الجمع بین الروایتین
(یعنی موطأ بہ روایت یحییٰ لیثی اور بہ روایت محمد)
ایک اجمالی تعارف
از: مولانا ابن مالک ایوبی، بنارس
ہر علم و فن میں بے شمار علماء نے مختلف موضوعات پر لاتعداد کتابیں تصنیف کی ہیں، کتابوں کے اس ہجوم میں ہر طرح کی کتاب پائی جاتی ہے، جو اپنے امتیازات کی بنا پر دیگر کتب سے الگ اور منفرد ہوتی ہیں؛ لیکن بعض کتابیں اپنی خصوصیات یا مصنّفین کے اخلاص اور عند اللہ مقبولیت کی بنا پر اس فن کی اساس کی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں، اور کتابوں کی درس گاہ میں اصل فوقیت اسی کتاب کو حاصل ہوتی ہے، جو کسی علم و فن کے لیے بنیادی و اساسی حیثیت رکھے۔
علم حدیث کے باب میں موطا امام مالک اسی حیثیت کی حامل ہے، دوسری صدی ہجری میں لکھی گئی یہ کتاب افقِ حدیث و سنت کا وہ روشن ستارہ ہے، جس سے تدوینِ حدیث اور تشریع اسلامی کاآغاز ہوا؛ اسی لیے امام شافعی جیسا عبقری اس مجموعہٴ حدیث کے متعلق یہ کہنے پر مجبور ہے: ما علی ظہر الأرض کتاب بعد کتاب اللّٰہ أصح من کتاب مالک(۱)․
(کہ کتاب خداوندی کے بعد روئے زمین پر موطا سے زیادہ صحیح ترین کتاب موجودنہیں)۔ موطا کی فقہی حیثیت اجاگر کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں، کہ: لا یوجد الآن کتاب ما، فی الفقہ أقوی من ”موطأ الامام مالک“(۲)․
کہ فقہ میں موطا سے زیادہ کوئی مضبوط کتاب فی الحال نہیں ہے۔
امام مالک کا یہ مجموعہٴ حدیث بے شمار محدثین و رواة نے ان سے سماعت کیا ہے،یہاں اس بات کا تذکرہ اہم ہے کہ موطا کی روایت میں امام صاحب کا طریقہٴ کار یہ تھا کہ آپ کے یہاں سال بہ سال موطا کا درس چلتا رہتا، اور اس درمیان آپ کتاب میں جمع شدہ احادیث و آثار کی تنقیح بھی کرتے رہتے؛ چنانچہ ابتدا میں امام صاحب نے موطا میں دس ہزار احادیث جمع کی تھیں؛ لیکن وہ کم ہوتے ہوتے (شیخ خلیل شیحا کی ترقیم کے لحاظ سے، مشہور نسخے کے مطابق) دو ہزار سے بھی کم رہ گئیں۔(۳)
اسی مسلسل تنقیح و تہذیب کا اثر تھا کہ مختلف سالوں میں سماعت کرنے والے شاگردوں کی مرویات میں تعداد کے لحاظ فرق پیدا ہونے لگا اور نتیجتاً موطا کے مرتب یا رائج ہونے والے نسخوں میں بھی تعدادِ روایات کے لحاظ سے کمی زیادتی ظاہر ہوئی۔
بہر کیف!ان سماعت کرنے والے بے شمار محدثین و رواة میں سے چند باتوفیق شاگردوں نے، اپنی اپنی سماعت کی بنیاد پر امام صاحب کی موطا کو مکمل قلمبندبھی کیا؛ تاکہ احادیث کا یہ عظیم مجموعہ آئندہ نسلوں تک بہ آسانی منتقل ہو؛چنانچہ علامہ عبدالحئی لکھنوی کے مطابق تقریباً سولہ شاگردوں نے امام مالک کی مرویات کو جمع کیا تھا(۴)؛لیکن خدا کی مرضی دیکھیے کہ ان میں سے صرف دو خوش نصیب شاگردوں کے نسخے رائج ہوئے:
۱- امام محمد بن حسن الشیبانی (۱۳۱-۱۸۹ھ)کا نسخہ
۲- امام یحییٰ بن یحییٰ المصمودی اللیثی ۱۵۲-۲۳۴ھ)کا نسخہ
موطا امام مالک کے ان دو نسخوں کے رواج اور نسل در نسل منتقلی میں شاید یہ حکمت تھی کہ یہ دو نسخے مختلف خصوصیات کے حامل ہیں۔
اگر یحییٰ لیثی کے نسخے کی بات کی جائے، تو امام لیثی(جو کہ محدث ہونے کے ساتھ، فقہ میں امام مالک کے پیروکار تھے) واحد ایسے شاگرد ہیں، جنہوں نے امام مالک سے مذکورہ کتاب دو مرتبہ سماعت کی ہے، ان دو میں سے آخری سماعت ۱۷۹ ہجری کی ہے اور اسی سال امام صاحب کی وفات ہوئی(اگرچہ یہ دوسری سماعت مکمل نہیں تھی(۵)۔ اس اعتبار سے امام صاحب جس موطا کی روایت و تدریس اور تہذیب و تنقیح برسہا برس کرتے رہے، اس کی اخری و صحیح ترین شکل امام یحییٰ کا نسخہٴ موٴطا ہے؛ اسی لیے خداوند قدوس نے اس نسخے کو اس قدر مقبولیت دی کہ جب بھی موطا امام مالک کا نام لیا جاتا ہے، تو طبعی طور پر ذہن اسی نسخے کی طرف جاتا ہے۔
دوسری جانب امام محمد بن حسن کی روایت کردہ موطا ایک فقیہ و محقق؛ بلکہ مجتہدکی روایت و ترتیب ہونے کی بنا پر اپنی الگ شان رکھتی ہے، امام محمد نے امام ابوحنیفہ کی وفات کے بعد،۱۶۰ھ میں حجاز کا سفر کیا اور تین برس امام مالک کے پاس رہ کر مکمل موطا سماعت کی، بعد میں آپ نے امام مالک کی تمام مرویات کو ایک نئے نہج پر جمع فرمایا، آپ کی روایت کردہ موطا برصغیر میں موطا امام محمد کے نام سے معروف ہے۔(۶)
امام محمد نے اپنے جدید نہج اور البیلے اسلوبِ تصنیف کے ذریعے فقہ حجازی (فقہ مالکی) اور فقہ عراقی (فقہ حنفی)کے مابین قربت و ہم آہنگی کی عمدہ و کامیاب کوشش کی ہے، محمدی نسخہٴ موطا دیکھنے والے جانتے ہیں کہ امام محمد پہلے امام مالک سے روایت کردہ حدیث یا اثر نقل کرتے ہیں، پھر ابراہیم نخعی، امام ابوحنیفہ یا کسی اور عراقی تابعی محدث کی روایت ذکر کرکے دونوں کے مابین مقارنہ و موازنہ کرتے ہیں، احادیث و روایات کو اس انداز سے جمع کرنے کا عمل سب سے پہلے امام محمد نے کیا ہے، بعد میں امام ترمذی کے تالیفی اسلوب میں کچھ کچھ یہ رنگ نظر آیا؛ لیکن وہ ایک فقیہ کے بجائے ایک محدث کا عمل تھا، جس کا فرق اہل نظر سے پوشیدہ نہیں۔
یہاں قابلِ ذکر امر یہ بھی ہے کہ امام محمد نے یحییٰ لیثی سے پہلے موطا کی سماعت کی ہے اور لیثی سے زیادہ مدت امام مالک کی صحبت میں رہے ہیں، دوسری جانب یحییٰ لیثی دو مرتبہ سماعت کی بنا پر اگرچہ ممتاز ہیں؛ لیکن دوسری سماعت نامکمل ہونے کی بنیاد پر، امام محمد کی موطا، لیثی کی موطا سے کسی درجے کمتر نہیں کہی جاسکتی۔ واللہ اعلم
بہرحال! موطأ کی انھیں خوبیوں کی بنا پر علماء و محدثین نے اس کتاب کی خوب خدمت کی، اس کی شروحات لکھی، حاشیے چڑھائے، احادیث و آثار کی تخریج کی، فقہی اقوال کی تنقیح و تشریح کی․․․․
اور ان خدمات کا سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔
لیکن نسخوں کے اختلاف کی وجہ سے امام مالک کی مرویاتِ موطا اب بھی یکجا نہیں تھیں، جو یحییٰ لیثی کی موطا پڑھتا وہ امام محمد کے نسخے کی ان مرویات سے محروم رہ جاتا، جو صرف امام محمد نے امام مالک سے روایت کی تھیں، اور جو موطا بہ روایت محمد پڑھتا وہ یحییٰ لیثی کی روایات منفردہ سے مستفید نہ ہو پاتا۔
ضرورت تھی کہ دونوں روایتوں کو یکجا کر دیا جائے؛ تاکہ دونوں کا مقارنہ و موازنہ اور بیک نظر استفادہ آسان ہو، اس ضرورت کی تکمیل کی خواہش علامہ عبد الحئی لکھنوی نے بھی کی تھی، لیکن کاتبِ تقدیر کے یہاں قرعہٴ فال کسی اور کے نام نکلنا تھا اور وہ خوش نصیب شخصیت حضرت مولانا عارف جمیل صاحب مبارکپوری (استاذ حدیث و ادب دارالعلوم دیوبند ورئیس التحریر ماہنامہ الداعی) کی ہے، جنھوں نے ”الجمع بین الروایتین“کے نام سے اس عظیم کارنامے کو انجام دیاہے۔
مولانا مبارکپوری نے جن خطوط پر کتاب کی بِنا رکھی ہے، ان کو اپنی کتاب کے آغاز میں تفصیل سے بیان کیا ہے، یہاں وہ تفصیل مقصود نہیں؛ البتہ کتاب کا مجموعی اسلوب ذکر کر دینا مناسب ہوگا۔
بنیادی طور پر کتاب تین اقسام پر مشتمل ہے:
۱- جن میں پہلی قسم میں وہ روایات جمع کی ہیں، جو امام محمد اور یحییٰ لیثی، دونوں اصحاب کی روایت کردہ ہیں، یہ روایات ۸۳۱ ہیں۔
۲- دوسری قسم امام محمد بن حسن کے ساتھ خاص ہے، جس میں صرف وہ روایات ہیں، جوامام شیبانی نے تنہا امام مالک سے روایت کی ہیں، یحیی لیثی ان کی روایت میں شریک نہیں رہے اور ایسی روایات ۲۱۳ ہیں۔
۳- تیسری قسم میں یحییٰ لیثی کی وہ روایات ہیں، جو انہوں نے امام محمد کی شراکت کے بغیر تنہا امام مالک سے روایت کی ہیں، ان کی کل تعداد۱۰۱۵ہے۔
اس طرح اس کتاب میں آپ کو دونوں نسخوں کی تمام روایات ایک نئے اسلوب میں دیکھنے کو ملیں گی اور چونکہ اس میں دونوں راویانِ موطأ کی مشترکہ و منفردہ دونوں طرح کی روایات جمع ہیں، اس لیے موٴلف محترم نے کتاب کو ”الجمع بین الروایتین“سے موسوم کیا ہے۔
ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اس میں موطا امام مالک کی صرف احادیث و آثاردرج ہیں، امام مالک کے فتاوی و آراء سے تعرض نہیں کیا گیا، جس سے معروضی طورپر دیگر اہلِ مسالک کے لیے مرویاتِ امام مالک سے استخراج و استدلال آسان ہوگا، نیز روایات میں ترقیم کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے؛ چنانچہ ہر روایت تین نمبرات درج ہیں:
۱- سب سے پہلے اصل کتاب کا نمبر ہے، جو آغاز کتاب سے ہر حدیث پر رقم ہے۔
۲- دوسرے نمبر پہ موطأ بہ روایت یحییٰ لیثی کی عالمی ترقیم ہے۔
۳- اور آخر میں موطأ بہ روایت محمد کی عالمی ترقیم درج ہے۔
کتاب کے استناد اور علمی اہمیت کے لیے ویسے تو خود موٴلف کا نام ہی کافی ہے، جوکہ ایک باکمال ادیب، اردو عربی کے کامیاب رواں دواں ترجمہ نگار اور دارالعلوم دیوبند کے عربی ترجمان ”الداعی“کے رئیس التحریر ہونے کے ساتھ، حدیث و فقہ میں بھی یدِ طولی رکھتے ہیں اور ان دونوں میدانوں میں بھی ان کی خدمات کا دائرہ وسیع ہے؛ چناچہ اس سے قبل حدیث وفقہ کے عظیم موسوعہ ”اعلاء السنن“کی، ”المعتصر من اعلاء السنن“ کے نام سے کامیاب تلخیص فرما چکے ہیں، جو ہندوستان کے ساتھ بیروت سے بھی مطبوعہ ہے، اس کے علاوہ نصف درجن سے زائد مفید ترین اردو وعربی کتب کے مصنف و مرتب ہیں۔
لیکن جب اس کتاب پہ بحر العلوم مولانا نعمت اللہ اعظمی (استاذ حدیث وصدر شعبہٴ تخصص فی الحدیث دارالعلوم دیوبند) اور مولانا زین العابدین صاحب اعظمی (سابق صدر شعبہ تخصص فی الحدیث مظاہر علوم سہارنپور)نے اپنے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے، تقاریظ رقم فرما دیں، تو اس کتاب کی اہمیت کس قدر بڑھ جاتی ہے، یہ ان دو صاحبانِ علم کی جلالتِ شان سے واقفیت رکھنے والوں پر مخفی نہیں ہے۔
یہ کتاب عمدہ کاغذ، صاف کتابت اور بہترین و دیدہ زیب سرورق کے ساتھ، مکتبہ ”دارالریاحین، اردن“سے چند ماہ قبل شائع ہوئی ہے اور دنیا بھر کے اہل علم کودعوتِ استفادہ دے رہی ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ حضرت مولانا عارف جمیل مبارکپوری زیدمجدہ کی اس عظیم علمی وحدیثی کاوش کو حسنِ قبول عطا فرمائے اور موٴلف محترم کو اجر جزیل سے نوازے۔ آمین
# # #
حواشی:
(۱) تزیین الممالک بمناقب الامام مالک، للسیوطی ص:۲۳․
(۲) المسوی شرح الموطا للمحدث الدھلوی، ۱۷․
(۳) المسوی شرح الموطا للمحدث الدھلوی، ۲۷․
(۴) التعلیق الممجد علی الموٴطا للامام محمد، للعلامہ اللکنوی، ج۱، ص:۸۷․
(۵) سیر أعلام النبلاء، للذھبی، ج۱۰، ص:۵۲۰․
(۶) المھیا فی کشف أستار الموطأ بروایة محمد بن حسن الشیبانی لعثمان بن سعید الکماخی، ج۱، ص:۱۷․
—————————————
دارالعلوم ، شمارہ : 10، جلد:106، ربیع الاول 1444ھ مطابق اكتوبر 2022ء
٭ ٭ ٭