فکرِعجم، زبانِ عرب، روحِ دیوبند (استاذ محترم مولانا نورعالم خلیل امینیؒ) (۱/۳)

بہ قلم: مولانا محمداجمل قاسمی

استاذ تفسیروادب جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد

…قرار آہی گیا

            اپنے البیلے اسلوب نگارش، اچھوتے طرز تحریراورشگفتہ انداز بیان سے جانے والوں کوپس مرگ زندہ وتابندہ بنانے والے زبان وبیان کے بے تاج بادشاہ، صاحب طرز ادیب اورنامورمصنف و اہل قلم، ہمارے انتہائی محسن ومربی استاذ حضرت مولانا نورعالم خلیل امینی چیف ایڈیڑ عربی ماہنامہ الداعی واستاذ عربی ادب دارالعلوم دیوبند ۲۰/رمضان المبارک۱۴۴۲ھ کواپنے مالک حقیقی سے جا ملے، مولانا کی علالت کی خبریں جس انداز سے مل رہی تھیں اندیشے امیدوں پرغالب آتے جارہے تھے، دعائیں جاری تھیں، دل مسلسل انھیں کی طرف لگا ہوتا تھا؛ مگرعلاج و چارہ گر ی کی ساری تدبیریں بالآخر ناکام ہوئیں اور قضا وقدر کا فیصلہ غالب آیا:

بجلی تڑپ کے قصہٴ غم ہی چکا گئی

الجھا ہوا تھا خار وخسِ آشیاں میں میں

            مولانا حد درجہ نفیس مزاج تھے، شوگر نے اس میں نازکی بھی پیدا کردی تھی،مرض کی تکلیف توتھی ہی، مختلف قسم کی نلکیوں کی بندش نے بھی انھیں مسلسل اذیت اوربے قراری میں ڈال رکھا تھا، جزوی طور پر افاقہ کی خبریں بھی ملیں؛ مگر بجائے شفا کے موت پر ہی اس بے قراری کو قرارآیا:

اب کیا ستائیں گی ہمیں دوراں کی گردشیں

لوہم حدودِ سود وزیاں سے نکل گئے

            مولانا کے انتقال کی خبرآپ کے شاگردوں، چاہنے والوں اوروابستگان دارالعلوم پر بجلی بن کر گر ی، اپنا یہ حال رہا کہ کئی دنوں تک وجود پر ایک سکتہ سا طاری رہا، ”نہ سکون نہ قرار“ ایک عجیب اورنا قابل بیان کیفیت ہوگئی، ہائے!کیساعظیم صاحب قلم چلا گیا!! مولاناکی وفات دارالعلوم دیوبند کے ایک عہد کا خاتمہ اورعلم وادب کی دنیا کا ناقابل تلافی نقصان ہے، مگرداستان غم کودراز کرنا، کسی موت پر واویلامچانا اوراس سے ہونے والے نقصان کو سوچ کرحدسے زیادہ پریشان ہونامومن کا شیوہ نہیں، ہمیں تومولائے حکیم کے فیصلے پر تسلیم ورضا کا ثبوت پیش کرنا چاہیے اور کارساز وکریم رب سے اچھی امید رکھنی چاہیے، یہی شان بندگی ہے، اسی میں خیر ہے اوریہی ہمارے لیے باعث اجروثواب ہے؛ اس لیے آئیے اس قصے کویہیں تمام کرتے ہیں اورایک مومن کی زبان سے ان پاکیزہ کلمات کودہراتے ہیں: انا للّٰہ وانا الیہ راجعون، ان للّٰہ ما اخذ، ولہ ما أعطی، وکل شيء عندہ باجل مسمی․

یادیں ان کی

            حضرت مولانا کی سرپرستی اور تربیت میں عمرعزیز کے پانچ بیش قیمت سال گذرے، آپ سے وابستہ یادوں کاایک سیل رواں ہے جس سے ذہن ودماغ میں تلاطم برپاہے،آپ کی رفتار وگفتار، خوشی ومسرت، رنج والم،رضاوغضب اورتدریس وتحر یر کے بے شمار مناظر نگاہوں کے سامنے ہیں، جنھیں اگر قید تحریر میں لانے کی کوشش کی جائے توقصہ مختصر یہ کہ قصے کومختصر نہ کیا جاسکے گا:

وہ آئے کب کے، گئے بھی کب کے، نظرمیں اب بھی سمارہے ہیں

یہ چل رہے ہیں، وہ پھر رہے ہیں، یہ آرہے ہیں،وہ جارہے ہیں

مگر سب نہیں تو کچھ ہی سہی ”مالایُدْرَک کلُّہ لایُتْرَکُ کلُّہ“ آئیے!حضرت مرحوم سے وابستہ خوشگوار یادوں کے کچھ حسین لمحوں کوقید کرتے ہیں اوران کے محاسن وکمالات کے کچھ گوشوں سے پردہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اپنی نظیر آپ

            دارالعلوم دیوبند کی ڈیڑھ سوسالہ تاریخ میں بڑے بڑے اہل علم،اصحاب تحقیق اورعلوم اسلامیہ کی ماہر عبقری شخصیات گذری ہیں جواپنی اپنی جگہ لاثانی اوربے نظیرہیں، حضرت مولانا گرچہ اس دوراخیر میں تھے، مگر اسی قافلے کے پیچھے رہ جانے والے ایک عظیم فرد تھے،مولانا نے خاص عربی زبان وبیان میں جونام ومقام پیدا کیا،وہ ان سے پہلے کسی کے حصے میں نہیں آیا،وہ اپنے میدان کے فرد فرید تھے جن کی انفرادیت تا دیر باقی رہے گی، وہ دارالعلوم کے عظیم سپوت تھے، اس کی عظیم و شاندار تاریخ کی لوح پر وہ سنہرا نقش تھے جسے حرف مکرر یا کسی کا عکس قرارنہیں دیا جاسکتا۔ بلاشبہ دارالعلوم دیوبند اوراس کے نہج پر چلنے والے مدارس میں عربی کوبحیثیت زبان پڑھنے پڑھانے،عربی تقریروتحریر کا ماحول پیداکرنے،اوراس میدان کے لیے افراد سازی میں آپ کے عظیم اورعبقری استاذ حضرت مولانا وحیدالزماں قاسمی کیرانوی رحمة اللہ علیہ کا کوئی ثانی نہیں ہے؛ مگر جہاں تک عربی تحریر وانشاء کا تعلق ہے تواس میدان میں حضرت مولانا نورعالم امینی رحمة اللہ علیہ بے نظیر تھے اور خاص اس باب میں وہ اپنے تمام پیشروؤں سے بہت آگے جاچکے تھے،جس نے بھی حضرت مولانا کوپڑھا ہے وہ اس بات سے اختلاف نہیں کرسکے گا،عیاں را چہ بیاں، مگر موقع سے دعوے کی تائید میں حضرت الاستاذ حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری رحمة اللہ علیہ کی ایک بات یاد آگئی، جسے یہاں نقل کرنا مناسب معلوم ہوتاہے، آپ نے اپنی بعض نجی مجلسوں میں استاذ وشاگرد کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

            ”دارالعلوم میں علامہ بہت ہوئے ہیں، مگر مردم ساز شخصیات کم ہوئی ہیں،مولانا وحیدالزماں کیرانوای انھیں مردم سازشخصیات میں سے ایک تھے اورجہاں تک عربی زبان میں لکھنے کا تعلق ہے تو ہمارے مولانا نورعالم صاحب عربی زبان لکھنے میں اپنے استاذ سے بہت آگے جا چکے ہیں۔“

عربی زبان کے عبقری ادیب واہل قلم

            عربی سے عشق اوروحی الٰہی کی ترجمان اس مبارک زبان کی طویل مزاولت کی وجہ سے مولانا کوعربی زبان وبیان اورانشاء پردازی پر زبردست قدرت حاصل تھی، وہ اس وقت برصغیر میں عربی کے غالباً سب سے ممتاز اہل قلم تھے،وہ کوئی بات لکھنے سے پہلے موڈ بناتے،تیاری کرتے اورجب موڈ بنالیتے، توناشتے،دوا دارو اوردیگر ضروری کاموں سے فارغ ہوکر بیٹھتے، پھرتوآپ کا سبک سیر اورتیز گام اشہب قلم مسلسل اوربے تکان رواں دواں رہتا، مضامین کی زبردست آمد ہوتی، آب رودِ خیال میں الفاظ وتعبیرات کا سیل رواں تھپیڑے مارنے لگتا،نہ رکتے،نہ سوچتے، نہ کاٹ پیٹ کرتے،ایسا محسوس ہوتا جیسے حافظے سے نقل کرتے چلے جارہے ہیں، مولاناکی انشاء میں آبشار کا جلال، سیل رواں کازور،دریا کی روانی،چڑھتے سورج کی تابانی اورقوس قزح کا ہفت رنگی جمال تھا، ان کا اپنا منفرد بیانیہ تھاجس سے وہ جانے پہچانے جاتے تھے، الفاظ کی تراش وخراش ،جملوں کی ترکیب اورتعبیر کی تشکیل میں ان کا مخصوص طرزتھا،جوقاری کے لیے دلچسپ اورلذت بخش ہوتا،ان کی ہر تحریر ادب معلی و حسن بیان کا شاہ کار ہوتی، عموماً جو بھی لکھتے دل سے لکھتے اوردل کھول کرلکھتے؛ مگر جب کسی مسرت بخش واقعے یا دل کوجھنجھوڑدینے والے حادثے سے متاثر ہوکر خامہ فرسائی کرتے،یا کسی محبوب شخصیت کی عقیدت ومحبت میں ڈوب کر لکھتے توتحریر چمک اٹھتی،زبان وبیان کی دل کشی و رعنائی ہر کسی کے لیے قابل رشک بن جاتی اوربزبان غالب# معاملہ یوں ہوتا:

پھر دیکھیے انداز گل افشانی ِگفتار            رکھ دے کوئی پیمانہٴ صہبا مرے آگے

            کئی بار اس کا مشاہدہ ہوا کہ مولانا عربی میں پیغام، خط، دعوت نامہ یا تصدیق وتوصیہ کے انداز کی کوئی تحریر لکھنے بیٹھے،اورقلم کوجوجنبش ہوئی تووہ بقیدوقت، دن اورتاریخ آپ کے دستخط پر ہی جاکر رکا، مگر اس کے باوجود تحریر ہرپہلو سے مکمل، خط نہایت نفیس وپاکیزہ اورسطریں بالکل سیدھی ہوتیں،تحریر جب پوری ہوجاتی توسراٹھاتے، متعلقہ فرد اگرموجود ہوتا تو مسکراتے اوریہ کہتے ہوئے اس کے آگے بڑھا دیتے کہ لیجیے مولانا آپ کا کام ہوگیا۔

کامیاب ترین چیف ایڈیٹر

            مولانا نے عین جوانی میں ماہنامہ الداعی کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی، آپ کا سن پیدائش ۱۹۵۲ئہے، جب کہ دارالعلوم دیوبند میں آپ کا تقررسن ۱۹۸۲ء میں ہوا، اس اعتبار سے اُس وقت کل تیس برس کے تھے، آپ کے پاس کوئی لمبا چوڑا تجربہ نہیں تھااورنہ ساتھ میں تعاون کے لیے کوئی نائب یامعاون ایڈیٹر یا مجلس ادارت، کسی ماہنامہ کی ادارت کتنا مشکل کام ہے اس سے وہی واقف ہے جسے اس کام سے کوئی واسطہ پڑا ہے،مگر جوکام پوری ایک مجلس کا تھا مولانا نے تن تنہااس کا بیڑہ اٹھایا،اپنے کوالداعی کے لیے تج دیا،اورتھوڑے ہی عرصہ اپنی وہبی صلاحیت، غیر معمولی تحریر ی ملکہ،حسن انتظام اوربہترین ومثالی کارکردگی کے ذریعہ الداعی کو ظاہری وباطنی خوبیوں سے اس طرح سنوارا اورنکھارا کہ الداعی کا شمار دنیا کے ممتازوباوقار عربی مجلات میں ہونے لگا۔

خون جگر سے الداعی کی آبیاری

            مولانا جب کسی کام کواپنے ذمہ لیتے تھے تواس کوپوری طرح اوڑھ لیتے،ہروقت ذہنی طور پر اسی میں مشغول رہتے اوراس کوہرپہلو سے جیسا کہ ان کا مزاج تھا معیاری بنانے کے لیے کوشاں رہتے، الداعی ان کی ذمہ داریوں میں سرفہرست تھا؛ اس لیے وہی ان کے فکر ونظراورسعی وعمل کا دائمی محورتھا،الداعی میں لکھنے والے بہت تھوڑے تھے؛ اس لیے پرچے کے پیٹ بھرنے کا تقریباً ستر اسّی فیصد کام مولانا خود کرتے، اس کے لیے عربی جرائد ومجلات اورعالم عرب کی مطبوعات پر نظر رکھتے، مضامین کا انتخاب کرتے،اورخاصا حصہ اپنے قلم سے پرُ کرتے، الداعی میں مولانا کے تین کالم ”کلمة المحرر“، ”کلمة العدد“ اور ”اشراقہ“ تو مستقل تھے، جو آپ پابندی سے لکھتے تھے،اس کے علاوہ ”محلیات“ کا کالم بھی سالہا سال خود لکھتے رہے، کافی بعد میں تخصص فی الادب کے طلبہ سے بھی اس میں تعاون لینے لگے تھے، پھرادھر جب حضرت مولانا عارف جمیل مبارکپوری زید مجدہم پرچے کی ادارت میں بحیثیت معاون شریک ہوئے تویہ کالم ان کے سپرد ہوگیا، ”الفکر الاسلامی“ نامی کالم میں بھی عموماً آپ کا تعریب کردہ کوئی نہ کوئی مضمون ضرورشامل اشاعت ہوتا،اسی طرح ”الی رحمة اللہ“ کا کالم تھا جس میں وفات پانے والے مشاہیر اہل علم اورمعروف شخصیات پرلکھتے رہے، بسااوقات ایک ہی شمارے میں کئی کئی شخصیات پر لکھنا پڑتاتھا، کم ہی شمارے اس کالم سے خالی ہوتے تھے، اس کے علاوہ رپوٹیں اورنئی مطبوعات پر تبصرے وغیرہ کے انداز کی چیزیں بھی وقتا فوقتاً لکھنا ہوتی تھیں۔

            یہ رسالے کی تیاری کا پہلا مرحلہ ہوتا، دوسرامرحلہ اس کی پروف ریڈنگ اورتصحیح کا ہوتا، یہ کام بھی عرصہ دراز تک حضرت خود کرتے رہے،مولانا ہر چیز نہایت عمدہ اورمعیاری اندازکی چاہتے تھے، کسی دوسرے سے کام لینے میں وہ چیز نہیں ہوسکتی جوخود سے کرنے میں ہوتی ہے ؛ اس لیے عرصہٴ دراز تک اس سلسلے میں کسی دوسرے کے تعاون سے دست کش رہے، بعد میں بعض رفقاء کار اورلائق وفائق طلبہ سے بھی اس سلسلے میں جزوی تعاون لینے لگے تھے۔

            آدمی کوسفراوربیماری وغیرہ کے بہت سے عوارض زندگی میں پیش آتے رہتے ہیں،جس کی وجہ سے اس کے بہت سے کام آگے پیچھے ہوجاتے ہیں، مولانا بھی ان سے دوچار ہوتے ؛ مگر پر چے کی تاخیرکوگوارا نہ کرتے اورسوجتن کرکے اسے وقت پر لانے کی پوری کوشش کرتے اورلاتے۔

            اس طرح شبانہ روز کی محنت اورسعی پیہم کے ذریعہ آپ نے پرچے کوترقی دی اوراپنا خون جگر نچوڑ کر اس کی آبیاری کی، کہتے تھے: ”مولانا!میں بہت سی چیزیں آزادرہ کرلکھنا چاہتاہوں؛ مگر مجھے توالداعی کا پیٹ بھرنے سے ہی فرصت نہیں، ایک شمارہ تیارکرو، اگلا سرپر سوار ہوتاہے، اس پرچے نے میرے پاؤں باندھ دئے ہیں، آزادی سے سفرنہیں کرسکتا “ اللہ مولانا کوجزائے خیر عطا فرمائے! واقعہ یہ ہے کہ انھوں نے الداعی کی ادارت کا حق ادا کردیا اوربزبان حال کہہ گئے:(ترمیم کے لیے معذرت)

تیرے جمال کے لیے، تیرے کمال کے لیے

حالت دل کی کہ تھی خراب اورخراب کی گئی

ہرکالم کا رنگ جدا گانہ تھا

            مولانا کے ہر کالم کا اپنا ایک رنگ تھا ”کلمة المحرر“ پرچے کا سب پہلا کالم تھا، جوباریک تحریر میں ایک صفحے پر مشتمل ہوتا،اگر دومہینے کا شمارہ ایک ساتھ ہوتا توعموماً دوصفحے پر مشتمل ہوتا،مولانا نے کسی موقع سے فرمایا تھا:پرچے کا اداریہ چوں کہ طویل ہوتا تھا؛ اس لیے ارادہ ہوا کہ اس کا خلاصہ ایک صفحے میں اس کالم میں پیش کردیا جائے،کچھ دنوں تک ایسا ہی ہوتارہا، مگر بعد میں بیک وقت ایک سے زائد موضوعات پر لکھنے کی ضرورت پیدا ہوتی رہی، اس لیے دونوں کے موضوع الگ رہنے لگے، اس کالم میں عموماً ہندستان یا عالم اسلام میں اسلام اورملت اسلامیہ سے متعلق پیدا ہونی والی صورت حال یا اسی اندازکی کسی خبر یا واقعے پر اظہار خیال کرتے،اس کالم کے جملے نہایت طویل ہوتے، اکثر تین چار پیرا گراف میں اپنی بات کہہ جاتے اورہر پیرا مکمل ایک ہی جملہ ہوتا؛ مگر تحریر کی روانی اوربہاؤ ایسا ہوتاکہ جملہ کی طوالت فہم مراد میں مخل نہ ہوتی ؛ بلکہ اس سے ایک طرح کی ندرت پیدا ہوتی جوقاری کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتی، اس کالم کے بہت سے مضامین اپنے اختصار کے باوجود نہایت موٴثر ہیں۔

            دوسرا کالم ”کلمة العدد“ پرچے کاتفصیلی اداریہ ہوتا، مولانا نے فرمایا:پہلے میں زیادہ تر خالص دینی واسلامی مضامین لکھا کرتا تھا؛ مگر جب امریکا نے عراق پر پہلی بار حملہ کیااور اسلام دشمن طاقتوں نے صرف عراق ہی نہیں؛ بلکہ پورے عالم عرب کے وسائل پر قبضہ کرنے اوراپنے استعماری منصوبوں کوبروئے کار لانے کے لیے ہر محاذ پر سرتوڑ کوششیں شروع کردیں اور ہرطرف سازشوں کے جال بچھادئے،توان حالات نے مجھے جھنجھوڑ کررکھ دیا اورپھر یہی چیزیں میرے اداریوں کا دائمی موضوع بن گئیں۔ اس کے علاوہ مسئلہ فلسطین بھی روز اول سے مولانا کی دلچسپیوں میں سرفہرست رہا،مولانا حالات کا گہرائی سے مطالعہ کرتے، اتارچڑھاؤ پر مکمل نظر رکھتے اورایک ماہر اورباخبر مبصر کی طرح حالات اورتازہ ترین صورت حال کامومنانہ اورجرأ ت مندانہ تجزیہ کرتے،خطروں سے آگاہ کرتے اورمسائل کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتے،اللہ نے انھیں تحریر وانشاء کا جوزبردست ملکہ دے رکھاتھااس سے ان خشک موضوعات میں ایسا رنگ بھرتے اور ایسا دلکش بنادیتے کہ تحریر قاری کواپنی طرف کھینچ لیتی،مولانا چونکہ صحافی اورقلم کار ہونے کے ساتھ دینی غیرت وحمیت سے لبریز شخصیت کے مالک تھے، لہٰذا قاری کوآپ کی تحریروں سے جہاں حالات کا صحیح ادراک ہوتا وہیں غیرت وحمیت کے لاوے بھی اس کے دل میں پھوٹتے۔اس بنیادی موضوع کے علاوہ مختلف حالات اورمحرکات کے تحت دوسرے دینی، علمی، اخلاقی،سیاسی و سماجی موضوعات پر بھی قلم اٹھاتے تھے۔

            مولانا کا تیسرا کالم ”اشراقة“ تھا، جوان کا محبوب اورپسندیدہ کالم تھا، یہ وہ مَرغزار خیال تھا جہاں ملت اسلامیہ کے مسائل اوروقت سے چیلنجز سے نبردآزمائی کے بعد مولانا کا رہوار قلم سیرو تفریح کے لیے نکلتا تھا،اس وادیِ پر بہار میں سنگین سیاسی یا دقیق علمی موضوعات کی کوئی جگہ نہیں تھی، یہاں مولانا اپنے قلبی واردات، زندگی کے مشاہدات وتجربات، روزمرہ کے حالات اورگردوپیش کے ماحول سے ملنے والے قیمتی اورمفید نتائج کوزیرقلم لاتے، اس کالم کو تحریرکرتے ہوئے قلم کی جونیاں اپنے عروج پر ہوتیں،آمد کا تسلسل ہوتا، اسلوب انتہائی شگفتہ اورزورانشاء دیدنی ہوتا،بات سے بات نکالتے،قصہء زلف کودرازسے درازتر کرتے، لکھتے جاتے اورکوثر وتسنیم سے دھلی ہوئی فصیح وبلیغ تعبیرات نوک خامہ سے سرکتی اور پھلستی جاتیں، مولانا کا یہ کالم ادب و انشاء کا زبردست شاہکار تھا۔

            ”الی رحمة اللّٰہ“ کاکالم مولانا کے ساتھ خاص تونہ تھا؛ لیکن اس کی بھی تمام تررونق مولانا کے مضامین سے تھی،مولانا اس کالم میں وفات پانے والی معروف علمی،ادبی، اصلاحی اوربسااوقات سیاسی وسماجی شخصیات پر لکھتے تھے،یہ مضامین گرچہ تاثراتی ہوتے؛مگر اس میں وفات یافتہ شخصیات کے خال وخد،مزاج ومذاق،مہارت واختصاص اورکمالات وخدمات کا بہترین مرقع پیش کیا جاتا، زندگی کے حالات پر بھی مختصراً روشنی ڈالی جاتی،جس کی وجہ سے زیر تذکرہ شخصیت کا مکمل خاکہ سامنے آجاتا،مولانا عُزلت پسند اورگوشہ نشین آدمی تھے، لوگوں سے ملنا ملاناتقریباً نہ کے درجہ میں تھا ؛ لیکن کسی پر قلم اٹھاتے توزیرتذکرہ شخصیت کے بارے میں ان کی معلومات قاری کوچونکادینے والی ہوتیں تھی،غضب کی ژرف نگاہی تھی،ایک دو ملاقات میں وہ آدمی کے مزاج ومذاق کواتنا جان لیتے تھے جوعام آدمی کے لیے مہینوں میں ناممکن تھا۔

            مولانا کے اشراقے پانچ ضخیم جلدوں میں ”من وحی الخاطر“ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں، الداعی میں شاملِ اشاعت مضامین کے اس کے علاوہ چند اور مجموعے بھی منظر عام پر آچکے ہیں ۔

دیگر قلمی سرگرمیاں

            الداعی کے علاوہ دارالعلوم دیوبند کے عربی زبان سے متعلق جوتحریری کام ہوتے تھے، جیسے مراسلت، سپاس نامے اوراس نوعیت کے دوسرے کام وہ بھی مولانا انجام دیتے تھے،اس کے علاوہ مختلف اداروں، پرچوں،اخبارات وافراد کی طرف سے الگ الگ انداز کی تحریروں کے تقاضے ہوتے تھے،مصروفیات واعذار اگر اجازت دیتے توان تقاضوں کوبھی پورا کرنے کی کوشش کرتے۔

            مولانا سیال اورزود نویس قلم کے مالک تھے، آپ نے عربی زبان میں جوعظیم نثری ذخیرہ اپنے پیچھے چھوڑا ہے وہ برصغیر میں شاید ہی کسی صاحب قلم کے حصے میں آیاہوگا۔

(باقی آئندہ)

—————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 3،  جلد:106‏،  شعبان المعظم 1443ھ مطابق مارچ 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts