صلح حدیبیہ، بیعت رضوان اور مقام سیّدنا عثمانؓ

از: مولانا ابوبکر حنفی شیخوپوری

سابق استاذ تفسیر جامعہ امدادیہ، چنیوٹ۔

             صلح حدیبیہ سیرت النبی کا ایک درخشندہ باب ہے،اس کا شمار اسلام کے ان تاریخی معاہدات میں ہوتا ہے جنھوں نے اسلام کی تعمیرو ترقی اوراشاعت و فروغ میں خشت اول کا کردار ادا کیا ۔اس معاہدے کے تناظر میں آنحضرت ﷺ کی قائدانہ صلاحیت ،مدبرانہ حکمت ،شعوری سیاست اور امور سلطنت میں بالغ نظری کھل کرانسانیت کے سامنے آئی جس نے تمام سلاطین عالم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور وہ آنحضرت ﷺکے ایک کامیاب سیاسی لیڈر ہونے کا اعتراف و اقرار کیے بغیر نہ رہ سکے۔ عصر سابق اور عصر حاضر کے بہت سے غیر مسلم مفکرین کا یہ خیال ہے اگر اس موقع پر مشرکین مکہ کی جانب سے مسلمانوں کا راستہ صاف کر دیا جاتا،وہ اپنے پلان کے مطابق عمرہ کی ادائیگی کر کے مدینہ واپس چلے جاتے اور اس تاریخی مصالحت کی نوبت نہ آتی تو آج تاریخ مذاہب میں جو اسلام کو کلیدی حیثیت حاصل ہے وہ کبھی نہ ہوتی۔آئیے!سیرت نبویﷺکی روشنی میں اس واقعہ کے خدوخال، پس منظر،پیش منظر اور حالات و واقعات کا بنظر غائرجائزہ لیتے ہیں ۔

پس منظر

            مسلمانوں کو مکہ جیسا مقدس شہر چھوڑے ہوئے چھ سال کا عرصہ گذر چکا تھا،مدینہ رہتے ہوئے بھی ان کے دل و دماغ میں بیت اللہ بستا تھا ،حرم کی پرنورفضاوٴں میں گزرے ہوئے لمحات کے دوران ”لبیک اللہم لبیک“ کی لگائی ہوئی روح پرور صدائیں ہر وقت ان پر عشق الٰہی کا سحر طاری کیے رکھتی تھیں۔ان پرانی یادوں کو تازہ کرنے اور کعبة اللہ کے شرف زیارت سے مشرف ہونے کا شوق ہر آن اُن کے قلوب میں مچلتا تھا۔دوسری طرف مکہ کے حالات اور مشرکین کا اسلام کو پھلتے پھولتے دیکھ کرمسلمانوں پر شدید غم و غصہ اس راہِ شوق میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔علیم و خبیر ذات کی طرف سے غیبی نظام حرکت میں آیا اوراس نے مایوسیوں کے ان گھٹا ٹوپ اندھیروں میں امید کی کرن کو نمودار کر کے اس مبارک سفر کے لیے ایک سبب پیدا فرمادیا،ہوا یہ کہ آنحضرتﷺ نے خواب دیکھا کہ آپ ﷺ صحابہ کرامؓ کے ہمراہ امن کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے اورعمرہ کیاپھر بعض صحابہؓ نے سر کا حلق کروایا اور بعض نے سر منڈوایا۔نبی کا خواب چونکہ وحی کے درجے میں ہوتا ہے اس لیے یہ خواب گویا اللہ کی طرف سے حکم تھا کہ آپﷺ اپنے ساتھیوں کو لے کر مکہ جا ئیں اورعمرہ کی ادائیگی کریں۔یہ خواب سنتے ہی صحابہٴ کرامؓ کے دلوں میں محبت الٰہیہ کی چنگاری بھڑک اٹھی اور وہ خانہ خدا کی زیارت کے لیے بھرپور تیاری میں مصروف ہو گئے۔نبی کریم ﷺیکم ذی القعدہ ،۶ ہجری بروز پیر چودہ سو افراد کے قافلہ کے ساتھ مکہ کے لیے روانہ ہوئے،چونکہ اس سفر کا مقصد خالصةً عمرہ ادا کرنا تھا اور جنگ کاکوئی ارادہ نہیں تھا؛اس لیے ضروری ہتھیاروں کے علاوہ کوئی سامان جنگ ساتھ نہ لائے۔قربانی کے جانور بھی ساتھ تھے۔ذوالحلیفہ پہنچ کر عمرہ کا احرام باندھا اور جانوروں کے گلے میں قلادہ(نشانی)ڈالا۔

مقام حدیبیہ میں پڑاوٴ

            مکہ معظمہ سے نو میل کے فاصلے پر ایک کنواں ہے جس کا نام حدیبیہ ہے ،اسی کنویں کے نام سے وہ گاوٴں منسوب ہے۔حضرت خالد بن ولیدؓ جو اس وقت تک مشرف باسلام نہیں ہوئے تھے، مسلمانوں کی آمد کا سن کر دوسو آدمیوں کی جماعت کے ساتھ روانہ ہوئے اور حدیبیہ کے مقام پر آپ ﷺ کے قافلے کو روک لیا۔معروضی صورتحال کے پیش نظر نبی کریمﷺ نے حضرت خراش بن امیہ خزاعیؓ کو ایک اونٹ پر سوار کر کے بطور قاصد اہل مکہ کی طرف یہ کہلا کر بھیجا کہ ہمارے اس سفر کا مقصد صرف بیت اللہ کی زیارت اور عمرہ کی ادائیگی ہے،ہم آپ سے نہ جنگ کرنے آئے ہیں اور نہ ہی کوئی اسلحہ ساتھ لائے ہیں،لہٰذا ہمارے لیے حرم کے دروازے کھول دیں اور ہم سے کوئی مزاحمت نہ کریں۔ اہل مکہ نے تمام تر سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قاصد کے اونٹ کو قتل کر دیا اور پھر ان کے قتل کے در پے ہو گئے،حضرت خراشؓ ان سے بچ بچاو کر کے نکل آئے اور واپس آکر نبی کریمﷺ کو ساری صورتحال سے مطلع کیا۔مشرکین کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ اس شدید مزاحمتی رویے سے آپ ﷺ سمجھ گئے کہ اب ان کے ساتھ ٹھوس انداز میں بات کرنے اور ان کو پوری طرح قائل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے؛چنانچہ آپ ﷺ نے حضرت عمرؓ کو بطورسفیر اہل مکہ سے بات چیت کرنے اور امن وامان کی ضمانت دینے کے لیے جانے کو کہا۔حضرت عمرؓ نے یہ کہہ کر جانے سے معذرت کر لی کہ یہ مصالحت کا موقع ہے؛ جب کہ میرا تندو تیز مزاج احتیاط کے باوجود مزاحمت کی صورتحال پیدا کر سکتا ہے۔حضرت عمرؓ کی جانب سے یہ انکارمعاذ اللہ حکم نبوی کی نافرمانی کے زمرے میں نہیں آتا؛ بلکہ یہ منشاء نبوت کی تکمیل کے لیے تھا کہ کہیں اس موقع پر میرے منہ سے انجانے میں نکلا ہوا لفظ مصالحت کے عمل کو متاثر نہ کر دے جس سے نبی کریمﷺ کو تکلیف پہنچے۔

حضرت عثمانؓ کی بطور قاصد مکہ روانگی

            اس کے بعد آپﷺ نے حضرت عثمانؓ کوقریش مکہ سے گفتگو کے لیے روانہ کیا اور ساتھ ہی مکہ میں موجود ضعفاء مسلمین جوہجرت نہیں کر سکے تھے اور مکہ میں مسلسل مشرکین کے مظالم کا شکار تھے کے نام پیغام بھیجا کہ وہ حوصلہ رکھیں اور پر امید رہیں کہ اللہ تعالیٰ عنقریب فتح نصیب فرمائے گا اور اپنے دین کو غالب فرمائے گا۔ حضرت عثمانؓ اپنے ایک عزیز ابان بن سعیدؓ کی پناہ میں مکہ داخل ہوئے اور سرداران قریش سے بات چیت کی۔انھوں نے عمرہ کی اجازت دینے سے صاف انکار کردیا؛ البتہ حضرت عثمانؓ کی شرافت کی وجہ سے انھیں تنہا طواف کرنے کی اجازت دے دی۔

یہ رمز ہیں کچھ عاشق و معشوق کے مابین

            کہتے ہیں کہ محبت کی خوشبو ہزاروں میل کے فاصلے پر بھی محسوس ہوتی ہے۔محب اور محبوب کے درمیان ایک رمز ہوتی ہے جو زمانے کی رکاوٹوں کی عبور کرتی ہوئی دونوں کے دلوں کی تار ہلاتی ہے۔ایسا ہی کچھ منظر اس موقع پرسامنے آیا کہ جب قریش مکہ کی جانب سے حضرت عثمانؓ کو انفرادی طور پر عمرہ ادا کرنے کی اجازت دی گئی تو انھوں نے دوٹوک جواب دیا کہ ادھر میرے محبوب ﷺ حرم کے درودیوار دیکھنے کو ترستے رہیں اور ادھر میں آپﷺ کے بغیر اطمینان سے طواف کرتا پھروں، ایسا ممکن نہیں۔دوسری جانب حدیبیہ کے مقام پر بعض صحابہٴ کرامؓ نے کہہ دیا کہ حضرت عثمانؓ تو مزے سے طواف کر رہے ہوں گے اور ہم ادھر بیت اللہ کی ایک جھلک دیکھنے کو بیتاب ہیں تو نبی کریم ﷺ نے حضرت عثمانؓ پر بے پناہ اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ”عثمانؓ ہرگز میرے بغیر طواف نہیں کر سکتا“۔محبت کی اسی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے شاعر نے یوں کہا ۔#

دونوں جانب سے اشارے ہو گئے

تم ہمارے ،ہم تمہارے ہو گئے

            بہرحال حضرت عثمانؓ نبی کریمﷺ کے بغیر طواف کرنے پر قطعاًآمادہ نہ ہوئے اور قریش نے حضرت عثمانؓ کو روک لیا،ادھر حدیبیہ میں یہ خبر مشہور ہو گئی کہ حضرت عثمانؓ کو شہید کر دیا گیا ہے۔

بیعت رضوان

            حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر مسلمانوں پر آسمانی بجلی بن کر گری،نبی کریمﷺ صدمے سے نڈھال تھے،آپ ﷺنے طبل جنگ بجاتے ہوئے ارشاد فرمایا ”ہم عثمانؓ کا بدلہ لیے بغیر یہاں سے نہیں جائیں گے“۔اس وقت آپﷺ کیکر کے درخت کے سائے میں تشریف فرما تھے،آپ ﷺ نے اپنے ساتھ موجود چودہ سو صحابہ کرامؓ سے قصاص عثمانؓ پر بیعت لی،سب سے پہلے بیعت کرنے والے صحابی حضرت ابو سنانؓ تھے۔اس خبر سے صحابہ کرامؓ اس قدر غم وغصے کی کیفیت میں تھے کہ بعض نے کئی بار بیعت کر کے حرمت عثمانؓ کے لیے جان قربان کرنے کا عزم مصمم ظاہر کیا ؛چنانچہ حضرت سلمہ بن اکوعؓ نے تین مرتبہ بیعت کی۔شروع،درمیان اور آخر میں۔جب سب صحابہ کرامؓ بیعت کر چکے تو آپﷺ نے اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ پر رکھا اور ارشاد فرمایا ”یہ بیعت عثمانؓ کی جانب سے ہے“۔یہ حضرت عثمانؓ کے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی؛چنانچہ آپؓ اپنی مجالس میں اس بات کا تحدیث بالنعمة کے طور پرذکر فرماتے اور ارشاد فرماتے”میری جانب سے رسول اللہﷺ کا بایاں ہاتھ میرے دائیں ہاتھ سے کہیں بہتر تھا“۔بیعت کا یہ عمل اور اپنے ایک ساتھی کے ساتھ اس قدرجانثارانہ تعلق حق جلّ مجدُہ کو اس قدر پسند آیاکہ خود اس میں مداخلت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ”اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے اوپر ہے “(الفتح)۔اس بیعت کو اہل سیر کی اصطلاح میں ”بیعت رضوان“ کہا جاتا ہے۔بیعت کرنے والے ان تمام صحابہ کرامؓ سے اللہ تعالی نے اپنے ابدی و ازلی کلام میں رضا مندی کا اعلان کیا؛چنانچہ ارشاد فرمایا”بلاشبہ اللہ تعالی ایمان والوں سے راضی ہو گیا جب وہ آپ کے ہاتھ پر درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے،جو(اخلاص) ان کے دلوں میں تھااللہ کو خوب معلوم تھا،پھر اللہ نے ان پر طمانیت کو اتارا“۔(الفتح)

مصالحت کی ابتدائی کاوش

            تحقیق حال کے بعد جب معلوم ہوا کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر محض افواہ تھی اور حضرت عثمانؓ بخیروعافیت ہیں تومسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔دوسری طرف مسلمانوں کی بیعت سے متعلق سن کر اہل مکہ مرعوب ہو گئے اوران کے ایمانی جذبے کو دیکھ کر صلح کی طرف مائل ہوئے۔ صلح کا قصہ یہ ہوا کہ قبیلہ بنوخزاعہ جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوا تھا؛ لیکن روز اول سے مسلمانوں کا حلیف اورخیرخواہ تھا اوراس کا سردار بدیل بن ورقاء جو انتہائی معتدل آدمی تھا،نے آپﷺ کو آکر اطلاع دی کہ قریش نے مکہ میں آپ کو داخل ہونے سے روکنے کے لیے حدیبیہ کے اطراف میں پانی کے چشموں پر بہت بڑا لشکر جمع کیا ہے اور ان کا یہاں پر طویل قیام کا ارادہ ہے۔نبی کریم ﷺ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا ” ہم یہاں کسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں؛ البتہ اگر قریش کی خواہش ہو تومیں ان سے صلح کی ایک مدت مقرر کر لیتا ہوں،اگر وہ اس پر آمادہ نہ ہوئے تو میں ہر حال میں ان سے لڑائی کروں گا“۔بدیل نے آکر قریش کو نبی کریمﷺ کے عزائم سے مطلع کیا اور صلح کی اس پیشکش کو سراہتے ہوئے انھیں اس پر آمادہ کرنا چاہا؛ لیکن انھوں نے بدیل کی بات کو زیادہ اہمیت نہ دی۔حضرت عروہ بن مسعودثقفیؓ (جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے)نے بھی بدیل کی بات کی تائید کرتے ہوئے قریش کو صلح کے لیے تیار کرنے کی کوشش کی اور ان سے محبت بھرے لہجے میں کہا ”اگر تم مجھے اپنے باپ کے درجے میں مانتے ہو تو مجھے نبی کریمﷺ سے بات کرنے کی اجازت دے دو“۔عروہ کی طرف سے شدید اصراراور اس قدرمنت ولجاجت دیکھ کر قریش نے بات چیت کی اجازت دے دی ۔

صحابہٴ کرامؓ کی غیرت ایمانی کی ایک جھلک

            عُروہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور بات چیت شروع کی ،اثنائے گفتگو میں انھوں نے کہہ دیا کہ اگرلڑائی کی صورت میں قریش تم پر غالب آگئے توجتنے لوگ آپ کے ساتھ ہیں سب آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔حضرت ابوبکرصدیقؓ جو آنحضرت ﷺکے پیچھے بیٹھے تھے یہ سن کر غیرت ایمانی سے طیش میں آگئے اور عروہ سے مخاطب ہوکر فرمانے لگے”کیا ہم آپﷺ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے؟“۔مطلب یہ تھا کہ زندگی کی آخری سانس تک حضورﷺ کا ساتھ دیں گے۔گفتگو کے دوران عروہ بار بار آپﷺ کی داڑھی کو پکڑتے ،عروہ کے بھتیجے حضرت مغیرہ بن شعبہؓ اس مجلس میں موجود تھے ،چچا کایہ غیر مہذب رویہ ان سے دیکھا نہ گیا اور حضورﷺ کی محبت میں اس رشتہ داری کا لحاظ کیے بغیر عروہ سے کہنے لگے کہ ”اپنا ہاتھ رسول اللہﷺ کی داڑھی سے ہٹاوٴ ،ایک مشرک کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ آپﷺ کی داڑھی کو ہاتھ لگائے“۔

صحابہ کرامؓ کا آنحضرت سے عقیدت مندانہ تعلق

            اسی مجلس میں عروہ نے صحابہ کرامؓ کا حضورﷺ سے ایسے عقیدت مندانہ تعلق کامشاہدہ کیا جس نے انھیں حد درجہ متاثر کیا،عروہ نے دیکھا کہ جب بھی آپﷺ کسی کام کا حکم دیتے ہیں تو ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ اس حکم کی تعمیل میرے حصے میں آئے،جب آپﷺ منہ سے تھوک یا بلغم نکالتے ہیں یا وضو کرتے ہوئے پانی استعمال کرتے ہیں تو اس کو زمین پر گرنے نہیں دیتے اور تبرک کے طور پر اپنے وجود پر مل لیتے ہیں،آپ کے وجود اقدس سے کوئی بال گر جائے تواس کو اٹھانے کے لیے لپکے چلے آتے ہیں۔ان تبرکات کے حصول کے لیے اس قدر کوشاں ہیں کہ باہمی نزاع پیدا ہونے کا ڈر محسوس ہونے لگتا ہے،مجلس میں جب آپﷺ بات کرتے ہیں تو سناٹا چھا جاتا ہے۔

صلح کی کوشش رنگ لے آئی

            عروہ مجلس سے اٹھے اورواپس جا کر قریش کو کہا کہ مجھے قیصر ،کسری،نجاشی اور بہت سے سلاطین کے دربار میں جانے کا موقع ملا؛ لیکن کسی بادشاہ کے دربانوں کا اپنے بادشاہ سے ایسا بے لوث رشتہ اور پرخلوص تعلق نہیں دیکھا جیسا حضرت محمدﷺکے ساتھیوں کا آپ ﷺکے ساتھ دیکھا،وہ اپنے نبی کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں؛ لہٰذا عافیت اسی میں ہے ان سے مصالحت کر لی جائے۔ آخرقریش یہ صورتحال دیکھ کر صلح پر آمادہ ہو گئے اور سہل بن عمرو کو صلح کے لیے بھیجا،شرائط صلح طے ہونے کے بعد آپﷺ نے حضرت علیؓ سے یہ تاریخی صلح نامہ تحریر کروایا۔

شرائط صلح

            مسلمانوں اور قریش کے درمیان درج ذیل باتوں پر اتفاق رائے ہوا:

            ۱- مسلمان اس سال بغیر عمرہ کے واپس چلے جائیں اور آئندہ سال آکر عمرہ ادا کریں؛ لیکن تین دن سے زیادہ قیام کی اجازت نہیں ہو گی اور کسی قسم کا اسلحہ ساتھ لانے کے مجاز بھی نہیں ہوں گے، سوائے تلواروں کے اور وہ بھی نیام کے اندر ہوں گی۔

            ۲- دس سال کے لیے جنگ بندی ہو گی، کوئی فریق دوسرے پر تلوار نہیں اٹھائے گا۔

            ۳- جو شخص مسلمانوں میں سے مدینہ سے مکہ آئے گااس کو واپس نہیں بھیجا جائے گا ۔

            ۴- اگر قریش میں سے کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ جائے گا تو مسلمان اس کو مکہ واپس بھیجنے کے پابند ہوں گے۔

            ۵- متحدہ قبائل کو اختیار ہو گا کہ جس کے معادہ اور صلح میں شریک ہونا چاہیں شریک ہو جائیں۔

حدیبیہ سے واپسی

            صلح نامہ مکمل ہونے کے بعدنبی کریمﷺ نے مکہ واپسی کے لیے صحابہ کرامؓ کوجانور ذبح کرنے ،حلق کروانے اور احرام اتارنے کا حکم دیا تو ان کے لیے یہ کام کسی سنگ گراں کو ہٹانے کے مترادف تھا۔ بیت اللہ دیکھنے کی جستجو لے کرآنے والے ان عشاقان الٰہی پر بغیر عمرہ کے جانا اس قدر دشوار گذار مرحلہ تھا کہ نبی کریمﷺ نے تین بار جانوروں کو ذبح کرنے کا حکم دیا؛ لیکن ایک شخص بھی نہ اٹھا۔نبی کریمﷺ نے اپنی زوجہ حضرت ام سلمہؓ سے بطور شکایت اس کا ذکر کیا تو انھوں نے صحابہ کرامؓ کی طرف سے صفائی دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس وقت سخت صدمے سے نڈھال ہیں،ان کی جانب سے یہ معاملہ طبعی اور فطری ہے ،اس کی وجہ سے آپ ان پر ناراض نہ ہوں ۔پھرآپﷺ کو اس قضیے کے حل کے لیے ایک تجویز پیش کی کہ آپ خود ان کے سامنے جانور ذبح کر کے سر منڈوائیں تو وہ بھی تعمیل حکم کے لیے تیار ہو جائیں گے؛چنانچہ نبی کریمﷺ نے ایسا ہی کیا تو سب صحابہ کرامؓ نے آپ کو دیکھ کر قربانی شروع کر دی ۔تقریباًدو ہفتے حدیبیہ میں قیام کے بعد نبی کریمﷺ واپس مدینہ روانہ ہوگئے۔

صلح حدیبیہ کے سیاسی اور مذہبی اثرات

            صلح حدیبیہ کی اکثر شرائط مسلمانوں کے اجتماعی،مذہبی اور تبلیغی امور کے خلاف جاتی تھیں۔اس صلح نامے کا ایجنڈا بظاہر مسلمانوں کے مصالح اور مفاد عامہ کے بالکل برعکس تھا جس پر تمام صحابہ کرامؓ میں خاصی تشویش پائی جاتی تھی؛ بالخصوص وہ رقت آمیز منظر جب دیکھنے کو ملا کہ سہیل کے بیٹے ابوجندلؓ زنجیروں میں جکڑے ہوئے لائے گئے اور اس قدر گریہ زاری سے مدینہ جانے پر اصرار کیا کہ صحابہٴ کرامؓ کی ہچکیاں بندھ گئیں اور اس کا تحمل نہ کر سکے؛ لیکن معاہدہ کی وجہ سے نبی کریمﷺ نے انھیں تسلی دیتے ہوئے ساتھ لے جانے سے انکار کر دیا۔حضرت عمرؓسے ضبط نہ ہو سکا اور یہ کہہ بیٹھے ”یارسول اللہ!ہم یہ ذلت کیوں گوارا کریں؟“بعد میں حضرت عمرؓ اپنے ان الفاظ پر بہت شرمندہ ہوئے اور اس کے کفارے کے طور پربہت سے غلام آزاد کیے۔

            نبی کریم ﷺ کی اس سیاسی بصیرت کو اس وقت تو کوئی نہ سمجھ سکا؛ لیکن جنگ بندی کے باعث آنحضرتﷺ نے دعوت کا دائرہ وسیع کر دیا ،عوام سے نکل کرخواص تک اسلام کا پیغام پہنچایا، سلاطین کو دعوتی خطوط تحریر کیے ،صلح کی وجہ سے اپنا اسلام پوشیدہ رکھنے والوں کو بھی اظہار کا موقع ملا۔ نتیجہ یہ ہواکہ صلح حدیبیہ کے ٹھیک دوسال بعدآٹھ ہجری میں مکہ فتح ہوا،قبائل اسلام میں داخل ہوئے اور اسلام کو تمام ادیان عالم پر غلبہ نصیب ہوا،اس وقت صحابہٴ کرامؓ کو اس بات کا ادراک ہوا کہ نبیِ کریم ﷺ کس دوٗررس سوچ کے مالک ہیں اور آپﷺ کی نگاہ میں کیاسیاسی منظر نامہ تھا جس کی وجہ سے آپ ﷺ ان کڑی شرطوں کے باوجودصلح پر راضی ہوئے۔

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :9-8،    جلد:106‏،  محرم الحرام – صفرالمظفر 1444ھ مطابق   اگست-ستمبر 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts