از: مولانا محمد نعمان بن خلیل اللہ
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
اسلامی تعلیمات کے اصولی مآ خذ قرآن کریم، اور حدیث شریف کو بعینہ مکمل امانت داری کے ساتھ آنے والی نسلوں تک پہنچانے کا نام روایت ہے،اور ان مآخذ میں سموئے ہوئے موتی اور جواہرات کو نکالنے، مقصدِ کلام الٰہی اور مرادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل ادراک کو فقاہت کہتے ہیں، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جس طرح روایت کے باب میں سب سے اعلی معیار پر قائم ہیں، اسی طرح فقاہت کے باب میں بھی ان کا کوئی مثل نہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اپنے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کی دینی، عملی اور علمی تربیت کی، وہیں صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی فقہی تربیت بھی فرمائی۔
عہد رسالت میں فقہی تربیت کا نمونہ
مرفوع حدیث کی اقسام میں ایک قسم تقریر ہے اور یہ تقریر فقہی تربیت کا اہم ترین عنصر اور جزء ہے، جس کا عام فہم مطلب یہ ہے کہ صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین بعض حالات میں اپنی صواب دید پر، موقع محل کے مناسب، کوئی عمل کر لیتے ، پھر آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واقعہ عرض کرتے ، جو عمل اسلامی روح اور مراد شریعت کی عین موافق ہوتا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تصویب فرماتے، سب کے سامنے حوصلہ افزائی فرماتے اور جب اس کے خلاف کوئی عمل سامنے آتا تو برملہ برات فرما دیا کرتے ، مسبوق شخص کس طرح اپنی نماز پوری کرے گا، یہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ت 18ھ) کے عمل سے معلوم ہوا، ان کے اس اجتہادی عمل کی نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصویب فرمائی؛ بلکہ ان کے اس عمل میں ان کی پیروی کا حکم دیا(۱)، اُسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے میدان جنگ میں ایک نو مسلم شخص قتل ہو گیا، یہ ان کا اجتہاد تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برملہ ان کے اس عمل سے برات کی؛ اس لیے کہ کوئی ان کی اس خاص عمل میں اقتداء نہ کرے(۲)، یہ فقہی تربیت کا ایک نمونہ ہے اور فقہی تربیت کو جانچنے اور پرکھنے کے لیے یہ ضروری تھا کچھ معاملات میں قرآن، اور شارح علیہ الصلاة والسلام خاموش رہیں، اور دین اسلام کے اولین علمبردارصادقین و متقین صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کسی نو وارد حادثہ، اور مسئلہ کا شکار ہوکر موجودہ ذخیرہ علم کو سامنے رکھ کر اپنے غور و فکر سے کوئی عمل کر گزریں، اور شارح علیہ الصلاة والسلام اس پر خاموشی اختیار کریں، یا تصویب، اور حوصلہ افزائی فرمائیں، یا پھر اس سے روک دیں۔
دین کا ایک بڑا حصہ تقریراتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ، کئی عبادات و معاملات اور شرعی احکام تقریرات ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ہم تک پہنچے ہیں اور چونکہ تقریراتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنم کی فقاہت شریعت کے کامل ادراک پر کھلی دلیل ہے، جس سے فقہاء صحابہ کی پیروی کرنا بھی لازم آتا ہے، تو ائمہ مجتہدین کی فقہی خدمات کو بھی خراج تحسین پیش کرنا چاہیے ، اور ان کی اتباع کو اپنی نجات کا ذریعہ گرداننا چاہیے کیوں کہ جس طرح روایت کے باب میں اولین سہرا اولین مخاطبین کے سر پر ہے اور اس کے بعد یہ نصیب محدثین کرام کو حاصل ہوا ہے اور ان کی روایت کو دینی امور میں اس طرح قبول کرنا، جس طرح صحابی کی روایت کو قبول کرنا ضروری ٹھہرا ہے، تو اسی طرح فقاہت و اجتہاد بھی موروثی ہے، جس طرح صحابی کے اجتہاد کے اتباع کا حکم ہے، اسی طرح ائمہ مجتہدین کی فقاہت کا اتباع بھی مطلوب ہے۔
عہد صحابہ و تابعین میں فقہی تربیت کی مثال
اگر دل میں یہ خیال گزرے کہ صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی فقاہت کی تربیت تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کی؛ اسی لیے ان کے اجتہاد کو قبول کیا گیا ہے، جب کہ أئمہ مجتہدین کی فقاہت تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت سے نہیں گزری۔
تو ہر گز اس خیال کو دل میں نہیں پنپنے دینا چاہیے کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح فقہی تربیت کرکے صحابہ کو فقیہ بنایا، اسی طرح انہیں فقہی تربیت کرنے کا طریقہ بھی سکھایا ہے؛ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے صغار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین کی فقہی تربیت فرمائی، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے ساتھ مشاورتی مجالس میں رکھنا ، ان کی فقہی تربیت کا حصہ تھا ، اسی طرح بعض تابعین نے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے پاس رہ کر فقہی تربیت پائی، جیسے سعید ابن المسیب (ت 94ھ) نے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ (ت 59ھ)کی خدمت میں، علقمہ رحمہ اللہ تعالی(ت 62ھ)نے حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ(ت 32ھ) کی خدمت میں رہ کر فقاہت کا درس لیا، اور مدینہ کے فقہاء سبعہ نے بھی فقہاء صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے تربیت پائی تھی ، یہی سلسلہ چلتا ہوا ائمہ متبوعین تک پہنچتا ہے، جس دلیل و حکم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی فقاہت و اجتہاد کا اتباع لازم ہے، اسی حکم سے ائمہ متبوعین کے اجتہاد کا اتباع ضروری ہے۔
انہی تربیت یافتہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ایک نام عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے۔
حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کے مختصر حالات
عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیدائش واقعہ فیل کے دس سال بعد مکہ مکرمہ میں ہوئی ، دار ارقم کے قیام سے کچھ قبل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دست مبارک پر مشرف بہ اسلام ہوئے ، حبشہ اور مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی، مدینہ منورہ کے نامور تاجروں اورغنی و مالدار صحابہ میں شمار ہوتا ہے، تمام غزوات میں شرکت کی، سریہ دومة الجندل میں لشکر کے امیر مقرر کیے گیے، سخاوت و ضیافت میں مشہور ہیں، عشرة مبشرہ میں سے ایک ہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت کی سپردگی کا کام جن چھ صحابہ کے ذمہ لگایا تھا ان میں ایک نام آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا تھا، بعد ازاں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کا حتمی فیصلہ آپ ہی نے کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وصال کے بعد امہات المؤمنین کی ذمہ داری آپ کے سپرد فرمائی، فقہاء ِ سبعہ میں حضرت أبو سلمہ رحمہ اللہ تعالیٰ آپ ہی کے فرزند ہیں، 32 ہجری میں وفات پائی۔(۳)
حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فقاہت ائمہ کے اقوال کی روشنی میں
ابن القیم الجوزیة(751ھ) رحمہ اللہ تعالیٰ ”إعلام المؤقعین عن رب العالمین“ میں فرماتے ہیں کہ 130 سے زائد صحابہ اور صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہم و عنہن سے فتاوی محفوظ کیے گئے ہیں،اور فقہاء صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے تین طبقے نقل کیے ہیں۔
۱- المکثرون من الفتیا: جن سے بہ کثرت فتاویٰ منقول ہیں،اس طبقہ میں سات لوگوں کا شمار ہوتا ہے عمر بن الخطاب، علی بن ابی طالب، عبد اللہ بن مسعود، عائشہ ام المومنین، زید بن ثابت، عبداللہ بن عباس اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم ،ابن حزم رحمہ اللہ تعالی(456ھ) فرماتے ہیں کہ ان میں ہر صحابی رضی اللہ تعالی عنہ کے فتاویٰ پر ایک ضخیم کتاب جمع کی جا سکتی ہے۔
۲- المتوسطون فی الفتیا: جس میں 13 صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو شمار کیا گیا ہے، ابو بکر صدیق، عثمان بن عفان، ام سلمہ ام المومنین، ابو ھریرہ، ابو سعید الخدری، انس بن مالک، عبد اللہ بن عمروبن العاص، عبد اللہ بن زبیر، ابو موسیٰ اشعری، سعد بن ابی وقاص، سلمان فارسی، جابر بن عبد اللہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ،ابن حزم رحمہ اللہ تعالی (456ھ) فرماتے ہیں کہ ان میں سے ہر صحابی کے فتاویٰ کو ایک مختصر رسالہ میں جمع کرنا ممکن ہے۔
ابن قیم فرماتے ہیں کہ اسی طبقہ میں عبد الرحمن بن عوف اور معاویہ بن سفیان اور کچھ دیگر صحابہ کو بھی شمار کیا جا سکتا ہے۔
۳- المقلون من الفتیا:جن سے بہت کم فتاویٰ منقول ہیں جن کے ناموں کی ایک طویل فہرست ہے۔(۴)
علاوہ ازیں ابن سعد (ت 320ھ )نے طبقات میں(۵) ابن الجوزی نے (ت 597 ھ) تلقیح الفہوم میں(۶)، حافظ ابن حجر( ت 852ھ) نے الإصابة میں(۷) ، عبد الحی الکتانی نے التراتیب الإداریة(۸) میں سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شمار ان صحابہ میں کیا ہے جو عہد رسالت میں فتویٰ دیا کرتے تھے۔
حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فقہی استنباطات
(۱)آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا امامت کے لیے آگے بڑھنے کا استشہاد اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توثیق:
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فقاہت پر سب سے بڑی، اور پہلی دلیل غزوہ تبوک کے سفرکا وہ واقعہ ہے، جس میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فجر کی نماز میں صحابہ کی امامت کرائی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی اقتداء میں نماز ادا فرمائی(۹)۔
اس واقعہ کی تین دفعات سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فقاہت ثابت ہوتی ہے۔
۱- وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے امامت کے لیے آگے پیش ہونا ؛کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ قافلہ سے جدا ہو کر قضاءِ حاجت کے لیے گئے ہوئے تھے، جس سے لوٹنے میں تاخیر ہوئی ، صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے آپ کا انتظار کیا؛ مگر نماز کا وقت ہو جانے کی بناء پر صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے مشورہ کیا ، ایسے وقت میں یہ فیصلہ لینا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر کوئی اور امام بنے یقینا مشکل ترین فیصلہ تھا خاص طور پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد متوقع بھی ہو؛ تاہم حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی فقہی بصیرت کی بنیاد پر آگے بڑھے، اور امامت کرائی۔
۲- صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا آپ کی امامت پر متفق ہونا، اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اسی کی امامت پر متفق ہو سکتے تھے جو علم و عمل اور فقاہت میں اعلی مقام رکھتے ہوں۔
۳- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کی اقتداء کرنا، آپ کی امامت کو برقرار رکھنا علاوہ ازیں آپ کی تائید میں یہ جملہ فرمانا :
ما قبض نبی قط حتی یصلی خلف رجل صالح من أمتہ(۱۰)
کوئی نبی اس وقت تک دار فانی سے کوچ نہیں کرتا جب تک اپنی امت کے کسی نیک آدمی کی اقتداء میں نماز نہ پڑھ لے۔
(۲) تعیین حد میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا استنباط
حدود شرعیہ وہ سرزنشیں، اور سزائیں کہلاتی ہیں جو کسی معاشرتی، اور اخلاقی و کرداری بے راہ روی کی روک تھام کے لیے شریعت کی جانب سے مقرر کی گئی ہوں، جیسے حد زنا، حد سرقہ وغیرہ، انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بگاڑ کا ایک بڑا سبب شراب نوشی ہے، گو کہ زمانہٴ جاہلیت میں شراب بکثرت پی جاتی تھی؛ مگر شریعت کی تدریجی تربیت کی وجہ سے اس کی شناعت دلوں میں بیٹھ گئی، تاہم پھر بھی کسی سے یہ جرم سرزد ہو جاتا تو کوئی مقرر حد نہیں تھی؛ بلکہ حسب حال کسی کو چالیس کوڑے مار دیے جاتے، یا اس سے کم کوئی سزا دے دی جاتی، عہد صدیقی میں چالیس کوڑے مارے جاتے؛ لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دورِ خلافت آیا اور اسلامی قلمرو میں فتوحات کی بنیاد پر مسلسل اضافہ ہو نے لگا تو اطراف کے مسلمانوں کی شراب سے قربت بڑھ گئی ،شراب نوشی کے واقعات بڑھنے لگے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجلسِ مشاورت میں یہ بات رکھی، اور فرمایا ایک حد مقرر ہونی چاہیے، اب کتنی حد مقرر ہونی چاہیے؟ اس پر گفتگو جاری تھی کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا شریعت میں مقررہ حدود میں سب سے کم حد کو مقرر کیا جائے، اور وہ ہے اسی 80 کوڑے، اسی پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی فرمایا کہ شراب پینے سے فحش گوئی اور تہمتوں کا دروازہ کھلتا ہے، اور تہمت کی سزا 80 کوڑے ہیں، تو شاربِ خمر کو بھی اسی کوڑے لگائے جائیں؛ چنانچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورے پر اسی کوڑوں کا فیصلہ کیا گیا۔
اس واقعہ میں سابق الذکر دونوں حضرات کی فقہی بصیرت اور ملکہِ استنباط و استشہاد کا ظہور ہوتاہے(۱۱)۔
(۳)استلام رکن اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اجتہادی عمل
یہ بات بالکل واضح اور مسلم ہے کہ امور عبادت میں فرائض و واجبات اور سنن کی اصطلاحات عہد رسالت میں رواج پزیر نہیں تھیں، بلکہ صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین بالخصوص فقہاء صحابہ شارع علیہ الصلاة والسلام کو عبادات کرتے دیکھتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے اور اپنی فقہی بصیرت سے اس کا درجہ متعین کرلیتے تھے، جس کی بسا اوقات حضور صلی اللہ علیہ وسلم توثیق فرماتے اسی طرزِ عمل کی ایک عملی مثال سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ کے بیان سے ملتی ہے، موصوف صحابی جلیل فرماتے ہیں کہ جب میں بیت اللہ کے طواف سے فارغ ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ استلام رکن میں آپ نے کیا عمل اختیار کیا، میں نے عرض کیا کہ کبھی استلام کیا اور کبھی چھوڑا (یعنی فرض اور واجب سمجھ کر ہمیشہ نہیں کیا بلکہ سنت و مستحب سمجھ کر کبھی استلام کیا اور کبھی ترک کیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ نے درست راہ اختیار کی(۱۲)۔
اس سے جہاں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فقاہت پر مہر نبوت ثبت ہوتی ہے، وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فقہی تربیت کا اسلوب و انداز بھی معلوم ہوتا ہے۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مرویات میں فقاہت کی جھلک
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں آپ کی فقہی اور حدیثی مقام و مرتبہ کا اندازہ ان روایات سے لگایا جا سکتا ہے جو صرف آپ سے منقول ہیں، کیوں کہ عموماً ہر شخص اس فن کی احادیث کو زیادہ یاد رکھتا ہے جس کا وہ ماہر ہو، فقہاء صحابہ سے فقہی روایات ہی زیادہ تر منقول ہوتی ہیں، جیسے عام طور پر اقضیہ کی احادیث میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، فرائض و میراث کی روایات میں زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحلال و حرام کی احادیث میں معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایات کو ترجیح حاصل ہوتی ہے کیوں کہ وہ ان فنون کے ماہر اور خوگر تھے(۱۳) بطورِ مثال تین روایات پیش کی جاتی ہیں۔
۱- مجوس سے جزیہ قبول کرنا
مجوسیوں سے جزیہ قبول کرنے کے سلسلے میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ متردد تھے، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آکر خبر دی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ہجر کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا،یہ حدیث آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا موجودہ لوگوں میں کسی کے پاس نہ تھی، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف آپ کی روایت کی وجہ سے جزیہ قبول کرنے کا فیصلہ کیا، جس سے خبر واحد کی حجیت معلوم ہوتی ہے(۱۴)۔
۲- وبائی علاقوں کے متعلق نبوی ہدایت
18 ہجری میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ہمراہ شام کے سفر پر نکلے، مقام سرغ تک پہنچنے پر خبر ملی کہ شام میں وبا پھیلی ہوئی ہے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اولاً مہاجرینِ اولین سے مشاورت کی، مجلس مشاورت میں اختلاف ہوا، کوئی حتمی فیصلہ نہ ہو سکا، پھر انصار صحابہ سے مشاورت کی، اس میں بھی اختلاف ہوا، اور کسی حتمی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکے، پھر آپ نے قریش کے بڑے سردار جنہوں نے فتح مکہ کے موقع پر ہجرت کی ان سے مسئلہ کا حل دریافت کیا، سب ایک رائے پر متفق ہوئے کہ خود کو وبا میں داخل نہیں کرنا چاہیے اور واپس لوٹ جانا بہتر ہے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے واپس لوٹنے کا فیصلہ سنایا، اس پر ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے استفسار کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں تب آپ نے تاریخی جملہ ارشاد فرمایا تھا:
نعم! نفر من قدر اللّٰہ إلی قدر اللّٰہ․
جی ہاں کہ ہم تقدیر الٰہی سے تقدیر الٰہی کی طرف کوچ کر رہے ہیں۔
اس تمام کارروائی میں حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ شامل نہ تھے، وہ کسی کام سے کہیں گئے ہوئے تھے، اچانک وہ تشریف لائے اور جب انہیں تمام ماجرے کا علم ہوا تو فرمایا ایسے موقع کے لیے تو میرے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرما تے ہوئے سنا:
”إِذَا سَمِعْتُمْ بِہِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوا عَلَیْہِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِہَا فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْہُ“․
کہ جب تم کسی علاقے کے متعلق سنو کہ اس میں وبا ہے، تو وہاں داخل مت ہونا، اور اگر جہاں تم رہ رہے ہو وہاں وبا پھیل جائے، تو بھاگنے کی غرض سے نہ نکلنا ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت خوش ہوئے، شکر ادا کیا اور لوٹ گئے(۱۵)۔
۳- نماز میں بھول جانے کے وقت بنا کرنا
نماز میں تعدادِ رکعات میں اشتباہ اور وہم ہونے کی وجہ سے استئناف کیا جائے یا بنا ، ایک بار حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس مسئلہ کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت اور نبوی رہنمائی دریافت فرمایا، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میرے پاس تو کوئی حدیث نہیں، یہی گفتگو چل رہی تھی کہ سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہاں سے گزر ہوا، تو ان سے مسئلہ کے بارے میں پوچھا گیا، جب آپ نے مسئلہ کے متعلق سنا، تو فرمایا میرے پاس اس مشکل کا حل موجود ہے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا:
”اِذَا صَلَّی أَحَدُکُمْ، فَشَکَّ فِی صَلَاتِہِ، فَإِنْ شَکَّ فِی الْوَاحِدَةِ وَالثِّنْتَیْنِ، فَلْیَجْعَلْہُمَا وَاحِدَةً، وَإِنْ شَکَّ فِی الثِّنْتَیْنِ وَالثَّلَاثِ؛ فَلْیَجْعَلْہُمَا ثِنْتَیْنِ، وَإِنْ شَکَّ فِی الثَّلَاثِ وَالْأَرْبَعِ؛ فَلْیَجْعَلْہُمَا ثَلَاثًا، حَتَّی یَکُونَ الْوَہْمُ فِی الزِّیَادَةِ، ثُمَّ یَسْجُدُ سَجْدَتَیْنِ قَبْلَ أَنْ یُسَلِّمَ، ثُمَّ یُسَلِّمُ“․
جب تم نماز میں ہو اور شک ہو جائے، اگر پہلی اور دوسری رکعت میں شک ہو توپہلی پر بنا کرے، دوسری اور تیسری میں شک ہو تو دوسری پر بنا کرے، تیسری اور چوتھی میں اختلاف ہو تیسری کو اصل بنائے اور پھر سلام سے قبل سجدہ سہو کرے، بعد ازاں سلام کرے۔(۱۶)
یہ تینوں روایات آپ کی فقہی بصیرت اور فقیہانہ مقام ومرتبہ کی عکاسی کرتی ہیں۔
واللّٰہ اعلم بالصواب و علمہ اکمل و أتم․
# # #
مصادر ومراجع
(۱) مسند احمد بن حنبل، مسند الأنصار، حدیث معاذ بن جبل رضی اللّٰہ تعالی عنہ، رقم الحدیث:22033، ج:36، ص:362 مؤسسة الرسالة، 1429ھ․
(۲) صحیح البخاری ، کِتَابُ الدِّیَاتِ 1، بَابُ قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی: وَمَنْ أَحْیَاہَا، رقم الحدیث: 6478، ج:6، ص:2519، دار ابن کثیر، 1410․
(۳) أنظر ترجمتہ: الطبقات لإبن سعد 3/124، ومعرفة الصحابة لأبی نعیم الأصبہانی 1/130، والاستیعاب فی معرفة الأصحاب لإبن عبد البر420، وأسد الغابة 3/362، والاصابة 4/290، الریاض النظرة 583․
(۴) إعلام المؤقعین عن رب العالمین لابن القیم، الفصل من بلغ بعد الرسول، 1/12، دار الجیل، بیروت – لبنان․
(۵) الطبقات لإبن سعد باب ذکر من یفتی بالمدینة و یقتدی بہ، 2/340 بیروت، 1376 ھ․
(۶) تلقیح فہوم اہل الأثر فی عیون التاریخ والسیر لإبن الجوزی، تسمیة من کان یفتی علی عہد رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أصحابہ، ص:321، شرکة دار الأرقم بن أبی الأرقم، 1418․
(۷) الإصابة فی تمییز الصحابة لإبن حجر،رقم ترجمة الصحابی:5195، ج:4، ص:291، دار الکتب العلمیة،1426ھ․
(۸) التراتیب الإداریة للشیخ عبد الحی الکتانی، تحت ذکر المفتین علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، 1/56، دار الإحیاء التراث العربی بیروت، لبنان․
(۹) سنن النسائی، کتاب الطہارة، صفة الوضوء، غسل الکفین رقم الحدیث 82، دار المعرفة 1404ھ․
(۱۰) الطبقات لابن سعد 3/129، بیروت، 1376ھ․
(۱۱) الصحیح لمسلم،کتاب الحدود، باب حد الخمر، رقم الحدیث: 1752، ص:821، دار التأصیل 1439ھ، والمؤطا للإمام مالک، کتاب الحد فی الخمر، رقم الحدیث: 1825، 2/45، مؤسسة الرسالة 1412ھ․
(نوٹ صحیح مسلم کی روایت میں عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور الموطا کی روایت میں علی کرم اللہ وجہ کا ذکر ہے، امام نووی نے دونوں کو جمع کیا ہے ہم نے وہی اختیار کیاہے)
(۱۲) معجم الصغیر للطبرانی رقم الحدیث: 650، 1/388 المکتبة الإسلامیة بیروت، 1405ھ․
(۱۳) التقیید والإیضاح للعراقی، نوع معرفة مختلف الحدیث، ص:226، دار الکتب العلمیة 1420ھ․
(۱۴) السنن لأبی داؤد، کتاب الخراج و الإمارة، باب فی اخذ الجزیة من المجوس، رقم الحدیث:3039، ج:4، ص:392، مؤسسة الریان 1425ھ․
(۱۵) الصحیح للبخاری، کتاب الطب، باب: مایذکر فی الطاعون، رقم الحدیث:5397، ج:5، ص:2164، دار ابن کثیر، 1410․
(۱۶) مسند أحمد بن حنبل، مسند عبد الرحمن بن عوف رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ، 3/194، مؤسسة الرسالة 1429ھ․
—————————————
دارالعلوم ، شمارہ : 3، جلد:106، شعبان المعظم 1443ھ مطابق مارچ 2022ء
٭ ٭ ٭