۔

            ملاحظہ کیجیے اس حدیث میں لڑکی یا لڑکا کے لائق شادی ہوجانے پر اس کے نکاح اور شادی کے بند وبست کو بھی باپ کا فریضہ قرار دیا گیا ہے۔ افسو س ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس بارے میں بڑی کوتاہی ہو رہی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے دوسروں کی تقلید میں نکاح اور شادی کو بے حد بھاری اور بوچھل بنا لیاہے اور ان کے رسم ورواج کی بیڑیاں اپنے پاوٴں میں ڈال لی ہیں۔ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ کی پیروی کریں اور نکاح وشادی اس طرح کرنے لگیں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی اور اپنی صاحب زادیوں کے نکاح کیے تھے تو یہ کام اتنا ہلکا پھلکا ہو جائے جتنا ایک مسلمان کے لیے جمعہ کی نماز ادا کرنااور پھر اس نکاح اور شادی میں وہ برکتیں ہوں جن سے ہم بالکل محروم ہو گئے ہیں۔ (معار ف الحدیث:۶/۲۸۰،۲۸۱)

            ایک دوسری حدیث میں،حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا: إذا خطب إلیکم من ترضون دینہ وخلقہ فزوجوہ، إن لا تفعلوا، تکن فتنة فی الأرض وفساد عریض․(ترمذی حدیث نمبر:۱۰۸۴، باب ماجاء إذاجاء کم من ترضون دینہ وخلقہ الخ)

            ترجمہ: جب تمہارے پاس کوئی آدمی نکاح کا پیغام بھیجے اور تم اس کی دین داری اور اس کے اخلاق سے مطمئن اور خوش ہو تو (اس کا پیغام منظور کرکے ) اس سے نکاح کردو، اگر ایسا نہیں کروگے تو زمین پر فتنہ اور فساد برپا ہوگا۔

            اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے لڑکی کے گارجین کو خواہ وہ والدین ہوں،یا بھائی ہو، یا چچا وغیرہ ہو، یہ ہدایت دی ہے کہ جب لڑکی سن بلوغ کو پہنچ جائے اور نکاح کے لائق ہو جائے اور اس کا کوئی مناسب اور پسندیدہ رشتہٴ نکاح آجائے بایں طور کہ لڑکا دین دار اور با اخلاق ہو تو تم فوراً اس کا نکاح کردو اور بلا وجہ تاخیر مت کرو اور مصلحت اس میں یہ ہے کہ اگر نکاح نہیں کروگے تو ممکن ہے کہ وہ بدکاری میں مبتلا ہوجائے جس کی وجہ سے دو خاندانوں میں لڑائی ہوگی، جھگڑا ہوگا، فتنہ وفساد ہوگااورنوبت کیس ومقدمہ تک پہنچے گی۔ جیسا کہ آج کے معاشرے میں اس کا مشاہدہ بکثرت ہو رہا ہے۔

(۳) بیوی شوہر کے لیے سرمایہٴ راحت وسکون

            اللہ تبارک وتعالی نے نسل انسانی کی بقا اور تاقیامت توالد وتناسل کے سلسلہ کو باقی اور قائم رکھنے کے لیے مرد وعورت کے درمیان رشتہٴ ازدواجی کی بنیاد رکھی اور عورتوں (بیویوں) کی تخلیق کی حکمت ومصلحت کو بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ ہم نے ان کو اس لیے پیدا کیا؛تاکہ شوہر ان سے سکون وراحت حاصل کرے۔ فرمان باری تعالی ہے:

            وَمِنْ آیَاتِہ أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ أَنْفُسِکُمْ أَزْوَاجاً لِّتَسْکُنُوْا إِلَیْہَا، وَجَعَلَ بَیْنَکُم مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً، إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَآیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ۔ (الروم:۲۱)

            ترجمہ: اور ان ہی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس کی بیویاں بنائیں؛ تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرواور اس نے تمہارے (یعنی میاں بیوی کے) درمیان محبت وہمدردی پیدا کردی۔ بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو فکر سے کام لیتے ہیں۔

            یہ آیت آیاتِ احکام میں بہت اہم ہے اور گویا اسلام کی مجلسی وخانگی نظام زندگی کے لیے سنگ بنیاد ہے۔ یہاں اصولی طورپر تین باتیں بیان ہوئی ہیں:

            (۱) مردوں کو بتایا گیا کہ تمہاری بیویاں تمہاری ہی ہم جنس مخلوق ہیں، ترکیب حیات میں تمہاری ہی مثل،تمہاری ہی جیسی خواہشیں، جذبات، احساسات رکھنے والی ہیں، مخلوق بے روح نہیں ہے۔

            (۲) ان کی غایت آفرینش یہی ہے کہ وہ تمہارے لیے سرمایہٴ راحت اورباعث سکون ہوں، تمہارا دل ان سے لگیاُن کا دل تم سے بہلے۔

            (۳) تمہارے ان کے تعلقات کی بنیاد ہی باہمی محبت، اوراخلاص وہمدردی ہونا چاہیے۔

            اسلام میں عورت مرد کی کنیز نہیں، جیسا کہ بعض دوسرے مذہبوں میں ہے، بلکہ اس کی صاحبہ، انیس، رفیق ومصاحب ہے۔ (تفسیر ماجدی:۵/۲۴۴)

            حضرت مفتی محمد شفیعؒ دیوبندی مذکورہ آیت کی تفسیر میں تحریرفرماتے ہیں:

             لِتَسْکُنُوْا إِلَیْہَا: یعنی ان کو اس لیے پیدا فرمایاکہ تمہیں ان کے پاس پہنچ کر سکون ملے، مرد کی جتنی ضروریات عورت سے متعلق ہیں ان سب میں غور کیجیے تو سب کا حاصل سکونِ قلب اور راحت واطمینان نکلے گا، قرآن کریم نے ایک لفظ میں ان سب کو جمع کردیا ہے۔

            اس سے معلوم ہوا کہ ازدواجی زندگی کے تمام کاروبار کا خلاصہ سکون وراحتِ قلب ہے، جس گھر میں یہ موجود ہے وہ اپنی تخلیق کے مقصد میں کامیاب ہے،جہاں قلبی سکون نہ ہواور چاہے سب کچھ ہو وہ ازدواجی زندگی کے لحاظ سے ناکام ونا مراد ہے۔

ازدواجی زندگی کا مقصد

            اس آیت نے مرد وعورت کی ازدواجی زندگی کا مقصد سکونِ قلب قرار دیا ہے اور یہ جب ہی ممکن ہے کہ طرفین ایک دوسرے کا حق ادا کریں۔ورنہ حق طلبی کے جھگڑے خانگی سکون کو برباد کردیں گے۔

             وَجَعَلَ بَیْنَکُم مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً: یعنی اللہ تعالی نے زوجین کے درمیان صرف شرعی اور قانونی تعلق نہیں رکھا؛بلکہ ان کے دلوں میں مودت اور رحمت پیوست کردی، وَدّ اور مَوَدّتْ کے لفظی معنی چاہنے کے ہیں، جس کا ثمرہ محبت و الفت ہے، یہاں حق تعالی نے دو لفظ اختیار فرمائے، ایک مودّت، دوسرے رحمت، ممکن ہے اس میں اشارہ اس طرف ہو کہ مودت کا تعلق جوانی کے اس زمانے سے ہو جس میں طرفین کی خواہشات ایک دوسرے سے الفت و محبت پر مجبور کرتی ہیں اور بڑھاپے میں جب یہ جذبات ختم ہو جاتے ہیں تو باہمی ہمدردی طبعی ہو جاتی ہے۔کما ذکرہ القرطبی عن البعض۔ (معارف القرآن:۶/۳۷۴-۳۷۶)

(باقی آئندہ)

—————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 10،  جلد:106‏،  ربیع الاول 1444ھ مطابق اكتوبر  2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts