از: مولانامحمد اجمل قاسمی

خادم تدریس مدرسہ شاہی مرادآباد یوپی

            تعلیم کے معنی ہیں اپنی معلومات دوسروں تک پہنچانا،اورتربیت کا مطلب ہے کہ کسی کی درست رہنمائی اورنگرانی کے ذریعہ بتدریج ان مقاصدکے لیے تیار کرنا جو ان کی تخلیق سے وابستہ ہیں ۔دنیا کو انسانوں سے آبادکرنے والے مالک نے جہاں اس دنیا میں انسان گذربسرکے وسائل فراہم کیے، وہیں ان کی زندگی کو بامقصد بنانے کے لیے روزِ اول سے تعلیم وتربیت کا بھی انتظام کیا؛ چنانچہ پہلا انسان حضرت آدم علیہ السلام کی شکل میں جواس دنیا میں آیا اس کا سب سے اہم امتیاز یہ تھاکہ اللہ نے اسے براہ راست اپنی تعلیم کے ذریعہ اپنے دین کا بھی علم عطا کیا،اوردنیا میں انسان کی بود وباش کے لیے جوتمام ضروری چیزیں ان کا بھی علم دیا،اللہ کی تعلیم کے نتیجہ میں آدم علیہ السلام صفت علم میں فرشتوں سے بھی فائق اورممتاز ہوگئے، قرآن کریم نے فرشتوں کے مقابلے میں حضرت آدم علیہ السلام کے اس امتیاز کودلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ (البقرة۳۱-۳۷)

            اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کویہ بھی علم عطا فرمایاکہ دنیا کی چیزوں کی خاصیتیں کیاکیا ہیں،کون مفید ہے کون مضر،اوران انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ان کو کیسے استعمال کیاجائے گا،نیزان چیزوں کے استعمال کرنے کے شرعی آداب واحکام بھی بتائے کہ کس چیز کا استعمال حلال اوراللہ کے قرب کا ذریعہ ہے اورکس چیزکا استعمال حرام اوراللہ کے غصے کا سبب ہے،آدم علیہ السلام نے اپنی امت کوجوکل ان کی اولاد اورپوتوں پوتیوں پر مشتمل تھی دونوں طرح کے علوم سکھائے، اوران کے مطابق تربیت دی۔

            رفتہ رفتہ انسان کی عقل نے ترقی کی، اس کا تجربہ بڑھا اورانسان کی دنیاوی ضرورتیں: کھانا، کپڑا، دوا،علاج وغیرہ میں عقل وتجربہ کی رہنمائی کافی ہوگئی؛ البتہ انسان کی تخلیق کا مقصد کیاہے؟ اور کس طرح کے عقیدے،نظیرے اور آداب واحکام کی پیروی سے وہ مقصد حاصل ہوگا،اس بارے میں تنہا انسانی عقل اوراس کے تجربات رہنمائی کے لیے ناکافی تھے؛چنانچہ اللہ رب العزت نے اس اہم ترین باب میں انسان کی رہنمائی کا کام انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعہ لیا،ان کے پاس وحی بھیجی،ان پر کتاب و شریعت نازل فرمائی،اورانھیں بھولے بھٹکے انسانوں کی تعلیم اورتربیت پر مامورکیا۔

            تمام انبیاء علیہ السلام اپنے اپنے دورکے سب عظیم معلم اورمربی رہے ہیں،انھیں اللہ نے ایسے عمدہ اورصحیح علوم سے نوازا تھا جن میں غلطی کاکوئی امکان نہیں تھا،اورقوموں کی تعلیم وتربیت کے لیے اپنی خاص نگرانی اور سرپرستی میں انھیں تیارکیاتھا؛اس لیے تعلیم وتربیت کے باب میں ان کا ہر فرد منفرد اوربے مثال تھا۔

            اورجب دنیا طفولت وشباب کے مراحل طے کرکے اپنی کہولت کے مرحلہ میں داخل ہوئی، جوکسی چیز کے استحکام اعتدال اورٹھہراوٴ کا مرحلہ ہوتاہے، تواللہ تعالیٰ نے صف انبیاء کے قافلہ سالار معلم اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو رہتی دنیا تک کے لیے تمام قوموں اورخطوں کی تعلیم وتربیت کے لیے مبعوث فرمایا۔

جامع کمالات معلم ومربی

            معلم ومربی کے لیے ضروری ہے کہ اس کی شخصیت زیر تعلیم وتربیت لوگوں کے لیے باعث کشش ہو،اوراصلا یہ کشش تومعلم کے باطنی کمالات کی وجہ سے ہوتی ہے؛لیکن اس کے ساتھ ظاہر ی محاسن بھی جمع ہوجائیں توکشش دوبالا ہوجاتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ معلم انسانیت تھے، سارے انسانوں کی تربیت کے لیے مبعوث ہوئے تھے،چھوٹے بڑے، امیروغریب، حاکم ومحکوم، گمنام وبے حیثیت اورمعروف وباوجاہت ہرکسی کی تعلیم وتربیت آپ کے سپرد تھی؛ اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کی شخصیت کو ایسا جامع کمالات بنایا جو ہرکسی کے لیے باعث ِکشش ہو،آپ باطنی کمالات میں بھی یکتا تھے اورظاہری محاسن میں بھی منفرد تھے،اورایسے منفرد تھے کہ انسانیت کے سب سے عظیم معلّمین انبیاء جوبراہ راست اللہ کا انتخاب تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کوان کابھی سردار قراردیا۔

            معلم کا سب سے بنیادی وصف یہ ہے کہ وہ علم میں کامل ہو،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ تھا کہ ناخواندہ اورامی ہونے کے باوجودعلم کے بحربے کراں تھے،انسانوں میں ایسا کوئی نہیں ہوا جسے علم میں آپ جیسا کمال حاصل ہو،اللہ رب العزت نے فرمایا: وَاَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَکَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا (النساء:۱۱۳) ” اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب وحکمت اتاری،اوروہ باتیں آپ کو سکھائیں جوآپ نہیں جانتے تھے،اورآپ پر اللہ کا فضل عظیم رہاہے“۔ متعدد علماء نے تصریح کی ہے کہ آپ کو پہلوں اورپچھلوں کا علم دیا گیا،اور آپ علم وحکمت میں تمام انبیاء کرام پر فائق تھے؛بلکہ آپ کا علم تمام مخلوقات کے علم سے زیادہ تھا۔(معارف القرآن، نساء:۱۱۳)

            کمال علم کے ساتھ آپ میں اعلی نسبی شرافت تھی،کسی بڑے سے بڑے آدمی کو آپ سے سیکھنے میں عار نہیں ہوسکتی تھی،آپ کی شخصیت میں وجاہت وقار اوررعب تھا،سامنے والا آپ کی عظمت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتاتھا،آپ حسن اخلاق اورنرم مزاجی کی پاکیزہ خوسے آراستہ تھے، لوگ بہت جلد مانوس ہوجاتے تھے،آپ خوش بیان اورفصیح اللسان ایسے تھے کہ مخاطب گرویدہ ہوجاتا تھا، تفہیم پر آپ کو زبردست قدرت حاصل تھی،دقیق اورگہرے مضامین کوتشبیہ وتمثیل کے ذریعے ذہن میں اتاردیتے تھے،گفتگومعتدل اورحشو وزائد سے خالی ہوتی تھی،مخاطب کو نہ تو عدم تشفی کا شکوہ ہوتا اور نہ ہی اکتاہت کا،آپ اعلی درجے ذہین،معاملہ فہم،روشن دماغ،روشن ضمیر،کشادہ دل،پاک باطن، علم وعمل کے جامع، حسین وجمیل،دل آویز سراپا وشخصیت کے مالک،ادب،سیلقہ مندی اوراعلی اخلاق میں طاق، لوگوں کی ہمدردی اورخیرخواہی، مخاطب کے مقام ومرتبے،اس کی سمجھ،عقل اورعمر کی رعایت میں میں یکتا تھے،آپ کو دھن لگی ہوئی تھی کہ کس طرح انسانوں کو زیادہ سے زیادہ خیر کی تعلیم دی جائے، اور اللہ کے دین کے مطابق ان کی تربیت کی جائے، یہ اوراس جیسے نہ جانے کتنے محاسن تھے،جس کی وجہ سے آپ نہ صرف ایک مثالی معلم تھے؛بلکہ ابد تک معلّمین کے اسوہ اورآئیڈیل بن گئے۔

صورت تیری تصویر کمالات بناکر

دانستہ مصور نے قلم توڑ دیاہے

قرآن وحدیث میں آپ کی تعلیم وتربیت کا ذکر

            آپ اللہ رب العزت کی طرف سے معلم ومربی کے منصب جلیل پر فائز کیے گئے تھے، قرآن کریم میں چار مقامات پر اللہ رب العزت نے الفاظ کی معمولی تقدیم وتاخیر کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد اورفرائض منصبی کی وضاحت فرمائی ہے،یہ مقاصد اورفرائض منصبی قرآن کے بیان کے مطابق توچار ہیں؛لیکن ان کواگر مزید اختصار کے ساتھ بیان کیا جائے توان کا خلاصہ ”تعلیم وتربیت“ کے عنوان میں سمٹ جائے گا،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

            لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلٰی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِنْ اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْ عَلَیْہِمْ اٰیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُبِیْنٍ (آل عمران:۱۶۴)

            ”واقعی حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انھیں میں سے ایک رسول بھیجاجوان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے،انھیں پاک وصاف بنائے، اورانھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دے؛جب کہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں مبتلاتھے۔“

            یہ مضمون اس آیت کریمہ کے علاوہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر۱۲۹-۱۵۱میں دوبار اورسورہ جمعہ کی آیت۲ میں ایک بار بیان ہواہے۔

            متعدد احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے اپنے معلم ہونے کی تصریح کی ہے،مسلم شریف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد نقل کیا گیاہے جس میں آپ نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

            ”إنَّ اللّٰہَ لَمْ یَبْعَثْنِيْ مُعَنِّتًا وَلَا مُتَعَنِّتًا وَلَکِنْ بَعَثَنِيْ مَعَلِّمًا مُیَسِّرًا“(مسلم۱۴۷۸)

            ”اللہ تعالیٰ نے مجھے نہ تولوگوں کو مشقت میں ڈالنے والا بناکر بھیجا ہے اورنہ دوسروں کی لغزش کا خواہاں بناکر بھیجا ہے،اس نے تومجھے ایسا معلم بناکر بھیجا ہے جولوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرے“۔

            سنن ابن ماجہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں:

            ”خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ مِنْ بَعْضِ حُجَرِہِ، فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَإذَا ہُوَبِحَلَقَتَیْنِ: إحْدَاہُمَا یَقْرَوٴونَ الْقُرْآنَ، وَیَدْعُوْنَ اللّٰہَ تَعَالیٰ، وَالأخْرَی یُعَلِّمُوْنَ وَیَتَعَلَّمُوْنَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: کُلٌّ عَلَی خَیْرٍ، ہَوُٴلاءِ یَقْرَوٴونَ الْقُرْآنَ، وَیَدْعُوْنَ اللّٰہَ تَعَالیٰ، فَإنْ شَاءَ أعْطَاہُمْ وَإنْ شَاءَ مَنَعَہُمْ، وَہٰوٴلاءِ یُعَلِّمُوْنَ وَیَتَعَلَّمُوْنَ، وَإنِّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا، فَجَلَسَ مَعَہْمْ․“( ابن ماجة:۲۲۹)

            ”ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی حجرے سے نکل کر مسجد میں تشریف لائے، توآپ کو مسجد میں دو حلقے نظر آئے،ایک حلقہ میں لوگ قرآن کی تلاوت اوردعا کررہے تھے، اور دوسرے حلقے میں لوگ علم سیکھ اورسکھارہے تھے،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہرایک خیر پر ہے، یہ لوگ قرآن کی تلاوت کررہے ہیں اوراللہ سے دعاکررہے ہیں،اگراللہ چاہے توان کو عطا فرمائے، اورچاہے تومنع کردے، اوریہ دوسرے لوگ علم سیکھ اورسکھارہے ہیں،اورمیں تومعلم بناکر بھیجا گیا ہوں، یہ فرماکر آپ اسی پڑھنے اورپڑھانے والے حلقے میں بیٹھ گئے۔“

آپ کی مثالی شخصیت سب سے بڑا معلم

آپ تربیت ربانی کا ایک مظہر اتم تھے، کسی انسان کے بجائے آپ کی تعلیم وتربیت خود اللہ رب العزت نے فرمائی تھی،اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ آپ کی نشست وبرخاست، رفتار وگفتار،بود وباش،سلوک وبرتاوٴ، سونا جاگنا،خوشی غمی،رضا غضب،لین دین،ملنا جلنا سب کچھ رضائے الٰہی کے سانچے میں پوری طرح ڈھلاہوا تھا،اوراس طرح ڈھلا ہواتھا کہ رہتی دنیا تک وہی انسانیت کے لیے اسوہ اور قابلِ تقلیدنمونہ قرار پایا،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

            لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ کَانَ یَرْجُوْ اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا (الاحزاب:۲۱)

            ”حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے،ہراس شخص کے لیے جو اللہ اوریوم آخرت سے امیدرکھتاہواورکثرت سے اللہ کا ذکر کرتاہو“۔

            جس طر ح آپ کا سینہ قرآن کے الفاظ وانوار کا گنجینہ تھااسی طرح آپ کی ذات اقدس اور اس سے وجود میں آنے والی سیرتِ طیبہ قرآن کریم کے احکام وتعلیمات کا ایک جیتا جاگتاکامل مکمل عملی نمونہ تھی،ایمان کیاہے،اسلام کیاہے،احسان کیاہے، عبادت کیا ہے، توکل کیاہے، صبرکیا ہے، تسلیم ورضا کیاہے، عفودرگذرکیاہے، عدل کیا ہے، انصاف کیا، اخلاق کیاہیں، ایک بہترین معاشرت کیاہے، حلال کیاہے،حرام ہے؟ یہ اور ان جیسی سیکڑوں تعلیمات واحکام آپ قرآن کریم میں پڑھیں، پھراس کی تطبیقی شکل اوراس کا عملی نمونہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اورسیرت طیبہ میں دیکھیں،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کسی کے سوال کے جواب میں کہا تھااوربجاطور پر کہا تھا: ”إنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ الْقُرْآنَ“(مسلم۷۴۶)کہ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ کا اخلاق سراپا قرآن ہے“۔

            حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ نے بجا تحریر فرمایاہے،لکھتے ہیں:

            ”گویا ایک علمی قرآن ہے جواوراق میں محفوظ ہے،اورایک عملی قرآن یعنی سیرت طیبہ ہے جوذاتِ نبوی میں محفوظ ہے، اوردونوں آپس میں ایک دوسرے پر من وعن منطبق ہیں،پس قرآن کا کہا ہوا حضورکا کیاہواہے،اورآپ کا کیا ہواقرآن کا کہاہواہے․․․․․قرآن میں جوچیزقال ہے وہی ذات نبوی میں حال ہے،اورجوقرآن میں جو نقوش ودوال ہیں وہی ذات اقدس میں سیرت واعمال ہیں“( نقوش کا رسول نمبر ۱/۳۸)

            قرآنی تعلیمات کے سانچے میں ڈھلی ہوئی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم یہی ذات اقدس سب سے زبردست معلم تھی،لوگ آپ کودیکھ کر اپنی نمازیں سیکھتے،عبادات کے طورطریقے معلوم کرتے، آپ کے اخلاق کو دیکھ کر اپنے اخلاق واطوار درست کرتے،آپ کی پسندوناپسند کو کسی چیز کے اچھے اور برے ہونے کی کسوٹی سمجھتے،آپ کی نششت وبرخاست،میل جول، مہمانوں کی ضیافت،دوستوں کی دل داری،چھوٹوں پرشفقت،آپ کے سونے جاگنے،بیوی وبچوں کے ساتھ آپ کے رہن سہن سے زندگی اورمعاشرت کے اصول وآداب اخذ کرتے، آپ کی صحبت کیمیااثر میں انھیں ایمان،توکل، حلم وصبر، عفوودگذر، خوف وخشیت، انابت وتوبہ،تسلیم ورضا،قناعت واستغنا،سماحت وتواضع کی وہ عظیم صفات وکیفیات حاصل ہوتیں جودراصل کمال بشری کی انتہاء اوراس کی سعادت کی منتہیٰ ہیں۔

وعظ وخطابت اوراقوال کے ذریعے تعلیم وتربیت

            جہاں آپ کی مثالی شخصیت ہردیکھنے اوربرتنے والے کے لیے سراپا تعلیم وتربیت تھی،اسی طرح آپ کی زبان فیض ترجمان بھی تعلیم وتربیت کا اہم ترین ذریعہ تھی، آپ عرب کے قبیلے قریش میں پیداہوئے،اوربنوسعد میں دودھ پیا،یہ دونوں قبیلے فصاحت بیانی،طلاقت لسانی اورخوش گفتاری میں اپنی مثال آپ تھے،اس قدرتی انتظام اورفطری صلاحیت کی وجہ سے آپ زبان وبیان میں اپنے ہم عصروں میں بہت ممتاز رہے،آپ اپنے بلیغ وعظ اورموٴثر خطابت کے ذریعے لوگوں کو دین کی تعلیم دیتے،اوران کی تربیت فرماتے،جمعہ کے خطبے کے علاوہ سفروحضر،جنگ وصلح،نارمل اورہنگامی حالات،اوردیگر مختلف اورمنتوع تقاضوں پر آپ صحابہ سے خطاب فرماتے،اوروقت کے حالات وتقاضے کے مطابق ضروری تعلیم دیتے ۔

            آپ کے یہ خطبات صحابہ اورامت کو تعلیم دینے کا بہت اہم ذریعہ تھے،ان کے علاوہ اٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے، اوراحباب سے باتیں کرتے موقع محل کی مناسبت سے اپنے اقوال کے ذریعہ صحابہ کو تعلیم دینا اوران کی تربیت فرمانا آپ کا معمول تھا۔

تعلیم وتربیت کے لیے موٴثر طریقے کا انتخاب

            آپ تعلیم دیتے ہوئے،نصیحت کرتے ہوئے،صحابہ کی تربیت کرتے ہوئے وہ طریقہ اپناتے جوزیادہ موٴثر اور بات کو دلنشیں کرنے والاہو، کبھی نصیحت کرتے ہوئے ترغیب وترہیب کا سہارالیتے ہوئے، اچھے اعمال کا ثواب بتاتے جس سے سننے والے کو رغبت ہو،برے اعمال کی سزائیں بتاتے جس سے سننے والے پر خوف طاری ہواوروہ ان سے بازرہے۔کبھی پرانی قوموں کے واقعات اورقصوں کو سناکر نصیحت فرماتے؛اس لیے کہ قصوں کے ذریعہ جوبات کہی جاتی ہے،وہ موٴثر بھی ہوتی ہے اوریادبھی رہ جاتی ہے،کبھی کسی مضمون کوبیان کرنے سے پہلے کوئی مناسب تمہید قائم کرتے،پھر مدعا بیان کرتے؛ تاکہ اصل مدعا کو سمجھنے کے لیے ذہن اچھی طرح تیارہوجائے۔ عام عادت شریفہ تویہ تھی کہ آپ سیکھنے والوں کے ساتھ نرمی کا برتاوٴ فرماتے تھے، لیکن تربیت کے لیے اگر غصہ اورسختی کی ضرورت ہوتی توآپ غضبناک ہوجاتے اورزجروتوبیخ فرماتے،جس سے لوگوں کے دل لرزاٹھتے،اوران میں اپنی اصلاح کی فکر پیداہوتی۔شرم وحیا والی باتوں کوصاف صاف کہنے کے بجائے اشارے اورکنائے میں کہتے۔ کبھی اجمالاً کوئی بات ارشاد فرماتے اورپھر اس کی تفصیل بتاتے، ایک موقع سے ارشاد فرمایا:

            ”پانچ باتوں کوپانچ باتوں سے پہلے غنیمت جان لو: جوانی کو بوڑھاپے سے پہلے،صحت کوبیماری سے پہلے،مالداری کو محتاجی سے پہلے،فرصت کو مصروفیت سے پہلے،اورزندگی کو موت سے پہلے“(مستدرک حاکم۷۸۴۶)

            اجمال کے بعد تفصیل کا فائدہ یہ ہوتاہے کہ بات کویاد کرنا اورسمجھنا آسان ہو جاتاہے۔اسی طرح آپ کبھی ایک بات کو مبہم اندازمیں ذکر کرتے،جس کی وجہ سے لوگوں میں تجسس اورانتظارپیدا ہوتا،اورجاننے کی خواہش پیدا ہوتی،پھر آپ اس مبہم ارشاد کوواضح کرتے تولوگ آپ کی بات کا صحیح لطف لیتے،اوروہ ان کی زندگی میں زیادہ موٴثرثابت ہوتی۔کبھی کسی بات کوکہنے سے پہلے مخاطب کا ہاتھ یا اس کا کاندھا پکڑلیتے،جس کی وجہ سے وہ پوری طرح آپ کی طرف متوجہ ہوکر سراپا گوش ہوجاتا،پھر جب آپ اسے کوئی تعلیم دیتے یا تربیت کی کوئی بات ارشاد فرماتے،تووہ لوح قلب پر پتھر کی لکیربن جاتی۔

            کبھی بات کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے آپ اپنی ہیئت بدل دیتے،مثلاًآرام سے بیٹھے ہوتے توبات کہنے کے لیے سیدھے ہوکربیٹھ جاتے،نارمل اندازمیں ہوتے تومزیدسنجیدہ ہوجاتے، کبھی بات کوباربار دہر ا کر تاکید سے کہنے لگتے،اس طرح مخاطب بات کی اہمیت محسوس کرتااورجس توجہ اوردھیان سے اسے سننے کا حق ہے اسی توجہ اوردھیان سے سنتا۔کبھی اہمیت دلانے کے لیے بات کوقسم کھاکر ارشاد فرماتے،احادیث میں قسم کا استعمال کثرت سے ملتاہے۔کسی بات کی تعلیم دیتے ہوئے بعض اوقات مزاح اور خوش طبعی بھی فرماتے؛مگر مزاح میں بھی آپ حق اورسچ ہی کہاکرتے تھے۔

            احکام ومسائل سکھانے میں تدریج کا لحاظ کرتے،دین میں جوباتیں بنیادی ہیں پہلے ان کوسکھاتے،زیادہ اہم سے کم اہم کی طرف آتے۔ تعلیم دیتے ہوئے اس بات کی رعایت کرتے کہ لوگوں کی دلچسپی باقی رہے؛چنانچہ اعتدال ملحوظ رکھتے؛ چنانچہ روزآنہ وعظ کہنے کے بجائے وقفے وقفے سے کہتے تاکہ لوگ اکتاہٹ میں مبتلا نہ ہوجائیں۔تعلیم دینے میں لوگوں کے حالات،درجے اورذوق ومزاج کی رعایت کرتے؛چنانچہ جس کے لیے جوبات ضروری سمجھتے اسے اس کی تعلیم دیتے۔

            کبھی تعلیم دینے کے لیے گفتگو اورسوال وجواب کا اندازاختیارکرتے،ایک مرتبہ صحابہ سے پوچھا:”جانتے ہو مسلمان کون ہے؟صحابہ نے عرض کیا: اللہ اوراس کے رسول ہی زیاد ہ بہتر جانتے ہیں، فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اورزبان سے مسلمان محفوظ رہیں۔“( مسند احمد۱۵۶۳۵ ومسلم۴۰)اس طرح کی مثالیں حدیث کی کتابوں میں بکثرت موجود ہیں۔کبھی تعلیم دیتے ہوئے کسی بات کی عقلی توجیہ اورتشریح فرماتے،جس سے مخاطب کو شرعی حکم کی حکمت سمجھ میں آتی اوروہ اس کے آگے سرجھکا دیتا،احادیث کی کتابوں میں ایک قصہ منقول ہے :

            ”ایک نوجوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا،اورکہا یارسول اللہ مجھے زنا کی اجازت دے دیجیے،یہ سنتے ہی لوگ اسے ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے اس کو قریب بلایااوراس سے پوچھاکہ کوئی تمہاری ماں سے یہ برا کام کرنا چاہے توتمہیں گوارا ہوگا؟اس نے کہا : یا رسول اللہ! میری جان آپ پر قربان،ہرگز نہیں!اورمیں ہی کیا ؟ کوئی بھی اس کو پسند نہیں کرے گا، کہا : اگر تمہاری بیٹی کے ساتھ کرنا چاہے تو؟ اس کہا : یارسول اللہ! میری جان آپ پر قربان،ہرگز نہیں!اورمیں ہی کیا ؟ کوئی بھی اس کو پسند نہیں کرے گا، آپ نے فرمایا: اگر تمہاری بہن کے ساتھ کرنا چاہے تو؟تونوجوان نے وہی جواب دیا،پھر حضور نے پھوپھی اورخالہ کا تذکرہ کیا؟تونوجوان نے وہی جواب دیا ۔ اس طرح بات جب نوجوان کے سمجھ میں آگئی، توآپ نے اپنا ہاتھ اس کے اوپر رکھ کر اس کودعادی،اس کے بعد سے وہ نوجوان اس طرح کی چیزوں کی طرف کبھی متوجہ نہ ہوا۔“ (مسنداحمد۲۲۲۱۱)

            دیکھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زنا کی حرمت اوراس کے بارے میں آنے والی وعیدوں کو ذکر کرنے کے بجائے،اس کوحرمتِ زنا کی حکمت اورعقلی وجہ سمجھا دی اوراسے اسلام کے اس حکم پر مکمل اطمینان ہوگیا۔

            مثالیں دینے سے بات جلدی سمجھ میں آتی ہے اوراچھی طرح ذہن نشین ہوجاتی ہے،آپ تعلیم میں تشبیہ وتمثیل کا کثرت سے استعمال فرماتے،اورباتوں کو بآسانی ذہن میں اتارنے میں کامیاب ہوجاتے،تشبیہات اورمثالیں احادیث میں بہت کثرت سے آئی ہیں،یہاں صرف ایک مثال نقل کی جاتی ہے،آپ نے فرمایا:

            ”نیک ہم نشین(ساتھی) کی مثال مشک بیچنے والی کی طرح ہے،اگر تمہیں مشک والے سے کچھ مشک نہ بھی ملے توخوشبو توضرورہی ملے گی اوربرے ہم نشین کی مثال بھٹی والے کی طرح ہے،اگر تمہیں بھٹی کی کالک نہ بھی لگے تودھواں توضرور پہنچے گا۔“ (ابوداود۴۸۲۹)

            کبھی آپ زمین میں لکیریں کھینچ کرکوئی بات سمجھاتے،کبھی کوئی بات ذہن نشین کرنے کے لیے گفتگوکے ساتھ ہاتھ کا اشارہ بھی استعمال فرماتے: آپ نے ایک حدیث میں فرمایا: ”میں اوریتیم کی پروش کرنے والاجنت میں اس طرح ہوں گے،آپ نے شہادت والی اوربیچ والی انگلی کھولی اور ان کے بیچ تھوڑا سافاصلہ رکھا“(بخاری۴۹۹۸)کبھی کوئی کچھ پوچھتا تو اس کے سوال کا جواب دے کرتعلیم دیتے،کبھی بغیر کسی کے پوچھے خود ضرورت کومحسوس کرکے کوئی بات ارشاد فرماتے،کبھی ایک آدمی کوئی سوال کرتاآپ محسو س کرتے کہ اس سوال کا جواب دینے سے اس کوکوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا، توایسی صورت میں آپ سوال کا اصل جواب دینے کے بجائے جواب میں ایسی بات ارشاد فرماتے جواس کے حق میں مفید ہو۔

            قول وعمل کے علاوہ آپ کی خاموشی بھی تعلیم ہوا کرتی تھی؛چنانچہ آپ کے سامنے کوئی کام ہواوراسے دیکھ کر ہونے دیں، اس پر نکیر نہ فرمائیں تویہ خاموشی بھی اس بات کی تعلیم ہوتی تھی کہ یہ کام شریعت میں جائز ہے۔

            آپ کے دلکش اورموٴثر پیارے طریقوں کو کوئی کہاں تک شمار کرائے،سچ یہ ہے کہ

دامانِ نگہ تنگ گلِ حسن توبسار

گل چین بہار توزدامان گلہ دارد

معلم انسانیت کا اعجاز

            یہ اس معلم انسانیت اورمربی عالم کا اعجاز تھاکہ وہ قوم جوصدیوں سے علم وآگہی سے ناآشنا تھی، جوپڑھنے لکھنے کوباعث ننگ وعار اوران پڑھ ہونے کووجہ ِافتخار سمجھتی تھی،تندی،سخت مزاجی،سخت گیری،عقل وذہن کی خشکی، بربریت، وحشیانہ پن، اورآبا واجداد کی کورانہ تقلید میں حد سے بڑھی ہوئی تھی، خاندانی نخوت، نسبی غرور،حسبی گھمنڈ اپنی انتہاء کوپہنچا تھا،حق تلفی،غارت گری،جنگ وجدل، حرب وضرب ان کاپیشہ بن چکاتھا، بچی کی پیدائش کواس قدر باعث ننگ وعار سمجھاجاتاتھاکہ آدمی اپنے لخت جگر کو زندہ دفن کرنے میں عافیت سمجھتاتھا، دنیا کی ترقی یافتہ قوموں نے ان کے اسی مزاج وفطرت کی وجہ سے کبھی انھیں قابل توجہ نہیں سمجھا تھا۔

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدتوں سے بے کار پڑی ہوئی اسی زمین کو اپنی محنت کا میدان بناکرکے دعوت واصلاح کا کام شروع کیا، پھرکیا تھا،پتھر دل لوگ پوری سنگ دلی پر اتر آئے اور دشمنی کا ہرحربہ اپنایا، اپنے پرائے ہوگئے،دوست بے گانے ہوگئے،محبت کا دم بھرنے والے جان کے دشمن اورخون کے پیاسے ہوگئے،آپ مکہ کے گلی کوچوں،اورالگ الگ قبیلوں میں چل پھرحق کی آواز بلند کرتے؛مگر یہ آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوتی، کوئی اس پر کان دھرنے والا نہ تھا۔

            مگر کب تک ؟حق کی آواز لگانے والے کے صبر واستقلال نے ہمت نہ ہاری،بالآ خر حق کی بانسری نے کانوں میں اثر کرنا شروع کیا،داعی کے اخلاص اورخیر خواہی کے جذبے نے پتھردلوں کو مو م کیا،صحرا کے سنگلاخ سے ہدایت کے چشمے پھوٹے، بطحا کے سنگ ریزے اس معلم کی تعلیم وتربیت سے لعل وجواہر بن کر اس طرح نکھر ے کہ چشم فلک نے اپنی حیات میں ایسی آب وتاب والے جواہر پارے نہیں دیکھے،اس مربی کی تربیت گاہ سے نکلنے والا ایک ایک شخص قوموں کا مصلح اورامام بن گیا۔دنیا کی تاریخ میں کوئی معلم ومربی نہیں ملتا جس نے صرف دودہائی کی قلیل مدت میں ایسا عظیم الشان ہمہ گیر علمی واصلاحی انقلاب برپا کیاہو۔#

تھے نہ خود جوراہ پر اوروں کے ہادی بن گئے

کیانظر تھی جس نے مردوں کومسیحا کردیا

            یہ انقلاب توخود اس کی زندگی میں ہوا؛مگر اسے دنیا سے رحلت کیے آج چودہ صدیاں بیت گئیں؛ لیکن نہ اس معلم کی علمی فیاضی میں کوئی فرق آیا،نہ اس کی تربیت کے غلغلے کم ہوئے،دنیا میں آج بھی کروڑوں انسان ہیں جواس معلم کی طرف انتساب کوزندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ،اور اس جہان کی متاع عزیزتر جانتے ہیں اورآج بھی اسی کے لائے ہوئے قرآن اوراسی کے بتائے ہوئے علم وحکمت کے جواہر پاروں کوتعلیم وتربیت کا سب سے بڑا سرچشمہ سمجھتے اور اس سے اکتساب فیض کررہے ہیں۔

            یہ وہ معلم ہے جس کا بتایا ہوا طریقہ خالق کائنات کا انتخاب اورجس کی لائی ہوئی شریعت حق وصداقت کاابدی معیار ہے،اس کے علاو ہ ہرطریقہ مردود،ہرراہ باطل اور ہررہبری ضلالت وگمراہی ہے۔

اسی کی پاکیزہ سیرت ہر معلم ومربی کے لیے سرمہٴ بصیرت ہے،اللہ تعالیٰ ہم سب کواس سے روشنی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

نگاہ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر

وہی قرآن، وہی فرقاں،وہی یسیں،وہی طہ

————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 10،  جلد:106‏،  ربیع الاول 1444ھ مطابق اكتوبر  2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts