رسالۂ ابن عابدین ’’الأیمان مبنیّۃ علی الألفاظ لا علی الأغراض‘‘ کا خلاصہ

تلخیص و ترجمانی: مولوی عبداللہ مظفرنگری

متعلّم: تخصص فی الافتاء دارالعلوم دیوبند

            حضرت علامہ شامیؒ كا یہ رسالہ ’’الأيمان مبنية علی الألفاظ لا علی الأغراض‘‘ درحقیقت فقہاء  كے دواصول  ’’الأيمان مبنية علی الألفاظ لا علی الأغراض‘‘ اور  ’’الأيمان مبنية علی العرف‘‘ كے مابین جو بظاہر تعارض ہے اس كا شاندار حل ہے اس سلسلے میں علامہ شامیؒ نے سب سے پہلے  ’’الاشباہ والنظائر‘‘ كے حوالہ سے یہ قاعدہ ذكر كیا، اور اس قاعدہ كی توضیح كے لیے صاحب اشباہ نے جو   تین  مثالیں پیش كی ہیں ان كو ذكر كركے تعارض كو واضح كیا، چناں چہ ہم حسب بیان مصنف پہلے تینوں امثلہ ذكر كریں گے، پھر تعارض واضح كركے رفع تعارض كریں گے۔

            پہلی مثال: كسی انسان نے كسی سے غصہ میں اگر یہ قسم كھالی كہ وہ اس كے لیے فلوس میں كوئی چیز نہیں خرید ے گا ، پھر وہ اس كے لیے سودرہم میں كوئی چیز خریدتا ہے تو وہ حانث نہیں ہوگا،اس مثال سے یہ واضح ہوگیا كہ ایمان كا مدار الفاظ پر ہے، اغراض پر نہیں، اس لیے كہ اگر غرض  پر مدار ہوتا تو مائة درہم میں خریدنے كی صورت میں بھی حانث ہوجانا چاہیے، لیكن حانث نہیں ہورہا ہے اس لیے كہ الفاظ فلوس استعمال كیا ہے، اور مائة درہم عرض ہے، اور یمین كا مدار  الفاظ پر  ہے لہٰذا سودرہم میں خریدنے كی وجہ سے حانث نہیں ہوگا۔

            دوسری مثال: حالف بائع نے قسم كھائی  ’’لايبيعہ لعشرة‘‘ تو گیارہ میں یا نو میں فروخت كرنے كی صورت میں حانث نہیں ہوگا۔

            تیسری مثال: مشتری نے قسم كھائی: ’’لا يشتريہ بعشرة‘‘تو گیارہ میں خریدنے كی وجہ سے حانث ہوجائے گا۔

            صاحب اشباہ كہتے ہیں كہ مسئلہ پر مفصل كلام تلخیص الجامع الكبیر اور اس كی شرح میں ہے۔

            علامہ شامیؒ فرماتے ہیں كہ  ’’الأيمان مبنية علی الألفاظ لا علی الأغراض‘‘ كا ضابطہ دووجہوں سے قابل اشكال ہے۔

            پہلی وجہ: یہ ہے كہ ضابطہ اور اس كی بعض تعریفات اب ایك دوسرے ضابطہ  ’’الأيمان مبنية علی العرف‘‘ كے مخالف  ہے۔

            دوسری وجہ : یہ ہے كہ تیسری مثال اصل  ’’الأيمان مبنية علی العرف‘‘ كے موافق ہے صاحب اشباہ نے اسی ضابطہ كو سمجھانے كے لیے یہ  مثال دی ہے مگر صاحب اشباہ نے مسئلہ كی مكمل تقریر تلخیص الجامع الكبیر اور اس كی شرح كے محول كردی ہے۔

            اب علامہ شامیؒ نے قاری كے سامنے تلخیص الجامع الكبیر  اور اس كی شرح كی مكمل عبارت پیش كردی ہے، تاكہ قاری عبارت پڑھ كر فیصلہ كرلے پھر مزید تنبیہ كے عنوان سے تلخیص اوراس كی شرح كی وضاحت بھی ذكر كی ہے لیكن اس سے پہلے مسئلہ كی اہمیت ونزاكت كو سمجھانے كے لیے دووواقعے بھی پیش كئے ہیں۔

            پہلا واقعہ: امام جمال الدین حصیری نے اپنی كتاب ’’التحرير شرح الجامع الكبير‘‘ كے باب الیمین فی المساومة میں فرمایا اور اسی  واقعہ  كو تحفة الحریص میں  بھی  علامہ فارسی نے ذكر كیا ہے، كہ قاضی جلیل سجزی نے اپنے شاگرد وں سے فرمایا كہ آئو الجامع الكبیر كے مسائل كا مذاكرہ  كرتے ہیں، تو شاگردوں نے اس باب  كے مسائل قاضی صاحب سے معلوم كیے توانھوں نے فرمایا كہ اس سے آسان  مسائل لائو،اس باب كے مسائل مشكل ہیں۔

            دوسرا واقعہ: علامہ شاشی ؒ جو امام كرخی كے تلمیذ رشید ہیں وہ فرماتے ہیں كہ ہم نے امام كرخی سے كتاب الجامع پڑھی، جب ہم اس باب پر پہنچے تو امام كرخی نے باب كے مسائل كی تخریج كے لیے ایك نكتہ بیان كیا تو  میں نے  باب كے دوسرے مسئلہ سے اس نكتہ كو توڑدیا ،پھر انھوں نے دوسرا نكتہ بیان كیا تو میں نے تیسرے مسئلہ سے وہ نكتہ توڑدیا، پھر انھوں نے تیسرا نكتہ بیان كیا،پھر میں نے باب كے چوتھے مسئلہ سے وہ نكتہ توڑدیا حتی كہ اس روز امام كرخی سبق موقوف كركے چلے گئے، اس سے اندازہ لگایا جاسكتا ہے كہ اس باب كے مسائل كس قدر دشوار ہیں۔

            اب ہم تلخیص الجامع الكبیر اوراس كی شرح كی مكمل تبیین وتشریح علامہ شامیؒ كے بیان كی  روشنی میں ذكر كررہے ہیں، چناں چہ علامہ شامیؒ فرماتے ہیں كہ اقدام علی الیمین  میں  حالف كی ایك غرض ہوتی ہے، اور ایك فعل مسمی ہوتا ہے،اب اس كی تین صورتیں ہیں:

            (۱) غرض  كبھی نفس فعل مسمی ہوتی ہے ، مثلاًحالف كا قول  ’’لاأدخل هذه الدار‘‘ اس مثال میں فعل محلوف علیہ عدم دخول دار ہے، اور یہی حالف كی غرض ہے اسی طرح حالف كا قول  ’’لأدخلن هذه الدار‘‘ میں فعل محلوف علیہ دخول دار ہے، اور یہی حالف كی غرض ہے۔

            (۲) غرض كبھی فعل مسمی كے ساتھ ایك زائد چیز ہوتی ہے، مثلاً حالف مشتری كا قول  ’’لاأشتريه بعشرة‘‘ اس مثال میں فعل محلوف علیہ عدم الشراء بعشرة ہے، اور غرض فعل مسمی كے ساتھ ساتھ ایك زائد چیز ہے، یعنی  ’’عدم الشراء بعشرة وبما فوقها‘‘ اس لیے كہ مشتری كی غرض دس سے كم میں خریدنا ہے، اسی طرح حالف بائع كا قول  ’’لا أبيعه بعشرة‘‘ اس مثال میں فعل محلوف علیہ عدم البیع  بعشرة،  ہے، اور حالف كی غرض  عدم البیع بعشرة وبما دونها، ہے،اس لیے كہ بائع زیادہ میں بیع كرنے كا خواہاں ہے۔

            (۳) غرض كبھی فعل مسمیٰ سے خارجی شئ ہوتی ہے،اور مسمی بالكل مراد نہیں ہوتا ہے، مثلاً  حالف كا قول  ’’لا أضع قدمي في دارفلانٍ‘‘ اس مثال میں فعل محلوف علیہ عدم وضع قدم ہے اورغرض مطلقاًدخول سے ركنا ہے، اور یہاں مسمی بالكل مراد نہیںہے۔ چناں چہ اگر وضع قدم پایاجائے لیكن دخول نہ ہوتو حنث كا تحقق  نہیں ہوگا، معلوم ہوا كہ غرض فعل مسمی سے خارجی امر ہے، اور مسمی مراد نہیں ہے اسی لیے  حنث كا تحقق نہیں ہورہاہے۔

            مذكورہ تینوں صورتوں كے بعد اب یہ قاعدہ  مستحضر كیجئے كہ ’’بر‘‘ (قسم كو پورا كرنا) حنث (قسم كو پورا نہ كرنا) كی نقیض ہے،  اور بركے لیے حصول غرض شرط ہے، اورحنث   كے لیے فوت غرض شرط ہے،اب اس قاعدہ كے تحت چار صورتیں نكلتی ہیں:

            پہلی صورت:  یہ ہے كہ حقیقتاً  فعل پایا جائے اور غرض نہ پائی جائے ۔

            دوسری صورت یہ ہے كہ  صورة فعل پایاجائے، اور غرض بھی  پائی جائے۔

            تیسری صورت یہ ہے كہ صرف غرض پائی جائے، فعل نہ پایا جائے۔

            چوتھی صورت یہ ہے كہ نہ غرض پائی جائے ،فعل نہ پایا جائے۔

            یادرہے كہ حنث كا  تحقق صرف پہلی صورت میں ہوگا، آخری تینوں صورتوں میں نہیں ہوگا۔

            پہلی صورت كی مثال:حالف  مشتری كا قول ’’لايشتريه بعشرة‘‘ اس مثال میں فعل محلوف علیہ عدم الشراء  بعشرة   ہے، اور مشتری كی غرض نقص الثمن عن العشرة، ہے لہٰذا اگر حالف  مشتری نے گیارہ  میں  خرید لیا تو گویا كہ اس نے دس میں خریدا  زیادتی كے ساتھ  لہٰذا یہاں فعل محلوف علیہ پایا گیا،اور غرض  ’’نقص الثمن عن العشرة‘‘ نہیں پائی گئی، اور یہی  حنث كی شرط  تھی كہ حقیقتاً فعل  پایا جائے اور غرض نہ پائی جائے  اور حالف مشتری گیارہ میں خریدنے كی صورت میں حانث  ہوجائے گا۔

          ایك   اشكال اور اس كا جواب:

            یہاں پر ایك قوی اشكال یہ ہوتا ہے كہ شر اء بعشرة كے حقیقی معنی ہیں،  ’’عقد الشراء بعشرة‘‘ اور مشتری كا گیارہ میں عقد  ’’عقد الشراء بعشرة‘‘ نہ ہوا لہٰذا فعل محلوف علیہ نہ پایاگیا تو حنث نہیں ہونا چاہیے؟

            اس كا جواب یہ ہے كہ شراء بعشرة كے ایك  حقیقی  معنی ہیں  ’’عقد الشراء بعشرة‘‘ اور ایك مجازی معنی ہیں،  ’’التزام العشرة‘‘ اور یہاں پر قرینۂ حالیہ سے مشتری كی مراد معنی مجازی ہیں، اس لیے كہ اس نے اپنے الفاظ حلف میں ایك متعینہ ثمن عشرہ كا التزام كیا ہےاور عشرہ كا اطلاق عشرہٴ مفردہ اور عشرہٴ مقرونہ با لزیادہ دونوں پر ہوتا ہے، اور چوں كہ مشتری كی غرض ثمن كو عشرہ سے كم كرنا اور عشرہ كا التزام نہ كرنا ہے، تو معلوم ہوا كہ مشتری كی مراد عشرہ سے عشرہ مطلقہ ہے، جو عشرہ مفردہ اور عشرہ مقرونہ بالزیادہ دونوں كو شامل ہے، اور اگر عشرہ مفردہ میں خریدا تب تو اس میں كوئی كلام ہی نہیں ہے كہ فعل  پایاگیا ہے اورغرض  فوت ہوگئی  ہے لہٰذا حانث  ہوجائے گا۔

            اور اگر عشرہ مقرونہ بالزیادہ میں خریدا تو عشرہ كے  التزام  كے ساتھ زیادتی پائی گئی اور قاعدہ ہے كہ جب حنث كی شرط پائی جائے اور اس كے ساتھ زیادتی بھی  پائی جائے تو وہ حنث كے لیے مانع نہیں ہوگی بلكہ وہ حانث  ہوجائے گا مثال كے طور پر كوئی شخص قسم كھائے  ’’لايدخل هذا الدار‘‘ پھر وہ اس دار میں داخل ہوگیا اور ایك دوسرے دار میںداخل ہوگیا تو وہ حانث ہوجائے گااگرچہ حنث كی شرط پر بڑھ گیا، معلوم ہوا كہ زیادت علی شرط الحنث  مانع نہیں بنے گی۔

            دوسری صورت كی مثال: حالف بائع  كی حلف  ’’لا بيعه بعشرة‘‘ پھر وہ گیارہ میں فروخت كردے تو حانث نہیں ہوگا، اس لیے كہ صورة فعل محلوف علیہ پایاگیا اس لیے كہ گیارہ میں فروخت كرنے كے ضمن میں بیع بعشرة كا بھی تحقق  ہوگیا اور غرض بھی پائی گئی اس لیے كہ بائع حالف كی غرض دس  پر اضافہ كركے فروخت كرنا تھا اوراس نے گیارہ میں فروخت كیا،تو غرض كا وجود ہوگیا، لہٰذا حانث نہیں ہوگا،اس لیے كہ دوسری صورت  بیان كی گئی تھی كہ جس میں صورة فعل پایا جائے اور غرض بھی پائی جائے تو عدم حنث كا تحقق ہوجائے گا ، علاوہ ازیں یہاں حقیقتاً فعل نہیں پایاگیا اس لیے كہ بائع كے قول  ’’لا يبيعه بعشرة‘‘ میں عشرہ سے مراد عشرہٴ مفردہ ہے، جہاں تك عشرہٴ مقرونہ بالزیادہ كی بات ہے تو یہ تو اس كی غرض ہے، لہٰذا جب گیارہ میں فروخت كردیا تو اس كی غرض پائی گئی اور فعل محلوف علیہ حقیقتاً نہیں  پایاگیا  بلكہ گیارہ كے ضمن میں صورة پایاگیا ہے،  نیز وجود غرض حقیقتاً  فعل كے ساتھ جمع نہیں ہوسكتے، اس لیے كہ وجود غرض بر كی شرط  ہے اور حقیقتاً فعل حنث كی شرط ہے،اور بر حنث  كی نقیض ہے ، لہٰذا  یہاں پر وجوہ غرض كے ساتھ لامحالہ صورة فعل ماننا پڑےگا۔

            تیسری صورت كی مثال: حالف مشتری كی حلف  ’’لايشتريه بعشرة‘‘ پھر نو میں خریدلے  تو اس صورت میں حانث نہیں  ہوگا، اس لیے كہ فعل محلوف علیہ عدم الشراء بعشرة بالكل نہیں پایاگیا، بلكہ یہاں پر صرف غرض پائی جارہی ہے اس لیے كہ حالف مشتری  اس سے كم میں خریدنے كا  خواہاں ہیں، لہٰذا جب نو میں خریدلیا تو اس كی غرض پائی گئی اوریہی تیسری صورت تھی كہ صرف غرض پائی جائے  اور فعل محلوف علیہ بالكل نہ پایا جائے  توحانث نہیں ہوگا۔

            چوتھی صورت كی مثال: حالف بائع كی حلف  ’’لايبيعه بعشرة‘‘ پھر نو میں فروخت كردیاتو حانث نہیں ہوگا، اس لیے كہ اس مثال میں نہ تو فعل محلوف علیہ  ’’عدم البيع بعشرة‘‘ پایاگیا ہے، اورنہ  غرض  ’’البيع بعشرة وبما فوقها ‘‘ پائی گئی ہے، توجب فعل محلوف علیہ نہیں پایاگیا، تو حنث كامل كی شرط كا تحقق   نہیں ہوا، اگر چہ غرض نہ پائی جاتی اس لیے كہ فوت غرض موجب حنث نہیں ہے، جب تك كہ فعل كا تحقق نہ ہو، اس لیے كہ حنث كی شرط اس فعل كا پایا جانا ہے جو مفوّت للغرض ہو، اوریہاں پر دونوں ہی نہیں پائے جارہے ہیں لہٰذا وہ حانث نہیں ہوگا۔

            صورة ہذا كی  مزید امثلہ : حالف نے قسم كھائی ’’لايخرج من الباب‘‘ پھر وہ چھت سے نكلا توحانث نہیں ہوگا، اس لیے كہ اس میں فعل اور غرض دونوں ہی نہیں پائے گئے، اس لیے كہ لايخرج في الباب كی غرض قرار فی الدار ہے، لہٰذا جب وہ چھت سے نكلا تو غرض فوت ہوگئی، اور فعل خروج من الباب بھی نہیں پایاگیا، لہٰذا وہ حانث نہیں ہوگا۔

            ایسے ہی مشتری كی حلف  ’’لا أشتريه بعشرة‘‘ پھر  نو درہم میں اور ایك دینار میں خرید لیا توحانث نہیں ہوگا،اس لیے كہ مشتری كی غرض اگر چہ ثمنیت كےاعتبار سے شراء بعشرةٍ وبما فوقها، سے اپنے آپ كو روكنا تھا لیكن اس فعل  ’’شراء بعشرة‘‘ كا وجود نہ حقیقتاً ہوا ہے اور نہ مجازا اور جب فعل فوت ہوجائے تو حنث كامل كی  شرط كا تحقق نہیں ہوتا ہے  لہٰذا حانث نہیں ہوگا۔

            اسی طرح بائع كی قسم  ’’لا أبيعه بعشرة‘‘ پھر نو درہم اور ایك دینار میں فروخت كردیاتو بھی حانث نہیں ہوگا،اس لیے كہ فعل محلوف علیہ عدم البيع بعشرة نہ حقیقتاً  پایاگیا اور نہ مجازا ، لیكن غرض پائی گئی ہے،اس لیے كہ بائع كی غرض تعداد یا ثمنیت كے اعتبار سے دس سے زیادہ میں فروخت كرنا تھا،اوراس كا تحقق ہوگیا، لیكن  وجود غرض كے ساتھ فوت فعل  ہوتو حانث نہیں ہوگا۔

            الحاصل ایمان كا مدار اس فعل محلوف علیہ پر ہے، جس كا حالف تلفظ كرے خواہ غرض پائی جائے یا نہ پائی جائے، غرض پرمدار نہیں ہے بلكہ الفاظ كا اعتبار  ہے، اور غرض كا اعتبار اس صورت میں  ہوگاجب اس كے ساتھ الفاظ پائے جائیں۔

            ایك اعتراض اوراس كا جواب: علامہ فارسی شارح تلخیص الجامع الكبیر نے یہ اعتراض ذكر كیا ہے كہ اگر مشتری قسم كھائے  ’’لايشتريه بعشرة‘‘ اور پھر وہ نودرہم اور ایك دینار میں خریدے، یا نو درہم اورایك كپڑے كے بدلہ خریدلے تو اس كو حانث  ہوجانا چاہیے، اس لیے كہ یمین سے مشتری كی غرض دس سے كم میں خریدنا تھا، اور یہاں نو درہم اور ایك دینار میں خریدنے كی وجہ سے مقدار اور مالیت میں اضافہ ہورہاہے لہٰذا اس كو حانث ہوجانا چاہیے، لیكن پیچھےیہ حكم  آچكا ہے كہ اگر مشتری نے  ’’لا يشتريه بعشرة‘‘ كی قسم كھائی اور اس نے نودرہم اور ایك دینار میں خریدا تو وہ حانث نہیں ہوگا۔

            اس كا جواب یہ ہے كہ اس صورت میں حانث نہیں ہوگا، اس لیے كہ یہ محض ایك غرض ہے جو جملہ كلام سے سمجھا جارہا ہے اور كلام میں مذكور لفظ سے خارج ہے، اس لیے كہ لفظ عشرہ ایك متعین وزن كا نام ہے، خواہ عشرہٴ مفردہ، ہویا عشرہٴ مقرونہ بالزیادہ ہو اور نودرہم اور ایك دینار ، یا نودرہم اور ایك كپڑے میں خریدنے كی صورت میں عشرہ كا وجود نہ حقیقتاً  ہورہا ہے اور نہ مجازاً لہٰذااگر اس صورت میںحانث  قرار دیں گے تواس سے محض غرض كی وجہ سے كلام  پر زیادتی لازم آئے گی، اورغرض الفاظ كے لیے مخصص بن سكتا ہے مزید نہیں۔

            غرض مخصص بن سكتا ہے مزید نہیں اس كی چند امثلہ:

            پہلی مثال: حالف مشتری نے قسم كھائی:  ’’لاأشتريه بدرهم،أوقالَ لا أشتريه بفلس‘‘ پھر اس نے ایك دینار میں خریدلیا تو حانث نہیں ہوگا،اس لیے كہ اگر چہ اس مثال میں جب اس نے اپنے كو ایك درہم میں شراء سے روك دیا تو دینار سے بدرجۂ اولی روك دیا، لیكن پھر بھی حانث نہیں ہوگا،اس لیے كہ لفظ اس كے لیے نہ حقیقتاً  موضوع ہے اور نہ مجازاً بلكہ یہ الفاظ سے خارج ایك غرض ہے، اس لیے كہ لفظ درہم، یافلس، ایك خاص شئ كا نام ہے اور دینار كی جہت اس سے خارج ہے، لہٰذا اگراس صور ت میںحانث قرار دیں گے تو محض غرض كی بنیاد پر لفظ كے بغیر لفظ پر زیادتی لازم آئے گی، اور غرض الفاظ كے لیے مزید نہیں بن سكتا۔

            دوسری مثال: كوئی شخص قسم كھائے  ’’لا يخرج من الباب‘‘ پھر وہ چھت سے نكل جائے توحانث نہیں ہوگا، اگر چہ حالف كی غرض قرار فی الدار ہے، اور خروج من السطح كی صورت میں اس كو حانث ہوجانا چاہیے، لیكن یہ غرض لفظ سے خارجی شئ ہے، اگر اس غرض كی بنیاد پر حانث قرار دیںگے تو اس كا مزید ہونا لازم آئے گا، حالاں كہ یہ مزید نہیں بن سكتا۔

            تیسری مثال:  حالف كی حلف  ’’لا يضرب عبدہ سوطاً‘‘ پھر اس نے عصا سے مارا تو اس صورت میں بھی حانث نہیں ہوگا اگر چہ حالف كی غرض امتناع عن إیلام العبد ہے، اوریہاں ایلام عبد پایاگیا،مگر غرض كی بنیاد پر حانث نہیں قرار دیا جائے گا اس لیے كہ یہ الفاظ پر زیادتی ہوگی، جو غرض كے لیے نہیں ہوسكتی ۔

            چوتھی مثال : كوئی شخص اجنبیہ سے كہے  ’’إن دخلت الدار فأنت طالق‘‘ تو اس صورت میں طلاق نہیں  پڑے گی، اگر چہ اس كی غرض  ’’إن دخلت الدار وأنت في نكاحي‘‘ ہے، لیكن یہ لفظوں  میں مذكور نہیں ہے، اور غرض مزید نہیں بن سكتا، لہٰذا اگراس نے عورت سے نكاح كرلیا وار دخول دار پایاگیاتو حانث نہیں ہوگا۔

          دوسرا اعتراض اوراس كا جواب:

            بائع حالف نے قسم كھائی  ’’لايبيعه بعشرة‘‘ پھر اس نے نو میں فروخت كردیاتواس كو حانث ہوجانا چاہیے،اس لیے كہ جب وہ دس میں فروخت نہ كرنے كی قسم كھارہا ہے، تو عدم البيع بتسعة، كی تو بدرجۂ اولی حلف ہوگی ،تواس كو حانث قرار دینا چاہیے، حالاں كہ اس كو حانث نہیں كہتے ۔

            الجواب: اس صورت میں عدم حنث كی وجہ یہ ہے كہ بائع كی غرض دس سے زیادہ میں فروخت كرنا ہے،اور نو میں فروخت كرنے كا اس كا ارادہ نہیں ہے،اور تسعہ اس كے كلام میں مذكور بھی نہیں ہے اس لیے كہ عشرہ كی وضع تسعہ كے لیے  نہ لغةً ہے اور نہ عرفاً ہے۔لہٰذا حالف كی غرض لفظ سے خارجی شئ ہوئی، اگر غرض كا اعتبار كركے حنث كا حكم لگادیا جائے تو لفظ كا ابطال لازم آئے گا،حالاں كہ ایمان میں الفاظ كا اعتبار  ہے، اغراض كا نہیں،اس لیے كہ غرض مخصص  بن سكتا ہے مزید نہیں،اور تخصیص عوارض الفاظ میں سے ہے، لہذا اگر لفظ عام ہوگا اور غرض خاص تو غرض كا اعتبار كیاجائے گا، مثلاً ’’لا أكل رأساً‘‘ میں لفظ   ’’رأس‘‘ عام ہے،اور غرض خاص ہے، لہٰذا امام اعظم ابوحنیفہؒ كے نزدیك  بكری اور بھینس كا رأس  مراد ہوگا،جو تنور میں پكاكر شہر میں فروخت كیا جاتاہو، اور صاحبین كے نزدیك صرف بكری كا مراد ہے، لیكن بالاتفاق چڑیا كے سر كے كھانے سے حنث كا تحقق نہیں ہوگا، معلوم ہوا كہ اگر لفظ عام ہو اور غرض خاص ہوتو غرض كی بنیاد پر عام میں تخصیص وتقیید كی جاسكتی ہے۔

الأيمان مبنية علی العرف كی تمہيد:

            لفظ كو موضوع لہ میں لغةً  استعمال كرنا حقیقت كہلاتا ہے اور غیر موضوع لہ میں كسی قرینہ كی وجہ سے استعمال كرنا مجاز كہلاتا ہے، پھر اگر اس مجاز كا استعمال كسی دوسرے معنی میں نہ ہو یا بہت كم ہوتواس كو حقیقت عرفیہ كہتے ہیں حقیقت عرفیہ كی دوقسمیں ہیں: (۱) عرفیہ عامہ (۲) عرفیہ خاصة

            عرفیہ عامہ: وہ عرفیہ ہے جو اصل وضع میں كسی معنی كے لیے موضوع ہو، پھر عرف عام دوسرے معنی میں ایسا مشہور ہوگیاہو كہ اس كے علاوہ  مراد ہی نہیں لیا جاتا،جیسے لفظ  ’’دابة‘‘ اصل وضع كے اعتبار سے  ’’مايدب علی الأرض‘‘ كو كہتے ہیں، لیكن یہ اب چوپائوں كے لیے استعمال ہونے لگا، اوراس كااستعمال ایسا مشہور ہوگیا كہ حقیقت اصلیہ  بھی متروك ہوگئی۔

            اور یہ حقیقت عرفیہ لغویہ بھی ہے، چناںچہ قاموس میں ہے:

                                                ’’الدابة مادب من الحيوان، وغلب علی مايركب‘‘

            عرفیہ خاصہ: وہ عرفیہ ہے جو شریعت یا كسی مخصوص جماعت كے عرف میں اصطلاحی الفاظ كی طرح مستعمل ہونے لگے ہوں، مثلاً صلاة اورحج یہ دونوں الفاظ لغت میں دعاء اور مقصد بیت اللہ كے لیے بولے جاتے تھے پھر شریعت میں مخصوص افعال  كا نام ہوگیا،ایسے ہی نحویین كے عرف میں فاعل اور مفعول اور اصحاب العروض كے  عرف میں وتداور سبب ایسی حقیقت عرفیہ اصطلاحیہ بن گئے كہ اس كی وجہ سے حقیقت اصلیہ متروك ہوگئی۔

            اسی لیے اصولیین نے صراحت كی ہے كہ عرف وعادت كی وجہ سے حقیقت متروك ہوجاتی ہے اور جس طرح عرف قولی كے ذریعہ عام میں تخصیص كی جاسكتی ہے(جیسے دابہ كا اطلاق حمار پر،اور دراہم كا اطلاق فقد غالب پر اسی قبیل سے ہے) اسی طرح احناف كے نزدیك عرف عملی بھی مخصص بنتا ہے، جیسے كہ كوئی شخص قسم كھائے  ’’حرمت الطعام‘‘ اور  وہاں كا عرف گیہوں كھانے كا ہے، تو گیہوں كھانے سے حانث ہوجائے گا، اور طعام سے ’’بر‘‘ گیہوں مراد لیاجائےگا، معلوم ہوا كہ عرف عملی مخصص بن سكتا ہے۔

            اسی طرح لفظ  ’’رأس‘‘ ’’لايأكل رأسًا‘‘ میں عام ہے، مگر عرف عمل كی بنیاد پر اس میں تخصیص وتقیید كی گئی ہے، كما مر۔ اسی طرح اگر كسی شخص سے كہا  ’’طلق إمرأتي إن كنت رجلاً‘‘ تو یہ توكیل نہیں ہوگی،اس لیے كہ كلام كا آخر یہ بتلارہا ہے كہ یہ لفظ توبیخ وتعجیز كے لیے مستعمل ہوا ہے۔

            اسی طرح مسئلہ  یمین فور ہے، جیسے اپنی بیوی سے كہا:  إن خرجت فأنت طالق جب كہ یہ نكلنے كے لیے تیار ہوتو یہ اسی لمحے میں نكلنے كے ساتھ مقید  ہوگا ، حتی كہ اگر كچھ بعد نكلی   تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔

            اسی طرح  كسی نے كسی كو صبح كے ناشتہ كی دعوت دی، مدعو نے كہا   واللہ لا أتغدي  تو یہ غذاء مدعو كے ساتھ مقید ہوگا، اس لیے كہ عرفا یہی  مراد ہے۔ اسی  طرح جو شخص قسم كھائے  لا يأكل لحما تو شوربا يا مچھلی كھانے سے  وہ حانث  نہیں ہوگا، باویودیكہ قرآن میں سمك كو لحم كہا گیا لیكن عرف میں نہیں بولاجاتا۔

            اسی طرح حالف كے  لا يركب دابة میں كافر پر سوار ہونے كی صورت میں حانث نہیں ہوگا، باوجودیكہ  قرآن میں كافر كو دابہ كہاگیا ہے، لیكن عرف میں نہیں بولا جاتا ہے۔

            اور اسی طرح حالف كے قول  لا يجلس علی وتد میں  جبل پر سوار ہونے سے حانث نہیں ہوگا، حالاں كہ  قرآن  میں جبل كو وتد سے تعبیر كیاگیا ہے مگر یہ عرف كے خلاف ہے۔

            تنبیہ: كوئی شخص قسم كھائے  لايركب حيواناً  تو كیا انسان پر سوار ہونے سے حانث ہوجائے گا؟

            صاحب ِ تبیین الحقائق نے كہا كہ حانث ہوجائے گا، صاحب نہر نے اس كو رد كیا بایں طور كہ عرف عملی بھی ہمارے نزدیك عرف قولی كی طرح مخصص ہے اور صاحب تبیین كے قول كو صاحب فتح القدیر نے بھی رد كیا ہے كہ یہ حنث كا قول صحیح نہیں ہے،اس لیے كہ اصولیین نے تصریح كی ہے، الحقيقة تترك بدلالة العادة میں عادت سے عرف عملی ہی مراد ہے۔

            اور صاحب ِ تبیین كا یہ قول كہ اس میں حقیقت لغویہ كا اعتبار ہے، یہ بھی مردود ہے اس لیے كہ اعتبار عرف ہی كا ہے، كذا في البدائع والاعتماد إنما هو علي العرف۔ انتہی۔

             اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا كہ ’’الأيمان مبنية علی الألفاظ لا علی الأغراض‘‘ میں  ’’الفاظ‘‘  سے مراد وہ الفاظ عرفیہ ہیں جو معانی عرفیہ پر دلالت كریں الفاظ لغویہ یا الفاظ شرعیہ مراد نہیں ہیں۔

            حاصل كلام یہ ہوا كہ ایمان میں حكم كا مدار ان الفاظ پر ہوگا جو حالف كے كلام میں مذكور ہوں،اور وہ معانی حقیقیہ یا مجازیہ پر دال ہوں جس كے لیے عرف عام یا عرف خاص قرینہ بنے ،اسی كو حقیقت اصطلاحیہ كہا جاتا ہے جو حقیقت لغویہ پر مقدم ہوتی ہے۔

            جہاں تك الفاظ سے خارج  اغراض ہیں تو ایمان كا مبنی ان پر نہیں ہے، اس لیے كہ اس سے الفاظ پر   زیادتی لازم آئے گی، اور اغراض الفاظ عامہ كے لیے مخصص تو بن سكتے ہیں ، مزید نہیں۔

          ایك اعتراض اوراس كاجواب:

            معترض كا اعتراض یہ ہے كہ آپ نے كہا كہ الفاظ كے بغیر غرض عرفی كا اعتبار نہیںہوگا، حالاں كہ فقہاء نے الفاظ كے بغیر غرض عرفی كا اعتبار كیا ہے، چناں چہ اگر كوئی قسم كھائے  ’’لايأكل من هذه الشجرة‘‘ فقہاء كی تصریح كے مطابق اگر شجرہ ماكولات میں سے ہے، تو یمین عین شجرہ كے اكل پر منعقد ہوگی اور اگر عین شجرغیر ماكولات میں سے ہے، تو اگر مثمر  ہے تو یمین اكل ثمرہ شجرہ پر منعقد ہوگی، ورنہ تواس كی قیمت كھانے پر حتی كہ اگر عین شجرہ كھالیا تو حانث نہیں ہوگا،اس مثال میں ثمرہ اور ثمن كوئی بھی حالف كے كلام میں مذكور نہیں ہے، بلكہ وہ حالف  كی غرض ہے، اور فقہاء نے اس كا اعتبار كیا  معلوم ہوا كہ الفاظ كے بغیر بھی غرض عرفی كا اعتبار ہے۔

            دوسری مثال: كوئی شخص قسم كھائے  ’’واللہ لا أضع قد مي في دار فلان‘‘ تو یمین صرف دخول  سے منعقد ہوجائے گی، حتی كہ اگر ننگے  پیر یا چپل پہن كر یا سوار ہوكر داخل ہوتب بھی حانث ہوجائے گا۔ اور اگر دار میں اپنا قدم بغیر دخول كے ركھ دیا،اس طرح كہ دار  كے خارجی حصہ میں لیٹ كر دار  میں اپنا قدم ركھ دیا توحانث نہیں ہوگا، حالاں كہ دار میں دخول تو ایك غرض ہے، اور وہ حالف كے كلام میں مذكور بھی نہیں ہے، پھر بھی اس غرض كا اعتبار كیا ہے، معلوم ہوا كہ الفاظ كے بغیر بھی غرض كا اعتبار ہے۔

            الجواب: علامہ شامیؒ فرماتے ہیں كہ اس كا جواب  میری نگاہ سے نہیں گزرا البتہ ہماری تقریر وتوضیح سے اس كا جواب یہ سمجھ میں آتا ہے كہ ایمان میں معتبر الفاظ ہی ہیں، نہ كہ اغراض، لہٰذا اولاً لفظ كی حقیقت لغویہ كو دیكھا جائے گا،جب تك لفظ كی حقیقت لغویہ مراد لی جاسكتی  ہے، تو وہی مراد ہوگی،اس كے بعد عرف كا نمبر ہے،اور عرف ہی كی بنیاد پر لفظ كو معنی لغوی سے معنی عرفی كی طرف پھیرا جائے گا، اور وہی حقیقت عرفیہ بن جائے گا اور قائل كے قول  ’’لا أكل من هذه الشجرة‘‘ میں شجرہ سے مراد اگر غیر ماكولات میں سے  ہوتو ثمرہ شجرہ یا اكل ثمن حقیقت عرفیہ بن جائے گا، اور عرف  عام میں وضع قدم دخول ہی كا نام ہے، اسی وجہ سے اصولیین نے یہ دونوں مثالیں حقیقت متعذرہ اور حقیقت  مہجورہ كی  دی ہیں، اور فقہاء نے یہ بھی فرمایا كہ جب حقیقت متعذرہ یا مہجورہ  ہوتو بالاجماع  مجاز كی طرف رجوع كیا جائے گا، معلوم یہ ہوا كہ مذكورہ دونوں مثالیں حقیقت  عرفیہ كی مراد ہے، نہ كہ اغراض كا اعتبار كیا ہے۔

            دوسرا اعتراض: یہ ہے كہ اگر كوئی شخص قسم كھائے  كہ ’’واللہ لا أشتريه بدرهم‘‘ تو عرف میں اس سے مراد یہ ہے كہ ایك درہم یا اس سے زیادہ میں مالیت كے اعتبار سے نہ خریدنے كی قسم كھائی ہے، درہم كی تخصیص مراد  نہیں، لہٰذا یہاں شجرہ اور وضع قدم  والی مثال كی طرح حقیقت  مہجورہ ہے اس كا جواب  علامہ شامی ؒ نے یہ دیا كہ دونوں مسئلوں میں  فرق ہے اور وہ فرق یہ ہے كہ مسئلہ شجرہ اور وضع قدم  میںلفظ  معنی اصلی كے علاوہ دوسرے معنی كے لیے موضوع اور مستعمل ہونے لگا ہے، اور معنی اصل بالكل متروك  ہیں۔

            اور مسئلہ شراء بدرہم میں لفظ درہم اپنے معنی اصل پر باقی  ہے، اور اس كو دینار كا مجاز قرار نہیں دیاجاسكتا،اس لیے كہ اگر درہم میں خریدے گا توحانث ہوجائے گا، معلوم ہوا كہ درہم كے معنی اصلی باقی ہیں، اوروہی مراد ہیں، اوراگراس سے  ’’كل من الدرهم والدينار‘‘ مراد لیاجائے توجمع بین الحقیقة  والمجاز لازم آئے گا، اور ہمارے نزدیك یہ جائز نہیں ہے علاوہ ازیں یہ متكلم كی غرض بھی نہیں ہے، بلكہ متكلم كی غرض درہم میں نہ خریدنا ہے، تودینار میں بدرجۂ اولیٰ عدم شراء لازم آئے گا، لیكن  یہ غرض غیر ملفوظ ہے لہٰذا اگر اس كی  بنیاد پر حانث قرار دیں گے، تو غرض كی بنیاد پر الفاظ پر زیادتی لازم آئے گی اور غرض لفظ كے لیے مخصص تو بن سكتا ہے مزید نہیں۔

            حاصل گفتگو یہ ہوا كہ لفظ درہم سے غیر ماوضع لہ عرفا مراد نہیں لیا جائے گا، اسی وجہ سے حالف شراء بدرہم سے حانث ہوجائے گا، شراء بدینار سے حانث نہیں ہوگا،اس لیے كہ یہ محض ایك غرض ہے جس كے لیے عرفا لفظ  موضوع نہیں ہے اورمسئلہ اكل شجرہ اور وضع قدم میں معنی اصلی مہجور ہیں،اور معنی مجازی مراد ہیں اسی لیے معنی اصلی كی وجہ   سے حانث نہیں ہوگا، بلكہ معنی مجازی كی وجہ سے حانث ہوگا۔

            كسی چیز پر قسم كھاكر اس كے علاوہ مراد لینے كاحكم:

            كوئی شخص قسم كھائے ’’واللہ لأديرنّ الرحي علی رأسك‘‘ یا كسی كے بارے میں حلف اٹھائے،  ’’واللہ لأضرمن النار علی رأسك‘‘ یا كہے:  ’’واللہ لأقيمنّ القيامة علی رأسك،‘‘ اور یہ سب الفاظ  بول كر بڑی آفت ومصیبت مراد لے تووہ حانث  نہیں ہوگا، لیكن اگر حقیقتاً یہ فعل انجام  دے گا تو وہ بار ہوجائے گا۔

            اسی طرح قسم كھائے،  واللہ لأقرعن سمعك  اس سے مراد بری خبر سنانا ہو یا  ’’لأبكين عينك‘‘ سے كوئی غمناك خبر دےكر رلانامقصود ہو،  ’’بالأخرسنك‘‘ سے رشوت دے كر گونگا كرنا مراد ہوتا كہ وہ اس كے معاملہ میں گفتگو نہ كرے،یا ’’لأحرقن قلبك‘‘ سے مراد ایسا كام كرنا ہو جو اس كے لیے باعث رنج ہو، مذكورہ تمام  صورتوں میں حالف جب اپنی مراد پوری كرے گاتو وہ بار فی یمینہ ہوجائے گا۔

            علامہ شامی ؒ نے اس قبیل كی بہت سی مثالیں ذكر كركے فرمایاكہ اگر حالف كی مراد حقیقت ہوتو وہ ان امور كو انجام دینے كی صورت میں بار ہوجائے گا ، یہ تفصیل فقہاء احناف كے نزدیك تھی حضرت امام مالكؒ كے نزدیك  اگراس نے اپنے قول كوپورا نہ كیا تو وہ حانث ہوجائے گا۔

            اس سے یہ سمجھ میں آیا كہ جن  تمام صورتوں میں لفظ معنی اصلی كے علاوہ میں مستعمل ہوتوان میں معنی اصلی كی وجہ سے حانث نہیں ہوگا، البتہ اگر  معنی اصلی مراد ہوںتو پھرحانث ہوجائے گا عند الاحناف  ، خلافا لمالك اور عرف عامہ میںاس جیسے بہت سے الفاظ ہیں، ان كو اسی غرض پر محمول كیاجائے گا، جو عرف عامہ میں لفظ كی حقیقت  بن گئے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب

            رسالۂ ہذا كا خلاصہ:

            (۱)فقہاء كے دومشہور ضابطوں  ’’الأيمان مبنية علی الألفاظ لا علی الأغراض‘‘ اور  ’’الأيمان مبنية علی العرف‘‘ كے مابین تعارض كا حل اورمذكورہ دونوں ضابطوں پر متفرع ہونے والے مسائل كی صحت۔

            (۲) ’’الأيمان مبنية علی الألفاظ لاعلی الأغراض‘‘ میں الفاظ واغراض كے معنی ومراد۔

            (۳) ’’الأيمان مبنية علی العرف‘‘ میں عرف كی مراد اوراس كے ذیل میں عرف قولی اور عرف فعلی دونوں كی مع امثلہ وضاحت اوران كاحكم۔

            (۴) غرض مخصص بن سكتا ہے مزید نہیں، اس پر مفصل بحث مع امثلہ۔

            (۵) كیا الفاظ كے بغیر اغراض  عرفیہ خارجہ كا اعتبار ہے؟ اس پر سوال وجواب۔

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4،  جلد:106‏،  رمضان المبارك 1443ھ مطابق اپریل  2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts