از: مولاناعصمت اللہ نظامی

جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن۔ کراچی

            نبی کریم ﷺ کے تمام صحابہ معزز، محترم اور قابلِ تعظیم ہیں، قرآن پاک اور احادیثِ مبارکہ میں ان کے بے شمار فضائل ومناقب وارد ہوئے ہیں، اسلام کے لیے انھوں نے ایسی ایسی قربانیاں دی ہیں کہ بعد میں آنے والوں کے لیے ان کا تصور کرنا بھی مشکل ہے؛لیکن ان سب باتوں کے باوجود بعض صحابہٴ کرام کے خاص مناقب اور اوصاف تھے جو دوسروں میں نہیں تھے۔ یقینا ان صحابہ کا تذکرہ کرنا اور امت کے سامنے ان کا اوصاف اجاگر کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت اور ہماری ذمہ داری ہے؛ اس لیے ذیل میں ان جلیل القدر صحابہ میں سے ایک ایسے صحابی کا تذکرہ کریں گے جنھیں حضورﷺکے رازدار ہونے کا شرف حاصل ہے اوروہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما ہیں۔

نام ونسب

            ان کا مکمل نام ”حذیفہ بن حسل بن جابر“ ہے، ان کے والد کا اصل نام ”حسل“ تھا؛ لیکن وہ ”یمان“ کے لقب سے مشہور ہوئے۔اس لقب پڑنے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت حذیفہؓ کے والد ”حسل“ انصار کے ایک قبیلہ ”بنو اشہل“کے حلیف بنے اور وہ قبیلہ چونکہ ملکِ یمن میں رہتا تھا، لہٰذا اسی کی طرف نسبت کرتے ہوئے انھیں”یمان“ کا لقب دیا گیا۔(۱)

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے والد کی مسلمان کے ہاتھوں شہادت

            حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے والد اور والدہ دونوں صحابہ میں سے تھے۔ ان کے والد ”یمان“ کی شہادت غزوئہ احد میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہوئی۔ وہ اس طرح کہ حضرت حذیفہ اور ان کے والد دونوں غزوہ احد میں شریک تھے اور مشرکینِ مکہ کے خلاف لڑ رہے تھے اور اس زمانے مین چونکہ خود وغیرہ پہن کر لڑتے تھے؛ اس لیے حضرت حذیفہ کے والد حضرت یمان کو صحابہ پہچان نہ سکے اور ان پر حملہ کردیا،حضرت حذیفہ نے جب یہ دیکھا تو انھیں روکنے لگے؛لیکن تب تک ان کے والد حضرت یمان شہید ہوچکے تھے؛ چنانچہ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ہے:

            فنادی أي عباد اللّٰہ أبي أبي، فقالت: فواللّٰہ ما احتجزوا حتی قتلوہ․(۲)

            حضرت حذیفہ پکارنے لگے کہ اے اللہ کے بندو!یہ میرے والد ہیں، میرے والد ہیں؛ لیکن لوگ نہیں رکے،یہاں تک کہ انھیں شہید کردیا۔

حضرت حذیفہ کی والدہ کی حضورﷺسے محبت

            حضرت حذیفہ کے والد کی طرح ان کی والدہ بھی جلیل القدر صحابیہ تھیں اور آپﷺسے بے انتہاء محبت کرتی تھیں، اپنے بیٹے حضرت حذیفہ کو بھی حضورﷺکی خدمت میں حاضر ہونے کی سختی سے تاکید کرتی تھیں؛چنانچہ ایک مرتبہ حضورﷺنے ان کے لیے دعا کی تھی۔ جیساکہ ایک حدیث میں ہے:

            عن حذیفة، قال: سألتني أمي متی عہدک تعني بالنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقلت ما لي بہ عہد منذ کذا وکذا، فنالت منی ․․․ الحدیث․(۳)

            حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری والدہ نے پوچھاکہ تم رسول اللہﷺکی خدمت میں کتنے دن بعد حاضر ہوتے ہو؟میں نے عرض کیا کہ اتنے دنوں سے میرا وہاں جانا نہیں ہوا، اس پر انھوں نے مجھے سخت ڈانٹا۔۔ الخ

            پھر حضرت حذیفہ حضورﷺکی خدمت میں حاضرہوئے اور سارا ماجرا بتایا، تو آپﷺنے حضرت حذیفہ اور ان کی والدہ دونوں کے لیے دعا کی۔

حضرت حذیفہ اور حضورﷺکا ایفائے عہد

            حضرت حذیفہ اور ان کے والد غزوئہ بدر میں شریک نہیں ہوسکے، اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ دونوں حضرات ہجرت کرکے مدینہ منورہ آرہے تھے کہ راستے میں کفار نے انھیں روک لیااور پوچھا کہ کیا تم محمد(ﷺ)کے پاس جانا چاہتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہم ان کے پاس نہیں؛ بلکہ صرف مدینے میں جانا چاہتے ہیں، تو کفار نے ان سے اللہ کا نام لے کر عہدوپیماں لیا کہ وہ مدینے جائیں اور حضورﷺ کے ساتھ ہوکر نہیں لڑیں گے، پھر جب وہ دونوں رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور پورا واقعہ بیان کیا، توآپﷺنے ان سے فرمایا:

            ”انصرفا، نفي لہم بعہدہم، ونستعین اللّٰہ علیہم“․(۴)

            تم مدینے چلے جاؤ! ہم ان کا عہد پورا کریں گے اور ان کے خلاف اللہ تعالی سے مدد چاہیں گے۔

            اس واقعے سے اسلام میں ایفائے عہد کی اہمیت اورلزوم کا اندازہ ہوتا ہے کہ جنگ کا زمانہ ہے، مسلمانوں کو مجاہدین کی ضرورت بھی ہے اور دوسری طرف حملہ آورکفار سے کیا ہوا عہد ہے؛ لیکن پھر بھی حضورﷺنے ایفائے عہد کا حکم دیا اور دونوں صحابہ کو جنگ میں شریک ہونے سے روک دیا۔

حضرت حذیفہ کو ہجرت اور نصرت کا اختیار دیا گیا

            حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ رسول اللہﷺنے ان کو ہجرت اور نصرت دونوں کااختیار دیا تھا؛ چنانچہ ایک روایت میں کہ حضورﷺنے ان سے فرمایا:

            إن شئت کنت من المہاجرین، وإن شئت کنت من الأنصار؟ فقال: من الأنصار․ قال: فأنت منہم․(۵)

            اگر تم چاہو تو مہاجرین میں سے ہو اور اگر چاہو تو انصار میں سے ہو، اس پر انھوں نے عرض کیا: انصار میں سے ہونا چاہتا ہوں، تو آپﷺنے فرمایاکہ تم انھیں میں سے ہو۔

حضرت حذیفہ اور تعظیمِ رسولﷺ

            حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حضورﷺکی بے انتہاء تعظیم اور احترام کرتے تھے؛ چنانچہ ایک مرتبہ حالتِ جنابت میں صبح سویرے کہیں جارہے تھے کہ سامنے سے حضورﷺکو تشریف لاتے دیکھا تو ایک طرف کھسک گئے اور پھر غسل وغیرہ کرکے آپﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ان سے اس بارے میں استفسار کیاتو انھوں نے بتایا کہ وہ حالتِ جنابت میں تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس حالت میں حضورﷺکو چھوئیں، اس پر حضورﷺنے فرمایا:

            إن المسلم لا ینجس․(۶)

            مسلمان ناپاک نہیں ہوتا۔

            حضرت حذیفہ کا جنابت کی حالت میں حضورﷺکا جسم چھونے سے گریز کرنا ان کے دل میں آپﷺکی بے انتہاء عظمت واحترام کی دلیل ہے۔

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے مناقب

            حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے بہت سے خصائص ومناقب احادیث میں وارد ہوئے ہیں، جن میں سے بعض کچھ وضاحت کے ساتھ ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں۔

حضورﷺسے شراور فتنوں کے بارے میں سوالات

            صحابہٴ کرام عام طور پر حضورﷺسے خیر، بھلائی اور نیکی سے متعلق دریافت کیا کرتے تھے؛ لیکن حضرت حذیفہ ان کے برعکس شرّ اور فتنوں وغیرہ سے متعلق سولات کیا کرتے تھے؛ تاکہ ان سے بچا جاسکے(۷)، اس لیے فتنوں، علاماتِ قیامت اور منافقین کے احوال سے متعلق احادیث کا اچھا خاصا ذخیرہ ان سے منقول ہے۔

حضرت حذیفہ کا اپنے جذبات سے مغلوب نہ ہونا

            حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ انھیں اپنے جذبات پر مکمل قابو اور کنٹرول تھا، کیسے بھی تکلیف دہ حالات ہوں؛ لیکن حضرت حذیفہ کبھی اپنے جوش وجذبے کے ہاتھوں مغلوب نہیں ہوئے،جیساکہ درج ذیل دو واقعات سے یہ بات واضح ہوتی ہے۔

            ۱- ان کے والد یمان کو ان کے سامنے شہید کیا گیا؛ لیکن ان کے منہ سے صرف اتنا نکلا:

            ”یغفر اللّٰہ لکم“․(۸)

            اللہ تعالی تمہیں بخشے۔

            حالانکہ ان کو اپنے والد سے بہت محبت تھی؛ چنانچہ حضرت عروہ بن زبیر فرماتے ہیں:

            ”فواللّٰہ ما زالت في حذیفة بقیة خیر، حتی لحق باللّٰہ عز وجل“․(۹)

            اللہ کی قسم!حضرت حذیفہ کو (اپنے والد کے اس طرح شہید ہونے پر) ہمیشہ غم رہا، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالی سے جاملے۔

            ۲- حضورﷺنے حضرت حذیفہ کو غزوئہ خندق کے موقعے پر مشرکینِ مکہ کے لشکر کی طرف جاسوس بنا کر بھیجا اور ان سے فرمایا:

                                                ”اذہب فأتني بخبر القوم، ولا تذعرہم علي“․(۱۰)

            جاکر ان کی خبر لے آؤ؛ لیکن انھیں مت اکسانا، یعنی کوئی حرکت نہ کرنا۔

            حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ میں مشرکینِ مکہ کے لشکر میں گیا، تو وہاں ابو سفیان سامنے بیٹھا تھا، میں نے ترکش سے تیز نکال کر اس کو مارنا چاہا؛ لیکن مجھے حضورﷺکا فرمان یاد آگیا؛ اس لیے میں کچھ کیے بغیر واپس آگیا، اگر میں اس کو تیر مارتا تو یقینا اس کو لگتا۔

حضرت حذیفہ کو حضورﷺکا رازدار ہونے کا شرف

            حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ میں وہ تمام صفات موجود تھیں جوکسی کو رازدار بنانے کے لیے ضروری ہوتی ہیں اور ان میں بالخصوص اپنے جوش وجذبات پر کنٹرول اور قابو رکھنا ہے؛ چنانچہ انھیں خدادا صلاحیتوں کی بنا پر حضورﷺنے انھیں اپنے رازدار بنانے کا شرف بخشا اور فتنوں سے متعلق اور منافقین کے ناموں اور ان کے احوال سے متعلق پوری تفصیل سے حضرت حذیفہ کو آگاہ کیا۔(۱۱)

انتقال پُر ملال

            حضورﷺکے اس رازدار صحابی کا انتقال محرم الحرام، سن۳۶ھ کوشہر مدائن میں ہوا۔(۱۲)

#         #         #

حواشی

(۱)                          الاستیعاب فی معرفة الأصحاب لابن عبد البر،(۱/۳۳۴)، رقم الترجمة: ۴۹۲، الناشر: دار الجیل-بیروت، ط:۱۴۱۲ھ – ۱۹۹۲م․

(۲)                          صحیح البخاری، کتاب مناقب الأنصار، باب ذکر حذیفة بن الیمان العبسی رضی اللہ عنہ، (۵/۳۹)، رقم الحدیث: ۳۸۲۴، الناشر: دار طوق النجاة، ط: ۱۴۲۲ھ․

(۳)                          سنن الترمذی، أبواب المناقب، باب مناقب أبی محمد الحسن بن علی بن أبی طالب والحسین بن علی، (۶/۱۲۷)، رقم الحدیث: ۳۷۸۱، الناشر: دار الغرب الإسلامی بیروت، ط:۱۹۹۸م․

(۴)                          صحیح مسلم، کتاب الجہاد، باب الوفاء بالعہد،(۳/۱۴۱۴)، رقم الترجمة؛ ۱۷۸۷، الناشر:دار إحیاء التراث العربی- بیروت․

(۵)                          المعارف لابن قتیبة الدینوری، (۱/۲۶۳)، الناشر: الہنئة المصریة العامة للکتب القاہرة، ط: ۱۹۹۹۲م والاستیعاب لابن عبد البر، (۱/۳۳۵)․

(۶)                          سنن النسائی، کتاب الطہارة، باب مماسة الجنب ومجالستہ، (۱/۱۴۵)، رقم الحدیث: ۲۶۷، الناشر: مکتب المطبوعات الإسلامیة حلب، ط: ۱۴۰۶ھ/۱۹۸۶م․

(۷)                          صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوة فی الإسلام، (۴/۱۹۹)، رقم الترجمة: ۳۶۰۶․

(۸)                          صحیح البخاری، کتاب مناقب الأنصار، باب ذکر حذیفة بن الیمان العبسی رضی اللّٰہ عنہ، (۵/۳۹)، رقم الحدیث: ۳۸۲۴․

(۹)                          المصدر السابق․

(۱۰)                صحیح مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب غزوة الأحزاب، (۳/۱۴۱۴)، رقم الترجمة: ۱۷۸۸․

(۱۱)                أسد الغابة لابن الأثیر الجزری، (۱/۷۰۶)، رقم الترجمة: ۱۱۱۳، الناشر: دار الکتب العلمیة بیروت، ط: ۱۴۱۵ہ /۱۹۹۴م․

(۱۲)                الاستیعاب فی معرفة الأصحاب لابن عبد البر، (۱/۳۳۴)، رقم الترجمة: ۴۹۲․

———————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :9-8،    جلد:106‏،  محرم الحرام – صفرالمظفر 1444ھ مطابق   اگست-ستمبر 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts