مشاجراتِ صحابہ اوراہل السنۃ والجماعۃ کامعتدل مسلک

(ڈاکٹرعلامہ خالدمحمودؒ کی تحریرات کے آئینے میں)

از: مولانااخترامام عادل قاسمی

مہتمم جامعہ ربانی منورواشریف، بہار

            متکلم اسلام حضرت مولاناعلامہ ڈاکٹرخالدمحمود(متوفی ۲۰/رمضان المبارک۱۴۴۱ھ مطابق ۱۴/مئی۲۰۲۰ء)عصر حاضر کے ممتازمحقق اوراسلامی افکارو نظریات کے مستند ترجمان تھے،فرق باطلہ کی تاریخ اوران کے مسائل وافکارپران کی گہری نظرتھی،اس موضوع پرانھوں نے بے نظیرخدمات انجام دیں، ان کی کتابیں اس باب میں سندکادرجہ رکھتی ہیں، اس ضمن میں ناموس صحابہ کا تحفظ بھی ان کاخاص موضوع تھا، صحابہ کامقام ومعیار،صحابہ پرہونے والے اعتراضات کادفاع اوران کے باہمی اختلافات جیسے حساس مسائل پرآپ کے قلم سے انتہائی محققانہ اورزندہ تحریریں معرض وجودمیں آئیں اوراہل السنة والجماعة اور سلف صالحین کے مسلک اعتدال کی شاندارترجمانی آپ نے فرمائی۔ زیرنظرمضمون میں مشاجرات صحابہ پر آپ کی قیمتی تحقیقات وافادات سے ہم استفادہ کریں گے،اس موضوع پر بہت سی قیمتی چیزیں علامہ صاحب کی کتابوں اورتحریروں میں پھیلی ہوئی ہیں،جن کواگرایک جگہ جمع کردیاجائے تووہ ایک مستقل کتاب بن جائے گی۔

            یہ موضوع انتہائی حساس اورقدیم ہے،جوشروع سے ہی علماء اورمصنّفین کے یہاں زیربحث رہاہے اوراکثرافراط وتفریط کابھی شکاررہاہے، جس کے نتیجے میں کئی فرقے وجودمیں آئے؛لیکن سلف صالحین نے ہمیشہ جادہٴ اعتدال کوقائم رکھا۔

صحابیت ایک وہبی مرتبہ ہے،کسبی نہیں

            #یہاں سب سے پہلے اصولی طورپر مقام صحابیت کی حقیقت ونزاکت کوسمجھناضروری ہے، اکثر فتنے اورغلط فہمیاں اسی حقیقت کاپوراادراک نہ کرنے کی بناپر پیداہوئیں:

            ”صحابیت ایک وہبی مرتبہ ہے،کوئی کسبی شئے نہیں ہے،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اورحضرت عبداللہ بن عمرؓ اگرامام ابوحنیفہؓ سے علم میں آگے نکلگئے تواس کی وجہ اس کے سواکیاہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں حضوراکرمﷺکی پہلی زندگی میں پیداکیا،یہ ان کی اپنی کسبی شئے نہیں تھی اورپھریہ فیصلہ اللہ رب العزت کااپناتھاکہ حضورﷺخاتم النّبیین ہیں،آپﷺکے بعدکوئی نبی پیدا نہ ہوگا،جب یہ ایک قطعی بات ٹھہری تویہ بات بھی اپنی جگہ قطعی ہے کہ اب آئندہ کوئی شخص صحابی نہ ہوسکے گا۔اس سے یہ عقیدہ بھی ایک قطعی صورت اختیارکرتاہے کہ صحابیت ایک وہبی چیزہے،کوئی کسبی شئے نہیں ہے،اس دعویٰ پرکئی دلیلیں پیش کی جاسکتی ہیں،مثلاً:

            #ساری انسانیت رضائے الٰہی کی جستجومیں ہے اوریہی عام ہدایت بھی ہے؛لیکن صحابہ کی ایسی مقدس جماعت ہے کہ اس کی رضاخوداللہ پاک چاہتے ہیں؛ بلکہ ان کی اتباع کرنے والوں کوبھی اس مرتبہ کاحقداربتایاگیاہے،ارشادباری تعالیٰ ہے:

            وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوہُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ(۱)․

            ”اورجولوگ دین میں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور (ان کی) مدد کرنے والے ہوئے اورجوان کے پیروہوئے نیکی کے ساتھ،اللہراضی ہواان سے اوروہ راضی ہوئے اللہ سے“۔

            اس سے واضح ہوتاہے کہ انسانی تاریخ میں ایک ایساطبقہ بھی ہواہے جس کی رضاخود پروردگار عالم کومطلوب ہے،ظاہرہے کہ یہ چیزکسب سے حاصل نہیں ہوسکتی۔

            #ایک اورآیت کریمہ پرغورکریں:

            وَأَلْزَمَہُمْ کَلِمَةَ التَّقْوَی وَکَانُوا أَحَقَّ بِہَا وَأَہْلَہَا وَکَانَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمًا(۲)․

            ”اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے صفت تقویٰ لازم کردی اوروہ واقعی اس کے حقداراوراہل تھے“۔

            اللہ تبارک وتعالیٰ کاانھیں چن لینااوریہ کہناکہ وہ پہلے سے اس کے حقداراوراہل تھے،یہ شرف صحابیت کے وہبی مرتبہ ہونے کی روشن دلیل ہے۔

            یہ بات مولاناابوالکلام آزادؒ نے سورہٴ توبہ (آیت۲۴)کی تفسیرکے تحت ان الفاظ میں کہی ہے:

            ”بلاشائبہ ومبالغہ کہاجاسکتاہے کہ دنیامیں انسانوں کے کسی گروہ نے کسی انسان کے ساتھ اپنے سارے دل اوراپنی ساری روح سے ایساعشق نہیں کیاہوگا،جیساکہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اللہ تعالیٰ کے رسولﷺسے راہ حق میں کیا،انھوں نے اس محبت کی راہ میں وہ سب کچھ قربان کردیاجوانسان کرسکتاہے اورپھراس کی راہ سے سب کچھ پایاجوانسان کی کوئی جماعت پاسکتی تھی(۳)۔

            اسی کے ساتھ خودصحابی رسولﷺ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کااظہارحقیقت بھی ملاحظہ فرمائیں:

            ابن مسعود -رضی اللّٰہ عنہ- قال: ”مَن کانَ مُسْتَنًّا، فَلْیَسْتَنَّ بمن قد ماتَ، فإنَّ الحیَّ لا تُؤمَنُ علیہ الفِتْنَةُ، أولئک أصحابُ محمد -صلی اللّٰہ علیہ وسلم-، کانوا أفضلَ ہذہ الأمة: أبرَّہا قلوبًا، وأعمقَہا علمًا، وأقلَّہا تکلُّفًا، اختارہم اللّٰہ لصحبة نبیِّہ، ولإقامة دِینہ، فاعرِفوا لہم فضلَہم، واتبعُوہم علی أثرہم، وتمسَّکوا بما استَطَعْتُم من أخلاقِہم وسیَرِہم، فإنہم کانوا علی الہُدَی المستقیم“(۴)․

            ”حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے منقول ہے آپ نے فرمایاجس کوکسی کی اقتداہی کرنا ہواسے چاہیے کہ وہ ان کی اقتداکرے جواس دنیاسے جاچکے ہیں؛کیونکہ زندہ شخص فتنوں سے مامون نہیں ہے،جوجاچکے وہ حضوراکرمﷺکے صحابہ تھے،جواس امت کے افضل ترین لوگ تھے، (کنتم خیر أمة أخرجت للناس) ان کے دل سب سے زیادہ نیکی سے لبریزتھے، ان کاعلم بہت گہرا تھا اور ظاہرداری ان میں بہت کم تھی،اللہ تعالیٰ نے ان کواپنے نبی کی صحابیت کے لیے اور اس دین کوقائم کرنے کے لیے چن لیاتھا،ان کایہ مرتبہ انھیں اللہ تعالیٰ کی عطاتھی (وہبی تھا) سوان کاحق پہچانواوران کے پیچھے چلووہ بیشک راہ مستقیم پر تھے“۔

            حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی اس شہادت سے صاف پتہ چلتاہے کہ صحابیت ایک عطائے خداوندی ہے اورصحابہ کے بارے میں کسی فتنہ کااندیشہ نہیں ہے؛ اسی لیے خطیب بغدادیؒ (۴۶۳ھ) اور بے شمارعلماء سلف وخلف نے صراحت کی ہے کہ:

            عدالة الصحابة ثابتة معلومة بتعدیل اللّٰہ لھم واخبارہ عن طھارتھم واختیارہ لھم فی نص القرآن(۵)․

            ترجمہ:صحابہ کی عدالت ایک ثابت شدہ اورمعلوم حقیقت ہے؛ اس لیے کہ خوداللہ تعالیٰ نے ان کی تعدیل اوران کے دلوں کی شانِ طہارت بیان فرمائی اوربتصریح قرآنی شرف صحابیت کے لیے ان کاانتخاب فرمایا۔

            جس طرح کعبہ قبلہٴ نمازہے صحابہ قبلہٴ اقوام ہیں،قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کے پہلے مخاطب صحابہ ہی ہیں:

            وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَکُونُواشُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیدًا (البقرة:143)(۶)․

            ترجمہ:اوراسی طرح ہم نے تم کوامت وسط بنایا؛تاکہ تم لوگوں پرگواہ ہوجاؤاوررسول تم پرگواہ ہوں۔

            اسی لیے حضرت عمرؓ نے صحابہ سے فرمایا،دیکھوغلطیوں سے بچتے رہنا،لوگ تمہاری غلطیوں کوبھی اپنادین بنالیں گے،آپ نے حضرت طلحہؓ کوحالت احرام میں رنگدارچادرپہننے سے یہی کہہ کرمنع فرمایا :

            إِنَّکُمْ أَیُّہَا الرَّہْطُ أَئِمَّةٌ یَقْتَدِی بِکُمْ النَّاسُ فَلَوْ أَنَّ رَجُلًا جَاہِلًا رَأَی ہَذَا الثَّوْبَ لَقَالَ إِنَّ طَلْحَةَ بْنَ عُبَیْدِ اللَّہِ کَانَ یَلْبَسُ الثِّیَابَ الْمُصَبَّغَةَ فِی الإِحْرَامِ فَلَا تَلْبَسُوا أَیُّہَا الرَّہْطُ شَیْئًا مِنْ ہَذِہِ الثِّیَابِ الْمُصَبَّغَةِ(۷)․

            ترجمہ:آپ حضرات پیشواہیں،لوگ آپ کی پیروی کرتے ہیں،اگرکوئی عام آدمی (جواس رنگ سے واقف نہ ہو)اسے دیکھے توکہے گاکہ طلحہ بن عبیداللہاحرام میں رنگ دارکپڑے پہنتے تھے؛ اس لیے حالت احرام میں رنگین کپڑوں سے اجتناب کریں(۸)۔

تمام صحابہ قابلِ اتباع ہیں

            پھرصحابہ میں درجات کے فرق کے باوجود اتباع کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ سابقین اولین ہی میں سے ہوں،بہارنبوت کے جوپھول آخرمیں کھلے وہ بھی اسی گلستان نبوت کے ہیں اوراللہ تعالیٰ کاوعدہٴ جنت سب ہی سے ہے:

            لَا یَسْتَوِی مِنْکُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِکَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِینَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَکُلًّا وَعَدَ اللَّہُ الْحُسْنَی وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ(۹)․

            ترجمہ:تم میں برابرنہیں وہ جنھوں نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا اورجہادکیا،وہ مرتبہ میں ان سے بڑے ہیں،جنھوں نے فتح مکہ کے بعدخرچ کیااورجہادکیااور اللہ کاوعدہٴ جنت سب کے لیے ہے اوراللہ تعالیٰ تمہارے (گذشتہ آئندہ )تمام اعمال سے باخبرہے۔

            سابقین اولین اورفتح مکہ کے بعدایمان لانے والے دونوں شرف صحابیت رکھتے ہیں،جوطبقہ ان کے پیچھے چلا،وہ تابعین کہلایا،یہ حضرات تابعین اسی لیے بنے کہ صحابہ سب کے سب متبوعین ہیں اور امت کے ذمہ ہے کہ ان کے نقش پاسے زندگی کی راہیں روشن کرے۔

            نبوت اورصحابیت کے درمیان صرف دیکھناشرط ہے،اتباع ضروری نہیں،جس نے ایمان سے آپ کے جمال جہاں آراء کودیکھاصحابیت پاگیا؛لیکن اگلوں کے لیے صرف دیکھناکافی نہیں اتباع بھی لازم ہے(۱۰)۔

صحابہ کی شناخت رسول اللہﷺکی نسبت سے ہے عمل سے نہیں!

            #صحابہ کی پہچان عمل سے نہیں رسول اللہﷺکی نسبت سے ہے؛اس لیے کہ ارشادنبوی ہے:

            عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللَّہَ اللَّہَ فِی أَصْحَابِی! اللَّہَ اللَّہَ فِی أَصْحَابِی! لَا تَتَّخِذُوہُمْ غَرَضًا بَعْدِی! فَمَنْ أَحَبَّہُمْ فَبِحُبِّی أَحَبَّہُمْ وَمَنْ أَبْغَضَہُمْ فَبِبُغْضِی أَبْغَضَہُمْ وَمَنْ آذَاہُمْ فَقَدْ آذَانِی وَمَنْ آذَانِی فَقَدْ آذَی اللَّہَ وَمَنْ آذَی اللَّہَ یُوشِکُ أَنْ یَأْخُذَہُ(۱۱)․

            ”اللہ تعالیٰ سے ڈرو،اللہ تعالیٰ سے ڈرومیرے صحابہ کے بارے میں،میرے بعدانھیں کبھی کسی اعتراض کانشانہ نہ بنانا،سوجس نے ان سے محبت کی (وہ ان کے اعمال سے نہیں )وہ میری نسبت سے کی (کہ وہ میرے صحابی ہیں )اورجس نے ان سے بغض رکھادراصل اس نے مجھ سے بغض رکھا،جس نے میرے صحابہ کوکوئی اذیت دی، اس نے مجھے اذیت دی اورجس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ تعالیٰ کواذیت دی اورجس نے اللہ تعالیٰ کواذیت دی، وہ اس کی گرفت سے کہاں بچ سکے گا“۔

            یہ حدیث تواترطبقات کے ساتھ امت میں چلی آرہی ہے، اسنادکے پہلوسے اس میں غرابت ہوتواس سے یہ حدیث مجروح نہیں ہوتی،یہ اسی طرح ہے جیسے قرآن کریم تواترطبقات کے ساتھ منقول ہوتاچلاآرہاہے اوروہ کہیں تواترِاسنادکامحتاج نہیں ہے،حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے قرة العینین میں اس اصول کی تصریح کی ہے۔

            اس حدیث سے ظاہرہوتاہے کہ صحابہ کے اعمال کوزیربحث لانادرست نہیں، ان سے موٴمن کی عقیدت ومحبت ان کے اعمال اورنیکیوں کی وجہ سے نہیں؛ بلکہ اس رشتہٴ رسالت سے ہے کہ وہ حضور اکرمﷺکے صحابی ہیں،توظاہرہے کہ ان کے کسی عمل پربھی انگلی نہ اٹھائی جائے گی اورنہ ان پرکسی کو تنقید کاحق ہوگا؛کیونکہ یہ فی الواقع اس رشتہ پرحملہ ہوگاجوصحابہٴ کرامؓ کوبارگاہ رسالت مآب ﷺ سے حاصل ہے(۱۲)۔

عدالت وثقاہت کے لیے صحابی ہوناکافی ہے

            یہ بات یقینی طورپر حق ہے کہ صحابہ میں ایک بھی ایسانہ تھا،جوغیرثقہ ہویاجودین میں کوئی غلط بات کہے،سرخیل محدثین حضرت علامہ عینیؒ(۷۵۷ھ)لکھتے ہیں:

            لیس فی الصحابة من یکذب وغیرثقة(۱۳)․

            جب کوئی حدیث کسی صحابی سے مروی ہواوراس کے نام کاپتہ نہ چلے تووہ راوی کبھی مجہول الحال نہ سمجھاجائے گا،صحابی ہونے کے بعدکسی اورتعارف یاتعدیل کی حاجت نہیں،علامہ ابن عبدالبر مالکیؒ (۴۶۳ھ)لکھتے ہیں:

            ان جمیعَھم ثقاتٌ مامونون عدل رضی فواجب قبول مانقل کل واحدمنھم وشھدوا بہ علیٰ نبیہ(۱۴)․

            ترجمہ:سب صحابہ ثقہ اورامانت دارہیں،اللہ ان سے راضی ہواان میں سے ہرایک نے جو بات اپنے نبی ﷺسے نقل کی اوراس کے ساتھ اپنے نبی کے عمل کی شہادت دی (لفظاًہویاعملاً)وہ واجب القبول ہے۔

            خطیب بغدادیؒ (۴۶۳ھ)لکھتے ہیں کہ صحابہٴ کرام مخلوق میں سے کسی کی تعدیل کے محتاج نہیں،یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ جوان کے باطن پرپوری طرح مطلع ہے ان کی تعدیل کرچکاہے:

            فلایحتاج احدمنھم مع تعدیل اللّٰہ لھم المطلع علیٰ بواطنھم الیٰ تعدیل احدمن الخلق لہ(۱۵)․

            ترجمہ:صحابہ میں سے کوئی بھی مخلوقات میں سے کسی کی تعدیل کامحتاج نہیں،اللہ تعالیٰ جوان کے قلوب پرمطلع ہے اس کی تعدیل کے ساتھ اورکسی کی تعدیل کی ضرورت نہیں۔

جوچیزصحابہ سے ثابت ہووہ بدعت نہیں

            ہروہ قول اورفعل جوان سے منقول نہیں بدعت ہے،سویہ حضرات خودبدعت کاموضوع نہیں ہوسکتے ان کے کسی عمل پربدعت کاحکم نہیں کیاجاسکتا،حافظ ابن کثیرؒ (۷۷۴ھ)لکھتے ہیں:

            کل فعل وقول لم یثبت عن الصحابة رضی اللّٰہ عنھم ھو بدعة(۱۶)․

            ترجمہ:دین کے بارے میں کوئی قول اورکوئی فعل جوصحابہ سے ثابت نہ ہوبدعت ہے۔

            صحابی رسول حضرت حذیفہ بن الیمانؓ (۳۶ھ )فرماتے ہیں:

            کل عبادة لم یتعبدھااصحاب رسول اللہ ﷺ فلاتعبدوھا(۱۷)․

            ترجمہ:دین کاہروہ عمل جسے صحابہ نے دین نہیں سمجھااسے تم بھی دین نہ سمجھنا․․․․(۱۸)

نسبت صحابیت لازوال اورحسن خاتمہ کی ضامن ہے

            بعدکے ادوارمیں صحابہ کے درمیان اختلاف ونزاع یہاں تک کہ جنگ وجدل کے جوواقعات پیش آئے ان کی بناپرکسی بھی صحابی کوتنقیدکانشانہ بنانا قطعی درست نہیں؛اس لیے کہ واقعات وحادثات سے وہ نسبت منقطع نہیں ہوئی جوان کوسرکاردوعالم ﷺسے حاصل تھی،وہ نسبت لازوال ہے، امت کوہدایت یہ دی گئی ہے کہ وہ صرف نسبت پرنگاہ رکھیں،صحابہ کوواقعات کے آئینے میں نہیں بلکہ نسبت نبوی کے آئینے میں دیکھیں، عالم الغیوب رب کائنات کوتوبعدمیں پیش آنے والے تمام واقعات کی پہلے سے خبرتھی،اس کے باوجود صحابہ کوپروانہٴ رضوان عطاکرنااوران کی تعدیل وتزکیہ بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کے لیے یہ واقعات اصل نہیں ہیں؛ بلکہ نسبت اصل ہے۔ نیزاس سے یہ بھی ثابت ہوتاہے جس طرح اس نسبت کاحصول اختیاری نہیں ہے،اسی طرح اس کازوال یاانقطاع بھی کسی کے اختیار میں نہیں،زندگی کے درمیانی وقفات میں خواہ کیسے ہی انقلابات پیش آئیں اس بات کی ضمانت ہے کہ خاتمہ بہرحال خیرپرہوگا۔

جماعت سے باہرکاشخص امام کولقمہ نہیں دے سکتا

            صحابہ کے باہمی اختلافات ونزاعات کی بناپرعام مسلمانوں کویہ حق نہیں پہونچتاکہ وہ کسی صحابی پر انگلی اٹھائے،یاان کوتنقیدکاہدف بنائے،علامہ خالدمحمودؒ نے اس کی ایک بڑی پیاری فقہی مثال دی ہے:

            ”فقہ کاایک مسئلہ ہے کہ امام نمازپڑھائے اورکسی متشابہ پرقرآن پڑھنے میں غلطی کرے،تواگر کوئی شخص جوجماعت میں شریک نہیں اسے لقمہ دے اورامام اس پراعتمادکرکے اس کے لقمہ کوقبول کرلے، توسب کی نمازٹوٹ جائیگی،یہ کیوں ؟جب کہ وہ لقمہ صحیح تھایہ صرف اس لیے کہ لقمہ دینے والا نماز کے باہر تھا اورلقمہ لینے والانمازکے اندرتھا، جونمازکے اندرہے وہ اللہ کے حضور حاضر ہے اور جو نماز سے باہرہے وہ کسی اورکام میں بھی مشغول ہوسکتاہے اور ظاہر ہے کہ یہ اس درجے میں نہیں جس میں وہ ہے،جو نمازمیں اللہ تعالیٰ کے حضورحاضرہے۔سوجس طرح نمازسے باہر والا نماز کے اندر والے کولقمہ نہیں دے سکتاگونمازکے اندروالاواقعی غلط پڑھ رہاتھا،اس طرح کوئی عام امتی کسی صحابی پر انگلی نہیں اٹھاسکتا، گو وہ صحابی اپنی کسی بات یاتحریک میں غلطی پرہواسلام میں بڑوں کے احترام کے جو آداب سکھائے گئے ہیں ان میں یہ صورت بہت اہم ہے۔

            ان آداب میں سے ایک بڑاادب یہ ہے کہ کوئی عام امتی کسی صحابی پرتنقیدنہ کرے اس کی ہر غلطی کوبھی اس کی اجتہادی بات سمجھے،ہماری عقائد کی جملہ کتابوں میں صحابہ کوہرتنقیدسے بالا رکھا گیا ہے، خواہ یہ حضرات (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم)آپس میں ایک دوسرے کے بارے میں کتنی سخت زبان کیوں نہ اختیارکریں؛لیکن اس کے حوالے سے عام افرادامت کوان پرزبان درازکرنے کی اجازت نہیں ملتی(۱۹)۔

صحابہ ہرقسم کے جرح وتنقید سے بالاترہیں-علماء امت کااتفاق

            چنانچہ سلف وخلف کااس پراتفاق ہے کہ صحابیت کی نسبت ہی عدالت وثقاہت کے لیے کافی ہے، مزیدکسی تحقیق کی ضرورت نہیں اور اعمال وواقعات کی بناپر کسی صحابی رسول پر تنقید جائز نہیں، صحابہ ہرقسم کے جرح وتنقید سے بالاترہیں،ان کے اختلافات خواہ وہ علمی وفکری ہوں یاسیاسی وحربی، سب اجتہادپر مبنی ہیں،کسی بدنیتی اورفسادپرنہیں اوراجتہادغلط بھی ہوتوقابل اجر ہے،لائق موٴاخذہ نہیں ہے؛اس لیے صحابہ کے اختلافات کے بارے میں کوئی تاریخی واقعہ سامنے آئے تواس کی تاویل کی جائے گی اورکوئی محمل حسن متعین کیاجائے گا اوراگر صواب وخطاکچھ سمجھ میں نہ آئے تو بھی توقف اورکف لسان واجب ہے،کسی اظہاررائے یاذہنی قیاس آرائی کی اجازت نہیں ہے،یہ مقام ہی ایساہے کہ زبان کھولنابھی گناہ ہے۔

            علامہ ابن اثیر الجزریؒ(۶۳۰ھ)اس سوال کاجواب دیتے ہوئے کہ صحابہ جرح سے بالاکیوں ہیں؟لکھتے ہیں:

            والصحابة یشارکون سائرالرواة فی جمیع ذلک الا فی الجرح والتعدیل فانکلھم عدول لایتطرق الیھم الجرح لان اللّٰہ عزوجل ورسولہ زکاھم وعدلاھم وذلک مشھور لاتحتاج لذکرہ(۲۰)․

            ترجمہ: صحابہ دوسرے راویوں کے ساتھ ہربات میں شریک ہیں؛ مگرجرح وتعدیل میں وہ دوسروں کے درجے میں نہیں،یہ سب کے سب عادل ہیں، جرح ان کی طرف راہ نہیں پاتی؛کیونکہ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول ﷺنے ان کاتزکیہ کردیاہے اوران کی تعدیل کردی ہے اوریہ بات اتنی روشن ہے کہ اس کے دہرانے کی ضرورت نہیں(۲۱)۔

صحابہ کے اختلافات میں بڑی حکمت الٰہی پوشیدہ

            #صحابہ میں جواختلافات ظاہرہوئے یاخودعہدنبوت میں بعض خلاف شان چیزیں ان کی طرف سے سامنے آئیں،ان میں بڑی حکمت الٰہی پوشیدہ ہے،عہد نبوی میں بعض صحابہ سے جوخلاف شان اعمال سرزد ہوئے ان کامقصددراصل تکمیل شریعت تھا اوران حضرات کوبطوراسباب استعمال کیاگیا اورعہدنبوی کے بعدجو چیزیں رونماہوئیں ان میں بھی اجتہادکی کئی جہتوں کوروشنی میں لانا مطلوب تھا،علاوہ آخری حالات کے اعتبارسے کسی صحابی کاخاتمہ غلط فکروعمل پرنہیں ہوا؛بلکہ ایسے حالات پیداہوئے کہ وہ راہ صواب یاراہ اعتدال پرقائم ہوگئے اورپھر ان کی وفات ہوئی۔

            اختلافات کے باوجودصحابہ خیرامت کے مقام پرفائزرہے،قرآن کریم نے باہمی جنگ کو ایمان کے منافی قرارنہیں دیاہے(۲۲):

            وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَیْنَہُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاہُمَا عَلَی الْأُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی حَتَّی تَفِیءَ إِلَی أَمْرِاللَّہِ فَإِنْ فَائَتْ فَأَصْلِحُوا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ، إِنَّمَاالْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوابَیْنَ أَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوااللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ(۲۳)․

            ”اگرایمان والوں کی دوجماعتیں باہم لڑپڑیں توان کے درمیان صلح کراؤ،اگر ایک دوسرے پرزیادتی کرے توزیادتی کرنے والی جماعت کے ساتھ جنگ کرویہاں تک کہ وہ حکم خداوندی کی طرف واپس لوٹ آئے،اگرواپس آجاتی ہے توان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرادواورانصاف کامعاملہ کرواللہ پاک انصاف کرنے والوں کوپسند کرتے ہیں،ایمان والے توسب آپس میں بھائی بھائی ہیں،پس بھائیوں کے درمیان صلح کامعاملہ کرو اوراللہ سے ڈروتاکہ تمہارے ساتھ رحم وکرم کامعاملہ کیاجائے۔

ایک بڑاسبب تکمیل شریعت

            علامہ خالد محمودصاحبؒ لکھتے ہیں:

            ” صحابہ کے اختلاف کامنشا غلط فہمی توہوسکتاہے؛لیکن بدنیتی نہیں،سوء اعتقادنہیں،ایمان اپنی بنیادی شان سے ان کے دلوں میں جگہ پاچکاہے، ان میں خون ریزی تک دیکھو تو بدگمانی کوراہ نہ دو، یہ سب بھائی بھائی ہیں،بدگمانی سے انتہاتک بچو،ان میں سے کسی سے بڑے سے بڑاگناہ دیکھوتوبھی بدگمانی نہ کرو،اس کاظہور بتقاضائے فسق نہیں ہوا،محض اس حکمت سے وجودمیں آیاہے کہ اس پر شریعت کی ہدایت اترے اوریہ لوگ تکمیل شریعت کے لیے استعمال ہوجائیں،آنحضرت ﷺ کا کسی وقت نمازکی رکعتوں میں بھولناازراہ غفلت نہیں تھا،اس حکمت الٰہی کے تحت تھاکہ لوگوں پرسجدہٴ سہو کامسئلہ کھلے اورشریعت اپنی پوری بہارسے کھلے۔

            سوایسے جو امورشان نبوت کے خلاف نہ تھے ان کے حالات حضورﷺپرڈالے گئے اور جو گناہ کی حدتک پہونچتے تھے انھیں بعض صحابہ پرڈالاگیا،اوروہ حضرات اس طرح تکمیل شریعت کے لیے بطورسبب استعمال ہوگئے، ان حالات سے گذرنے کے بعد ان کاوہ تقدس بحال ہے جوانھیں بطورصحابی کے حاصل تھا،اوران کی بھی بدگوئی کسی پہلوسے جائز نہیں، اعتبار ہمیشہ اواخر امور کا ہوتا ہے، اس کے بغیران اموراور واقعات کی قرآن کریم سے تطبیق نہیں ہوتی۔

اختلاف اصول کانہیں فروع کااوروسعت عمل کا

             #”صحابہ کاباہمی اختلاف اصول کانہیں فروع کاہے،حق وباطل کانہیں وسعت عمل کا ہے، ان میں سے جس کی بات چاہے لے لو؛لیکن دوسرے پرجرح نہ کرواورنہ اسے باطل پرکہوان حضرات کے جملہ اعمال وافکارکسی نہ کسی جہت سے حضورﷺسے ہی استنادرکھتے ہیں،حافظ ابن تیمیہؒ (۷۲۸ھ) نے ائمہٴ مجتہدین کے مختلف فیہ مسائل کوصحابہ کے اعمال سے مسندبتایاہے اورصحابہ کے اختلاف کو امت کے لیے وسعت عمل قراردیاہے(۲۴)۔

صحابہ کااختلاف حق و ناحق کانہیں،ترجیح کاتھا

            تمام اہل سنت کاعقیدہ ہے کہ خلفائے راشدین میں چوتھے خلیفہ حضرت علیؓ ہیں،حضرت معاویہؓ نے ان کی خلافت کوتسلیم نہ کیا؛لیکن اس میں اہل سنت کامحتاط موقف یہی رہاہے کہ ان مشاجرات میں حضرت معاویہؓ کوبرابھلاکہنے کی بجائے اسے یوں کہاجائے کہ ان میں اولیٰ بالحق حضرت علیؓ تھے،یعنی نیت دونوں کی درست تھی،منزل دونوں کی حق تھی،حضرت علیؓ حق کے زیادہ قریب تھے،دوسری طرف باطل کالفظ لانے سے احتیاط کی جائے،اسے خلاف اولیٰ کہنے سے بات واضح ہوجاتی ہے۔ آپ کے لیے یہ اولیٰ بالحق کی تعبیرخودلسان رسالت سے ثابت ہے،اس سے واضح ہوتاہے کہ حضرت معاویہؓ بھی حق پرتھے، حضرت ابوسعیدالخدریؓ(۷۴ھ) بیان کرتے ہیں، حضور ﷺ نے فرمایا:

            عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ -صلی اللہ علیہ وسلم- تَکُونُ فِی أُمَّتِی فِرْقَتَانِ فَتَخْرُجُ مِنْ بَیْنِہِمَا مَارِقَةٌ یَلِی قَتْلَہُمْ أَوْلاَہُمْ بِالْحَقّ(۲۵)․

            ترجمہ:میری امت (سیاسی طورپر)دوحصوں میں بٹ جائیگی،ان دونوں کے درمیان ایک تیسرافرقہ نکلے گا،اس تیسرے فرقہٴ مارقہ کے قتل کے درپے جوان دوجماعتوں میں سے نکلے گاوہ اپنے اختلاف میں حق کے زیادہ قریب ہوگا۔

            دیکھیے حضورﷺنے حضرت امیرمعاویہؓ کے حامیوں کوباطل پرکہنے کی بجائے حضرت علیؓ کواولیٰ بالحق فرمایاہے،یعنی اصولاًدونوں حق پرہوں گے؛ لیکن ان میں ایک زیادہ حق پر ہوگا اورظاہر ہے کہ وہ حضرت علیؓ تھے جوخوارج سے لڑے۔

            خودحضرت علیؓ نے بھی کبھی حضرت معاویہؓ کوگمراہ یاباطل پر نہیں کہا؛بلکہ اپناہم عقیدہ قراردیا، حضرت علیؓ نے ارشادفرمایا:

            وکان بدء امرنا انا التقینا والقوم من اھل الشام والظاھران ربنا واحد ونبینا واحد ودعوتنا فی الاسلام واحدة ولانستزیدھم فی الایمان باللّٰہ والتصدیق برسولہ ولایستزیدوننا الامر واحد الاما اختلفنا فیہ من دم عثمان ونحن منہ براء(۲۶)․

            ”یہ ہمارے اختلاف کی ابتداتھی کہ ہم اوراہل شام آپس میں ٹکراگئے اورظاہرہے کہ ہم دونوں ایک خداایک نبی اورایک دعوت اسلام پرجمع ہیں،ہم اللہ اوراس کے رسول پرایمان لانے میں ان سے زیادہ نہیں اوروہ ہم سے ایمان میں زیادہ نہیں،ہم سب ایک ہیں،ماسوائے اس کے کہ خون عثمان کے بارے میں ہم میں کچھ اختلاف ہوااورہم اس سے بری ہیں “(۲۷)۔

            علامہ ابن خلدونؒ لکھتے ہیں:

            انما اختلف اجتھادھم فی الحق ما اقتتلوا علیہ وان کان المصیب علیا فلم یکن معاویة قائمًا فیھا یقصد الباطل انما قصد الحق واخطا والکل کانوا فی مقاصدھم علی الحق(۲۸)․

            ترجمہ:ان کااختلاف اجتہادی تھا،گوکہ باہمی جنگوں میں حضرت علیؓ صواب پرتھے؛لیکن حضرت معاویہؓ کی نیت بھی خیرہی کی تھی؛لیکن غلطی ہوئی؛ مگر سب کی نیت خیر ہی کی تھی(۲۹)۔

صحابہ کے اختلافات کی تاویل کرنااوربہترمحمل متعین کرناواجب

             #صحابہ کے باہمی اختلافات ونزاعات میں تاویل کرنااوران کوکسی بہترمحمل پرمحول کرنا واجب ہے،ورنہ سخت فتنہ کااندیشہ ہے،شرح عقائدمیں ہے:

            وماوقع بینھم من المنازعات والمحاربات فلہ محامل وتاویلات فسبھم والطعن فیھم ان کان ممایخالف الا دلة القطعیة فکفر کقذف عائشة  والابدعة وفسق(۳۰)․

            ترجمہ:صحابہ میں جواختلافات اورمحاربات واقع ہوئے ان سب کے اپنی اپنی جگہ حل موجود ہیں اوران کی ایسی توجیہات کی جاسکتی ہیں کہ ہرایک کا اپنامقام برقراررہے،ان بزرگوں کی شان میں طعن کرنااگردلائل قطعیہ یقینیہ کے خلاف ہوجیساکہ حضرت عائشہؓ پربہتان باندھناتویہ یقینا کفر ہے اوراگردلائل قطعیہ کی مخالفت نہیں،اخبارآحادکے خلاف ہے تویہ بھی بدعت اوربدکاری ہے(۳۱)۔

            ”صحابہ میں جواختلافات ہوئے وہ رائے اورفہم کے اختلاف سے ہوئے،بدنیتی کسی کے شامل حال نہ تھی،اگرکسی نے کسی کوخطاپرکہاہے توظنی جہت سے ہے، یقینی طورپرہم کسی کوخطا پرنہیں کہہ سکتے:

            لایجوزان ینسب الیٰ احدمن الصحابة خطاء مقطوع بہ وکانواکلھم اجتھدوا فیما فعلوہ وارادوا اللّٰہ عز وجل وھم کلھم لنا ائمة وقد تعبدنا بالکف عما شجر بینھم(۳۲)․

            ترجمہ:یہ جائزنہیں کہ صحابہ کے ان اختلافات میں ہم کسی طرف قطعی خطاکی نسبت کریں، ہرایک نے جوکچھ کیا اپنے اجتہادسے کیا،اورسب کی مراداللہ تعالیٰ کوخوش کرناتھااوروہ صحابہ سب کے سب ہمارے پیشواہیں،ان کے اختلافات سے زبان کوبندرکھنے میں ہم خداکی رضاجانتے ہیں “۔

تاویل معلوم نہ ہوتوباتفاقِ اہل سنت، توقفِّ اورکف لسان واجب ہے

            حضرت شیخ عبدالقادرجیلانیؒ(۵۶۱ھ)اس باب میں تفویض کے قائل معلوم ہوتے ہیں، آپ کہتے ہیں،ان کے اختلاف کواللہ کے سپرد کیاجائے اورخطاو صواب کے فیصلے ہم خودنہ کریں۔

            تسلیم امرھم الی اللّٰہ عزوجل علیٰ ماکان وجری من اختلاف علی وطلحة والزبیر وعائشة ومعاویة رضی اللّٰہ عنھم(۳۳)․

            ترجمہ:ان کامعاملہ جیسابھی رہااسے اللہ کے سپردکیاجائے،حضرت علیؓ،حضرت طلحہؓ،حضرت زبیرؓ،حضرت عائشہؓ اورحضرت معاویةؓ کے معاملات کایہی حکم ہے۔

            حضرت حسن بصریؒ (۱۱۰ھ)جوحضرت علی مرتضیٰؓ کے خلیفہ ہیں،ان کامسلک بھی توقف ہی معلوم ہوتاہے۔

            قتال شھدہ اصحاب محمد وغبنا وعلموا وجھلنا واجتمعوا فاتبعنا واختلفوا فوقفنا(۳۴)․

            ترجمہ:یہ ایسی جنگ تھی جس میں حضورﷺکے صحابہ سامنے تھے اورہم وہاں نہ تھے،انھوں نے معاملے کوجانااورہم ناواقف رہے،جسپریہ متفق رہے ہم نے اس کی پیروی کی اورجب ان میں اختلاف ہواتوہم نے توقف کیا۔

            اگران میں سے کسی ایک جانب صواب متعین بھی ہوجائے توبھی دوسری جانب اعتراض جائزنہیں ہے؛کیونکہ وہ مجتہد مخطی کی صورت میں ایک اجرپھربھی پائے گا،حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (۸۵۲ھ)لکھتے ہیں کہ ا س پراہل السنة والجماعة کااجماع ہے:

            واتفق أہل السنة علی وجوب منع الطعن علی أحدمن الصحابة بسبب ما وقع لہم من ذلک ولوعرف المحق منہم لأنہم لم یقاتلوا فی تلک الحروب الا عن اجتہاد وقد عفا اللّٰہ تعالی عن المخطء فی الاجتہاد بل ثبت أنہ یؤجر أجرا واحدا وان المصیب یؤجرأجرین(۳۵)․

            ترجمہ:اہل سنت کااس پراجماع ہے کہ صحابہ سے اس سلسلہ میں جوکچھ بھی واقع ہوااس کے باعث کسی صحابی پراعتراض سے اجتناب کرناواجب ہے،اگرچہ ان میں راہ صواب پہچان بھی لیا جائے؛ کیونکہ وہ ان جنگوں میں اجتہادکے باعث مبتلاہوئے (کہ امت کی بھلائی کس میں ہے)، اپنی ذات یاخودغرضی کی راہ سے نہیں اوراللہ پاک نے اجتہادمیں خطاکرنے والے کومعاف کردیا ہے؛ بلکہ ثابت ہے کہ ان کوایک اجر ملے گا،اورصواب تک پہونچنے والے مجتہد کو دوہراثواب ملتا ہے۔

            حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگرد حضرت ابومیسرہ عمروبن شرحبیلؒ کاایک خواب کتب حدیث میں نقل کیاگیاہے:

            ”وہ کہتے ہیں،میں نے دیکھاکہ میں جنت میں ہوں اورمیں نے اپنے سامنے خیمے لگے دیکھے، میں نے پوچھایہ کن کاڈیرہ ہے،مجھے بتایاگیاذی الکلاع اورحوشب کا۔۔۔۔ یہ دونوں جنگ صفین میں حضرت معاویہ کی طرف سے لڑتے ہوئے مارے گئے تھے۔۔۔۔ میں نے پوچھاحضرت عمارؓ اوران کے ساتھی کہاں ہیں،جواب ملا،آگے دیکھو۔

            قال قلت سبحان اللّٰہ وقد قتل بعضہم بعضا فقال إنہم لقوا اللّٰہ فوجدوہ واسع المغفرة(۳۶)․

            ترجمہ:میں نے پوچھا،سبحان اللہ! یہ کیسے ہوا؟ان میں سے توبعض نے بعض کوقتل کیاتھا؟ جواب ملا،جب یہ سب باری تعالیٰ کے حضورپہونچے توانھوں نے اس کی مغفرت کوبیحدوسیع پایا۔

            اللہ کی وسیع مغفرت سے مراد نیتوں پرفیصلے کرناہے،نیک نیت خطاکاربھی اس کے یہاں اجر پالیتاہے،بشرطیکہ اس نے نفس سے نہیں سوچ سمجھ کر کوئی راہ اختیارکی ہو۔۔ یہ سب معاملات اور اختلافات کچھ اس طرح واقع ہوئے کہ یہ حضرات اپنی اصل سے نہیں ہٹے، نہ امت سے کٹے، خونریزی پربھی اترے توامت کی بقا کے لیے اورپھر مہاونت پرآئے تووہ بھی امت کی اصلاح کے لیے اور پھر آپس میں متحدہوئے تووہ بھی اپنی اصل سے وفاکے لیے۔۔۔ ان کے اختلافات کو مشاجرات اسی لیے کہتے ہیں کہ درخت ایک ہی رہاجس کے گردیہ جمع ہیں،بس اس کی پتیاں اور شاخیں آپس میں ٹکراتی رہیں،باہر سے کوئی ان کے تارنہیں ہلارہاتھا،نہ یہ کہ ان کے دل پاک نہ تھے(۳۷)۔

            حضرت عمربن عبدالعزیزؒ(۱۰۰ھ)نے بھی امت اسلامیہ کونصیحت فرمائی ہے:

            امر اخرج اللّٰہ ایدیکم منہ ماتعملون السنتکم فیہ(۳۸)․

            ترجمہ:یہ ایک ایسامعاملہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے تمہارے ہاتھوں کومحفوظ رکھا،اب تم اپنی زبانوں کواس میں کیوں ملوث کررہے ہو؟(۳۹)

             حضرت امام شافعیؒ نے مشاجرات صحابہ میں یہ فیصلہ دیا:

            تلک دماء اطہر اللّٰہ عنھا ایدینا فلنطہر عنھا ألسنتنا(۴۰)․

            ترجمہ:یہ وہ خون تھے کہ اللہ نے ہمارے ہاتھوں کو ان سے بچائے رکھا،پس چاہیے کہ ہم اپنی زبانوں کوبھی ان خونریزاختلافات سے بچائے رکھیں۔

            امام ابوجعفر الطحاویؒ (۳۲۸ھ)لکھتے ہیں:

            ونحب اصحاب رسول اللّٰہ ولا نفرط فی حب احدمنھم ولانتبرا من احد منھم ونبغض من یبغضھم وبغیر الخیر من یذکرھم ولانذکرھم الابخیر وحبھم دین وایمان واحسان وبغضھم کفرونفاق وطغیان(۴۱)․

            ترجمہ:ہم اصحاب رسول سے محبت رکھتے ہیں،نہ کسی کی محبت میں غلوکرتے ہیں اورنہ کسی سے برات ظاہرکرتے ہیں،جوان سے بغض رکھے یاغلط طورپران کاذکرکرے ان سے ہم بغض رکھتے ہیں، ہم صحابہ کاصرف ذکر خیرکرتے ہیں،صحابہ کی محبت دین وایمان اوراحسان ہے اوران سے بغض رکھناکفرونفاق اورطغیان ہے۔

            حافظ ابن عبدالبر مالکیؒ(۴۶۳ھ)تحریرفرماتے ہیں:

            فھم خیرالقرون وخیر امة اخرجت للناس ثبتت عدالة جمیعھم بثناء اللّٰہ عزوجل علیھم․․․․ انما وضع اللّٰہ عزوجل اصحاب رسولہ الموضع الذین وضعھم فیہ بثنائہ علیھم من العدالة والدین والامامة لتقوم الحجة علیٰ جمیع اھل الملة بما رووہ عن نبیھم من فریضة وسنة(۴۲)․

            ترجمہ:صحابہ کرام بہترین دور کے لوگ ہیں اوربہترین امت ہیں جوسب لوگوں کے رہنما ٹھہرے ان سب کاعادل ہونااس طرح ثابت ہے کہ خود اللہ پاک نے ان سب کی ثناکی ہے۔۔۔ نیزاللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺکے اصحاب کواس مقام پررکھاہے،جس میں اللہ تعالیٰ نے ان کی عدالت، دیانت اورامامت کی خودثناکی ہے،تاکہ تمام ارباب ملل پردین کی حجت قائم ہوجائے،ان کے اپنے نبی سے فرائض وسنن کی روایت کرنے میں۔

             ابومنصورالبغدادیؒ لکھتے ہیں:

            واما معاویة  فھو من العدول الفضلاء والصحابة الاخیار والحروب التی جرت بینھم کانت لکل طائفة شبھة اعتقدت تصویب نفسھا بسببھا وکلھم متاولون فی حروبھم ولم یخرج احد منھم من العدالة لانھم مجتھدون(۴۳)․

            ترجمہ:حضرت معاویہؓ عادل فاضل اوراخیارصحابہ میں سے ہیں اورصحابہ میں جوجنگیں ہوئیں وہ اس طرح ہوئیں کہ ان میں سے ہرایک گروہ ایک شبہے میں گھراتھا،جس میں وہ اپنے آپ کو اجتہاداً حق پرسمجھتاتھااوروہ اپنی اپنی جنگوں میں مقام تاویل پرتھے اوراس طرح ان میں سے کوئی اپنے مقام عدالت سے نہیں گرااس لیے کہ وہ سب کے سب ان اختلافات میں مقام اجتہادپر تھے۔

            حافظ ابن عساکر(۵۷۱ھ)خلفاء راشدین کاذکرکرنے کے بعدلکھتے ہیں:

            فھٰؤلاء الائمة بعد رسول اللّٰہ ﷺ وخلافتھم خلافة النبوة ونشھد للعشرة بالجنة الذین شھد لھم رسول اللہ ﷺ ونتولی للعشرة بالجنة الذین شھد لھم رسول اللّٰہ ﷺ ونتولی سائر اصحاب النبی ﷺ ونکف عما شجر بینھم وندین اللّٰہ ان الائمة الاربعة راشدون مھدیون فضلاء لایوازیھم فی الفضل غیرھم ونصدق بجمیع الروایات التی ثبتت عنداھل النقل(۴۴)․

            رجمہ: یہ حضرات رسول اللہﷺکے بعدامت کے امام ہیں اوران کی خلافت خلافت نبوت ہے اورہم ان دس حضرات کے لیے جنت کیشہادت دیتے ہیں،جن کے لیے حضورﷺنے جنت کی بشارت دی ہے اورہم تمام صحابہ سے محبت رکھتے ہیں اوران میں جواختلاف ہوئے ہم ان سے زبان بندرکھتے ہیں اورہم اللہ کواس پرگواہ لاتے ہیں کہ یہ چاروں حضرات رشدوہدایت پررہے،علم وفضل میں یہ ایسے ہیں کہ کوئی ان کے برابرنہیں اترتااورہم ان تمام روایات کی تصدیق کرتے ہیں جنہیں محدثین (اہل نقل)نے ثابت فرمایاہے۔

            علامہ سعدالدین تفتازانیؒ (۷۹۱ھ)لکھتے ہیں:

            مما روی فی الاحادیث الصحیحة من مناقبھم ووجوب الکف عن الطعن فیھم لقولہ علیہ السلام اکرموا اصحابی فانھم خیارکم الحدیث ولقولہ علیہ السلام لاتتخذوا غرضاًمن بعدی(۴۵)․

            ترجمہ:احادیث صحیحہ میں صحابہ کے جومناقب مروی ہیں،ان کی روسے ان پرزبان طعن کوروکے رکھناواجب ہے،حضورﷺکاصحابہ کے بارے میں ارشادہے:میرے صحابہ کی عزت کرو، یہ بیشک تم میں بہترین لوگ ہیں اورحضورﷺکایہ بھی ارشادہے کہ میرے بعدصحابہ کوکسی اعتراض کانشانہ نہ بنانا۔

            حافظ ابن حجرعسقلانیؒ (۸۵۲ھ)لکھتے ہیں:

            اتفق اھل السنة علیٰ ان الجمیع عدول فی ذلک الاشذوذ من المبتدعة(۴۶)․

            ترجمہ:تمام اہل سنت اس پراتفاق رکھتے ہیں کہ صحابہ سب کے سب عادل ہیں اوراس میں کسی نے اختلاف نہیں کیا،سوائے چندمبتدعین کے۔

            سوان میں سے کسی پرکوئی جرح نہ کی جائے،یہ گواہ کسی طرح مجروح نہ ہونے پائیں،حافظ ابن حجرنے صحابہ پرجرح کرنے کوبدعتیوں کانشان بتایاہے؛اس لیے آج بھی جواُن پرجرح کریں ان کے بدعتی ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔

            حافظ ابن ہمام الاسکندریؒ(۸۶۱ھ)لکھتے ہیں:

            واعتقاد اھل السنة والجماعة تزکیة جمیع الصحابة رضی اللّٰہ عنھم وجوباًباثبات العدالة لکل منھم والکف عن الطعن فیھم والثناء علیھم کما اثنیٰ اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ علیھم(۴۷)․

            ترجمہ:اہل السنة والجماعة کاعقیدہ ہے کہ تمام صحابہ کوتزکیہ یافتہ ماننالازم ہے؛کیونکہ ان میں سے ہرایک کاعادل ہوناثابت ہے اوران پرہرطرح کے طعن سے رکنا اوران کی ثناخوانی کرتے رہنا جیساکہ اللہ نے قرآن میں ان کی ثناکی ہے لازم ہے۔

            بحرالعلوم ملامحمدعبدالعلی لکھنویؒ(۱۲۲۵ھ)بھی لکھتے ہیں:

            واعلم ان عدالة الصحابة الداخلین فی بیعة الرضوان والبدریین کلھم مقطوع العدالة لایلیق لمؤمن ان یمترا فیھا․․․․ والواجب علینا ان نکف عن ذکرھم الابخیر(۴۸)․

            ترجمہ:جان لوکہ وہ صحابہ جوبیعت رضوان میں شامل تھے اورجوبدری صحابہ ہیں،یہ سب قطعی طورعادل ہیں کسی موٴمن کویہ حق نہیں کہ وہ اس میں کسی طرح کاکوئی شک کرے۔۔۔ہم پرلازم ہے کہ ہم ان کے بارے میں سوائے ان کی مدح وثناکے ہرطرح سے زبان بندرکھیں۔

            غرض تمام ائمہ واعلام کااتفاق ہے کہ صحابہ کے بارے میں کلمہٴ خیرکے سواہربات سے زبان بندرکھی جائے،اس کاحاصل اس کے سواکیاہے کہ صحابہ کی بے ادبی میں موٴمن کی زبان نہ کھلے،صحابہ سے کوئی عمل ان کی شان کے خلاف صادر ہوتواس کی تنقیح یاتاویل کی جائیگی،انھیں اعتمادکی سطح سے گرایانہیں جائے گا، صحابہ دین اسلام کوآگے نقل کرنے میں جرح سے بالااورسب اہل ملت پرحجت سمجھے گئے ہیں،ان کی مدح وثناکااقراراس امت میں تسلسل سے چلاآرہاہے،سواس قدر مشترک کا تحفظ اس طرح سے رہ سکتاہے کہ ان پرکسی قسم کی جرح سے زبان اورقلم کوروکاجائے۔

            علماء حق تاریخ کے ہردورمیں صحابہ کاتزکیہ ان کی عدالت ودیانت اوران کاہرجرح سے بالا ہونا اس کثرت سے بیان کرتے آئے ہیں کہ اس پرتمام اکابرین امت کاصدی واراجماع قائم ہے، اب کسی کی مجال نہیں کہ وہ اس اجماع سے نکلے اورکسی صحابی پرزبان جرأت درازکرے، اعاذنا اللّٰہ منھا(۴۸)۔

صحابہ سے بغض رکھنے والاخارج ازاسلام

            صحابہ پرطعن کبھی اس درجہ میں ہوتاہے کہ کفرتک پہونچ جاتاہے جیسے حضرت عائشہ پرتہمت لگانا، ائمہٴ مجتہدین اورعلماء صالحین میں سے کسی نے حضرت معاویہؓ اوران کے رفقاء پرلعنت کی اجازت نہیں دی ہے۔

            شرح عقائد کی شرح النبراس میں ہے:

            والطعن فیھم ان کان مما یخالف الادلة القطعیة فکفر کقذف عائشة ․․․․․․ وبالجملة لم ینقل عن السلف المجتھدین والعلماء الصالحین جواز اللعن علیٰ معاویة واحزابہ(۵۰)․

            ترجمہ:صحابہ میں سے کسی پرکوئی طعن کرنااگردلائل قطعیہ کے خلاف ہوتویہ کفرہے،جیساکہ حضرت عائشہؓ پرتہمت لگانااورسلف صالحین اورائمہٴ مجتہدین میں سے کسی سے حضرت معاویہؓ اوران کے احباب پرلعنت کرنے کاجوازمنقول نہیں ہے۔

            #حضرت امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ جس نے حضوراکرمﷺکے صحابہ سے دل میں کوئی بوجھ رکھاوہ اسلام سے نکل گیا:

            ومن ہذہ الآیة انتزع الإمام مالک -رحمہ اللہ، فی روایة عنہ- بتکفیر الروافض الذین یبغضون الصحابة، قال: لأنہم یغیظونہم ومن غاظ الصحابة فہو کافر لہذہ الآیة ووافقہ طائفة من العلماء علی ذلک والأحادیث فی فضائل الصحابة والنہی عن التعرض لہم بمساء ة کثیرة ویکفیہم ثناء اللّٰہ علیہم، ورضاہ عنہم(۵۱)․

            حافظ ابوزرعہ رازیؒ (۲۶۴ھ)لکھتے ہیں:

            واذا رایت الرجل ینتقص احدا من اصحاب رسول اللہ ﷺ فاعلم انہ زندیق ․․․․ وھٰؤلاء یریدون ان یخرجوا شھودنا لان یبطلوا الکتاب والسنة والجرح بھم اولیٰ وھم زنادقة(۵۲)․

            ترجمہ:تم جب کسی شخص کودیکھوکہ وہ حضوراکرمﷺکے صحابہ میں سے کسی ایک کی بھی تنقیص کررہاہے توجان لوکہ وہ زندیق ہے (ملحدہے)۔۔۔یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارے دین کے گواہوں پرجرح کرکے کتاب وسنت کواڑاکررکھ دیں یہ لوگ خودجرح کے زیادہ لائق ہیں اوریہ سب کے سب زندیق ہیں(۵۳)۔

———–

            اس اصولی بحث کے بعدہم ایک نظر موضوع کی بعض تفصیلات پرڈالتے ہیں،جس سے علماء اسلام کے مذکورہ موقف کے سمجھنے میں مدد ملتی ہے:

صحابہ کے علمی اختلافات

            # جہاں تک صحابہ کے علمی وفکری اختلافات کاتعلق ہے توبلاشبہ ان کے درمیان اس نوع کے بے شماراختلافات ہوئے؛ بلکہ ان علمی اوراجتہادی اختلافات کا سر رشتہ خود عہدنبوت ہی سے ملتا ہے، جیساکہ بنوقریظہ میں عصر پڑھنے کے واقعہ سے اندازہ ہوتاہے؛ مگریہ کوئی معیوب بات نہیں ہے، خود سرکار دوعالم ﷺ نے دونوں فریق کی تصویب فرمائی(۵۴)، ظاہر ہے کہ جس امت کو اجتہاد جیسا سرچشمہٴ قانون عنایت کیاگیا،وہاں فکرورائے کااختلاف عین قرین عقل وفطرت ہے؛چنانچہ عہدنبوت کے بعد بھی یہ اختلافات جاری رہے،کتب حدیث میں اس کی بے شمارمثالیں موجودہیں اورصحابہ کے ایک دوسرے پرمناقشات پرمستقل کتابیں لکھی گئی ہیں؛مگر یہ قسم یہاں زیر بحث نہیں ہے۔

سیاسی اختلافات اورمشاجرات

            #یہاں زیربحث وہ اختلافات ہیں جوسیاسی اورحربی نوعیت کے ہیں،جن میں زبان کے ساتھ ساتھ شمشیروسنان کی طاقت بھی استعمال ہوئی،اورانھیں کو مشاجرات کانام دیاگیا؛لیکن غورکیجیے تو یہ اختلافات بھی بہت بعدکی پیداوارہیں،حضرت عثمانؓ کی شہادت سے قبل اس طرح کاکوئی بڑا اختلاف رونمانہیں ہواتھا،حضرت عثمانؓ کی خلافت کے آخری دورمیں صحابہ کی تعدادعام مسلم آبادی کے مقابلے میں بہت کم ہوگئی تھی؛اس لیے جواختلافات رونماہوئے اس کاسبب براہ راست خودصحابہ کرام نہیں تھے؛بلکہ ان میں بڑادخل ان مسلمانوں کاتھا جوشرف صحابیت سے محروم تھے؛اس لیے ان اختلافات کوبراہ راست صحابہ کااختلاف نہیں کہاجاسکتا۔

            خود امیر الموٴمنین حضرت عثمان غنیؓ کاسانحہٴ شہادت بھی مشاجرات صحابہ کے ضمن میں نہیں آتا؛ اس لیے کہ آپ کے قتل میں کوئی صحابی رسول ﷺ شریک نہیں تھے،امام نوویؒ لکھتے ہیں:

            ولم یشارک فی قتلہ أحد من الصحابة، وإنما قتلہ ہمج، ورعاع من غوغاء القبائل سفلة الأطراف والأراذل، تحزَّبوا، وقصدوہ من مصر، فعجزت الصَّحابة الحاضرون عن دفعہم، فحصروہ حتَّی قتل، رضی اللّٰہ عنہ (۴)، وقد وصفہم الزبیر رضی اللّٰہ عنہ بأنہم غوغاء من الأمصار، ووصفتہم السیَّدة عائشة بأنَّہم نزَّاع القبائل(۵۵)․

            ”حضرت عثمانؓ کے قتل میں کوئی صحابی شریک نہیں ہوا، آپ کوقتل کرنے والے نچلے درجے کے لوگ تھے،یہ فسادپیداکرنے والے قبائل اورجنگی قسم کے رذیل لوگ تھے،جوجتھابن کرآئے اور انھوں نے آپ پرحملہ کیااوروہاں پرموجودصحابہ انھیں روکنے سے عاجزرہے،حضرت زبیرؓنے فرمایاکہ یہ مختلف شہروں کے شرپسند لوگ تھے اورحضرت عائشہؓ نے فرمایاکہ مختلف قبائل کے چھٹے ہوئے لوگ تھے۔

اختلافات صحابہ کی جماعت میں نہیں،مخلوط جماعت میں پیداہوئے

            #حقیقت یہ ہے کہ امت کے معاملات جب تک صحابہ کی جماعت کے سپردرہے اسلامی معاشرہ بیشک اشداء علی الکفار ورحماء بینھم (جو قرآن کریم میں صحابہ کی شان میں کہا گیا ہے) کامظہر بنارہا؛ لیکن یہ حالت اسی دورتک رہی جب تک امت مسلمہ زیادہ ترصحابہ کی جماعت پرمشتمل تھی،آنحضرت ﷺکی وفات شریفہ کازمانہ جوں جوں دورہوتا گیا،امت مسلمہ میں صحابہ کی تعدادکم ہوتی گئی اوردوسرے مسلمان جوصحابی نہ تھے،اکثریت بنتے چلے گئے،اب ایسے دور کے مسلمان اگر رحماء بینھم کامظہر نہ رہیں،تویہ نہیں کہاجاسکتا کہ جماعت صحابہ اس صفت کی آئینہ دار نہیں رہی؛بلکہ دیکھاجائے توایسے دورمیں صحابہٴ کرامؓ کی مجموعی حیثیت یاتنظیم کسی محسوس صورت میں ملتی ہی نہیں،وہ اگلے دور کے مسلمانوں میں اس طرح ملے جلے نظرآتے ہیں کہ اس دورکے فیصلے نہ جماعتِ صحابہ کے فیصلے سمجھے جا سکتے ہیں اورنہ ان کوصحابہٴ کرام کے اختلافات کہاجا سکتاہے، اس بات سے انکارنہیں کہ ان اختلافات نے صحابہ کے ناموں سے شہرت حاصل کی؛لیکن یہ اختلافات صحابہ کرام کی جماعت کااختلاف نہیں کہلاسکتے؛کیونکہ اس وقت کی جماعتی زندگی پرغیرصحابہ کاغلبہ اورتسلط تھا۔ حضرت علی مرتضیٰؓ کے دورمیں جماعت صحابہ کے بجائے غیر صحابہ کاغلبہ تھا اوروہ بھی زیادہ تروہی لوگ تھے،جوسیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ کے کہنے سننے میں نہ تھے،ہمیں حضرت علی المرتضیٰؓ کے اس دورکے متعددایسے خطبے ملتے ہیں جن میں وہ اپنی مجبوری اوران لوگوں کی سینہ زوری کے بہت شاکی نظرآتے ہیں،حضرت علی المرتضیٰؓ خودفرماتے ہیں:

            یملکوننا ولانملکھم(۵۶)․

            ترجمہ:یعنی یہ لوگ اپناحکم ہم پرچلاتے ہیں اورہماری نہیں سنتے۔

            ایسے لوگوں کی معیت اگربعض صحابہ کوبعض دوسرے صحابہ سے بدگمان کیے رکھے اوریہ لوگ ہروقت ایسے مواقع کی تاک میں رہیں اورباہمی معاملات میں اختلاف وانشقاق کے کانٹے بوتے رہیں تویہ کوئی تعجب کی بات نہیں(۵۷)۔

            جیساکہ جنگ صفین میں حضرت عائشہ جنگ کے لیے نہ آئی تھیں؛ بلکہ بطورام الموٴمنین بیٹوں میں مصالحت کرانی پیش نظرتھی؛لیکن غلطی سے یہ جنگ میں تبدیل ہوگئی،جس کاحضرت عائشہؓ کو ہمیشہ افسوس رہا (۵۸)۔

            اسی لیے صحابہ کی ایک بڑی تعداد ان جنگوں سے علیحدہ رہی،حافظ ابن حجرعسقلانیؒ(۸۵۲ھ) لکھتے ہیں:

            وکان من الصحابة فریق لم یدخلوا فی شئی من القتال(۵۹)․

            ترجمہ:صحابہ میں ایسے لوگ بھی تھے جوان میں سے کسی جنگ میں شامل نہیں ہوئے۔

            اورشرح عقیدہٴ طحاویہ میں ہے:

            وقعدعن القتال اکثرالاکابر(۶۰)․

            ترجمہ:اوراکثراکابرصحابہ ان خون ریزجنگوں سے علیحدہ رہے(۶۱)۔

صحابہ ایک دوسرے کے حق میں بے حدمخلص اورخیرخواہ تھے

            #غرض صحابہ کے درمیان جن اختلافات کاذکرکیاجاتاہے وہ درمیانی لوگوں کی وجہ سے پیدا ہوئے اورمحض غلط فہمیوں کی بنیادپربعض ناخوشگوارواقعات پیش آگئے،ورنہ صحابہ باہم ایک دوسرے کے حق میں بے حدخیرخواہ اورمخلص تھے اوراگرغلطی سے کسی کے حق میں زیادتی ہوجائے تواس سے درگذرکرنے والے تھے، اس کی ایک مثال خودعہدنبوت میں پیش آئی:

            جنگ احدمیں حضورﷺکی شہادت کی جھوٹی افواہ پھیلنے سے ایک افراتفری کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی،اس میں بعض مسلمان بھی خودمسلمانوں ہی کے ہاتھوں شہید ہوئے،ان میں ایک حضرت حذیفہ بن یمانؓ کے والد بھی تھے،حضرت حذیفہؓ نے دورسے آوازدی کہ یہ میرے والدہیں؛ مگر افراتفری میں وہ آوازسنی نہ جاسکی اورحضرت یمان شہید ہوگئے (۶۲)۔

            اب حضرت حذیفہ کی شان معافی دیکھیے،صحابہ نے جب کہاکہ خداکی قسم! ہم نے ان کو پہچانا نہیں تھا،توانھوں نے وہی بات کہی جوحضرت یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی:

            یغفراللّٰہ لکم وھو ارحم الراحمین(۶۳)․

            ”اللہ تعالیٰ تم سب کوبخشے وہ سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والاہے۔

            حضوراکرمﷺ نے حضرت یمانؓ کاخون بہا بیت المال پر ڈالنا چاہا کہ یہ قتل خطا تھا؛ مگر حضرت حذیفہ نے اسے قبول کرنے سے انکارکردیا،وہ جانتے تھے کہ جو کچھ ہواافراتفری کے عالم میں ہوا؛ اس لیے مناسب نہ سمجھاکہ میں اس پردیت لوں، حضرت حذیفہؓ نے اپناحق معاف کردیا اللہ پاک کوان کی یہ ادااتنی پسند آئی کہ اس نے ان سب سے جن سے احدکے دن غلطی ہوئی تھی اپنی گرفت اٹھالی اورسب کومعاف کردیا(۶۵)۔

            حضورﷺکے بعد بھی ان کایہ باہمی اخلاص وتعلق برقراررہا اوربراہ راست صحابہ نے ایک دوسرے کے خلاف غلط الفاظ استعمال نہیں کیے اورنہ کبھی اپنی سطح سے نیچے اترکرانتقامی کاروائیوں میں ملوث ہوئے۔

تاریخی روایات کے ذریعہ کسی صحابی کومطعون کرنادرست نہیں

            #جہاں تک ان تاریخی روایات کاتعلق ہے جن کے ذریعے بعض صحابہ کی شخصیات کومجروح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،تو اولاًقرآن وحدیث کے نصوصِ قطعیہ اوراجماعِ امت سے ثابت شدہ موقف کے مقابلے میں تاریخی روایات کی کوئی اہمیت نہیں ہے؛اس لیے کہ تاریخی روایات کے ضبط واندراج میں اس معیارکونہیں اپنایاگیاجو احادیث کے جمع وتحقیق میں اختیارکیاگیاتھا؛بلکہ صحیح بات تویہ ہے کہ اسلامی تاریخ پرابتداسے لے کربعدتک جتنی کتابیں لکھی گئیں ان میں ایک بھی مستند کتاب نہیں ہے،علامہ خالد محمودؒنے اس تاریخی حقیقت کوبہت مدلل طورپرپیش کیاہے،لکھتے ہیں:

تاریخ اسلام کی کوئی مستندکتاب موجودنہیں ہے

            ”اسلامی ذخیرہٴ کتب میں تاریخ اسلام کی ایک بھی ایسی مستندکتاب نہ ملی جسے مستندتاریخ اسلام کہاجاسکے،ہاں ان ادوارمیں بعض موٴرخین ایسے ضرورہوئے ہیں جواپنے علم،محنت، شخصیت اورجمع روایات میں مستند مانے گئے ہیں؛لیکن انھوں نے بھی اپنی جملہ روایات کوکبھی مستندہونے کی سند نہیں دی،موٴلفین کامستندہونا اور بات ہے اوران کی جمیع مرویات کامستندہونااوربات ہے۔

            اس سے یہ نہ سمجھاجائے کہ جب مسلمان اپنے عہداول کی کوئی مستندتاریخ اسلام مرتب نہ کرپائے تومسلمان بطورایک قدیم قوم کے کیسے آگے چل سکیں گے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے دین کے قیام میں کتاب وسنت کے پابندکیے گئے تھے، تاریخ کے نہیں،حضوراکرمﷺنے اپنے سفرآخرت سے پہلے امت کو نصیحت کی:

            ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بھماکتاب اللّٰہ وسنة نبیہ(۶۶)․

            سودوراول کی کوئی مستند تاریخ اسلام نہ ملنے سے دین میں کوئی کمی نہیں آتی،نہ قیام نظام اسلامی میں اس سے کوئی مشکل درپیش ہوتی ہے۔

            موٴرخین میں حافظ محمدابن سعدؓ،علامہ طبری ؒ(۳۱۰ھ)،حافظ ابن عبدالبرؒ(۴۶۳ھ)،حافظ ابن عساکرؒ(۵۷۱ھ)ابن اثیرؒ(۶۰۶ھ)،ابن کثیرؒ(۷۷۴ھ) اور علامہ ابن خلدونؒ(۸۰۸ھ) بے شک بلندپایہ موٴرخین گذرے ہیں؛لیکن ان کے مجموعہائے تاریخ کوکبھی پوری طرح مستندنہیں ماناگیا،یہ حضرات اپنے راویوں سے کئی کئی طرح کی روایات لائے ہیں اور”دروغ برگردن راوی“ کے اصول پرکاربندرہتے ہوئے انھوں نے اہل کذب راویوں سے بچنے میں کوئی زیادہ احتیاط نہیں کی،بد مذہب اورجھوٹے راویوں کی جانچ پڑتال کیے بغیرانھیں اپنی کتابوں میں جگہ دیدی،اب ہم ان کی روایات کوقرآن وحدیث سے ملی معلومات اوراصول درایت پر پرکھے بغیر قبول نہ کرسکیں گے،انھیں یہ کہہ کرکبھی قبول نہ کیاجاسکے گاکہ یہ روایات تاریخ کی مستندکتابوں میں موجودہیں اورحقیقت یہ ہے کہ تاریخ اسلام کی کوئی کتاب بذات خودمستندنہیں مانی گئی،ان سے تاریخی مواد تو ضرور ملتاہے؛لیکن بلادیکھ بھال اورراویوں کی پڑتال کیے بغیران سے مستند تاریخ ہمیں نہیں ملتی اورجو موٴلفین ان کتابوں کو تاریخ کی مستندکتابیں سمجھتے ہیں وہ ان کتابوں اوران کے موٴلفین کے طرز تالیف سے یکسر بیخبر ہیں۔ علماء امت نے دین کوہمیشہ کتاب وسنت کے چشموں سے لیا ہے،عقائدکی ترتیب میں تاریخ کوکوئی اساسی حیثیت نہیں دی۔

            دیکھیے علامہ طبریؒ اپنی کتاب تاریخ الرسل والملوک میں غلط راویوں کی دی گئی روایات کی ذمہ داری سے اس طرح نکلتے ہیں:

            فلیعلم انہ لم یات فی ذلک من قبلنا وانمااتیٰ من قبل بعض ناقلیہ الینا(۶۷)․

            ترجمہ:جان لیجیے کہ ایسی باتیں اس میں ہماری طرف سے نہیں آئیں یہ اس کے بعض راویوں سے ہم تک آئی ہیں۔

            علامہ طبریؒ نے واقدی جیسے موٴرخین سے جوروایات نقل کی ہیں ان کی ذمہ داری ”دروغ برگردن راوی“ کے اصول پرواقدی پرآتی ہے،علامہ طبریؒ ان کی ذمہ داری لیتے توانھیں واقدی کے نام سے روایت نہ کرتے،حضرت عثمانؓ کے خلاف یورش کرنے والے باغی جب مصرسے مدینہ کی طرف چلے توطبری نے ان کے کوائف واقدی کے حوالے سے پیش کیے ہیں اوران میں بھی موٴرخ طبری یہ بات کہہ گئے ہیں:

            ”واقدی نے مصریوں کی حضرت عثمانؓ کی طرف نکلنے کی بہت سی باتیں لکھی ہیں ان میں سے بعض کے ذکرسے میں نے اعراض کیاہے،مجھے ان کی قباحت وشناعت کے سبب ان کے ذکر کرنے سے گھن آتی ہے(ترجمہ)(۶۸)۔

            جب طبریؒ کایہ حال ہے تودوسرے موٴرخین کاکیاحال ہوگا،جوروایتیں گھڑنے سے مطلقاً حیا نہیں کرتے،قاضی ابوبکرابن العربی (۵۴۳ھ)لکھتے ہیں:

            ولاتسمعوا لِمُوٴرخٍ کلاماً الا للطبری فانھم ینشوٴون أحادیث فیھا استحقارة الصحابة والسلف والاستخفاف بھم(۶۹)․

            ترجمہ:تم ان ابواب میں طبری کے علاوہ کسی موٴرخ کی کوئی بات نہ سنو، وہ ایسی حدیثیں خود گھڑتے ہیں جن سے صحابہ اورسلف صالحین کی تحقیرہوتی ہے اوران کے بارے میں استخفاف لازم آتاہے۔

            قاضی صاحبؒ کی یہ وصیت آب زرسے لکھنے کے لائق ہے:

            فاقبلوا الوصیةَ ولاتلتفتوا الاماصح من الأخبار واجتنبوا أھل التواریخ(۷۰)․

            ترجمہ:میری یہ وصیت پلے باندھو، ان روایات کی طرف ہرگزدھیان نہ کرو،سوائے ان اخبار صحیحہ کے جوصحیح طورپرہم تک پہونچیں اوران اہل تاریخ سے پوری طرح بچو۔

            البتہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ امام زہریؒ کے شاگرد موسیٰ بن عقبہ جوامام مالکؒ کے استاد تھے، انھوں نے دوسروں کی نسبت صحت روایت کاکچھ التزام کیاہے؛ لیکن افسوس کہ یہ کتاب عام شائع نہ ہوسکی،علامہ شبلیؒ لکھتے ہیں:

            ”موسیٰ کی کتاب آج موجودنہیں؛ لیکن ایک مدت تک شائع وذائع رہی ہے اورسیرت کی تمام قدیم کتابوں میں کثرت سے اس کے حوالے آتے ہیں(۷۱)۔

            حافظ ابن تیمیہ (۷۲۴ھ)اورحافظ ابن کثیر(۷۷۴ھ) بھی تاریخ کے ان ذخیروں کو مستند تسلیم نہیں کرتے۔

            حافظ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:

            الموٴرخون الذین یکثرون الکذب فیمایروونہ وقل ان یسلم نقلھم من الزیادة والنقصان(۷۲)․

            ترجمہ:موٴرخین جواپنی مرویات میں زیادہ سے زیادہ جھوٹ لاتے ہیں اوربہت کم ہیں کہ ان کی نقل زیادتی اورکمی سے بچی ہو۔

            وانما ھومن جنس نقلة التواریخ التی لایعتمد علیھا اولوا الابصار(۷۳)․

            ترجمہ:اوریہ بات تاریخ نقل کرنے والے لوگوں کی روایت سے جن پرآنکھ والے کبھی بھروسہ نہیں کرتے۔

اورحافظ ابن کثیرؒ کی رائے بھی ملاحظہ کرلیں،آپ لکھتے ہیں:

            ”بہت سے موٴرخین مثلاًابن جریروغیرہ نے مجہول راویوں سے ایسی خبریں ذکرکی ہیں، جو صحاح کے ثابت شدہ حقائق کے خلاف ہیں، ان پراعتماد کیاجائے یا انھیں ردکیاجائے اس پرآپ نے فیصلہ دیاہے:

            فھی مردودة علیٰ قائلھا وناقلھا واللّٰہ اعلم(۷۴)․

            ترجمہ:یہ روایتیں اپنے غیرثقہ دعویداروں اورراویوں پرردکی جائیں گی(قبول نہ کی جائیں گی)۔

            تاریخ کی اس قسم کی روایتیں ہرگز قبول ہونے کے لائق نہیں،خصوصاًوہ جن کے قبول کرنے سے کتاب وسنت کے بہت سے فیصلوں سے ٹکراؤلازم آتاہے۔

            عصر حاضرکے مشہورموٴرخ مولاناشبلی نعمانیؒ (۱۳۳۲ھ)لکھتے ہیں:

            ”سیرت پراگرچہ آج بھی سیکڑوں تصنیفیں موجودہیں؛لیکن سب کاسلسلہ جاکر صرف تین چار کتابوں پرمنتہی ہوتاہے،سیرت ابن اسحاق، واقدی،ابن سعد،طبری،ان کے علاوہ جوکتابیں ہیں وہ ان سے متاخرہیں اوران میں جوواقعات مذکورہیں،زیادہ ترانھیں کتابوں سے لیے گئے ہیں۔ ان میں سے واقدی توبالکل نظراندازکردینے کے قابل ہے،محدثین بالاتفاق کہتے ہیں کہ وہ خوداپنے جی سے روایتیں گھڑتاہے۔ ابن سعدکی نصف سے زیادہ روایتیں واقدی کے ذریعہ سے ہیں، اس لیے ان روایتوں کاوہی مرتبہ ہے جوخودواقدی کی روایتوں کاہے، طبری کے بڑے بڑے شیوخ روایت مثلاًسلمہ بن الابرش،ابن سلمہ وغیرہ ضعیف الروایة ہیں،اس بناپرمجموعی حیثیت سے سیرت کاذخیرہ کتب حدیث کاہم پلہ نہیں؛ البتہ ان میں جوتحقیق وتنقیدکے معیارپراترجائے وہ حجت و استناد کے قابل ہے۔

            ابن سعداورطبری میں کسی کوکلام نہیں؛لیکن افسوس ہے کہ ان لوگوں کامستندہوناان کی تصنیفات کے مستندہونے پرچنداں اثرنہیں ڈالتا، یہ لوگ خود شریک واقعہ نہیں؛اس لیے جوکچھ بیان کرتے ہیں، راویوں کے ذریعہ سے بیان کرتے ہیں؛لیکن ان کے بہت سے رُوات ضعیف الروایة اور غیرمستند ہیں(۷۵)۔

            آنحضرت ﷺنے اپنے بعدجلدہی واقع ہونے والے افتراق کی خبر دی توساتھ ہی فرمایا، اس افتراق میں نجات کے لائق وہی ہونگے جومیرے اور میرے صحابہ کی راہ پرہوں،(مااناعلیہ واصحابی) اس سے واضح ہواکہ اس دورمیں ایسے رواة اخبارجن کی روایات سے صحابہٴ کرام کی شخصیات کسی درجہ میں مجروح ہوتی ہوں کسی طرح لائق قبول نہ سمجھے جائیں گے،سوہدایت نبوی سے یہ ایک اصولی راہ مل گئی کہ اختلاف کے اس دورمیں سلامتی اسی طرف رہنے میں ہے جس میں صحابہ کی عزت وناموس برقراررہے اورجوروایات ان کی شخصیات کومجروح کریں لائق ردسمجھی جائیں گی(۷۶)۔

صحابہ پرالزامات والی ایک روایت بھی واضح اورمستند نہیں

            اس قسم کی جتنی روایات بھی نقل کی جاتی ہیں تحقیق کی جائے توان میں ان ایک بھی واضح نہیں یایہ کہ پایہٴ استنادکونہیں پہونچتی،علامہ خالدمحمود صاحبؒ کی تحریرات سے اس کی بعض مثالیں پیش کی جاتی ہیں:

حضرت امیرمعاویہؓ نے حضرت علیؓ کے سب وشتم کاحکم نہیں دیا

            (۱) کہاجاتاہے کہ حضرت امیرمعاویہؓ نے حضرت علیؓ کے سب وشتم کاحکم دیاتھا؛مگریہ بات درست نہیں؛بلاشبہ صحیح مسلم میں حضرت امیرمعاویہؓ اورحضرت سعدبن ابی وقاصؓ کی ایک گفتگو مذکور ہے، ان دوحضرات کی ملاقات غالباًمکہ میں ہوئی،حضرت امیرمعاویہؓ نے حضرت سعدؓ سے وجہ پوچھی کہ وہ حضرت علیؓ کے بارے میں خاموش کیوں ہیں اورمیرے ساتھ کیوں نہیں ہوتے،خون عثمانؓ کے بارے میں حضرت علیؓ اپنی ذمہ داری ادانہیں کرپائے،آپ انھیں برابھی نہیں کہتے،آخراس کی وجہ کیاہے؟۔”سب“کامعنیٰ گالی دیناہی نہیں برابھلاکہنا اورلاتعلق ہونابھی اسی ذیل میں آتا ہے اوریہ لفظ عام ہے۔

            ابوعبداللہ محمدبن خلیفہ الوشتانی شرح مسلم میں لکھتے ہیں:

            یحمل السب علی التغییر فی المذھب والرای فیکون المعنیٰ مامنعک من ان تبین للناس خطائہ وان ما نحن علیہ اسدواصوب ومثل ھذا یسمیٰ سباً فی العرف (اکمال اکمال المعلم ص)

            یہاں لفظ ”سب“ اپنے موقف اوررائے کوبدلنے پرمحمول کیاجائے گا،(گالی کے معنیٰ پرنہیں) پس اس کایہ مطلب لیاجائے گاکہ آپ کوکس چیزنے روک رکھاہے کہ لوگوں کے سامنے علیؓ کی خطا بیان نہ کریں اوریہ بات کہنے سے کہ جس بات پرہم ہیں،وہ زیادہ صحیح اوربہترہے عرب کے عرف میں ایسے موقف کوبھی لفظ ”سب“سے ذکرکردیتے ہیں (اورظاہرہے یہ گالی کامعنیٰ نہیں ہے)

            لغت حدیث کی مشہورکتاب مجمع البحارمیں ہے:

            المعنیٰ مامنعک ان تخطئہ فی اجتھادہ وتظھر للناس حسن اجتھادنا(۷۷)․

            ”ان کا معنیٰ یہ لیاجائے گاکہ آپ کوکس چیزنے علیؓ کے خطافی الاجتہاداورہمارے صواب فی الاجتھادکولوگوں کے سامنے لانے سے روک رکھاہے۔

            حاشیة السندھی میں بھی یہی بات ہے:

            أَیْ نَالَ مُعَاوِیَة مِنْ عَلِیّ وَوَقَعَ فِیہِ وَسَبَّہُ بَلْ أَمَرَ سَعْدًا بِالسَّبِّ کَمَا قِیلَ فِی مُسْلِم وَالتِّرْمِذِیّ وَمَنْشَأ ذَلِکَ الْأُمُور الدُّنْیَوِیَّة الَّتِی کَانَتْ بَیْنہمَا وَلَا حَوْل وَلَا قُوَّة إِلَّا بِاَللَّہِ وَاَللَّہُ یَغْفِرُ لَنَا وَیَتَجَاوَز عَنْ سَیِّئَاتنَا وَمُقْتَضَی حُسْن الظَّنّ أَنْ یُحْمَل السَّبّ عَلَی التَّخْطِئَة وَنَحْوہَا مِمَّا یَجُوز بِالنِّسْبَةِ إِلَی أَہْل الِاجْتِہَاد لَا اللَّعْن وَغَیْرہ(۷۸)․

            پھراس روایت میں حضرت امیرمعاویہؓ نے حضرت سعدؓ کو”سب“ کرنے کے لیے نہیں کہا،”سب“ نہ کرنے کی وجہ پوچھی ہے کہ یہ ازراہ تقویٰ وتورع ہے یاکسی خوف کے باعث ہے یاکوئی اوروجہ ہے، اگرتورع اوراحتیاط ہے توپھرصحیح ہے اور اگرکوئی اوروجہ ہے توبتلائیں میں اس کاجواب دیکرآپ کومطمئن کروں گا۔

            حضرت سعدؓ نے صاف صاف حضرت علی المرتضیٰؓ کے فضائل ذکرکیے: فتح خیبرکاعلمبردارہونا، ہارونِ امت ہونا اورحدیث کساء میں اہل بیت میں آنا ذکر فرمایا اورحضرت امیرمعاویہؓ نے ان میں سے کسی کامناقشہ نہیں کیا،آرام سے سنا،حضرت سعدؓ ان سے بالکل مرعوب نہیں ہوئے اوربات صاف صاف کہہ دی(۷۹)۔

حضرت عماربن یاسرؓ کی شہادت کے ذریعہ حضرت امیرمعاویہؓ کومطعون کرنادرست نہیں

            (۲) اسی طرح حضرت عماربن یاسرؓکی شہادت کے ذریعہ حضرت امیرمعاویہؓ کومطعون کرنا درست نہیں؛ اس لیے کہ ان کاقتل کس نے کیا اس کاصحیح پتہ نہ چل سکا، معلوم ہوتاہے کہ انھیں ایک فئة باغیہ نے قتل کیاتھا اوروہ کسی بڑے لشکرکے لوگ نہیں تھے،یہ حضرت عثمانؓ کے خلاف اٹھنے والے حضرت علیؓ کے گروہ میں گھسے ہوئے فتنہ پرورلوگ تھے،انھیں باغی حضرت عثمان کی نسبت سے کہا جاتا رہا، نہ کہ اس سے حضرت علیؓ کی تردید مقصودتھی،یہ وہ حالات تھے کہ یہ قتل اب تک مخفی درجے میں ایک معمہ بنتاچلاآیاہے اوراس پرکئی متضادباتیں سننے میں آتی ہیں،یادرکھیے کسی مختلف فیہ بات سے کسی دوسری مختلف فیہ بات کوختم نہیں کیاجاسکتا،کسی قطعی بات سے ہی کسی اختلاف کوختم کیاجاسکتاہے(۸۰)۔

حضرت معاویہؓ پرحضرت امام حسنؓ کوزہردینے کاالزام درست نہیں

            (۳) حضرت امیرمعاویہؓ کے ذمہ یہ بات لگاناکہ آپ نے حضرت حسنؓ کوزہردلوایاتھا،ایک بڑا بہتان اورکذب محض ہے۔حضرت امیرمعاویہؓ کواس کی ضرورت کیاپڑی تھی،حضرت حسین ؓ تاحیاتِ امیرمعاویہؓ زندہ رہے،انھوں نے امیرمعاویہؓ کاکیا بگاڑاتھا،جوحضرت امام حسنؓ اگرزندہ رہتے توامیرمعاویہؓ کوکسی خطرے کاسامناکرناپڑتا،علم سے نابلدلوگ یہ نہیں سوچتے کہ اس میں حضرت معاویہؓ کی کیاضرورت تھی،جووہ اس کاارتکاب کرتے،خلافت حضرت حسنؓ ان کودے چکے تھے، دونوں بھائی امیرمعاویہؓ سے بیعت ہوچکے تھے،ان کے وظائف لیتے رہے اورامیرمعاویہؓ کی زندگی تک فدک کی آمدنی حضرت حسنؓ اورحضرت حسینؓ کی اولاد کوملتی رہی، حضرت حسنؓ نے مسلمانوں کی دوجماعتوں کوایک کیا،سلطنت اسلام متحدہوئی،اورپھرتاحیات امیرمعاویہؓ اوران حضرات کے مابین کوئی دل خراش واقعہ پیش نہیں آیا، حضرت حسنؓ کی نمازجنازہ حضرت امیرمعاویہؓ کے گورنرمدینہ حضرت سعیدبن العاص امویؓ نے پڑھائی،اورانھیں اس کے لیے حضرت حسینؓ نے آگے کیا، شہادت حسنؓ میں اگرکسی طرح امیرمعاویہؓ ملوث ہوتے توحضرت امام حسینؓ امیرمعاویہؓ کے گورنرکوکبھی نمازجنازہ کے لیے آگے نہ کرتے،حضرت حسینؓ نے سعیدبن العاصؓ کو آگے کرتے ہوئے فرمایا:

            لولا السنة لما قدمتک(۸۱)․

            ترجمہ:اگرسنت طریقہ نہ ہوتاتومیں تجھے کبھی آگے نہ کرتا(یعنی سنت یہ ہے کہ حاکم وقت امامت کرے)

            حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:

            ولما توفی الحسن کان الحسین یفد الیٰ معاویة فی کل عام فیعظمہ ویکرمہ(۸۲)․

            ترجمہ:حضرت امام حسنؓ کی وفات کے بعدحضرت امام حسینؓ ہرسال حضرت امیرمعاویہؓ کے پاس تشریف لے جاتے تھے،امیرمعاویہؓ آپ کابہت اکرام فرماتے اورعطایا وتحائف دے کر رخصت کرتے تھے۔

            مشہورشیعی مورخ احمدبن داؤدالدینوریؒ (۲۸۲ھ)لکھتاہے:

            ولم یرالحسن ولا الحسین طول حیاة معاویة منہ سوء فی انفسھما ولا مکروھاً ولاقطع عنھما شیئاً مماکان شرط لھما ولا تغیر لھما عن بر(۸۳)․

            ترجمہ:حضرت حسنؓ اورحضرت حسینؓ نے پوری زندگی حضرت معاویہؓ سے اپنے حق میں کوئی بدخواہی نہیں دیکھی،نہ ان کااپنے بارے میں کوئی ناپسندیدہ عمل دیکھا،نہ حضرت معاویہؓ نے ان دونوں کے ساتھ کسی معاہدہ کی خلاف ورزی کی اورنہ کسی نیکی میں دریغ کیا۔

            پہلے موٴرخین جیسے ابن جریرطبریؒ (۲۱۰ھ)خطیب بغدادیؒ (۴۶۳ھ)وغیرہ میں سے کوئی اس واقعہ کونقل نہیں کرتا،حاکم (۴۰۵ھ)نے زہردیے جانے کا واقعہ تونقل کیاہے؛مگرزہردینے کے مجرمین کی کوئی نشاندہی نہیں کی ہے،سب سے پہلے ابن اثیرالجزریؓ(۶۲۰ھ)نے اس زہردینے کی نسبت آپ کی بیوی جعدہ بنت اشعث کی طرف کی ہے،اورپھرصیغہٴ تمریض سے کہاہے کہ کچھ لوگ اسے امیرمعاویہؓ کی طرف منسوب کرتے ہیں؛لیکن اس پرابن اثیرؓ نے کوئی صحیح روایت پیش نہیں کی اور نہ اس الزام کی کہیں توثیق کی ہے،حافظ ابن تیمیہؓ (۷۱۸ھ)لکھتے ہیں:

            ان معاویة سم الحسن فھذا مما ذکرہ بعض الناس ولم یثبت ذلک ببینة شرعیة اواقرارمعتبر ولانقل یجزم بہ(۸۴)․

            ترجمہ:امیرمعاویہؓ نے حضرت حسنؓ کوزہردیاہے یہ وہ بات ہے جوبعض لوگوں نے ذکرکی ہے اور یہ بات کسی واضح شرعی دلیل یااقرارمعتبرسے ثابت نہیں،اس پرکوئی نقل نہیں ملتی،جس پریقین کیاجاسکے۔

            حافظ ابن کثیرؒ(۷۷۴ھ)تویہ بھی لکھتے ہیں،کہ حضرت حسینؓ نے حضرت حسنؓ سے ان کے آخری وقت میں پوچھاتھاکہ آپ کوزہرکس نے دیاہے؟ حضرت حسنؓ نے نام بتانے سے انکار کیا اور فرمایا کہ اس کوچھوڑدیں،اس کافیصلہ اللہ کے یہاں ہوگا (۸۵)۔

            علامہ ابن خلدون (۸۰۸ھ)لکھتے ہیں:

            وما ینقل ان معاویة دس الیہ السم مع زوجتہ جعدة بنت اشعث فھو من احادیث الشیعة وحاشا لمعاویة من ذلک(۸۶)․

            ترجمہ:اوریہ جوکہاجاتاہے کہ امیرمعاویہؓ نے آپ کوآپ کی بیوی جعدہ بنت اشعث کے ساتھ مل کرزہردلایاتھا،یہ شیعوں کی باتیں ہیں،حاشاوکلاامیرمعاویہؓ نے ایساکیاہو۔

            البتہ یہ سوال کہ حضرت حسنؓ کی دشمنی کن لوگوں سے تھی،یہ ضرورغورطلب ہے،حضرت علیؓ کے ایک بیان سے اس کاکچھ اشارہ ملتاہے،حضرت حسنؓ نکاح بہت فرماتے تھے،اسی بناپرآپ کو”حسن مطلاق“کہاجانے لگاتھا،اس پرحضرت علیؓ نے فرمایا:

            ما زال الحسن یتزوج ویطلق حتی حسبت ان یکون عداوة فی القبائل(۸۷)․

            ترجمہ:حضرت حسنؓ متواترشادیاں کرتے رہے اورطلاقیں دیتے رہے؛ یہاں تک مجھے خدشہ گذراکہ اس اندازعمل سے کہیں قبائل میں عداوت کی آگ نہ بھڑک اٹھے۔

            اس پس منظرمیں گمان کیاجاسکتاہے کہ یہ آپ کی کسی بیوی ہی کی سازش رہی ہوگی(۸۸)۔

            اسی کے ساتھ ایک اوربات جواس حقیرکے نزدیک زیادہ قرین قیاس ہے اورجس کی وجہ سے خودآپ کے حامیوں(شیعان)میں ایک طبقہ آپ کادشمن ہوگیا تھا،وہ تھا حضرت معاویہؓ کوتفویض خلافت کامعاملہ،تفویض خلافت کے بعدحضرت معاویہؓ سے تعلقات کی استواری نے اس عداوت کو اور دوآتشہ کردیاتھا،اورغالباً آپ کی شہادت کے پیچھے یہ زیادہ بڑامحرک ثابت ہوا، واللہ اعلم بالصواب۔

حضرت امیرمعاویہؓ پرمحمدبن ابی بکرؓکے قتل کاالزام درست نہیں

            (۴) ایک الزام یہ ہے کہ امیرمعاویہؓ نے محمدبن ابی بکرؓ کوقتل کرایاتھا،اورحضرت عائشہؓ اپنے بھائی کے غم میں امیرمعاویہؓ پرقنوت فجرمیں بددعاکرتی رہیں؟

            جواب:حضرت علی المرتضیٰؓ کے بھائی جعفرطیارؓکی بیوہ اسماء بنت عمیسؓ نے حضرت ابوبکرؓسے نکاح کرلیاتھا،اورحضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعدیہ حضرت علیؓ کے نکاح میں آئیں،محمدبن ابی بکرؓ انھیں کے بیٹے تھے، جن کی پرورش حضرت علیؓ کے ہاں ہوئی،جب حضرت عثمانؓ کے خلاف یورش ہوئی، توحضرت علیؓ حضرت عثمانؓ کے ساتھیوں میں تھے،اورمحمدبن ابی بکرؓ باغی نوجوانوں کے ہتھے چڑھ کرحضرت عثمانؓ پرحملہ آورہوا،حضرت عثمانؓ نے کہااگرآج تیراباپ زندہ ہوتاتوتیرے اس کردارپر کیا کہتا،اسے شرم آئی اورپیچھے ہٹ گیا،حضرت عائشہؓ بھی اس کے اس کردارسے اس کے خلاف تھیں۔

            جنگ صفین کے بعدحضرت علیؓ نے اسے مصرکاوالی بنادیا، مصرکے پہلے گورنرعمروبن العاصؓ تھے، حضرت عمروبن العاصؓ محمدبن ابی بکر کے مقابلہ کے لیے معاویہ بن خدیج الکندی کوسپہ سالامقرر کیا، اس جنگ میں محمدبن ابی بکرؓکی وفات ہوئی،یہاں سے یہ بات چل نکلی کہ معاویہ بن خدیج الکندی نے محمدبن ابی بکرؓ کوقتل کیاہے،اورپھرنام کی مشابہت سے امیرمعاویہؓ بن ابی سفیانؓ کی طرف بھی منسوب ہوگیا۔نیزاس لحاظ سے بھی کہ مرکزی حاکم حضرت امیرمعاویہؓ تھے،آپ کومورد الزام بنایاگیا۔

            حضرت امیرمعاویہؓ کے خلاف حضرت عائشہؓ کی بددعاوالی روایت ابومخنف لوط بن یحییٰ نے نقل کی ہے، اوریہ صاحب شیعہ تھے، ان کے شیخ الشیخ عن الشیخ من اہل المدینة کے نام سے مذکور ہیں، ظاہرہے کہ اس قسم کے راویوں اوررافضیوں کی روایت سے حضرت امیرمعاویہؓ کے خلاف کوئی الزام قائم نہیں کیاجاسکتا۔طبری نے یہ روایت اسی شیعہ راوی سے نقل کی ہے(۸۹)۔

حضرت معاویہؓ پرحضرت ابن عباسؓ کے تبصرہ والی روایت

            (۵) مالک بن یحییٰ ہمدانیؒ کی روایت ہے کہ حضرت امیرمعاویہؓ نے وترکی نمازایک رکعت پڑھی، کسی نے اس کی اطلاع حضرت ابن عباسؓ کودی،آپ نے فرمایا: من این تری اخذھا الحمار۔ توکہاں سے دیکھ رہاتھاگدھے نے ایساکیاہے؟

            یہ روایت عمران بن حدیر،عکرمہ سے اورعکرمہ اسے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے نقل کرتے ہیں، عمران بن حدیرسے عطابن ابی رباح (۱۱۷ھ)اورعثمان بن عمراسے روایت کرتے ہیں،عثمان بن عمر کے طریق میں یہ اخذھا الحمار کے الفاظ موجودنہیں ہیں،اوراگریہ بات ہوتواس کامطلب یہی ہے کہ ایسابے سمجھی کاکام حضرت معاویہؓ کیسے کرسکتے ہیں ؟ ایک رکعت توکوئی بیوقوف ہی پڑھے گا،تم نے کہاں سے دیکھ لیاکہ کوئی بیوقوف ایساکررہاہے۔

            اس کے اوپرکے راوی ابوعبداللہ عکرمہ فقہائے مکہ میں سے ہیں،ان کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ خارجی ذہن رکھتے تھے،اوریہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ خارجی لوگ حضرت علی المرتضیٰ، حضرت امیرمعاویہؓ اورحضرت عمروبن العاصؓ تینوں کے برابرکے دشمن ہیں،محدثین نے اگرعکرمہ کی اور روایات قبول کی ہیں تو ضروری نہیں کہ ہم ان کی وہ روایات جوان حضرات کے مقام کومشتبہ کریں،وہ بھی قبول کرلیں،سویہ الفاظ من این تری اخذھا الحمارعکرمہ مولیٰ ابن عباسؓ کے تو ہوسکتے ہیں،حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے نہیں،حضرت عبداللہ بن عباسؓ اورحضرت معاویہؓ کے اچھے تعلقات تھے،اوردونوں ایک دوسرے کااحترام کرتے تھے، محدث عبدالرزاق (۲۱۱ھ)روایت کرتے ہیں:

            ان کریباً مولی ابن عباس اخبرہ انہ رای ابن عباس یصلی فی المقصورة مع معاویة(۹۰)․

            ترجمہ:کریب مولی ابن عباس نے بتایاکہ اس نے حضرت ابن عباسؓ کوحضرت معاویہؓ کے ساتھ مقصورہ میں نمازپڑھتے دیکھاہے۔

            ایک موقعہ پرحضرت عبداللہ بن عباسؓ نے حضرت معاویہؓ کے بارے میں اعتراف فضیلت کے طورپرفرمایا:

            لیس احد منا اعلم من معاویة(۹۱)․

            ترجمہ:ہم میں اس وقت معاویہ سے بڑاعالم کوئی نہیں ہے۔

            اس تفصیل سے یہ بات کھل کرسامنے آتی ہے کہ حضرت ابن عباسؓ حضرت معاویہؓ کے بارے میں ایسے الفاظ (من این تری اخذھا الحمار) ہرگز نہیں کہہ سکتے تھے(۹۲)۔

حضرت معاویہؓ پرباطل طریقے سے مال کھانے اورقتل ناحق کاالزام

            (۶) حضرت عبدالرحمن بن عبدرب کعبہ کہتے ہیں،معاویہ ہمیں باطل طریقے سے مال کھانے اورلوگوں کوبیجاقتل کرنے کاحکم دیتے ہیں۔

            جواب:حضرت عمروبن العاصؓ کے بیٹے حضرت عبداللہ ایک دفعہ کعبہ کے سائے میں احادیث سنارہے تھے،اورلوگ آپ کے گردجمع تھے،آپ نے ایک حدیث بیان کرتے ہوئے حدیث کاایک حصہ پڑھا:

            ومن بایع اماماً فاعطاہ صفقة یدہ وثمرة قلبہ فلیطعہ مااستطاع فان جاء احد ینازعہ فاضربوا رقبة الآخر(۹۳)․

            ترجمہ:اورجس نے کسی امام کی بیعت کی اوراس کے ہاتھ میں دست وفااوردل کاخلوص دیا، اسے چاہیے کہ اس کی پوری اطاعت کرے جہاں تک کرسکے،پھراگر کوئی حکمراں اٹھے جواس کے خلاف ہوتوتم اس دوسرے کی گردن ماردو۔

            یہ اس دور کی بات ہے جب حضرت علیؓ اورامیرمعاویہؓ میں اختلاف زوروں پرتھا،عبدالرحمن بن عبدرب کعبہ حضرت علی المرتضیٰؓ سے بیعت کیے ہوئے تھے، ان کے ذہن میں یہ بات آئی کہ پھر معاویہ کی ساری مہم اوران کااپنے لشکروں پرمال خرچ کرنایہ ساراسلسلہ اکل اموال بالباطل اوربیجاقتل وقتال کے ذیل میں آتاہے ہم جب ایک امام کی بیعت کرچکے تواب ہم دوسرے کی کیوں سنیں،یہ تو اس کی دعوت ہے کہ ہم اپنے آپ کویونہی ضائع کریں،اورفوجی اپنے وظیفے غلط لیتے رہیں، عبدالرحمن بن عبدرب کعبہ نے اسی ذہن سے حضرت عبداللہ بن عمرو(۶۷ھ)سے اس وقت جب وہ مذکورہ حدیث بیان کرچکے،کہا:

            ھذا ابن عمک معاویة یامرنا ان ناکل اموالنا بالباطل ونقتل انفسنا(۹۴)․

            ترجمہ:یہ آپ کاچچازادبھائی ہمیں کہہ رہاہے کہ ہم اپنے اموال غلط طورپرکھاتے اوراپنی جانیں یونہی لڑاتے رہیں۔

            اب ظاہرہے کہ عبدالرحمن کااشارہ حضرت امیرمعاویہؓ کے نظم مملکت اورمالی نظام کے غلط ہونے کی طرف نہ تھا،اس سیاسی اختلاف کی طرف تھا،جو امیر معاویہؓ حضرت علیؓ کے خلاف اختیار کیے ہوئے تھے اوروہ حضرت عثمان کے مظلومانہ قتل کے خلاف ایک اصولی آوازتھی،یہ مسئلہ صحابہ میں مجتہدفیہ تھا،اوردونوں طرف صحابہ موجودتھے،اب جن وجوہ سے ہم حضرت معاویہؓ کواس اجتہادی موقف کاحق دیتے ہیں،اسی جہت سے ان کااپنے لشکروں پرخرچ کرنااورلوگوں کواپنے ساتھ ملانے کی دعوت دینا ”لاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل“ اورارشادخداوندی ”ولاتقتلوا انفسکم“ کے ظاہرسے نکل جاتاہے؛کیونکہ ان کے پاس اپنے اس موقف کی تائید میں بہت سی وجوہ ہیں،جن کی بناپرانھیں بطورمجتہداجتہادکاحق پہونچتاہے؛اس لیے مذکورہ الفاظ راوی حدیث کااپناخیال ہے، چنانچہ نووی لکھتے ہیں:

            فاعتقہ ھذا القائل ھذا الوصف فی معاویة لمنازعتہ علیا(۹۵)․

            ترجمہ:اس کہنے والے کے ذہن میں معاویہ کے بارے میں یہ بات تھی،بایں وجہ کہ وہ حضرت علیؓ سے لڑرہے تھے۔

            یہ عبدالرحمن بن عبدرب کعبہ صحابی نہیں،انھوں نے جوبات کہی یہ ان کے اپنے سیاسی احساسات ہیں،ان کی کبھی ملاقات امیرمعاویہؓ سے ہوئی ہو اور انھوں نے انھیں یہ اکل اموال بالباطل کی ترغیب دی ہویہ کہیں ثابت نہیں،اب محض اتنی وجدانی بات سے ایک جلیل القدر صحابی کی دیانت کومجروح کرناانصاف نہیں،یہی وجہ ہے کہ اس آخری حصے کے نقل کرنے پرسب محدثین متفق نہیں ہیں،امام نسائیؒ نے پوری حدیث بیان کی ہے،اورعبدالرحمن اورحضرت عبداللہ بن عمروؓکی اس گفتگو کونقل نہیں کیا،اورحدیث بیان کرکے لکھ دیاہے،الحدیث متصل(۹۶) یہ اشارہ ہے کہ اس کے آگے حدیث کاکوئی جزونہیں،سنن ابن ماجہ میں بھی یہ ٹکڑانہیں ملتا(۹۷)۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ اس کے رواة میں کوئی ایساراوی ہے جوکبھی اسے روایت کرتاہے اورکبھی نہیں۔عبدالرحمن سے نیچے اس کا راوی زیدبن وھب کوفی ہے، علماء نے گواسے ثقہ بھی لکھاہے؛لیکن یہ بھی تصریح کی ہے:

            فی حدیثہ خلل کثیر(۹۸)․

            ترجمہ:اس کی روایت میں بہت خلل واقع ہوئے ہیں۔

            اب اس کی روایت سے حضرت معاویہؓ کی دیانت پرجرح کرناکس طرح درست ہوسکتا ہے، اور پھر جب حضرت حسنؓ نے امیرمعاویہؓ کی حکومت کوصحت خلافت کی سند دے دی توپھرکیایہ صورت باقی رہی جس کی عبدالرحمن بن عبد رب کعبہ خبردے رہے ہیں،اورکیاحضورﷺ کاارشاد العبرة بالخواتیم صحیح نہیں ہے؟(۹۹)

            غرض اس ضمن میں جتنی روایات بیان کی جاتی ہیں سب کایہی حال ہے،یاتووہ مستند نہیں ہیں یاان میں تاویل کی گنجائش ہے۔

#         #         #

حواشی:

(۱)          التوبة:۱۰۰۔

(۲)         الفتح:۲۶۔

(۳)         ترجمان القرآن ج۲ ص۱۴۳۔

(۴)         جامع الأصول فی أحادیث الرسول ج۱ ص۲۹۲ حدیث نمبر:۸۰ الموٴلف: مجد الدین أبو السعادات المبارک بن محمد الجزری ابن الأثیر (المتوفی:۶۰۶ہ) تحقیق: عبد القادر الأرنؤوط․ الناشر: مکتبة الحلوانی- مطبعة الملاح – مکتبة دار البیان الطبعة: الأولی․

(۵)         الکفایة فی علوم الروایة للخطیب ص ۲۶․

(۶)          عبقات ص ۲۷ تا ۳۰ موٴلفہ حضرت علامہ ڈاکٹرخالدمحمود،ناشر:دارالمعارف لاہور۔

(۷)         الموطأج۴۷۱ حدیث نمبر:۱۱۶۵ الموٴلف: مالک بن أنس المحقق: محمد مصطفی الأعظمی الناشر: موٴسسة زاید بن سلطان آل نہیان الطبعة: الاولی ۱۴۲۵ہ/۲۰۰۴م عدد الأجزاء: ۸․

(۸)         خلفاء راشدین ج۲ ص۴۸۶ موٴلفہ علامہ خالدمحمود،ناشر:دارالمعارف لاہور۔

(۹)          الحدید: ۱۰۔

(۱۰)        عبقات ص۳۸ موٴلفہ حضرت علامہ ڈاکٹرخالدمحمود،ناشر:دارالمعارف لاہور۔

(۱۱)         الجامع الصحیح سنن الترمذی ج۵ ص۶۹۶ حدیث نمبر:۳۸۶۲ الموٴلف: محمد بن عیسی أبو عیسی الترمذی السلمی الناشر: دار إحیاء التراث العربی – بیروت․

                تحقیق:أحمد محمد شاکر وآخرون عدد الأجزاء:5 الأحادیث مذیلة بأحکام الألبانی علیہا․

(۱۲)        معیارصحابیت ص ۲۲۸تا۲۳۷ تالیف ڈاکٹرعلامہ خالدمحمود ڈائریکٹراسلامک اکیڈمی مانچسٹر،ناشر:محمودپبلی کیشنزاسلامک ٹرسٹ شاہدرہ لاہور،۲۰۱۸ء۔

(۱۳)       عینی علی البخاری ج۲ ص ۱۰۵۔

(۱۴)       کتاب التمہید ج۴ ص۲۶۴۔

(۱۵)        الکفایة ص ۴۶۔

(۱۶)        تفسیرابن کثیرج۴ ص۵۵۶۔

(۱۷)       الاعتصام للشاطبی ص۵۴۔

(۱۸)       عبقات ص۲۷ تا۳۰ موٴلفہ حضرت علامہ ڈاکٹرخالدمحمود،ناشر:دارالمعارف لاہور۔

(۱۹)        معیارصحابیت ص۲۱-۲۲،تالیف ڈاکٹرعلامہ خالدمحمود ڈائریکٹراسلامک اکیڈمی مانچسٹر،ناشر:محمودپبلی کیشنزاسلامک ٹرسٹ شاہدرہ لاہور،۲۰۱۸ء۔

(۲۰)       اسدالغابة ج۱ ص۲۔

(۲۱)        عبقات ص۳۳ موٴلفہ حضرت علامہ ڈاکٹرخالدمحمود،ناشر:دارالمعارف لاہور۔

(۲۲)       تجلیات آفتاب ج۱، ص۱۷۶، موٴلفہ علامہ ڈاکٹرخالدمحمودؒ، ناشر:محمودپبلی کیشنزاسلامک ٹرسٹ لاہور،۱۴۳۱ھ مطابق ۲۰۱۰ء۔

(۲۳)      الحجرات:۹-۱۰۔

(۲۴)      عبقات ص۲۷ تا۳۰ موٴلفہ حضرت علامہ ڈاکٹرخالدمحمود،ناشر:دارالمعارف لاہوربحوالہ فتاویٰ ابن تیمیہ،الانصاف لرفع الاختلاف ص ۱۰۔

(۲۵)       الجامع الصحیح المسمی صحیح مسلم ج۳ ص۱۱۳ حدیث نمبر:۶۵۰۸ الموٴلف: أبو الحسین مسلم بن الحجاج بن مسلم القشیری النیسابوری المحقق: الناشر: دار الجیل بیروت+ دار الآفاق الجدیدة بیروت․

(۲۶)       نھج البلاغة ج۳ ص۱۲۶․

(۲۷)      تجلیات آفتاب ج۱ ص۴۴-۴۵، موٴلفہ علامہ ڈاکٹرخالدمحمودؒ، ناشر:محمودپبلی کیشنزاسلامک ٹرسٹ لاہور، ۱۴۳۱ھ مطابق۲۰۱۰ء۔

(۲۸)      تاریخ ابن خلدون ص ۱۷۱۔

(۲۹)       خلفاء راشدین ج۲ ص۵۴۱-۵۴۲، موٴلفہ ڈاکٹرعلامہ خالدمحمودؒ۔

(۳۰)      شرح العقائد ص ۱۱۲۔

(۳۱)       عبقات ص ۵۴موٴلفہ حضرت علامہ ڈاکٹرخالدمحمود،ناشر:دارالمعارف لاہور۔

(۳۲)      الجامع لاحکام القرآن ج۱۶، ص ۳۶۱۔

(۳۳)      غنیة الطالبین ص۱۴۰۔

(۳۴)      الجامع لاحکام القرآن ج۱۶، ص۳۲۲۔

(۳۵)      فتح الباری شرح صحیح البخاری ج۱۳ ص۳۴ الموٴلف:أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی الناشر: دار المعرفة – بیروت،۱۳۷۹ تحقیق: أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی عدد الأجزاء:۱۳․

(۳۶)       سنن البیہقی الکبری ج۸ ص۱۷۴حدیث نمبر:۱۶۴۹۷ الموٴلف: أحمد بن الحسین بن علی بن موسی أبو بکر البیہقی الناشر: مکتبة دار الباز – مکة المکرمة، ۱۴۱۴ھ/۱۹۹۴م․ تحقیق: محمد عبد القادر عطاعدد الأجزاء: ۱۰․

(۳۷)      عبقات ص۴۷۲تا۴۷۵موٴلفہ حضرت علامہ ڈاکٹرخالدمحمود،ناشر:دارالمعارف لاہور۔

(۳۸)      الطبقات الکبری ج۵ ص۳۸۲ الموٴلف: أبو عبد اللّّٰہ محمد بن سعد بن منیع الہاشمی بالولاء، البصری، البغدادی المعروف بابن سعد (المتوفی:۲۳۰ھ) المحقق:إحسان عباس․ الناشر: دار صادر- بیروت، الطبعة:۱-۱۹۶۸م عدد الأجزاء: ۸․

(۳۹)       عبقات ص۴۷۲تا۴۷۵موٴلفہ حضرت علامہ ڈاکٹرخالدمحمود،ناشر:دارالمعارف لاہور۔

(۴۰)      شرح مواقف ج۱ ص ۴۴۵۔

(۴۱)       العقیدة الطحاویة بحوالہ خلفاء راشدین․

(۴۲)      الاستیعاب ج۱ ص۲، ۷۔

(۴۳)      الاستیعاب ج۱ ص ۷۔

(۴۴)      ابن عساکرص۱۶۰-۱۶۱۔

(۴۵)      شرح عقائدنسفی،مرقاة ج۵ ص۵۱۷۔

(۴۶)       الاصابة ج۱ ص۱۱۔

(۴۷)      المسائرة ص۱۳۰۔

(۴۸)      فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت ج۲ ص۱۵۶۔

(۴۹)       خلفاء راشدین ج۲ ص ۴۸۷تا۴۹۷موٴلفہ علامہ خالدمحمود،ناشر:دارالمعارف لاہور۔

(۵۰)       النبراس بحوالہ خلفاء راشدین ج۲ ص ۴۹۱․

(۵۱)        تفسیر القرآن العظیم ج۷ ص۳۶۲، الموٴلف:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی الدمشقی (المتوفی:۷۷۴ھ)المحقق:سامی بن محمد سلامة، الناشر:دار طیبة للنشر والتوزیع الطبعة:الثانیة۱۴۲۰ھ/۹۹۹م، عدد الأجزاء:۸۔

(۵۲)       الاصابة ص ۱۱۔

(۵۳)      خلفاء راشدین ج۲ ص۴۸۷ تا۴۹۷موٴلفہ علامہ خالدمحمود،ناشر:دارالمعارف لاہور۔

(۵۴)      لا یصلین أحد العصر إلا فی بنی قریظة․ فأدرک بعضہم العصر فی الطریق فقال بعضہم لا نصلی حتی نأتیہا وقال بعضہم بل نصلی لم یرد منا ذلک فذکر للنبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم فلم یعنف واحدا منہم (الجامع الصحیح المختصر الموٴلف: محمد بن إسماعیل أبو عبد اللّٰہ البخاری الجعفی الناشر: دار ابن کثیر، الیمامة بیروت الطبعة الثالثة، ۱۴۰۷ھ/۱۹۸۷․ تحقیق: د․ مصطفی دیب البغا أستاذ الحدیث وعلومہ فی کلیة الشریعة -جامعة دمشق عدد الأجزاء:۶ مع الکتاب: تعلیق د․ مصطفی دیب البغا)

(۵۵)       شرح النَّوویِّ علی صحیح مسلم (۱۵/۱۴۸)موٴلف کتاب علامہ خالد محمودنے حافظ ابن کثیرؒ(۶۷۶ھ)لکھاہے؛لیکن غالباً یہ سہوکاتب ہے،مجھے ابن کثیرکی کسی شرح مسلم کاپتہ نہ چل سکا۔

(۵۶)       نہج البلاغة ج۲ ص۹۸۔

(۵۷)      عبقات ص۵۴، موٴلفہ حضرت علامہ ڈاکٹرخالدمحمود،ناشر:دارالمعارف لاہور۔

(۵۸)      تجلیات آفتاب ج۱ ص۱۷۶ موٴلفہ علامہ ڈاکٹرخالدمحمودؒ، ناشر:محمودپبلی کیشنزاسلامک ٹرسٹ لاہور،۱۴۳۱ھ مطابق۲۰۱۰ء۔

(۵۹)       الاصابة ج۲ ص ۵۰۲۔

(۶۰)       شرح عقیدہٴ طحاویہ ص ۴۴۱۔

(۶۱)        عبقات ص۴۷۲ موٴلفہ حضرت علامہ ڈاکٹرخالدمحمود،ناشر:دارالمعارف لاہور۔

(۶۲)       تاریخ طبری ج۳ ص ۲۶۔

(۶۳)       یوسف:۹۲۔

(۶۴)       فتح الباری ج۷ ص ۲۷۹۔

(۶۵)       تجلیات آفتاب ج۱ ص۲۰۰-۲۰۱، موٴلفہ علامہ ڈاکٹرخالدمحمودؒ، ناشر:محمودپبلی کیشنزاسلامک ٹرسٹ لاہور، ۱۴۳۱ھ مطابق۲۰۱۰ء۔

(۶۶)       موطاامام مالک ص ۳۶۳۔

(۶۷)       تاریخ الرسل والملوک ج۱ ص۳، الموٴلف:محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (المتوفی:۳۱۰ھ)

(۶۸)       تاریخ طبری ج۳ ص ۳۹۱۔

(۶۹)        العواصم ص ۲۴۷۔

(۷۰)      العواصم ص ۲۴۵۔

(۷۱)       سیرت النبی ج۱ ص ۲۳۔

(۷۲)      منھاج السنة ج۳ ص ۱۹۶۔

(۷۳)      منھاج السنة ج۳ ص ۲۴۲

(۷۴)      البدایة والنھایة ج۷ ص ۱۴۷․

(۷۵)      سیرت النبی ج۱ ص۴۸-۴۹۔

(۷۶)       خلفاء راشدین ج۲ ص۳۴۰تا۳۴۸،موٴلفہ علامہ ڈاکٹرخالدمحمود۔

(۷۷)      مجمع البحارج۲ ص ۸۳۔

(۷۸)      حاشیة السندی علی سنن ابن ماجہ ج۱ ص۱۰۸ حدیث نمبر:۱۱۸ مصدر الکتاب:موقع الإسلام الموٴلف:محمد بن عبد الہادی السندی (المتوفی:۱۱۳۸ھ)

(۷۹)       معیارصحابیت ص۱۷۴-۱۷۵،تالیف ڈاکٹرعلامہ خالدمحمود ڈائریکٹراسلامک اکیڈمی مانچسٹر،ناشر:محمودپبلی کیشنزاسلامک ٹرسٹ شاہدرہ لاہور،۲۰۱۸ء۔

(۸۰)      تجلیات آفتاب ج۱ ص۲۸۰-۲۸۱،۲۰۱موٴلفہ علامہ ڈاکٹرخالدمحمودؒ، ناشر:محمودپبلی کیشنزاسلامک ٹرسٹ لاہور، ۱۴۳۱ھ مطابق ۲۰۱۰ء۔

(۸۱)       اسدالغابة ج۲ ص۱۵ ،مقاتل الطالبین لابی الفرج ج۲ ص ۵۱۔

(۸۲)      البدایة ولنھایة ج۳ ص۱۵۰، تاریخ ابن عساکرج۴ ص ۳۱۱․

(۸۳)      الاخبارالطوال ص ۲۲۵۔

(۸۴)      منھاج السنة ج۲ ص ۲۲۵۔

(۸۵)      البدایة والنہایة ج۸ ص ۴۳۔

(۸۶)       تاریخ ابن خلدون ج۲ ص۱۲۹۔

(۸۷)      المصنف ابن ابی شیبہ ج۵ ص۳۵۴۔

(۸۸)      عبقات ص۳۹۰-۳۹۱،موٴلفہ حضرت علامہ ڈاکٹرخالدمحمود،ناشر:دارالمعارف لاہور۔

(۸۹)       عبقات ص۳۹۱-۳۹۲، موٴلفہ حضرت علامہ ڈاکٹرخالدمحمود،ناشر:دارالمعارف لاہور۔

(۹۰)       المصنف ج۲ ص ۴۱۴۔

(۹۱)        السنن الکبریٰ للبیہقی ج۲ ص ۲۶․

(۹۲)       عبقات ص۳۹۴ موٴلفہ حضرت علامہ ڈاکٹرخالدمحمود،ناشر:دارالمعارف لاہور۔

(۹۳)       سنن نسائی ج۲ ص ۱۲۵۔

(۹۴)       صحیح مسلم ج۲ ص ۱۲۶۔

(۹۵)       شرح النووی ج۲ ص ۱۲۶۔

(۹۶)        سنن نسائی ج۲ ص ۱۶۵۔

(۹۷)       سنن ابن ماجہ ص ۲۹۳۔

(۹۸)       تھذیب التھذیب ج۳ ص ۴۲۷․

(۹۹)        عبقات ص۴۱۴-۴۱۵، موٴلفہ حضرت علامہ ڈاکٹرخالدمحمود،ناشر:دارالمعارف لاہور۔

———————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :9-8،    جلد:106‏،  محرم الحرام – صفرالمظفر 1444ھ مطابق   اگست-ستمبر 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts