از: مولانامحمد سالم قاسمی سریانوی

استاذ فقہ وادب جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور اعظم گڑھ

            فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتَّی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا․ (سورة النساء:۶۵)

            ترجمہ:نہیں، (اے پیغمبر) تمہارے پروردگار کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے، جب تک یہ اپنے باہمی جھگڑوں میں تمہیں فیصل نہ بنائیں، پھر تم جو فیصلہ کرو اس کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور اس کے آگے مکمل طور پر سر تسلیم خم کردیں۔ (آسان ترجمہٴ قرآن)

آیت کا شان نزول

            اس آیت کے شان نزول میں عموماً مفسرین نے حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کے واقعہ کو ذکر کیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت زبیرؓ کا ایک انصاری سے باغ کی سینچائی میں اختلاف ہوگیا، دونوں اپنا اختلاف لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، آپ نے بات سن کر ارشاد فرمایا کہ اے زبیر پہلے تم اپنا باغ سیراب کرو، پھر پانی چھوڑ دو؛ تاکہ وہ پڑوسی کے باغ میں پہنچے، اس پر وہ انصاری ناراض ہوگئے اور انھوں نے کہا کہ یہ (زبیر) آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں؛ اس لیے آپ نے یہ فیصلہ فرمایا ہے۔

             جب آپﷺ نے یہ بات سنی تو آپ کے چہرہ کا رنگ بدل گیااور آپ نے حضرت زبیرؓ سے ارشاد فرمایا کہ زبیر پہلے تم اپنے باغ کو سینچو اور پانی کو روک لو؛یہاں تک کہ پانی اس کی دیواروں تک پہنچ جائے، پھر وہ پانی اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو، اس طرح آپ ﷺ نے حضرت زبیر کے لیے پورا پورا حق دیا؛ جب کہ پہلے ایسی بات کا حکم دیا تھا جس میں دونوں کا فائدہ تھا، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ یہ آیت میرے ہی بارے میں نازل ہوئی ہے۔ (لباب النقول ص:۸۲، موٴسسة الکتب الثقافیة بیروت، یہ روایت بخاری مسلم سمیت ائمہٴ ستہ نے روایت کی ہے۔)

            اس شان نزول کے علاوہ بہت سے حضرات نے بشر نامی منافق کے واقعے کو ذکر کیا ہے، جس کا ایک یہودی سے اختلاف ہوگیا تھا، بعض حضرات کی رائے ہے کہ یہی شان نزول کا اصل واقعہ ہے، جب کہ بعضوں کا خیال ہے کہ پہلے واقعے سے متعلق آیت نازل ہوئی۔

معارف وفوائد

            اس آیت میں اللہ تبارک وتعالی نے سید الانبیاء محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند مرتبہ اور عظمت شان کے ذکر کے ساتھ مسلمانوں کے لیے یہ ضابطہ اور اصول دیا ہے کہ ان کا ایمان اس وقت معتبر ہوگا جب وہ اپنی پیش آمدہ تمام چیزوں میں آپﷺ کو حَکَم اور فیصل بنائیں، اور صرف رسماً یا زبردستی فیصل بنانا نہ ہو؛ بل کہ دل سے بھی اس کو قبول کرنا ہو؛ اس لیے کہ بسا اوقات آدمی زور زبردستی کسی کی بات مان لیتا ہے، جب کہ دل سے اس پر راضی نہیں رہتا ہے، شان نزول میں جس واقعہ کا ذکر ہے اس میں بھی یہی نکتہ اہم ہے کہ انصاری نے آپ ﷺ کی بات پر نکتہ چینی کی اور ناگواری کا اظہار کیا، جسے آپﷺ نے پسند نہیں کیا، آپ ﷺ نے پہلے ایک مصالحتی حکم دیا تھا، جس میں دونوں کا فائدہ تھا، لیکن انصاری نے اس کو قبول نہیں کیا؛ اس لیے آپ ناراض ہوئے اور بعد میں باقاعدہ فیصلہ سنایا۔

            آیت بالا میں رسول اللہﷺ کو فیصل بنانے کا حکم ہے؛ حالاں کہ آپ تو پہلے سے فیصل ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ محض فیصل ہونے کی وجہ سے آپﷺ کے پاس اپنے مقدمات لے جانا کوئی کمال نہیں ہے، یہ تو ہر حاکم اور قاضی کے یہاں ہوتا ہے کہ ماتحت افراد اس کے یہاں مقدمات لے جانے پر مجبور ہوتے ہیں اور بادل ناخواستہ فیصلہ کو قبول کرنا پڑتا ہے، یہاں باقاعدہ فیصل بنانے اور مقدمات کے مرافعہ کا حکم اس لیے دیا ہے کہ عام حاکموں کی طرح محض رسماً یا زور زبردستی کے ساتھ اپنے مقدمات آپ کی بارگاہ میں نہ لے جائیں، بل کہ دل وجان سے قبول کرتے ہوئے مقدمات لے جائیں؛ کیوں کہ آپ تو فیصل پہلے سے ہی ہیں، جب ضروت کے موقع پر آپ کے یہاں لے جائیں تو آپ کا احترام اور تقدس زیادہ ہوگا اور یہ احساس بھی ہوگا کہ فیصلہ تو آپ ہی سے کرانا ہے، چاہے ہمارے حق میں ہو یا ہمارے خلاف ہو، ایسا نہیں کہ اگر فیصلہ موافق ہونے کی امید ہو تو مقدمہ لے جائیں گے ورنہ نہیں، اسی لیے آیت میں اللہ تعالی نے صرف حَکم بنانے پر اکتفاء نہیں کیا؛ بل کہ مزید یہ ارشاد فرمایا کہ آپ کے فیصلے کو قبول کریں، دلوں میں تنگی محسوس نہ کریں اور اپنے آپ کو مکمل طریقہ سے خم کردیں؛ تاکہ کسی بھی درجہ میں رسول کی مخالفت نہ پائی جائے۔

            علامہ آلوسی بغداد یؒ آیت کی تفسیر میں اس بات کو ذیل کے انداز میں لکھتے ہیں:

            ”حتی یحکموک“ أي یجعلوک حَکما أو حاکما، وقال شیخ الإسلام: یتحاکموا إلیک ویترافعوا، وإنما جيء بصیغة التحکیم مع أنہ ﷺ حاکم بأمر الله إیذانا بأن اللائق بہم أن یجعلوہ علیہ الصلاة والسلام حکما فیما بینہم ویرضوا بحکمہ، وإن قطع النظر عن کونہ حاکما علی الإطلاق․ (روح المعاني:۵/۷۱، دار إحیاء التراث العربي بیروت)

            ابن کثیر نے بھی اسی طرح کی بات لکھی ہے کہ رسول کے فیصلے کو دل وجان سے قبول کرنا ضروری ہے، کسی بھی طرح کی ناگواری اور مخالفت نہیں ہونا چاہیے، اسی لیے اللہ تعالی نے آخر میں مکمل خود سپردگی کا حکم دیا ہے، ابن کثیر لکھتے ہیں:

            یُقسم تعالی بنفسہ الکریمة المقدسة: أنہ لا یوٴمن أحد حتی یحکم الرسول ﷺ في جمیع الأمور، فما حکم فہ فہو الحق الذي یجب الانقیاد لہ باطنا وظاہرا، ولہذا قال ”ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا“ أي إذا حکموک یطعیونک في بواطنہم فلا یجدون في أنفسہم حرجا مما حکمت بہ، وینقادون لہ في الظاہر والباطن فیسلمون لذلک تسلیما کلیا من غیر ممانعة ولا مدافعة ولا منازعة․ (تفسیر ابن کثیر:۴/۱۴۰-۱۴۱، موٴسسة قرطبة جیزہ)

            اس حوالے سے مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندیؒ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:

            اس آیت میں مسلمانوں کو (رسول اللہﷺکو) حَکم بنانے کی تلقین اس لیے فرمائی گئی ہے کہ حکومت کے مقرر کردہ حاکم اور اس کے فیصلہ پر تو بہت سے لوگوں کو اطمینان نہیں ہوا کرتا ، جیسے اپنے مقرر کردہ ثالث یا حکم پر ہوتا ہے؛ مگر آں حضرت ﷺ صرف حاکم نہیں؛ بل کہ رسول معصوم بھی ہیں، رحمة للعالمین بھی ہیں، امت کے شفیق ومہربان باپ بھی ہیں؛ اس لیے تعلیم یہ دی گئی کہ جب بھی کسی معاملہ میں یا کسی مسئلہ میں باہم اختلاف کی نوبت آئے تو فریقین کا فرض ہے کہ رسول کریم ﷺ کو حکم بنا کر اس کا فیصلہ کرائیں اور پھر آپ کے فیصلہ کو دل وجان سے تسلیم کرکے عمل کریں۔ (معارف القرآن:۲/۴۶۱)

            اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر حال میں قبول کرنا اور آپ کے فیصلوں پر راضی رہنا ایک موٴمن کی نشانی ہے، کوئی بھی شخص ایمان دار اس وقت تک نہیں ہوسکتا؛ جب تک کہ آپ ﷺ کو دل وجان سے قبول نہ کرلے، بل کہ وہ اپنی تمام تر خواہشات کے مقابلے میں آپ کو ترجیح دے اور آپ کے حکم اور فیصلے کے مطابق عمل کرے، کسی بھی چیز میں آپ کی منشاء کے خلاف کام نہ ہو، یہی اصل ایمان اور رسالت نبوی کو تسلیم کرنا ہے، جس کو مذکورہ بالا آیت میں ارشاد فرمایا ہے، اور یہی بات ذیل کی روایت میں بھی ارشاد فرمائی گئی ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:

            ”لا یوٴمن أحدکم حتی یکون ہواہ تبعا لما جئت بہ“ (رواہ ابن رجب في جامع العلوم والحکم:۸۲۴، الحدیث الحادي والأربعون، دار ابن کثیر بیروت)

            ”تم میں کوئی بھی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہش اس چیز کے تابع نہ ہوجائے جس کو میں لے کر آیا ہوں۔“

            ہاں طبعی طور سے اگر کچھ گرانی اور بوجھ ہو، جب کہ دل میں یازبان وعمل سے انکار نہ ہو تو یہ ایمان کے خلاف نہیں ہے؛ اس لیے کہ انسان طبعی امور میں معذور سمجھا جاتا ہے؛ البتہ اگر کسی درجہ میں اختیاری طور پر گرانی اور ناپسندیدگی ہو تو یہ رد عمل قابل قبول نہیں ہوگا، بل کہ قابل موٴاخذہ ہوگا، اور اگر کسی درجہ میں انکار پایا جائے تو پھر ایمان نہیں بل کہ کفر ہوگا، امام جصاص رازیؒ اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:

            وفي ہذہ الآیة دلالة علی أن من رد شیئا من أوامر الله تعالی أو أوامر رسولہ ﷺ فہو خارج من الإسلام، سواء ردہ من جہة الشک فیہ أو من جہة ترک القبول والامتناع من التسلیم․ (أحکام القرآن للجصاص: ۳/۱۸۱، دار إحیاء التراث العربي بیروت)

طاعت وتحکیم رسول کا حکم تا قیامت

            آیت بالا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم بنانے اور آپ کے فیصلے کو قبول کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ ہمیشہ کے لیے ہے، اسی طرح حکم بنانے سے مراد صرف شخصیت کو حکم بنانا نہیں ہے، بل کہ دین وشریعت کو حکم بنانا اور اس کے مطابق چلنا ہے، اور یہ امر قیامت تک کے لیے ہے، ایسا نہیں ہے کہ یہ حکم صرف آپﷺ کے زمانے کے ساتھ خاص ہے، جب تک آپ زندہ رہیں گے تو تحکیم کے لیے آپ کی خدمت میں جانا ضروری ہوگا، بعد میں یہ حکم ختم ہوجائے گا، حضرات مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ امر ہمیشہ کے لیے ہے؛ البتہ آپ کے وصال کے بعد چوں کہ براہ راست آپ کو فیصل نہیں بنایا جا سکتا؛ اس لیے بعد میں فیصلہ کے لیے قرآن وحدیث کی طرف رجوع کرنا ضروری ہوگا اور باہمی تمام مسائل میں ان کے مطابق عمل کرنا لازم ہوگا، اگر کوئی آپسی معاملات میں قرآن وحدیث کی طرف رجوع نہ کرے؛ بل کہ اپنی فکر اور سوچ کے مطابق عمل کرے تو اس کا ایمان ناقص ہوگا اور اگر کسی طرح کا شک یا رد کا معاملہ ہو تو ایمان کے دائرے سے باہر بھی ہوسکتا ہے۔

            قاضی شوکانیؒ نے اس بات کو بڑی وضاحت کے ساتھ اپنی تفسیر میں لکھا ہے؛ اس لیے رسول کی اطاعت کا حکم ہمیشہ کے لیے ہے تو تحکیم کا حکم بھی ہمیشہ کے لیے ہوگا؛ البتہ وفات کے بعد تحکیم کے لیے قرآن اور آپ کی احادیث کی طرف رجوع کرنا ہوگا اور قرآن وحدیث میں جو کچھ کہا گیا ہے اس پر عمل کرنا ضروری ہوگا؛ چناں چہ وہ لکھتے ہیں:

            والظاہر أن ہذا شامل لکل فرد من کل حکم، کما یوٴید ذلک قولہ (تعالی): وما ارسلنا من رسول إلا لیطاع باذن الله، فلا یختص بالمقصودین بقولہ: یریدون أن یتحاکموا إلی الطاغوت، وہذا في حیاتہ ﷺ، وأما بعد موتہ: فتحکیم الکتاب والسنة․ (فتح القدیر للشوکاني:۳۰۰، دار المعرفة بیروت)

             یہیں سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے لیے لازم اور ضروری ہے کہ وہ اپنے تمام مسائل واختلافات میں قرآن وحدیث کی طرف رجوع کریں، ایسے محاکم یا عدالتوں کی طرف رجوع کرنا جہاں قرآن وحدیث کے خلاف فیصلے کیے جاتے ہوں ہرگز درست نہیں ہوگا، آج بہت سے معاملات میں لوگ دنیاوی عدالتوں کے چکر لگاتے ہیں، آپسی اختلاف کے مواقع پر تھانہ پولیس کرتے ہیں اور قرآن وحدیث کے خلاف فیصلے کرتے کراتے ہیں یہ سب امور غلط اور ناجائز ہیں، ایک مسلمان بحیثیت مسلمان اس بات کا پابند ہے کہ وہ تمام تر مسائل میں قرآن وحدیث کی طرف رجوع کرے، یہی اس کے ایمان کا تقاضہ ہے اور یہی حکم خداوندی ہے اور یہی رسول کی طاعت وفرمانبرداری ہے۔

            اسی طرح آیت کے لفظ ”فیما شجر بینہم“ یہ بات بھی سے مستفاد ہوتی ہے کہ آپسی تمام طرح کے اختلافات ومسائل میں آپ کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے، چاہے وہ دینی معاملات ہوں، دنیاوی ہوں یا کچھ اور ہوں، سب کو آپ کی تحکیم پر رکھا جائے اور آپ کی رحلت کے بعد قرآن وحدیث کی کسوٹی پر پرکھا جائے ، اگر قرآن وحدیث کے مطابق ہے تو لیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے ورنہ اس کو چھوڑ دیا جائے، آج کل اس طرح کی صورت حال بھی پائی جاتی ہے کہ بعض مسائل میں تو قرآن وحدیث کی طرف رجوع کرتے ہیں؛ جب کہ بہت سے مسائل میں رجوع کرنا ضروری نہیں سمجھتے، یہ غلط ہے اور مسلمانوں کے لیے سخت نقصان دہ ہے، بالخصوص ہندوستانی ماحول میں تو بہت بڑا جرم ہوگا، اس وقت حکومت نے مسلم مسائل میں جو دل چسپی لی ہے اور ان میں اپنے من مانے فیصلے کررہی ہے وہ ہماری ہی کرتوتوں اور نادانیوں کا نتیجہ ہے، اگر ہم اپنے مسائل قرآن وحدیث سے حل کرنے کی کوشش کریں تو کیا مجال ہے کہ حکومت اس میں دخل اندازی کرے؛ لیکن ہم خود موقع دیتے ہیں اور بعد میں رونا روتے ہیں کہ حکومت مداخلت کررہی ہے اور مسلم پرسنل لاء کے خلاف فیصلے کررہی ہے، اس لیے ہمیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اپنے تمام تر مسائل کے حل کے لیے قرآن وحدیث کی طرف ہی رجوع کریں، دنیاوی عدالتوں کا چکر لگانا بند کریں، اس میں ہمارا بھی فائدہ ہے اور دوسروں کا بھی۔ اللہ تعالی اس کی توفیق دے۔ آمین

ایک شبہ کی وضاحت

            شان نزول کے ضمن میں جیسا کہ لکھا گیا کہ بعض حضرات نے حضرت زبیر ؓکے واقعہ کو بیان کیا ہے، جب کہ بعض نے منافق والے واقعے کو بیان کیا ہے، حضرت زبیر  کے واقعے میں یہ بات باعث اشکال بنتی ہے کہ ان کا اختلاف ایک انصاری صحابی سے تھا، اب انصاری سے تھا تو وہ غیر موٴمن کیسے ہوئے؟ اس اشکال کی وضاحت کے لیے بہت سے حضرات کا خیال یہ ہے کہ یہ آیت حضرت زبیرؓ کے سلسلے میں نازل نہیں ہوئی ہے، بل کہ یہ آیت منافق والے واقعے میں نازل ہوئی ہے اور منافق کو غیر موٴمن کہا گیا ہے، اس لیے کوئی اشکال نہیں ہوگا، امام رازیؒ نے اسی کو ترجیح دی ہے اور اسی کو پسندیدہ قرار دیا ہے، چناں چہ لکھتے ہیں:

            في سبب نزول الآیة قولان، أحدہما: وہو قول عطاء ومجاہد والشعبي : أن ہذہ الآیة نازلة في قصة الیہودي والمنافق، فہذہ الآیة متصلة بما قبلہا، وہذا القول ہو المختار عندي۔ (التفسیر الکبیر:۱۰/۱۶۸، دار الفکر بیروت)

            یہ رائے ہمارے اکابر میں سے حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی بھی ہے، حضرت تھانویؒ لکھتے ہیں:

            قلت: والروایة الثانیة أوفق بالمقام، والأولی لیست نصا في کونہا سبب النزول ففیہا ”فما أحسب ہذہ الأیات“ من غیر جزم․ (بیان القرآن:۱/۳۷۵، مکتبہ رحمانیہ لاہور)

            اور اگر یہ کہا جائے کہ مذکورہ آیت کا نزول حضرت زبیرؓ  کے واقعے میں ہوا ہے تو اشکال برقرار رہتا ہے، بل کہ کتب حدیث کی روایات سے ان انصاری کا بدری ہونا بھی معلوم ہوتا ہے، بہت سے حضرات نے انصاری کا نام ”حاطب بن ابی بلتعہ“ ذکر کیا ہے، بعضوں نے کچھ فرق کے ساتھ نام ذکر کیا، اور یہ واقعہ کتب احادیث میں بالعموم نام کی تصریح کے بغیر روایت کیا گیا ہے، ایسی صورت میں انصاری کو غیرموٴمن کہنا سمجھ میں نہیں آتا، بعض مفسرین نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ واقعہ حضرت زبیرؓ کا ہے اور ساتھ ہی کسی انصاری کا ہے؛ لیکن وہ انصاری مخلص مسلمانوں میں سے نہیں تھا؛ بل کہ اوس یا خزرج کے کسی قبیلے سے تعلق رکھتا تھا؛ اسی لیے اس کو انصاری کہہ دیا گیا، رہی بات حاطب بن ابی بلتعہ کی تو وہ مہاجرین میں سے ہیں، نہ کہ انصار میں سے؛ اس لیے اب اشکال نہیں رہا، یہ جواب قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ نے اختیار کیا ہے؛ چناں چہ وہ لکھتے ہیں:

            ولعل ذلک رجل منافق من الأوس أو الخزرج سمي أنصاریا لکونہ منہم نسبا․ (تفسیر المظہري: ۲/۳۷۳، مدار إحیاء التراث العربي بیروت)

            بعض مفسرین نے یہ جواب دیا ہے کہ وہ شخص انصار میں سے ہی ہے، ساتھ ہی وہ منافقین میں سے بھی نہیں ہے؛ لیکن اس سے اس معاملے میں غلطی ہوگئی، اور آپ ﷺ نے ان سے اعراض اور درگزر فرمایا؛ کیوں کہ آپ کو اس بات کا علم ہوگیا تھا کہ وہ شخص مخلص مسلمانوں میں سے ہے، نہ کہ منافقین میں سے۔ امام قرطبیؒ شان نزول کے اختلاف کو لکھ کر تحریر فرماتے ہیں:

            لکن الأنصاري زَلَّ زَلَّةً فأعرضَ عنہ النبي ﷺ وأقال عَثَرْتُہ لعلمہ بصحة یقینہ وأنہا کانت فلتة․ (تفسیر القرطبي:۶ /۴۴۱، موٴسسة الرسالة)

ہمارے کرنے کا کام

            مذکورہ آیت سے متعلق بہت ساری باتیں ذکر کی جاچکی ہیں، جن کی روشنی میں یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ ہمارے لیے لازم اور ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین اور شریعت کو اختیار کریں، قرآن وحدیث کی روشنی میں اپنے مسائل کو حل کرانے کی کوشش کریں اور اسی کے مطابق عمل کریں، یہی ہمارے ایمان کا تقاضا ہے اور یہی ہمارے لیے بنیادی چیز ہے، باہمی اختلاف ونزاع کے مواقع پر دنیاوی عدالتوں کا رخ کرنے کے بجائے قرآن وحدیث کی طرف رجوع کریں، اسی کے مطابق فیصلے کرائیں، اپنی نجی زندگیوں میں دین وشریعت کو ملحوظ رکھیں اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کریں، اگر کوئی اس کے خلاف کرے تو اسے سمجھانے کی کوشش کریں، تھانہ پولیس سے اپنے کو بچائیں، اسی میں ہماری کامیابی ہے اور یہی رسول کی اطاعت اور رسول کو حکم اور فیصل بنانا ہے، یہی آپ کے فیصلوں کو دل وجان سے قبول کرنا ہے اور یہی اپنے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے خم کرنا ہے۔

————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 10،  جلد:106‏،  ربیع الاول 1444ھ مطابق اكتوبر  2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts