حرف آغاز

محمد سلمان بجنوری

            برصغیر میں مغلیہ سلطنت کے خاتمہ کے بعد، دارالعلوم دیوبند کے قیام سے، مدارس اسلامیہ کے جن زریں سلسلہ کا آغاز ہوا تھا وہ اپنے تاریخی سفر کے ڈیڑھ سو سال سے زائد پورے کرچکا ہے، اس عرصہ میں مدارس کے اس نظام نے امت اسلامیہ کی جو خدمات انجام دی ہیں وہ امت کی چودہ سوسالہ تاریخ کا ایک روشن حصہ ہے؛ لیکن آج کے بدلتے حالات میں اس عظیم نظام یا تحریک کو اپنی تاریخ کے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنے مقاصد قیام پر مضبوطی سے کاربند رہتے ہوئے، کس طرح نئے دور میں اپنی کارگزاری اور افادیت کا تسلسل باقی رکھا جائے کہ اپنے اور پرائے، مدارس کے وجود کی اہمیت ومعنویت کو تسلیم کریں اور عند اللہ سرخروئی حاصل رہے۔

            اس موقع پر درپیش حالات کی وضاحت سے زیادہ ضروری علوم ہوتا ہے کہ مدارس کے مقاصد قیام کو ذہنوں میں تازہ کرلیا جائے، تاریخ دارالعلوم میں نصب العین کے عنوان کے تحت، دارالعلوم کے مقاصد قیام جو قدیم دستور اساسی سے نقل کیے گئے ہیں، یہاں پیش کیے جاتے ہیں؛ کیوں کہ یہی تمام مدارس کے قیام کے حقیقی اور بنیادی مقاصد ہیں۔ تاریخ دارالعلوم جلد اوّل ص۱۴۲ پر لکھا ہے:

            ”دارالعلوم دیوبند کا قیام جن مقاصد کے لیے عمل میں لایاگیا، ان کی تفصیل دارالعلوم کے قدیم دستور اساسی میں حسب ذیل بیان کی گئی ہے:

۱-         قرآن مجید، تفسیر، حدیث، عقائد وکلام اور ان علوم کے متعلقہ ضروری اور مفید فنون آلیہ کی تعلیم دینا اور مسلمانوں کو مکمل طور پر اسلامی معلومات بہم پہنچانا، رشدوہدایت اور تبلیغ کے ذریعہ اسلام کی خدمت انجام دینا۔

۲-        اعمال واخلاق اسلامیہ کی تربیت اور طلبہ کی زندگی میں اسلامی روح پیدا کرنا۔

۳-        اسلام کی تبلیغ واشاعت اور دین کا تحفظ ودفاع اور اشاعت اسلام کی خدمت بذریعہ تحریر وتقریر بجالانا اور مسلمانوں میں تعلیم و تبلیغ کے ذریعہ سے خیرالقرون اور سلف صالحین جیسے اخلاق واعمال اور جذبات پیدا کرنا۔

۴-        حکومت کے اثرات سے اجتناب واحتراز اور علم وفکر کی آزادی کو برقرار رکھنا۔

۵-        علوم دینیہ کی اشاعت کے لیے مختلف مقامات پر مدارس عربیہ قائم کرنا اور اُن کا دارالعلوم سے الحاق۔

            یہ وہ زریں مقاصد ہیں جوبنیادی طورپر بانیان مدارس کے پیش نظر رہے اور جن کو پیش نظر رکھ کر ان مدارس نے اپنا یہ ڈیڑھ صدی کا سفر، عزت ووقار اور نافعیت وافادیت کے ساتھ پورا کیا۔

            آج کے بدلتے حالات اور ماحول میں جب کہ مدارس کو اندرونی وبیرونی بے شمار خطرات کا سامنا ہے، سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ ان بیش بہا مقاصد اور اس بنیادی نصب العین پر مضبوطی سے کاربند رہتے ہوئے کس طرح اپنا سفر جاری رکھا جائے۔ اس کے لیے نہایت سنجیدہ غور وفکر، باہمی مشاورت، آپسی رابطہ و تعاون اور دوراندیشانہ وبصیرت مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہوگی اور ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا سے بلند ہوکر، کامل اخلاص کے ساتھ کام کرنا ہوگا جس کے نتیجہ میں نصرت الٰہی کے ساتھ مدارس پر امت کے اعتماد اور وابستگی میں بھی اضافہ ہو اور یہ نظام، اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہوتے ہوئے درپیش خطرات کا مقابلہ کرسکے اور ذمہ داران مدارس اپنے اکابر کے سامنے سرخروئی کے ساتھ یہ کہہ سکیں کہ۔#

رندانِ قناعت پیشہ نے رکھی تھی بنائے مے خانہ

جھکتا ہے انہی کے قدموں پر، چلتا ہے جو کوئی پیمانہ

—————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 10،  جلد:106‏،  ربیع الاول 1444ھ مطابق اكتوبر  2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts