از: مفتی قیام الدین قاسمی سیتامڑھی
استاذ یونیک ریسرچ سینٹر پالن پور گجرات،
تخلیقی صلاحیتوں کا حامل بننے میں ہمارے لیے کیا موانعات ہوتے ہیں؟
۱- پیسے کی قلت:دیکھئے طلبا کی اکثریت غریب ہوتی ہے تو وہ دورانِ تعلیم اور فراغت کے بعد بھی محض اپنی مالی تنگی کو دور کرنے کے بارے میں سوچنے پر مجبورہوتے ہیں، اور غربت امکانات کی دنیا کو محدود کردیتی ہے، تخلیقی سوچوں پر پہرے بٹھادیتی ہے، ہمیں کوئی آپشن نہیں ملتا تو امامت یا پڑھانا شروع کردیتے ہیں اور جیسے ہی جاب کا کوئی آفر آیا تو اس تدریس کو بھی خیر آباد کہ دیتے ہیں کیوں کہ تدریس میں اچھے پیسے نہیں ملتے، اور مالی پریشانی کا حل نکالے بغیرتخلیقی صلاحیتیں پیدا کرنے کے ہزار طریقے بتانا بھی بے سود ہیں، الا یہ کہ پیسوں کی طلب ہی دل سے نکال دی جائے اور قناعت پسندی کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا جائے، اس کا حل آٹھویں قسط میں پیش کیا جاچکا ہے۔
۲- والدین کی توقعات:بیٹا کچھ اور کرنا چاہ رہا ہے لیکن والدین کچھ اور توقعات لگائے بیٹھے ہیں اور عموماً بیٹا والدین کی پسندکو اپنانے پرمجبور ہوتا ہے۔
۳- بیوی بچوں کی فکر:شادی سے پہلے ہمارا نوجوان اس لیے پڑھتا ہے کہ اچھاکماؤں گا تو اچھے گھرانے کی بیوی ملے گی اور شادی کے بعدیہ سوچتا ہے کہ اب پڑھائی وڑھائی سے تو میرے بیوی بچوں کا پیٹ بھرے گا نہیں تو پڑھ کے کیا فائدہ۔
۴- آئیڈیاز اور تخلیقیت کی ناقدری:میرے ذہن میں کوئی نئی چیز آتی ہے یا میں سوال کرتا ہوں تو اس تجسس و جدت کی قدر کرکے اس کا جواب دینے اور حوصلہ افزائیکے بجائے ڈانٹ دیا جاتا ہے یا پھر یہ کہ دیاجاتا ہے کہ آئندہ آئے گا یا پھر یہ کہ یہ کوئی نئی چیز تھوڑی ہے۔
۵- غباوت کا طعنہ:پڑھائے جارہے فن یا فنون سے دلچسپی نہیں تو اب اس مخصوص فن میں کامیاب نہ ہونے پر ہمیں غبی ہونے کا طعنہ دے دیا جاتا ہے۔
۶- کثرتِ مطالعہ والی ذہنیت:یہ سوچنا کہ جب تک میں ہزاروں کتابیں مطالعہ نہ کرلوں خود سے سوچنا بے کار اور بے سود ہے۔
۷- عدم ارتکاز:مختلف خیالات کا ہجوم اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ کسی ایک سوچ پر ہم فوکس کر ہی نہیں پاتے اور آئن اسٹائن نے کہا ہے it is not that I’m so smart it is just that I stay with problems longerکہ میرے اتنے بڑے کارنامے انجا م دینے کی وجہ یہ نہیں کہ میں بہت اسمارٹ ہوں؛ بلکہ میں کسی مسئلے اور اس کے حل پر دوسروں سے زیادہ دیر تک سوچتا اور اس پر کام کرتا ہوں۔
تخلیقی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے ہم کیا کریں؟
موبائل، مقابلہ جاتی پروگرام، ایوارڈز وغیرہ کے حوالے سے کچھ طریقے ہم نویں قسط میں پیش کرچکے ہیں، مزید یہ رہے:
۱- سب سے پہلے اپنے ذہن میں یہ چیز بٹھائیں کہ دنیا کی سب سے قیمتی شئی دماغ کادیا ہوا آئیڈیا ہے چاہے ہمیں لاکھ نظر آرہا ہو کہ ہر چیز پیسے سے ہورہی ہے؛لیکن غور کریں کہ صرف سونا ہے جو اللہ جل جلالہ نے پیدا کیا ہے ورنہ تو یہ پیسے یہ کرنسی بھی انسانی دماغ کی پیداوار ہیں، جب ہمیں خلیفہٴ ارضی بنایا گیاتو دوسرے حیوانوں اور ہم میں سب سے بڑا فرق یہ رکھاگیا کہ ہمیں دماغ کی انوکھی قوت عطا کی گئی، خود ایمان بھی ایک تصور ایک آئیڈیا ہے جسے میں ناقابلِ تغلیط و تبدیل سمجھتا ہوں تو وہ میرا عقیدہ و ایمان بن جاتا ہے یعنی اسلام کے پانچ ارکان میں بھی اولیت آئیڈیا کو ہی حاصل ہے۔
۲- تبدیلی لانے اور کچھ نیا کرنے کا خواب دیکھیں:انگلش کا مقولہ ہے necessity is the mother of invention ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے، جب تک ہم تبدیلی کا خواب نہیں دیکھتے اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے جب تک ہم دنیا کو کچھ نیا دینے کی تڑپ اپنے اندر نہیں رکھتے تب تک ہم نہ حقیقی معنوں میں علم حاصل کرسکتے ہیں نہ اپنے مشن کی تعیین کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنی ترجیحات کی، بس دوسروں کی سالوں کی محنت نقل کرنے کو ہی اپنی تخلیقیت و صلاحیت کی معراج سمجھ بیٹھیں گے حالاں کہ یہ صرف پہلی سیڑھی ہے۔
۳- مقصد اور مقصد تک پہنچانے والے گولز (ذیلی منزلوں)کی تعیین:مقصد اور گول کا فرق اچھی طرح سمجھیں، حصولِ مقصد کے درمیان کے مختلف پڑاؤ ذیلی مقاصد یا گول کہلاتے ہیں، ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے اس پر ہم مسلمانوں کو زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ یہ چیز ہمیں قرآن و حدیث سے مل جاتی ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد عبادت و رضائے رب، تبلیغِ دین، اپنی اور معاشرے کی دینی و دنیوی مصالح کا حصول اور دینی و دنیوی مفاسد کا دفعیہ اور خدمت اسلام و مسلمان
ہونا چاہیے لیکن ان مقاصد کے حصول کے لیے راستے کیا کیا ہوسکتے ہیں، ہم سب سے پہلے ان امکانات کا احصاء کریں اور پھر کسی ایک لائن یا چند لائنوں کو گول بناکر ان پر محنت شروع کریں۔
۴- لائبریری سے دوستی کریں اور تمام فنون پر سرسری نظر ڈالیں:کیوں کہ کتابوں سے مخلص کوئی دوست نہیں ہوسکتا، وہاں جاکر تمام فنون کی چیدہ چیدہ کتابوں کامطالعہ کریں خواہ ہمیں دل چسپی ہو یا نہ ہو، اور یہ سمجھ کر مطالعہ کریں کہ کتاب ایک روشنی ہے جس سے ہمیں اپنے چراغ کو روشن کرنا ہے تاکہ پھر آگے دوسرے ہزاروں بجھے ہوئے چراغوں کو روشن کیا جاسکے گویا ہم ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے سر لے رہے ہیں، جب تمام فنون کا مطالعہ کرلیں گے تو خود بخود ہمیں کسی ایک یا چند فنون میں دل چسپی نظر آنے لگے گی۔
۵- ذہانت کی گیارہ قسموں میں حصہ لیں:
(۱) لسانی ذہانت ، (۲)نمبر اور معقولیت والی ذہانت، (۳)تصویری ذہانت،(۴) نغماتی ذہانت، (۵) جسمانی ذہانت، (۶)سماجی ذہانت، (۷) جذباتی و نفسیاتی ذہانت، (۸) طبیعیاتی فطرتی ذہانت، (۹)آئیڈیائی ذہانت، (۱۰)روحانی ذہانت،(۱۱)وجودی ذہانت، (تفصیل پھر کبھی) ان سب میں حصہ لیں، ان سب کا ٹیسٹ چکھیں پھر جس نوع میں دماغ زیادہ چلے زیادہ لذت ملے اس کا انتخاب کرلیں۔
۶- غور و فکر سے دوستی کریں:لائبریری میں کتابوں کا مطالعہ کریں مگر اس سوچ کے ساتھ کہ یہ ہمیں فکریں عطا کرنے میں محض مددگار ثابت ہوسکتی ہیں، اپنی صلاحیتوں کا کل انحصار ان پر نہ رکھیں، اگر کتابیں پڑھ کر ہم خود سوچنے کے قابل نہیں ہوپاتے تو پھر کثرت مطالعہ ہمیں سوائے دوسروں کے سامنے اپنی دھاک بٹھانے کے اور کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا، تصور کریں کہ دنیا کے بڑے بڑے مفکروں کے زمانے میں کتابیں نہیں تھیں، صرف سوچیں تھیں، تو ہم بھی سوچیں، دن میں کم از کم دو گھنٹے نکالیں ابتداء ً اور ایک سوچ متعین کریں اور اکیلے بندکمرے میں یا کھلے آسمان کے نیچے چھت پر بیٹھ کر یا گھومتے پھرتے سوچتے رہیں، لیکن ایک ہی چیز پر سوچیں اگرچہ مختلف زاویوں سے کیوں نہ ہو کیوں کہ قوتِ ارتکاز ہماری سوچوں میں گہرائی پیدا کرتا ہے۔
۷- حصولِ معلومات و تجربات اور ان کی پروسیسنگ کا تناسب ملحوظ رکھیں:معلومات عموماً کتابوں سے اور تجربات عموماً اپنے بڑوں سے حاصل ہوتے ہیں مگر وہ معلومات و تجربات مفید اور ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے والے تب ہی بنتے ہیں جب ہم خود ان کا تجزیہ کرتے ہیں ان سے نتائج نکالتے ہیں، لہٰذامطالعے اور تجربے کے علاوہ ہمارے دن کا تہائی یا چوتھائی حصہ ان معلومات وتجربات پر سوچتے ہوئے گزرنا چاہئے، کیوں کہ دماغ جب مطالعے یا پڑھائی کے وقت فوکس موڈ میں ہوتا ہے تو محدود طور پر سوچتا ہے لیکن جب آرام یا نہانے یا ریلیکس کرتے وقت diffuse موڈ میں ہوتا ہے تو وہ غیر متعلقہ چیزوں کو بھی اس سے متعلق کردیتا ہے کیوں کہ یہاں حد بندی نہیں ہوتی تو اس وقت زیادہ اچھا سولوشن نکل سکتا ہے، گویا فوکس موڈ میں شعور اور ڈی فیوژ موڈ میں لاشعور کام کررہا ہوتا ہے گویا درسی اوقات سے زیادہ اہم خارجی اوقات میں سوچی جانے والی فکریں ہیں کیوں کہ ہمارا زیادہ وقت خارجی ہی ہوتا ہے اس لیے مطالعے اور نتیجہٴ مطالعہ پر غور کے لیے خاطر خواہ وقت نکالیں۔
۸- منطقی طریق استدلال سیکھیں:اس سلسلے میں استخراجی طریقہٴ استدلال deductive reasoning اور استقرائی طریقِ استدلال inductive reasoning پر اپنی زندگی میں موجود مسائل اور سوچوں کے ذریعے عملی مشق کریں تاکہ استخراج کے ذریعے ہم مسائل کے صحیح تفہیم و تجزیے پر قادر ہوسکیں اور استقراء کے ذریعے ہم امکانات اورآپشنز میں اضافہ کرکے چیزوں کو مختلف زاویوں سے دیکھ سکیں اسی طرح ہمیشہ دو چیزوں کے درمیان نسبت (correlation) پر سوال اٹھایا کریں خصوصاً نسبتِ تلازم و تضاد پر کیوں کہ اکثر ہمارا کامن سینس دو چیزوں کے درمیان تلازم یا تضاد کی نسبت قائم کرلیتا ہے لیکن ڈیپ سینس اور امعانِ نظر کے بعد وہ تلازمہ یا تضاد فرضی اور سطحی نکل آتا ہے نیز کبھی ہم دو الگ چیزوں کے درمیان تمیز (differentiation) نہیں کرپاتے، کبھی اشیاء کے درمیان صحیح ارتباط (association) نہیں پیدا کرپاتے، کبھی حل کے متعدد امکانات (possibility) کا مکمل احصاء نہیں کرپاتے اپنے ذہنوں میں پہلے سے موجود کسی حدبندی (limitation) کی بناپر، اسی کو انگلش میں collect and connect اور divergent and convergent thinking کہتے ہیں۔
۹- آئیڈیاز سوچتے وقت نہ تو خود تنقید کریں اور نہ کسی تنقیدی دوست کے سامنے پیش کریں:دیکھیں دماغ کے دو حصے ہیں سائنس کے مطابق دایاں حصہ (hemisphere) آئیڈیائی اور تصوراتی ہے اور بایاں حصہ تجزیاتی اور تنقیدی، ہر ایک کا اپنا کردار و اہمیت ہے لیکن جب ہم کسی نئے آئیڈیا پر کام کررہے ہوں تو اس پر کبھی بائیں حصے کو حاوی نہ ہونے دیں اور نہ کسی تنقید کے شوقین دوست سے اس پر ڈسکس کریں ورنہ ابتداءً تنقید ہماری تخلیقیت کو کھاجاتی ہے، پہلے اس فکر کی کھچڑی پکائیں جب پوری پک کر تیار ہوجائے پھر بائیں دماغ اور تنقید کے شوقین دوستوں کی تنقید سے اس کی تنقیح کریں، تاکہ اس کی خامیاں کھل کر سامنے آئیں اور اسے مزید سنوارسکیں۔
۱۰- سوالات قائم کریں:السوال نصف العلم اور غور کریں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سامنے موجود بچے عبد اللہ بن عباس رض کی تربیت کیسے کی کہ جب وہ چھوٹی عمر میں مجلس نبوی میں بیٹھ کر سوال کرتے تو دیگر صحابہ ان کو ادب اور خاموش رہنے کی نصیحت کرتے مگر حضور ان کی حوصلہ افزائی فرماتے اور بعد میں عمر ان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایاکرتے ”لہ لسان سؤول وقلب عقول“، تو جب تک ہم سوال کرنے کی عادت نہیں ڈالتے علم ہم سے دور رہے گا، ایک سوال قائم کریں کم ازکم تین دن اس پر خود سوچیں۔
۱۱- بحث و مباحثے و دعویٰ میں دل چسپی لیں:ہم نے پڑھا، سوچا اور سوالات قائم کیے اب آتا ہے مباحثے کا وقت، یاد رکھیں دعویٰ علم کا بہت اہم جزو ہے، مثلاًمطالعے کے بعد ایک ہائیپوتھیسس hypothesis ایک مفروضہ بنانا اور اس کے دلائل ڈھونڈنا اور اس کے قوت و ضعف پر بحث کرنا، دنیا کے سب سے بڑے فلسفی سقراط فلسفی اسی وقت شمار کئے گئے جب وہ ایتھنز میں منعقد مجلسوں میں بیٹھ کرصاحبانِ مجلس سے بحث کرتے اور ان کو لاجواب کردیتے، مباحثہ ایک ایسی چیز ہے جو ہمارے ذہن کو جلا بخشتا ہے، ہماری قابلیت اور غلطیاں ہمارے سامنے سامنے لاتاہے، خود کو کسی مشن یا سوچ سے جوڑے رکھنے کا اس سے اچھا طریقہ نہیں ہوسکتا کہ اجتماعی طور پر کسی موضوع پر بحث کریں، اسلاف کی آپ بیتیاں اس پر دال ہیں۔
۱۲- صاحبِ ثروت اہل ذوق ساتھیوں سے دوستی کریں:تاکہ اگر ہم اپنی غربت کی وجہ سے کتابیں نہیں خرید پارہے تو ہماری ذوق کی آبیاری ان کے پاس موجود کتابوں سے ہوسکے ورنہ ہوتا کیا ہے کہ جب ہمارے اندر کسی فن کا شوق ہوتا ہے اور پھر ہمارے ذوق کے مطابق کتابیں نہیں مل پاتیں تو انسان کا ذوق مرجاتا ہے اور ذوق تخلیقیت کی پہلی سیڑھی ہے۔
۱۳- کچھ دوست ایسے رکھیں جن سے ہم سیکھیں اور کچھ دوست ایسے رکھیں جن کو سکھائیں اور جن کی غلطیوں کی تصحیح کریں:اسی کو دوسرے الفاظ میں یوں کہ سکتے ہیں کہ شاگرد بھی بنیں استاذ بھی بنیں تاکہ افادہ و استفادہ دونوں ساتھ میں ہوکیوں کہ محض سکھانے والا دوست ہمارے اندر خامیاں نکالتا ہے تو ہوسکتا ہے ہمیں احساس کمتری میں مبتلا کردے اور محض سیکھنے والا دوست ہمارے اندر ایک مثبت چیز یہ پیدا کرتا ہے کہ تصحیح اور خامیاں نکالنے کے صدقے ہمارے اندر قوتِ تجزیہ پروان چڑھ رہی ہوتی ہے لیکن اس کا منفی اثر بھی عجب و تکبر کی شکل میں سامنے آسکتا ہے کہ یہ لوگ مجھ سے اتنا متاثر ہیں اس کا مطلب مجھے تو سب آتا ہے اورپھر یہ عجب مزید علم کی جستجو ہی ہمارے اندر سے ختم کردے گا۔
۱۴- ہاتھ سے لکھنا شروع کریں:یہ تصور کہ ایک صفحہ لکھنے کے لیے ہزار صفحات کامطالعہ ہونا چاہئے کسی خاص نوع کے متعلق تو معقول ہے لیکن اپنے عموم کے لحاظ سے غلط، انسان جب سے پڑھنا شروع کرے اسی وقت سے لکھنا شروع کرے کیوں کہ لکھنا پڑھنے کے عمل کو خوبصورت اور دقیق بناتا ہے، فرنٹئیر اِن سائیکالوجی میں 2020 کی ایک ریسرچ پیپر کے مطابق بچوں کی دماغی کارکردگی پر ایکسپریمنٹ اور تجربہ کرتے ہوئے یہ سامنے آیا کہ دماغ کی ایکٹیویٹی سب سے زیادہ اس وقت تھی جب بچے ہاتھ سے لکھ رہے تھے۔
۱۵- چاپلوس نہ بنیں مگر بڑے اور کام کے لوگوں سے تعلقات ضرور بنائیں:آج کی نئی نسل تھوڑی ضرورت سے زیادہ بے نیاز ہوچلی ہے، ہمیں دوسرے کے سامنے جھکنا اور مدد مانگنا ہمیشہ چاپلوسی معلوم ہوتا ہے، یاد رکھیں کہ یہ فطرت کا اصول ہے کہ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے، غریب کو اگر اپنی غربت دور کرنی ہے تو اسے کچھ عرصہ امیروں کی صحبت میں رہنا ہوگا، دھیروبھائی امبانی کا واقعہ یاد ہوگا، جاہل کو اگر عالم بننا ہے تو اسے ایک مدت عالموں کیساتھ رہنا ہوگا، اسی طرح اگر کسی کو کسی فیلڈ میں بڑے مقام پر پہنچنا ہے تواس فیلڈ کے اونچے مقام و منصب والوں کے ساتھ رسم و راہ بڑھانی ہوگی، اسے بنیادسمجھنا ہمیں چاپلوس بناتا ہے اور اپنی صلاحیت کو بنیاد بناکر اسے معاون بناناہماری صلاحیتوں کی صحیح کھپت کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے، ورنہ تو اسے مکمل مضر سمجھ کر ہزاروں صلاحیت والے اسی زعم میں خانماں برباد ہوئے بیٹھے کہ ہم صلاحیت والے ہیں وہ ہمارے پاس آئے ہم کیوں جائیں اس کے پاس، بہرحال ہم جس فیلڈ میں بھی ہیں اس فیلڈ کے بڑوں سے ربط رکھنا بہت ضروری ہے۔پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ
۱۶- ڈایاگرام اور نقشوں کے ذریعے چیزوں کو لکھیں پڑھیں اور یاد کریں:چوں کہ ذہن مربوط چیزوں کو جلدی کیچ کرتا ہے نیز دماغ کے خلیے بھی اسی طرح ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں تو ظاہری مشابہت ہونے کی وجہ سے بھی ڈایاگرام اور مائنڈمیپنگ کے ذریعے لکھنا ہماری تخلیقی صلاحیت اور یادداشت کی قوت میں اضافہ کرتاہے۔
۱۷- چار پانچ کلر والے قلموں یا رنگین sticky notes کا استعمال کریں:ہارورڈ کے نیورو سائنس دانوں کی ریسرچ کے مطابق ہمارے دماغ کے مختلف حصے مختلف رنگوں کوپروسیس کرتے ہیں تو اگر ہم ایک کلر میں دیکھ رہے یا لکھ رہے ہیں تو دماغ کاایک چھوٹا حصہ کام کرتا ہے اور وہی چیز اگر ہم مختلف رنگوں میں لکھیں گے توپھر دماغ کے زیادہ حصے پروسیس کریں گے اور وہ زیادہ دیر یاد رہیں گی اور اس کیکام کی رفتار بھی بہت زیادہ تیز ہوجائے گی۔
۱۸- موبائل کے سارے نوٹیفیکیشنز بند کردیں:کیوں کہ اس وقت سب سے زیادہ دھیان بھٹکانے والی اگر کوئی چیز ہے تو وہ نوٹیفیکیشن ہے، ان ایپس کو اتنی اوقات نہ دیں کہ وہ ہمارے دھیان کو بھٹکاسکیں، صرف ضرورت کے نوٹیفیکیشن کے علاوہ سارے نوٹیفیکیشنز بند کردیں۔
۱۹- اپنے انٹرٹینمنٹ اور سنجیدہ کاموں میں تناسب برقرار رکھیں:انٹرٹینمنٹ دماغ کو ریفریش کرنے کے لیے ضروری ہے؛ لیکن دھیان رہے کہ انٹرٹینمنٹ کا تناسب تیس فیصد سے آگے نہ بڑھنے پائے ورنہ ہماری تخلیقی صلاحیتیں ماند پڑ جائیں گی اورہماری زندگی بس ایک مذاق بن کر رہ جائے گی۔
۲۰- قناعت پسند عورت سے ہی شادی کریں:شادی کے بعد کی پوری زندگی بیوی کے مزاج و اوصاف پر منحصر ہوتی ہے اس لیے کبھی پیسوں کی لالچی عورت سے شادی نہ کریں وہ پیسوں کی قلت کی دہائی دیکر علمی دنیا چھوڑنے پر بھی مجبور کرے گی اور بچوں کو بھی اسی قسم کی مادیت پرستار بنائے گی نتیجةً تخلیقی صلاحیتیں صرف ہم سے نہیں ہماری نسلوں سے بھی چھن جائیں گی، اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کیا ہے، اس لیے شادی کے وقت اس سے اس کی پسند ناپسند ترجیحات اور قناعت اور ذہنیت کا سوال کرکے اندازہ لگالیں کہ یہ ہمارے حصولِ علم میں مانع تو نہیں بنے گی؟
۲۱- دماغ کو غذا پہنچائیں:جس طرح جسم کی بھوک مٹانے کے لیے ہم کھانا کھاتے ہیں اسی طرح دماغ سے غیر معمولی کام لینے کے لیے روزمرہ صحت مند غذاؤں کے ساتھ ساتھ اس کی مخصوص غذاؤں کا اضافہ کرنا ہوگا، ریسرچ کے مطابق ہمارا دماغ fat کے وافر مقدار مشتمل ہوتا ہے اور اس کی چکناہٹ دماغ کے ایک خلیے سے دوسرے خلیے تک معلومات تیزی سے منتقل کرنے میں مدد کرتی ہے جسے neuroplasticity کہتے ہیں اوراس کے لیے fatty acid اومیگا تھری بے حد مفید ہے، اومیگا 3 کی تین قسمیں ہیں:
ALA, EPA, DHA پہلی قسم اخروٹ، انڈے اور کچی سبزی وغیرہ سے حاصل ہوتی ہے اور بقیہ دو مچھلی اور اس کے تیل سے حاصل کی جاتی ہیں اسی لیے مچھلی کھانے والے لوگ ذہین ہوتے ہیں، لہٰذا اخروٹ اور مچھلی یا اس کا تیل روزانہ استعمال کیاکریں۔
۲۲- جسمانی ورزش کریں:جو ورزشیں دل کی دھڑکن اور سانسوں کی رفتار کو تیز کرتی ہیں (aerobics) مثلاً دوڑنا، سائیکل چلانا، تیراکی ذہن کے لیے مفید ہیں کیوں کہ یہ دماغ میں خون کے دورانیے کو تیز کردیتی ہیں، انرجی میٹابولزم میں اضافہ کرتی ہیں، خوشی اور ایکسائٹمنٹ سے تعلق رکھنے والے نیورو ٹرانسمیٹر مثلاًڈوپامین سیریٹونین کی مقدار میں اضافہ کرتی ہیں نتیج?ً ہماری دماغ کی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے۔
۲۳- سوچتے اور پڑھتے وقت وقفے وقفے سے پانی پیتے رہیں:نیورو سائنس کہتی ہے کہ پانی ہمارے جسم میں ساٹھ فیصد ، اعصاب میں پچھتّر فیصد اور دماغ میں اسی فیصدیعنی سب سے زیادہ موجود ہوتا ہے، یعنی پانی کی کمی سب سے زیادہ دماغ کو متاثرکرتی ہے، ایسے لوگ سر کے درد اور فوکس نہ کرپانے کے شکار ہوجاتے ہیں، اورریسرچ یہ بتاتی ہے کہ پانی بھرپور مقدار میں پینے پر دماغ چودہ فیصد تیز کام کرتا ہے۔
۲۴- خوابوں کو اہمیت دیں:یہ ہماری بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ ہم نے شریعت میں اس کے حجت نہ ہونے کو اپنے لیے بھی اہم نہ ہونے سے خلط ملط کردیا ہے، اچھی طرح سمجھ لیں کہ غیر نبی کا خواب شریعت میں حجت نہیں لیکن انسان کی اپنی زندگی میں خوابوں کی بڑی اہمیت ہے، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب کو نبوت کا چالیسواں حصہ قرار دیا ہے اور فجر کے بعد مجلس میں صحابہ اپنے خواب حضور سے بیان کیا کرتے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعبیر بتایا کرتے تھے، مغرب میں فرائیڈ وغیرہ نے اس پر کافی کام کیا ہے، بہرحال نیند سے اٹھنے کے بعد سب سے پہلے کلمہ پڑھیں اور پھر اپنے خواب کے بارے میں سوچیں کہ میں نے کیا خواب دیکھا اور پھر معبرین سے اس کی تعبیر پوچھیں، کبھی کبھی دن بھر سوچے جانے والے مسئلے کا حل اور کبھی مستقبل کی خوش خبریاں یا احتیاط کے اشارے خوابوں سے مل جاتے ہیں، یہ بڑا المیہ ہے کہ ہمارے یہاں سے اب معبرین ناپید ہوتے جارہے ہیں۔
۲۵- کسی تنظیم سے جڑکر زمانہٴ طالب علمی سے ہی فلاحی و سماجی کاموں میں حصہ لینا شروع کردیں:اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم لوگوں کے احوال و مسائل سے واقف ہوسکیں گے، اپنے تجربات، سماجی ذہانت، لوگوں کے تئیں ہمدردی، نفع رسانی کے جذبے اورتجزیاتی قوت میں اضافہ کرکے اپنی ترجیحات کی تعیین کرسکیں گے ویسے تو پچاسوں طریقے بیان کئے جاسکتے ہیں لیکن بندہ نے انہیں طریقوں کا انتخاب کیا ہے جنہیں اپنی زندگی میں برتتا ہے تاکہ مضمون کے ذریعے محض ریسرچ کی ترسیل نہ ہو بلکہ خیالات کی ترسیل کے ساتھ ساتھ عمل کی ترسیل بھی ہوسکے اور ان کا ہماری عملی زندگی میں اثر ہو مزید چند پوائنٹس ہیں جن کا طلبا کے مقابلے اداروں سے زیادہ لینا دینا ہے اس لیے ہم انھیں اگلے مضامین کے لیے رکھ چھوڑتے ہیں یہ مشن تقویتِ امت پر لکھے گئے مضامین کی دسویں قسط ہے۔
——————————————
دارالعلوم ، شمارہ : 4، جلد:106، رمضان المبارك 1443ھ مطابق اپریل 2022ء
٭ ٭ ٭