فکرِعجم، زبانِ عرب، روحِ دیوبند (استاذ محترم مولانا نورعالم خلیل امینیؒ) (۲/۳)

بہ قلم: مولانا محمداجمل قاسمی

استاذ تفسیروادب جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد

ارودئے معلی پر مثالی دسترس

            یہ عجیب اتفاق ہے کہ ہند ستانی ہونے کے باوجود بھی اردوزبان میں آپ کا تحریری سفر بہت دیر سے شروع ہوا، عربی زبان سے والہانہ لگاؤ اورپھر عنفوان شباب ہی میں عربی ادب وانشاء کی تدریس اورعربی مجلے کی ادارت سے وابستگی کی وجہ سے قدرتی طورعربی زبان ہی آپ کے افکاروخیالات کے اظہارکا ذریعہ بنی اور تقریباً تین دہائی تک مسلسل آپ کا قلم اس زبان میں محوسفررہا، اس عرصے میں اردوزبان میں غالباً کوئی قابل ذکر چیزآپ کے قلم سے نہیں نکلی اورشایداردومیں لکھنے کا کوئی قوی محرک بھی آپ کے سامنے نہیں آیا؛مگر جب ذی قعدہ۱۴۱۵ھ مطابق اپریل۱۹۹۵ئمیں آپ کے محسن ومربی استاذ عربی زبان کے عبقری معلم حضرت مولانا وحید الزماں قاسمی کیرانوی رحمة اللہ علیہ کا سانحہٴ ارتحال پیش آیاتو آپ اس حادثہ سے بے پناہ متاثر ہوئے اورعربی کے ساتھ اردو زبان میں بھی مولانا مرحوم پر لکھنے کا طاقتورداعیہ پیدا ہوا،ابتداء میں مختصر مضمون کا ارادہ تھا؛مگر شخصیت حضرت مولانا وحیدالزماں کیرانوی جیسے عبقری اورصاحب کمال انسان کی اورقلم حضرت مولانا نورعالم امینی جیسے قادرالکلام ادیب کا، ذکر اُس پری وش کا اورنگاہ عاشقِ زار کی؛ اس لیے مضمون طویل سے طویل ترہوتا گیا، بالآخر حضرت مولانا نے اس کوکسی رسالے میں شائع کرنے کے بجائے کتابی شکل میں لانے کا فیصلہ کیا اور ”وہ کوہ کن بات …“ منظرعام پرآگئی۔

            مولانا نے یہ کتاب حددرجہ اخلاص اورعقیدت ومحبت میں ڈوب کرلکھی تھی؛اس لیے زبان کی شگفتگی، انداز بیان کی برجستگی وبے ساختگی کے اعتبار سے یہ صرف سوانح حیات ہی نہیں؛ بلکہ ایک ادبی شاہ کار اور اردوئے معلی کاشہ پارہ بھی تھی،کتاب کا نام بھی روایتی انداز سے ہٹ کر بالکل چونکا دینے والاتھا،ان باطنی اورمعنوی خوبیوں کے ساتھ کتاب کا ظاہر بھی نہایت نفیس اوردیدہ زیب تھا، کتاب مارکٹ میں آئی اورہاتھوں ہاتھ لی گئی اورزبان وادب سے وابستہ محترم شخصیات نے اس پر بلیغ تبصرے کیے ۔اس موقع پرغالباً مولانا کو اردوزبان میں اپنی قوتِ انشاء پر دازی کا پہلی بار صحیح ادراک ہوا جس کا انھوں نے اس سے پہلے امتحان نہیں کیا تھا، اس کے بعد اردومیں بھی لکھنے کاسلسلہ شروع ہوگیا اورآپ کا شمار عربی کے ساتھ اردوکے بھی ممتاز قلم کاروں میں ہونے لگا۔

یادش بخیر!

            مجھے تدریب فی دارالافتاء کے سال اپنے محبوب استاذ حضرت مفتی ظفیر الدین مفتاحی رحمة اللہ علیہ مفتی دارالعلوم دیوبند سے حددرجہ تعلق خاطر رہا، تدریب کے دوسرے سال حضرت کے حصہ کی ساری ڈاک میں ہی لکھاکرتا تھا، حضرت کومجھ پر اعتماد تھا، بڑی شفقت ومحبت کا معاملہ فرماتے اوربڑی دعائیں دیتے، مفتی صاحب مولانا امینی کی طالب علمی کے زمانے میں ان کے محسن رہے تھے، ایک مرتبہ کسی موقع سے میں نے حضرت مفتی صاحب سے پوچھا: حضرت!آپ کا ہمارے استاذ مولانا نورعالم امینی کے بارے میں کیا خیال ہے وہ کیسا لکھتے ہیں؟ حضرت نے جیسا کہ ان کا مزاج تھا بڑی سادگی کے ساتھ برجستہ فرمایا:

            ”نورعالم بھلا آدمی ہے ، جب یہاں پڑھتا تھا توہم سے بہت قریب تھا، اب بھی اس تعلق کونباہتاہے، اوروقتا فوقتا ہماری مزاج پرسی اورضیافت بھی کرتا رہتاہے،لکھتا بھی بہت اچھا ہے ، مگر اس میں کمی یہ ہے کہ وہ عربی ہی میں لکھتاہے ،ٹھیک ہے عربی میں لکھے، مگر اسے اردومیں بھی لکھنا چاہیے ، یہاں کے لوگ عربی توسمجھتے نہیں، پھر اسے یہاں کون جانے گا اورکون اس کی چیزوں سے فائدہ اٹھا سکے گا؟“

            حضرت مفتی صاحب کی وفات کے موقع پر میں نے حضرت مولانا کوفون کیا،مولانا دیر تک حضرت مفتی صاحب کی خوبیوں پر گفتگوفرماتے رہے، میں نے اس موقع سے حضرت مفتی صاحب کی یہ باتیں اِسی انداز سے حضرت مولانا کوسنادیں، مولانا بے حد محظوظ ہوئے اورکہتے رہے مفتی صاحب کی بات بالکل صحیح ہے، اردومیں لکھنے کا مفتی صاحب کا جو مشورہ تھا اس سے کئی بار اپنے اتفاق کا اظہار کیا، مولانا کوخود بھی اس کا احساس شدت سے تھا،وہ باقاعدگی سے اردومیں لکھنا چاہتے تھے؛ مگر ماہنامہ الداعی کی ادارتی مصروفیات خاطر خواہ موقع اوروقت فراہم ہونے سے مانع رہیں؛ لیکن اس کے باوجود بھی جوکچھ آپ نے لکھا وہ سیکڑوں صفحات سے متجاوزہے،اور خاصا حصہ کتابی شکل میں بھی شائع ہوچکا ہے،آپ کی اردوتالیفات میں ”وہ کوہ کن کی بات․․․ حرف شیریں اورپس مرگ زندہ“ بہت مقبول ہوئیں، ”رفتگان نارفتہ“ کے نام سے نئی کتاب منظر عام پر آیا چاہتی ہے امید ہے کہ یہ کتاب بھی ناظرین سے خراجِ تحسین حاصل کرے گی،ایک نئی کتاب ”خاکی مگر افلاکی“ کے نام سے تیاری کے مرحلے میں ہے۔

            آپ کی اردو اردوئے معلی تھی، فارسی کا رنگ گہرا اورنمایاں تھا، جوکچھ لکھتے خواص کے لیے لکھتے تھے، عوام اورکم پڑھے لکھے لوگوں کے لیے آپ کی زبان ناقابلِ فہم یا مشکل تھی؛البتہ بعد کی تحریروں کی زبان ابتدائی تحریروں کے مقابلے میں قدرے آسان ہے، مجھے آپ کی اردوتحریروں کے مقابلے عربی تحریریں زیادہ اچھی لگتی ہیں،عربی میں آپ کااسلوب بیان زیادہ فصیح، دلکش، شگفتہ اورعام فہم معلوم ہوتاہے۔

اردوعربی ترجمہ میں بے نظیر مہارت

            ترجمہ اورانشاپر دازی دوالگ الگ فن ہیں اوردونوں کوباقاعدگی کے ساتھ سیکھنا پڑتاہے،ایسا ضروری نہیں کہ جومضمون لکھ لے وہ معیاری ترجمہ بھی کرلے، یا جوترجمہ کا ماہر ہواسے انشاء پر بھی قدرت ہو، باکمال صاحب قلم وہی ہے جسے دونوں پر دسترس ہو،مولانا دونوں کے یکساں ماہر تھے اورہم طلبہ کودونوں چیزوں میں مہارت پیداکرنے کی تاکید کرتے تھے،یوں تومولانا کواردوسے عربی اورعربی سے اردودونوں ترجموں پر کامل عبور تھا؛مگر عملاًاردومیں ترجمہ کی بہ نسبت تعریب کا کام زیادہ کیا،بالکل ابتدائی دورسے ہی اس کاآغاز ہوگیاتھا، دارالعلوم ندوہ کی مدرسی کے زمانے میں حضرت مولانا ابولحسن علی ندوی رحمة اللہ علیہ کے لیے سیکڑوں صفحات عربی میں منتقل کیے،مولانا فرماتے تھے: ”حضرت مولانا علی میاں رحمة اللہ علیہ مجھے تعریب کے لیے مختلف چیزیں دیتے، میں جب ترجمہ کرکے لے جاتا توبہت خوش ہوتے،اورفرماتے:مولوی نورعالم توترجمہ کی مشین ہیں اِدھر سے اردو ڈالو اور اُدھر سے عربی لے لو“۔

            آپ نے دارالعلوم ندوة العلماء اورداراالعلوم کے زمانہٴ قیام میں بہت سے مشاہیر اہل قلم کی اہم کتابوں کے ترجمے کیے ہیں،حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ کی کتاب ”علماء دیوبند کا دینی رخ اورمسلکی مزاج“ کا ترجمہ کیا،اوراسے ”علماء دیوبند اتجاہہم الدینی ومزاجہم المذہبی“ کے نام سے شائع کیا، ترجمہ اتنا عمدہ اورفاضلانہ ہے کہ نقل پر اصل کا گماں ہوتاہے،حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ کی تحریروں کے بہت بڑے حصے کا الداعی میں قسط وار ترجمہ کیا اوربعض حصے کوشائع بھی کیا،اس طرح مولانا کے کارناموں کی فہرست میں آپ کے عربی ترجموں کا حجم بھی اچھا خاصا ہے۔

            مولانا فرماتے تھے:”جس تحریر کا ترجمہ کرنا ہوپہلے اسے مکمل پڑھ لیاجائے،پوری بات جب سامنے آجائے گی توترجمہ میں سہولت ہوگی،کہاں استدراک کی ضرروت ہے،کہاں حاشیہ لگانا ہے، کیا لگاناہے،ترجمہ میں دشواریوں کہاں کہاں ہیں؟ ان باتوں کا اندازہ ہوجائے گا اورترجمہ شروع کرنے سے پہلے ذہن ان مسائل کا حل ڈھونڈلے گا، ایک بار پڑھ لینے کے بعدپھرجب ترجمہ کرنے بیٹھے توپورے پیراگراف پر ایک نظر ڈالے اوراس کے بعد ایک ایک جملے کو دوسری زبان کا لباس دیتا جائے۔“

            مولانا توکام کرتے کرتے اتنے ماہر ہوگئے تھے کہ ترجمہ کرنے بیٹھتے اور بڑی آسانی سے کرتے چلے جاتے،یوں محسوس ہوتاجیسے کتاب سے کوئی مضمون کاغذ پر منتقل کررہے ہوں۔

تحریروں میں بعض اہم التزا مات

            (۱) مولانا اپنی اردووعربی کی تمام تحریروں میں املا کی صحت کا التزام رکھتے تھے (۲) رموز واوقاف کامکمل اہتمام تھا (۳)آیات قرآنیہ اوراحادیث میں مبارکہ کومکمل بااعراب لکھتے (۴)کوئی چیزکہیں سے نقل کرتے تومکمل حوالے کے ساتھ نقل کرتے (۵)فعل مجہول اورجن ابواب میں اسم فاعل واسم مفعول کے صیغے ہم شکل ہوتے ہیں ان میں اسم مفعول کو حرکتوں کے ذریعہ واضح کرتے، عبارت میں جن جن الفاظ میں قاری کے اشتباہ میں پڑنے کا اندیشہ ہوتاوہاں بھی ضروری حرکات کے ذریعہ اشتباہ کودورکردیتے، اس غرض سے اردوتحریروں میں بھی زیروزبر پیش لگاتے؛ حالانکہ کمپیوٹرکی کتابت میں اس کی وجہ سے اکثر وبیشتر الفاظ کا حسن متاثر ہوجاتا تھا (۶)تاریخ وسن کا بھی بہت اہتمام تھا،دوران تحریر کسی گذری ہوئی شخصیت کا تذکرہ آتاتوبین القوسین اس کی تاریخ پیدائش و وفات ضرورلکھتے؛ حالاں کہ اس میں بڑا وقت صرف ہوتاتھا (۷)بات حددرجہ واضح انداز میں کہنے کی کوشش کرتے،جس سے قاری کے سامنے بات بالکل نکھرکر آجاتی؛ مگر اس کی وجہ سے ایک توآپ کی تحریر یں طویل ہوجاتی تھیں، دوسرے جملوں کے درمیان بین القوسین یا بین الخطین وضاحتی جملے (جمل معترضہ )کثرت سے آتے جس سے تسلسل کسی قدرمتاثر ہوتا۔

            یہ چیزیں ایسی ہیں جوخاص طبقہٴ علماء میں مولانا کے امتیازات میں شامل ہیں اوران میں اکثرباتیں قابل تقلید ہیں، خاص طور پرشروع کی چار باتیں نہایت اہم؛بلکہ ضروری ہیں،البتہ یہ وضاحت مفید معلوم ہوتی ہیں کہ اردواملاکے سلسلے میں مولانا کے کچھ تفرادات ہیں جوعام طورسے رائج نہیں ہیں اور ان میں کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں کہ کمپیوٹر کتابت میں اپنی سیٹنگ بنائے بغیر ان کوبرتنا ممکن بھی نہیں ہے؛ اس لیے ایسی چیزوں میں عام روش پر چلنا زیادہ مناسب معلوم ہوتاہے۔

وہ خواب جوبکھر گیا

            مولانا کے قلم سے نکلنے والی تحریریں ہزاروں صفحات پر مشتمل ہیں،مگر فصیح ومعیاری نثرکا یہ گنج گراں مایہ مجلات اوررسائل کے صفحات میں مدفون ہے،مولانا اس قیمتی خزانے کوکتابی شکل میں منظر عام پر لانا چاہتے تھے اوراس سلسلے میں ایک لمبے چوڑے منصوبے پر مسلسل سرگرم عمل تھے؛ چنانچہ ادھرپچھلے چند سالوں میں ان کی تحریروں کے کئی مجموعے یکے بعد دیگرے شائع ہوکر لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ بھی گئے؛ مگر اس سَمت میں لمبا کام ابھی باقی تھا،اگر زندگی نے چند سال اور وفا کی ہوتی تواللہ کی ذات سے یہی امید تھی کہ یہ منصوبہ بحسن وخوبی پایہٴ تکمیل تک پہنچ جاتا؛مگر اچانک حادثہٴ وفات کے پیش آجانے سے اس پورے منصوبے پر پانی پھرگیا، مولانا نے عربی میں عرب وعجم کی معروف شخصیات کی وفات پر جوتاثراتی مضامین تحریرکیے، وہ بڑے اہم ہیں اور تعداد میں بہت زیادہ ہیں، اگر ان کومرتب کیا جائے توکئی ضخیم مجموعے تیار ہوجائیں گے،یہ سارا کا سارا ذخیرہ ابھی اشاعت کا منتظرہے۔ مولانا کی وفات کے بعد ان کی چیزوں کوان کے معیار پر توکوئی کہاں لاپائے گا،مگر پھربھی یہ آرزوزبان وقلم پر دعا بن کرباربارآرہی ہے کہ کاش باری تعالی مولانا کے ناتمام منصوبے کی تکمیل کی کوئی بہتر صورت پیدا فرمادے !!۔

عمدہ ونفیس خط

            مولانا اخیر تک قلم ہی سے لکھنے کے عادی رہے، خط نہایت نفیس وپاکیزہ تھا، حروف کی نوک پلک بڑی واضح ہوتی تھی، الفاظ پروئے ہوئے موتیوں کی طرح مرتب اورسطریں تیر کی طرح سیدھی ہوتیں، عربی تحریروں میں خط رقعہ زیراستعمال رہتا، اس کے علاوہ بھی آپ متعدد رسم الخط کے ماہر تھے،انھیں اگر اپنی قلمی تحریرہی کسی کوارسال کرنی ہوتی، تو اسے ہاتھ کی تین انگلیوں سے ذرا ٹھہرکرلکھتے؛ مگر جو تحریریں کمپوزنگ کے لیے ہوتیں ان میں انگوٹھے اورشہاد ت کی انگلی کومطلقاً زحمت نہ دیتے،بیچ کی دونوں انگلیوں کے درمیان قلم کو سنبھالتے اورہاتھ کا غذ سے مس کیے بغیر تیزی سے لکھتے، اس طرح لکھنے میں مولانا کوسہولت زیادہ ہوتی تھی، یہ بھی مولانا کا ایک عجیب وغریب کمال تھا،میں نے کبھی کسی کواس طرح لکھتے نہیں دیکھا تھا؛اس لیے یہ منظرمیرے لیے باعث حیرت بھی ہوتااورسبب دلچسپی بھی،سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس طرح بھی کیسے لکھا جاسکتاہے؛ مگر مولانا لکھتے تھے اورخوب لکھتے تھے۔

عربی کے با کمال اوربافیض معلم

            تحریروانشاء کی طرح تدریس میں بھی آپ کا پایہ بہت بلند تھا،ان کے پاس تفہیم وتشریح کا وہبی ملکہ تھا، خوبیِ بیان، حسن ادا اورعمدہ تمثیل سے معنویات کومحسوسات کے پیکر میں ڈھال دینا ان کا ادنیٰ کمال تھا،تکمیل ادب اورتخصص فی الادب میں مولانا سے پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ درس گاہ ہمیشہ وقت پر پہنچتے،حاضری ہوتی،پھرخالص عربی لب ولہجے میں عبارت خوانی ہوتی،تکمیل ادب کے ہر طالب علم کے لیے عبارت پڑھنا ضروری تھا، اس کے لیے باری متعین تھی،روزآنہ کم ازکم پانچ طلبہ عبارت پڑھتے، جوپہلے سے تیاری کرکے آتے،اس کے بعد مولاناالفاظ وتعبیرات کی تشریح کرتے، وہ زبان کے رمزشناس بلند پایہ ادیب تھے،عربی ان کے لیے موم کردی گئی تھی،تشریح کے دوران وہ جب کسی لفظ کوفنی مہارت کے ساتھ مختلف جملوں میں الگ الگ انداز سے گھماتے تولفظ اپنے پورے مزاج اورصحیح مفہوم کے ساتھ اچھی طرح دل نشیں ہوجاتا، یہیں فن کوصاحب فن سے سیکھنے کی اہمیت بھی سمجھ میں آتی،اس کے بعد عبارت کے ترجمہ کا نمبر آتا، مولانا عربی اخبار ات کے تراشے پڑھاتے تھے، جس میں جملے بہت طویل ہوتے،اس لیے پہلے جملے کے اجزاء کا الگ الگ ترجمہ کرتے، پھر مکمل جملے کا ترجمہ کرتے اور ترجمہ کی باریکیوں کوواضح کرتے اورفنی ومعیاری ترجمہ کے مختلف اصولوں کی طرف رہنمائی کرتے ۔ مولانا کے بتائے ہوئے ان اصولوں سے میں نے بے حد فائدہ اٹھایا۔

            درس گاہ میں مولانا کا بڑا رعب ہوتا،ہرطالب علم مستعد،گوش برآواز اورچوکنا رہتا،جہاں کسی کوغافل پاتے پوچھ بیٹھتے:مولانا!میں نے کیا کہا؟اس سوال کے پیچھے غیظ وغضب کا ایک طوفان دستک دے رہا ہوتا جس سے ہرکوئی خائف رہتا، مولانا جملے چست کرنے اورچٹکی لینے میں ماہر تھے، بس کسی ادنی محرک کی ضرورت ہوتی، طالب علم کی کوئی چوک، کسی کا عجیب وغریب حلیہ یا اول جلول ہیئت ہی اس کے لیے کافی تھی۔ اس طرح وہ اپنی لطیف چھیڑ چھاڑ سے مجلس کوباغ وبہار بنائے رکھتے، کبھی کسی پر غصہ ہوتے تو زورفصاحت اپنے عروج پرپہنچ جاتا، جملوں میں عجیب طرح کی ظرافت آمیز شوخی ہوتی،جوحاضرین مجلس لیے ان کی بذلہ گوئی کی طرح ہی پر لطف ہوتی،مولانا ہی سے سنا ہوا اک شعر برموقع یاد آیا:

باتیں ہماری یاد ر ہیں، باتیں نہ ایسی سنیے گا

کہتے کسی کوسنیے گا تودیرتلک سر دھنیے گا

            وہ سبق میں ذرا ذراسی مناسبت سے مضمون کتاب سے ہٹ کر ہر طرح کی چیزوں کو زیربحث لے آتے،اوراپنے تجربات ومشاہدات اورمعلومات کے موتی بکھیرنے لگتے، جس سے ذہن ودماغ کی پرتیں کھلتیں،عقل روشن ہوتی اورفکروخیال کوجلاملتا، وہ پوراگھنٹہ پڑھاتے اورجیسے ہی گھنٹہ بجتا وہ اٹھ کھڑے ہوتے، ہم ان کے ”کلاس“ سے نکلتے تودل شاد اوردماغ مسرورہوتا،معلومات میں نمایاں ترقی محسوس ہوتی اوردامن گوہر مراد سے بھرا نظرآتا۔

            مولانا تحریروں کی اصلاح میں بڑی مہارت رکھتے تھے،تخصص فی الادب اوراس کے بعد سالوں میں میری تحریروں کی اصلاح فرماتے رہے، جب اصلاح کے لیے بلاتے توہمیں اپنے بالکل پاس کھڑا کرتے،قلم سطروں کے اوپر اوپر دوڑنے لگتا،کہیں کچھ بڑھاتے، کہیں گھٹادیتے،کہیں بدل دیتے، کہیں صرف رموز اوقاف کی کوئی علامت بنادیتے، ایسا محسوس ہوتا کہ گرہیں کھلتی چلی جارہی ہیں، جہاں غلطی ہوتی قلم وہیں رکتا اورپھر جلدی سے ہمیں وضاحت کرنی ہوتی۔بڑی سہولت اور تیزی سے اصلاح کیا کرتے تھے؛مگریہ عمل ان کے لیے بڑا بورکن تھا،بادل ناخواستہ کیا کرتے۔جب تک تحریر چیک کرتے ہمارا اوپر کا سانس اوپر اورنیچے کا نیچے رہتا، کچھ پتہ نہیں کب طیش میں آجائیں اورکب کسی احمقانہ غلطی پر کاپی جھٹک دیں، ایک مرتبہ بتادینے کے بعد وہی غلطی اگر دوبارہ ہوتی توپھر خیر نہ تھی، ہم امکانی حد تک غلطیوں پر قابوپانے کی پوری کوشش کرتے اورباربار تحریر کوپڑھ کر اطمینا ن کرتے؛مگر مولانا جب چیک کرنے بیٹھتے تو جو غلطیاں باربار پڑھنے کے باوجود بھی پکڑ میں نہ آتیں، نگاہ جاکر سیدھے وہیں ٹھہرتی اورزمین پاؤں کے نیچے سے سرکنے لگتی،اس ڈر کا نتیجہ یہ ہوا کہ تحریروں میں باربار ہونے والی غلطیوں پربڑی حد تک ہم جلدی قابوپاگئے، مولانا کی طرح تحریروں کی اصلاح کرنے والا میں نے نہیں دیکھا،پیچیدہ سے پیچیدہ گتھیاں بیک جنبش خامہ سلجھ جاتی تھیں۔

            مولانا ہم طلبہ کواپنی تمرینی وغیرتمرینی تحریروں میں صحت املا اوررموز اوقاف کے استعمال کی تاکید کرتے اورپابند بناتے،ہم کندہ ناتراش کی صورت میں ان کے پاس پہنچے تھے،خط واجبی انداز کا، املاکے قواعدسے بے خبر،رموز اوقاف سے ناواقف،ہم سے بکثرت فروگذاشتیں ہوتیں، جن سے مولانا کوبڑی اذیت ہوتی ؛مگر ان چیزوں کونظراندازکرکے گذرنے والے نہ تھے،وہ ہر قیمت پرہمیں ٹھیک کرنا چاہتے؛ مگر افسوس!کہ ہم اپنی سہل انگاری اورلاابالی پن کی وجہ سے ان باتوں کے پوری طرح پابند نہ ہوسکے:

تہی دستانِ قسمت را چہ سود از رہبرِکامل

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4،  جلد:106‏،  رمضان المبارك 1443ھ مطابق اپریل  2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts