از: مولانا محمد اللہ قاسمی

شعبہٴ انٹرنیٹ، دارالعلوم دیوبند

مجلس شوریٰ کا اجلاس

            دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری کا سہ روزہ اجلاس۱۵ تا۱۷/ صفر ۱۴۴۴ھ مطابق ۱۲تا ۱۴/ستمبر ۲۰۲۲ء بروز پیر تا بدھ دارالعلوم کے مہمان خانہ میں منعقد ہوا جس کی صدارت حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی نے فرمائی۔ ۱۵/ صفر کی صبح مجلس شوری کے اجلاس کا آغاز حضرت مولانا محمود حسن صاحب راجستھانی کی تلاوت سے ہوا۔ اولاً اہم نکات پر مبنی ایجنڈے کے مطابق کارروائی کا آغاز ہوا۔ ایجنڈہ کے مطابق مجلس شوری منعقدہ ماہ شعبان ۱۴۴۳ھ اور مجلس عاملہ منعقدہ ماہ ذیقعدہ ۱۴۴۳ھ کی کاروائیوں کی خواندگی و توثیق عمل میں آئی اور خواندگی کی کاروائی کے دوران زیر غور مسائل پر فیصلے لیے گئے۔

            اجلاس میں حضرت مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب مہتمم دارالعلوم نے رپورٹ انتظامیہ پیش فرمائی جس پر اراکین نے اطمینان کا اظہار کیا ۔مجلس میں سال گذشتہ کے میزانیہ آمد و صرف اور بیلنس شیٹ پیش کی گئی اور سال رواں کا سالانہ بجٹ 38,77,95,000(اڑتیس کروڑ ستترلاکھ پچانوے ہزار) روپئے منظور کیا گیا۔ ایجنڈہ میں حضرت مولانا نظام الدین خاموشؒ کے انتقال سے خالی شدہ سیٹ کے لیے ایک نئے رکن کے انتخاب کا معاملہ بھی شامل تھا، چناں چہ غور و خوض کے بعد اتفاق رائے سے حضرت مولانا سید محمود مدنی صاحب صدر جمعیة علمائے ہند کا انتخاب عمل میں آیا۔

            اجلاس میں نائب مہتمم حضرت مولانا عبد الخالق صاحب مدراسی نے شعبہٴ تعمیرات کی رپورٹ پیش کی جب کہ حضرت مولانا منیر احمد صاحب ناظم اعلی دارالاقامہ نے دارالاقامہ کی رپورٹ پیش کی۔ حضرت مولانا شوکت علی صاحب بستوی ناظم عمومی رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ نے رابطہٴ مدارس کی رپورٹ پیش کی ۔ مجلس شوریٰ نے رابطہٴ مدارس اسلامیہ کے مجلس عمومی کے اجلاس کو منظوری دی جو ۳۰/اکتوبر ۲۰۲۲ء کو منعقد کیا جائے گا، یہ اجلاس ہر تین سال میں منعقد ہوتا ہے اور سابق میں کورونا وبا کی پابندیوں کی وجہ سے اسے موقوف کرنا پڑا تھا۔

            اجلاس میں مجلس تعلیمی کی رپورٹ ناظم تعلیمات حضرت مولانا حسین احمد ہریدواری کے ذریعہ پیش کی گئی اور طلبہ کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں مجلس تعلیمی کے ذریعہ لیے گئے فیصلوں کی توثیق و تصویب کی گئی۔مجلس شوریٰ نے درجات حفظ و ناظرہ میں عصری مضامین کی تعلیم کی تجویز کو بھی منظوری دی ۔ مجلس نے طلبہ کے بدل طعام کے وظیفے میں اضافہ بھی منظور کیا۔

            مجلس شوری کے اس اجلاس میں مہتمم دارالعلوم حضرت مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب اور صدر المدرسین حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا غلام وستانوی صاحب اکل کوا، حضرت مولانا بدر الدین اجمل صاحب آسام، حضرت مولانا رحمت اللہ میر صاحب کشمیری، حضرت مولانا مفتی محمد اسماعیل صاحب مالیگاؤں ، حضرت مولانا انوار الرحمن صاحب بجنوری،حضرت مولانا محمود حسن صاحب کھیروا ،حضرت مولانا محمد عاقل صاحب سہارنپور، حضرت مولاناسید حبیب احمد صاحب باندہ، حضرت مولانا محمد عاقل صاحب شاملی اور حضرت مولانا مفتی محمد شفیق احمد صاحب بنگلور نے شرکت فرمائی، جب کہ حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب لکھنوٴ، حضرت مولانا سید محمد رابع صاحب حسنی ندوی لکھنوٴ، حضرت مفتی احمد خان پوری صاحب ڈابھیل، حضرت مولانا سید انظر حسین میاں صاحب دیوبندی، حضرت مولانا محمد اشتیاق صاحب مظفر پور، حضرت مولانا ملک محمد ابراہیم میل وشارم اور حضرت مولانا عبد الصمد صاحب کالیکاپور مغربی بنگال ذاتی مصروفیات اور اعذار کے سبب شرکت نہ کرسکے۔

            بدھ کو آخری نشست کے بعد حضرت حکیم کلیم اللہ صاحب علی گڈھی کی دعا پر مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس اختتام پذیر ہوا۔

نمائندہ اجلاس مربوط مدارس اسلامیہ صوبہ اتر پردیش

            گذشتہ دنوں حکومت اترپردیش کی جانب سے غیر امداد یافتہ مدارس کے سروے اعلان آنے کے بعد اہل مدارس میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ، چنان چہ اس اعلان کی وجہ سے پیدا شدہ صورت حال کے پیش نظر مشورہ کرنے اور اجتماعی پالیسی بنانے کے مقصد سے صوبہ اترپردیش کے مربوط مدارس اسلامیہ کا نمائندہ اجلاس ۲۰/صفر ۱۴۴۴ھ مطابق ۱۸/ستمبر ۲۰۲۲ء بروز اتوار حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی شیخ الحدیث ومہتمم دارالعلوم دیوبند وصدر کل ہند رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کی زیرصدارت، جامع رشید دارالعلوم دیوبند میں منعقد ہوا،جس میں پورے صوبہٴ اتر پردیش سے ۲/ہزار سے زیادہ ذمہ داران مدارس ، مندوبین اور علمائے کرام نے شرکت فرمائی۔

            بعد ازاں حضرت صدر اجلاس دامت برکاتہم نے وقیع اور قیمتی خطبہ صدارت میں صوبہ یوپی سے آئے اربابِ مدارس،علمائے دین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ”حکومت غیر امداد یافتہ یا غیر ملحقہ مدارس کی تفصیلات جمع کرنا چاہتی ہے، جس کے لیے بارہ سوالات پر مشتمل ایک فارم پُرکرایا جارہا ہے اوراس مقصد کے لیے آنے والا سرکاری عملہ، کچھ چیزیں زبانی معلوم کرکے یا معائنہ کرکے اطمینان حاصل کرتا ہے، ظاہر ہے کہ اس حد تک یہ کوئی قابلِ اعتراض کارروائی نہیں ہے، اسی لیے دارالعلوم اور تمام ذمہ دارتنظیموں اور اداروں کی طرف سے یہ اپیل کی گئی ہے کہ مدارس، اس عمل سے کسی خوف میں مبتلا نہ ہوں؛ بلکہ پورے اعتماد کے ساتھ اس کارروائی کی تکمیل کرائیں“۔

            حضرت نے مزید فرمایا کہ”ویسے بھی مدارس اسلامیہ کا، ہندوستان کی تاریخ میں جو روشن کردار ہے وہ کسی پر مخفی نہیں ہے، آزادی کی تحریک میں مدارس کا قائدانہ کردار، عالم آشکارا ہے اور آزادی کے بعد بھی ملک میں امن ومحبت اور بھائی چارہ عام کرنے اور دہشت گردی وفرقہ پرستی کا مقابلہ کرنے میں مدارس نے نہایت شاندار خدمات انجام دی ہیں، جن کا اعتراف مختلف مواقع پر حکومتی ذمہ داران اور وزراء کی جانب سے کیا گیا ہے۔اپنے تاریخی اور روشن کردار کے ساتھ ساتھ مدارس اسلامیہ نے وقت کے تقاضوں کی تکمیل میں بھی بھرپور حصہ لیا ہے اور ہر موقع پر امن وقانون کی پاسداری کا فریضہ نبھایا ہے، اس لیے مدارس کو کسی خوف یا مایوسی کا شکارہونے کی ضرورت نہیں ہے۔البتہ یہ ضروری ہے کہ مدارس، اپنی ذمہ دارانہ حیثیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے تمام انتظامات کو درست رکھیں، خاص طور سے تین چیزوں پر توجہ دی جائے“۔

            انھوں نے مالیاتی نظام کی شفافیت پر زور دیا،نیز مدارس کی جائدادوں سے متعلق قانونی تقاضوں کی تکمیل اور داخلی نظام کی بہتری پرزوردیا۔

            دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین امیرالہند حضرت مولانا سید ارشدمدنی دامت برکاتہم صدر جمعیة علماء ہندنے اپنے کلیدی خطاب میں دارالعلوم دیوبند کے قیام کے مقاصد اور اکابر دارالعلوم کی جنگ آزادی کی خدمات پر روشنی ڈالی، پھر فرمایا کہ ملک کی آزادی کے بعد فرقہ پرست طبقہ پیدا ہوا، ہماری ذمہ داری اسلام کی بقاء،ملک میں امن وامان کا قیام اور ملک وملت کی خیر خواہی ہے۔حضرت نے فرمایا کہ ہم عصری تعلیم کے خلاف نہیں ہے، ہم پروفیسر، انجینئربننے کے مخالف نہیں؛ لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا پہلا کام اپنے عقیدے کی حفاظت ہو، جس طرح ہمیں انجینئر وپروفیسر چاہیے اسی طرح بہتر سے بہتر مفتی اور عالم کی بھی ضرورت ہے، حلال وحرام کے مسائل جاننے والے کی بھی ضرورت ہے۔

             حضرت والانے مزید فرمایا،مدارس اسلامیہ کو اپنے نظام کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے، صفائی ستھرائی پر پوری توجہ دینی ہے، حقوق اطفال کی بھی فکر کرنی ہے، بچوں کو زدوکوب کرنے کا سلسلہ یکسر ختم ہونا چاہیے، ہمیں سرکاری تفتیشی عملے کے ساتھ اخلاق ورواداری کے ساتھ پیش آنا ہے اور ان کا تعاون کرنا ہے، ہم سروے کے خلاف نہیں ہیں۔حضرت نے یہ بھی فرمایا کہ ہم عصری تعلیم دارالعلوم میں جاری کرنے کا نظام بنارہے ہیں، عربی اول سے پہلے ہم بچوں کو دسویں پاس کرادینا چاہتے ہیں۔

            اجلاس کے ناظم جناب مولانا شوکت علی قاسمی ،ناظم عمومی کل ہند رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ نے اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنایاجسے آمدہ تجاویز کی روشنی میں تجاویز کمیٹی نے مرتب کیا تھا، اعلامیہ میں دارالعلوم اور دیگر مدارس اسلامیہ کے آزادی سے قبل اور اس کے بعد تاریخی کردار کو پیش کیا گیا تھا۔اعلامیہ میں ملت اسلامیہ کے تمام طبقات سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ مدارس اسلامیہ کی قدروقیمت کو محسوس کریں اور ایسے کسی بھی قول وفعل سے اجتناب کریں یا جس کے بارے میں کوئی منفی تاثر پیدا ہو۔اعلامیہ میں تمام مدارس اسلامیہ سے اپیل کی گئی ہے کہ حکومت یوپی کی جانب سے ہونے والے حالیہ سروے کے عمل سے کسی خوف یا ذہنی انتشار کے شکار نہ ہوں نہ کسی جذباتیت کا مظاہرہ کریں، بلکہ اس کو ایک ضابطے کی کارروائی سمجھتے ہوئے تعاون کا طرز عمل اختیارکریں، مالیات کا نظام چست درست رکھیں، مدرسے کی زمین جائداد کے ملکیتی کاغذات کو درست رکھیں، مدارس کا رجسٹریشن کرائیں۔

             اعلامیہ کی تائید اور مختصر خطاب کرنے والوں میں حضرت مولانا رحمت اللہ کشمیری،حضرت مولانا محمود صاحب کھیروی، حضرت مولانا عاقل صاحب گڈھی دولت ارکان مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند کے علاوہ مولانا محمد راشدصاحب نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند، مولانا حسین احمد صاحب ناظم تعلیمات دارالعلوم دیوبند، مولانا سلمان صاحب بجنوری استاذ دارالعلوم دیوبند کے ساتھ جناب مولانا اشہد رشیدی مرادآباد، مولانا ظہیر انوار صاحب بستی، مولانا مفتی اشفاق صاحب سرائے میر، مولانا اقبال احمد صاحب، حافظ عبدالقدوس ہادی صاحب کانپور، مولانا خورشید احمد صاحب میرٹھ، مولانا حامد صاحب مظفر نگر، مولانا عبدالرب صاحب جہاناگنج، مولانا محمد جعفر صاحب مظاہر علوم سہارنپور، مولانا محمدشریف صاحب دیوبند، مولانا خالد سیف اللہ صاحب گنگوہ، مولانا محمد اسماعیل صادق صاحب مظفر نگر وغیرہ حضرات کے اسماء گرامی شامل ہیں۔

            اجلاس کا آغاز جناب قاری شفیق الرحمن صاحب بلندشہری،استاذ تجویر وقرأت دارالعلوم دیوبند کی تلاوت قرآن کریم سے ہوا، پھر مولانا محمد ذکوان صاحب فاضل دارالعلوم نے نعت شریف پیش کی۔ یہ اجلاس سوانوبجے شروع ہوکر بارہ بج کر ۴۰/منٹ پر صدراجلاس کی دعا پر اختتام پذیر ہوا۔

————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 10،  جلد:106‏،  ربیع الاول 1444ھ مطابق اكتوبر  2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts