سوال: ایک مخنث جس کی کمائی ناچ گانے سے ہوتی ہے اور وہ قربانی کے بڑے جانور میں حصہ لیتا ہے توکیا اس مخنث کے شریک ہونے سے قربانی درست ہوجائے گی نیز اگر مخنث کسی غیر مسلم سے قرض لے کر قربانی کے جانور میں شریک ہوجائے تو کیا اس صورت میں قربانی سب کی درست ہوجائے گی یا نہیں؟

عمر الخضعی دہلی

            بسم اللہ الرحمن الرحیم، حامدًا ومصلیًا ومسلمًا، الجواب وباللّٰہ التوفیق والعصمة: اگر یہ شخص کسی سے(خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم)قرض لے کر قربانی میں شریک ہوجائے تب تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، سب کی قربانی بلاشبہ درست ہوجائے گی۔ اگر قرض کا پیسہ نہ ہو؛ بلکہ ناچ گانے ہی سے حاصل شدہ رقم ہو تو اس کے ذریعے قربانی کرنا شرعا جائز نہیں، یہ کسب خبیث ہے اور عبادات میں پاکیزہ مال صرف کرنا چاہیے؛ ہاں اگر پھر بھی وہ اسی رقم سے قربانی میں شریک ہوجائے تو اس کا فریضہ ادا ہوجائے گا گو عند اللہ مقبول نہ ہو نیز مابقیہ شرکا کی قربانی بھی درست ہوجائے گی۔ فقہائے کرام کی عباراتوں سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔

            وقد یتصف بالحرمة کالحج بمال حرام ․․․․․․ (قولہ کالحج بمال حرام) کذا فی البحر والأولی التمثیل بالحج ریاء وسمعة، فقد یقال إن الحج نفسہ الذی ہو زیارة مکان مخصوص إلخ لیس حراما بل الحرام ہو إنفاق المال الحرام، ولا تلازم بینہما، کما أن الصلاة فی الأرض المغصوبة تقع فرضا، وإنما الحرام شغل المکان المغصوب لا من حیث کون الفعل صلاة لأن الفرض لا یمکن اتصافہ بالحرمة، وہنا کذلک فإن الحج فی نفسہ مأمور بہ، وإنما یحرم من حیث الإنفاق، وکأنہ أطلق علیہ الحرمة لأن للمال دخلا فیہ، فإن الحج عبادة مرکبة من عمل البدن والمال کما قدمناہ، ولذا قال فی البحر ویجتہد فی تحصیل نفقة حلال، فإنہ لا یقبل بالنفقة الحرام کما ورد فی الحدیث، مع أنہ یسقط الفرض عنہ معہا ولا تنافی بین سقوطہ، وعدم قبولہ فلا یثاب لعدم القبول، ولایعاقب عقاب تارک الحج․ اہ․ (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) ۳/۴۵۳، مطلب فیمن حج بمال حرام، ط: زکریا، دیوبند)

                                                ․․․․ لوأخرج زکاة المال الحلال من مال حرام ذکر فی الوہبانیة أنہ یجزء عند البعض، ونقل القولین فی القنیة․ وقال فی البزازیة: ولو نوی فی المال الخبیث الذی وجبت صدقتہ أن یقع عن الزکاة وقع عنہا اہ أی نوی فی الذی وجب التصدق بہ لجہل أربابہ، وفیہ تقیید لقول الظہیریة: رجل دفع إلی فقیر من المال الحرام شیئا یرجو بہ الثواب یکفر، ولو علم الفقیر بذلک فدعا لہ وأمن المعطی کفرا جمیعا․(الدرالمختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) ۳/۲۱۹، ط: مطلب فی التصدق من المال الحرام، ط: زکریا، دیوبند)

الجواب صحیح: زین الاسلام قاسمی، فخرالاسلام مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبندفقط واللہ تعالیٰ أعلم محمداسداللہ غفرلہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۲۵/۵/۱۴۴۱ھ

=======================

            سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلے کے بارے میں:

            (۱) کسی نے ایک جانور قربانی کے لیے خریدا، تو کیا اسی جانور کے اندر اپنی بچی یا بچے کا عقیقہ کرسکتا ہے کہ نہیں؟

            (۲) کسی نے قربانی کے لیے ایک جانور خریدا، تو کیا اسی جانور کے اندر اپنی بچی یا بچے کے نام پر قربانی دے سکتا ہے کہ نہیں؟

            شریعت کی رُو سے جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں!

العارض: محمد ثناء اللہ احمد

            بسم اللہ الرحمن الرحیم ، حامدًا ومصلیًا ومسلّما، الجواب وباللّٰہ التوفیق والعصمة:

            (۱) اگر بڑا جانورخریدتے وقت ہی یہ نیت تھی کہ اس میں بعض حصے قربانی کے اور بعض عقیقے کے ہوں گے یا خریدتے وقت تو نیت نہ تھی؛ لیکن یہ آدمی صاحب نصاب اور غنی ہے تو سوال کی دونوں صورتوں میں قربانی اور عقیقہ دونوں کے حصے جانور میں شامل کرنا شرعاً جائز ہے؛ البتہ اگر کسی غیرصاحب نصاب (جس پر شرعاً قربانی واجب نہیں ہے) نے قربانی کے مقصد سے امام ایام اضحیہ میں جانور خریدا تو اس کے لیے بعد میں اس میں عقیقے کی نیت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ وقدمنا فی باب الہدي عن فتح القدیر معزوًّا الی الأصل والمبسوط: اذا اشتری بدنة لمتعة مثلاً ثم أشرک فیہا ستة بعدما أوجبہا لنفسہ  خاصّة لا یسعہ؛ لأنہ لما أوجب بہا صار الکل واجبًا بعضہا بایجاب الشرع وبعضہا بایجابہ․․․ وان نوی أن یشرک فیہا ستة أجزأتہ؛ لأنّہ ما أوجب الکل علی نفسہ  فالشراء الخ (درمختار مع الشامی ۹/۴۵۹، ط: زکریا)

            (۲) اگر خریدتے وقت ہی یہی نیت تھی یا یہ شخص صاحب نصاب ہے تب تو اس طرح کا اشتراک جائز ہے، اگر یہ شخص غیرصاحب نصاب ہے اورمحض قربانی کی نیت سے ایام اضحیہ میں جانور خریدا ہے تو پھر بعد میں اس میں اپنے بچوں یا کسی اور کی طرف سے قربانی کے حصے شامل کرنا شرعاً جائزنہیں۔(حوالہ بالا)

الجواب صحیح: زین الاسلام قاسمی، محمدنعمان سیتاپوری غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبندفقط واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب محمداسداللہ غفرلہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۴/۱۲/۱۴۳۹ھ

=======================

            سوال: میرا فرض حج ادا ہو چکا ہے ۔ اب میں اپنے مرحوم والد کا حج بدل کرنا چاہتا ہوں۔ ان کی کوئی وصیت نہیں تھی۔ اس سلسلہ میں آپ سے معلومات چاہتا ہوں۔

            (۱) کیا میں حج تمتع کرسکتا ہوں؟

            (۲) اپنے وطن سے عمرہ کے لیے جو احرام پہنا جائے گا وہ عمرہ اور احرام کس کے نام کا ہو گا، میرا خود کا یا والد کے نام کا؟ نیت کیا کرنی ہوگی؟

            (۳)حج کی قربانی کس کے نام کی ہوگی؟ اگر والد کے نام کی کرنا ہے تو کیا میرے نام کی بھی قربانی کرنا ہوگی؟

            (۴) رمی جمرات، طواف زیارت، سعی وغیرہ کس نام کی کرنا ہوگی؟

اقبال مومن، انڈیا

            بسم اللہ الرحمن الرحیم، حامدًا ومصلیًا ومسلّما، الجواب وباللّٰہ التوفیق والعصمة:

            (۱) تمتع بھی کرسکتے ہیں؛ لیکن بہتر ہے کہ آپ ”حج افراد“ کریں۔

            (۲،۳،۴) عمرہ اور اس کے بعد حج دونوں کا احرام والد صاحب مرحوم کے نام سے ہوگا، بس اتنی نیت کافی ہے کہ میں والد مرحوم کی طرف سے حج کررہا ہوں، احرام باندھنے کے بعد حج یا عمرہ کے ہر ہر فعل یا رکن پر مستقل نیت کی ضرورت نہیں؛ اس لیے والد مرحوم کی طرف سے احرام باندھنے کے بعد حج و عمرہ کے بقیہ افعال اسی طرح ادا کریں جس طرح ایک عام حج یا عمرہ کرنے والا ادا کرتا ہے، سب افعال:سعی، رمی جمرات، طواف وغیرہ اسی شخص کی طرف سے ادا ہوں گے جس کی طرف سے احرام باندھا گیا، صرف قربانی یعنی دم تمتع آپ کی طرف سے ہوگی کیوں کہ حجِ بدل کرنے والا اگر تمتع کرتا ہے تو قربانی (دمِ تمتع) حج کرنے والے کی طرف سے ہوتی ہے۔ ودم القران والتمتع والجنایة علی الحاج إن أذِن لہ الأمر بالقران والتمتع (در مختار مع الشامی: ۴/۳۲، ط: زکریا) والنظر: التاتارخانیة (۳/۶۵۱، ط: زکریا)․ فقط

الجواب صحیح: محمود حسن بلندشہری غفرلہ، محمدنعمان سیتاپوری غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبندواللہ تعالٰی أعلم بالصواب محمداسداللہ غفرلہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۲۰/۱۰/۱۴۳۷ھ

=======================

            سوال: اگر ایک بندے پر 300000روپے قرض ہو، تواس پر قربانی واجب ہے یا نہیں؟ اگر قربانی کرلے تو واجب قربانی ادا ہوگی یا نفلی یا مستحب؟

            بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم، حامدًا ومصلیًا ومسلّما، الجواب وباللّٰہ التوفیق والعصمة: قرض منہا کرنے کے بعد، اگر اس شخص کی ملکیت میں حوائج اصلیہ سے زائد قدر نصاب (۶۱۲ گرام ۳۶۰ ملی گرام چاندی یا اس کی مالیت کے برابر دیگر اسباب اور روپیہ پیسہ وغیرہ) ہو تو شرعاً اس پر قربانی واجب ہے ورنہ نہیں ہے۔ واضح رہے کہ اگر یہ قرض طویل المیعادی ہو، قسطوں پر ادا کرنا مشروط ہو، نیز کسی تجارتی مقصد سے لیا گیا ہو تو صرف ایک سال کی قسط منہا کی جائے، پورا قرض منہا نہیں کیا جائے گا۔ (دیکھیں:درمختار مع ردالمحتار،کتاب الاضحیة ۹/۴۵۳، مطبوعہ:مکتبہ زکریا، دیوبند)۔

الجواب صحیح: زین الاسلام قاسمی، فخرالاسلام مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبندفقط واللہ تعالٰی أعلم بالصواب محمداسداللہ غفرلہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۱۹/۱۱/۱۴۴۲ھ

=======================

————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 7،  جلد:106‏،  ذی الحجہ 1443ھ مطابق جولائی  2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts