از: مولانا عبداللطیف قاسمی

جامعہ غیث الہدی بنگلو ر

            دنیا دارالامتحان ہے،جس طرح ایمان سے محروم انسان کو ابتلا وآزمائش میں مبتلاکیا جاتا ہے، اسی طرح صاحبِ ایمان کے لیے بھی ابتلا وآزمائش مقدرہوتی ہے،اسلام کا تصوریہ ہے کہ بیماری اور شفااللہ کی طرف سے ہوتی ہے،فرماں بردار اورنافرماں کی کوئی تخصیص نہیں ہے،حضرات انبیائے کرام بھی بیمارہوئے ہیں،سیدالمرسلین اورامام الانبیاء بھی متعدد مرتبہ بیماری میں مبتلاہوئے ہیں، وفات کے موقع پرتقریباًچودہ دن بیماررہے،بیماری مومن کے لیے امتحان وآزمائش ہے، دنیا میں آزمائشیں بخشش اور مغفرت کے لیے آتی ہیں،حقیقت میں بیماری ایک نعمت ہے،گناہوں کے لیے کفارہ اور رفع درجات کا سبب ہے،بیمارکواللہ اوربندوں سے معافی تلافی اورحقوقی کی ادائیگی کے لیے ایک موقع دیاجاتاہے۔

            حضرت کعب بن مالک فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مومن کی مثال نرم ونازک پودے کی سی ہے، جس کو ہوائیں ادھرسے ادھرجھکاتی رہتی ہیں،منافق کی مثال صنوبرکے درخت کی سی ہے، جس کی جڑیں زمین میں نہایت مضبوط ہوتی ہیں، ہوائیں اس کو اِدھراُھرجھکانہیں سکتیں؛یہاں تک کہ اس کو یکبارگی اکھاڑدیاجاتاہے۔(بخاری،کتاب المرضی،باب کفارة المرض: ۵۶۴۳)

            یعنی مومن کو غفلت سے بیدارکرنے اوراس کی اخروی ترقی کے لیے باربارآزمائشیں آتی رہتی ہیں،منافق اوربے ایمان کو مہلت دی جاتی ہے اوروہ غفلت کی زندگی میں مست ہوتاہے؛یہاں تک کہ اچانک اس کو موت آجاتی ہے،یااس پرکوئی عذاب نازل ہوجاتاہے،جس کی وجہ سے اس کے لیے توبہ،استغفار اورگناہوں سے معافی تلافی کی کوئی صورت با قی نہیں رہتی۔

بیماری اورپریشانی گناہوں کے لیے کفارہ

            حدیث قدسی میں واردہے،حضرت انس فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

            إِنَّ الرَّبَّ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی یَقُولُ:وَعِزَّتِی وَجَلَالِی لَا أُخْرِجُ أَحَدًا مِنَ الدُّنْیَا أُرِید أَغْفِرَ لَہُ حَتَّی أَسْتَوْفِیَ کُلَّ خَطِیئَةٍ فِی عُنُقِہِ بِسَقَمٍ فِی بَدَنِہِ وَإِقْتَارٍ فِی رِزْقِہِ، رَوَاہُ رزین․ (مشکوة المصابیح،کتاب الجنائز،باب عیادة المریض:۱۵۸۵)

            اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں:میری عزت اورجلال کی قسم!میں کسی شخص کو جس کی میں مغفرت کرنا چاہتاہوں، اس کودنیاسے نہیں نکالتا؛یہاں تک کہ بدنی بیماری اوررزق کی تنگی میں مبتلاکرکے اس کی گردن پر موجود گناہوں سے اس بندے کوپاک و صاف نہ کردوں۔

            عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ، وَعَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ: عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا یُصِیبُ المُسْلِمَ، مِنْ نَصَبٍ وَلاَ وَصَبٍ، وَلاَ ہَمٍّ وَلاَ حُزْنٍ وَلاَ أَذًی وَلاَ غَمٍّ، حَتَّی الشَّوْکَةِ یُشَاکُہَا، إِلَّا کَفَّرَ اللَّہُ بِہَا مِنْ خَطَایَاہُ․ (رواہ البخاری،کتاب المرضی:۵۶۴۱)

            حضرت ابوسعیدخدری اورحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہمارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مسلمان کوجو تھکان،بیماری،غم ورنج، کوئی تکلیف اورغم حتی کہ کانٹابھی چبھتاہے،تواللہ تعالیٰ اس تکلیف کی وجہ سے اس کے گناہوں کو معاف فرمادیتے ہیں۔

            عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُصِیبُہُ أَذًی مِنْ مَرَضٍ فَمَا سِوَاہُ إِلَّا حَطَّ اللَّہُ تَعَالَی بِہِ سَیِّئَاتِہِ کَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَةُ وَرَقَہَا․ (رواہ البخاری، کتاب المرضی، باب اشدالناس بلاء:۵۶۴۸)

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام سائب  کے پاس تشریف لے گئے اورفرمایا:کیابات ہے کہ تم لمبی لمبی سانس لے رہی ہو؟انھوں نے کہا:بخارہے،اللہ اس کو نامبارک بنائے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بخارکو برابھلانہ کہو،کیوں کہ بخارانسان کے گناہوں کو اس طرح دورکردیتاہے،جس طرح بھٹی لوہے کی گندگی کو دورکردیتی ہے۔(مسلم،کتاب البروالصلة،باب ثواب الموٴمن:۲۵۷۵)

            حضرت عبداللہ بن مسعود  فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کسی مسلمان کوبیماری،یاکوئی تکلیف پہنچتی ہے،تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس تکلیف اوربیماری کی وجہ سے اس مسلمان کے گناہوں کواس طرح (تیزی سے )گراتے ہیں،جس طرح درخت (موسم خزاں میں )اپنے سوکھے پتوں کو (تیزی سے)گراتاہے،یعنی مسلمان کم وقت میں اپنے تمام گناہوں سے پاک وصاف ہوجاتاہے۔

            ابوالاشعث صنعانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:میں صبح سویرے دمشق کی جامع مسجدپہنچا، میری ملاقات اصحاب ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت شدادبن اوس اورصنابحی رضی اللہ عنہماسے ہوئی،میں نے ان دونوں سے عرض کیا:اللہ تم پررحم کرے،آپ حضرات کہاں جارہے ہیں؟انھوں نے فرمایا:قریب میں ہماراایک بھائی ہے، اس کی عیادت کے لیے ہم جارہے ہیں،تومیں بھی ان کے ساتھ ہوگیا، پھرہم لوگ چلے اوراس بھائی کے پاس پہنچے،ان دونوں صحابہ کرام نے اس مریض سے پوچھا کہ تم نے صبح کیسی کی؟(خیریت سے ہو)اس مریض نے کہا:اللہ کے فضل سے صبح کی،(الحمدللہ خیریت سے ہوں)پھرحضرت شداد نے فرمایا:گناہوں کو مٹانے والی اور معاف کرانے والی چیزوں سے خوش ہوجاؤ،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے کہ آپ نے فرمایا:

            إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ: إِنِّی إِذَا ابْتَلَیْتُ عَبْدًا مِنْ عِبَادِی مُؤْمِنًا، فَحَمِدَنِی عَلَی مَا ابْتَلَیْتُہُ، فَإِنَّہُ یَقُومُ مِنْ مَضْجَعِہِ ذَلِکَ کَیَوْمِ وَلَدَتْہُ أُمُّہُ مِنَ الْخَطَایَا، وَیَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَا قَیَّدْتُ عَبْدِی، وَابْتَلَیْتُہُ، فَأَجْرُوا لَہُ کَمَا کُنْتُمْ تُجْرُونَ لَہُ وَہُوَ صَحِیحٌ․ (مسند احمد، مسند شداد بن اوس :۱۷۱۱۸)

            اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:جب میں اپنے کسی موٴمن بندے کو آزمائش میں مبتلاکرتاہوں اوروہ بندہ آزمائش میں بھی میری حمدوثنابیان کرتاہے(تقدیرپرراضی رہ کر ثواب کی امیدرکھتاہے،صبر کرتاہے،بے صبری،جزع وفزع اورشکوے شکایات سے احتراز کرتاہے) تو وہ اپنی بیماری کے بسترسے(گناہوں سے پاک وصاف ہوکر ) اس طرح اٹھے گا، جیسے اس کی ماں نے اسے آج ہی جنم دیا ہو،اللہ تعالیٰ (فرشتوں سے)فرماتے ہیں:میں نے اپنے بندے کو عمل کرنے سے روک دیاتھا اورآزمائش میں مبتلاکررکھاتھا؛لہٰذااس کے لیے اسی طرح اجرلکھاکرو جس طرح تم اس کی صحت کے زمانے میں اجرلکھاکرتے تھے۔          

بیماری رفعِ درجات کا ذریعہ

            بیماری ایک طرح سے رحمت ہے،اس سے گناہوں کی صفائی ہوتی ہے اور جنت میں درجات بلند ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ بعض بندوں کے لیے آخرت میں بلند مقام کا فیصلہ کرتے ہیں؛مگر ان کے پاس وہ اعمال نہیں ہوتے جن کی وجہ سے وہ اس کے مستحق ہوسکیں؛ اس لیے بسا اوقات بیماریوں اور آزمائشوں میں مبتلا کر کے ان کو اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ آخرت کے اس بلند مقام کے اہل ہوجائیں۔

            محمدبن خالدسلمی اپنے والد سے اوروہ اپنے داداسے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

            إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا سَبَقَتْ لَہُ مِنَ اللَّہِ مَنْزِلَةٌ لَمْ یَبْلُغْہَا بِعَمَلِہِ،ابتلاہ اللہ فِی جسدہ أَوْفِی مَالِہِ أَوْ فِی وَلَدِہِ ثُمَّ صَبَّرَہُ عَلَی ذَلِکَ یُبَلِّغُہُ الْمَنْزِلَةَ الَّتِی سَبَقَتْ لَہُ مِنَ اللّٰہ․ (رَوَاہ وَأَبُودَاوُد،کتاب الجنائز، باب الامراض المکفرة للذنوب:۳۰۹۰)

            اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کے لیے کسی اونچے مقام کا فیصلے فرماتے ہیں،وہ بندہ اس مقام تک اپنے عمل سے پہنچ نہیں پاتا،تو اللہ تعالیٰ اس کو کسی مالی یا بدنی مصیبت وپریشانی میں مبتلاکرتے ہیں، پھراس کو اس مصیبت پر صبرکی توفیق عطافرماتے ہیں؛ یہاں تک کہ اس کو اس مقام تک پہنچا دیتے ہیں جس کا فیصلہ خداکی طر ف سے اس بندے کے لیے ہوا ہے۔

            حدیث مذکورسے معلوم ہوا کہ پریشانیاں اوربیماریاں ہمارے لیے رفعِ درجات کاذریعہ ہیں، بشرط یہ کہ ہم صبروہمت سے کام لیں اورثواب کی امید رکھیں اورخدائی فیصلے اورتقدیرپر راضی رہیں۔

مصائب وامراض پر اجروثواب

            حضرت عبداللہ بن عباس نے حضرت عطابن رباح سے فرمایا:میں تمہیں جنتی عورت نہ دکھاؤں؟، عطا بن ابی رباح نے عرض کیا:ضروردکھائیے، حضرت ابن عباس نے فرمایا:یہ وہ سیاہ فام عورت ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئی اور عرض کیا:مجھ پر مرگی کا دورہ پڑتا ہے اور میرا ستر کھل جاتا ہے، آپ میرے لیے اس مرض سے شفا کی دعا فرمائیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر تم چاہو،تو صبر کرو اور تمہارے لیے جنت ہے، اگر تم چاہو،تو میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ تمہیں اس مرض سے نجات دے دے،اس عورت نے عرض کیا:میں صبر کروں گی، پھراس نے یہ درخواست کی:مرگی کے دورے کے دوران میرا ستر کھل جاتا ہے، آپ بس اتنی دعا فرما دیجیے کہ دورے کے دوران میرا ستر محفوظ رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرمائی۔(رواہ البخاری،کتاب المرضی،باب فضل من یصرع:۵۶۵۲)

            حضرت جابر فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

            یَوَدُّ أَہْلُ الْعَافِیَةِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ حِینَ یُعْطَی أَہْلُ الْبَلَاءِ الثَّوَابَ لَوْ أَنَّ جُلُودَہُمْ کَانَتْ قُرِضَتْ فِی الدُّنْیَا بِالْمَقَارِیضِ․ (رواہ الترمذی، ابواب الزھد:۲۴۰۲)

            دنیا میں عافیت سے رہنے والے قیامت میں جب آزمائش والوں کو دیکھیں کہ ان کو خو ب اجر وثواب دیاجارہاہے،تو وہ لوگ یہ تمنا کریں گے کہ کا ش دنیا میں ان کے جسموں کو قینچیوں سے کاٹ دیاجاتااوران کو بھی اسی طرح اجر وثواب دیاجاتا،جیسے ان آزمائش والوں کو دیاجارہاہے۔

بیماری کے زمانے میں صحت کے زمانے کے اعمال اوران کاثواب

            ایک صحت مندانسان جن کاموں کو کرسکتاہے،بیمارآدمی ان کوانجام دے نہیں سکتا،اللہ تعالیٰ کا انتہائی فضل وکرم ہے کہ موٴمن بندہ کسی عمل کو پابندی اوراہتمام سے کرتاتھا،مرض،سفریا کسی اورعذرکی وجہ سے وہ عمل چھوٹ جائے،تو بھی اس عمل کا جروثواب اس کے لیے لکھاجاتاہے۔

            حضرت عبداللہ بن عمرو  فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب کوئی بندہ کوئی عبادت کرتارہے،پھربیمارہوہوجائے،تواللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتے ہیں:اس بندے کے لیے اس عمل کا ثواب بھی لکھو جوعمل وہ صحت کی حالت میں کیاکرتاتھا؛یہاں تک کہ میں اس کو صحت دے دوں،یا اپنے پاس بلالوں۔(مشکوة المصابیح،کتاب الجنائز،باب عیادة المریض:۱۵۵۹، مسنداحمد مسند عبداللہ بن عمرو:۶۸۹۵)

            حضرت انس  فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب مومن بندہ کسی بیماری میں مبتلاہوتاہے،اللہ تعالیٰ فرشتے سے فرماتے ہیں:ان نیک اعمال کو اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیاکرو جن کو وہ (صحت کے زمانے میں) کیاکرتاتھا،پھراللہ تعالیٰ اس کوشفاوصحت عطافرمادے،تو اس کو گناہوں سے پاک وصاف فرمادیتے ہیں،اگراس کو اپنے پاس بلالیں،تو اس کو معاف فرمادیتے ہیں اور اس پررحم فرماتے ہیں۔ (مشکوة المصابیح،کتاب الجنائز،باب عیادة المریض:۱۵۶۰، مسنداحمد،مسندانس بن مالک:۱۳۵۰۱)

            حضرت شقیق رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:حضرت عبداللہ بن مسعود  بیمارتھے،ہم لوگ عیادت کے لیے حاضرہوئے،حضرت ابن مسعود رونے لگے،ہم نے آپ کو تسلی دی،تو آپ نے فرمایا:میں بیماری سے پریشان ہوکر نہیں رورہاہوں؛اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ بیماری گناہوں کے لیے کفارہ کے ذریعہ ہے؛اس لیے بیماری سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے،میں اس بات پرروہاہوں کہ بیماری کمزوری کے زمانے (بڑھاپے کی عمر جس میں طاقت وقوت مفقود ہونے کی وجہ سے انسان عمل نہیں کرسکتاہے)میں آئی ہے،محنت کے زمانے میں بیماری آتی،تو بیمارہونے سے پہلے جواعمال کرتاتھا،بیماری کے زمانے میں بھی ان اعمال کا اجروثواب لکھاجاتاہے(اس بات پر رورہاہوں)۔(مشکوة المصابیح،کتاب الجنائز،باب عیادة المریض:۱۵۸۶)

بعض بیماروں پرشہادت کی بشارت

            اس بات میں کوئی شک نہیں کہ صحت آدمی کے لیے ہزار نعمت ہے،تمام دینی و معاشرتی خدمات اہل وعیال کی نگرانی، تجارت و کاروبار؛بلکہ دنیا کا کوئی کام ایسا نہیں جس کے لیے صحت کی ضرورت نہ ہو، اسی لیے ہر شخص یہ تمنا کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ صحت مند رہے،؛لیکن بیماری انسان کے ساتھ لگی رہتی ہے،اس سے کوئی مفرنہیں؛بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس شخص میں کوئی خیرنہیں جس کو کبھی بیماری آئی نہیں۔

            لہٰذاایمان والوں کوچاہیے کہ جب حالات سازگار ہوں،خوشی اور شادمانی کے سامان میسر ہوں،مالی وسعت اورتن درستی حاصل،تو بھی وہ اس کو اپنا کمال اور اپنی قوت بازو کا نتیجہ نہ سمجھیں؛بلکہ اس وقت بھی اپنے دل میں اس یقین کو تازہ کریں کہ یہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی بخشش ہے اور وہ جب چاہے اپنی بخشی ہوئی ہر نعمت چھین بھی سکتا ہے؛ اس لیے ہر نعمت پر اس شکرکا کر ادا کریں۔

            جب کوئی دکھ،مصیبت اوربیماری پیش آ جائے، تو وہ مایوسی اور سراسیمگی کا شکار نہ ہوں؛بلکہ ایمانی صبر و ثبات کے ساتھ اس کا استقبال کریں اور دل میں یہ یقین رکھے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، جو ہمارا حکیم اور کریم رب ہے اور وہی ہم کو اس دکھ، مصیبت اوربیماری سے نجات دینے والا ہے۔

            اس دنیا میں تکلیف اور آرام تو سب ہی کے لیے ہے؛ لیکن اس تکلیف اور آرام سے اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرنا یہ صرف اُن اہل ایمان ہی کا حصہ ہے جو چین و آرام اور مسرت و خوشی کی ہر گھڑی میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور جب کسی رنج اور دکھ میں مبتلا کیے جاتے ہیں اور کوئی بیماری اورتنگی ان کو پیش آتی ہے، تو وہ بندگی کی پوری شان کے ساتھ صبر کرتے ہیں۔

             رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بندہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے، اگر اس کو خوشی اور راحت و آرام پہنچے، تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کے لیے خیر ہی خیر ہے، اگر اس کو دکھ اور رنج پہنچتا ہے، تو وہ (اس کو بھی اپنے حکیم و کریم رب کا فیصلہ اور اس کی مشیت یقین کرتے ہوئے )اس پر صبر کرتا ہے اور یہ صبر بھی اس کے لیے سراسر خیر اور موجبِ برکت ہوتا ہے۔ (مسلم،کتاب الزہد والرقاق:۲۹۹۹)

            حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ:جو بندہ کسی جانی یا مالی مصیبت میں مبتلا ہو اور وہ کسی سے اس کا اظہار نہ کرے اور نہ لوگوں سے شکوہ شکایت کرے، تو اللہ تعالیٰ کا ذمہ ہے کہ وہ اس کو بخش دیں گے۔ (مجمع الزوائد،باب فی من صبرعلی العیش الشدید:۱۷۸۷۲)

            صبر کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ اپنی مصیبت اور تکلیف کا کسی کے سامنے اظہار نہ کرے اور ایسے صابروں کے لیے اس حدیث میں مغفرت کا وعدہ کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی بخشش کا ذمہ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان وعدوں پر یقین اور ان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔

صبرایوب علیہ السلام

            حضر ت مولانا سیدشبیراحمدعثمانی  رحمة اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں:

            حضرت ایوب علیہ السلام کو حق تعالیٰ نے دنیا میں ہر طرح سے آسودہ رکھا تھا، کھیت،مویشی، لونڈی، غلام، اولاد صالح اور بیوی مرضی کے موافق عطا کی تھی، حضرت ایوب علیہ السلام بڑے شکر گزار بندے تھے؛لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمائش میں ڈالا، کھیت جل گئے، مویشی مر گئے، اور اولاد اکٹھی دب کر مرگی، دوست اورآشنا الگ ہوگئے،بطورخاص سالہا سال کسی سخت بیماری میں میں مبتلاکیے گئے،اس طویل بیماری کے زمانے کبھی بھی زبان پرایک حرف شکایت نہیں لائے،اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں حضرت ایوب کے صبر کی داددیتے ہوئے ارشادفرمایا:ہم نے ایوب کو صبرکرنے والاپایا،وہ بہت ہی بہترین بندہ تھا اور(میری طرف ) بہت رجو ع کرنے والاتھا،حضرت ایوب علیہ السلام جیسے نعمت میں شاکر تھے،ویسے ہی بلا میں صابررہے،پھر دعا کی أَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ۔(الانبیاء:۸۳) رب کو پکارنا تھا کہ دریائے رحمت امنڈ پڑا۔

            اللہ تعالیٰ نے مری ہوئی اولاد سے دگنی اولاد دی، زمین سے چشمہ نکالا،اسی سے پانی پی کر اور نہاکر تن درست ہوئے،بدن کا سارا روگ جاتا رہا اور جیسا کہ حدیث میں ہے سونے کی ٹڈیاں برسائیں، غرض سب طرح درست کردیا،ایوب علیہ السلام پر یہ مہربانی ہوئی اور تمام بندگی کرنے والوں کے لیے ایک نصیحت اور یادگار قائم ہوگئی کہ جب کسی بندے پر دنیا میں برا وقت آئے،تو ایوب علیہ السلام کی طرح صبرو استقلال دکھلانا اور صرف اپنے پروردگار سے فریاد کرنا چاہیے، حق تعالیٰ اس پر نظر عنایت فرمائے گا۔(مستفاد:ازتفسیرعثمانی،سورة الانبیاء:۸۳)

            حضرت انس  فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

            إِنَّ عِظَمَ الجَزَاءِ مَعَ عِظَمِ البَلَاءِ، وَإِنَّ اللَّہَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلَاہُمْ، فَمَنْ رَضِیَ فَلَہُ الرِّضَا، وَمَنْ سَخِطَ فَلَہُ السَّخَطُ․ (رواہ الترمذی، ابواب الزھد:۲۳۹۶)

            بڑاانعام بڑی آزمائش پرہوتاہے، اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتے ہیں، تو اس کو آزمائش میں مبتلاکرتے ہیں،جو اس کے فیصلے سے راضی ہوتاہے،اللہ اس سے راضی ہوتے ہیں،جو اس کے فیصلے سے ناراض ہوتے ہیں،اللہ ان سے ناراض ہوتے ہیں۔

علاج ومعالجہ اور دعابے صبری نہیں

            اس دنیا میں تکلیف، دکھ اور رنج بھی ہے اور آرام،خوشی اورمسرت بھی،تن درستی اوربیماری بھی ہے اور سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اور اسی کے حکم اور فیصلے سے ہوتا ہے؛ اس لیے ایمان والوں کو چاہیے کہ جب تکلیف،مصیبت پریشانی اورآزمائشیں آئیں،تو صبروہمت سے کام لیں، ظاہری تدابیراختیارکریں،خداکی طرف رجوع کریں اوران مصائب پراجروثواب کی امیدرکھیں،ان شاء اللہ حالات سازگارہوں گے،اس کی بہترین مثال اللہ نے قرآن پاک میں حضرت ایوب علیہ السلام کے واقعے میں بیان فرمائی ہے،یہی ہمارے لیے کافی ہے۔

            مرض کے ازالے کے لیے ظاہری تدابیر اختیارکرنا، علاج ومعالجہ کرنا،ڈاکٹر،طبیب اور تیماردار کواپنی بیماری اور تکلیف بتانا اوردعاکی درخواست کرنا، مریض کا شدت ِمرض کی وجہ سے کراہنا، صبر، تقوی اورتوکل کے خلاف نہیں ہے،نیز اللہ تعالیٰ سے دعاکرنا،اللہ کے سامنے اپنے کمزوری اور عاجزی اوراپنی عبدیت وحاجت مندی کا اظہارکرنا،پریشانی اوربیماری سے شفاطلب کرنا بے صبری نہیں ہے؛بلکہ یہ باتیں اللہ کو بہت پسند اورمحبوب ہیں۔

            اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں:حضرت ایوب علیہ السلام کا تذکرہ کیجیے جب کہ انھوں نے (شدیدمرض میں مبتلاہونے کے بعد)پکارا کہ مجھ کو تکلیف پہنچی ہے اورآپ سب سے زیادہ مہربان ہیں،پس اپنی مہربانی سے میری تکلیف اوربیماری کو دورکردیجیے،ہم نے ان کی دعاقبول کی اورہم نے اپنے فضل سے اورعبادت گزاوں کی عبرت کے لیے ان کو دوبارہ ان کاکنبہ عطافرمایا اوران کے ساتھ ان کے برابر اوربھی اہل،اولاد اورمال ودلت عطاکیا۔

            یہی وجہ ہے کہ محققین نے فرمایاہے:حضرت ایوب علیہ السلام کی مذکورہ دعاتوحید وعبدیت،عجز وانکساری پر مشتمل عجیب جامع دعاہے۔(التفسیرالقیم،الانبیاء:۸۳)

            بے صبری یہ ہے کہ بیمار جزع وفزع کرے،تقدیرپر ناراضگی کااظہارکرے اورمخلوق کے سامنے خالق کی شکایت کرے،خدا،رسول اورشریعت کو برا بھلاکہے،اللہ کی رحمت سے مایوس ہوجائے،مرض کی شدت کی وجہ سے کوئی نامناسب قدم اٹھائے،یہ بے صبری ہے جوممنوع ہے،مسلمان کی شان نہیں ہے،نیز جزع وفزع سے تکلیفیں،مصیبتیں،پریشانیاں اوربیماریاں دورنہیں ہوں گی،دنیا میں ان پریشانیوں میں مبتلارہیں گے اور آخرت میں اجروثواب سے محروم ہوجائیں گے۔

عیادت کی اہمیت

            دین متین جس طرح ہم کوخوشیوں میں دوسروں کا ساتھ دے کر ان کی خوشیاں بڑھانے کی ترغیب دیتا ہے،اسی طرح دوسروں کے درد کو اپنا درد سمجھنے،اس میں شریک ہونے اوراس کے ازالے کی کوشش کرنے کی تلقین کرتاہے،ایک مسلمان کی پہچان یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان بھائی کو بیماری وپریشانی میں مبتلا دیکھ کر اس کے اندر رحم کے جذبات ابھریں اور اس کی مصیبت کا اسے بھی احساس ہو، یقیناایک مسلمان کا دوسروں کی تکلیف کا احساس کرکے دل جوئی اور دل داری کی خاطر اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر عیادت کرنے میں اُس فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم کا عملی اظہار ہوتا ہے کہ جس میں تمام مسلمانوں کوایک جسم کی مانند قرار دیا گیا ہے۔

            عیادت اور مزاج پرسی سے آپسی تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے، ایک دوسرے کے تئیں ہم دردی اورغم خواری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، مریض،اس کے اہل خانہ اور رشتہ داروں کے دل میں عیادت کرنے والے کی محبت پیدا ہوتی ہے اور اتحاد و یگانگت کی ایک اچھی فضا قائم ہوتی ہے،گویا سماجی اور دینی دونوں ضرورتیں اس سے پوری ہوتی ہیں، اگر بیماری کے علم کے باوجود مریض کی عیادت نہ کی جائے اور اس کی طرف بالکل توجہ نہ دی جائے،تو آپس میں عداوت،کدورت اورنفرت اور کم از کم بدگمانی پیدا ہو تی ہے۔

            عیادت مسلمان کا حق ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں:سلام کاجواب دینا، مریض کی عیادت کرنا،جنازے کے ساتھ چلنا،دعوت قبول کرنا اور چھینک کے جواب پر ”یرحمک اللہ“ کہنا۔(رواہ البخاری عن ابی ھریرہ ،کتاب الجنائز،اتباع الجنائز:۱۲۴۰)

            اسلام نے بیمار پُرسی اور تیمارداری کو گناہوں کی بخشش اور درجات کی بلندی کا ذریعہ بتایا ہے،کسی بھی بیمار کی عیادت کو اللہ تعالیٰ کی عیادت کے مترادف بتلایاگیا،اللہ تعالیٰ کی ذات اگرچہ ہر بیماری سے پاک ہے،اُسے کوئی بیماری و تکلیف ہر گز ہرگز لاحق نہیں ہوسکتی؛لیکن عیادت کی فضیلت اجاگرکرنے کے لیے اس طرح کی مثال بیان کی گئی؛چناں چہ حدیثِ قدسی میں ہے۔

            حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:اللہ عزوجل قیامت کے دن فرمائے گا:اے ابن آدم!میں بیمار ہوا،تو نے میری عیادت نہیں کی،وہ کہے گا:اے پروردگار! میں تیری عیادت کیسے کرتا؛حالاں کہ تو رب العالمین ہے،اللہ تعالیٰ فرمائے گا:کیا تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تو نے اس کی عیادت نہیں کی، اگر تو اس کی عیادت کرتا،تو تو مجھے اس کے پاس پالیتا الخ(مسلم،کتاب البروالصلة،باب فضل عیادة المرض:۲۵۶۹)

            مریض دوست ہو،یا دشمن،امیر ہو،یا غریب عیادت کو سنت،اخلاقی فریضہ اورمسلمان کاحق سمجھ کرنا چاہیے،آج عیادت کا دائرہ سمٹ کررہ گیا ہے، معاشرے میں عیادت ایک رسم بن گئی ہے،لوگ اس وجہ سے عیادت کرتے ہیں کہ اگرمیں نے عیادت نہیں کی،تو اس کے گھر والے کیا سمجھیں گے، کوئی مال دار،یا عہدہ دار،یا خاص رشتہ دار ہو، تو اس کی عیادت کی جاتی ہے، اگر کوئی غریب ہے،تو پڑوس میں ہونے کے باوجود ایک مرتبہ بھی مزاج پرسی اور اظہارِ ہم دردی نہیں کی جاتی؛اس لیے کہ اس سے ہمارا کوئی دنیوی مفاد وابستہ نہیں اور نہ آئندہ اس کی کوئی توقع ہے۔ ہائے افسوس !

عیادت کے فضائل

            عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا عَادَ أَخَاہُ الْمُسلم، لم یزل فِی خُرْفَةِ الْجَنَّةِ حَتَّی یَرْجِعَ․ (رَوَاہُ مُسْلِمٌ،کتاب البرواالصلة، باب فضل العیادة:۲۵۶۸)

            حضرت ثوبان  فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی عیادت جاتاہے،تو واپس ہونے تک وہ جنت کے باغات میں ہوتاہے۔

            یعنی عیادت کرنے والاجب سے عیادت کے لیے نکلتاہے،توواپس ہونے تک اس طرح ثواب کو حاصل کرنے میں لگا رہتاہے،جس طرح جنتی جنت کے باغات میں پھل توڑنے میں لگارہتاہے۔(مرقاة المفاتیح،کتاب الجنائز:۱۵۲۷)

            عَنْ ثُوَیْرٍ ہُوَ ابْنُ أَبِی فَاخِتَةَ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: أَخَذَ عَلِیٌّ بِیَدِی، قَالَ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَی الحَسَنِ نَعُودُہُ، فَوَجَدْنَا عِنْدَہُ أَبَا مُوسَی، فَقَالَ عَلِیٌّ: أَعَائِدًا جِئْتَ یَا أَبَا مُوسَی أَمْ زَائِرًا؟ فَقَالَ: لَا بَلْ عَائِدًا، فَقَالَ عَلِیٌّ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَعُودُ مُسْلِمًا غُدْوَةً إِلَّا صَلَّی عَلَیْہِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَکٍ حَتَّی یُمْسِیَ، وَإِنْ عَادَہُ عَشِیَّةً إِلَّا صَلَّی عَلَیْہِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَکٍ حَتَّی یُصْبِحَ، وَکَانَ لَہُ خَرِیفٌ فِی الجَنَّةِ․ (رواہ ابوداؤد والترمذی، أبواب الجنائز، باب ماجاء فی عیادة المریض:۹۶۹)

            حضرت ابوفاختہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:حضرت علی  نے میراہاتھ پکڑا اورفرمایا:میرے ساتھ حسن  کی عیادت کی کے لیے چلو،(ہم حضرت حسن  کے گھرگئے)وہاں حضرت ابوموسیٰ اشعری  موجود تھے، حضرت علینے حضرت ابوموسیٰ اشعری سے پوچھا، ابوموسیٰ!آپ ملاقات کے لیے آئے ہو؟ یا عیادت کی غرض سے آئے ہو؟حضرت ابوموسیٰ اشعرینے عرض کیا:حضرت حسن کی عیادت کی غرض سے حاضرہواہوں،حضرت علی  نے فرمایا:میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا کہ جومسلمان صبح کے وقت کسی مسلمان کی عیادت کرتاہے،شام تک سترہزارفرشتے عیادت کرنے والے کے لیے رحمت کی دعائیں کرتے ہیں،اگرشام کے وقت عیادت کرے،تو صبح تک سترہزارفرشتے عیادت کرنے والے کے لیے رحمت کی دعائیں کرتے ہیں اوراس کے لیے جنت میں ایک باغ تیارکیاجاتاہے۔

            عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ عَادَ مَرِیضًا أَوْ زَارَ أَخًا لَہُ فِی اللَّہِ نَادَاہُ مُنَادٍ أَنْ طِبْتَ وَطَابَ مَمْشَاکَ وَتَبَوَّأْتَ مِنَ الجَنَّةِ مَنْزِلًا․ (رَوَاہُ الترمذی، کتاب البروالصلة، باب ماجاء فی زیارة الاخوان:۲۰۰۸)

            حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جوشخص کسی مریض کی عیادت کرے،یا کسی دینی بھائی سے ملاقات کرے،توآسمان سے ایک فرشتہ اعلان کرتاہے کہ تم نے اچھاکیا،تمہارا(عیادت وملاقات کے لیے) چلنا مبارک ہے اورتم نے(عیادت کرکے) جنت میں اپنے لیے ٹھکانہ بنالیا۔

            علامہ طیبی شارح مشکوٰة تحریرفرماتے ہیں:اس روایت میں عیادت کرنے والے کے لیے تین دعائیں دی گئیں ہیں،یہ جملے خبریہ نہیں؛بلکہ دعائیہ ہیں،پھرحدیث کا ترجمہ یوں گا:تیرابھلاہو(دنیا وآخرت میں)، تو آخرت کے راستے پر (برائیوں سے بچتے ہوئے) بھلائی کے ساتھ چلے اور تیرا ٹھکانہ جنت بنے،گویا اس روایت میں عیادت کرنے والے کے لیے دنیا وآخرت کی بھلائی،نیکیوں کی توفیق کی اورحصول جنت کی دعائیں دی گئیں ہیں۔(مرقات:۱۵۷۵)

            عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ -رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ- قَالَ: عَادَنِی النَّبِیُّ مِنْ وَجَعٍ کَانَ بِعَیْنِی․ (أَبُودَاوُدَ، کتاب الجنائز، باب العیادة من الرمد:۳۱۰۲)

            حضرت زیدبن ارقم  فرماتے ہیں:میں آشوبِ چشم کے مرض میں مبتلاتھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری عیادت کے لیے تشریف لے آئے۔

            اس حدیث پاک سے معلوم ہواکہ مرض بظاہر چھوٹا اورمعمولی ہو،تب بھی مسلمان کی ہم دردی اوردل داری کے لیے عیادت مستحب ہے،اس پربھی عیادت کرنے والے کو اجروثواب ملے گا۔ (مرقةالمفاتیح:۱۵۵۱)

عیادت کا شرعی حکم

            اسلا م میں عیاد ت کو بڑی اہمیت حاصل ہے،اس بناپر بعض فقہاء نے عیادت کو واجب قرار دیا ہے، امام بخاری کا رجحان بھی یہی ہے، علّامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:عیادت کا حکم اصلاً مستحب ہے، بعض اوقات بعض لوگوں پرواجب ہوتاہے۔(فتح الباری،کتاب المرضی،باب وجوب عیادة المریض:۵۶۴۹)عیادت کا واجب یامستحب ہونا حالات پرموقوف ہے،اگرمریض کے متعدد تیماردار موجودہوں،تومستحب ہے،کوئی دیکھ ریکھ کرنے والانہ ہو،توواجب ہے،علامہ بغوی  نے یہی بات کہی ہے۔(قامو س الفقہ:۴/۴۱۸)

            ایک مسلمان کا فرض ہے کہ مریض کے ساتھ ہم دردی اورغم خواری کرے، اس کے احوال پوچھے اور جہاں تک ہوسکے،اس کا تعاون کرے، اسی کو عربی زبان میں عیادت کہا جاتا ہے،عیادت کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ بیمار کی مزاج پرسی کی جائے،یا تیمار داروں سے اس کے احوال معلوم کرلیے جائیں، عیادت کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ مریض کے ساتھ مکمل غم خواری کی جائے،یعنی بیمار کے پاس پیسے کی کمی ہے اور اللہ نے وسعت دی ہے،تو پیسوں کے ذریعے اس کا تعاون کریں؛تا کہ صحیح علاج کیا جاسکے، اگر خدمت کی ضرورت ہو،تو خدمت کی جائے،صحیح ڈاکٹر کی رہنمائی کی جائے، اپنے علم کے اعتبار سے صحیح اورمفید مشورے دئیے جائیں۔

            تیمارداروں (اورمریض کے رشتہ داروں)پرلازم ہے کہ وہ اپنی وسعت ومالی استطاعت کے موافق مریض کی خدمت،اس کا علاج اوراس کی ضروریات کی تکمیل کریں،شریعت ہمیں بتاتی ہے کہ مریض بوجھ نہیں؛بلکہ سببِ رحمت ہے،اس کی خدمت اورتیمارداری اجروثواب کے حصول کا ذریعہ ہے۔(اسلامک فقہ اکیڈمی کے فیصلے:۲۹)

عیادت کا طریقہ اور آداب

            (۱) جب عیادت کے لیے جائے،تو باوضو جائے۔

            (۲) اللہ کی رضا اورثواب کی نیت سے عیادت کی جائے،جاہ ومنصب،مال ومنال کی رعایت، یا ترک ِعیادت پر ملامت سے بچنے کی غرض سے عیادت نہ کی جائے۔

            حضر ت انس فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:جوشخص وضوکرے،اچھا وضوکرے اوراپنے مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے (کسی دنیوی غرض سے نہ جائے؛بلکہ محض رضائے الٰہی اور)،ثواب کی نیت سے جائے،تواللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے ساٹھ سال کی مسافت کے بقدردورکردیتے ہیں۔(ابوداؤد،کتاب الجنائز،باب فی فضل العیادة علی الوضوء:۳۰۹۷)

            (۳) مریض کے سامنے اس کو خوش کرنے والی باتیں کی جائیں، ایسی باتیں نہ کی جائیں جو اس کے دل کو تکلیف پہنچانے والی ہوں، یا اس کے فکر و اندیشے میں اضافہ کرنے والی ہوں، مریض کو تسلی دے اورکہے ان شاء اللہ ٹھیک ہوجاؤگے،کوئی بڑی بات نہیں ہے، رسول اللہ علیہ وسلم جب کسی مریض کی عیادت کے لیے جاتے،تومندرجہ ذیل کلمات سے تسلی دیتے تھے۔

            لاَ بَأْسَ، طَہُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّہُ․ (رواہ البخاری عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،کتاب المرضی، باب عیادة الاعراب:۵۶۵۶)

            کوئی تکلیف یا گھبراہٹ کی بات نہیں ہے؛ اس لیے کہ بیماری گناہوں کی صفائی وستھرائی کا ذریعہ ہے،ان شاء اللہ (بہترہی ہوگا)

            (۴) مریض کو صحت وتن درستی اورزندگی کی امیددلائے،مریض کو ناامیدبنانے والی گفتگوسے احتراز کرے۔

            حضرت ابوسعیدخدری  فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب تم بیمارکے پاس جاؤ،تو اس سے عمرکی درازی اور لمبی زندگیکی بات کرو، عمری درازی کی بات سے اس کی عمر لمبی اور بیماری دورنہیں ہوجائے گی؛لیکن بیمار خوش اورمطمئن ہوجائے گا۔ (رواہ الترمذی،ابواب الطب:۲۰۸۳)

            (۵) مریض کیسریا بدن کے جس حصے پر تکلیف ہو،اس جگہ داہناہاتھ پھیرے،احایث میں بے شمار دعائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں، انھیں پڑھ کر دم کرے،ذیل میں چند دعائیں ذکرکی جاتی ہیں،موقع ومحل کی رعایت سے ان کو پڑھ کرمریض پر دم کرے۔

            حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جومسلمان کسی ایسے مریض(کسی بھی قسم کا مرض ہو)کی عیادت کرے جس کی موت کا وقت قریب نہ آیا ہو،تین مرتبہ بسم اللہ پڑھے، پھر سات مرتبہ مندرجہ ذیل دعاپڑھ کراللہ تعالیٰ سے شفا دعاکرے،تواللہ تعالیٰ اس مریض کو ضرور شفاعطافرماتے ہیں:

            أَسْأَلُ اللَّہَ العَظِیمَ رَبَّ العَرْشِ العَظِیمِ أَنْ یَشْفِیَکَ․(رواہ الترمذی، ابواب الطب:۲۰۸۳)

            حضرت عائشہ فرماتی ہیں:جب ہم میں سے کوئی آدمی بیمارہوتا،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا داہناہاتھ (بدن کے اس حصے پر) پھیرتے، (جس جگہ تکلیف اورمرض ہے) پھرمندرجہ ذیل دعا پڑھتے (جوکسی بھی قسم کے مریض کے لیے پڑھی جاسکتی ہے )

            اللَّہُمَّ رَبَّ النَّاسِ أَذْہِبِ البَاسَ، اشْفِہِ وأَنْتَ الشَّافِی، لاَ شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُکَ، شِفَاءً لاَ یُغَادِرُ سَقَمًا․(رواہ البخاری، کتاب الطب، باب رقیة النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:۵۷۴۳)

            اے اللہ!اے لوگوں کے پروردگار! تکلیف اورمرض کو دورفرما،اس مریض کو شفانصیب فرما،آپ ہی شفاعطافرمانے والے ہیں، ایسی شفانصیب فرماجوکسی بیماری کو باقی نہ چھوڑے،سب کو دور کرے۔

            حضرت ابوسعیدخدری  فرماتے ہیں:جبریل امین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورعرض کیا:اے محمد! تم بیمارہو ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں میری طبیعت خراب ہے، پھرجبرئیل امین علیہ السلام نے مندرجہ ذیل دعا (جونظربد اوربرے اثرات کے لیے نہایت مفیدومجرب ہے) پڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دم کیا۔ (رواہ مسلم،کتاب الآداب، باب الطب والمرض:۲۱۸۶)

            بِاسْمِ اللّٰہِ أَرْقِیکَ، مِنْ کُلِّ شَیْءٍ یُؤْذِیکَ، مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَیْنِ حَاسِدٍ، اللّٰہُ یَشْفِیکَ بِاسْمِ اللّٰہِ أَرْقِیکَ․

            اللہ کے نام سے تم پر دم کرتاہوں، ہرچیز کے شرسے جوتمہیں تکلیف پہنچائے،ہرنفس کے شر اور حاسد کی نظربد سے،اللہ تمہیں شفاعطافرمائے،اللہ کے نام سے تم پر دم کرتاہوں۔

            حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرات حسنین کو (نظربداور انسانی وغیرانسانی اذیتوں سے حفاظت کے لیے)

            مندرجہ ذیل کلمات سے دم کیاکرتے تھے اورفرماتے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اپنے بچے حضرت اسحاق اوراسماعیل علیہما السلام کو ان کلمات سے دم کیاکرتے تھے۔

            أُعِیذُکُمَا بِکَلِمَاتِ اللَّہِ التَّامَّةِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَہَامَّةٍ، وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّةٍ، وَیَقُولُ: ہَکَذَا کَانَ إِبْرَاہِیمُ یُعَوِّذُ إِسْحَاقَ وَإِسْمَاعِیلَ․(رواہ الترمذی، ابواب الطب، باب مَا جَاء فی الرقْیة من العیْن:۲۰۶۰)

            میں اللہ تعالی کے کلمات تامہ(اس کے اسمائے حسنی اوراس کی نازل کردہ کتب) کے توسط سے شیطان مردود،ہرقسم کے زہریلے جانور اورہرملامت کرنے والی آنکھ (جو نظربد کا سبب ہوتی ہے) سے تمہیں اللہ کی پناہ میں دیتاہوں۔

            (۶) مریض کے پاس زیادہ دیرنہیں ٹہرنا چاہیے۔

            بعض مرتبہ مریض کو آرام یا بعض خاص ضروریات کی تکمیل کا تقاضا ہوتا ہے، بیمار اور تیماردار مہمان کے واپس ہونے کے انتظار میں رہتے ہیں،زبان سے کہہ نہیں سکتے،جس کی وجہ سے ان لوگوں کی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے،اس لیے مریض اورتیمارداروں سے چند تسلی کے کلمات کہہ کرچلے آنا چاہیے؛ البتہ اگر مریض خود خواہش مند ہو اور اہل خانہ کو بھی کوئی زحمت نہ ہو تو دیر تک بیٹھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

            (۷) مریض کے پاش شوروشغب نہیں کرنا چاہیے؛ اس لیے کہ شوروشغب سے مریض کو بھی اذیت ہوتی ہے اورتیمارداروں کو بھی برالگتاہے۔

            حضرت انس فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: العیادةُ فواقَ ناقةٍ۔ (مشکوٰة، کتاب الجنائز،باب عیاة المریض:۱۵۹۰)

            عیادت دودھ دوہنے کے وقت کے بقدر ہونی چاہیے، حضرت سعید المسیب  سے مرسلاًمروی ہے: سب سے جلد واپسی والی عیادت سب سے افضل ہے۔

            حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:عیادت میں سنت یہ ہے کہ مریض کے پاس کم وقت ٹہرا جائے اور شورشرابہ نہ کیاجائے۔

            مریض کو سکون اور خاموشی کا ماحول اچھا لگتا ہے، شور و غل سے تکلیف اور الجھن محسوس ہو تی ہے؛ اس لیے عیادت کرنے والوں اور تیمار داروں کو غیر ضروری بات چیت سے احتراز کرنا چاہیے۔

            عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مِنَ السُّنَّةِ تَخْفِیفُ الْجُلُوسِ، وَقِلَّةُ الصَّخَبِ فِی الْعِیَادَةِ عِنْدَ الْمَرِیضِ․ رَوَاہُ رَزِینٌ․ (مشکوة المصابیح،کتاب الجنائز:۱۵۸۹)

            اگرکوئی شخص ایسا ہوکہ مریض کو اس کے قریب رہنے سے خوشی حاصل ہوتی ہو،راحت ملتی ہو، یاکوئی ایسی شخصیت ہوجس سے حصول ِبرکت کی امیدہو،توان لوگوں کے مریض کے پاس دیرتک رہنا جائز ہے۔(مرقاة المفاتیح،کتاب الجنائز،باب عیاة المریض:۱۵۹۰)

            (۸) مریض کسی کھانے پینے کی چیز کی خواہش کرے اور وہ چیز اس کی صحت کے لیے نقصان دہ نہ ہو،تو وہ چیز مریض کے لیے فراہم کرنا چاہیے۔

            حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، اس بیمارسے فرمایا:کیاکھاناچاہتے ہو؟بیمارشخص نے کہا:گیہوں کی روٹی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس کے پاس گیہوں کی روٹی ہو، وہ اس مریض کے پاس بھیج دے، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:جب کوئی مریض کسی چیز کے کھانے کی خواہش کرے،تو اس کو وہ چیز کھلادے۔(ابن ماجہ،کتاب الطب،باب المریض یشتھی الشيء:۳۴۴۰)

            (۹)جب عیادت کے لیے جائے،تومریض سے دعاکی درخواست کرنی چاہیے؛اس لیے کہ مریض کی دعاقبول ہوتی ہے۔

            حضرت عمربن خطاب فرماتے ہیں:جب تم کسی مریض کے پاس جاؤ،تو اس سے دعاکی درخواست کرو؛ اس لیے کہ مریض کی دعا(قبولیت میں )ملائکہ کے دعاکی طرح ہوتی ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الطب، باب المریض یشتھی الشیء:۳۴۴۱)

            (۱۰)عیادت کے لیے مناسب وقت میں جائے؛کیوں کہ بعض اوقات مریض اور تیماردار کے آرام اور ضروریات ک ہوتاہے؛اس لیے ان چیزوں کالحاظ رکھنا چاہیے۔(فتح الباری،کتاب المرضی،باب وجوب عیادة المریض:۵۶۴۹)

غیرمسلم کی عیادت

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں اورعورتوں یہاں تک کہ غیرمسلموں کی عیادت کے لیے بھی تشریف لے جاتے تھے؛اس لیے کہ انسانیت کی بنیاد پر وہ بھی ہمدردی کے مستحق ہیں، ایک مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کی عیادت کرناتو اسلامی حق ہے؛مگر اس سے آگے بڑھ کر انسانیت کی بنیاد پربلاتفریقِ مذہب و ملت غیرمسلم برادرانِ وطن کی مزاج پرسی بھی اجر و ثواب سے خالی نہیں، اگراس میں تبلیغِ اسلام کی نیت کرلی جائے،تو پھرنور علی نور۔اس کے بہتر اورمفید نتائج سامنے آتے ہیں۔

            ایک یہودی لڑکارسول اللهﷺکی خدمت کیاکرتاتھا،وہ بیمارہوگیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس یہودی لڑکے کی خبر گیری اور عیادت کے لیے تشریف لے گئے،اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور اس کو اسلام کی دعوت دی اورفرمایا:اسلام قبول کرلو، (اس کا باپ بھی وہیں بیٹھا ہوا تھا)وہ یہودی لڑکا اپنے باپ کودیکھنے لگا،باپ نے کہا:بیٹا ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان لے،بیٹے نے فوراًکلمہ پڑھا، اورانتقال کرگیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الحمد للّٰہ الذی انقذہ من النار۔تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں،جس نے اس بچے کو جہنم سے بچالیا۔(رواہ البخاری عن انس،کتاب الجنائز،باب اذااسلم الصبی،فمات:۱۳۵۶)

————————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ1۔2،  جلد: 106 ‏، جمادی الثانی۔رجب المرجب 1443ھ مطابق جنوری۔فروری 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts