سوال: کیا اسلام میں خوبصورتی اور فیشن کے لیے جعلی پلکیں پہننے کی اجازت ہے؟

باسمہ تعالیٰ

            الجواب وباللّٰہ التوفیق

            انسانی بالوں کی بنی ہوئی پلکیں لگانا جائز نہیں؛ لیکن اگر مصنوعی یا خنزیر کے علاوہ کسی جانور وغیرہ کے بال ہوں تو شوہر کی خاطر تزئین وآرائش کے لیے مصنوعی پلکیں لگانے کی گنجائش ہے۔

            البتہ وضو کے لیے پلکوں کو نکال کر پانی پہونچانا ضروری ہوگا۔

            محض دکھاوے اور فیشن کے لیے مصنوعی پلکیں لگانا جائز نہیں۔

فقط واللّٰہ تعالیٰ أعلم  کتبہ الاحقر زین الاسلام قاسمی دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۱۱/۳/۱۴۴۳ھالجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، فخرالاسلام مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

=======================

            سوال: آج کل فحاشی اور بے حیائی کا پھیلاؤ روزانہ بڑھتا جارہا ہے نتیجہ میں شادی شدہ مرد اور عورتیں زنا کاری میں مبتلا ہورہے ہیں، بہت سی صورتوں میں عورت حاملہ ہوتی ہے اور خود اقرار واعتراف کرتی ہے کہ یہ حمل زنا سے ہے اور شوہر اس بچہ کے نسب کا انکار بھی کرتا ہے بعد میں جاکر طلاق کی نوبت آجاتی ہے۔

            کتب فقہ اور ہمارے اکابر کے فتاویٰ میں یہ بات دکر کی گئی ہے کہ نسب کا انکار صرف اس وقت ثابت ہوتا ہے جب کہ لعان ہو اور لعان کے لیے شرعی قاضی کی صرورت ہے؛ لہٰذا غیرمسلم ممالک میں شوہر کے انکار اور بیوی کے اقرار کے بعد وہ بچہ ثابت النسب قرار دیا جاتا ہے اور شوہر پر اس کا نفقہ لازم ہوجاتا ہے۔

            سوال یہ ہے کہ کیا نسب کے انکار کی کوئی اور معتبر صورت ہوسکتی ہے؟ خاص کر غیرمسلم ممالک میں۔ بَیِّنُوْا تُوْجَرُوْا․

بندہ: یوسف ملا

ڈربن: جنوبی افریقہ

باسمہ تعالیٰ

            الجواب وباللّٰہ التوفیق

            جب نکاح کے ذریعے شوہر اور بیوی کے درمیان رشتہٴ زوجیت قائم ہوگیا، تو بیوی شوہر کا فراش بن گئی، اسی فراش پر ثبوتِ نسب کا مدار ہے، حدیث میں ہے: الولد للفراش وللعاہر الحجر․ (بخاری۶۷۴۹، مسلم۱۴۵۷) یعنی بچہ صاحب فراش (شوہر) کا ہے اور زانی کے لیے پتھر (بچے سے محرومی) ہے، معلوم ہوا کہ ثبوتِ نسب کا مدار فراش پر ہے اور شوہر وبیوی کے درمیان امکانِ وطی کافی ہے؛ لہٰذا جب تک فراش قائم ہے، بچے کا نسب صاحب فراش سے بہ ہر حال ثابت ہوجائے گا؛ الا یہ کہ انکارِ نسب کی معتبرصورت یعنی لعان وجود میں آئے اور لعان کے لیے دارالاسلام کا ہونا شرط ہے؛ کیوں کہ لعان حد (شوہر کے حق میں حدِ قذف اور بیوی کے حق میں حدزنا) کے قائم مقام ہے اور حدود کا قائم کرنا حاکم مسلمین کی ذمہ داری ہے، پس غیراسلامی ممالک میں لعان کے ممکن نہ ہونے کی صورت میں بچے کا نسب شرعاً شوہر سے ثابت رہے گا، شوہر سے اس کی نفی نہیں کی جاسکتی اور زنا کے احتمال کی طرف توجہ نہیں دی جائے گی؛ کیوں کہ نسب کے سلسلہ میں اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر بیوی زنا کا اقرار کرلے تو بھی بچے کے نسب کی نفی نہیں ہوسکتی؛ اس لیے کہ ثبوتِ نسب بچے کا حق ہے؛ لہٰذا اس کے ابطال میں بیوی یا شوہر کی تصدیق نہیں کی جائے گی۔

            فتاویٰ ہندیہ میں ہے: قال أصحابنا: لثبوت النسب ثلاث مراتب، الأولی: النکاح الصحیح وما ہو في معناہ من النکاح الفاسد، والحکم فیہ أنہ یثبت النسب من غیر دعوة، ولا ینتفي بمجرد النفي، وانما ینتفي باللعان، فان کانا ممن لا لعان بینہما لا ینتفي نسب الولد، کذا فی المحیط․ (۱/۵۸۸، ط: زکریا)

            شامی میں ہے: فمن قذف بصریح الزنا في دارالاسلام الخ (۵/۱۵۱، ط: زکریا) آگے ہے: ولا تحد وان صدقتہ أربعاً، لأنہ لیس باقرار قصدًا، ولا ینتفي نسب الولد، لأنہ حق الولد، فلا یصدقان في ابطالہ الخ (۵/۱۵۴، ط: زکریا) دوسری جگہ ہے: وشرعاً شہادات․․․ موٴکدات بالأیمان․․․ قائمة مقام حد القذف في حقہ، شہاداتہا مقام حد الزنا في حقیا الخ (۵/۱۴۹)

فقط واللّٰہ تعالیٰ أعلم کتبہ الاحقر زین الاسلام قاسمی دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۱۴/۱۱/۱۴۴۱ھالجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، فخرالاسلام مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

=======================

            سوال: ندیم کے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے اور ان کے والد صاحب قادیانی تھے اور اسی ایمان پہ ان کا انتقال ہوا ہے تو کیا ندیم کے لیے والد صاحب کا وراثت لینا صحیح ہوگا؟ ماں اور بچے دونوں ایمان سے اہل سنت ہیں، اوراگر وراثت لینا صحیح نہیں ہے تو پھر وراثت کا کیا کریں؟

باسمہ تعالیٰ

            الجواب وباللّٰہ التوفیق:-

            اگر وہ شخص ابتداء سے ہی قادیانی تھا تو مسلمان ورثہ اس کے وارث نہیں ہوں گے؛ اس لیے کہ مسلمان اور غیرمسلم کے درمیان وراثت جاری نہیں ہوتی، نہ مسلمان غیرمسلم کا وارث ہوتا ہے نہ غیرمسلم مسلمان کا۔ (في الشریفیة: المانع من الارث أربعة: الرق․․․ واختلاف الدینین، فلا یرث الکافر من المسلم اجماعاً ولا المسلم من الکافر علی قول علي وزید بن ثابت وعامة الصحابة – رضوان اللّٰہ علیہم – والیہ ذہب علماوٴنا والشافعي -رحمہم اللّٰہ-، لقولہ -علیہ السلام-: لایتوارث أہل ملتین شتی․ (ص۲۱ مطبوعہ مصر، نیز: امداد الأحکام ۴/۶۱۷، مسئلہ میراث وحکم المیراث من القادیانی وغیرہ)

            اور مرنے والے شخص کا جو ترکہ ہے وہ ”مال فیٴ“ کے حکم میں ہوکر بیت المال میں رکھا جائے گا۔ اور اگر وہ شخص پہلے مسلمان تھا، بعد میں مرتد ہوکر قادیانی بنا (أعاذنا اللّٰہ منہ) تو جو مال حالت اسلام میں اس کی ملکیت میں تھا، یا اس نے کمایا تھا، وہ مسلمان ورثہ کے درمیان شریعت کے مطابق تقسیم ہوگا اور جو مال مرتد ہونے کے بعد اس نے کمایا یا اس کی ملکیت میں آیا وہ ”مال فیٴ“ کے حکم ہوکر بیت المال میں جمع ہوگا۔

            في الشریفیة: اذا مات الرجل المرتد علی ارتدادہ․․․ فما اکتسبہ في حال اسلامہ فہو لورثتہ المسلمین، وما اکتسبہ في حال ردتہ یوضع في بیت المال، ہذا حکمہ عند أبي حنیفة․․․ (چ۲۲۵، فصل في المرتد)

            آج کل چوں کہ بیت المال کا وجود نہیں ہے؛ اس لیے از خود اس مال کو ”مال فیٴ“ کے مصرف یعنی خیر کے کاموں میں صرف کردیا جائے گا۔ (امداد الفتاوی ۹/۶۱۳ جدید، سوال: ۲۷۴۶، امور خیر میں صرف رکنا بیت المال کے قائم مقام ہے)

            البتہ اگر مسلمان وارث غریب (مستحق زکات) ہے تو پھر وہ قادیانی باپ کے چھوڑے ہوئے مال کو لے سکتا ہے۔ غریب ہونے کی وجہ سے وہ بیت المال کا مصرف بن جائے گا۔

            في رد المحتار: مطلب فیمن لہ حق في بیت المال وظفر بشيء من بیت المال: منقل في القنیة عن الامام الوبري أن من لہ حظ في بیت المال ظفر بما لہ وجہ لبیت المال فلہ أن یأخذہ دیانة․ أہ․ ونظمہ في الوہبانیة․ وفي البزازیة: قال الامام الحلوانی: اذا کان عندہ ودیعة فمات المودع بلا وارث لہ أن یصرف الودیعة الی نفسہ في زماننا، لأنہ لو أعطاہا لبیت المال لضاعت لأنہم لا یصرفونہ مصارفہ، فاذا کان من أہلہ صرفہ الی نفسہ والا صرفہ الی المصرف․ (۶/۲۶۵، ط: زکریا، کتاب الجہاد، باب المغنم وقسمتہ)․

فقط واللّٰہ تعالیٰ أعلم کتبہ الاحقر زین الاسلام قاسمی دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۱۹/۱/۱۴۴۳ھالجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، فخرالاسلام مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

=======================

—————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 3،  جلد:106‏،  شعبان المعظم 1443ھ مطابق مارچ 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts