محمد سلمان بجنوری

            کرناٹک کے اوڈوپی ضلع میں حجاب کے تعلق سے پیش آنے والے واقعہ نے جس طرح عالمی سطح پر شہرت حاصل کی اور لمحوں میں اس معاملہ کو ساری دنیا میں موضوع بحث بنادیا وہ اپنے آپ میں ایک غیرمعمولی بات ہے، جس کا محرک اُس باحجاب لڑکی کا طاقت ورایمانی جذبہ تھا، جس نے بے مثال ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اپنے حجاب کی حفاظت کی؛ بلکہ دنیا کے لاکھوں مسلمانوں کے دلوں میں ایمانی جذبہ زندہ کردیا، یہ ایک نادر اور مثالی کردار تھا جو مدتوں تحریک دیتا رہے گا۔

            لیکن اسی کے ساتھ یہ واقعہ ہمارے لیے بہت سے سوالات بھی سامنے لاتا ہے جن پر غور کرنا، ہم ہندوستانی مسلمانوں کے لیے اور خود حکومت کے لیے ضروری ہے۔ سب سے پہلی اور بنیادی بات تو یہ ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں سیکولرآئین نافذ ہے جس میں تمام شہریوں کو مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے وہاں کسی بھی فرقے کے لیے اس کے مذہبی احکام پر عمل کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ پھر حجاب تو ایسا عمل ہے جس کی ضرورت ہر سلیم الفطرت انسان تسلیم کرتا ہے، خود ہمارے برادرانِ وطن کی قدیم تہذیب پر قائم باحیا عورتیں حجاب کا اہتمام کرتی آئی ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ جو لوگ مذہبی پابندیوں سے آزاد ہوکر ماحول میں فحاشی وآوارگی پھیلاتے ہیں ان کو ہرقسم کی آزادی حاصل ہے؛ بلکہ ان کے لیے ماحول مزید سازگار بنایا جارہا ہے، جس سے قدیم مشرقی اقدار اور تہذیب وثقافت کے لیے خطرات کھڑے ہوگئے ہیں اور اس بات کا حساس خود ہندومذہبی رہنماؤں اور آرایس ایس کے قائدین کو بھی ہے؛ چنانچہ اسی بنیادپر ان کی جانب سے ویلنٹائن ڈے اور اس جیسی مغربی رسوم کی مخالفت ہوتی ہے؛ لیکن دوسری طرف مشرقی اقدار اور حیاء وتقدس کی حفاظت پر مبنی حجاب کی مخالفت میں طوفان کھڑا کیا جارہا ہے، کیا صرف اس لیے کہ اس کا تعلق مسلمانوں سے ہے؟

            اسی کے ساتھ ایک سنگین سوال یہ بھی ہے کہ ایک مسلم لڑکی کو حجاب کی بناء پر جس طرح آخری درجے میں خوفزدہ کرنے کی کوشش لڑکوں کے ایک جم غفیر نے کی، اگر تصویر اس کے برعکس ہوتی، لڑکی غیرمسلم ہوتی اور لڑکے مسلمان ہوتے تو کیا اُن کو بھی اسی طرح بغیرکسی کارروائی یا مذمت کے آزاد چھوڑا جاتا؟ اور کیا اُس صورت میں ہمارا میڈیا آسمان سرپر نہ اٹھالیتا؟ اس طرح کے دوہرے معیار کیا کسی مہذب معاشرے کو زیب دیتے ہیں اور اس قسم کی غنڈہ گردی کرنے والے لوگوں کو آزاد چھوڑ کر ہم ماحول کو کس لاقانونیت اور جنگل راج کی طرف دھکیل رہے ہیں؟ کیا اس پر غور کرنا ہماری حکومتوں کے لیے ضروری نہیں ہے؟ سمجھ میں نہیں آتا کہ ملک کی دوسری بڑی اکثریت یا سب سے بڑی اقلیت جو ملک کی آبادی کا تقریباً چھٹا حصہ ہے، اس کی مذہبی آزادی کو متاثر کرنے اور اس پر قدغن لگانے کی ناروا کوششوں پر ہماری حکومت کے کارپردازوں کو تشویش کیوں نہیں ہے؛ بلکہ ایسی غیرقانونی حرکتوں پر خاموش رہ کر وہ کیوں بالواسطہ اُن کا حصہ بن رہے ہیں؟ کیا ایسا کرکے وہ ملک اور اس کے اتحاد وسالمیت کی کوئی خدمت کررہے ہیں، یا اس کے لیے خطرات پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں اپنے ملک کی بدنامی کا سامان کررہے ہیں۔

            یہاں ایک اور اہم بات ہے جس پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی ہے، وہ یہ کہ عدالت میں حجاب کے مسئلہ پر مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے وکلاء نے بلاشبہ اچھی نمائندگی کی؛ لیکن فریق مخالف کی جانب سے اٹھائے جانے والے دونکتے، خود مسلمانوں کے لیے موجب تشویش ہیں: ایک تو یہ کہ حجاب مسلمانوں کا مذہبی مسئلہ نہیں ہے۔ اس بات کی بنیاد درحقیقت اس سلسلے میں مسلمانوں کی عملی کوتاہی پر ہے۔ یہ بات کوئی راز نہیں ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد حجاب سے عملی طور پر دور ہے اور اس نے اس معاملے میں خود کو پوری طرح مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگ لیا ہے، جب کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حجاب کا حکم ایک شرعی حکم ہے اور مسلمان عورتوں کے لیے پردہ لازم ہے، جو بجائے خود بے شمار حکمتوں اور فائدوں پر مبنی ہے، اس کی پابندی نہ کرکے مسلمان ایک طرف تو گنہگار ہوتے ہیں دوسری طرف غیروں کو یہ کہنے کا موقع ملتا ہے کہ یہ کوئی اسلامی یا مذہبی حکم نہیں ہے۔ اس قسم کے تجربے اور بھی بعض معاملات میں ہوچکے ہیں مثال کے طور پر داڑھی کا معاملہ عدالت میں پیش ہوا تو یہی کہا گیا کہ داڑھی اسلام میں ضروری نہیں ہے، چنانچہ اکثر مسلمان داڑھی نہیں رکھتے ہیں۔ ایسی چیزیں ہمیں اس بات کا سبق دیتی ہیں کہ ہماری عملی کوتاہی اور اپنی شریعت پر عمل میں غفلت برتنے کا نتیجہ کتنا سنگین نکلتا ہے کہ دوسرے لوگ ہماری شریعت کے احکام ہی کو موضوعِ بحث بنادیتے ہیں، جب کہ وہ قطعی طور پر شریعت کا حصہ ہوتے ہیں، ہندوستان جیسے ملک میں اور موجودہ ماحول میں یہ بات کوئی سرسری یا معمولی چیز نہیں ہے؛ بلکہ یہ ہر صاحب ایمان کے لیے سخت تشویش کا باعث ہونی چاہیے؛ کیوں کہ یہ سلسلہ انھی مسائل پر رکنے والا نہیں ہے۔

            دوسرا نکتہ جو اس بحث میں سامنے آیا وہ یہ کہ حجاب کے شریعت کا حصہ نہ ہونے پر دلیل یہ دی گئی کہ حجاب کا حکم قرآن میں نہیں ہے؛ لہٰذا وہ شریعت کا حصہ نہیں ہے۔ اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ حجاب کا حکم قرآن میں موجود ہے، اس لیے یہ نکتہ جو پیش کیاگیا واقعہ کے خلاف ہے؛ لیکن ہمیں اس وقت اس بحث کی تفصیل میں جانے کے بجائے یہ عرض کرنا ہے کہ اگرحجاب کا حکم قرآن میں نہ ہوتا صرف احادیث سے ثابت ہوتا تو بھی وہ یقینی طور پر دین و شریعت کا حصہ تھا، یہ سمجھنا کہ شریعت کے احکام صرف قرآن سے ثابت ہوتے ہیں، کھلی گمراہی ہے حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی باتیں غیروں کی جانب سے غالباً جان بوجھ کر اٹھائی جاتی ہیں؛ لیکن ہمارے مسلمان بھائیوں کی اکثریت جو دین کے مزاج ومذاق سے بڑی حد تک نا آشنا ہے، ایسے مسلمانوں تک اس طرح کی باتوں سے بہت غلط پیغام پہنچتا ہے؛ اس لیے ہم پوری صراحت وقوت کے ساتھ اپنے مسلمانوں بھائیوں سے خاص طور پر اور تمام لوگوں سے عام طور پر یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے سارے دینی وشرعی احکام ومسائل، صرف قرآن سے ثابت نہیں ہوتے؛ بلکہ اُن کی ایک بڑی تعداد سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یعنی حدیث سے ثابت ہوتی ہے بعض مسائل اجماع امت سے ثابت ہوتے ہیں اور بعض مسائل کا حل ائمہ مجتہدین، کتاب وسنت میں مذکور احکام پر قیاس کرکے نکالتے ہیں۔ اس طرح شرعی احکام کے دلائل چار ہیں: (۱) قرآن (۲) حدیث (۳) اجماع امت اور چوتھی چیز قیاس ہے۔

            خلاصہ یہ ہے کہ کسی حکم کو قرآن میں نہ پاکر یہ سمجھ لینا کہ یہ شریعت کا حصہ نہیں ہے، کھلی گمراہی اور جہالت ہے۔ اس نکتے پر تمام مسلمانوں کو متنبہ رہنا چاہیے اور اپنے دین کی تشریح میں معتبرعلماء پر اعتماد کرنا چاہیے۔

            اس موقع پر بڑی دل سوزی کے ساتھ ایک اور بات تمام اہل ایمان سے عرض کرنا چاہتے ہیں اور وہ یہ کہ شریعت کے احکام پر عمل کرنا، بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے اور شریعت پر عمل کی آسانی دینا یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ اس ملک میں صدیاں گزرگئیں ہمیں یہ سہولت حاصل رہی اور اب بھی ہے کہ ہم آزادی کے ساتھ اپنی شریعت پر عمل کریں؛ لیکن اب اس راہ میں کچھ کچھ رکاوٹیں سامنے آنے لگی ہیں۔ کیا ہم اس پر غور کرنے کے لیے تیار ہیں کہ یہ صورت حال ہماری طرف سے، اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی سہولتوں کی ناقدری کرنے اور شریعت پر عمل نہ کرنے کا ہی نتیجہ ہوسکتی ہے۔ ہم جتنی جلد اپنی کوتاہی کا احساس کرلیں اور توبہ کا راستہ اپنالیں اتنا ہی ہمارے حق میں بہتر ہے۔

—————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 3،  جلد:106‏،  شعبان المعظم 1443ھ مطابق مارچ 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts